Tuesday, 6 January 2015

مصحف فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی حقیقت کیا ہے؟

روایات اہل بیت علیہم السلام میں مصحف کا نام آیا ہے جو کہ حضر ت زہر ا سلام اللہ علیہا سے منسوب ہے : بطور نمو نہ ”محمد بن مسلم امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ:حضرت فاطمہ (س) نے اپنے بعد ایک مصحف چھو ڑا ہے جو کہ قرآن نہیں ہے :شیعوں کے منابع حدیث میں اس طرح کی روایتوں کا وجو د باعث بنا کہ بعض غرض مند اور نادان لو گ شیعوں پر یہ الزام لگا ئیں کہ ان کے پاس اس قرآ ن کے علاوہ بھی جو کہ مسلمانوں کے درمیان رائج ہے کوئی دوسرا قرآن ہے۔اس لئے کہ لفظ مصحف قرآن کریم کے لئے مخصوص ہے اور مصحف فاطمہ کا مطلب ہوا:فاطمہ کا قرآن بعض دوسری روایتوں میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ وہ ”مصحف فاطمہ “تمہارے قرآن کے مانند اور اس کے تین گنا ہے لہذا کہتے ہیں کہ :شیعوں کا اعتقاد یہ ہے کہ مو جو دہ قرآن اصل قرآن نہیں ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ حذف ہو گیا ہے : لیکن در اصل کہنے والوں نے احادیث پر مجمو عی طور سے تو جہ نہیں کیا ہے اس لئے کہ خو د اہل بیت علیہم السلام ”مصحف فاطمہ “ کی روایتوں کے ذیل میں اس نکتہ پر روشنی ڈال چکے ہیں کہ یہ مصحف قرآن نہیں ہے اور یہاں تک کہ آیت بھی قرآن کی اس میں شامل نہیں ہے : لیکن بہر حال اس غلط نتیجہ گیری کے باو جود ،اس کے علا وہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ مختصر طور پرحقیقت مطلب پر روشنی ڈالی جائے۔
مصحف کامعنی
مصحف کا معنی لغت میں ہے ایک کا غذپرلکھی ہو ئی چیزوں کا مجمو عہ یا کئی اوراق کا مجمو عہ جو کہ ایک جلدکی شکل میں ہوں۔جو ہر ی لکھتے ہےں : ”المصحف ہو الجامع للصحف ا لمکتو بة بین الد فتین“ مصحف اسے کہتے ہیں کہ جو مکتوبات اور تحریروں کا مجمو عہ جسے بین دفتین رکھ دیا گیا ہو/\نتیجہ یہ کہ لغت عرب میں مصحف کلی طور پر جلد شدہ کتاب کو کہا جاتا ہے اور صرف قرآن کے لئے مخصوص نہیں ہے ۔(۱)
مصحف کا لفظ نزول قرآن کے بعد

بیشک مصحف کا لفظ نزول قرآن کے بعد بہت زیادہ استعمال ہو ا ہے اسی لئے قرآن کے لئے مشہور ہو گیا ہے ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا لغوی معنی ختم ہو چکا ہے ،بلکہ یہ لفظ دوسرے معنوں میں بھی ،قرآن کے علاوہ استعمال ہو ا ہے ۔
لفظ مصحف قرآن اور احا دیث میں
قرآن دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ لفظ مصحف خود قرآن کے معنی میں استعمال نہیں ہو ا ہے ،جب کہ قرآن کے لئے بہت سے نام ہیں اور بعض نے پچاس تک گنایا ہے ،احادیث میں بھی دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ﷺنے لفظ مصحف کو علم ”نام“ کے عنوان سے قرآن کے لئے استعمال نہیں کیاہے۔تاریخ میں ہے کہ سب سے پہلی مرتبہ جب یہ لفظ خدا کی کتاب کے لئے استعمال ہو اہے تو وہ خلافت ابو بکر کے دور میں تھا۔سیوطی نقل کرتے ہےں کہ ”لما جمع ابو بکر القرآن قال سموہ فقال بعضہم :سمو ہ انجیلا فکر ہوہ ،و قال بعضہم : سموہ السفر فکر ہو ہ من یہو د ۔فقال ابن مسعود: رایت بالحبشہ کتابا ید عونہ المصحف فسموہ بہ“جب ابو بکر نے قرآن کی جمع آوری کیا تو اس نے حکم دیا کہ اس کا نام رکھا جائے :بعض نے اس کا نام انجیل رکھا لیکن اس نا م کو نا پسند کیا گیا ۔دوسرے گروہ نے اس کا نام ”سفر“رکھا پھر بھی یہو دیوں کی وجہ سے اسے بھی نا پسند کیا گیا لیکن ابن مسعود نے کہا : میں نے حبشہ میں ایک کتاب دیکھی ہے جسے مصحف کہتے تھے ،پھر قرآن کا نام ”مصحف “رکھا گیا ۔ڈاکٹر امتیاز احمد کتاب (دلائل التو ثیق المبکر للسنۃو الحد یث)میں لکھتے ہیں کہ ”لفظ مصحف صرف قرآن کے لئے استعما ل نہیں ہو ا ہے بلکہ بہت سی جگہوں پر ہے کہ کتاب کے معنی میںاستعمال ہو ا ہے کہ اس کے بعد وہ اس بات کے ثبوت میں کئی دلیلیں پیش کرتے ہیں :ڈاکٹر نا صر الدین اسد لکھتے ہیں کہ بہت مقامات پر جمع کئے گئے نو شتوں کے لئے لفظ مصحف استعمال کیا گیا ہے جس میں عام طور پر مقصود کتاب ہے صرف قرآن ہی نہیں“۳۔۔استاد بکر بن عبد اللہ کتاب ”معرفۃ النسخ و الصحیفۃ الحدیثیۃ “ میں لکھتے ہیں ”لفظ مصحف ان اصطلا حوں کے گروہ میں شامل ہے جو ان نو شتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں سنت تدوین کی گئی ہو “
مصحف لسان تابعین میں

جس طرح لفظ مصحف صحابہ کی زبان میں غیر قرآن کے لئے استعمال ہو ا ہے اسی طرح ۔زبان تا بعین میں بھی استعمال ہو ا ہے۔ سیر ین نقل کرتے ہیں ”پیغمبر اکرم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے قسم کھایا تھا کہ ردا نہیں اوڑھیں گے مگر جمعہ کے دن : یہاں تک کہ قرآن کو ایک مصحف میں جمع کرلیں ۔ربیع بن مہران سے بھی نقل ہوا ہے کہ اس نے کہاہے کہ ابی بکر کی خلافت میں مسلمانوں نے قرآن کو ایک مصحف میں جمع کرلیاتھا۔
مصحف فا طمہ (س) کا لکھنے والا کون ؟
مجموع روا یات سے پتہ چلتا ہے کہ مصحف فاطمہ(س)کے کا تب اور لکھنے والے ۱۔حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے۔۲حماد بن عثمان نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے مصحف فاطمہ کے بارے میں سوال کیا حضرت نے جواب میں فرمایا کہ امیر المو منین علی علیہ السلام حضرت فاطمہ علیہا السلام سے جو سنتے تھے اسے لکھتے جا تے تھے یہاں تک کہ وہ ایک مصحف کی شکل میں تیا ر ہو گیا۔ابو عبیدہ بھی امام صادق سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا علی علیہ السلام اسے لکھتے جاتے تھے اور یہ وہی مصحف فاطمیہ (س)ہے۔۳علی بن ابی حمزہ امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا ہمارے پاس مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلامکی تحریر ہے۔
املا ء کرنے والا کون ہے؟
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ املا ء کرنے والا خدا ہے ۔ ابو بصیر امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا بیشک ہمارے پاس مصحف فاطمہ (س)ہے اور کس چیز نے ان کو مصحف فاطمہ سے آگاہ کیا ہے؟بیشک وہ ایک نو شتہ ہے کہ جسے خدا نے املا ء کیا ہے اور ان حضرت کو وحی کیا ہے ۔۴بعض روایات میں آیا ہے کہ املا ء کرنے والا فرشتہ تھا۔۵اس کے علاوہ بعض دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ املاء کرنے والے جبرئیل تھے ۔ روایات کے ایک دستہ میں املاء کرنے والے رسول خدا کو معرفی کیا گیاہے۔ان روایات کے جمع کرنے کے بعد یہ معنی حاصل ہو تا ہے کہ خدا نے اسے اپنے عام یاخاص فر شتے کے ذریعہ پیغمبر اکرم ﷺ تک پہنچایا ہے اور پیغمبر نے بھی اس کو حضرت زہرا (س) کے لئے قرائت کیا ہے اور امیر المو منین علیہ السلام نے اسے لکھا ہے اور اس کا ایک حصہ جبرئیل کے ذریعہ مستقیما حضرت زہرا (س)پر نازل ہو اہے۔ اس کے باوجود کہ اس کی کتابت حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے ہاتھوں ہو ئی ہے لیکن اس کے حضرت فاطمہ (س) کے انتساب کا راز یہ ہے کہ مصحف کے مطالب کا الہام اور اس کی محا فظت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے کی ہے ۔
مصحف فاطمہ کا مضمو ن

