صلح حسن نے دراصل امام حسین کی آنے والی قربانی اور ذبح عظیم کی گہری تاثیر کی داغ بیل ڈالی ۔ چنانچہ جب حسین علیہ السلام مظلوم کی شہادت عظمیٰ کا امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے دس سال بعد وقت آ گیا تو امام حسین نے بڑی آن بان سے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرلی تو اس درخت میں ثمر آیا جو امام حسن نے لگایا تھا اوراسلام کے بھیس میں اسلام کشی کا جو بھوت بنایا گیا تھا اس کا پردہ چاک ہو گیا۔اور دنیا والوں نے دیکھ لیا کہ محمد (ص) اور آل محمد کیا چاہتے ہیں اور سلطنتوں کا بہاؤ کس طرف تھا۔
امام حسن علیہ السلام کی صلح شیعہ حضرات کے نزدیک کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ۔وہ انہیں امام ۔ جانشین رسول ۔ صاحب اعجاز ۔علم وہبی کے مالک مانتے ہیں۔ ایک بڑے عالم دین سے ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی طرز زندگی بالکل مختلف بتائی جاتی ایک نے صلح اختیار کی اور دوسرے نے جنگ۔ وہ بزرگ ایک موٹی سی چادر لے کر دریا پر گئے اور اس کو دریا کے پانی میں خوب اچھی طرح سے ڈبویا ۔اس کے بعد چونکہ پانی کے وزن سے چادر بہت بھاری ہو گئی تھی لہٰذا ایک شاگرد کو ایک سرا پکڑوایا اور خود دوسرا سرا پکڑا اور کہا اسے نچوڑو۔اب شاگرد ہاتھ دائیں طرف گھما کر پانی نچوڑ رہا تھا اور قبلہ کا ہاتھ ادھر سے اگر دیکھا جائے تو مخالف سمت میں چل رہا تھا تاکہ پانی نچوڑتا رہے ۔ جب چادر کا پانی نکل گیا تو مولانا نے شاگردوں سے پوچھا ۔ کیا بات تم لوگوں کی سمجھ میں آئی۔ دیکھو چادر کو سکھانے کے لئے ایک کا ہاتھ CLOCKWISE اور دوسری سمت والے کا اس کی مخالف سمت میں چل رہا ہے مگر مقصد دونوں کا ایک ہی ہے کہ کپڑے سے پانی نکال دیا جائے۔اسی طرح سے دونوں شہزادوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ نانا کے دین اسلام کو کسی طرح سے بچا لیا جائے ۔ایک نے صلح کا طریقہ استعمال کیا دوسرے نے کربلا میں روز عاشورہ جنگ کر کے اور قربانیاں دے کر اسلام کو بچایا۔ اور حسین علیہ السلام بھی بھائی حسن علیہ السلام کی ۰۵ ہجری میں شہادت کے بعد 10 سال تک صبر کا مظاہرہ کرتے رہے۔
بحکم حق کہیں پر صلح کر لیتے ہیں دشمن سے کہیں پر جنگ ِ خاموشی جواب ِ جنگ ہوتی ہے
زمانہ یہ سبق لے فاطمہ(س) کے دل کے ٹکڑوں سے کہاں پر صلح ہوتی ہے کہاں پر جنگ ہوتی ہے
امام حسن علیہ السلام ایک ایسے ہادی اور رہنما تھے کہ جنہوں نے بچپن ہی سے دین کی تبلیغ اور رہنمائی کا کام شروع کر دیا تھا۔ آپ نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ سرکار رسالت کو گود میں لے کر کہنا پڑا کہ یہ دونوں میرے فرزند امام ہیں چاہے کھڑے رہیں یا بیٹھ جائیں ۔ یہ دونوں جوانان ِ جنت کے سردار ہیں اور ان کا باپ ان سے بھی افضل ہے ۔ اب اگر امت کے بوڑھے بھی جنت میں جانے کے خواہش مند ہوں گے تو ان کو ان شہزادوں کو جنت کا سردار ماننا پڑے گا اور ان کے بابا کو افضل ماننا پڑے گا۔جنت ان کے قبضے میں ہے اور کوثر ان کے باپ کے قبضے میں ہے۔ ان کی ماں خاتون جنت ہے ۔ ان سے واسطہ رکھنا ہی پڑے گا. جب ہی تو اصحاب کبار اپنے بچوں کی شکایت کے جواب میں کہا کرتے تھے کہ اگر حسن علیہ السلام ابن علی علیہ السلام تم کو غلام زادہ کہتے ہیں تو ان سے لکھوا لاؤ ہم ان کے غلام بن کر جنت میں چلے جائیں گے۔
