Sunday, 29 June 2014

بغض اہلبيت (ع) كے اثرات

رسول اكرم (ص) جو ہم اہلبيت (ع) سے نفرت كرے گا وہ منافق ہوگا ۔(فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص661 ، 1166 ، درمنثور 7 ص 349 نقل از ابن عدى ،مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 205 ، كشف الغمہ 1 ص 47 روايت ابوسعيد)۔
رسول اكرم (ص) ہم اہلبيت (ع) كا دوست مومن متقى ہوگا اور ہمارا دشمن منافق شقى ہوگا۔( ذخائر العقبص 18 روايت جابر بن عبداللہ ، كفاية الاثر ص 110 واثلہ بن الاسقع)۔رسول اكرم (ص) قسم ہے اس ذات كى جس كے قبضہ ميں ميرى جان ہے۔ انسان كى روح اس وقت تك جسم سے جدا نہيں ہوتى ہے جب تك جنّت كے درخت يا جہنم كے زقوم كا مزہ نہ چكھ لے اور ملك الموت كے ساتھ مجھے على (ع) ، فاطمہ (ص) ، حسن (ع) اور حسين (ع) كو نہ ديكھ لے، اس كے بعد اگر ہمارا محب ہے تو ہم ملك الموت سے كہتے ہيں ذرا نرمى سے كام لو كہ يہ مجھ سے اور ہمارے اہلبيت (ع) سے محبت كرتا تھا اور اگر ہمارا اور ہمارے اہلبيت (ع) كا دشمن ہے تو ہم كہتے ہيں ملك الموت ذرا سختى كرو كہ يہ ہمارا اور ہمارے اہلبيت (ع) كا دشمن تھا اور ياد ركھو ہمارا دوست مومن كے علاوہ اور ہمارا دشمن منافق بدبخت كے علاوہ كوئي نہيں ہوسكتا ہے۔مقتل الحسين (ع) خوارزمى 1 ص 109 روايت زيد بن علي (ع) ۔
رسول اكرم (ص) ميرے بعد بارہ امام ہوں گے جن ميں سے نوحسين (ع) كے صلب سے ہوں گے اور نواں ان كا قائم ہوگا، اور ہمارا دشمن منافق كے علاوہ كوئي نہيں ہو سكتا ہے۔(كفاية الاثر ص 31 روايت ابوسعيد خدري)۔
رسول اكرم (ص) جو ہمارى عترت سے بغض ركھے وہ ملعون، منافق اور خسارہ والا ہے۔( جامع الاخبار ص 214 / 527)۔
رسول اكرم (ص) ہوشيار رہو كہ اگر ميرى امت كا كوئي شخص تمام عمر دنيا تك عبادت كرتا رہے اور پھر ميرے اہلبيت (ع) اور ميرے شيعوں كى عداوت لے كر خدا كے سامنے جائے تو پروردگار اس كے سينے كے نفاق كو بالكل كھول دے گا ۔( كافى 2 ص 46 / 3 ، بشارة المصطفى ص 157 روايت عبدالعظيم الحسن)۔
امام حاکم اور طبرانی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ھے: فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ وَصَلَّى وَصَامَ، ثُمَّ مَاتَ وَهُوَ مُبْغِضٌ لِأَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَضِي عَنْهُمْ دَخَلَ النَّارَ : قال أبو عبد اللہ الحاکم : ھذا حدیث حسن صحیح علی شرط مسلم و وافقه الذھبی فی تلخیصه علی شرط مسلم ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: کوئی شخص حجر اسود اور مقام ابراھیم کے درمیان کھڑا ہوجائے اور پھر نماز پڑھے، روزہ رکھے، اور پھر اس کو موت آجائے اس حال میں کہ وہ رسول اللہ کے اھلبیت سے بغض رکھتا ہو تو ایسا شخص جھنم میں جائے گا ۔ ۔ ۔حدیث کی سند : امام حاکم نے اس حدیث کو امام مسلم کی شرط کیمطابق حسن صحیح کہا ھے اور علامہ ذھبی نے تلخیص المستدرک میں حاکم کی تصحیح کی موافقت کری ھے ۔المستدرک علی الصحیحین//جلد3//صفحہ161// رقم الحدیث :4712

حضرت امام مہدی عَجَّلَ اللہُ فَرَجَہ



حضرت امام مہدی ؑ کے ظاہر ہونے کی خوش خبری جو حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد میں سے ہیں اور جو آخری زمانے میں جب روئے زمین پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک ظلم و ستم کی کثرت ہوجائے گی تو وہ اس میں عدل و انصاف رائج کریں گے۔ آنحضرت ﷺ سے بہت سی متواتر روایات کے ذریعے سے منقول ہے مسلمانوں کے تمام فرقوں نے اپنے اپنے اختلاف کے باوجود یہ روایتیں لکھی ہیں اور انہیں مستند مانتے ہیں۔
حضرت امام مہدی آخرالزمان ؑ کے ظہور سے متعلق عقیدہ صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے ۔
(نوٹ، تفصیلات کے لیے دیکھیے انتظار امام مولفہ آیت اللہ محمد باقر صدر ، مطبوعہ جامعہ تعلیمات اسلامی )
کہ وہ جو یہ عقیدہ قائم کرکے ظالموں اور ستمگروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو یہ تسلی دینا چاہیں اور اپنا دل خوش کرنا چاہیں کہ امام مہدی ؑ ظہور فرمائیں گے اور روئے زمین کو ظلم سے پاک کردیں گے جیسا کچھ گمراہ کرنے والوں نے ناانصافی سے کام لیتے ہوئے اس عقیدے کو اسی سبب سے شیعوں سے مخصوص کر دیا ہے۔
اگر ظہور مہدی ؑ کا عقیدہ پیغمبر اسلام ﷺ سے منقول نہ ہوتا، مسلمانوں کے تمام فرقے اسے مستند نہ جانتے اور اس کی تردید کرتے تو مہدویت کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا وہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں کیسانیوں اور کچھ عباسیوں اور علویوں وغیرہ کی طرح مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے، اس کے ذریعے سے لوگوں کو دھوکا دیتے اور اس عام عقیدے سے حکومت اور سلطنت حاصل کرنے میں فائدہ اٹھاتے، ان لوگوں نے یہ غلط دعویٰ کرکےیہ چاہا کہ اس اسلامی عقیدے (ظہور امام مہدی ؑ کا عقیدہ جو تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلم ہے) کو عوام کے خیالات پر اثر ڈالنے اور ان پر اپنا غلبہ قائم کرنے کا ذریعہ بنالیں، اگر یہ عقیدہ صرف شیعوں کا ہوتا تو مہدویت کا دعویٰ کرنے والے اس خصوصی عقیدے سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے تھے۔
ہم شیعہ دین اسلام کو سچا سمجھتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام خدا کا آخؒری دین ہے اور ہم انسانی بھلائی کے لیے کسی دوسرے دین کے منتظر نہیں ہیں، اس کے باوجود ایک طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ظلم اور تباہی ہر جگہ اس طرح مسلط ہے کہ آئندہ انصاف اور اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے، یہاں تک کہ خود مسلمان اسلام کے قانون سے کنارہ کش ہوگئے ہیں اور انہوں نے تمام اسلامی ملکوں می اس کے احکام معطل کردیے ہیں اور اس کے ہزاروں اصولوں میں سے ایک اصول پر بھی عمل نہیں کرتے
جس کو کہتے ہیں مسلمان دوستوں اب وہ کہاں
دین حق اس دور میں ہے یوسف بے کارواں
(خوش قسمتی سے امت مسلمہ کو آج اسلامی فکر کے احیاء اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کے لیے امام خمینی کی صورت میں ایک عزیمت پیکر رہبر میسر آگیا ہے ، جس نے طاغوتی فضا میں لاَ شَرقِیَّہ وَلاَ غَربِیَّہ کا قرآنی نعرہ بلند کرکے عالم اسلام کو صحیح معنوں میں آزاد اور خود مختار اسلامی حکومت قائم کرنے کی راہ دکھلا دی ہے جہاں اسلامی قوانین اور اصولوں کا نفاذ شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، ناشر)
ہم جب یہ عقیدہ رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ اسلامی ملکوں کی حالت خراب ہوچکی ہے اور اصلاح کرنے والے کا ظہور لازمی اور ضروری سمجھتے ہوئے اس کا انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ اسلام کو اس کی قوت اور بزرگی واپس دلائے اور ظلم اور خرابی کے گڑھے میں دھنسی ہوئی اس دنیا کو بچالے۔
دوسری طرف یہ خیال ہے کہ آج کے مسلمان اختلافات، گمراہیوں ، بدعتوں اور اسلامی قوانین کی تبدیلیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے اور پچھلے مسلمانوں کے درمیان میں غلط اور فضول قسم کے دعوے بھی ظاہرہوچکے ہیں لہذا ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے کہ دین اسلام اپنی قوت اور عظمت دوبارہ حاصل کرلے۔
ان حالات میں صرف ایک شخص اسلام کی قابل دید عظمت کو تازہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے، اس عظیم المرتبت مصلح کا ظہور جو مسلمانوں کو متحد کر دے گا اور خدا کے لطف کی بدولت اسلام کی پیشانی سے تبدیلیوں ، بدعتوں اور گمراہیوں کے داغ دھو دے گا ، صرف ایک رہنما ایسے انقلاب کی طاقت رکھتا ہے۔ جو ہر طرح کی ہدایت پائے ہوئے ہو اور ایک عظیم سرداری اور غیر معمولی قدرت اور عظمت کا مالک ہو تاکہ جب پوری زمین ظلم سے بھر جائے تو اس میں عدل اور انصاف قائم کرے۔
مختصر یہ ہے کہ دنیا میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک خرابی ، تباہی اور ظلم کا پھیل جانا اس عقیدے کے ساتھ اسلام سچا اور آخری مذہب ہے فطری طور پر ایسے بزرگ مصلح (امام مہدی منتظر ؑ) کی آمد کا تقاضا کرتا ہے جو اپنے طاقت ور ارادے سے دنیا کو تباہیوں اور گمراہیوں سے بچالے۔
اس لیے تمام اسلامی فرقے بلکہ غیر مسلم قومیں بھی اس حقیقی نکتے پر ایمان رکھتی ہیں، اثنا عشری شیعوں کے اعتقاد کے مطابق بس اتنا سا فرق ہے کہ وہ اصلاح اور ہدایت کرنے والا ایک خاص فرد ہے جس نے ۲۵۵ ہجری میں اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی اور جو ابھی تک زندہ ہے، وہ امام حسن عسکری ؑ کے بیٹے ہیں اور ان کا نام ""محمدؑ"" ہے۔
حضرت پیغمبر خدا ﷺ اور ان کے خاندان والوں نے ان کی پیدائش اور ظہور کی جو خبر دی ہے وہ ہم تک بہت سی متواتر اور قطعی روایتوں کے ذریعے سے پہنچی ہے زمی پر امامت کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا اور ایک امام دنیا میں ضرور موجود رہتا ہے چاہے وہ نظروں سے اوجھل ہی ہو تاکہ وہ اس دن جو خدا نے مقرر کر دیا ہے اور جو خدا کے بھیدوں میں سے ہے اور جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، ظاہر ہوکر سچائی کا پرچم بلند کرے۔
بے شک یہ بات واضح ہے کہ اتنی لمبی مدت تک امام مہدی ؑ کی زندگی ایک معجزہ (غیر معمولی اور غیر عادی واقعہ) ہے لیکن یہ اس سے زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ آپ پانچ سال کی عمر میں جس روز آپ کے پدر بزگوار جنت کو سدھارے امام ہوگئے اور یہ واقعہ حضرت عسیٰ ؑ کے معجزے سے بھی بڑھ کر نہیں ہے۔جنہوں نے شیر خواری کے سن میں ہی اپنے جھولے می باتیں کیں اور اسی دوران میں نبوت کے منصب پر فائز ہوگئے۔
(نوٹ ، فَاَشَارَت اِلَیہِ قَالُوا کَیفَ نُکَلِّمُ مَن کَانَ فِی المَھدِ صَبِیّاً ، سورہ مریم آیت ۲۹)
علم طلب کی رو سے ایسی زندگی ناممکن نہیں ہے جو فطری عمر سے زیادہ ہو یا اسے عمر سے زیادہ ہو جو فطری سمجھی جاتی ہے، اس وقت کی صورت حالات یہ ہے کہ علم طب ابھی تک لمبی عمر پانے کے کسی طریقے یا لمبی عمر بخشنے والی کسی دوا کی تحقیق یا انکشاف میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے بہر حال اگر علم طب اس سے عاجز ہے تو خدا تو ہر شے پر قدرت رکھنا ہے اور خدا کے فرمانے کے مطابق کچھ لوگ حضر نوح ؑ (وَلَقَد اَرسَلنَا نوُحاً اِلیٰ قَومِہِ فَلَبِثَ فِیھِم اَلفَ سَنَۃٍ اِلاَّ خَمسِینں عَامَا ۔ سورہ عنکبوت ۔ آیت ۱۴ ) اور حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح بھی گزرے ہیں جنہوں نے عام فطری عمر سے زیادہ زندگی پائی اور جو قرآن کو ماننے والا مسلمان اس کے متعلق شک کرے یا اسے نہ مانے تو اسے چاہیے کہ وہ اسلام کو خیر باد کہہ دے ۔ بڑا تعجب ہوتا ہے جب کوئی قرآن کو ماننے والا مسلمان یہ سوال کر دیتا ہے کہ کیا زندگی طبیعی عمر سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے؟
یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری ہے کہ اصلاح کرنےوالے اور نجات دہندہ (مہدی ؑ ) کے انتظار کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور جو کچھ پر واجب ہے مثلاً حق کی حمایت ، خدا کے لیے جہاد ، تبلیغ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ ، اسے اسی امید پر چھوڑ دیں کہ امام مہدی ؑ آئیں گے اور کام سنوار دیں گے بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے تاکہ اسلام کی طرف سے اس کو جو فرض سونپا گیا ہے اسے ادا کرے، دین کا تعارف کرانے کے لیے ٹھیک طرح سے کوشش کرے اور جہاں تک ہوسکے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرے جیسا کہ پیغمبر خدا ﷺ نےفرمایا ہے۔
کُلُّکُم رَاعٍ وَکُلُّکُم مَسُولٌ عَن رَعِیَّتِہِ :۔ تم سب لوگ ایک دوسرے کے رہبر اور (ایک دوسرے کو اصلاح کے ) ذمے دار ہو۔ (نہج الفصاحتہ ، حدیث ۲۱۶۳)
اس بناپر کسی مسلمان کے لیے نہ مناسب نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے مصلح کے انتظار میں اپنے مسلم اور قطعی کاموں سے ہاتھ اٹھالے ، کیونکہ کسی مصلح کے متعلق عقیدہ کھنے سے نہ فرض ساقط ہوتا ہے اور نہ اپنی کوششوں میں سستی کرنا چاہیے کیا غفلت ، لاپروائی اور بے توجہی برتنے والا بے چروا ہے کے جانوروں کی طرح نہیں ہوتا؟

نام کتاب: مکتب تشیع
مصنف: محمد رضا مظفر

قرب ظہوراور عربوں کا حال

قرب ظہوراور عربوں کا حالرسول اللہ اور علي (عليہما السلام) نے فرمايا: جب تم ميري اولاد کو مقہور و مغلوب کروگے بني اسرائيل کي طرح حيران و سرگردان ہوجاۆگے؛ گمراہ کنندگان کي پيروي کرو گے، راہ خدا کے مجاہدين سے رشتہ منقطع کروگے اور ان کے دشمنوں سے جا ملوگے، اور جب ان کے وہ وعدے خاک ميں مليں گے تو ہر شخص کي آزمائش اور پاک ہونے کا وقت ہوگا اور پردہ ہٹے گا، انتظار کي گھڑي اختتام پذير ہوگي وعدہ قريب ہوگا؛ تمہارے لئے ايک ستارہ مشرق سے طلوع ہوگا جو چودہويں کے چاند کي طرح تابناک ہوگا جب تم ان علائم کو ديکھو تو توبہ کرو اور گناہوں کو خود سے دور کرو اور جان لو کہ مشرق سے ہونے والے ستاري کي پيروي کروگے تو وہ تمہيں ہدايت پہنچائے گا اور انتشار اور اختلاف اور حيرت و سرگرداني سے نجات دلائے گا- (1)
رسول اللہ (ص) اور اميرالمۆمنين (ع) کا خطاب عربوں سے ہے اور آج کے زمانے ميں اگر اس کي تشريح کرنا چاہيں تو گويا عربوں کو امريکہ اور اسرائيل کے تابع مہمل بننے سے روکا گيا ہے اور آج کے زمانے ميں اسرائيل اور امريکہ کي اعلانيہ پيروي کرتے ہوئے مسلمانوں اور عربوں کو ان کے خون ميں نہلانے اور مسلمانوں کے درميان تفرقہ ڈال کر عالمي کفر کے اہداف و مقاصد پورے کرنے سے منع کيا گيا ہے- عربوں کو آج بھي وعدے ديئے جارہے ہيں اور پھر وقت آنے پر انہيں بے يار و مددگار چھوڑا جارہا ہے اور گويا يہي زمانہ ہے امتحان کا اور پاکيزہ ہونے کا جس کے بعد مشرق سے ستارے کا طلوع ہونے کا مرحلہ آتا ہے جس کي پيروي اتحاد کے قيام اور انتشار سے نجات کا سبب ہے-

