Sunday, 8 November 2015

Martyrs of Karbala- Martyrdom of Burayr bin Khuzayr

Martyrdom of Burayr bin Khuzayr
(Tabari) Thus the battle started. Azdi says that Yusuf bin Yazeed related to me from Afeef bin Zuhayr bin Abi Akhnas, who was present at Karbala. He says that Yazeed bin Ma'qal, who was from the tribe of Bani Umayrah bin Rabi'ah, which is a branch of Bani Salimah of Abdal Qays, came forward. He told Burayr, "O Burayr bin Khuzayr! Do you see as to what Allah has done to you." Burayr replied, "By Allah! Allah has dealt fairly with me and has brought forth evil for you." Yazeed said, "You speak a lie, and you never lied before. Do you remember once when I was walking alongwith you in Bani Lawzan, you told me that Usman bin Affan had killed himself, while Mu'awiyah bin Abu Sufyan was a misguided man and the one who leads others astray, while the true and Righteous Imam and guide is Ali bin Abi Talib"? Burayr replied, "I bear witness that this is (still) my belief." Yazeed bin Ma'qal said, "I bear witness that you are among the astray." Then Burayr said, "Then do you desire that we imprecate one another, while invoking the curse of Allah upon the one who lies. Then the one on the right path should kill the one who is upon the wrong, then I shall come out to fight with you."
The narrator says that both of them came out into the battlefield and lifting their hands invoked the curse of Allah upon the liar and that the righteous one should kill the evil. Then they started fighting one another. There were exchange of swords between them, when Yazeed bin Ma'qal dealt a light and ineffective blow on Burayr. Then Burayr dealt a blow upon his head, which cut his head and reached his brain. He rolled down upon the ground like a ball, while the sword of Burayr was stuck in his head, and he was lifting it up and down to pull it out.
Then Razee bin Manqaz Abadi attacked Burayr and grappled him. Both of them struggled until Burayr threw him down and sat on his chest. Then Razee called out, "Where are my defenders"? Hearing this Ka'ab bin Jabir bin Umro Azdi advanced to assist him, when I said, "This is Burayr bin Khuzayr, the recitor of the Qur'an, who taught us the Qur'an in the Mosque." He attacked Burayr with his spear. When Burayr felt the point of the spear, he threw himself upon him and bit his nose. But Ka'ab sunk his spear into him and drew it till his heart, while the entire point of the spear entered his back. Then he hit him on the head and started attacking him with his sword until he killed him (May Allah's Mercy and Blessings be upon him).
Afeef bin Zuhayr bin Abi Akhnas says, that it is as if I see Razee, who was scattered on the ground, arising while brushing off the dust from his cloak and telling Ka'ab that, "O brother (from the clan) of Azd! You have favoured me and I shall never forget it."
Yusuf bin Yazeed says, that I asked Afeef whether he had really witnessed it with his own eyes, to which he replied that, "I have seen it with my own eyes and heard it with my own ears."
When Ka'ab bin Jabir returned back, his wife, and his sister, Nawar binte Jabir told him, "You have sided with the opponents of the son of Fatemah (a.s.), and have killed the chief of the Qur'an Recitors? By Allah! I shall never ever speak to you from now on." And Ka'ab bin Jabir recited the following couplets: "You ask regarding me and shall be informed regarding the morning of Imam Husain (a.s.), when the spears were being thrust, that did not I commit the act which you despise? When it could not be imagined that day as to what I would do, I had with me my spear, which did not falter and a white shining sword, which was sharp-edged and fierce, then I unsheathed it and attacked a group, whose Religion was not the same as mine, which was the obedience to the son of Harb, when I had not witnessed anyone similar to them in their age before them, who had fought fiercely in the battle, they are those who safeguard their honour, then they bore patiently against the spears and swords and stepped into the battlefield, I wish this had profited them, then when you meet Ubaydullah, give him this message that I am obedient to the Caliph and compliant of his words, then it is I who killed Burayr and favoured the son of Manqaz, when he called for assistance."
Reference: Nafasul Mahmoom
by Sheikh Abbas Qummi
Page 115
Publisher: Islamic Study Circle