رسول اللہ نے اپنے قول وفعل سے امام حسن علیہ السلام کے فضائل بیان کئے ہیں۔ نواسہ مسجد میں آ جائے تو منبر سے اتر کر گودی میں بٹھا لیا کرتے تھے۔ سجدے میں آ جائے تو سر نہ اٹھاتے تھے۔عید کا دن تھا تو کاندھے پر بٹھا کر ناقہ بن گئے۔مباھلے کا دن آیا تو انگلی پکڑ کر لے چلے۔ تطہیر کی منزل آئی تو گلے سے لگا کر ضعف رسالت کو قوت میں تبدیل کر دیا۔ عید کا دن آیا تو بیٹی زہرا (س) کی دہلیز پر بیٹھ کر امام حسن علیہ السلام کے دہن اقدس کے بوسے لئے۔اور ہرنی کا بچہ آیا تو اسے شہزادے کے حوالے کر دیا۔
امیر امومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زمانے میں بھی اگر کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو آپ امام حسن علیہ السلام سے ہی جواب دلواتے تھے۔ سب ہی کی کتابوں میں ہے کہ امام حسن علیہ السلام گہوارہ سے ہی لوح محفوظ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
امام حسن علیہ السلام کے کردار پر نظر کی جائے تو اخلاق میں نبی کا انداز نظر آتا ہے ۔کردار میں علی علیہ السلام کا انداز۔ شجاعت میں ھاشم کا جلال ۔استقلال میں ابو طالب کے تیور ۔ ایمان و یقین میں عبدالمطلب کا نقشہ۔ خاندان کی عزت ۔ بزرگوں کی یادگار۔مذہب کا ذمہ دارا۔ اسلام کا خطیب۔صلح کا نقیب۔قرآن کامفسر۔اُمت کا مصلح۔کعبہ کا محافظ۔ اور سیرت رسول کا ایسا ورثہ دار کہ کہ ہجوم ِ مصائب میں طعن و طنز کے باوجود حدیبیہ کی تاریخ دہرا کر صلح کر لی اور اسلام کو ایک بڑے خطرے سے بچا لیا۔ قدرت کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ دونوں کی تاریخ وفات کو ایک کر دیا ۔ یعنی ۸۲ صفر۔ جس تاریخ کو پہلا مصلح دنیا سے گیا تھا اسی تاریخ کو دوسرا شہزادہ صلح بھی دنیا سے رخصت ہوا۔
قرآن مجید کی آیتیں اور مرسل اعظم کے ارشادات امام حسن کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں ۔ آیة تطہیر عصمت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت مباھلہ صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت صلح کردار پر روشنی ڈال رہی ہے ۔ اور سورة دہر آپ کی سخاوت کا قصیدہ پڑھ رہی ہے ۔امام حسن امام معصوم ہیں ان کا ہر قول و فعل ، حرکت و سکون میزان عصمت میں تلا ہوا ہے۔، اور اعتراض سے بالا تر ہے۔ مستحق اتباع و تحسین ہے ممکن ہے کہ ہماری سمجھ میں کسی فعل کی مصلحت نہ آتی ہو۔
آئمہ علیہم السلام کے علم اللہ کے خاص عطا کردہ تھے انہوں نے کسی اسکول میں نہیں پڑھا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ روم نے حاکم ِ شام سے دو سوال کے جواب مانگے تھے وہ عاجز آگیا تو اس نے مسئلے کو امام حسن علیہ السلام کے سامنے پیش کیا اور آپ نے بتا دیا کہ زمین پر وہ جگہ جو آسمان کے ٹھیک وسط میں واقع ہے وہ پشت ِ خانہ ءکعبہ ہے ۔ اور زمین کا وہ خطہ جس پر سورج کی روشنی صرف ایک بار پڑی وہ نیل کی گہرائی ہے جس پر ایک دفعہ حضرت موسیٰ کے گزرتے ہوئے سورج کی روشنی پڑی تھی اور اس کے بعد پھر دریا حائل ہو گیا۔