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہيں: ہاشم کي نسل سے ايک جوانمرد ـ جس کے دائيں ہاتھ ميں ايک علامت ہے ـ خراسان سے سياہ پرچموں کے ہمراہ قيام کرے گا جو چاند کي مانند تابندہ ہوگا اور اس کے لشکر کا سپہ سالار شعيب بن صالح ہوگا- وہ سفياني کے خلاف لڑے گا اور اس کے لشکر کو ہزيمت سے دوچار کرے گا- (2)


حوالے جات:
1- ترجمه 13 بحار، دواني ص 335 و 351- ارشاد شيخ مفيد.
2- نوائب الدهور و علائم الظهور ج 2 ص 402- امام مهدي ص 428 - عقد الدرر ص 128- ترجمه ملاحم و الفتن ص 36 - ملاحم و الفتن ابن طاووس ص 77 و 104- امام مهدي از تولد تا بعداز ظهور، ص294 و 296-

غیبت کی قسمیں



قارئین کرام! امام مہدی علیہ السلام کی غیبت لازم اور ضروری ھے، لیکن چونکہ ہمارے ہادیوں کے تمام اقدامات اور کارنامے لوگوں کے ایمان و اعتقاد کو مضبوط کرنے کے لئے ھوتے تھے، لہٰذا اس چیز کا خوف تھا کہ اس آخری حجت الٰھی کی غیبت کی وجہ سے مسلمانوں کی دینداری پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچیں گے، لہٰذا غیبت کا زمانہ بہت ھی حساب و کتاب اور دقیق منصوبہ بندی کے تحت آغاز ھوا جو آج تک جاری ھے۔
امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے سالہا سال پہلے آپ کی غیبت اور اس کی ضرورت کے بارے میں گفتگو جاری و ساری تھی اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے اصحاب کی محفلوں میں نقل ھوتی تھی۔ اسی طرح امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام لوگوں سے ایک نئے انداز اور خاص حالات میں رابطہ ھوتا تھا، اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں نے آہستہ آہستہ یہ سیکھ لیا تھا کہ بہت سی مادّی اور معنوی ضرورتوں میں امام معصوم علیہ السلام کی ملاقات پر مجبور نھیں ھیں، بلکہ ائمہ علیہم السلام کی طرف سے معین وکلاء اور قابل اعتماد حضرات کے ذریعہ اپنے فرائض پر عمل کیا جاسکتا ھے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت اور حضرت حجت بن الحسن علیہ السلام کی غیبت (صغریٰ) کے آغاز سے امام اور امت کے درمیان رابطہ بالکل ختم نھیں ھوا تھا، بلکہ مومنین اپنے مولا و آقا اور امام کے خاص نائب کے ذریعہ رابطہ برقرار کئے ھوئے تھے، اور یھی زمانہ تھا کہ جس میں شیعوں کو دینی علماء سے وسیع پیمانہ پر رابطہ کی عادت ھوئی کہ امام علیہ السلام کی غیبت میں بھی اپنے دینی فرائض کی پہچان کا راستہ بند نھیں ھوا ھے۔ اس موقع پر مناسب تھا کہ حضرت بقیة اللہ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کبریٰ کا آغاز ھو ، اور امام علیہ السلام اور شیعوں کے درمیان گزشتہ زمانہ میں رائج عام رابطہ کے سلسلہ بند ھوجائے۔
قارئین کرام! ہم یہاں غیبت صغریٰ اور غیبت کبریٰ کی خصوصیات کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کرتے ھیں۔
غیبت صغریٰ

۲۶۰ھ میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے فوراً بعد ہمارے بارھویں امام کی امامت کا آغاز ھوا، اور اسی وقت سے آپ کی ”غیبت صغریٰ“ کا بھی آغاز ھوگیا، اور یہ سلسلہ ۳۲۰ھ (تقریباً ۷۰ سال) تک جاری رہا۔
غیبت صغریٰ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مومنین امام مہدی علیہ السلام کے خاص نائبین کے ذریعہ رابطہ برقرار کئے ھوئے تھے اور ان کے ذریعہ امام مہدی علیہ السلام کے پیغامات حاصل کرتے تھے اور اپنے سوالات آپ کی خدمت میں بھیجتے تھے۔( ) اور کبھی امام مہدی علیہ السلام کے نائبین کے ذریعہ آپ کی زیارت کا شرف بھی حاصل ھوجاتا تھا۔


امام مہدی علیہ السلام کے نواب اربعہ جو عظیم الشان شیعہ عالم دین تھے اور خود امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ منتخب ھوتے تھے جن کے اسمائے گرامی ان کی نیابت کی ترتیب سے اس طرح ھیں:
۱۔ عثمان بن سعید عَمری؛ آپ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے آغاز سے امام کی نیابت کرتے تھے، موصوف نے ۲۶۵ھ میں وفات پائی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ھے کہ موصوف امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھی وکیل تھے۔
۲۔ محمد بن عثمان عمری؛ موصوف امام مہدی علیہ السلام کے نائب اول کے فرزند تھے جو باپ کے انتقال پر امام کی نیابت پر فائز ھوئے، موصوف نے ۳۰۵ھ میں وفات پائی۔
۳۔ حسین بن روح نوبختی؛ موصوف امام مہدی علیہ السلام کے ۲۱ سال نائب رھے جس کے بعد ۳۲۶ھ میں ان کی وفات ھوگئی۔
۴۔ علی بن محمد سمُری؛ موصوف کا انتقال ۳۲۹ھ میں ھوا، اور ان کی وفات کے بعد غیبت صغریٰ کا زمانہ ختم ھوگیا۔
امام مہدی علیہ السلام کے خاص نائبین امام حسن عسکری علیہ السلام اور خود امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ انتخاب ھوتے تھے اور لوگوں میں پہچنوائے جاتے تھے۔ شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”الغیبة“ میں روایت کرتے ھیں کہ ایک روز عثمان بن سعید (نائب اول) کے ساتھ چالیس مومنین امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے، امام علیہ السلام نے ان کو اپنے فرزند کی زیارت کرائی اور فرمایا:
”میرے بعد یھی میرا جانشین اور تمہارا امام ھوگا۔ تم لوگ اس کی اطاعت کرنا، اور جان لو کہ آج کے بعد اس کو نھیں دیکھ پاؤ گے یہاں تک کہ اس کی عمر کامل ھوجائے۔ لہٰذا (اس کی غیبت کے زمانہ میں) جو کچھ عثمان (بن سعید) کھیں اس کو قبول کرنا، اور ان کی اطاعت کرنا کہ وہ تمہارے امام کے جانشین ھیں اور تمام امور کی ذمہ داری انھیں کی ھے“۔( )
امام حسن عسکری علیہ السلام کی دوسری روایت میں محمد بن عثمان کو امام مہدی علیہ السلام کے (دوسرے ) نائب کے عنوان سے یاد کیا گیا ھے۔
شیخ طوسی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ھیں:
”عثمان بن سعید“ نے امام حسن عسکری علیہ ا لسلام کے حکم سے یمن کے شیعوں کا لایا ھوا مال اخذ کیا، اس وقت بعض مومنین نے جو اس واقعہ کے شاہد تھے ، امام علیہ السلام سے عرض کی:خدا کی قسم عثمان آپ کے بہترین شیعوں میں سے ھیں، لیکن اس کام سے آپ کے نزدیک ان کا مقام ہم پر واضح ھوگیا۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں! تم لوگ گواہ رہنا کہ عثمان بن سعید عمری میرے وکیل ھیں اور اس کا فرزند ”محمد“ میرے بیٹے ”مہدی“ کا وکیل ھوگا“۔( )
یہ تمام واقعات امام مہدی علیہ السلام کی غیبت سے پہلے کے ھیں، غیبت صغریٰ میں بھی آپ کا ہر نائب اپنی وفات سے پہلے امام مہدی علیہ السلام کی طرف سے منتخب ھونے والے نائب کی پہچان کرادیتا تھا۔
یہ حضرات چونکہ اعلیٰ صفات کے مالک تھے جس کی بنا پر ان میں امام مہدی علیہ السلام کی نیابت کی لیاقت پیدا ھوئی۔ ان حضرات کے مخصوص صفات کچھ اس طرح تھے: امانت داری، عفت، رفتار وگفتار میں عدالت، راز داری اور امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں مخصوص حالات میں اسرار اہل بیت علیہم السلام کو مخفی رکھنا، یہ حضرات امام مہدی علیہ السلام کے قابل اعتمادافراد تھے اور خاندان عصمت وطہارت کے مکتب کے پروردہ تھے، انھوں نے مستحکم ایمان کے زیر سایہ علم کی دولت حاصل کی تھی۔ ان کا نیک نام مومنین کی ورد زبان تھا، سختیوں اور پریشانیوں میں صبر و بردباری کا یہ عالم تھا کہ سخت سے سخت حالات میں اپنے امام علیہ السلام کی مکمل اطاعت کیا کرتے تھے، اور ان تمام نیک صفات کے ساتھ ان کے یہاں شیعوں کی رہبری کی لیاقت بھی پائی جاتی تھی،نیز مکمل فہم وشعور اور حالات کی شناخت کے ساتھ اپنے پاس موجود امکانات کے ذریعہ شیعہ معاشرہ کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت فرماتے تھے، اور مومنین کو غیبت صغریٰ سے صحیح و سالم گزار دیا۔
غیبت صغریٰ اور امام اور امت کے درمیان رابطہ ایجاد کرنے میں نوّاب اربعہ کے کردار کا ایک عمیق مطالعہ اس امام مہدی علیہ السلام کی زندگی کے اس حصہ کی اہمیت کو واضح کردیتا ھے۔ اس رابطہ کا وجود اور غیبت صغریٰ میں بعض شیعوں کا امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ھونا بارھویں امام اور آخری حجت خدا کی ولادت کے اثبات میں بہت موثر رہا ھے، اور یہ اہم نتائج اس زمانہ میں حاصل ھوئے کہ جب دشمنوں کی یہ کوشش تھی کہ شیعوں کو امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند کی پیدائش کے حوالہ سے شک و تردید میں ڈال دیں۔ اس کے علاوہ غیبت صغریٰ کا یہ زمانہ غیبت کبریٰ کی شروعات کے لئے ایک ہموار راستہ تھا جس میں مومنین اپنے امام سے رابطہ نھیں کرسکتے تھے، لیکن مطمئن طور پر امام علیہ السلام کے وجود اور ان کے برکات سے فیضیاب ھوتے ھوئے غیبت کبریٰ کے زمانہ میں داخل ھوگئے۔
غیبت کبریٰ

امام مہدی علیہ السلام کے چوتھے نائب کی زندگی کے آخری دنوں میں آپ نے ان کے نام خط میں یوں تحریر فرمایا:
” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اے علی بن محمد سمری! خداوندعالم آپ کی وفات پر آپ کے دینی بھائیوں کو اجر جمیل عنایت فرمائے، کیونکہ آپ چھ دن کے بعد عالم بقاء کی طرف کوچ کرجائیں گے۔ اسی وجہ سے اپنے کاموں کو خوب دیکھ بھال لو، اور اپنے بعد کسی کو اپنا وصی نہ بناؤ! کیونکہ مکمل (اور طولانی) غیبت کا زمانہ پہنچ گیا ھے،اس کے بعد سے مجھے نھیں دیکھ پاؤ گے، جب تک خدا کا حکم ھوگا، اور اس کے بعد ایک طویل مدت ھوگی جس میں دل سخت ھوجائیں گے اور زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی۔( )
اس بنا پر بارھویں امام علیہ السلام کے آخری نائب کی وفات کے بعد ۳۲۹ھ سے ”غیبت کبریٰ“ کا آغاز ھوگیا، اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری ھے جب تک کہ خدا کی مرضی سے غیبت کے بادل چھٹ جائیں اور یہ دنیا ولایت کے چمکتے ھوئے سورج سے براہ راست فیضیاب ھو۔
جیسا کہ بیان ھوچکا ھے کہ غیبت صغریٰ میں شیعہ مومنین امام علیہ السلام کے مخصوص نائب کے ذریعہ اپنے امام سے رابطہ رکھتے تھے اور اپنے الٰھی فرائض سے آگاہ ھوتے تھے، لیکن غیبت کبریٰ میں اس رابطہ کا سلسلہ ختم ھوگیا، اور مومنین اپنے فرائض کی شناخت کے لئے امام علیہ السلام عام نائبین جو کہ دینی علماء و مراجع تقلید ھیں؛ ان کی طرف رجوع کریں اور یہ واضح راستہ ھے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام نے اپنے ایک قابل اعتماد عظیم الشان عالم کے سامنے پیش کیا ھے، امام مہدی علیہ السلام کے دوسرے نائب خاص کے ذریعہ پہنچے ھوئے خط میں اس طرح تحریر ھے:
”وَ اٴمَّا الحَوَادِثُ الوَاقِعَةُ فَارْجعوا إلیٰ رُواةِ حَدیثنَا فَإنّہُمْ حُجَّتِي عَلَیْکُم وَ اٴَنَا حُجَّةُ اللهِ عَلَیْہِمْ“۔( )
”اور آئندہ پیش آنے والے حوادث (اور واقعات نیز (مختلف حالات میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کی پہچان کے لئے) ہماری احادیث کے رایوں (فقہاء) کی طرف رجوع کریں، کیونکہ وہ تم پر ہماری حجت ھیں اور ہم ان پر خدا کی حجت ھیں۔۔۔“۔
یہ نیا طریقہٴ کار دینی سوالات کے جواب کے لئے اور ان سے اہم شیعوں کے انفرادی اور اجتماعی فرائض کی پہچان اس حقیقت کی عکاسی کرتا ھے کہ امامت و رہبری کا عظیم الشان نظام ، شیعہ ثقافت میں ایک بہترین اور زندہ نظام ھے جس میں مختلف حالات میں مومنین کی ہدایت و رہبری بہت ھی مستحکم طریقہ پر انجام پاتی ھے اور اس مکتب کے ماننے والوں کو کسی بھی زمانہ میں ہدایت کے سرچشمہ کے بغیر نھیں چھوڑا گیا ھے بلکہ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف حصوں میں ان کے مسائل کو دینی علماء اور پرھیزگار مجتہدین کے سپرد کردیا گیا ھے جو مومنین کے دین اور دنیا کے امانت دار ھیں ، تاکہ اسلامی معاشرہ کی کشتی طوفان اور دریا کے تلاطم نیز استعمار کی گندی سیاست کے دلدل میں پھنسنے سے محفوظ رھے اور شیعہ عقائد کی سرحدوں کی حفاظت ھوتی رھے۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام غیبت کے زمانہ میں دینی علماء کے کردار کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”اگر ایسے علماء کرام نہ ھوتے جو امام مہدی علیہ السلام کی غیبت میں لوگوں کو آپ کی طرف دعوت دیتے اور ان کو اپنے امام کی طرف ہدایت کرتے، نیز حجتوں اور خداوندعالم کے دینی مستحکم دلائل (جو کہ خود دین خدا ھے) کی حمایت نہ کرتے، اور اگر نہ ھوتے ایسے با بصیرت علماء جو خدا کے بندوں کو شیطان اور شیطان صفت لوگوں نیز دشمنان اہل بیت علیہم السلام (کی دشمنی) کے جال سے نجات نہ دیتے؛ تو پھر دین خدا پر کوئی باقی نہ رہتا!! (اور سب دین سے خارج ھوجاتے) لیکن انھوں نے شیعوں کے (عقائد اور) افکار کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں لے لیا جیسا کہ کشتی کا ناخدا کشتی میں سوار مسافروں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ھے۔ یہ علماء خداوندعالم کے نزدیک سب سے بہترین (بندے) ھیں“۔( )
قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ معاشرہ کی رہبری کے لئے مخصوص صفات و کمالات درکار ھیں، کیونکہ مومنین کے دین و دنیا کے امور کو ایسے شخص کے ہاتھوں میں دینا جو اس عظیم ذمہ داری کے عہدہ دار ھوتے ھیں واقعاً ان افراد کا مکمل طور پر صاحب بصیرت اور صحیح تشخیص کی صلاحیت کا مالک ھونا ضروی ھے، اسی وجہ سے ائمہ معصومین علیہم السلام نے دینی مراجع اور ان سے بڑھ کر ولی امر مسلمین ”ولی فقیہ“ کے مخصوص شرائط بیان کئے ھیں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”فقہاء (کرام)اور دینی علماء میں جو شخص (گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ کے مقابلہ میں) اپنے کو محفوظ رکھے، اور دین اور (مومنین کے عقائد کا) محافظ ھو، اور اپنے نفس اور خواہشات کی مخالفت کرتا ھو، اور اپنے (زمانہ کے) مولا و آقا (اور امام) کی اطاعت کرتا ھو، تو مومنین پر واجب ھے کہ اس کی پیروی کریں، اور صرف بعض شیعہ فقہاء ایسے ھوں گے نہ کہ سب لوگ“۔