Wednesday, 14 October 2015

امام رضا علیہ السلام اور ذبح عظیم کی تفسیر

جب ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنے فرزند دلبند حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنا چاہا تو چھری نے گلا نہیں کاٹا؛ ابراہیم علیہ السلام نے چھری پتھر پر ماری تو پتھر ٹوٹ گیا اور آپ مطمئن ہوگئے کہ چھری میں کوئی نقص نہیں ہے تا ہم چھری اسمعیل کے گلے پر کارگر نہ ہوئی اور پھر اسی اثناء میں ایک دنبہ ظاہر ہوا اور حکم آیا کہ اب یہ دنبہ ذبح کرو اور یہ کہ ہم نے ذبح عظیم کو اسمعیل کی قربانی کا متبادل قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ ذبح عظیم اس دنبے کی قربانی تو نہیں ہوسکتی تھی چنانچہ ایک ایسی شخصیت کی قربانی متبادل ہونا ضروری ہے جس کا مقام اسمعیل علیہ السلام سے کہیں اونچا ہے۔ ہم یہاں امام رضا علیہ السلام کی نگاہ بیان کرتے ہیں ذبح عظیم کے بارے میں اور یہ بات ایک حدیث کے ضمن میں بیان ہوئی ہے جو حقیقت کے جستجوگروں کے لئے کافی جاذب و دلچسپ ہے:ما جاء عن الرضا عليه السلام في تفسير قول الله عز وجل: "و فديناه بذبح عظيم" حدثنا عبد الواحد بن محمد بن عبدوس النيسابوري العطار بنيسابور في شعبان سنه اثنين وخمسين وثلاثمأه قال: حدثنا محمد بن على بن محمد بن قتيبه النيسابوري عن الفضل بن شاذان قال: سمعت الرضا عليه السلام يقول: لما أمر الله تبارك وتعالى إبراهيم عليه السلام ان يذبح مكان ابنه اسماعيل الكبش الذي انزله عليه تمنى إبراهيم عليه السلام ان يكون يذبح ابنه اسماعيل عليه السلام بيده وانه لم يؤمر بذبح الكبش مكانه ليرجع الى قلبه ما يرجع قلب الوالد الذي يذبح اعز ولده بيده فيستحق بذلك ارفع درجات أهل الثواب على المصائب فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم من احب خلقي اليك؟ فقال: يا رب ما خلقت خلقا هو احب الى من حبيبك محمد (ص) فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم افهو احب اليك أو نفسك؟ قال: بل هو احب الى من نفسي قال: فولده احب اليك أو ولدك؟ قال: بل ولده قال: فذبح ولده ظلما على اعدائه اوجع لقلبك أو ذبح ولدك بيدك في طاعتي؟ قال: يا رب بل ذبحه على ايدى اعدائه اوجع لقلبي قال: يا إبراهيم فإن طائفه تزعم انها من امه محمد (ص) ستقتل الحسين عليه السلام ابنه من بعده ظلما وعدوانا كما يذبح الكبش فيستوجبون بذلك سخطى فجزع إبراهيم عليه السلام لذلك وتوجع قلبه واقبل يبكى فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم قد فديت جزعك على ابنك اسماعيل لو ذبحته بيدك بجزعك على الحسين عليه السلام وقتله واوجبت لك ارفع درجات أهل الثواب على المصائب فذلك قول الله عز وجل: (وفديناه بذبح عظيم) (1) ولا حول ولا قوه إلا بالله العلى العظيم .
(عیون اخبارالرضا (ع) ج 2 ص 188)۔
و فدیناہ بذبح عظیم (سورہ صافات آیت 107) کے بارے میں امام رضا سے جو منقول ہے وہ کچھ یوں ہے:شیخ صدوق روایت کرتے ہیں کہ عبد الواحد بن محمد بن عبدوس النيسابوري العطار نے ماہ شعبان سنہ 352 کو ہمارے لئے نقل کیا اور کہا کہ ہمیں محد بن علی بن محمد بن قتیبہ النیسابوری نے فضل بن شاذان سے نقل کرکے سنایا کہ میں (فضل بن شاذان) نے امام رضا علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: جب خداوند متعال نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا ہے اپنے بیٹے کی جگہ دنبے کو ذبح کردے تو اہراہیم علیہ السلام کے دل میں گذری کہ کاش میں اپنا بیٹا اسمعیل اپنے ہاتھ سے خدا کی راہ میں ذبح کرتا اور مجھے بیٹے کی جگہ دنبہ ذبح کرنے کا حکم نہ ملتا تا کہ اس طرح وہ اس باپ کا احساس پاتے جس نے اپنے سب سے پیارے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہوتا ہے اور اس کے مصائب برداشت کرنے پر انہیں ثواب کے بلند ترین مراتب نصیب ہوتے خداوند متعال نے ابراہیم علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ اے ابراہیم (ع)! آپ کے نزدیک میری محبوبترین مخلوق کون ہے؟ عرض کیا: خداوندا! تو نے اب تک ایسی مخلوق خلق نہیں فرمائی جو میرے نزدیک تیرے حبیب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ محبوب ہو۔ وحی آئی: اے ابراہیم! آپ ان سے زیادہ محبت کرتے ہيں یا اپنے آپ سے؟