دو با تیں جو قطعی طور پر مصحف فاطمہ کے بارے میں نفی کی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔قرآن :
بہت سی روایات جن میں مصحف فاطمہ(س)کا تذکرہ ہو اہے،ان میں صریحی طور پر اس نکتے کو بیان کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ قرآن نہیں ہے بلکہ قرآن کی ایک آیت بھی اس میں نہیں آئی ہے محمد بن مسلم ،امام صادق سے نقل فرماتے ہیں حضرت فاطمہ نے ایک مصحف چھوڑا ہے جو کہ قرآن نہیں ہے علی ابن ابی حمزہ عبد صا لح حضرت امام مو سی کا ظم علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا مصحف فاطمہ ہمارے پاس ہے جس میں ایک آیت بھی قرآن کی آیتوں میں سے نہیں ہے ۴۔
۲۔احکام شرع :
صرف یہ نہیں ہے کہ مصحف فاطمہ (س)میں قرآنی آیتیں نہیں ہیں ،بلکہ یہ مصحف ہر قسم کے احکام حرام وحلال سے بھی خالی ہے امام صادق علیہ السلامنے فرمایا ہے کہ ”جان لو کہ مصحف فاطمہ (س)میں کوئی حکم حلال و حرام کا نہیں ہے ۔
مصحف فاطمہ کے مطالب

کسی بھی روایت میں مصحف فاطمہ کے سارے مطالب کی طرف اشارہ نہیں گیا ہے لیکن مجمو ع روایات سے بعض مطالب کا پتہ چلتا ہے ۔
۱۔مقام پیغمبر اکرم ﷺ
ابو عبید ہ امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں فاطمہ (س)اپنے بابا کے بعد ۷۵دن تک زندہ تھیں ،ان دنوں میں اپنے بابا کے فراق میں شدت سے غمگین تھیں ،جبرئیل ہمیشہ ان پر نا زل ہو تے تھے اور انھیں بابا کے سو گ میں تعزیت پیش کرتے تھے اور ان کی دلجو ئی کرتے تھے اور ان کے بابا اور ان کی جلالت اور ان کے مقام کی خبر انھیں دیتے تھے علی علیہ السلام اس کو لکھتے جاتے تھے اور یہی ہے مصحف فاطمہ۔
۲۔ذریۃ زہرا سلام اللہ علیہا کا مستقبل
مذکورہ صحیح روایت میں آیا ہے ،اور اسے خبر دیتے تھے اس مظالم سے جو ان کی ذریت پر ہو نے والے ہیں اس کے علاوہ حمادبن عثمان کی حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ حضرت نے فرمایا ہو شیار ہو اس میں ”مصحف فاطمہ “کو ئی حلال و حرام نہیں ہے بلکہ اس میں ان باتوں کا علم ہے جو آیندہ میں ہو نے والی ہیں ۔
۳۔ حوادث کا علم
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایامصحف فاطمہ تو اس میں ان امور کا ذکر ہے جو آیندہ میں ہو نے والے ہیں ۳۔
۴۔انبیاء و اوصیا ء کے نام
ایک روایت میں امام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا کوئی بھی نبی یا و صی نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا نام ایک کتاب میں ہے جو میرے پاس ہے یعنی مصحف فاطمہ ۲،
۵۔باد شا ہوں اور ان کے باپ دادا کا نام
گذشتہ روایت میں امام صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل ہوا ہے کہ ”اور مصحف فاطمہ تو اس میں آنے والے امور کا علم ہے اور اس میں قیامت تک حکومت کرنے والے لو گوں کا نام ہے۔دوسری حدیث میں ان کے ناموں اور ان اباء واجداد کے نا موں کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
حوالے جات:
۱۔بصائر الدرجات،ص۱۵۵،ح۱۴۔
۲۔صحاح اللغہ ،ج۴،ص۱۳۸۴،تاج العروس ،ج۶،ص۱۶۱،لسان العرب ،ج۹،ص۱۸۶۔
۳۔الاتقان ،ج۱،ص۵۳۔
۴۔دلائل التوثیق المبکرللسنۃ والحدیث ترجمہ ڈاکٹر عبد المعطی،ص۲۶۸۔
۵۔مصادر الشعر الجاہلی ،ص۱۳۹۔
۶۔معرفۃ النسخ،ص۲۸۔
۷۔المصاحف،ص۱۰۔
۸۔وہی ،ص۹۔
۹۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۴۰،ح۲۔
۱۰۔وہی ،ص۲۴۱،ص۵۔
۱۱۔بصائر الدرجات،ص۱۵۲،ص۳۔
۱۲۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۴۵،ص۲۔
۱۳۔وہی ،ج۱،ص۲۴۱،ح۵۔
۱۴۔بصائر الدرجات،ص۱۵۷،ح۱۔
۱۵۔وہی ،ص۱۵۵،ح۱۴۔
۱۶۔وہی،ص۱۵۴،ح۸۔
۱۷ ۔اصول کافی،ج۱،ص۲۴۰،ح۲۔
۱۸۔وہی ،ص۲۴۱،ح۵۔
۱۹۔بحار الانوار،ج۲۶،ص۱۸،ح۱۔
۲۰۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۴۰،ح۲۔

عید کے دن شکر کریں احتجاج نہیں



بعض لوگ خصوصاً خواتین عید کے دن احتجاج کا موڈ بنا لیتی ہیں۔ وہ گھرانے جن میں کسی کا انتقال ہوگیا ہو یا گھر کا کوئی عزیز فرد جیل یا مصیبت میں ہو ایسے گھرانوں کی خواتین عام طور سے کہتی ہیں اس سال ہم عید نہیں منا رہے اور پھر پرانے کپڑے پہن کر بھوت کی صورت بنا کر احتجاج کرتی ہیں خود بھی روتی ہیں، دوسروں کو بھی رلاتی ہیں ۔ یہ طریقہ ناشکری اور تکبر والا ہے ۔ عید تو ایک ”دینی خوشی“ ہے ، رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کی خوشی، پس جس کی رمضان المبارک میں بخشش ہو گئی اس کی عید تو خود ہی ہوجاتی ہے اور جو رمضان المبارک میں محروم رہا وہ لاکھ خوشیاں اور مستیاں کر لے اس کی کوئی عید نہیں۔ عید کا دن شکر اور شکرانے کا دن ہے اگر آپ کے کسی عزیز کا انتقال ہو گیا ہے تو آپ تلاوت کرکے اور نوافل ادا کرکے اس کے لئے خوب ساری دعائیں کریں۔ اگر آپ کے عزیز جیل میں ہیں تو تلاوت اور نوافل کے بعد ان کی رہائی کے لئے دعاء مانگیں مگر احتجاج والا ماحول نہ بنائیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ہم خدا نہیں کہ سب کچھ ہماری مرضی سے ہو۔ اللہ پاک کی مرضی جس کو چاہے زندہ رکھے اور جس کو چاہے موت دے ہمارا کام اس کی تقدیر پر راضی ہونا ہے اور اس سے صبر کی دعاء کرنا ہے اگر ہم اکڑیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ تو یہ تکبر کی علامت ہے مسلمان کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ اور غلام رہے اور خود کو کچھ نہ سمجھے۔