http://alkausar.net

فرائض دور ِ غیبت



علامہ شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ نے دور ِ غیبت ِامام میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام اور امام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان آٹھ فرائض کی مختصر تفصیل یہ ہے:
۱۔ محزون و رنجیدہ رہنا: ۔ حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کو غیبت ِ امام کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہو جائے تو اس کی زندگی سے مسرت و ابتہاج ناپید ہو جائے۔زمانہ کے بدترین حالات، اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم، نظام اسلامی کی بربادی، تعلیمات الٰہیہ کا استہزاء اور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن سے غیبت ِ امام کے نقصانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کا احساس ہی انسان کے آنسو بہانے کے لیے کافی ہے۔ پھر اگر یہ بات صحیح ہے کہ امام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اور عاشق کے دل میں اضطراب اور بے قراری نہ پیدا ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وجود اور اس کی غیبت کا احساس بھی نہ پیدا کرے۔دعائے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اسی لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت ِ امام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کر لے تو گریہ اور ندبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اسی لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی روز عید فطر، روز عید قربان، روز عید غدیر اور روز جمعہ جسے اسلامی احکام کے اعتبار سے عید سے تعبیر کیا گیا ہے کہ عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے اور اس کی فرقت پر آنسو بہائے تاکہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیساکہ امام محمد باقرں نے فرمایا ہے کہ :”جب کوئی عید کا دن آتا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت ِ الٰہیہ کی بنیاد پر کوئی آواز بھی بلند نہیں کر سکتے۔“ائمہ معصومین میں مولائے کائنات کے دور سے امام عسکریں تک ہر امام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں خیر صرف اس وقت نمایاں ہوگا جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور اس سے پہلے اس دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تاکہ انسان موٴمن بدترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہ ہو جائے کہ یہ اس کے نقص ایمان کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا۔اس مقام پر سدیر صیرفی کی اس روایت کا نقل کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ میں (سدیر) اور مفضل بن عمر اور ابو بصیر اور ابان بن تغلب امام صادقں کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خاک پر بیٹھے ہوئے بے تحاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ میرے سردار! تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے، میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب ِ اشک جاری کر دیا ہے۔ میں نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ ”فرزند رسول! خدا آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے، یہ گریہ کا کون سا انداز ہے اور خدا نخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہوگئی ہے؟“ تو فرمایا کہ:”میں نے کتاب ِ جفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس دور میں پیدا ہونے والے بدترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے تزلزل کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تغافل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبانِ ایمان کا کیا حشر ہوگا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا۔“عزیزانِ گرامی! اگر ہمارے حالات اور ہماری بد اعمالیاں سیکڑوں سال پہلے امام صادقں کو بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور ِ غیبت میں ان حالات اور آفات کا اندازہ کرکے کم از کم روز ِ جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کرکے اپنے حالات پر خود آنسو بہائیں کہ شاید اسی طرح ہمارے دل میں عشق امام زمانہ کا جذبہ پیدا ہو جائے وار ہم کسی آن ان کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح کہ انہوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتماد ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے۔
۲۔ انتظار ِ حکومت و سکونِ آل محمد :۔ اس انتظار کو دور ِ غیبت میں افضل اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کا واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور موٴمنین کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہے؟ یہ ایک راز ِ الٰہی ہے جس کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر الموٴمنینں کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی کہ مولا! ان مصائب کی انتہاء کیا ہے؟ تو فرمایا کہ ۷۰ء ھ تک۔ عرض کی کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور غش کھا گئے۔اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو دوبارہ سوال کیا۔ فرمایا: بے شک ہر بلا کے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔اس کے بعد ابو حمزہ ثمالی نے امام باقرں سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۷۰ء ھ تو گزر چکا ہے لیکن بلاؤں کا سلسلہ جاری ہے؟ تو فرمایا کہ شہادت ِ امام حسینں کے بعد جب غضب پروردگار شدید ہو تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھا دیا۔پھر اس کے بعد ابو حمزہ نے یہی سوال امام صادقں سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک غضب ِ الٰہی نے اس مدت کو دوگنا کر دیا تھا، اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاش کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق راز بنا دیا اور اب کسی کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا ہے، اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو وہ قائم آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا۔
۳۔ امام کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں دست بدعا رہنا:۔ظاہر ہے کہ دعا ہر اس مسئلہ کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور ِ غیبت میں امام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کے رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی وقت بھی اس فرض سے غافل نہ ہوں: ﴿اَللّٰھُمَّ کُنْ لِّوَلِیِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ﴾ جسے عام طور سے اثنائے نماز قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ امامں کے وجود کی حفاظت، ان کے ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے، جس سے صاحبانِ ایمان کو کسی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔
۴۔ امام کی سلامتی کے لیے صدقہ نکالنا :۔ صدقہ درحقیقت خواہش سلامتی کا عملی اظہار ہے کہ انسان جس کی سلامتی کی واقعاً تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی شے نہیں ہے۔ دعا ان لوگوں کے لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ جو کچھ مالک کائنات سے لیا ہے وہ سب انہیں کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آئندہ لینا ہے وہ بھی انہیں کے طفیل میں اور انہیں کے وسیلہ سے حاصل کرنا ہے۔
۵۔ امام عصر کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا :۔ جو دور قدیم سے شیعوں کے درمیان مرسوم ہے کہ لوگ اپنے امام زمانہں کی طرف سے نیابةً اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام عصرں ان کے ان اعمال کی قدر دانی بھی فرمایا کرتے تھے جیساکہ ابو محمد دعلجی کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ انہیں کسی شخص نے امام عصرں کی طرف سے نیابةً حج کے لیے پیسہ دیے تو انہوں نے اپنے فاسق و فاجر اور شرابی فرزند کو حج نیابت ِ امام کے لیے اپنے ساتھ لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدانِ عرفات میں ایک انتہائی نوجوان شخص کو دیکھا جو یہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی ہے کہ لوگ تمہیں حج نیابت کے لیے رقم دیتے ہیں تو تم فاسق و فاجر افراد کو یہ رقم دے دیتے ہو۔ قریب ہے کہ تمہاری آنکھ ضائع ہو جائے کہ تم نے انتہائی اندھے پن کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ راوی کہتا ہے کہ حج سے واپسی کے چالیس روز کے بعد ان کی وہ آنکھ ضائع ہوگئی جس کی طرف اس مرد نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔
۶۔ امام عصر کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا :۔ بالخصوص اگر آپ کا ذکر لفظ قائم سے کیا جائے کہ اس میں حضرت کے قیام کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت ،عقیدت اور غلامی کا بہترین مقتضی ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے۔
۷۔ دور غیبت میں حفاظت دین و ایمان کے لیے دعا کرتے رہنا :۔امام صادقں نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم کی غیبت میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہٰذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہے اور یاد امام میں مصروف رہے اور عبد الله بن سنان کی امام صادقں سے روایت کی بنا پر کم سے کم ﴿یٰا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبیْ عَلٰی دِیْنِکَ﴾ کا ورد کرتا رہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔
۸۔ امام زمانہ سے مصائب و بلیات کے موقع پر استغاثہ کرنا :۔ کہ یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین طریقہ ہے اور پروردگار عالم نے ائمہ طاہرین کو یہ طاقت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں جیساکہ ابو طاہر بن بلال نے امام صادقں سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب اہل زمین تک کوئی برکت نازل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم سے امام آخر تک سب کو وسیلہ قرار دیتا ہے اور ان کی بارگاہوں سے گزرنے کے بعد برکت بندوں تک پہنچتی ہے اور جب کسی عمل کو منزل قبولیت تک پہنچانا چاہتا ہے تو امام زمانہں سے رسول اکرم تک ہر ایک کے وسیلہ سے گزار کر اپنی بارگاہِ جلالت پناہ تک پہنچاتا ہے اور پھر قبولیت کا شرف عنایت کرتا ہے بلکہ خود امام عصرں نے بھی شیخ مفید کے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ تمہارے حالات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں اور ہم تمہارے مصائب کی مکمل اطلاع رکھتے ہیں اور برابر تمہارے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔علامہ مجلسی نے تحفة الزائر میں نقل کیا ہے کہ صاحبانِ حاجت کو چاہیے کہ اپنی حاجت کو کسی کاغذ پر لکھ کر ائمہ طاہرین کی قبور مبارکہ پر پیش کر دیں یا کسی خاک میں رکھ کر دریا یا نہر وغیرہ کے حوالہ کر دیں کہ امام زمانہں اس حاجت کو پورا فرما دیں گے۔ اس عریضہ کی ترسیل میں آپ کے چاروں نواب خاص میں سے کسی کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے۔ انشاء الله وہ اسی طرح امام کی بارگاہ میں پیش کریں گے جس طرح اپنی زندگی میں اس فرض کو انجام دیا

کرتے تھے اور امامں اسی طرح مقصد کو پورا کریں گے جس طرح اس دور میں کیا کرتے تھے۔
http://www.shiastudies.net

معرفت امام (عج) کا فائدہ اور کردار

امام (عج) کي معرفت

2- انسان کے يقين و اعتقاد ميں معرفت امام کا کردار

انسان کے يقين و اعتقاد اور روش و سيرت ميں امام (ع) کي معرفت کے متعدد اثرات ہيں؛ اور اس تاثير و کردار کي کئي دلائل ہيں:

الف- بےشمار احاديث کے مطابق، اللہ کي صحيح و مکمل معرفت امام کي معرفت کے بغير ممکن نہيں ہے: امام حسين (ع) سے پوچھا گيا کہ اللہ کي معرفت کيا ہے؟ تو آپ (ع) نے فرمايا:

{مَعْرِفَةُ أَهْلِ کُلِّ زَمانٍ إمَامَهُمُ الّذي يجِبُ عَلَيْهِمْ طاعتُهُ}- (2)

"يہ کہ ہر زمانے کے لوگ اپنے اس امام کي معرفت حاصل کريں جس کي اطاعت ان پر واجب ہے"-

علامہ مجلسي (رح) فرماتے ہيں: "شايد "معرفت اللہ" کو "معرفت امام" سے تفسير کرنے سے مراد يہ نکتہ ہو کہ خدا کي معرفت امام کي معرفت کے بغير ممکن نہيں ہے يا يہ کہ خدا کي معرفت سے فائدہ اٹھانا معرفت امام سے مشروط ہے"- (3)

ب- معرفت کے کمال کا ايک سبب خدا کي اطاعت ہے يعني عارف شخص جس قدر ميدان عمل ميں رہے گا اور اس کي عبادت و اطاعت جس قدر بڑھتي رہے گي، اس کي معرفت بھي وسيع تر اور عميق تر ہوگي اور وہ زيادہ سے زيادہ غيبي امداد حاصل کرتا رہے گا- امام کي شناخت بھي ايسي ہي ہے-

جس قدر اس معرفت ميں اضافہ ہوگا عبادت و اطاعت الہيہ کے اشتياق ميں اتنا ہي اضافہ ہوگا، حتي کہ تمام غير الہي رجحانات انسان کے اندر بےاثر ہوجاتے ہيں؛ اسي بنا پر خدا کي اطاعت و عبادت ـ اس کي کيفيت ـ صرف اسي وقت انجام پذير ہوتي ہے کہ اس کا پروگرام اور حکمت عملي امام سے وصول ہو- معرفت کاملہ کا يہ درجہ ـ جو خود بھي مراتب و مدارج کا حامل ہے ـ معرفت امام کے بغير حاصل کرنا ممکن نہيں ہے-


ج) معرفت الہي کا سب سے بڑا فائدہ اور اثر، انسان کے اعمال ميں ظاہر ہوتا ہے اور جس قدر انسان اللہ کي اطاعت کا پابند ہوگا اور اللہ کي تعليمات کي جس قدر پيروي و فرمانبرداري کرے گا؛ اس کي معرفت کي سطح کا تعين اسي حساب سے ممکن ہوگا اور اس معرفت کا کامل ترين مظہر خليفۃاللہ اور امام کي اطاعت ہے جو معرفت الہي کے مرہون منت ہے- البتہ معرفت بذات خود بھي ايک قسم کي اطاعت الہي ہے-

* آئمہ اہلبیت (ع) خلقت نورانی ہیں *



اہل بیت علیھم السلام نور مطلق :

یہ حدیث اصول الکافی، ج ٢ ، ص ١٦٦ ، باب اخوت المومنین ، حدیث ٤ میں اس طرح پائی جاتی ہے : 

"اشد اتصالا بروح اللہ من الاتصال شعاع الشمس بھا " [اہل بیت علیھم السلام روح خدا سے سورج کی اپنی شعاؤں سے بھی زیادہ متصل ہیں."

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ {8}

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفّار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو ."

اس آیتہ شریفہ میں اور اسکے مشابہ دوسری آیات میں لفظ 'نور' نحوی لحاظ سے 'اللہ ' کی طرف اضافہ ہوا ہے اور یہ مضاف اپنے تمام اوصاف اور حقائق کو مضاف الیہ [یعنی اللہ ] سے کسب کرتا ہے . سادہ الفاظ میں یوں کہا جاۓ کہ یہ نور [جس سے مراد مستند اور اہم روایات میں اہل بیت علیھم السلام اور ائمّہ معصومین علیھم السلام ہیں ] کبھی بھی خدا سے جدا نہیں ہوگا ، اور خدا وند عالم کے عالی ترین فیض کو حاصل کرنے سے کبھی محروم نہیں ہوگا .

یہ بس ائمّہ طاہرین علیھم السلام ہیں جنکا خدا سے اتصال سورج کی کرنوں سے اتصال سے بھی زیادہ شدید تر ہے !

زیارت جامعہ کبیرہ میں ائمّہ علیھم السلام کی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے :

"خلقکم اللہ انوارا " خدا وند عالم نے تم [اہل بیت ] کو نور پیدا کیا ہے .

الفقیہ ، ج ٢ ، ص ٦١٣ / بحار الانوار ، ج ٩٩ ، ص ١٢٩، باب ٨

اور دوسری جگہ بیان ہوا ہے :

"و ان ارواحکم و نور کم و طینتکم واحدہ طابت و طھرت "

آپ [اہل بیت ] کی روح ، نور ، اور طینت ایک ہی ہے ، پاک و پاکیزہ ہیں آپ حضرات .