عرض کیا: ان سےوحی آئی: اے ابراہیم! کیا آپ ان کے بیٹے سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا اپنے بیٹے سے؟عرض کیا: ان کے بیٹے سےوحی آئی: کیا آپ ظلم و ستم کی وجہ سے دشمنوں کے ہاتھوں ان کے بیٹے کا سر جدا ہونے سے آپ کو زیادہ صدمہ پہنچتا ہے یا میری اطاعت کی بنا پر اپنے ہاتھوں اپنے بیٹے کا سر جدا کرنے سے؟عرض کیا: دشمنوں کے ہاتھوں ان کے بیٹے کا سر جدا ہونے سے مجھے زیادہ صدمہ پہنچتا ہےخداوند متعال نے ارشاد فرمایا: لوگوں کا ایک گروہ جو اپنے آپ کو امت محمد (ص) سمجھتے ہیں محمد (ص) کے بیٹے کو گوسفند کی مانند ذبح کریں گے اور اپنے اس کام کی وجہ سے میرے غضب کے مستحق قرار پائیں گےابراہیم علیہ السلام اس حقیقت سے آگاہ ہو کر جزع و فزع کرنے لگے، ان کو سخت صدمہ ہوا اور گریہ و بکاء کرنے لگے چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی:اے ابراہیم (ع)! حسین علیہ السلام اور ان کے قتل پر آپ کے اس جزع و فزع کی بنا پر میں نے اسمعیل (ع) پر آپ کے غم اور رنج کو ـ اگر آپ انہیں ذبح کرتے ـ قبول کرلیا اور مصائب پر صبر کی پاداش میں ثواب کے بلند ترین درجات آپ کے نصیب کروں گآ۔ [امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں] یہی ہے اللہ تعالی کے اس قول کا مطلب کہ "و فدیناهم بذبح عظیم = ہم نے ذبح عظیم اور عظیم قربانی کو اسمعیل (ع) کی قربانی کا فدیہ اور عوض قراردیا۔ (سورة الصافات: الاية 107.) لا حول و لا قوة الا بالله العلی العظیم. مرحوم علامه طهرانی اپنی کتاب "روح مجرد" ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:طہران میں جس خطیب کو محرم کے عشرے کے لئے بلایا چاتا عشرے کی آخری رات اس کو آئندہ سال کے اسی عشرے کے لئے بلایا جاتا تھا۔ مرحوم دُرّی کی حیات کا آخری سال تھا اور طہران میں خطابت کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ آٹھویں یا نویں رات کو ایک نوجوان نے مجلس سے پہلے ان سے پوچھا: اس شعر سے مراد کیا ہے:
مرید پیر مغانم ز من مرنج ای شیخ چرا كه وعده تو كردی و او به جاآورد
میں پیر مغان کا مرید ہوں مجھ سے رنجیدہ خاطر مت ہونا اے شیخکیونکہ وعدہ آپ نے کیا اور وہ بجا لائے
مرحوم دُرّی نے کہا: اس سوال کہ جواب میں منبر سے دوں گا تا کہ دوسرے بھی استفادہ کرسکیں۔انھوں نے منبر پر خدا کی طرف سے آدم ابوالبشر علیہ السلام کو گندم کھانے سے روکے جانے کی داستان نقل کرتے ہوئے کہا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کبھی گندم کی روٹی تناول نہیں فرمائی اور جو کی روٹی بھی کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور پھر کہا:اس شعر میں شیخ سے مراد "حضرت آدم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام ہے جنہوں نے جنت میں گندم سے استفادہ نہ کرنے کا وعدہ دیا لیکن اس پر عمل نہ کرسکے اور گندم کھا لی اور یہاں "پیر مغان" سے مراد امیرالمؤمنین صلوات اللہ علیہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی گندم کی روٹی نہیں کھائی اور آدم (ع) کا وعدہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نبھایا۔ یہ اس شعر کی پوری تشریح تھی جو مرحوم دری نے پیش کرکے مجلس ختم کردی۔سال ختم ہونے سے پہلے ہی مرحوم دری دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور محرم میں اسی رات ـ جس رات اس نوجوان نے مرحوم دری سے مذکورہ بالا سوال پوچھا تھا وہ نوجوان ـ مرحوم دری کو خواب میں دیکھتا ہے اور مرحوم دری کہتے ہیں: آپ نے مجھ سے گذشتہ سال اس شعر کا مطلب اور مفہوم پوچھا تھا اور میں نے اس طرح جواب دیا تھا لیکن اب مجھ پر اس شعر کا صحیج مفہوم منکشف ہوا اور وہ یہ ہے کہ:شعر میں شیخ سے مراد حضرت ابراہیم علیہ و علی نبینا و آلہ الصلواة والسلام ہیں اور وعدہ "بیٹے کی قربانی" ہے اور "پیر مغان" سے مراد حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں اور اگرچہ ابراہیم علیہ السلام نے وعدہ وفا کیا لیکن وعدے کی تکمیل سیدالشہداء علیہ السلام نے کی اور کربلا میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کی قربانی دی۔
(حافظ و پیرمغان، ص ،۱۸ به نقل از روح مجرد، علامه طهرانی).
اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر
اقبال