کیا تقلید کے ذریعھ اسلام قبول کرنا، خداوند متعال قبول کرے گا؟


آخرت میں ھم سے سوال کیا جائے گا کھ آپ نے کیوں دین اسلام کو قبول کیا ھے اورمسلمان ھوئے ھیں ؟ تو ھم کیا جواب دیں گے ؟ جب کھ ھم اپنے آباء و اجداد کے مسلمان ھونے کی وجھ سے مسلمان ھیں؟
ایک مختصر
اگر آخرت میں اعتقادات کی کیفیت کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کے سوا ھمارے پاس کوئی دلیل نھ ھو تو ھم اس صورت میں معذور نھیں ھونگے ، کیونکھ اس قسم کا طرز عمل اور افکار انسانی فطرت کے خلاف ھیں۔ البتھ یھ اس صورت میں ھے کھ جانتے ھوں کھ ھمارے آباء و اجداد نھ اھل علم ھیں ، نھ معرفت و عقل رکھتے ھیں اور نھ دانشور اور آگاه افراد کی ھدایت میں رھے ھیں ۔ البتھ یھ جو ھم نے کھا کھ اعتقادات علم ویقین کی بنیاد پر ھونے چاھئیے ، اس سے مراد یھ نھیں ھے کھ اولاً: انسان کو اس سلسلھ میں فلسفی و علمی استدلال سے کام لینا چاھئے ، بلکھ ھر شخص سے اس کی توانائی کے مطابق اس کی توقع کی جاتی ھے ، ثانیاً: اس سلسلھ میں دانشوروں کی راھنمائی سے استفاده نھ کرسکے۔
تفصیلی جوابات
جواب کی وضاحت کے لئے مندرجھ ذیل چند نکات کی طرف اشاره کرنا ضروری ھے :
۱۔ خداوند متعال نے انسان کی فطرت اور سرشت کو یوں تخلیق کیاھے کھ ، وه اپنے گرد حقیقت کو پانے اور حقائق پر علمی تسلط جمانے کی مسلسل کوشش میں لگا رھتا ھے ، انسان اپنی پیدائش کے دن سے موت کے وقت ک ایک لمحھ بھی حقیقت کو پانے کی جستجو و تلاش سے غافل نھیں رھتا ھے ، البتھ اس کی یھ تلاش، کوشش اور جستجو اس کی عمر ، جسم ، فکر اور طرز عمل کی مناسبت سے ھوتی ھے۔
دوسرے الفاط میں، خداوند متعال نے انسان کو کمال و سعادت تک پھنچنے اور حقائق و معارف کو درک کرنے کے لئے کافی سرمایھ اور وسائل کے ساتھه زمین پر بھیجا ھے۔ تا کھ اس سے استفاده کرکے اپنی خلقت کے مقصد تک پھنچ جائے۔
قرآن مجید میں ارشاد ھوا ھے: "اور نفس کی قسم اورجس نے اسے درست کیاھے پھر بدی اور تقویٰ کی ھدایت دی ھے ، بیشک وه کامیاب ھوگیا جس نے نفس کو پاکیزه بنا لیا اور وه نامراد ھوگیا جس نے سے آلوده کردیا ھے"۔ [1]
اب اس حقیقت کے پیش نظر کھ انسان معلومات اور علمی ترقی کے حصول میں ، صلاحیت کے لحاظ سے خدا کی عمده ترین مخلوق ھے ، اگر کوئی شخص ، اپنی بنیادی ضرورت یعنی خلقت کے مقصد ،جو تقرب الھی کا سرمایھ ھے، تک پھنچنے میں اپنی دولت وجود سے استفاده نھ کرے اور مقصد تک پھنچانے والی راه اختیار کرنے میں سستی اور کاھلی سے کام لے ( اور اپنے آباء و اجداد کے خیالات اور آداب و رسوم پر اکتفا کرے ، باوجودیکھ جانتا ھو کھ اس کے آباء و اجداد نھ اھل علم و عقل ھیں اور نھ ان کی زندگی علم و دانش کی ھدایت کی بنیاد پر ھے ) تو وه کیسے قابل معافی ھوسکتا ھے؟۔ [2]
حقیقت میں خود فطری طور انسان کا ضمیر اسے ملامت کرتا ھے ،کیونکھ اس نے اس کے برخلاف حرکت کی ھے اور اپنے ھاتھوں اپنی حقیقت کو الٹ کر رکھدیا ھے۔
اسی سلسلھ میں قرآن مجید کا ارشاد ھے : " اور یقیناً ھم نے انسان اور جنات کی ایک کثیر تعدادکو گویا جھنم کےلئے پیدا کیا ھے کھ ان کے پاس دل ھیں مگر جانتے نھیں ھیں اور آنکھیں ھیں مگر دیکھتے نھیں ھیں اور کان ھیں مگر سنتے نھیں ھیں ۔ یھ چوپایوں جیسے ھیں بلکھ ان سے بھی زیاده گمراه ھیں اور یھی لوگ اصل میں غافل ھیں"۔ [3]
۲۔ ھر مسلمان جو اپنے آپ کو دین اسلام کے تابع سمجھتا ھے اس کے پاس ، اپنے اعتقادات کے بارے میں ، اپنے آبا و اجداد کی اندھی تقلید کے علاوه کوئی دلیل بھی ھونا ضروری ھے اور اسی وجھ سے مراجع کی توضیح المسائل میں ( ھر مسلمان کے لئے اسے حاصل کرنا ضروری ھے ) درج ھے کھ اصول دین میں تقلید نھیں کی جاسکتی ھے ، بلکه ھر شخص کو اس سلسلھ میںخود علم و یقین تک پھنچنا چاھئے۔ [4]
اس کے علاوه اسلامی دستور و آئین کی روح ، عقل و دانش ھے اور اسلام ھمیں ھر جگھ پر فکر و فھم کی دعوت دیتا ھے۔ [5]
البتھ ظاھر ھے کھ درک و فھم کے مراتب ، انسان کی آگاھی اور علم کے مناسبت سے مختلف ھیں ۔ ایک ان پڑھ شخص سے ، اس کے فکر و خیال اور زندگی کے حالات کے مطابق توقع کی جاسکتی ھے ، جیسا کھ ایک مشھور حدیث میں آیا ھے کھ: " ایک دھاگا کاتتی ھوئی بوڑھی عورت سے پیغمبر اسلام نے سوال کیا کھ خدا کو کس طریقھ سے ثابت کرتی ھو؟ عورت نے ھاتھه روک کر کھا : اس سے "۔
یھاں پر اس بوڑھی عورت نے فلسفیانھ دلائل کا سھارا نھیں لیا اور نھ اس سے اس کی توقع کی جاسکتی تھی اور نھ وه اس کی سکت رکھتی تھی ، بلکھ اس نے تمام لوگوں کے لئے اس قابل فھم نکتھ کی طرف اشاره کیا کھ اگر اس چرخ کو چلانے کے لئے ایک چلانے والے کی ضرورت ھے تو یھ کیسے ممکن ھے کھ اس کائنات کو ایک پروردگار اور چلانے والے کی ضرورت نھ ھو۔ اور یھ بھی اسی موضوع سے تعلق رکھتا ھے کھ ایک اعرابی نے کھا تھا کھ جس طرح اونٹ کے پاؤں کی نشانیاں اونٹ پر دلالت کرتی ھیں اسی طرح آسمان و زمیں بھی خدائے لطیف و خبیر پر دلالت کرتے ھیں۔ [6]
لیکن ایسا لگتا ھے کھ اسلام کی حقانیت کے لئے انتھائی عالم ساده ترین اور استدلال کا ، انسان کی فطرت و سرشت کے مطابق ھونا ھے۔ اگر انسان اپنے طرز عمل اور ناپسند اخلاق سے خدا داد فطرت کو گناه و معصیت کی تاریکیوں میں نھ چھپائے ، تو وه اسلام کی حقانیت اوریقین کی منزل تک پھنچ سکتا ھے اور صحیح اعتقادات حاصل کرنے کےلئے فکر و تعقل کے علاوه اس راه سے بھی استفاده کرسکتا ھے۔
۳۔ سچ ھے کھ اصول دین کا اعتقاد علم و یقین کی حد تک پھنچنا چاھئے اور اگر اس حد تک نھ پھنچے ، تو اس کا مطلب یھ ھے کھ اعتقاد میں شک و شبھھ کی ملاوٹ ھے ، جو کافی نھیں ھے ، اگر چھ یھ ترجیحی ظن کے درجھ تک بھی پھنچا ھو اور مسلمان ببنے کےلئے تقلید کی راه کافی نھیں ھے اور جو مسلمان بننا چاھتا ھے اسے دین کے حق یا باطل ھونے کے سلسلھ میں بحث و تحقیق کرنی چاھئے۔
لیکن یقینی علم علمی استدلال کے علاوه دوسری راھوں سے بھی حاصل ھوسکتا ھے جیسے قرآن مجید کی آیات وغیره سسنے اور سمجھنے سے۔[7]
اصول دین میں علم و یقین حاصل کرنے کی راھوں میں سے ایک ، دانشوروں کی راھنمائی کی پیروی کرنا بھی ھے۔ [8]