الفقیہ ، ج ٢ ، ص ٦١٣ / مصدر سابق

بشکریہ : برادر قدسی رضوی

امام مہدی حیات کا سرچشمہ

http://www.ahl-ul-bayt.org/ur.php/page,18719Unit139816.html

ایک نوجوان جو کہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا جدہ سے مکہ جاتے ہوئے اس نے راستے میں مجھ سے امام زمانہ حضرت مہدی صلوات اللہ علیہ کے حوالے سے گفتگو شروع کی اور ان کے بارے میں مختلف سوال سامنے لایا وہ کہہ رہا تھا : کہ آیا ہماری زندگی و حیات امام زمانہ کی نظر سے تعلق رکھتی ہے ؟ میں خود اس قسم کی بحث کا مشتاق رہتا ہوں اور چاہتا تھا کہ یہ سفر بہترین ذکر یعنی اپنے امام زمان (عج) کی یاد میں طے کروں، میں نے اس کے جواب میں عرض کیا : سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ اس مقدس سفر میں مجھے آپ کی مصاحبت ملی اور یہ کہ آپ عمر کے اس دور میں کس قدر امام زمان (عج) کے حوالے سے بیدار ہیں اور ان کے بارے میںگفتگو کررہے ہیں دوسری بات یہ کہ آپ کے سوال کا مختصر جواب یہی ہے کہ جی ہاں ہماری مادی اور معنوی زندگی کا وقت کے امام مہدی علیہ السلام کی نظر مبارک سے بہت گہرا تعلق ہے۔
معنوی زندگی:
آپ کا وجود مطھر پانی کی مانند سرچشمہ حیات ہے و جعلنا من الماء کل شی حی (انبیاء آیت۳۰)
(۱)پانی پاک کرتا ہے(ب)پانی حیات بخش ہے اور اھل معنویت کو تو پاک کرنے اور حیات بخش ہونے کے درمیانرابطہ معلوم ہے۔ قرآن مجید فرما رہا ہے و انزلنا من السماء ما طھورا لنحی بہ بلدۃ میتا، (فرقان آیت۴۸)جب تک حضرت مہدی صلواۃ اللہ علیہ کے تربیتی سکول یعنی مکتب تشیع میں دل کی پاکیزگی اور تزکیہ کا مرحلہ انجام نہیں پاتا تو کمال کے طالب کے لئے پاکیزہ حیات میسر نہ ہوگی، امام زمانہ پاکیزگی کی لیاقت رکھنے والے دلوں کو پاک کرتے ہیں اور پاکیزہ دلوں کو زندہ کرتے ہیں، یاایھا الذین آمنوا استجیبوا اللہ والرسول اذا دعاکم لما یحیکم (انفال، آیت۲۴)یعنی اے لوگوں کہ جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسول کی دعوت پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف دعوت کریں کہ جو تمہیں زندہ کرنے کا باعث ہو۔
ہمارے جد بزرگوار مرحوم سید احمد علوی (صھر میرداماد) کتاب لطائف غیبۃ کے صفحہ ۴۲۰ میں فرماتے ہیں کہ ابن مردویہ کتاب مناقب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے روایت کرتا ہے کہ دعاکم لمایحییکم سے مرادعلی ابن ابی طالب کی امامت و ولایت ہے معلوم ہوا ہے کہ وقت کے امام کی امامت و ولایت حیات بخش اور نور افشاں کا مقام رکھتی ہے چونکہ زمانہ مولائے کائنات امیر المومنین کی ولایت کا ہی سلسلہ ہیں تو آج ان کی ولایت قبول کرنے میں اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک ہے پس دل کی پاکیزگی اور اس کی زندگی امام زمان (عج) کے پرچم تلے ہی نصیب ہوگی۔
سورہ حج آیت۴۵ میں امام زمان کو کنویں کے ساتھ تشبیہ دی گئی یعنی وہ پانی کہ کوئی اس کی طرف رجوع نہیں کرتا اور نہ ہی پیاسا اس سے سیراب ہونے کے لئے پانی لیتا ہے اور یہ چیز اسلام اور صاحب اسلام کی غربت کو بیان کررہی ہے جبکہ سورہ ملک (آیت۳۰) میں آپ کے جاری پانی (ماء معین) سے تشبیہ دی گئی، البتہ یہ کہنا کہ امام دریا ہے تشبیہ اس سے بھی بلند ہے ،آپ کمالات ، فضائل اور علوم و عظمتوں کا دریا ہیں کہ جو معرفت کے پیاسوں اور فضیلت کے غوطہ خوروں کو فائدہ پہنچانا ہے البتہ ایک مقام پر آپ کو کنویں کے پانی سے تشبیہ دینا اور دوسرے مقام پر دریا کے پانی سے تشبیہ دینے کے ایک وجہ مکتب اھل بیت کے محبین اور شاگردوں کی فکری و معنوی استعداد میں فرق ہے ،امام زمانہ کا وجود مبارک اس دریائے کمالات کے حقیقی با معرفت و استعداد غوطہ خوروں کے لئے ایک دریا کی مانند ہیں جبکہ محض معرفت کے پیاسوں کےلئے (کہ جن کا درجہ ان سے نیچے ہے) کنویں کے پانی کی مانند ہیں کہ جہاں سے وہ جرعہ جرعہ آب معرفت لے کر سیراب ہوتے رہتے ہیں نوجوان نسل اچھی طرح اس آیت کے مطلب کو سمجھ لے کہ اللہ تعالی فرما رہا ہے، انما انت منذر و لکل قوم ھاد (سورہ رعد آیت۷)
اے رسول تو فقط ڈرانے والا ہے اور ھر قوم کا ھادی و رہنما ہے تو اس زمانہ میں حقیقی رہنما امام زمانہ حضرت مہدی (عج) ہیں ہمیں چاہئے ان کی پیروی اور ان کے وجود مبارک سے توسل کرتے ہوئے اپنا راستہ اپنائیں اور نورانی سفر کا آغاز کریں۔
جاپانی محقق کا ھدایت پانا:
یہ کہ امام مہدی(عج) تمسک و توسل کا اثر ھدایت پانے اور نورانیت کی صورت میں جاننا چاہیں تو اس خبر کا مطالعہ کریں کہ جسے امام زمانہ پی ایچ ڈی لائبریری والوں نے خورشید کا استقبال کی صورت میں کیھان اخبار(ایرانی اخبار) میں چھپوایا اس سے واقعا نوجوان نسل کے عقائد پختہ ہوئے ہیں اس واقعہ کو نقل کرتا ہوں :
تاریخ ۲۴۔۸۔۷۴(ایرانی تاریخ کہ جو ۱۹۹۵کے سال کی تاریخ ہے) بدھ والے دن سہ پہر تین بجے ایک جاپانی محقق بنام سومیا کہ so.miyake
کے امام زمانہ پی ایچ ڈی لائبریری اصفہان میں آیا چونکہ بدھ کا دن تھا اور امام زمانہ کے متعلق وہاں پروگرام ہورہا تھا ،تو میں نے اس جاپانی محقق کے پروگرام میں آتے ہی اپنی بحث کا موضوع ماتریالیسم اسلام، بدھ مت، قرار دیا اور عرض کیا کہ الحاد اور ماتریالیسم کی روش یہ ہے کہ وہ ماورا طبعیت کی نفی کرتی ہے یعنی پروردگار کا انکار ہے اسی لئے اس نظرئے کے پیروکار مادی غرائز اور شہوات میں غرق ہیں جبکہ بدھ مت کا نظریہ روحانیت اور غرائز جسمی کو ختم کرنے کا پرچار کرتا ہے یعنی بالکل ماتریالیسم کے مدمقابل ہے وہ اگر مادیت اور شہوات میں غرق ہونے کی تعلیم دیتا ہے یہ خواہشات اور شہوات کو نابود کرنے کی تعلیم دیتا ہے ،لیکن اسلام نہ غرائز و مادیت میں غرق ہونے کا حکم دیتا ہے اور نہ کامل طور پر جسمانی خواہشات اور مادیت کو چھوڑنے کا حکم دیتا ہے بلکہ وہ اس غرائز اور شہوات سے بہتر فائدہ اٹھانے اور انہیں کنٹرول کرنے کا حکم دیتا ہے، یہ بحث بڑھتی رہی اور مترجم حضرات جناب سومیا کے لئے ترجمہ کرتے رہے، تو اس محقق نے یہ سوال کیا کہ آپ کے مذہب میں اللہ کی معرفت کیسے ہے؟ میں نے جواب دیا ہمارا مذھب مکمل طور پر دلیل و برھان سے بات کرتا ہےچاہے اصول دین ہوں یا فروع دین، دلیل حکم فرما ہے لھذا اللہ تعالی کی معرفت کے حوالے سے بھی ہمارے پاس دلائل اور براھین ہیں ،بلکہ اس سے بڑھ کر کہ ہم حضور و شہود کی بات کرتے ہیں، پھر میں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی دعا سے چند جملے تفصیل و تشریح کے ساتھ سنائے، کیف یستدل علیک بما ھو فی وجودہ مفتقرا الیک۔ ۔ ۔ ۔ کیسے وہ تجھ پر دلیل قائم کرے کہ وہ خود اپنےوجود میں تیرا محتاج ہے ۔ ۔ ۔ متی غبت حتی تحتاج الی دلیل یدل علیک۔ ۔ ۔تو غائب کب ہے کہ تجھے ڈھونڈنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہو۔ ۔ ۔بندہ حقیر کی گفتگو کے بعد (جو کہ پورا ہفتہ جاری رہی) مداح اھل بیت حضرات امام زمانہ (عج) کی مدح اور ان کے فراق میں جانسوز اشعار پڑھتے تھے ،چاپانی محقق جو کہ اس محفل میں ہوتا تھا وہ شیعہ کی منطق و استدلال بھی سنتا تھا اور ان کا اپنے امام کے فراق میں آنسو بہانا بھی دیکھتا تھا وہ مشاھدہ کرتا کہ شیعہ کس طرح عالم معنویت سے رابطہ رکھے ہوئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کا امام موجود ہے اور یوں وہ اپنے امام کو یابن الحسن کہہ کر پکارتے ہیں یاد کرتے ہیں اور روتے ہیں گویا وہ ان کے سامنے ہے ۔
محفل ہمیشہ اشک و اشتیاق سے بھرپور ہوتی تھی جاپانی محقق اگرچہ فارسی زبان کہ نہیں سمجھتا تھا، لیکن یاابن الحسن کی فریادیں گویا اس کے دل پر خاص اثر چھوڑ رہی تھیں اسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ دل سے ابھام کی سیاہی کے بادل چھٹ رہے ہیں اور دل کے افق پر علم و آگاہی کا ایک نیا سورج طلوع ہورہا ہے بعد والے دن یعنی جمعرات کو اس نے ایک جملہ لکھا :
قرآن ( )یعنی نقشہ ہےاور ائمہ اس کے راہنما ہیں
پھر اس آیہ شریفہ انما انت منذر و لکل قوم ھاد کا مفہوم متحقق ہوگیا اور زمانے کے ھادی ولی بالیاقت دلوں کو زندہ کرنے والے وارستہ دلوں کی پرورش کرنے والے بقیۃ اللہ الاعظم اورقائم آل محمد عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی برکات سے اس نے توحید ، رسالت اور ولایت کا کلمہ اپنی زبان پر جاری کیا اور اس کے بعد اس کا نام روح اللہ میاکی رکھا گیا۔
پانی سے اس کے علاوہ کیا امید رکھیں پانی تو آبادانی اور زندگانی کا موجب ہے یہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ امام زمانہ عج کا وجود پانی کی مانند ہے اگر آپ آب حیات کی تلاش میں ہیں ، کتابوں کا مطالعہ کررہے ہیں ،کتابخانہ بنایا ہے ،کوئی کلاس رکھی ہے ، مناظرہ اور دفاع کرتے ہیں، بیدار ہیں اور بیداروں کی پرورش کررہے ہیں خلاصہ یہ کہ دشمن کی ثقافتی یلغار کا سامنا کیا ہے اور یہ سب اللہ تعالی کے نام سے اور ولی اللہ الاعظم کی رضا کے لئے کیا ہے تو سمجھ لیں پاکیزہ زندگی گزار رہے ہیں بلکہ خود آپ زندگی دے رہے ہیں اس جاپانی محقق کی مثال آپ کے سامنے ہے۔

حضرت امام مہدی (ع) كے ظھور پر زندہ دلیلیں



چند سال قبل كینیا (افریقہ) كے ایك باشندے بنام "ابو محمد" نے "ادارہ رابطہ عالم اسلامی" سے حضرت مہدی (ع) كے ظھور كے بارے میں سوال كیا تھا۔
اس ادارے كے جنرل سكریٹری "جناب محمد صالح اتغزاز" نے جو جواب ارسال كیا، اس میں اس بات كی با قاعدہ تصریح كی ھے كہ وھابی فرقے كے بانی "ابن تیمیہ" نے بھی ان روایات كو قبول كیا ھے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام كے بارے میں وارد ھوئی ھیں۔ اس جواب كے ذیل میں سكریٹری موصوف نے وہ كتابچہ بھی ارسال كیا ھے جسے پانچ جید علمائے كرام نے مل كر تحریر كیا ھے۔ اس كتابچے كے اقتباسات قارئین محترم كی خدمت میں پیش كئے جاتے ھیں: ۔۔۔۔
عظیم مصلح كا اسم مبارك مھدی (ع) ھے۔ آپ كے والد كا نام "عبد اللہ" ھے اور آپ مكّہ سے ظھور فرمائیں گے۔ ظھور كے وقت ساری دنیا ظلم و جور و فساد سے بھری ھوگی۔ ھر طرف ضلالت و گمراھی كی آندھیاں چل رھی ھوں گی۔ حضرت مہدی (ع) كے ذریعہ خداوندعالم دنیا كو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و جور و ستم كانشان تك بھی نہ ھوگا۔"
رسول گرامی اسلام (ص) كے بارہ جانشینوں میں سے وہ آخری جانشین ھوں گے، اس كی خبر خود پیغمبر اسلام (ص) دے گئے ھیں، حدیث كی معتبر كتابوں میں اس قسم كی روایات كا ذكر باقاعدہ موجود ھے۔"
حضرت مہدی (ع) كے بارے میں جو روایات وارد ھوئی ھیں خود صحابۂ كرام نے ان كو نقل فرمایا ھے ان میں سے بعض كے نام یہ ھیں:۔
(1) علی ابن ابی طالب (ع)، (2) عثمان بن عفان، (3) طلحہ بن عبیدہ، (4) عبد الرحمٰن بن عوف، (5) عبد اللہ بن عباس،(6) عمار یاسر، (7) عبد اللہ بن مسعود، (8) ابوسعید خدری، (9) ثوبان، (10) قرہ ابن اساس مزنی، (11) عبد اللہ ابن حارث، (12) ابوھریرہ، (13) حذیفہ بن یمان، (14) جابر ابن عبد اللہ (15) ابو امامہ، (16) جابر ابن ماجد، (17) عبد اللہ بن عمر (18) انس بن مالك، (19) عمران بن حصین، (20) ام سلمہ۔
پیغمبر اسلام (ص) كی روایات كے علاوہ خود صحابہ كرام كے فرمودات میں ایسی باتیں ملتی ھیں جن میں حضرت مہدی (ع) كے ظھور كو باقاعدہ ذكر كیا گیا ھے۔ یہ ایسا مسئلہ ھے جس میں اجتہاد وغیرہ كا گذر نہیں ھے جس كی بناء پر بڑے اعتماد سے یہ بات كہی جاسكتی ھے كہ یہ تمام باتیں خود پیغمبر اسلام (ص) كی روایات سے اخذ كی گئی ھیں۔ ان تمام باتوں كو علمائے حدیث نے اپنی معتبر كتابوں میں ذكر كیا ھے جیسے:۔
سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، ابن ماجہ، سنن ابن عمر والدانی، مسند احمد، مسند ابن یعلی، مسند بزاز، صحیح حاكم، معاجم طبرانی (كبیر و متوسط)، معجم رویانی، معجم دار قطنی، ابو نعیم كی "اخبار المھدی"۔ تاریخ بغداد، تاریخ ابن عساكر، اور دوسری معتبر كتابیں۔
علمائے اسلام نے حضرت مھدی (ع) كے موضوع پر مستقل كتابیں تحریر كی ھیں جن میں سے بعض كے نام یہ ھیں:
اخبار المھدی؛ تالیف: ابو نعیم
القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر؛ تالیف: ابن ھجر ھیثمی
التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والد جال والمسیح؛ تالیف: شوكانی
المھدی؛ تالیف: ادریس عراقی مغربی
الوھم المكنون فی الرد علی ابن خلدون؛ تالیف: ابو العباس بن عبد المومن المغربی
مدینہ یونی یورسٹی كے وائس چانسلر نے یونی ورسٹی كے ماھنامہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث كی ھے، ھر دور كے علماء نے اس بات كی باقاعدہ تصریح كی ھے كہ وہ حدیثیں جو حضرت مھدی (ع) كے بارے میں وارد ھوئی ھیں وہ متواتر ھیں جنھیں كسی بھی صورت سے جھٹلایا نہیں جاسكتا۔ جن علماء نے حدیثوں كے متواتر ھونے كا دعویٰ كیا ھے ان كے نام اور كتابوں كے نام حسب ذیل ھیں، جن میں تواتر كا ذكر كیا گیا ھے:۔
1۔ السخاوی اپنی كتاب فتح المغیث میں
2۔ محمد بن السنادینی اپنی كتاب شرح العقیدہ میں
3۔ ابو الحسن الابری اپنی كتاب مناقب الشافعی میں
4۔ ابن تیمیہ اپنے فتوؤں میں
5۔ سیوطی اپنی كتاب الحاوی میں
6۔ ادریس عراقی مغربی اپنی كتاب المھدی میں
7۔ شوكانی اپنی كتاب التوضیح فی تواتر ماجاء میں
8۔ شوكانی اپنی كتاب فی المنتظر والدجال والمسیح میں
9۔ محمد جعفر كنانی اپنی كتاب نظم المتناثر میں
10۔ ابو العباس عبد المومن المغربی اپنی كتاب الوھم المكنون میں
ھاں ابن خلدون نے ضرور اس بات كی كوشش كی ھے كہ ان متواتر اور ناقابل انكار حدیثوں كو ایك جعلی اور بے بنیاد حدیث لا مھدی الا عیسیٰ (حضرت عیسیٰ كے علاوہ اور كوئی مھدی نہیں ھے) كے ھم پلّہ قرار دے كر ان حدیثوں سے انكار كیا جائے۔ لیكن علمائے اسلام نے اس مسئلہ میں ابن خلدون كے نظریے كی باقاعدہ تردید كی ھے خصوصاً ابن عبد المومن نے تو اس موضوع پر ایك مستقل كتاب الوھم المكنون تحریر كی ھے۔ یہ كتاب تقریباً 30 برس قبل مشرق اور مغرب میں شائع ھوچكی ھے۔
حافظان حدیث اور دیگر علمائے كرام نے بھی ان حدیثوں كے متواتر ھونے كی صراحت فرمائی ھے۔
ان تمام باتوں كی بنا پر ھر مسلمان پر واجب ھے كہ وہ حضرت مھدی كے ظھور پر ایمان و عقیدہ ركھے۔ اھل سنت والجماعت كا بھی یہی عقیدہ ھے اور ان كے عقائد میں سے ایك ھے۔
ھاں وہ اشخاص تو ضرور اس عقیدے سے انكار كرسكتے ھیں جو روایات سے بے خبر ھیں، یادین میں بدعت كو رواج دینا چاھتے ھیں، (ورنہ ایك ذی علم اور دیندار كبھی بھی اس عقیدے سے انكار نہیں كرسكتا۔)"
سكریٹری انجمن فقۂ اسلامی
محمد منتصر كنانی
اس جواب كی روشنی میں یہ بات كس قدر واضح ھوجاتی ھے كہ حضرت مھدی (ع) كے ظھور كا عقیدہ صرف ایك خالص اسلامی عقیدہ ھے كسی بھی دوسرے مذھب سے یہ عقیدہ اخذ نہیں كیا گیا ھے۔
ایك بات ضرور قابل ذكر ھے وہ یہ كہ اس جواب میں حضرت امام مھدی (ع) كے والد بزرگوار كا اسمِ مبارك عبد اللہ ذكر كیا گیا ھے۔ جب كہ اھل بیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ھوئی ھیں۔ ان میں بطور یقین حضرت كے والد بزرگوار كا اسم مبارك حضرت امام حسن عسكری علیہ السلام ھے
اس شبہ كی وجہ وہ روایت ھے جس كے الفاظ یہ ھیں "اسم ابیہ اسم ابی" (ان كے والد كا نام میرے والد كا نام ھے) جبكہ بعض دوسری روایات میں ابی (میرے والد) كے بجائے ابنی (میرا فرزند) ھے، صرف نون كا نقطہ حذف ھوجانے یا كاتب كی غلطی سے یہ اختلاف پیدا ھوگیا ھے۔ اسی بات كو "گنجی شافعی" نے اپنی كتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں ذكر كیا ھے، اس كے علاوہ
1۔ یہ جملہ اھل سنت كی اكثر روایات میں موجود نہیں ھے
2۔ ابن ابی لیلیٰ كی روایت كے الفاظ یہ ھیں: اسمہ اسمی اسم ابیہ اسم ابنی۔ (اس كا نام میرا نام ھے، اس كے والد كا نام میرے فرزند كا نام ھے) فرزند سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام ھیں۔
3۔ اھل سنت كی بعض روایات میں اس بات كی تصریح كی گئی ھے كہ امام زمانہ كے والد بزرگوار كا نام حسن ھے۔
4۔ اھلبیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ھوئی ھیں جو تواتر كی حد كو پہونچتی ھیں ان میں صراحت كے ساتھ یہ بات ذكر كی گئی ھے كہ حضرت امام مھدی علیہ السلام كے والد بزرگوار كا اسم مبارك حسن ھے