امام حسن علیہ السلام کا دستر خوان مدینہ منورہ میں بہت مشہور تھا ۔ ایک شخص مہمان آیا اورجب وہ کھانے بیٹھا تو ایک لقمہ کھاتا تھا اور ایک لقمہ بچا کر رکھ لیتا تھا ۔امام نے فرمایا تو صاحب عیال ہے َ؟ اس نے کہا۔ نہیں ۔ میں نے مسجد میں ایک شخص کو جو کی سوکھی روٹیاں کھاتے دیکھا ہے چاہتا ہوں کہ اس کی بھی کچھ مدد کر دوں۔ امام نے فرمایا ۔ بھئی وہ میرے بابا علی مرتضےٰ ہیں ۔ان کی زندگی کا یہی معمول ہے ۔ہم اہل بیت جو دنیا کو کھلاتے ہیں وہ اور ہوتا ہے اور جس پر خود اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ اور ہوتا ہے۔ہمارے لئے نعمتوں کا دسترخوان اللہ نے آخرت میں بچھایا ہے۔
ایک دفعہ معاویہ نے مدینہ آ کر اعلان کیا کہ لوگ بادشاہ کو آ کر سلام کریں اور بادشاہ سب کو انعام و اکرام تقسیم کرے گا۔ یہانتک کہ امام حسن علیہ السلام کو اس کے کارندے مجبور کرکے اس کے پاس لے آئے۔ امام حسن جب پہنچے تو اس نے ارکان سلطنت سے کہا کہ حسن اس لئے دیر سے آئے ہیں کہ میرا خزانہ ختم ہو جائے۔ لہذا میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ صبح سے سارا دن جتنا مال ،سارا اہل مدینہ کو انعام دیا ہے اس سے زیادہ ان کو دوں۔ یہ کہہ کر اس نے خزانہ منگوایا اور کہا یہ آپ کا حصہ ہے۔ امام جب جانے لگے تو معاویہ کے ایک ملازم نے آپ کی جوتیاں سیدھی کر دیں ۔مولا نے حکم دیا کہ یہ سب دولت میری جوتی سیدھی کرنے کے عوض اس ملازم کو دے دی جائے۔ مولا کی سخاوت پر معاویہ کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
امام حسن علیہ السلام کی صلح شیعہ حضرات کے نزدیک کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ۔وہ انہیں امام ۔ جانشین رسول ۔ صاحب اعجاز ۔علم وہبی کے مالک مانتے ہیں۔ ایک بڑے عالم دین سے ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی طرز زندگی بالکل مختلف بتائی جاتی ایک نے صلح اختیار کی اور دوسرے نے جنگ۔ وہ بزرگ ایک موٹی سی چادر لے کر دریا پر گئے اور اس کو دریا کے پانی میں خوب اچھی طرح سے ڈبویا ۔اس کے بعد چونکہ پانی کے وزن سے چادر بہت بھاری ہو گئی تھی لہٰذا ایک شاگرد کو ایک سرا پکڑوایا اور خود دوسرا سرا پکڑا اور کہا اسے نچوڑو۔اب شاگرد ہاتھ دائیں طرف گھما کر پانی نچوڑ رہا تھا اور قبلہ کا ہاتھ ادھر سے اگر دیکھا جائے تو مخالف سمت میں چل رہا تھا تاکہ پانی نچوڑتا رہے ۔ جب چادر کا پانی نکل گیا تو مولانا نے شاگردوں سے پوچھا ۔ کیا بات تم لوگوں کی سمجھ میں آئی۔ دیکھو چادر کو سکھانے کے لئے ایک کا ہاتھ CLOCKWISE اور دوسری سمت والے کا اس کی مخالف سمت میں چل رہا ہے مگر مقصد دونوں کا ایک ہی ہے کہ کپڑے سے پانی نکال دیا جائے۔اسی طرح سے دونوں شہزادوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ نانا کے دین اسلام کو کسی طرح سے بچا لیا جائے ۔ایک نے صلح کا طریقہ استعمال کیا دوسرے نے کربلا میں روز عاشورہ جنگ کر کے اور قربانیاں دے کر اسلام کو بچایا۔ اور حسین علیہ السلام بھی بھائی حسن علیہ السلام کی ۰۵ ہجری میں شہادت کے بعد 10 سال تک صبر کا مظاہرہ کرتے رہے۔