جس چیز کی قرآن مجید میں مذمت کی گئی ھے وه تعصب کی بنیاد پر بالکل اندھی تقلید ھے۔
اس سلسلھ میں قرآن مجید میں ارشاد الھی ھے:
" جب ان سے کھا جاتا ھے کھ جو کچھه خدا نے نازل کیا ھے اس کا اتباع کرو تو کھتے ھیں کھ ھم اس کا اتباع کریں گے جس پر ھم نے اپنے باپ داد کو پایا ھے۔ کیا یھ ایسا ھی کریں گے ، چاھے ان کے باپ دادا بے عقل ھی رھے ھوں اور ھدایت یافتھ نھ رھے ھو؟ [9]
اسی قسم کا مضمون سوره مائده کی آیت نمبر ۱۰۴ میں بھی آیا ھےَ
مذکوره آیات سے یھ استدلال کیا جاسکتا ھے کھ اگر ان کے باپ دادا صاحب نظر دانشور اورھدایت یافتھ تھے تو انکی پیروی کی جاسکتی تھی۔ [10] لیکن اس کے باوجود کھ وه جانتے ھیں کھ ان کے باپ دادا ناداں ، ان پڑھ اور وھم پرست تھے ، تو ان کی پیروی کے کیا معنی ھیں؟ کیا یھ ایک جاھل کی دوسرے جاھل کے تقلید کرنے کی مثال نھیں ھے؟"[11]
پس ایک فرد کو کیسے مسلمان جانا جاسکتا ھے ؟ جبکھ وه ایسے افرادکی اندھی تقلید کرتا ھے جو نھ اھل علم و عقل ھیں اور نھ ان کا طرز عمل ھدایت الھی اور فطرت کی بنیاد پر ھے۔ البتھ ظاھر ھے کھ حقیقی مسلمان وھی ھیں جو اھل علم و عقل ھیں یا ان کا طرز عمل ھدایت الھی و فطرت کی بنیاد پر ھے اور ان کی تقلید ھمیشھ علمی و استدلالی بنیادون پر مستحکم اور یھ تقلید تعصب اور ضد پر مبنی نھیں ھے ، کیونکھ وه جانتا کھ اگر ایسا نھ ھو تو بارگاه الھی میں معاف نھیں کیا جائے گا۔
[1] سوره شمس / ۷ ۔۔ ۱۰۔
[2] مگر یھ کھ اس سلسلھ میں ھم واقعی قاصر ھیں نھ مقصر، مزید معلومات حاصل کرنے کےلئے ملاحظھ ھو، عنوان : " قاصرین و نجات از جھنم " سوال نمبر ۳۲۳۔
[3] سوره اعراف/ ۱۷۹۔
[4] رسالھ عملیھ ، مسئلھ نمبر ۱۔
[5] قرآن مجید جو ھمارا سب سے اصلی دینی منبع ھے ، سراسر ، فکر اور سوچ کی دعوت پر مشتمل ھے ، مثلاًً : لفط " علم " ، یا لفظ " فقھ" یالفظ " عقل" وغیره کے علاوه کم از کم ۱۷ بار لفظ " فکر " سے استفاده کرکے غور و فکر کی ترغیب دیتا ھے۔
[6] حیث قال : البعرۃ تدل علی البعیر و اثر الاقدام علی المسیر فسماء ذات ابراج و ارض ذات فجاج لا تدلان علی الطیف الخبیر " بحار الانوار ، ج ۶۶، ص ۱۳۳۔
[7] مزید معلومات کے لئے ملاحظھ ھو۔ ترجمھ تفسیر المیزان (فارسی) ج ۹ ص ۲۰۹۔
[8] اس سلسلھ مین تفسیر نمونھ میں آیا ھے : " بعض مفسرین نے حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام سے ایک حدیث نقل کی ھے ، جس مین قابل توجھ چند نکات ھیں۔ حدیث یوں ھے : " ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام کی خدمت مین عرض کیا کھ : باوجودیکھ عام یھودی اپنی آاسمانی کتاب کے بارے میں اپنے علماء کے علاوه کسی اور راه سے کوئی اطلاع نھیں رکھتے تھے، تو خداوندمتعال انکی اپنے علماء کی تقلید اور انکی پیروی کرنے کی کیوں مذمت کرتا ھے؟ ! ( زیر بحث آیات کی طرف اشاره ھے) کیا عام یھودی ھمارے عوام سے فرق رکھتے ھیں ، جو اپنے علماء کی تقلید کرتے ھیں؟ امام علیھ السلام نے فرمایا: ھمارے عوام اور عام یھودیوں کے درمیان ایک جھت سے فرق ھے اور ایک جھت سے مساوی ھیں ، جس جھت سے ( یھ دوںون عوام ) مساوی ھیں وه یھ ھے کھ خداوند متعال نے ھمارے عوام کی بھی اسی طرح مذمت کی ھے ، جس طرح یھدوی عوام کی مذمت کی ھے۔
لیکن جس جھت سے آپس مین فرق رکھتے ھیں ، و ه یھ ھے کھ یھودی عوام اپنے علماء کے حالات سے واقف تهے ، جانتے تهے کھ وه بالکل جھوٹے ھین ، حرام اور رشوت کھاتے ھیں اور خدا کے حکم کی نافرمانی کرتے ھیں ، ان کو اپنی فطرت سے معلوم ھوچکا تها کھ اس قسم کے افراد فاسق ھین اور ان کی باتوں کو خدا اور اس کے احکام کے بارے میں قبول کرنا نا جائز ھے ، اسی وجھ سے خداوند متعال نے ان کی خدمت کی ھے ، لیکن ھمارے عوام ایسے علماء کے پیرو نھیں ھیں۔
اور اگر ھمارے عوام بھی اپنے علماء کے بارے میں واضح فسق ، شدید تعصب اور دنیا و مال حرام کے حرص اور لالچ کا مشاھد کریں اور جو بھی شخص ان کی پیروی کرے ، وه یھود کے مانند ھے کھ خداوند متعال نے ، علمائے فاسق کی پیروی کرنے پر ان کی مذمت کی ھےَ " فاما من کان من الفقھاء صائنا لنفسھ ، حافظا لدینھ مخالفا علی ھواه ، مطیعا لامر مولاه فللعوام ان یقلدوه " لیکن جو دانشور اپنی روح کی پاکیزگی کی حفاظت کریں۔ اور اپنے دین کی نگرانی کریں ، اپنے نفسانی خواھشات کے مخالف اور اپنے مولا کے اوامر کے مطیع و فرمانبردار ھون تو عوام ان کی پیروی کرسکتے ھیں۔
ظاھر ھے کھ یھ حدیث احکام میں اطاعتی تقلید کی طرف اشاره نھیں کرتی ھے ، بلکھ اس سے مراد اصول دین مین علم و یقین پیدا کرنے کے لئے دانشوروں کی راھنمائی کی پیروی کرنا ھے ، کیوں کھ حدیث پیغمبر کی معرفت کے بارے میں بات کرتی ھے ، کھ مسلم طور پر اصول دین ھے اور اطاعتی تقلید اس مین جائز نھیں ھے ( تفسیر نمونھ ، ج ۱ ص ۳۲۰)
اسی طرح ایک اور جگھ پر لکھتا ھے:
قرآن مجید کی آیات میں بیان ھوا ھے کھ حجرت ابراھیم علیھ السلام آذر کو اپنی پیروی کرنے کی دعوت دیتے ھیں ، جبکھ قاعدے سے ان کا چچا (آذر) بھ اعتبار عمر ان سے کافی بڑا تھا اور اس معاشره میں ایک مشھور شخص تھا، اس کی دلیل یھ بیان کرتے ھین کھ میرے پاس ایسے علوم ھیں جو تمھارے پاس نھیں ھیں (قد جائنی من العلم مالم یاتک)
یھ ان سب لوگوں کےلئے ایک کلی قانون ھے جو ان سب چیزون سے آگاه نھیں ھیں ، وه ان لوگون کی پیروی کرین جو آگاه ھین اور یھ حقیقت میں ھر فن کے ماھرین کی طرف متوجھ کرانے کے علاوه احکام اسلامی کے فروع میں مجتھد کی تقلید کے مسئلھ کو مشخص کرتا ھے ، لیکن حضرت ابراھیم علیھ السلام کی بحث فروع دین کے بارے میں نھیں تھی، بلکھ آپ (ع) حد درجھ بنیادی مسئلھ اصول دین کی بات کررھے تهے تا ھم اس قسم کے مسائل میں بھی دانشوروں کی راھنمائی سے استفاده کرنا چاھئے ، تا کھ صراط مستقیم کی ھدایت حاصل ھوجائے ، تفسیر نمونھ ج ۱۳ ، ص ۸۱۔
[9] سوره بقره / ۱۷۰
[10] حقیقت میں کھا جاسکتا ھے کھ اس قسم کی تقلید کو علمی و عقلی حمایت اورپشت پناھی حاصل ھے اور یھ محض تقلید نھیں ھے۔
[11] تفسیر نمونھ ، ج ۱ ص ۵۷۶۔