جن افراد کی ماں سید ہے، وہ سید کیوں شمار نہیں ہوتے، جبکہ حضرت زہرا{ع} کے تمام فرزند سید ہیں؟


اسلام میں "سید" کی اصطلاح کا ان افراد پر اطلاق ہوتا ہے، جن کے باپ کا شجرہ نسب، پیغمبراسلام{ص} کے جد امجد ہاشم تک پہنچتا ہو، اگرچہ حضرت زہراء{س} کی اولاد بھی نہ ہو۔ بہ الفاظ دیگر سادات سے مراد وہ افراد ہیں جن کا شجرہ نسب ہاشم تک پہنچتا ہو اور ضروری نہیں ہے کہ وہ حضرت زہرا{ع} کی اولاد ہوں۔ اس لیے ، حضرت زہرا{ع} کی اولاد ان سے نسبت رکھنے کی وجہ سے سادات نہیں ہیں، بلکہ اس لیے سید ہیں کہ باپ اور ماں دونوں کی طرف سے ان کا شجرہ نسب ہاشم تک پہنچتا ہے۔ 

جن افراد کی ماں سید ہے، وہ سیادت کے لحاظ سے حضرت زہراء{س} سے منسوب ہیں، لیکن اس نکتہ پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ "سید" کی اصطلاح حضرت زہراء{ع} کی اولاد سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ وہ تمام افراد، جن کے باپ کا شجرہ نسب پیغمبراسلام{ص} کے جد امجد ہاشم تک پہنچتا ہو، سید شمار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے تمام علماء کا اس مسئلہ پر اتفاق نظر ہے اور صرف اس مسئلہ سے متعلق بعض احکام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر سادات کو خمس دینا، کہ اکثر فقہا کی نظر میں جائز نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے ، کہ جن کی ماں سید ہے، یقیناً وہ رسول خدا{ص} کی ذریت ہیں، کیونکہ ائمہ اطہار{ع} بھی اسی وجہ سے پیغمبراکرم{ص} کی ذریت شمار ہوتے ہیں۔ اس مسئلہ کی گواہ وہ روایت ہے، جو امام رضا{ع} نے عباسی خلیفہ مامون کے جواب میں فرمائی ہے:
" مامون نے حضرت{ع} سے کہا: میں تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حسب و نسب کے لحاظ سے آپ{ع} اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے اور فضیلت کے لحاظ سے بھی ہم دونوں گروہ یکساں ہیں اور ہمارے فضائل بیان کرنے میں جو اختلاف ہمارے پیرووں کے درمیان ہے، وہ نفسانی خواہشات اور تعصبات پر مبنی ہے۔
امام{ع} نے فرمایا: اگر اجازت دو تو میں تمھارے سوال کا جواب دوں اور اگر نہیں چاہتے ہو تو میں جواب نہیں دوں گا۔ مامون نے کہا: میں نے یہ سوال اس لیے پیش کیا ہے کہ آپ سے استفادہ کروں۔ حضرت{ع} نے فرمایا: اگر رسول خدا{ص} اس بید کے کھیت {نیزار} سے نکل کر آپ کی بیٹی کی خواستگاری کریں گے تو آپ کیا کریں گے؟ مامون نے کہا: سبحان اللہ؛ کیا کوئی ایسا ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی رشتہ داری پر خوش نہ ہو؟؛ حضرت{ع} نے فرمایا: کیا میں بھی اس قسم کے رشتہ پر راضی ہوسکتا ہوں؟؛ مامون نے، ایک لمحہ رکنے کے بعد جواب دیا: خدا کی قسم آپ کی قرابت رسول خدا{ص} سے متصل ہے[1]۔
اس روایت سے نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ رسول خدا{ص} کی دختر کی نسبت سے اولاد اور نواسے بھی رسول خدا{ص} کی ذریت ہیں اور رسول خدا{ص} کے لیے ان سے ازدواج کرنا جائز نہیں ہے۔
لیکن باپ کی راہ سے نسل و قبیلہ کا انتساب، ایک رائج اور عرفی امر ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک کے مانند، ہمارے ملک {ایران} میں بھی افراد کا باپ کی نسبت سے اندراج کرتے ہیں، اگرچہ ماں سے انتساب بھی ایک مسلم امر ہے۔ لیکن جس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قوموں کے بعض عرفی امور کو اسلام نے بھی ایک اصول کے عنوان سے قبول کیا ہے، اس مسئلہ کی دلیل بھی تعبدی ہے اور روایات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ سوال میں بیان کیے گیے موضوع کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں امام کاظم{ع} مستحقین خمس کا بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: جن کی ماں بنی ہاشم سے اور باپ قریش کے دوسرے قبائل میں سے ہوں، وہ صدقات سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن ان کے لیے خمس نہیں ہے، کیونکہ خداوندمتعال قرآن مجید میں فرماتا ہے: " ادعوھم لابائھم" یعنی لوگوں کو ان کے باپ سے پکارتے ہیں۔[2] ، [3]
[1]مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 10، ص 349، ح 9، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ھ.
[2]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج1، ص 539، ح4، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 ھ ش.
[3]الأحزاب، 5