بحکم حق کہیں پر صلح کر لیتے ہیں دشمن سے کہیں پر جنگ ِ خاموشی جواب ِ جنگ ہوتی ہے
زمانہ یہ سبق لے فاطمہ(س) کے دل کے ٹکڑوں سے کہاں پر صلح ہوتی ہے کہاں پر جنگ ہوتی ہے
امام حسن علیہ السلام ایک ایسے ہادی اور رہنما تھے کہ جنہوں نے بچپن ہی سے دین کی تبلیغ اور رہنمائی کا کام شروع کر دیا تھا۔ آپ نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ سرکار رسالت کو گود میں لے کر کہنا پڑا کہ یہ دونوں میرے فرزند امام ہیں چاہے کھڑے رہیں یا بیٹھ جائیں ۔ یہ دونوں جوانان ِ جنت کے سردار ہیں اور ان کا باپ ان سے بھی افضل ہے ۔ اب اگر امت کے بوڑھے بھی جنت میں جانے کے خواہش مند ہوں گے تو ان کو ان شہزادوں کو جنت کا سردار ماننا پڑے گا اور ان کے بابا کو افضل ماننا پڑے گا۔جنت ان کے قبضے میں ہے اور کوثر ان کے باپ کے قبضے میں ہے۔ ان کی ماں خاتون جنت ہے ۔ ان سے واسطہ رکھنا ہی پڑے گا. جب ہی تو اصحاب کبار اپنے بچوں کی شکایت کے جواب میں کہا کرتے تھے کہ اگر حسن علیہ السلام ابن علی علیہ السلام تم کو غلام زادہ کہتے ہیں تو ان سے لکھوا لاؤ ہم ان کے غلام بن کر جنت میں چلے جائیں گے۔
رسول اللہ نے اپنے قول وفعل سے امام حسن علیہ السلام کے فضائل بیان کئے ہیں۔ نواسہ مسجد میں آ جائے تو منبر سے اتر کر گودی میں بٹھا لیا کرتے تھے۔ سجدے میں آ جائے تو سر نہ اٹھاتے تھے۔عید کا دن تھا تو کاندھے پر بٹھا کر ناقہ بن گئے۔مباھلے کا دن آیا تو انگلی پکڑ کر لے چلے۔ تطہیر کی منزل آئی تو گلے سے لگا کر ضعف رسالت کو قوت میں تبدیل کر دیا۔ عید کا دن آیا تو بیٹی زہرا (س) کی دہلیز پر بیٹھ کر امام حسن علیہ السلام کے دہن اقدس کے بوسے لئے۔اور ہرنی کا بچہ آیا تو اسے شہزادے کے حوالے کر دیا۔
امیر امومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زمانے میں بھی اگر کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو آپ امام حسن علیہ السلام سے ہی جواب دلواتے تھے۔ سب ہی کی کتابوں میں ہے کہ امام حسن علیہ السلام گہوارہ سے ہی لوح محفوظ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
امام حسن علیہ السلام کے کردار پر نظر کی جائے تو اخلاق میں نبی کا انداز نظر آتا ہے ۔کردار میں علی علیہ السلام کا انداز۔ شجاعت میں ھاشم کا جلال ۔استقلال میں ابو طالب کے تیور ۔ ایمان و یقین میں عبدالمطلب کا نقشہ۔ خاندان کی عزت ۔ بزرگوں کی یادگار۔مذہب کا ذمہ دارا۔ اسلام کا خطیب۔صلح کا نقیب۔قرآن کامفسر۔اُمت کا مصلح۔کعبہ کا محافظ۔ اور سیرت رسول کا ایسا ورثہ دار کہ کہ ہجوم ِ مصائب میں طعن و طنز کے باوجود حدیبیہ کی تاریخ دہرا کر صلح کر لی اور اسلام کو ایک بڑے خطرے سے بچا لیا۔ قدرت کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ دونوں کی تاریخ وفات کو ایک کر دیا ۔ یعنی ۸۲ صفر۔ جس تاریخ کو پہلا مصلح دنیا سے گیا تھا اسی تاریخ کو دوسرا شہزادہ صلح بھی دنیا سے رخصت ہوا۔