امام مھدی (عج) کا انتظار


پھلا حصہغیبت
قارئین کرام! اب جبکہ منجی بشریت اور حضرت آدم علیہ السلام تا خاتم (ص) کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے نیز آخری الٰھی ذخیرہ حضرت حجة بن الحسن علیہ السلام کی شخصیت سے آشنا ھوگئے، اس وقت اس وحید الزماں کی غیبت کے بارے میں گچھ گفتگو کریں جو آپ کی زندگی کا اھم حصہ ھے۔غیبت کے معنی
سب سے پھلا قابل ذکر نکتہ یہ ھے کہ غیبت کے معنی ”آنکھوں سے مخفی ھونا“ ھے نہ کہ حاضر نہ ھونا، لہٰذا اس حصہ میں گفتگو اس زمانہ کی ھے جب امام مھدی علیہ السلام لوگوں کی نظروں سے مخفی تھے، یعنی لوگ آپ کو نھیں دیکھ پاتے تھے جبکہ آپ لوگوں کے درمیان رھتے تھے اور ان ھی کے درمیان زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ حقیقت ائمہ معصومین علیھم السلام سے منقول روایات میں مختلف طریقوں سے بیان ھوئی ھے۔
حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
”قسم ھے خداوندعالم کی، حجت خدا لوگوں کے درمیان ھوتی ھے ، راستوں میں (کوچہ وبازار میں) موجود رھتی ھے، ان کے گھروں میں آتی رھتی ھے؛ زمین پر مشرق سے مغرب تک آمد و رفت کرتی ھے، لوگوں کی باتوں کو سنتی ھے اور ان پر سلام بھیجتی ھے؛ وہ دیکھتی ھے، لیکن آنکھیں اس کو نھیں دیکھ سکتیں جب تک خدا کی مرضی اور اس کا وعدہ پورا نہ ھو“۔([1])
اگرچہ امام مھدی علیہ السلام کے لئے غیبت کی ایک دوسری قسم بھی بیان ھوئی ھے:
امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے دوسرے نائب خاص بیان فرماتے ھیں:
”امام مھدی علیہ السلام حج کے دنوں میں ھر سال حاضر ھوتے ھیں۔ لوگوں کو دیکھتے ھیں اور ان کو پہچانتے ھیں،لوگ ان کو دیکھتے ھیں لیکن پہچانتے نھیں“۔([2])
اس بنا پر امام مھدی علیہ السلام کی غیبت دو طرح کی ھے: آپ بعض مقامات پر لوگوںکی نظروں سے مخفی ھیں اور بعض مقامات پر آپ لوگوںکودکھائی دیتے ھیں لیکن آپ کی پہچان نھیں ھوتی، بھر حال امام مھدی علیہ السلام لوگوں کے درمیان حاضر رھتے ھیں۔غیبت کی تاریخی حیثیت
غیبت اور مخفی طریقہ سے زندگی کرنا کوئی ایسا واقعہ نھیں ھے جو پھلی بار اور صرف امام مھدی علیہ السلام سے مخصوص ھو، بلکہ متعدد روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ بھت سے انبیاء علیھم السلام کی زندگی کا ایک حصہ غیبت میں بسر ھوا ھے اور انھوں نے ایک مدت تک مخفی طریقہ سے زندگی کی ھے، اور یہ چیز خداوندعالم کی مصلحت اور حکمت کی بنا پر ھوتی تھی، نہ کہ ایک ذاتی اور خاندانی مصلحت۔
غیبت ایک ”الٰھی سنت“ ([3]) ھے جو متعدد انبیاء علیھم السلام کی زندگی میں دیکھی گئی ھے جیسے جناب ادریس، جناب نوح، جناب صالح، جناب ابراھیم، جناب یوسف، جناب موسیٰ، جناب شعیب، جناب الیاس، جناب سلیمان، جناب دانیال اور جناب عیسیٰ (علیھم السلام) ، اور حالات کے پیش نظر ان تمام انبیاء علیھم السلام کی زندگی سالوں تک غیبت (اور مخفی طریقہ) سے بسر ھوئی ھے۔([4])
اسی وجہ سے امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی غیبت سے متعلق روایتوں میں ”غیبت“ کو انبیاء علیھم السلام کی سنت کے عنوان سے یاد کیا گیا ھے،اور امام مھدی علیہ السلام کی زندگی میں انبیاء علیھم السلام کی سنت کا جاری ھونا غیبت کی دلیلوں میں شمار کیا گیا ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”بے شک ھمارے قائم (امام مھدی علیہ السلام) کے لئے غیبت ھوگی جس کی مدت طویل ھوگی، روای کھتا ھے: اے فرزند رسول ! اس غیبت کی وجہ کیا ھے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوندعالم کا ارادہ یہ ھے کہ غیبت کے سلسلہ میں انبیاء (علیھم السلام) کی سنت آپ کے بارے میں (بھی) جاری رکھے“۔([5])
قارئین کرام! مذکورہ گفتگو سے یہ نکتہ بھی واضح ھوجاتا ھے کہ امام مھدی علیہ السلام کی ولادت سے سالھا سال پھلے آپ کی غیبت کا مسئلہ بیان ھوتا رھا ھے، اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تا امام حسن عسکری علیہ السلام نے آپ کی غیبت اور آپ کے زمانہ میں پیش آنے والے بعض واقعات کے خصوصیات بھی بیان کئے ھیں، نیز غیبت کے زمانہ میں مومنین کے فرائض بھی بیان کئے ھیں۔([6])
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:
”مھدی (علیہ السلام) میری (ھی) نسل سے ھوگا ۔۔۔ اور وہ غیبت میں رھے گا، لوگوں کی حیرانی (و پریشانی) اس حدتک بڑھ جائے گی کہ لوگ دین سے گمراہ ھوجائیں گے، اور پھر (جب حکم خدا ھوگا) چمکتے ھوئے ستارے کی طرح ظھور کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح سے وہ ظلم و جور سے بھری ھوگی“۔([7])غیبت کا فلسفہ
واقعاً کیوں ھمارے بارھویں امام اور حجت خدا غیبت کی زندگی بسر کررھے ھیں اور کیا وجہ ھے کہ ھم امام کے ظھور کی برکتوں سے محروم ھیں؟
قارئین کرام! اس سلسلہ میں بھت زیادہ گفتگو ھوچکی ھے نیز اس سلسلہ میں بھت سی روایات بھی موجود ھیں، لیکن ھم یھاں مذکورہ سوال کا جواب پیش کرنے سے پھلے ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
ھم اس بات پر ایمان رکھتے ھیں کہ خداوندعالم کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام حکمت اور مصلحت سے خالی نھیں ھوتا، چاھے ھم ان مصلحتوں کو جانتے ھوں یا نہ جانتے ھوں۔ نیز کائنات کا ھر خرد وکلاں واقعہ خداوندعالم کی تدبیر اور اسی کے ارادہ سے انجام پاتا ھے جن میں سے مھم ترین واقعہ امام مھدی علیہ السلام کی غیبت کا مسئلہ ھے۔ لہٰذا آپ کی غیبت کا مسئلہ بھی حکمت و مصلحت کے مطابق ھے، اگرچہ ھم اس کے فلسفہ کو نہ جانتے ھوں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”بے شک صاحب العصر (علیہ السلام) کے لئے ایسی غیبت ھوگی جس میں ھر اھل باطل شک وتردید کا شکار ھوجائے گا“۔
راوی نے آپ کی غیبت کی وجہ معلوم کی۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
”غیبت کی علت ایک ایسی چیز ھے جس کو ھم تمھارے سامنے بیان نھیں کرسکتے۔۔۔ غیبت اسرار الٰھی میں سے ایک راز ھے۔ لیکن چونکہ ھم جانتے ھیں کہ خداوندعالم صاحب حکمت ھے کہ جس کے تمام کام حکمت کی بنیاد پر ھوتے ھیں، اگرچہ ھمیں ان کی وجوھات کا علم نہ ھو“۔([8])
اگرچہ اکثر مقامات پر انسان خداوندعالم کے کاموں کو حکمت کے تحت مانتے ھوئے ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا ھے، لیکن پھر بھی بعض حقائق کے اسرار و رموز کو جاننے کی کوشش کرتا ھے تاکہ اس حقیقت کے فلسفہ کے علم سے مزید مطمئن ھوجائے۔ چنانچہ اسی اطمینان کی خاطر ھم امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی غیبت کی حکمت اور اس کے آثار کی تحقیق و بررسی شروع کرتے ھیں اور اس سلسلہ میں بیان ھونے والی روایات کی طرف اشارہ کرتے ھیں:عوام کی تادیب
جب امت اپنے نبی یا امام کی قدر نہ کرے اور اپنے فرائض کو انجام نہ دے بلکہ اس کی نافرمانی کرے، تو پھر خداوندعالم کے لئے سزاوار ھے کہ ان کے رھبر اور ھادی کو ان سے الگ کردے تاکہ وہ اس کی جدائی کی صورت میں اپنے گریباں میں جھانکیں، اور اس کے وجود کی قدر و قیمت اور برکت کو پہچان لیں، لہٰذا اس صورت میں امام کی غیبت امت کی مصلحت میں ھے اگرچہ ان کو معلوم نہ ھو اور وہ اس بات کو نہ سمجھ سکیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے:
”جب خداوندعالم کسی قوم میں ھمارے وجود اور ھماری ھم نشینی سے خوش نہ ھو تو پھر ھمیں ان سے جدا کرلیتا ھے“۔([9])دوسروں کے عھد و پیمان کے تحت نہ ھونابلکہ مستقل ھونا
جو لوگ کسی جگہ کوئی انقلاب لانا چاھتے ھیں وہ اپنے انقلاب کی ابتداء میں اپنے بعض مخالفوں سے عھد و پیمان باندھتے ھیں تاکہ اپنے مقاصد میں کامیاب ھوجائیں، لیکن امام مھدی علیہ السلام وہ عظیم الشان اصلاح کرنے والے ھیں جو اپنے انقلاب اور عالمی عادل حکومت کے لئے کسی بھی ظالم و ستمگر سے کسی طرح کی کوئی سازش نھیں کریں گے، کیونکہ بھت سی روایات کے مطابق آپ کو سبھی ظالموں سے یقینی طور پر ظاھر بظاھر مقابلہ کرنے کا حکم ھے۔ اسی وجہ سے جب تک اس انقلاب کا راستہ ھموار نھیں ھوجاتا اس وقت تک آپ غیبت میں رھیں گے تاکہ آپ کو دشمنان خدا سے عھد و پیمان نہ کرنا پڑے۔
غیبت کی علّت کے سلسلہ میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ھے:
”اس وقت جبکہ (امام مھدی علیہ السلام) تلوار کے ذریعہ قیام فرمائیں گے تو آپ کا کسی کے ساتھ عھد و پیمان نہ ھوگا“۔([10])لوگوں کا امتحان
لوگوں کا امتحان کرنا خداوندعالم کی ایک سنت ھے۔ وہ اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ھے تاکہ راہ حق میں ان کے ثبات قدم کی وضاحت ھوجائے۔ اگرچہ اس امتحان کا نتیجہ خداوندعالم کو معلوم ھوتا ھے لیکن اس امتحان کی بھٹی میں بندوں کی حقیقت واضح ھوجاتی ھے اور اپنے وجود کے جوھر کو پہچان لیتے ھیں۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:
”جب میرا پانچواں فرزند غائب ھوگا، تو تم لوگ اپنے دین کی حفاظت کرنا تاکہ کوئی تمھیں دین سے خارج نہ کرنے پائے، کیونکہ صاحب امر (امام مھدی علیہ السلام) کے لئے غیبت ایسی ھوگی جس میں اس کے ماننے والے اپنی عقیدہ سے پھر جائیں گے،اور اس غیبت کے ذریعہ خداوندعالم اپنے بندوں کا امتحان کرے گا“۔([11])امام کی حفاظت
انبیاء علیھم السلام کا اپنی قوم سے جدا ھونے کی ایک وجہ اپنی جان کی حفاظت ھے، یہ حضرات اس وجہ سے خطرناک موقع پر مخفی ھوجاتے تھے تاکہ ایک مناسب موقع پر اپنی رسالت اور ذمہ داری کو پہنچاسکیں،جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) مکہ معظمہ سے نکل کر ایک غار میں مخفی ھوگئے۔ البتہ یہ سب خداوندعالم کے حکم اور اس کے ارادہ سے ھوتا تھا۔
حضرت امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) اور آپ کی غیبت کے بارے میں بھی متعدد روایات میں یھی بات بیان ھوئی ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”امام منتظر اپنے قیام سے پھلے ایک مدت سے لوگوں کی نظروں سے غائب رھیں گے“۔
جب امام علیہ السلام سے غیبت کی وجہ معلوم کی گئی تو آپ نے فرمایا:
”انھیں اپنی جان کا خطرہ ھوگا“۔([12])
اگرچہ شھادت کی تمنا خدا کے سبھی نیک بندوں کے دلوں میں ھوتی ھے لیکن ایسی شھادت جو دین اور معاشرہ کی اصلاح اور اپنے فرائض کو نبھاتے ھوئے ھو، لیکن اگر اس کا قتل ھونا ھلاکت کا باعث اور مقاصد کے خاتمہ کا سبب بنے تو ایسے موقع پر قتل سے خوف زدہ ھونا ایک عقلمندی کا کام ھے۔ آخری ذخیرہ الٰھی یعنی بارھویں امام کا قتل ھونے کے معنی یہ ھیں کہ خانہ کعبہ منھدم ھوجائے، تمام انبیاء اور اولیاء (علیھم السلام) کی تمناؤں پر پانی پھر جائے اور عالمی عادل حکومت کے بارے میں خدا کا وعدہ پورا نہ ھو۔
قابل ذکر ھے کہ متعدد روایات میں غیبت کی وجوھات کے سلسلہ میں دوسرے نکات بھی بیان ھوئے ھیں جن کو ھم اختصار کی وجہ سے بیان نھیں کرسکتے، لیکن اھم بات یہ ھے کہ غیبت اسرار الٰھی میں سے ایک راز ھے جس کی اصلی اور بنیادی وجہ امام علیہ السلام کے ظھور کے بعد ھی واضح ھوگی، ھم نے جو کچھ اس سلسلہ میں بیان کیا ھے وہ امام علیہ السلام کی غیبت میں موثر رھا ھے۔
دوسرا حصہغیبت کی قسمیں
قارئین کرام! مذکورہ مطالب کے پیش نظر امام مھدی علیہ السلام کی غیبت لازم اور ضروری ھے، لیکن چونکہ ھمارے رھبروں کے تمام اقدامات اور کارنامے لوگوں کے ایمان و اعتقاد کو مضبوط کرنے کے لئے ھوتے تھے، لہٰذا اس چیز کا خوف تھا کہ اس آخری حجت الٰھی کی غیبت کی وجہ سے مسلمانوں کی دینداری کا ناقابل تلافی نقصان ھوگا، لہٰذا غیبت کا زمانہ بھت ھی حساب و کتاب اور دقیق منصوبہ بندی کے تحت آغاز ھوا جو آج تک جاری ھے۔
امام مھدی علیہ السلام کی ولادت سے سالھا سال پھلے آپ کی غیبت اور اس کی ضرورت کے بارے میں گفتگو جاری و ساری تھی اور ائمہ معصومین علیھم السلام اور ان کے اصحاب کی محفلوں میں نقل ھوتی تھی۔ اسی طرح امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کا لوگوں سے ایک نئے انداز اور خاص حالات میں رابطہ ھوتا تھا، اور مکتب اھل بیت علیھم السلام کے ماننے والوں نے آہستہ آہستہ یہ سیکھ لیا تھا کہ بھت سی مادّی اور معنوی ضرورتوں میں امام معصوم علیہ السلام کی ملاقات کے لئے مجبور نھیں ھیں، بلکہ ائمہ علیھم السلام کی طرف سے معین وکلاء اور قابل اعتماد حضرات کے ذریعہ اپنے فرائض پر عمل کیا جاسکتا ھے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت اور حضرت حجت بن الحسن علیہ السلام کی غیبت (صغریٰ) کے آغاز سے امام اور امت کے درمیان رابطہ بالکل ختم نھیں ھوا تھا، بلکہ مومنین اپنے مولا و آقا اور امام کے خاص نائب کے ذریعہ رابطہ برقرار کئے ھوئے تھے، اور یھی زمانہ تھا کہ جس میں شیعوں کو دینی علماء سے وسیع پیمانہ پر رابطہ کی عادت ھوئی کہ امام علیہ السلام کی غیبت میں بھی اپنے دینی فرائض کی پہچان کا راستہ بند نھیں ھوا ھے۔ اس موقع پر مناسب تھا کہ حضرت بقیة اللہ امام مھدی علیہ السلام کی غیبت کبریٰ کا آغاز ھو ، اور امام علیہ السلام اور شیعوں کے درمیان گزشتہ زمانہ میں رائج عام رابطہ کے سلسلہ بند ھوجائے۔