امام رضا علیہ السلام اور ذبح عظیم کی تفسیر



اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر اقبال
جب ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنے فرزند دلبند حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنا چاہا تو چھری نے گلا نہیں کاٹا؛ ابراہیم علیہ السلام نے چھری پتھر پر ماری تو پتھر ٹوٹ گیا اور آپ مطمئن ہوگئے کہ چھری میں کوئی نقص نہیں ہے تا ہم چھری اسمعیل کے گلے پر کارگر نہ ہوئی اور پھر اسی اثناء میں ایک دنبہ ظاہر ہوا اور حکم آیا کہ اب یہ دنبہ ذبح کرو اور یہ کہ ہم نے ذبح عظیم کو اسمعیل کی قربانی کا متبادل قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ ذبح عظیم اس دنبے کی قربانی تو نہیں ہوسکتی تھی چنانچہ ایک ایسی شخصیت کی قربانی متبادل ہونا ضروری ہے جس کا مقام اسمعیل علیہ السلام سے کہیں اونچا ہے۔ ہم یہاں امام رضا علیہ السلام کی نگاہ بیان کرتے ہیں ذبح عظیم کے بارے میں اور یہ بات ایک حدیث کے ضمن میں بیان ہوئی ہے جو حقیقت کے جستجوگروں کے لئے کافی جاذب و دلچسپ ہے:ما جاء عن الرضا عليه السلام في تفسير قول الله عز وجل: "و فديناه بذبح عظيم" حدثنا عبد الواحد بن محمد بن عبدوس النيسابوري العطار بنيسابور في شعبان سنه اثنين وخمسين وثلاثمأه قال: حدثنا محمد بن على بن محمد بن قتيبه النيسابوري عن الفضل بن شاذان قال: سمعت الرضا عليه السلام يقول: لما أمر الله تبارك وتعالى إبراهيم عليه السلام ان يذبح مكان ابنه اسماعيل الكبش الذي انزله عليه تمنى إبراهيم عليه السلام ان يكون يذبح ابنه اسماعيل عليه السلام بيده وانه لم يؤمر بذبح الكبش مكانه ليرجع الى قلبه ما يرجع قلب الوالد الذي يذبح اعز ولده بيده فيستحق بذلك ارفع درجات أهل الثواب على المصائب فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم من احب خلقي اليك؟ فقال: يا رب ما خلقت خلقا هو احب الى من حبيبك محمد (ص) فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم افهو احب اليك أو نفسك؟ قال: بل هو احب الى من نفسي قال: فولده احب اليك أو ولدك؟ قال: بل ولده قال: فذبح ولده ظلما على اعدائه اوجع لقلبك أو ذبح ولدك بيدك في طاعتي؟ قال: يا رب بل ذبحه على ايدى اعدائه اوجع لقلبي قال: يا إبراهيم فإن طائفه تزعم انها من امه محمد (ص) ستقتل الحسين عليه السلام ابنه من بعده ظلما وعدوانا كما يذبح الكبش فيستوجبون بذلك سخطى فجزع إبراهيم عليه السلام لذلك وتوجع قلبه واقبل يبكى فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم قد فديت جزعك على ابنك اسماعيل لو ذبحته بيدك بجزعك على الحسين عليه السلام وقتله واوجبت لك ارفع درجات أهل الثواب على المصائب فذلك قول الله عز وجل: (وفديناه بذبح عظيم) (1) ولا حول ولا قوه إلا بالله العلى العظيم .