کسی سیدہ خاتون کا غیر سید مرد سے شادی کا کیا حکم ہے ؟

- شیعہ غیرسید مرد کا شیعہ سیدہ لڑکی سے شادی کرنے میں شرعی لحاظ سے کوئی اشکال نہیں ہے اور اسلام کی نظر میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ سیدہ لڑکی کا غیر سید سے شادی جائز نہ ہو ۔
اس مسئلہ کی دلیل خود قرآن ہے ۔
اوراس کاواضح نمونہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی پھوپھی زینب کا زید بن حارثہ سے شادی کرنا ہے کہ قرآن کریم میں یہ صریحاً ذکر ہوا ہے ۔
جیسا کہ سور احزاب میں فرماتا ہے :''« وَ ما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا مُبِيناً * وَ إِذْ تَقُولُ للَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللَّهَ وَ تُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ وَ اللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشاهُ فَلَمَّا قَضى زَيْدٌ مِنْها وَطَراً زَوَّجْناكَها لِكَيْ لا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْواجِ أَدْعِيائِهِمْ إِذا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَراً وَ كانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا»)سوره احزاب آیت 36 تا 37)
اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب ا للہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کردیں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا ۔اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت ) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا ، کہہ رہے تھے :اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو اور وہ بات آپ نے اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں ، پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پور ی کر لی تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تا کہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے ) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر ہی رہے گا ''۔
واقعہ یہ ہے کہ :بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جب حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے شادی کی ، اس وقت خدیجہ نے ''زید '' نامی کسی غلام کو خریدا اور بعد میں اسے پیغمبر اکرم (ص) کو ہدیہ کے طور پر دیا ،اور پیغمبر اکرم(ص) نے اسے آزاد فرمایا، اورجب اس کے قبیلہ والوں نے اس سے بائیکاٹ کیا تو آپ (ص) نے اسے اپنا بیٹا بنایا کہ اصطلاح میں اسے تبنی کہا جاتا ہے ۔
اسلام کے ظہور ہونے کے بعد ''زید '' ایک مخلص مسلمان ہوا ، اور اسلام میں اپنا مقام پیدا کیا ،اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ ''موتہ'' میں لشکر اسلام کے کمانڈر بن گئے اور اسی جنگ میں شہید ہوئے ۔
جب پیغمبر اکرم(ص) کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت زینب بنت جحش کی منگنی کی ،زینب بنت جحش رسول خدا (ص) کی پھوپھی کی بیٹی تھی اور سیدہ تھی اور زید ایک آزاد ہونے والا غلام تھ کہ حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم(ص) کو ہدیہ دیاتھا اور وہ سید نہیں تھا ، پیغمبر اکرم (ص)نے جب زینب کی منگنی کی تو وہ یہ سوچ کر خوشحال ہوئی تھی کہ آپ(ص)اپنے لیے منگنی کررہے ہیں اس لیے خوشحال ہو کر راضی ہوئی ،لیکن جب بعد میں یہ پتہ چلا کہ زیدکے لئے منگنی کی ہے تو سخت پریشان ہوئی اور منع کرنے لگی ، اور اس کا بھائی ''عبدا للہ '' بھی اس کے لئے راضی نہیں تھا اور سختی سے مخالفت کررہا تھا، اس وقت جن آیات کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے ان میں سے ایک نازل ہوئی اور زینب اورعبداللہ کو یہ خبر دار کیا کہ جب خدا اور اس کا رسول کی کام کو ضروری سمجھتے ہیں تو کوئی اس کی مخالفت نہیں کر سکتا ،انہوں نے جب یہ بات سنی تو وہ بھی خدا کے حکم سے سامنے سر تسلیم خم ہوئے ( البتہ جیسا کہ معلوم ہے یہ شادی کوئی معمولی شادی نہیں تھا بلکہ یہ زمان جاہلی کی ایک غلط رواج کو باطل قرار دینے کے لئے ایک مقدمہ تھا ، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں کوئی با شخصیت عورت کسی غلام سے شادی کرنے پر رضامند نہیں ہوتی تھی،اگرچہ اس کا انسانی لحاظ سے بہت ہی قدر و قیمت والا ہی کیوں نہ ہو ۔
اگر سیدہ لڑکی کا کسی غیر سید سے شادی کرنے میں کوئی مختصر بھی مشکل ہوتا تو خدا اور اس کا رسول ا س کی تائید نہیں کرتے ، لیکن یہاں پر زینب نے جب اس سے منع کیا تو خداوند متعالی نے اسے خبردار کیا ۔
کہ یہ کسی بھی صورت میں یہ شادی واقع ہونا چاہئے تا کہ یہ غلط اور باطل رواج اور نسلی امتیاز بندی ختم ہو جائے ۔
البتہ بعد میں زید اور زینب کے درمیان اختلافات ہوئے اورزینب کو طلاق ہوئی اس کے بعد زینب کی حوصلہ افزائی اورتبنی کے غلط رواج کو توڑنے کے لئے پیغمبر اکرم(ص) زینب سے شادی کر لی کہ دوسری آیت اس مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔
بہر حال یہ آیت کریمہ سید ہ کا غیر سید سے شادی کے جائز ہونے کا بہترین دلیل ہے ۔
اس کا ایک اور نمونہ ، عبد المطلب کی پوتی ضباعہ کا مقداد سے شادی کرنا ہے کہ روایات میں نقل ہوا ہے مخصوصاً اس روایت کے ذیل میں تصریح ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:''میں نے یہ شادی کرایا ہے تا کہ لوگوں کے درمیان شادی وسیع پیمانہ پر واقع ہو جائے اور تمام قسم کے قید اور بند ختم ہو جائے ''۔
ہمارے زمانہ کے بہت سارے مراجع جیسے آیت اللہ خوئی اور آیت اللہ گلپائیگانی کہ خود سادات بنی زہرا میں سے ہیں ، لیکن انہوں نے اپنی بیٹیوں کو غیر سادات کو دیئے ہیں ۔
لہذا سید ہ اور غیر سید میں شادی جائز نہ ہونے کا جو عقیدہ ہے دین میں بدعت ہے شاید دشمنان اہل بیت نے اس کو رواج دیا ہو گا تا کہ اس طرح سادات اور غیر سادات میں کوئی گهرا تعلقات پیدا نہ ہو جائے ۔
http://www.fazellankarani.com/urdu/qa/6191