قارئین کرام! ھم یھاں غیبت صغریٰ اور غیبت کبریٰ کی خصوصیات کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کرتے ھیں۔غیبت صغریٰ
۲۶۰ھ میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت کے فوراً بعد ھمارے بارھویں امام کی امامت کا آغاز ھوا، اور اسی وقت سے آپ کی ”غیبت صغریٰ“ کا بھی آغاز ھوگیا، اور یہ سلسلہ ۳۲۰ھ (تقریباً ۷۰ سال) تک جاری رھا۔
غیبت صغریٰ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مومنین امام مھدی علیہ السلام کے مخصوص نائبین کے ذریعہ رابطہ برقرار کئے ھوئے تھے اور ان کے ذریعہ امام مھدی علیہ السلام کے پیغامات حاصل کرتے تھے اور اپنے سوالات آپ کی خدمت میں بھیجتے تھے۔([13]) اور کبھی امام مھدی علیہ السلام کے نائبین کے ذریعہ آپ کی زیارت کا شرف بھی حاصل ھوجاتا تھا۔
امام مھدی علیہ السلام کے نواب اربعہ جو عظیم الشان شیعہ عالم دین تھے اور خود امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ذریعہ منتخب ھوتے تھے جن کے اسمائے گرامی ان کی نیابت کی ترتیب سے اس طرح ھیں:
۱۔ عثمان بن سعید عَمری؛ آپ امام مھدی علیہ السلام کی غیبت کے آغاز سے امام کی نیابت کرتے تھے، موصوف نے ۲۶۵ھ میں وفات پائی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ھے کہ موصوف امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھی وکیل تھے۔
۲۔ محمد بن عثمان عمری؛ موصوف امام مھدی علیہ السلام کے نائب اول کے فرزند تھے جو باپ کے انتقال پر امام کی نیابت پر فائز ھوئے، موصوف نے ۳۰۵ھ میں وفات پائی۔
۳۔ حسین بن روح نوبختی؛ موصوف امام مھدی علیہ السلام کے ۲۱ سال نائب رھے جس کے بعد ۳۲۶ھ میں ان کی وفات ھوگئی۔
۴۔ علی بن محمد سمُری؛ موصوف کا انتقال ۳۲۹ھ میں ھوا، اور ان کی وفات کے بعد غیبت صغریٰ کا زمانہ ختم ھوگیا۔
امام مھدی علیہ السلام کے مخصوص نائبین امام حسن عسکری علیہ السلام اور خود امام مھدی علیہ السلام کے ذریعہ انتخاب ھوتے تھے اور لوگوں میں پہچنوائے جاتے تھے۔ شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”الغیبة“ میں روایت کرتے ھیں کہ ایک روز عثمان بن سعید (نائب اول) کے ساتھ چالیس مومنین امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے، امام علیہ السلام نے ان کو اپنے فرزند کی زیارت کرائی اور فرمایا:
”میرے بعد یھی میرا جانشین اور تمھارا امام ھوگا۔ تم لوگ اس کی اطاعت کرنا، اور جان لو کہ آج کے بعد اس کو نھیں دیکھ پاؤ گے یھاں تک کہ اس کی عمر کامل ھوجائے۔ لہٰذا (اس کی غیبت کے زمانہ میں) جو کچھ عثمان (بن سعید) کھیں اس کو قبول کرنا، اور ان کی اطاعت کرنا کہ وہ تمھارے امام کے جانشین ھیں اور تمام امور کی ذمہ داری انھیں کی ھے“۔([14])
امام حسن عسکری علیہ السلام کی دوسری روایت میں محمد بن عثمان کو امام مھدی علیہ السلام کے (دوسرے ) نائب کے عنوان سے یاد کیا گیا ھے۔
شیخ طوسی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ھیں:
”عثمان بن سعید“ نے امام حسن عسکری علیہ ا لسلام کے حکم سے یمن کے شیعوں کا لایا ھوا مال وصول کیا، اس وقت بعض مومنین نے جو اس واقعہ کے شاھد تھے ، امام علیہ السلام سے عرض کی:خدا کی قسم عثمان آپ کے بھترین شیعوں میں سے ھیں، لیکن اس کام سے آپ کے نزدیک ان کا مقام ھم پر واضح ھوگیا۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: جی ھاں! تم لوگ گواہ رہنا کہ عثمان بن سعید عمری میرے وکیل ھیں اور اس کا فرزند ”محمد“ میرے بیٹے ”مھدی“ کا وکیل ھوگا“۔([15])
یہ تمام واقعات امام مھدی علیہ السلام کی غیبت سے پھلے کے ھیں، غیبت صغریٰ میں بھی آپ کا ھر نائب اپنی وفات سے پھلے امام مھدی علیہ السلام کی طرف سے منتخب ھونے والے نائب کی پہچان کرادیتا تھا۔
یہ حضرات چونکہ اعلیٰ صفات کے مالک تھے جس کی بنا پر ان میں امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی نیابت کی لیاقت پیدا ھوئی۔ چنانچہ ان حضرات کے مخصوص صفات کچھ اس طرح تھے: امانت داری، عفت، رفتار وگفتار میں عدالت، راز داری اور امام مھدی علیہ السلام کے زمانہ میں مخصوص حالات میں اسرار اھل بیت علیھم السلام کو مخفی رکھنا، یہ حضرات امام مھدی علیہ السلام کے قابل اعتمادافراد تھے اور خاندان عصمت وطھارت کے مکتب کے پروردہ، انھوں نے مستحکم ایمان کے زیر سایہ علم کی دولت حاصل کی تھی۔ ان کا نیک نام مومنین کی ورد زبان تھا، سختیوں اور پریشانیوں میں صبر و بردباری کا یہ عالم تھا کہ سخت سے سخت حالات میں اپنے امام علیہ السلام کی مکمل اطاعت کیا کرتے تھے، اور ان تمام نیک صفات کے ساتھ ان کے یھاں شیعوں کی رھبری کی لیاقت بھی پائی جاتی تھی،نیز مکمل فھم وشعور اور حالات کی شناخت کے ساتھ اپنے پاس موجود امکانات کے ذریعہ شیعہ معاشرہ کو صراط مستقیم کی طرف ھدایت فرماتے تھے، اور ان حضرات نے مومنین کو غیبت صغریٰ سے صحیح و سالم گزار دیا۔
غیبت صغریٰ اور امام اور امت کے درمیان رابطہ ایجاد کرنے میں نوّاب اربعہ کے کردار کا ایک عمیق مطالعہ امام مھدی علیہ السلام کی زندگی کے اس حصہ کی اھمیت کو واضح کردیتا ھے۔ اس رابطہ کا وجود اور غیبت صغریٰ میں بعض شیعوں کا امام مھدی علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ھونا بارھویں امام اور آخری حجت خدا کی ولادت کے اثبات میں بھت موثر رھا ھے، اور یہ اھم نتائج اس زمانہ میں حاصل ھوئے کہ جب دشمنوں کی یہ کوشش تھی کہ شیعوں کو امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند کی پیدائش کے حوالہ سے شک و تردید میں ڈال دیں۔ اس کے علاوہ غیبت صغریٰ کا یہ زمانہ غیبت کبریٰ کی شروعات کے لئے ایک ھموار راستہ تھا جس میں مومنین اپنے امام سے رابطہ نھیں کرسکتے تھے، لیکن مطمئن طور پر امام علیہ السلام کے وجود اور ان کے برکت سے فیضیاب ھوتے ھوئے غیبت کبریٰ کے زمانہ میں داخل ھوگئے۔غیبت کبریٰ
امام مھدی علیہ السلام نے اپنے چوتھے نائب کی زندگی کے آخری دنوں میں ان کے نام ایک خط میں یوں تحریر فرمایا:
” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.
اے علی بن محمد سمری! خداوندعالم آپ کی وفات پر آپ کے دینی بھائیوں کو اجر جمیل عنایت فرمائے، کیونکہ آپ چھ دن کے بعد عالم بقاء کی طرف کوچ کرجائیں گے۔ اسی وجہ سے اپنے کاموں کو خوب دیکھ بھال لو، اور اپنے بعد کسی کو اپنا وصی نہ بناؤ! کیونکہ مکمل (اور طولانی) غیبت کا زمانہ پہنچ چکا ھے،اس کے بعد سے مجھے نھیں دیکھ پاؤ گے، جب تک خدا کا حکم ھوگا، اور اس کے بعد ایک طویل مدت ھوگی جس میں دل سخت ھوجائیں گے اور زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی۔([16])
اس بنا پر بارھویں امام علیہ السلام کے آخری نائب کی وفات کے بعد ۳۲۹ھ سے ”غیبت کبریٰ“ کا آغاز ھوگیا، اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری ھے جب تک کہ خدا کی مرضی سے غیبت کے بادل چھٹ جائیں اور یہ دنیا ولایت کے چمکتے ھوئے سورج سے براہ راست فیضیاب ھو۔
جیسا کہ بیان ھوچکا ھے کہ غیبت صغریٰ میں شیعہ مومنین امام علیہ السلام کے مخصوص نائب کے ذریعہ اپنے امام سے رابطہ رکھتے تھے اور اپنے الٰھی فرائض سے آگاہ ھوتے تھے، لیکن غیبت کبریٰ میں اس رابطہ کا سلسلہ ختم ھوگیا، اور مومنین اپنے فرائض کی شناخت کے لئے امام علیہ السلام عام نائبین جو کہ دینی علماء و مراجع تقلید ھیں؛ ان کی طرف رجوع کریں اور یہ واضح راستہ ھے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام نے اپنے ایک قابل اعتماد عظیم الشان عالم کے سامنے پیش کیا ھے، امام مھدی علیہ السلام کے دوسرے نائب خاص کے ذریعہ پہنچے ھوئے خط میں اس طرح تحریر ھے:
”وَ اٴمَّا الحَوَادِثُ الوَاقِعَةُ فَارْجعوا إلیٰ رُواةِ حَدیثنَا فَإنّہُمْ حُجَّتِي عَلَیْکُم وَ اٴَنَا حُجَّةُ اللهِ عَلَیْہِمْ“۔([17])
”اور آئندہ پیش آنے والے حوادث (اور واقعات نیز (مختلف حالات میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کی پہچان کے لئے) ھماری احادیث کے رایوں (فقھاء) کی طرف رجوع کریں، کیونکہ وہ تم پر ھماری حجت ھیں اور ھم ان پر خدا کی حجت ھیں۔۔۔“۔
یہ نیا طریقہٴ کار دینی سوالات کے جواب کے لئے اور ان سے اھم شیعوں کے انفرادی اور اجتماعی فرائض کی پہچان اس حقیقت کی عکاسی کرتا ھے کہ امامت و رھبری کا عظیم الشان نظام ، شیعہ ثقافت میں ایک بھترین اور زندہ نظام ھے جس میں مختلف حالات میں مومنین کی ھدایت و رھبری بھت ھی مستحکم طریقہ پر انجام پاتی ھے اور اس مکتب کے ماننے والوں کو کسی بھی زمانہ میں ھدایت کے سرچشمہ کے بغیر نھیں چھوڑا گیا ھے بلکہ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف حصوں میں ان کے مسائل کو دینی علماء اور پرھیزگار مجتھدین کے سپرد کردیا گیا ھے جو مومنین کے دین اور دنیا کے امانت دار ھیں ، تاکہ اسلامی معاشرہ کی کشتی طوفان اور دریا کے تلاطم نیز استعمار کی گندی سیاست کے دلدل میں پھنسنے سے محفوظ رھے اور شیعہ عقائد کی سرحدوں کی حفاظت ھوتی رھے۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام غیبت کے زمانہ میں دینی علماء کے کردار کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”اگر ایسے علماء کرام نہ ھوتے جو امام مھدی علیہ السلام کی غیبت میں لوگوں کو آپ کی طرف دعوت دیتے اور ان کو اپنے امام کی طرف ھدایت کرتے، نیز حجتوں اور خداوندعالم کے دینی مستحکم دلائل (جو کہ خود دین خدا ھے) کی حمایت نہ کرتے، اور اگر نہ ھوتے ایسے با بصیرت علماء جو خدا کے بندوں کو شیطان اور شیطان صفت لوگوں نیز دشمنان اھل بیت علیھم السلام (کی دشمنی) کے جال سے نجات نہ دیتے؛ تو پھر دین خدا پر کوئی باقی نہ رھتا!! (اور سب دین سے خارج ھوجاتے) لیکن انھوں نے شیعوں کے (عقائد اور) افکار کو مضبوطی سے اپنے ھاتھوں میں لے لیا جیسا کہ کشتی کا ناخدا کشتی میں سوار مسافروں کو اپنے ھاتھوں میں لیئے رکھتا ھے۔ یہ علماء خداوندعالم کے نزدیک سب سے بھترین (بندے) ھیں“۔([18])
قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ معاشرہ کی رھبری کے لئے مخصوص صفات و کمالات درکار ھیں، کیونکہ مومنین کے دین و دنیا کے امور کو ایسے شخص کے ھاتھوں میں دینا جو اس عظیم ذمہ داری کے عھدہ دار ھوتے ھیں واقعاً ان افراد کا مکمل طور پر صاحب بصیرت اور صحیح تشخیص کی صلاحیت کا مالک ھونا ضروی ھے، اسی وجہ سے ائمہ معصومین علیھم السلام نے دینی مراجع اور ان سے بڑھ کر ولی امر مسلمین ”ولی فقیہ“ کے مخصوص شرائط بیان کئے ھیں۔
[1] غیبت نعمانی، باب ۱۰، ح۳، ص ۱۴۶۔
[2] بحار الانور، ج۵۲،باب ۲۳، ص۱۵۲۔
[3] قرآن کریم کی متعدد آیات میں (جیسے سورہ فتح، آیت ۲۳، اور سورہ اسراء، آیت ۷۷) ”الٰھی سنت“ کے بارے میں گفتگو ھوئی ھے،جن کی پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ الٰھی سنت سے مراد خداوندعالم کے ثابت اور بنیادی قوانین ھیں، جن میں ذرا بھی تبدیلی نھیں آسکتی۔ یہ قوانین گزشتہ قوموں میں نافذ تھے اور آج نیز آئندہ بھی نافذ رھیں گے۔(تفسیر نمونہ، ج۱۷، ص ۴۳۵ ، کا خلاصہ)
[4] کمال الدین، ج۱،باب ۱، تا۷،ص ۲۵۴ تا۳۰۰۔
[5] بحار الانوار، ج۵۲، ح ۳، ص ۹۰۔
[6] دیکھے: منتخب الاثر، فصل۲، باب ۲۶ تا ۲۹، ص ۳۱۲ تا ۳۴۰۔
[7] کمال الدین، ج۱، باب ۲۵، ح۴، ص ۵۳۶۔
[8] کمال الدین، ج۲، باب ۴۴، ح۱۱، ص ۲۰۴۔
[9] علل الشرائع، باب ۱۷۹، ص ۲۴۴۔
[10] کمال الدین، ج۲، باب ۴۴، ح۴، ص ۲۳۲۔
[11] غیبت شیخ طوسی علیہ الرحمة ، فصل ۵، ح۲۸۴، ص ۲۳۷۔
[12] کمال الدین، ج۲، باب ۴۴، ح۷، ص ۲۳۳۔
[13] خطوں کی تحریر (جو توقیعات کے نام سے مشھور ھیں) شیعہ علماء کی کتابوں میں موجود ھے، (جیسے بحار الانوار، ج۵۳، باب ۳۱، ص ۱۵۰ تا ۱۹۷)۔
[14] غیبت طوسی علیہ الرحمة ، فصل ۶، ح۳۱۹، ص ۳۵۷۔
[15] غیبت طوسی علیہ الرحمة ، فصل ۶، ح۳۱۷، ص ۳۵۵۔
[16] غیبت طوسی علیہ الرحمة ، فصل ۶، ح۳۶۵، ص ۳۹۵۔
[17] کمال الدین، ج۲، باب ۴۵، ح۳، ص۲۳۶۔
[18] احتجاج، ج۱، ح۱۱، ص ۱۵۔