(عیون اخبارالرضا (ع) ج 2 ص 188)۔

و فدیناہ بذبح عظیم (سورہ صافات آیت 107) کے بارے میں امام رضا سے جو منقول ہے وہ کچھ یوں ہے:شیخ صدوق روایت کرتے ہیں کہ عبد الواحد بن محمد بن عبدوس النيسابوري العطار نے ماہ شعبان سنہ 352 کو ہمارے لئے نقل کیا اور کہا کہ ہمیں محد بن علی بن محمد بن قتیبہ النیسابوری نے فضل بن شاذان سے نقل کرکے سنایا کہ میں (فضل بن شاذان) نے امام رضا علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: جب خداوند متعال نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا ہے اپنے بیٹے کی جگہ دنبے کو ذبح کردے تو اہراہیم علیہ السلام کے دل میں گذری کہ کاش میں اپنا بیٹا اسمعیل اپنے ہاتھ سے خدا کی راہ میں ذبح کرتا اور مجھے بیٹے کی جگہ دنبہ ذبح کرنے کا حکم نہ ملتا تا کہ اس طرح وہ اس باپ کا احساس پاتے جس نے اپنے سب سے پیارے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہوتا ہے اور اس کے مصائب برداشت کرنے پر انہیں ثواب کے بلند ترین مراتب نصیب ہوتے خداوند متعال نے ابراہیم علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ اے ابراہیم (ع)! آپ کے نزدیک میری محبوبترین مخلوق کون ہے؟ عرض کیا: خداوندا! تو نے اب تک ایسی مخلوق خلق نہیں فرمائی جو میرے نزدیک تیرے حبیب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ محبوب ہو۔ وحی آئی: اے ابراہیم! آپ ان سے زیادہ محبت کرتے ہيں یا اپنے آپ سے؟عرض کیا: ان سےوحی آئی: اے ابراہیم! کیا آپ ان کے بیٹے سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا اپنے بیٹے سے؟عرض کیا: ان کے بیٹے سےوحی آئی: کیا آپ ظلم و ستم کی وجہ سے دشمنوں کے ہاتھوں ان کے بیٹے کا سر جدا ہونے سے آپ کو زیادہ صدمہ پہنچتا ہے یا میری اطاعت کی بنا پر اپنے ہاتھوں اپنے بیٹے کا سر جدا کرنے سے؟عرض کیا: دشمنوں کے ہاتھوں ان کے بیٹے کا سر جدا ہونے سے مجھے زیادہ صدمہ پہنچتا ہےخداوند متعال نے ارشاد فرمایا: لوگوں کا ایک گروہ جو اپنے آپ کو امت محمد (ص) سمجھتے ہیں محمد (ص) کے بیٹے کو گوسفند کی مانند ذبح کریں گے اور اپنے اس کام کی وجہ سے میرے غضب کے مستحق قرار پائیں گےابراہیم علیہ السلام اس حقیقت سے آگاہ ہو کر جزع و فزع کرنے لگے، ان کو سخت صدمہ ہوا اور گریہ و بکاء کرنے لگے چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی:اے ابراہیم (ع)! حسین علیہ السلام اور ان کے قتل پر آپ کے اس جزع و فزع کی بنا پر میں نے اسمعیل (ع) پر آپ کے غم اور رنج کو ـ اگر آپ انہیں ذبح کرتے ـ قبول کرلیا اور مصائب پر صبر کی پاداش میں ثواب کے بلند ترین درجات آپ کے نصیب کروں گآ۔ [امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں] یہی ہے اللہ تعالی کے اس قول کا مطلب کہ "و فدیناهم بذبح عظیم = ہم نے ذبح عظیم اور عظیم قربانی کو اسمعیل (ع) کی قربانی کا فدیہ اور عوض قراردیا۔ (سورة الصافات: الاية 107.) لا حول و لا قوة الا بالله العلی العظیم. مرحوم علامه طهرانی اپنی کتاب "روح مجرد" ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:طہران میں جس خطیب کو محرم کے عشرے کے لئے بلایا چاتا عشرے کی آخری رات اس کو آئندہ سال کے اسی عشرے کے لئے بلایا جاتا تھا۔ مرحوم دُرّی کی حیات کا آخری سال تھا اور طہران میں خطابت کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ آٹھویں یا نویں رات کو ایک نوجوان نے مجلس سے پہلے ان سے پوچھا: اس شعر سے مراد کیا ہے:

مرید پیر مغانم ز من مرنج ای شیخ چرا كه وعده تو كردی و او به جاآورد

میں پیر مغان کا مرید ہوں مجھ سے رنجیدہ خاطر مت ہونا اے شیخکیونکہ وعدہ آپ نے کیا اور وہ بجا لائے

مرحوم دُرّی نے کہا: اس سوال کہ جواب میں منبر سے دوں گا تا کہ دوسرے بھی استفادہ کرسکیں۔انھوں نے منبر پر خدا کی طرف سے آدم ابوالبشر علیہ السلام کو گندم کھانے سے روکے جانے کی داستان نقل کرتے ہوئے کہا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کبھی گندم کی روٹی تناول نہیں فرمائی اور جو کی روٹی بھی کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور پھر کہا:اس شعر میں شیخ سے مراد "حضرت آدم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام ہے جنہوں نے جنت میں گندم سے استفادہ نہ کرنے کا وعدہ دیا لیکن اس پر عمل نہ کرسکے اور گندم کھا لی اور یہاں "پیر مغان" سے مراد امیرالمؤمنین صلوات اللہ علیہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی گندم کی روٹی نہیں کھائی اور آدم (ع) کا وعدہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نبھایا۔ یہ اس شعر کی پوری تشریح تھی جو مرحوم دری نے پیش کرکے مجلس ختم کردی۔سال ختم ہونے سے پہلے ہی مرحوم دری دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور محرم میں اسی رات ـ جس رات اس نوجوان نے مرحوم دری سے مذکورہ بالا سوال پوچھا تھا وہ نوجوان ـ مرحوم دری کو خواب میں دیکھتا ہے اور مرحوم دری کہتے ہیں: آپ نے مجھ سے گذشتہ سال اس شعر کا مطلب اور مفہوم پوچھا تھا اور میں نے اس طرح جواب دیا تھا لیکن اب مجھ پر اس شعر کا صحیج مفہوم منکشف ہوا اور وہ یہ ہے کہ:شعر میں شیخ سے مراد حضرت ابراہیم علیہ و علی نبینا و آلہ الصلواة والسلام ہیں اور وعدہ "بیٹے کی قربانی" ہے اور "پیر مغان" سے مراد حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں اور اگرچہ ابراہیم علیہ السلام نے وعدہ وفا کیا لیکن وعدے کی تکمیل سیدالشہداء علیہ السلام نے کی اور کربلا میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کی قربانی دی۔

(حافظ و پیرمغان، ص ،۱۸ به نقل از روح مجرد، علامه طهرانی).

اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر

اقبال

دعا اور نماز میں حضور قلب کے حصول کا طریقہ



بے شک دعا اور نماز کی روح حضور قلب ہے اور بغیر اس کے تربیت و تزکیہ کے مہم آثار و روح کی نوار نیت کمتر حاصل ہوتی ہے، اس کے لئے پہلے قوی ومحکم ارادے کی ضرورت ہے اور پھر اس کے حصول کے طریقوں میں جد و جہد و تلاش بہت مہم ہے، کیونکہ غالباً جو لوگ دعا اور نماز میں خضوع و حضور قلب کی تمنا رکھتے ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی اس توفیق سے محروم رہتے ہیں، خشوع و حضور قلب کے حصول کے لئے مندرجہ ذیل امور پر توجہ کی ضرورت ہے ۔

۱۔ ان تعلیمات کا حاصل کرنا جو دنیا کو انسان کی نگاہ میں پست و حقیر کردے اور خدا کو عظیم و بزرگ، تاکہ دنیا کی کوئی چیز اسے اپنے معبود سے راز و نیاز کرتے وقت، خدا سے منحرف کر کے اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے۔

۲۔ دنیا کے ذرق و برق اور مختلف حرکات و سکنات کی طرف توجہ، مبذول ہونے کی وجہ سے حواس متمرکز نہیں ہوپاتے ہیں انسان جسقدر بیہودہ مشغلوں سے اپنے کو دور رکھے گا اتنا ہی اس کی عبادتوں میں حضور قلب و غیرہ کا اضافہ ہوگا۔

۳۔ نماز، دعا اور تمام عبادات کو انجام دینے کیلئے اچھی جگہ کا انتخاب کرے کیونکہ دعا کے موثر ہونے میں اس کا بہت بڑا اثر ہے، اسی وجہ سے ایسی چیزوں کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے جو انسان کے ذہن کو اپنے آپ میں مشغول کرلیتی ہیں، اسی طرح کھلے ہوئے دروازوں، لوگوں کے آنے جانے کی جگہ، شیشہ (آئینہ) کے سامنے اور تصویروں وغیرہ کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے ، اسی وجہ سے مسلمانوں کی مسجدیں اور عبادت گاہیں جس قدر بھی سادہ اور زرق و برق سے خالی ہوں بہتر ہے کیونکہ اس سے حضور قلب میں مدد ملتی ہے۔