امام حسن علیہ السلام کے واقعات بھی واقعات کربلا سے کچھ کم نہیں

صلح حسن نے دراصل امام حسین کی آنے والی قربانی اور ذبح عظیم کی گہری تاثیر کی داغ بیل ڈالی ۔ چنانچہ جب حسین علیہ السلام مظلوم کی شہادت عظمیٰ کا امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے دس سال بعد وقت آ گیا تو امام حسین نے بڑی آن بان سے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرلی تو اس درخت میں ثمر آیا جو امام حسن نے لگایا تھا اوراسلام کے بھیس میں اسلام کشی کا جو بھوت بنایا گیا تھا اس کا پردہ چاک ہو گیا۔اور دنیا والوں نے دیکھ لیا کہ محمد (ص) اور آل محمد کیا چاہتے ہیں اور سلطنتوں کا بہاؤ کس طرف تھا۔
امام حسن علیہ السلام کی صلح شیعہ حضرات کے نزدیک کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ۔وہ انہیں امام ۔ جانشین رسول ۔ صاحب اعجاز ۔علم وہبی کے مالک مانتے ہیں۔ ایک بڑے عالم دین سے ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی طرز زندگی بالکل مختلف بتائی جاتی ایک نے صلح اختیار کی اور دوسرے نے جنگ۔ وہ بزرگ ایک موٹی سی چادر لے کر دریا پر گئے اور اس کو دریا کے پانی میں خوب اچھی طرح سے ڈبویا ۔اس کے بعد چونکہ پانی کے وزن سے چادر بہت بھاری ہو گئی تھی لہٰذا ایک شاگرد کو ایک سرا پکڑوایا اور خود دوسرا سرا پکڑا اور کہا اسے نچوڑو۔اب شاگرد ہاتھ دائیں طرف گھما کر پانی نچوڑ رہا تھا اور قبلہ کا ہاتھ ادھر سے اگر دیکھا جائے تو مخالف سمت میں چل رہا تھا تاکہ پانی نچوڑتا رہے ۔ جب چادر کا پانی نکل گیا تو مولانا نے شاگردوں سے پوچھا ۔ کیا بات تم لوگوں کی سمجھ میں آئی۔ دیکھو چادر کو سکھانے کے لئے ایک کا ہاتھ CLOCKWISE اور دوسری سمت والے کا اس کی مخالف سمت میں چل رہا ہے مگر مقصد دونوں کا ایک ہی ہے کہ کپڑے سے پانی نکال دیا جائے۔اسی طرح سے دونوں شہزادوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ نانا کے دین اسلام کو کسی طرح سے بچا لیا جائے ۔ایک نے صلح کا طریقہ استعمال کیا دوسرے نے کربلا میں روز عاشورہ جنگ کر کے اور قربانیاں دے کر اسلام کو بچایا۔ اور حسین علیہ السلام بھی بھائی حسن علیہ السلام کی ۰۵ ہجری میں شہادت کے بعد 10 سال تک صبر کا مظاہرہ کرتے رہے۔
بحکم حق کہیں پر صلح کر لیتے ہیں دشمن سے کہیں پر جنگ ِ خاموشی جواب ِ جنگ ہوتی ہے
زمانہ یہ سبق لے فاطمہ(س) کے دل کے ٹکڑوں سے کہاں پر صلح ہوتی ہے کہاں پر جنگ ہوتی ہے
امام حسن علیہ السلام ایک ایسے ہادی اور رہنما تھے کہ جنہوں نے بچپن ہی سے دین کی تبلیغ اور رہنمائی کا کام شروع کر دیا تھا۔ آپ نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ سرکار رسالت کو گود میں لے کر کہنا پڑا کہ یہ دونوں میرے فرزند امام ہیں چاہے کھڑے رہیں یا بیٹھ جائیں ۔ یہ دونوں جوانان ِ جنت کے سردار ہیں اور ان کا باپ ان سے بھی افضل ہے ۔ اب اگر امت کے بوڑھے بھی جنت میں جانے کے خواہش مند ہوں گے تو ان کو ان شہزادوں کو جنت کا سردار ماننا پڑے گا اور ان کے بابا کو افضل ماننا پڑے گا۔جنت ان کے قبضے میں ہے اور کوثر ان کے باپ کے قبضے میں ہے۔ ان کی ماں خاتون جنت ہے ۔ ان سے واسطہ رکھنا ہی پڑے گا. جب ہی تو اصحاب کبار اپنے بچوں کی شکایت کے جواب میں کہا کرتے تھے کہ اگر حسن علیہ السلام ابن علی علیہ السلام تم کو غلام زادہ کہتے ہیں تو ان سے لکھوا لاؤ ہم ان کے غلام بن کر جنت میں چلے جائیں گے۔
رسول اللہ نے اپنے قول وفعل سے امام حسن علیہ السلام کے فضائل بیان کئے ہیں۔ نواسہ مسجد میں آ جائے تو منبر سے اتر کر گودی میں بٹھا لیا کرتے تھے۔ سجدے میں آ جائے تو سر نہ اٹھاتے تھے۔عید کا دن تھا تو کاندھے پر بٹھا کر ناقہ بن گئے۔مباھلے کا دن آیا تو انگلی پکڑ کر لے چلے۔ تطہیر کی منزل آئی تو گلے سے لگا کر ضعف رسالت کو قوت میں تبدیل کر دیا۔ عید کا دن آیا تو بیٹی زہرا (س) کی دہلیز پر بیٹھ کر امام حسن علیہ السلام کے دہن اقدس کے بوسے لئے۔اور ہرنی کا بچہ آیا تو اسے شہزادے کے حوالے کر دیا۔