امام مہدي(عج) اور مدينۂ فاضلہ کي خصوصيات


امام مہدي(عج) اور مدينۂ فاضلہ کي خصوصيات ) امام صادق (ع) نے فرمايا: جب ہمارے قائم قيام کريں گے کوئي سرزمين باقي نہ رہے گي جس ميں اللہ کي وحدانيت اور محمد (ص) کي رسالت کي شہادت کي صدا کي گونج نہ سنائي دے رہي ہو"- (5) 5- علم و عقل اور ثقافت کا ارتقاء اس زمانے ميں جہل و ناداني اپني جگہ علم و دانائي کو دے گي اور دنيا عقل و دانش سے مالامال ہوگي اور انسان کي عقل و فکر و علم کي سطح اس حد تک پہنچے گي جو انبياء اور اوصياء کے زمانے کے لوگوں کي علميو فکري سطح سے کہيں زيادہ بلند ہوگي- امام باقر (ع) فرماتے ہيں: جب ہمارے قائم قيام کريں گے بندگان خدا کے سر پر ہاتھ رکھيں گے اور ان کي عقليں مجتمع اور افکار کامل ہوجائيں گے"- (6) نيز امام صادق (ع) نے فرمايا: علم 27 حرفوں پر مشتمل ہے جن ميں سے دو حرف انسان کے لئے لائے گئے ہيں اور اس وقت (ظہور کے وقت) امام عصر (عج) علم کے باقي ماندہ پچيس حروف بھي ظاہر کريں گے اور لوگوں کے درميان پھيلا ديں گے"- (7) 6- خوشحالي اور آسودگي: اسلامي مدينۂ فاضلہ درحقيقت آسائش اور عمومي خوشحالي و رفاہ و فلاح کا معاشرہ ہے، کيونکہ دولت اور وسائل کي منصفانہ تقسيم غربت کا خاتمہ کرے گي؛ چنانچہ امام صادق (ع) نے فرمايا: امام مہدي (عج) کي حکومت شرق عالم سے غرب عالم تک پھيل جائے گي اور زمين اپنے خزانے ان کے لئے ظاہر کرے گي اور پوري دنيا ميں کہيں بھي ويراني باقي نہيں رہے گي، سوا اس کے کہ وہ اس کو آباد کرے گي- (8) نيز امام صادق (ع) نے فرمايا: "جب ہمارے قائم قيام کريں گے حکومت کو عدل کي بنياد پر قائم کريں گے اور ظلم کي بساط ان کے دور ميں لپيٹ دي جائے گي اور سڑکيں ان کے وجود کي برکت سے پرامن ہونگي اور زمين اپني برکتيں ظاہر کرے گي اور ہر صاحب حق کو اس کا حق لوٹا ديا جائے گا اور امام (عج) داۆد اور محمد (ص) کي مانند فيصلے کريں گے اور کسي کو بھي حاجتمند شخص نہ ملے گا جس کو وہ انفاق اور صدقہ دے اور اس کي مالي مدد کرے کينوکہ سب بےنياز ہوچکے ہونگے- (9) 7- امن عامہ: حديث ميں ہے کہ: خداوند متعال نے فرمايا: اس زمانے ميں، ميں امن کو زمين پر پھينک دوں گا اور کوئي چيز کسي چيز کو ضرر نہيں پہنچائے گي؛ کوئي چيز کسي چيز سے خوفزدہ نہيں ہوگي حتي کہ حشرات اور حيوانات لوگوں کے درميان ہونگے اور کوئي بھي دوسرے کو نقصان نہيں پہنچائے گا- (10) ------------------ 5- بحار، ج 52، ص 340- 6- بحارالانوار ج 52 ص 328- 7- بحارالانوار ج 52 ص 336- 8- بحارالانوار ج 52 ص 191- 9- الارشاد شيخ مفيد؛ ج2 ص384 بحوالہ معجم احاديث المہدي (عج) ج 5 ص 61- 10- سيد بن طاۆس، سعد السعود ص 34- ابراهيم ابراهيمي، عصر ظهور، ص 62 ـ 63-

ظھور كی خاص علامتیں



یہ ایك حقیقت ہے ك جب بھی كسی معاشرے میں انقلاب كے لئے زمین ھموار ھوتی ہے تو غلط افوا ہیں پھیلانے والوں، فریب كاروں، حیلہ گروں اور جھوٹے دعوے داروں كی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ یہی لوگ ظالم اور فاسد نظام كے محافظ ھوتے ہیں ان كی كوشش یہ ھوتی ہے كہ عوام كے جذبات، احساسات اور ان كے افكار سے غلط فائدہ اٹھایا جائے۔
یہ لوگ انقلاب كو بدنام كرنے كے لئے خود بھی بظاھر انقلابی بن جاتے ہیں اور انقلابی نعرے لگانے لگتے ہیں ایسے ھی لوگ انقلاب كی راہ میں سب سے بڑی ركاوٹ ہیں ۔
یہ وہ دجال ہیں جن سے ھوشیار رھنے كے بارے میں ھر نبی نے اپنی امت سے نصیحت كی ہے۔
حضرت مھدی (عج) كا انقلاب صحیح معنوں میں عالمی انقلاب ھوگا۔ اس عالمی انقلاب كے لیے عوام میں جس قدر آمادگی بڑھتی جائے گی جتنا وہ فكری طور س آمادہ ھوتے جائیں گے ویسے ویس دجّالوں كی سرگرمیاں بھی تیز ھوتی جائیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تاكہ انقلاب كی راہ میں روڑے اٹكا سكیں۔
ھوسكتا ہے كہ ان تمام دجالوں كی سربراھی ایك بڑے دجّال كے ھات ہوں میں ھو، اور اس دجال كی جو صفات بیان كی گئی ہیں وہ علامتی صفات ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ مجلسی (رح) نے بحار الانوار میں ایك روایت امیر المومنین علیہ السلام سے نقل فرمائی ہے جس میں دجال كی صفات كا ذكر ہے وہ صفات یہ ہیں :
1) اس كے صرف ایك آنكھ ہے، یہ آنكھ پیشانی پر ستارۂ صبح كی طرح چمك رھی ہے۔ یہ آنكھ اس قدر خون آلود ہے گویا خون ھی سے بنی ہے۔
2) اس كا خچر (سواری) سفید اور تیزرو ہے، اس كا ایك قدم ایك میل كے برابر ہے۔ وہ بہت تیز رفتاری سے زمین كا سفر طے كرے گا۔
3) وہ خدائی كا دعویٰ كرے گا۔ جس وقت اپنے دوستوں كو آواز دے گا تو ساری دنیا میں اس كی آواز سنی جائے گی۔
4) وہ دریاؤں میں ڈوب جائے گا۔ وہ سورج كے ساتھ سفر كرے گا، اس كے سامنے دھنویں كا پہاڑ ھوگا اور اس كی پشت پر سفید پہاڑ ھوگا۔ لوگ اسے غذائیں مواد تصور كریں گے۔
5) وہ جس وقت ظاھر ھوگا اس وقت لوگ قحط میں اور غذائی مواد كی قلت میں مبتلا ہوں گے۔ 1
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے كہ ھمیں یہ حق حاصل نہیں ہے كہ ھم قرآن اور احادیث میں بیان شدہ مطالب كو "علامتی عنوان" قرار دیں كیونكہ یہ كام ایك طرح كی تفسیر بالرائے ہے جس كی شدّت سے مخالفت كی گئی ہے۔ لیكن یہ بھی صحیح نہیں ہے كہ عقلی اور نقلی قرینوں كی موجودگی میں لفظ كے ظاھری مفھوم سے چپكے ر ہیں ۔
آخری زمانے كے بارے میں جو روایتیں وارد ھوئی ہیں ان میں "علامتی عنوان" بكثرت موجود ہیں ۔
مثلا ایك روایت میں ہے كہ اس وقت مغرب سے آفتاب آئے گا۔ اگر اس حدیث كے ظاھری معنی مراد لئے جائیں تو اس كی دو صورتیں ہیں ۔ ایك یہ كہ آفتاب ایكا ایكی مغرب سے طلوع كرے تو اس صورت میں منظومہ شمسی كی حركت بالكل معكوس ھوجائے گی جس كے نتیجہ میں نظام كائنات درھم برھم ھوجائے گا۔ دوسرے یہ كہ آفتاب رفتہ رفتہ مغرب سے طلوع كرے۔ تو اس صورت میں رات دن اس قدت طولانی ھوجائیں گے جس سے نظام زندگی میں درھمی پیدا ھوجائے گی واضح ر ہے كہ یہ دونوں ھی معنی حدیث سے مراد نہیں ہیں ۔ كیونكہ نظام درھم برھم ھونے كا تعلق سے ہے آخری زمانے سے نہیں، جیسا كہ صعصعہ بن صوحان كی روایت كے آخری فقرے سے استفادہ ھوتا ہے كہ یہ حدیث ایك علامتی عنوان ہے امام زمانہ كے بارے میں۔
نزال بن سیدہ جو اس حدیث كے راوی ہیں ، ان ہوں نے صعصعہ بن صوحان سے دریافت كیا كہ امیر المومنین علیہ السلام نے دجال كے بارے میں بیان كرنے كے بعد یہ كیوں ارشاد فرمایا كہ مجھ سے ان واقعات كے بارے میں نہ دریافت كرو جو اس كے بعد رونما ہوں گے۔"
صعصعہ بن صوحان نے فرمایا:۔جس كے پیچ ہے جناب عیسیٰ (ع) نماز ادا كریں گے وہ اھل بیت علیہم السلام كی بارھویں فرد ھوگا اور امام حسین علیہ السلام كی صلب میں نواں ھوگا۔ یہ وہ آفتاب ہے جو اپنے كو مغرب سے طلوع كرے گا۔
لہٰذا یہ بات بہت ممكن ہے كہ دجال كی صفات "علامتی عنوان" كی حیثیت ركھتی ہوں جن كا تعلق كسی خاص فرد سے نہ ھو بلكہ ھر وہ شخص دجال ھوسكتا ہے جو ان صفات كا حامل ھو یہ صفات مادی دنیا كے سر برا ہوں كی طرف بھی اشارہ كر رھی ہیں ، كیونكہ:
1) ان لوگوں كی صرف ایك آنكھ ہے، اور وہ ہے مادی و اقتصادی آنكھ ۔ یہ لوگ دنیا كے تمام مسائل كو صرف اسی نگاہ سے دیكھتے ہیں ۔ مادی مقاصد كے حصول كی خاطر جائز و ناجائز كے فرق كو یكسر بھول جاتے ہیں ۔
ان كی یہی مادی آنكھ بہت زیادہ چمكدار ہے، كیونكہ ان لوگوں نے صنعتی میدان میں چشم گیر ترقی كی ہے۔ زمین كی حدوں سے باھر نكل گئے ہیں ۔
2) تیز رفتار سواریاں ان كے اختیار میں ہیں ۔ مختصر سی مدّت میں ساری دنیا كا چكّر لگا لیتے ہیں ۔
3) یہ لوگ خدائی كے دعوے دار ہیں ۔ كمزور اور غیر ترقی یافتہ ممالك كی قسمت سے كھیلنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
4) جدید ترین آبدوزوں كے ذریعہ سمندر كی تہوں میں سورج كے ساتھ سفر كرتے ہیں ، ان كی نگا ہوں كے سامنے دیو پیكر كارخانے، دھویں كا پہاڑ، اور ان كے پیچ ہے غذائی مواد كا انبار سفید پہاڑ، (جس كی عوام غذائی اشیاء تصور كرتے ہیں ، جب كہ وہ صرف پیٹ بھراؤ چیزیں ہیں ، ان میں غذائیت نہیں ہے)۔
5) قحط، خشك سالی، استعماریت، جنگ كے لئے سرمایہ گذاری، اسلحہ كے كمرشكن مصارف قتل و غارت گری … ان چیزوں كی بنا پر غذائی اشیاء میں شدید قلت پیدا ھوجاتی ہے جس كی وجہ سے بعض لوگ بھكمری كا شكار ھوجاتے ہیں ۔
یہ حالات دجال كے منصوبہ بند پروگرام كا نتیجہ ہیں جس سے وہ حسب منشاء استفادہ اٹھاتا ہے۔ كمزوروں، غریبوں اور زحمت كشوں كی امداد كے بہانے اپنے اقتدار كو استحكام عطا كرتا ہے۔
بعض روایتوں میں ہے ك دجّال كی سواری كے ھر بال سے مخصوص قسم كا ساز سنائی دے گا یہ روایت آج كل كی دنیا پر كس قدر منطبق ھو رھی ہے كہ دنیا كے گوشہ گوشہ میں موسیقی كا جال بچھا ھوا ہے كوئی گھر سازو آواز سے خالی نہیں ہے۔
خواہ دجال ایك مخصوص شخص كا نام ھو، خواہ دجال كی صفات "علامتی عنوان" كی حیثیت ركھتی ہوں، بہر حال عالمی انقلاب كے منتظر افراد، اور حضرت مھدی (عج) كے جانبازوں كی ذمہ داری ہے كہ وہ دجال صفت افراد سے مرعوب نہ ہوں اور ان كے دام فریب میں گرفتار ہوں۔ انقلاب كے لئے زمین ھموار كرنے كے لئے ھر ممكن كوشش كرتے ر ہیں ، اور كسی وقت بھی ناكامی اور سستی كے احساس كو اپنے قریب نہ آنے دیں۔
حوالہ جات:
1.بحار الانوار ج52 ص192 صعصعہ بن صفوان كی حدیث سے اقتباس۔

روزے کے آداب اور سنن

عنسبہ عابد نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ۖ جب تک زندہ رہے ماہ رمضان اور شعبان کے پورے روزے اور ہرمہینے میںتین روزے رکھتے رہے۔ہرمہینے کی پہلی جمعرات ،درمیانے بدھ اورآخری جمعرات۔۱
عمروبن خالد نے امام باقر ـسے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ۖ ماہ شعبان اورماہ رمضان کے لگا تار روزے رکھتے تھے اور دونوںکوآپس میں ملا دیتے تھے لیکن لوگوں کو ان دو مہینوں کے روزوں کو آپس میں ملانے سے منع کر تے تھے اور فرماتے تھے:یہ دو اللہ تعالیٰ کے مہینے ہیں اور ان دو کے روزے اگلے اور پچھلے گناہوں کا کفارہ ہیں۔۲
اس حدیث میں ملانے سے منع کر نے سے مراد شاید یہ ہو کہ آنحضرت ۖ کو پسند نہ تھا کہ لوگ شعبان کے پورے روزے رکھیںجیسا کہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ ماہ شعبان اورماہ رمضان کے روزوں میں چاہے ایک دن کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہوفاصلہ رکھاجائے یعنی روزہ نہ رکھا جائے ۔۳
ابن القداح نے امام صادق ـسے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :
رسول اکرم ۖ اگر تازہ کھجور کا زمانہ ہو تا تو اس سے روزہ افطار فرماتے تھے بصورت دیگر خشک کھجور سے افطار فرماتے تھے ۔٤
سکونی نے امام صادق ـاور انہوں نے اپنے والدبزرگوار سے نقل کیا ہے :
جب بھی پیغمبر اکرم ۖ روزہ رکھتے میٹھی چیز سے روزہ افطار کر تے اور اگر میٹھی چیز میسر نہ ہو تی تو پھر پانی سے روزہ افطار کر تے تھے۵
عبد اللہ بن مسکان نے حضرت صادق ـسے روایت کی ہے کہ رسول خدا ۖحلوا سے افطار کر تے اگر وہ نہ ہو تا تو شکر یا کھجور سے افطار کرتے اگر ان میں سے کچھ بھی نہ ہو تا تو پھر پانی سے افطا ر فرماتے تھے ۔ ۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ کافی ،ج٤،ص٩١ ، کتاب الصیام ،باب صوم رسول اللہ ۖ ،ح٧
٢۔ کافی ،ج٤،ص٩٢ ، کتاب الصیام ،باب فضل صوم شعبان وصلتہ برمضان،ح٤
٣۔ کافی ،ج٤،ص٩٢ ، کتاب الصیام ،باب فضل صوم شعبان وصلتہ برمضان،ح٥
٤۔ کافی ،ج٤،ص ،١٥٣ کتاب الصیام ،باب ما یستجب ان یفطر علیہ ،ح٦ اور ٧
٥۔ کافی ،ج،٤ص ١٥٢، کتاب الصیام ،باب ما یستجب ان یفطر علیہ،ح١
٦۔ کافی ،ج،٤ص ١٥٣، کتاب الصیام ،باب ما یستجب ان یفطر علیہ،ح١