۴۔ گناہوں سے پرہیز کرنا بھی دعا کے قبول ہونے میں موثر ہے ، کیونکہ گناہ، قلب کے آئینہ کو مکدر کردیتا ہے اور محبوب حقیقی کے جمال کو اس میں منعکس ہونے سے مانع ہوتا ہے اور دعا کرنے والے انسان یا نماز گزار کو جو حجاب پیش آتے ہیں وہ اپنے آپ کو اس میں منحصر نہیں سمجھتا اسی دلیل کی بنیاد پر ہر نماز اور دعا سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردینا چاہئے ۔ نماز کے مقدمہ میں جو اذکار بیان ہوئے ہیں ان کی طرف توجہ بہت زیادہ مفید ہے۔

۵۔ نماز، دعا کے معنی سے آشنائی اور افعال و اذکار کے فلسفہ سے آشنائی بھی بہت حضور قلب کے لئے بہت زیادہ موثر ہے کیونکہ انسان جب عبادت کے معانی اور فلسفہ کو جانتا ہے اور اس کی طرف متوجہ رہتا ہے تو حضور قلب کی راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں۔

۶۔ مستحبات نماز، عبادت اور دعا کے مخصوص آداب کو انجام دینا، چاہے نماز کے مقدمات میں اور چاہے اصل نماز میں حضور قلب کیلئے بہت زیادہ مدد فراہم کرتا ہے۔

۷۔ ان تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہر کام کیلئے تمرین ، استمرار اور اس کی طرف توجہ ضروری ہے ، بہت زیادہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کے شروع میں ایک لمحہ یا چندلمحہ کیلئے حضور قلب اور اپنی فکر کو متمرکز کرتا ہے لیکن اس کام کو ہمیشہ انجام دینے اور اس کی طرف توجہ رکھنے سے اس کے نفس کے اندر اتنی زیادہ قدرت آجاتی ہے کہ وہ نماز او ردعا کے وقت اپنی فکر کے تمام دریچوں کو غیر معبود کیلئے بند کردیتا ہے اور اپنے آپ کو خدا کے حضور میں دیکھتا ہے اور اس کے ساتھ راز و نیاز کرنے لگتا ہے۔

اس بناء پر تمام لوگوں خصوصا جوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ہوش و حواس کو پراکندہ ہونے اور اپنی عبادت میں حضور قلب نہ ہونے کی وجہ سے رنجیدہ اور مایوس نہ ہوں ، اس بتائے ہوئے طریقہ پر چلتے رہیں انشاء اللہ ایک روز ضرور کامیاب ہوں گے۔

۸۔ جو عبادتیں بار بار انجام دی جاتی ہیں جیسے نماز تو ان کی ظاہری شکل کو تبدیل کرنے سے حضور قلب میں مدد ملتی ہے مثلا نماز میں سورہ حمد کے بعد جو سورہ پڑھے جاتے ہیں ان کو بدلتا رہے ، رکوع و سجود میں کبھی ذکر"سبحان اللہ" اور کبھی "سبحان ربی العظیم و بحمدہ" اور "سبحان ربی الاعلی و بحمدہ" پڑھے دعائے قنوت کو بدل بدل کر پڑھے یا مثلا دعائے کمیل کو کبھی عام طریقہ سے اور کبھی ترتیل اور کبھی آواز کے ساتھ پڑھے ، نماز اور دعا کو پڑھتے وقت اپنے آپ کو مکہ اور مدینہ کے حرم وغیرہ میں تصور کرے۔

تجربہ بتاتا ہے کہ ظاہری صورت کو بدلنے سے حضور قلب اور فکر کو متمرکز کرنے میں مدد ملتی ہے۔

۹۔ جن غذاؤں میں حرام یا نجس ہونے کا شبہ پایا جائے ان سے پرہیز کرنا، دعا کی قبولیت میں بہت زیادہ موثر ہے۔

۱۰۔ ان سب باتوں کے باوجود، اپنے تمام وجود کے ساتھ دعا، نماز اور زیارتوں میں حضور قلب جیسی نعمتوں کی خداوند عالم سے درخواست کرے وہ کریم اور رحیم ہے اور کوشش کرنے والے کو ناامید نہیں کرتا۔

چنین شنیدم کہ لطف ایزد بہ روی جویندہ در نبندد!

دری کہ بگشاید از حقیقت بر اہل عرفان، دگر نبندد!

source: http://www.erfan.ir/76582.html

نور اور بشر


نور سے مراد ان کی ارواح ہیں جس کی تصریح بعض احادیث سے ہوتی ہیں۔ انبیاء و آئمہ کے اجسام سے
پہلے ان کے اروح خلق کئے گئے تھے۔

 علماء نے اسے جنبہ سے تعبیر کیا ہے ...... جنبہ بشری و جنبہ نوری .....سب سے پہلے خدا نے سرکار محمّد مصطفیٰ کا نور پیدا کیا [اول ما خلق اللہ نوری] اور اسکے بعد اسی نور سے امام علی کا
نور اور صدیقہ طاہرہ و ائمّه انوار وجود میں اے

الغرض ٰٱئمہ کی ارواح روہانی طور پر نور ہدایت ہیں اور ظاہری طور پر اس دنیا میں ہیں۔

عام انسانوں سے مختلف ہی تھی، جیسے ختنہ شدہ اور پاک و مطہّر ولادت ہوتی ہے ۔ لیکن ہوتی ولادت ہی ہے جس سے کچھ لوگ آجکل اپنے غلو کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔ مولا علی(ع) کو ہم آج تک مولود کعبہ کہتے آئے ہیں۔ ان کے حساب سے آئمہ(ع) ماں کے پیٹ میں نہیں ہوتے بلکہ آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد اسی تکلیف کی وجہ سے خانۂ کعبہ کی طرف آئی تھیں۔

آنکھ بند کر کے نماز پڑھنا

صرف جائز ہے بلکہ مستحب ہے

شہید ثانی فرماتے ہیں جس شخص کو آنکھیں کھلی رکھنے سے افکار پراکندہ ہوں اور حضور قلب نہ رکھ سکے تو اس کو چاھئے کہ آنکھیں بند کرے اور تاریک جگہ نماز پڑھے (التنبيهات العَلية على وظائف الصلاة القلبية، ص110

ور یہی فتوی آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کا بھی ہے:

سؤال: با سلام.آیابستن چشم در نماز اشکال دارد؟ اگر با این کار بتوان توجه بیشتری به خدا داشت آیا مشکلی ندارد؟

پاسخ:این کار کراهت دارد مگر این که تنها راه رسیدن به حضور قلب باشد

اور پھر اس بارے میں معرکۃ الاراء اختلاف ہے کہ رکوع میں آنکھیں بند رکھنا مستحب ہے یا قدموں کے درمیان دیکھنا۔ اور جو دیکھنا وہ بحارالانوار کی جلد 84 میں اس بارے میں مختلف آراء دیکھ سکتے ہیں۔

نماز میں سلام پھیرنا


امام جعفر صادق(ع) کے بیٹے علی ابن جعفر بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائیوں امام موسی کاظم(ع)، اسحاق بن جعفر اور محمد بن جعفر کو دیکھا کہ وہ نماز میں دائیں بائیں سلام پھیرتے ہوئے کہتے تھے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ"۔



٭وسائل الشیعہ، ج4 ص339٭



آپ جس بھی ایڈیشن میں دیکھیں، کتاب الصلوہ میں سلام پھیرنے کا پورا ایک باب موجود ہے۔