امیر امومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زمانے میں بھی اگر کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو آپ امام حسن علیہ السلام سے ہی جواب دلواتے تھے۔ سب ہی کی کتابوں میں ہے کہ امام حسن علیہ السلام گہوارہ سے ہی لوح محفوظ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
امام حسن علیہ السلام کے کردار پر نظر کی جائے تو اخلاق میں نبی کا انداز نظر آتا ہے ۔کردار میں علی علیہ السلام کا انداز۔ شجاعت میں ھاشم کا جلال ۔استقلال میں ابو طالب کے تیور ۔ ایمان و یقین میں عبدالمطلب کا نقشہ۔ خاندان کی عزت ۔ بزرگوں کی یادگار۔مذہب کا ذمہ دارا۔ اسلام کا خطیب۔صلح کا نقیب۔قرآن کامفسر۔اُمت کا مصلح۔کعبہ کا محافظ۔ اور سیرت رسول کا ایسا ورثہ دار کہ کہ ہجوم ِ مصائب میں طعن و طنز کے باوجود حدیبیہ کی تاریخ دہرا کر صلح کر لی اور اسلام کو ایک بڑے خطرے سے بچا لیا۔ قدرت کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ دونوں کی تاریخ وفات کو ایک کر دیا ۔ یعنی ۸۲ صفر۔ جس تاریخ کو پہلا مصلح دنیا سے گیا تھا اسی تاریخ کو دوسرا شہزادہ صلح بھی دنیا سے رخصت ہوا۔
قرآن مجید کی آیتیں اور مرسل اعظم کے ارشادات امام حسن کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں ۔ آیة تطہیر عصمت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت مباھلہ صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت صلح کردار پر روشنی ڈال رہی ہے ۔ اور سورة دہر آپ کی سخاوت کا قصیدہ پڑھ رہی ہے ۔امام حسن امام معصوم ہیں ان کا ہر قول و فعل ، حرکت و سکون میزان عصمت میں تلا ہوا ہے۔، اور اعتراض سے بالا تر ہے۔ مستحق اتباع و تحسین ہے ممکن ہے کہ ہماری سمجھ میں کسی فعل کی مصلحت نہ آتی ہو۔
آئمہ علیہم السلام کے علم اللہ کے خاص عطا کردہ تھے انہوں نے کسی اسکول میں نہیں پڑھا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ روم نے حاکم ِ شام سے دو سوال کے جواب مانگے تھے وہ عاجز آگیا تو اس نے مسئلے کو امام حسن علیہ السلام کے سامنے پیش کیا اور آپ نے بتا دیا کہ زمین پر وہ جگہ جو آسمان کے ٹھیک وسط میں واقع ہے وہ پشت ِ خانہ ءکعبہ ہے ۔ اور زمین کا وہ خطہ جس پر سورج کی روشنی صرف ایک بار پڑی وہ نیل کی گہرائی ہے جس پر ایک دفعہ حضرت موسیٰ کے گزرتے ہوئے سورج کی روشنی پڑی تھی اور اس کے بعد پھر دریا حائل ہو گیا۔
امام حسن علیہ السلام کا دستر خوان مدینہ منورہ میں بہت مشہور تھا ۔ ایک شخص مہمان آیا اورجب وہ کھانے بیٹھا تو ایک لقمہ کھاتا تھا اور ایک لقمہ بچا کر رکھ لیتا تھا ۔امام نے فرمایا تو صاحب عیال ہے َ؟ اس نے کہا۔ نہیں ۔ میں نے مسجد میں ایک شخص کو جو کی سوکھی روٹیاں کھاتے دیکھا ہے چاہتا ہوں کہ اس کی بھی کچھ مدد کر دوں۔ امام نے فرمایا ۔ بھئی وہ میرے بابا علی مرتضےٰ ہیں ۔ان کی زندگی کا یہی معمول ہے ۔ہم اہل بیت جو دنیا کو کھلاتے ہیں وہ اور ہوتا ہے اور جس پر خود اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ اور ہوتا ہے۔ہمارے لئے نعمتوں کا دسترخوان اللہ نے آخرت میں بچھایا ہے۔
ایک دفعہ معاویہ نے مدینہ آ کر اعلان کیا کہ لوگ بادشاہ کو آ کر سلام کریں اور بادشاہ سب کو انعام و اکرام تقسیم کرے گا۔ یہانتک کہ امام حسن علیہ السلام کو اس کے کارندے مجبور کرکے اس کے پاس لے آئے۔ امام حسن جب پہنچے تو اس نے ارکان سلطنت سے کہا کہ حسن اس لئے دیر سے آئے ہیں کہ میرا خزانہ ختم ہو جائے۔ لہذا میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ صبح سے سارا دن جتنا مال ،سارا اہل مدینہ کو انعام دیا ہے اس سے زیادہ ان کو دوں۔ یہ کہہ کر اس نے خزانہ منگوایا اور کہا یہ آپ کا حصہ ہے۔ امام جب جانے لگے تو معاویہ کے ایک ملازم نے آپ کی جوتیاں سیدھی کر دیں ۔مولا نے حکم دیا کہ یہ سب دولت میری جوتی سیدھی کرنے کے عوض اس ملازم کو دے دی جائے۔ مولا کی سخاوت پر معاویہ کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔

سوال: امام زمانہ(عج) کی حکومت میں ، علم کے میدان میں کس قسم کی پیشرفت اور ترقی ہوگی ، اور اس زمانے میں علم میں ترقی ہونے کا کیا فایدہ ہے؟

جواب : امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ"تمام اولین و آخرین کا علم ستائیس(۲۷)حروف پر مشتمل ہے ، ان ستائیس(۲۷) حروف میں دو حرف انبیاء اور پیامبران خدا کو عطا کیے گیے ہیں اور ابھی جو علم لوگوں اور انسان کے پاس موجود ہے ، انہیں دو حروف پر مشتمل ہے ، اور دنیا والے ان دو حروف سے زیادہ تر علم نہیں رکھتے ، لیکن جب ہمارے قائم (مہدی) قیام کریں گے اس علم کے بقیہ ۲۵ حروف کو بھی خزانۂ علم سے خارج کرکے لوگوں کے درمیان منتشر کریں گے اور وہ دو حروف پر مشتمل علم جو اس وقت انسانوں کے پاس ہے ان ۲۵ کے ساتھ کو اکھٹا کرکے پورے ۲۷ حروف پر مشتمل علم کو نشر کریں گے"(بصائر الدرجات،ص۱۱۷)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور اور حکومت میں علم کے میدان میں غیر قابل تصور ترقی ہوگا ۔
اور جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اس زمانے میں اس علم کا کیا فایدہ ؟یہ ایک طبیعی اور مسلم بات ہے کہ انسان کو جو دنیوی اور اخروی سعادت کا وعدہ دیا گیا ہے وہ علم ہی کے مرہون منت ہے اور جن نیکیوں کا وعدہ منتظرین مہدی کے لئے روایات میں دیا گیا ہے وہی علم و معرفت سے مربوط ہے ، اور جب تک انسان علم و آگاہی کے میدان میں ترقی نہیں کرے گا دنیوی امور ، معنویت ،عدل و انصاف اور معاشرے میں امنیت کا قیام ممکن نہیں ہے ، مختصر یہ کہ انسانیت کی فلاح ، مادی اور معنوی ترقی علم کے بغیر ممکن نہیں ہے ، اور مذکورہ روایت میں اسی بات کی اہمیت کو بیان کردیا گیا ہے ، البتہ بعض دانشوروں نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ اس علم سے مراد علوم تجربی یعنی سائنس و ٹیکنالوجی ، صنعت، و …میں ترقی مراد ہے ، اور دوسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ اس حدیث میں علم سے مراد خدا کی معرفت اور عبودیت و بندگی ہے یعنی زمانہ ظہور میں انسان کی سمجھ میں آئے گا کہ بندگی کا راستہ کیا ہے اور کس طرح خداوند متعال کی عبادت و بندگی کی جائے ۔
بہر حال خواہ مراد علوم تجربی اور سائنس و ٹیکنالوجی ہوں یا علم معرفت خداوند، علم کے فواید مسلم اور ناقابل انکار نیز کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ۔

امام زین العابدین کی عزاداری

حضرت امام زین العابدین پر واقعہ کربلا کا اتنا زیادہ اثر تھا کہ آپ کی آنکھوں سے ہمیشہ آنسو جاری رہتا تھا۔ آپ ان مصائب کو یاد کر کے روتے رہتے تھے۔ جو حضرت امام حسین پر آپ کے چچا جناب عباس، آپ کے بھائیوں اوررشتہ داروں پر ڈھائے گئے تھے۔ جب بھی پانی آپ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے اور فرماتے تھے:
میں کس طرح پانی پیوں جبکہ فرزند رسول کو پیاسا ذبح کر دیا گیا۔
(بحار الانوار، ج ۴۴، ص ۱۴۵)