ماہ مبارک رمضان کی فضیلت اور وظائف

ماہ مبارک رمضان کی فضیلت اور وظائف

شیخ صدوق[1](رح) نے معتبر سند کیساتھ امام علی رضا[2]-سے اور حضرت نے اپنے آباء طاہرین علیھم السلام کے واسطے سے امیرالمومنین علیہ السلام -سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک روز رسول اللہ[ص] نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تمہاری طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آرہا ہے۔ جس میں گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ مہینہ خدا کے ہاں سارے مہینوں سے افضل و بہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے مہینوں کے دنوں سے بہتر، جس کی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر اور جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہتر ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں حق تعالیٰ نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے اور اس مہینے میں خدا نے تمہیں بزرگی والے لوگوں میں قرار دیا ہے کہ اس میں تمهارا سانس لینا تسبیح اور تمہارا سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے۔ اس میں تمہارے اعمال قبول کیے جاتے اور دعائیں منظور کی جاتی ہیں۔
پس تم اچھی نیت اور بری باتوں سے دلوں کے پاک کرنے کے ساتھ اس ماہ میں خدا ئے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ تم کو اس ماہ کے روزے رکھنے اور اس میں تلاوتِ قرآن کرنے کی توفیق عطا کرے کیونکہ جو شخص اس بڑائی والے مہینے میں خدا کی طرف سے بخشش سے محروم رہ گیا وہ بدبخت اور بدانجام ہوگا اس مہینے کی بھوک پیاس میں قیامت والی بھوک پیاس کا تصور کرو، اپنے فقیروں اور مسکینوں کو صدقہ دو، بوڑھوں کی تعظیم کرو، چھوٹوں پر رحم کرواور رشتہ داروں کے ساتھ نرمی و مہربانی کرو اپنی زبانوں کو ان باتوں سے بچاؤ جو نہ کہنی چاہئیں، جن چیزوں کا دیکھنا حلال نہیں ان سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھو، جن چیزوں کا سننا تمہارے لیے روا نہیں ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو، دوسرے لوگوں کے یتیم بچوں پر رحم کرو تا کہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم بچوں پر رحم کریں ،اپنے گناہوں سے توبہ کرو، خدا کی طرف رخ کرو، نمازوں کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھاؤ کہ یہ بہترین اوقات ہیں جن میں حق تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے اور جو بندے اس وقت اس سے مناجات کرتے ہیں وہ ان کو جواب دیتا ہے اور جو بندے اسے پکارتے ہیں ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے اے لوگو! اس میں شک نہیں کہ تمہاری جانیں گروی پڑی ہیں۔ تم خدا سے مغفرت طلب کرکے ان کو چھڑانے کی کوشش کرو۔ تمہاری کمریں گناہوں کے بوجھ سے دبی ہوئی ہیں تم زیادہ سجدے کرکے ان کا بوجھ ہلکا کرو کیونکہ خدا نے اپنی عزت و عظمت کی قسم کھارکھی ہے کہ ا س مہینے میں نمازیں پڑھنے اور سجدے کرنے والوں کو عذاب نہ دے اور قیامت میں ان کو جہنم کی آگ کا خوف نہ دلائے ،اے لوگو! جو شخص اس ماہ میں کسی مؤمن کا روزہ افطار کرائے تو اسے گناہوں کی بخشش اور ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔
آنحضرت(ص) کے اصحاب میں سے بعض نے عرض کی یا رسول (ص) اللہ! ہم سب تو اس عمل کی توفیق نہیں رکھتے تب آپ(ص) نے فرمایا کہ تم افطار میں آدھی کھجور یا ایک گھونٹ شربت دے کر بھی خود کو آتشِ جہنم سے بچا سکتے ہو۔ کیونکہ حق تعالیٰ اس کو بھی پورا اجر دے گا جو اس سے کچھ زیادہ دینے کی توفیق نہ رکھتا ہو۔ اے لوگو! جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق درست کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو پل صراط پر سے با آسانی گزاردے گا۔ جب کہ لوگوں کے پاؤں پھسل رہے ہوںگے[3]۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام اور لونڈی سے تھوڑی خدمت لے تو قیامت میں خدا اس کا حساب سہولت کے ساتھ لے گا اور جو شخص اس مہینے میں کسی یتیم کو عزت اور مہربانی کی نظر سے دیکھے تو قیامت میں خدا اس کو احترام کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جوشخص اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے نیکی اور اچھائی کا برتاؤ کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملائے رکھے گا اور جو کوئی اپنے قریبی عزیزوں سے بدسلوکی کرے تو خدا روز قیامت اسے اپنے سایہ رحمت سے محروم رکھے گا۔ جوشخص اس مہینے میں سنتی نمازیں بجا لائے تو خدا ئے تعالیٰ قیامت کے دن اسے دوزخ سے برائت نامہ عطا کرے گا۔ اور جو شخص اس ماہ میں اپنی واجب نمازیں ادا کرے توحق تعالیٰ اس کے اعمال کا پلڑا بھاری کردے گا۔ جبکہ دوسرے لوگوں کے پلڑے ہلکے ہوںگے۔ جو شخص اس مہینے میں قرآن پاک کی ایک آیت پڑھے تو خداوند کریم اس کے لیے کسی اور مہینے میں ختم قرآن کا ثواب لکھے گا، اے لوگو! بے شک اس ماہ میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ انہیں تم پر بند نہ کرے۔ دوزخ کے دروازے اس مہینے میں بند ہیں۔ پس خدائے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر نہ کھولے اور شیطانوں کو اس مہینے میں زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ پس خدا سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر مسلط نہ ہونے دے . الخ
شیخ صدوق (رح)نے روایت کی ہے کہ جب ماہِ رمضان داخل ہوتا تو رسول اللہ تمام غلاموں کو آزاد فرمادیتے اسیروں کو رہا کردیتے اور ہر سوالی کو عطا فرماتے تھے[4]۔
مؤلف کہتے ہیں کہ رمضان مبارک خدائے تعالیٰ کا مہینہ ہے اور یہ سارے مہینوں سے افضل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آسمان جنت اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے، جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ پس اے انسانو! تمہیں سوچنا چاہیئے کہ تم اس مہینے کے رات دن کس طرح گزارتے ہو اور اپنے اعضائے بدن کو خدا کی نافرمانی سے کیونکر بچاسکتے ہو، خبردار کوئی شخص اس مہینے کی راتوں میں سوتا نہ رہے اور اس کے دنوں میں حق تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ رہے کیونکہ ایک روایت میں آیا ہے کہ ماہِ رمضان میں دن کا روزہ افطار کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ ایک لاکھ انسانوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے اور شبِ جمعہ یا جمعہ کے دن ہر گھڑی میں خدائے تعالیٰ ایسے ہزاروں انسانوں کو آتشِ دوزخ سے رہائی بخشتا ہے جو دوزخی بن چکے ہوتے ہیں۔نیز اس مہینے کی آخری رات اور دن میں حق تعالیٰ اپنے اتنے بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے جتنے کہ پورے رمضان میں آزاد کرچکا ہے۔ پس اے عزیزو! توجہ کرو کہ مبادا یہ مبارک مہینہ تمام ہوجائے اور تمہاری گردن پر گناہوں کا بوجھ باقی رہ جائے اور جب روزہ دار اپنے روزوں کا اجر پارہے ہوں تو تم ان لوگوں میں گنے جاؤ جن کو محروم کیا جارہا ہو۔ تمہیں تلاوتِ قرآن کرکے افضل وقت میں نمازیں بجا لاکر دیگر عبادتوں میں سعی کرکے اور توبہ واستغفار کرکے خدا کا تقرب حاصل کرنا چاہیئے، کیونکہ امام جعفر صادق -سے روایت ہے کہ جو شخص اس بابرکت مہینے میں نہیں بخشا گیا تو وہ آیندہ رمضان تک نہیں بخشا جائیگا سوائے اس کے کہ وہ عرفہ میں حاضر ہوجائے۔ پس تمہیں ان چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیئے جن کو خدائے تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ یعنی حرام چیزوں سے روزہ افطار نہیں کرناچاہیئے، اور تمہیں اس طرح رہنا چاہیئے جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام نے وصیت فرمائی ہے کہ جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کانوں آنکھوں بدن کے رونگٹوں اور جلد اور دوسرے سب اعضائ کو بھی روزہ دار ہونا چاہیئے یعنی ان کو حرام بلکہ مکروہ چیزوں اور کاموں سے بچائے رکھو۔ نیز فرمایا کہ تمہارا روزہ دار ہونے کادن اس طرح کا نہ ہو جیسے تمہارا روزہ دار نہ ہونے کا دن تھا۔پھر فرمایا کہ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنا نہیں۔ بلکہ حالتِ روزہ میں اپنی زبانوں کو جھوٹ سے اور آنکھوں کو حرام سے دور رکھو۔ روزے کی حالت میں کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرو، کسی سے حسد نہ رکھو۔ کسی کا گلہ شکوہ نہ کرو اور جھوٹی قسم نہ کھاؤ۔ بلکہ سچی قسم سے بھی پرہیز کرو، گالیاں نہ دو، ظلم نہ کرو، جہالت کا رویہ نہ اپناؤ۔ بیزاری ظاہر نہ کرو اور یاد خدا اور نماز سے غفلت نہ برتو ۔ ہر وہ بات جو نہ کہنی چاہیئے۔ اس سے خاموشی اختیار کرو ، صبر سے کام لو ، سچی بات کہو برے آدمیوں سے الگ رہو بری باتوں، جھوٹ بولنے، بہتان لگانے، لوگوں سے جھگڑنے ، گلہ کرنے اور چغلی کھانے جیسی سب چیزوں سے پرہیز کرو ۔ اپنے آپ کو آخرت کے قریب جانو ۔ آخرت کے ثواب کی امید رکھو، آخرت کیلئے اچھے اعمال کا ذخیرہ تیار کرو۔ تمہیں خدا کے خوف میں اس طرح عاجز رہنا چاہیئے، جیسے وہ غلام کہ جو اپنے آقا سے ڈرتا ہے۔ اس کا دل رکا ہوا اور جسم سہما ہوا ہوتا ہے۔ خدا کے عذاب سے ڈرو اور اس کی رحمت کی امید رکھو۔ اے روزہ دارو! تمہارے دل عیبوں سے تمہارے باطن مکر و فریب سے اور تمہارے بدن آلودگیوں سے پاک ہونی چاہیے۔ اﷲ کے سوا دوسرے خداؤں سے بیزاری اختیار کرو اور روزے کی حالت میں اپنی محبت و نصرت کو اﷲ کیلئے خالص کرو۔ ہر وہ چیز ترک کردو جس سے خدا نے ظاہر و باطن میں روکا ہے خدا وند قہار سے ظاہر و باطن میں ایسا خوف رکھو جو خوف رکھنے کا حق ہے اور روزے کی حالت میں اپنا بدن اور روح خدا کے حوالے کردو اور اپنے دل کو صرف اس کی محبت اور یاد کیلئے یکسو کر لو اور اپنے جسم کو ہر اس چیز کیلئے فرمان بردار بناؤ جس کا خدا نے حکم دیا ہے ۔ اگر تم ان سب چیزوں پر عمل کر لو جو روزے کیلئے مناسب ہیں توپھر تم نے خدا کی فرمائشوں پر عمل کیا ہے اور جن چیزوں کا میں نے تذکرہ کیا ہے اگر ان میں سے کچھ کم کر دوگے تو تمہارے ثواب اور فضیلت میں کمی آجائے گی ۔ بے شک میرے والد بزرگوار نے فرمایاکہ:رسول اﷲ نے سنا کہ ایک عورت بحالت روزہ اپنی کنیز کو گالیاں دے رہی ہے تو حضرت (ص) نے کھانا منگوایا اور اس عورت سے کہا کہ یہ کھانا کھا لو ۔ اس نے عرض کی کہ میں روزے سے ہوں آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ یہ کس طرح کا روزہ ہے جبکہ تونے اپنی کنیز کو گالیاں دی ہیں ۔ روزہ محض کھانے پینے سے رکنے ہی کا نام نہیں بلکہ حق تعالیٰ نے تو روزے کو تمام قبیح کاموں یعنی بد کرداری و بد گفتاری وغیرہ سے محفوظ قرار دیا ہے پس اصل و حقیقی روزے دار بہت کم اور بھوکے پیاسے رہنے والے بہت زیادہ ہیں امیر المؤمنین -نے فرمایا کہ کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کے لئے اس میں بھوکا پیاسا رہنے کے سوا کچھ نہیں اور کتنے ہی عبادت گزار ہیں جن کا حصہ ان میں سوائے بدن کی زحمت اور تھکن کے کچھ نہیں ہے ۔ کیا کہنا اس عقل مند کی ننید کا جو جاہل کی بیداری سے بہتر ہے جابر بن یزید نے امام محمد
باقر -سے روایت کی ہے: قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ص لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَا جَابِرُ هَذَا شَهْر
ُ رَمَضَانَ مَنْ صَامَ نَهَارَهُ وَ قَامَ وِرْداً مِنْ لَيْلِهِ- وَ عَفَّ بَطْنُهُ وَ فَرْجُهُ وَ كَفَّ لِسَانَهُ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَخُرُوجِهِ مِنَ الشَّهْرِ قَالَ جَابِرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَحْسَنَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَا جَابِرُ وَ مَا أَشَدَّ هَذِهِ الشُّرُوط[5]رسول اﷲ نے جابر ابن عبد اﷲ(رض) سے فرمایا: اے جابر! یہ رمضان مبارک کا مہینہ ہے ، جو شخص اس کے دنوں میں روزہ رکھے اور اس کی راتوں کے کچھ حصے میں عبادت کرے۔ اپنے شکم اور شرمگاہ کو حرام سے بچائے رکھے اپنی زبان کو روکے رکھے تو وہ شخص گناہوں سے اس طرح باہر آئے گا جیسے یہ مہینہ جلدی ختم ہو گیا ہے ۔ جناب جابر (رض) نے عرض کی یا رسول (ص) اﷲ! آپ(ص) نے بہت اچھی حدیث فرمائی ہے ، آپ(ص) نے فرمایا وہ شرطیں کتنی سخت ہیں جو میں نے روزے کیلئے بیان کی ہیں ۔

[1]امالی : ص 55
[2]عیون اخبار الرضا : ج1، ص293
[3]روضة الواعظین و بصیرة المتعظین :ج2،ص346
[4]امالی صدوق :مجلس 14، ح 4، ص59
[5]جامع الأخبار،فصل 38 ، ص:

خطبہ شعبانیہ کا ایک فراز

" اے لوگو! اللہ کا مہینہ اپنی برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں کو لے کر آپ کی طرف آ رہا ہے۔ یہ مہینہ اللہ کے نزدیک تمام مہینوں سے برتر ہے۔ اس کے ایام دوسرے ایام سے برتر، اس کی راتیں دوسری راتوں سے برتر، اس کے لمحات دوسرے لمحات سے برتر ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آپ لوگوں کو اللہ کے ہاں دعوت دی گئی ہے۔ اور آپ لوگ ان میں سے قرار پائے ہیں جو بارگاہ رب العزت میں مشمول اکرام واقع ہوتے ہیں۔اس مہینہ میں آپ کی سانسیں اللہ کی تسبیح، آپ کی نیند عبادت ، اعمال قبول اور دعائیں مستجاب ہیں۔ بنا بر ایں خالص نیتوں اور پاک دلوں سے اللہ سے چاہو کہ آپ کو روزہ رکھنے اور اس مہینہ میں قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق عنایت کرے۔ اس لیے کہ بدبخت وہ شخص ہے جو اس مہینہ میں اللہ کی مغفرت سے محروم رہ جائے۔ اور اس مہینہ کی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو۔ فقیروں اور بے سہارا لوگوں پر بخشش کرو، بوڑھوں کا اکرام کرو۔ چھوٹوں پر رحم کرو۔ اور صلہ رحم کو مضبوط کرو۔

اپنی زبانوں کو گناہ سے محفوظ رکھو، اپنی آنکھوں کو حرام دیکھنے سے بچائے رکھو، اور اپنے کانوں کو حرام سننے سے محفوظ رکھو۔ یتیموں کے ساتھ شفقت اور مہربانی سے کام لو تاکہ آپ کے یتیموں کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جائے۔۔۔۔ اپنے گناہوں سے بارگاہ خداوندی میں توبہ کرو، نماز کے وقت اپنے ہاتھوں کو دعا کے لیے خدا کی طرف بلند کرو یقینا نماز کا وقت بہترین وقت ہے جس میں خدا اپنے بندوں کی طرف رحمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جب اس کو پکارتے ہیں وہ اجابت کرتا ہے ۔۔۔ اے لوگو ! تمہاری جانیں تمہارے اعمال کے گروی ہیں استغفار کر کے انہیں آزاد کرواو اور تمہاری گردنیں گناہوں کے بوجھ سے لدھی ہوئی ہیں پس طولانی سجدے کر کے انہیں ہلکا کرو۔

جان لو کہ خدا وند عالم نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ نماز پڑھنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کو عذاب نہیں کرے گا۔ روز قیامت جب لوگ پروردگار عالم کی بارگاہ میں قیام کریں گے ہر گز انہیں جہنم کی آگ نہیں دکھلائے گا۔ ۔۔۔

جو شخص برائی سے اپنے آپ کو بچائے گا قیامت کے دن عذاب الہی سے محفوظ رہے گا۔ خدا وند عالم قیامت کے دن ے۲تچے۱۲ے اس کا احترام کرے گا۔ اور جو شخص دوسروں پر رحم کرے گا خدا وند قیامت کے دن اس پر اپنی رحمت نازل کرے گا۔ اور جو شخص اس مہینہ میں کسی پر رحم نہیں کھائے گا خدا قیامت کے دن اس پر رحم نہیں کھائے گا۔ ۔۔۔ اور جو شخص ایک آیت قرآن کی تلاوت کرے گا اس شخص کی طرح ہے جس نے رمضان کے علاوہ پورا قرآن ختم کیا ہو۔ ۔۔۔

اے لوگو! اس مہینہ میں بہشت کے دروازے کھلے ہیں پس اپنے پروردگار سے چاہو کہ انہیں تمہارے اوپر بند نہ کرے اور اس مہینہ میں دوزخ کے دروازے بند ہیں خدا سے کہو کہ انہیں تمہارے اوپر نہ کھولے۔ شیاطین اس مہینہ میں زنجیروں میں بند ہیں اپنے پروردگار سے چاہو کہ انہیں تمہارے اوپر مسلط نہ کرے۔ علی علیہ السلام نے فرمایا: میں کھڑا ہوا اور عرض کیا : اے رسول اللہ اس مہینہ میں بہترین اعمال کون سے ہیں؟ فرمایا: اے ابو الحسن ! اس مہیںہ میں بہترین اعمال محرمات سے پرہیز ہے۔" [۱]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ۔ وسائل الشیعه ، ج 7 صص228 226 . حدیث 20