اور یہ جو ہم تین دفعہ ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہتے ہیں یہ رسول اللہ(ص) نے فتح مکّہ کے وقت کیا تھا اور یہ تعقیبات نماز میں سے ہے۔ آئمہ(ع) کی روش وہی سلام پھیرنے والی رہی ہے۔



اس مسئلے پر صحیح السّند احادیث موجود ہیں اور شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ احادیث سے جو بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ یہی ہے کہ فرادی پڑھتے ہوئے انسان دائیں جانب سلام پھیرے گا، اور اگر جماعت کے ساتھ ہو اور آپ کے دائیں جانب ہی لوگ ہوں بائیں جانب نہ ہوں تو آپ صرف دائیں جانب ہی سلام کہیں گے اور اگر دونوں جانب لوگ موجود ہوں تو دونوں طرف۔



فرادی میں بھی دونوں جانب سلام پھیرنے کی روایت موجود ہے، لہذا اگر صرف دائیں طرف پھیریں یا دونوں جانب، کافی ہو گا۔



کتب احادیث ان روایات سے بھری پڑی ہیں، من لا یحضرہ الفقیہ، فروع کافی، تہذیب الاحکام، الاستبصار اور وسائل الشیعہ میں موجود ہیں۔ جو شخص ان روایات کی مذمّت کرے اور اس سنّت حسنہ کی مخالفت کرے وہ انتہائی کم علم اور جاہل ہے۔



یہ سنّت حسنہ ہمارے معاشرے سے متروک ہو چکی ہے، اور ایک متروک سنّت کو زندہ کرنا ہم سب پر فرض ہے۔



تین سلام پڑھ کر دیکھنا ہوتا ہے، ہر دفعہ دیکھنے میں "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کہیں تو بہت اچھا ہے۔

حلالہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟



حلالہ کا مسئلہ عصر پیغمبر سے ہی شروع ہوا جس کی وجہ سے قرآن کی آیت بھی نازل ہوئی اور اس سلسلے میں پیغمبر اکرم (ص) نے احادیث بھی ارشاد فرمائیں۔
اسلام میں حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت کو جب تین طلاق دے دئے جائیں تو اس کے بعد اس کی طرف رجوع نہیں کیا جا سکتا مگر یہ کہ وہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور اس کے بعد اس کے ساتھ ہمبستری کرے اور یہ مرد اپنی مرضی سے بغیر کسی کے دباو کے اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ عورت اپنے اختیار سے طلاق لے لے اس کے بعد سابقہ شوہر اس عورت کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۰ میں اس بارے میں حکم دیا گیا ہے: « فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا» (بقره 230).
یعنی اگر شوہر نے عورت کو تین طلاق دے دئے تو اسکے بعد وہ عورت اس مرد کے لیے حلال نہیں ہو گی جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے پس اگر وہ اس کو طلاق دے دے تو اس صورت میں پہلے شوہر کے اس کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ چیز اسلام نے اس وجہ سے رکھی ہے تاکہ مسلمانوں کے درمیان طلاق کی نحوست کو کم کیا جائے طلاق سے سماج میں پیدا ہونے والے مسائل کا سد باب کیا جائے چونکہ جب انسان اپنی زوجہ کو طلاق بائن یعنی تین مرتبہ طلاق دے دے گا اس کے بعد اگر اپنے کئے پر پشیمان بھی ہو تو اس پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا چونکہ اب اس عورت کو حاصل کرنا گویا انتہائی مشکل ہے اس لیے کہ جب وہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرے گی تو ضروری نہیں کہ اس کے بعد اس سے طلاق کا مطالبہ کرے اور بالفرض اگر وہ مطالبہ کرے تو ضروری نہیں کہ اس کا شوہر اسے طلاق دے دے اور اس دوسری شادی میں اسلامی نے ہمبستری کی قید لگائی ہے کہ دوسرا مرد اس عورت کے ساتھ جو اب اس کی بیوی ہے ہمبستری بھی کرے اس چیز سے پہلے مرد کو یہ احساس بھی ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق بائن دے کر بھیج دے گا وہ کسی دوسرے مرد سے شادی کر کے ہمبستری کر لے گی اس کے بعد اگر بالفرض طلاق کی صورت میں وہ اس سے شادی بھی کرے تو یہ اسکی بے غیرتی کا ثبوت ہو گا۔
لیکن بعض جاہل لوگ اس مسئلہ کو دوسرے روپ سے پیش کرتے اور اس الہی حکم میں تحریف پیدا کر کے اپنا مفاد پورا کرتے ہیں جیسا کہ بعض ان اسلامی فرقوں میں جن میں صرف تین بار طلاق طلاق طلاق کہنے سے تین طلاق ہو جاتے ہیں حلالہ ایک بڑی مشکل کا علاج ہے۔ عام جاہل لوگ حلالہ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ادھر تین طلاق دینے کے بعد جب اپنے کئے پر پشیمان ہوئے تو اپنی بیوی کو کسی مرد کے پاس ایک رات کے لیے بھیج دیا اس کے بعد دوسرے دن وہ حلال ہو کر واپس آگئی۔ اس عمل کو شریعت اسلامی نے صریحا حرام قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حدیث نبوی(ص) میں ایسا کرنے والوں پر لعنت بھی کی گئی ہے’’ لعن اللہ المحلل و المحلل لہ‘‘ (ترمذی)’’خدا کی لعنت ہو اس مرد پر جو اپنی بیوی کو حلال کرنے کے لیے بھیجے اور اس مرد پر جو دوسرے کی بیوی کو اس طرح حلال کرے‘‘۔ ( یہ حدیث أبوداود ،احمد ،النسائي ،الترمذي اورابن ماجه میں بیان ہوئی ہے)
عام لوگوں میں رائج حلالہ اور قرآن میں بیان شدہ حکم حلالہ میں فرق
۔ عوام میں جو حلالہ رائج ہے وہ یوں ہے کہ جو اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد نادم ہو جائے تو وہ حلالہ کو اپنی مشکل کا راہ حل سمجھتے ہوئے اپنی بیوی کو کسی ملاں کے پاس بھیج دیتا ہے اور وہ ملاں اسے حلال کر کے لوٹا دیتا ہے یہ چیز اہل تشیع کے سماج میں رائج نہیں ہے کیونکہ اہل تشیع کے نزدیک تین بار طلاق کہنے سے طلاق نہیں ہوتی اور جو شخص الگ الگ دفعہ تین بار اپنی بیوی کو طلاق دے وہ دوبارہ کم ہی اس کی طرف رجوع کی سوچے گا اور پھر حلالہ کرنے کی کوشش کرے گا اس لیے حلالہ زیادہ تر اہلسنت کے نزدیک رائج ہے۔
لیکن قرآن اور شریعت میں جو حلال کرنے کا طریقہ کار ہے وہ یہ ہے کہ تین طلاق کے بعد عورت کو اختیار حاصل ہے وہ چاہے کسی سے شادی کرے یا نہ کرے اور کسی دوسرے مرد سے شادی کرنے کی صورت میں بھی اس کو مکمل اختیار ہے کہ وہ دوسرے شوہر سے طلاق لے یا نہ لے اس میں پہلے مرد کا کوئی رول نہیں ہے اب ایسی صورت میں یہ عورت دوسرے کے ساتھ سالھا سال زندگی بسر کرے اور فرضا اگر اس کا شوہر اسے اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا مر جائے تو ایسی صورت میں اگر وہ عورت چاہے تو پہلے مرد کے ساتھ دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔
لہذا وہ حلالہ جو اہل سنت کے سماج میں رائج ہے بالکل ناجائز اور حرام ہے اور اس بات پر تمام علمائے اہلسنت اور علمائے اہل تشیع کا اتفاق ہے لیکن حلالہ کا وہ طریقہ جو قرآن اور احادیث میں بیان ہوا ہے وہ تمام علمائے اسلام کے نزدیک صحیح اور اسلامی طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