قرآن مجید کی آیتیں اور مرسل اعظم کے ارشادات امام حسن کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں ۔ آیة تطہیر عصمت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت مباھلہ صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت صلح کردار پر روشنی ڈال رہی ہے ۔ اور سورة دہر آپ کی سخاوت کا قصیدہ پڑھ رہی ہے ۔امام حسن امام معصوم ہیں ان کا ہر قول و فعل ، حرکت و سکون میزان عصمت میں تلا ہوا ہے۔، اور اعتراض سے بالا تر ہے۔ مستحق اتباع و تحسین ہے ممکن ہے کہ ہماری سمجھ میں کسی فعل کی مصلحت نہ آتی ہو۔
آئمہ علیہم السلام کے علم اللہ کے خاص عطا کردہ تھے انہوں نے کسی اسکول میں نہیں پڑھا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ روم نے حاکم ِ شام سے دو سوال کے جواب مانگے تھے وہ عاجز آگیا تو اس نے مسئلے کو امام حسن علیہ السلام کے سامنے پیش کیا اور آپ نے بتا دیا کہ زمین پر وہ جگہ جو آسمان کے ٹھیک وسط میں واقع ہے وہ پشت ِ خانہ ءکعبہ ہے ۔ اور زمین کا وہ خطہ جس پر سورج کی روشنی صرف ایک بار پڑی وہ نیل کی گہرائی ہے جس پر ایک دفعہ حضرت موسیٰ کے گزرتے ہوئے سورج کی روشنی پڑی تھی اور اس کے بعد پھر دریا حائل ہو گیا۔
امام حسن علیہ السلام کا دستر خوان مدینہ منورہ میں بہت مشہور تھا ۔ ایک شخص مہمان آیا اورجب وہ کھانے بیٹھا تو ایک لقمہ کھاتا تھا اور ایک لقمہ بچا کر رکھ لیتا تھا ۔امام نے فرمایا تو صاحب عیال ہے َ؟ اس نے کہا۔ نہیں ۔ میں نے مسجد میں ایک شخص کو جو کی سوکھی روٹیاں کھاتے دیکھا ہے چاہتا ہوں کہ اس کی بھی کچھ مدد کر دوں۔ امام نے فرمایا ۔ بھئی وہ میرے بابا علی مرتضےٰ ہیں ۔ان کی زندگی کا یہی معمول ہے ۔ہم اہل بیت جو دنیا کو کھلاتے ہیں وہ اور ہوتا ہے اور جس پر خود اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ اور ہوتا ہے۔ہمارے لئے نعمتوں کا دسترخوان اللہ نے آخرت میں بچھایا ہے۔
ایک دفعہ معاویہ نے مدینہ آ کر اعلان کیا کہ لوگ بادشاہ کو آ کر سلام کریں اور بادشاہ سب کو انعام و اکرام تقسیم کرے گا۔ یہانتک کہ امام حسن علیہ السلام کو اس کے کارندے مجبور کرکے اس کے پاس لے آئے۔ امام حسن جب پہنچے تو اس نے ارکان سلطنت سے کہا کہ حسن اس لئے دیر سے آئے ہیں کہ میرا خزانہ ختم ہو جائے۔ لہذا میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ صبح سے سارا دن جتنا مال ،سارا اہل مدینہ کو انعام دیا ہے اس سے زیادہ ان کو دوں۔ یہ کہہ کر اس نے خزانہ منگوایا اور کہا یہ آپ کا حصہ ہے۔ امام جب جانے لگے تو معاویہ کے ایک ملازم نے آپ کی جوتیاں سیدھی کر دیں ۔مولا نے حکم دیا کہ یہ سب دولت میری جوتی سیدھی کرنے کے عوض اس ملازم کو دے دی جائے۔ مولا کی سخاوت پر معاویہ کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
Slot Review: Betway Casino Site
ReplyDeleteSlot choegocasino Review — Read this review of Betway 메리트 카지노 고객센터 Casino, its slot games, software, bonuses, promotions and more septcasino to learn more about this brand.