Sunday, 29 June 2014

نمازِ تراویح کی حقیقت

تراویح، ترویحۃ کی جمع ہے اور آرام و استراحت کے واسطے ایک مرتبہ بیٹھنے کیلیے استعمال ہوتا ہے. علامہ ابن منظور علم لغت کی عظیم کتاب لسان العرب میں تحریر فرماتے ہیں :  تراویح ، ترویحۃ کی جمع ہے اور ایک مرتبہ آرام کرنے کا نام ہے. ماہ رمضان کی نماز تراویح کو بھی اسیلئے تراویح کہتے ہیں کہ لوگ ہر چار رکعت کے بعد آرام کرتے ہیں.....(1)

صاحب مجمع البحرین لفظ تراویح کے ذیل میں رقم کرتے ہیں ہیں : تراویح مادہ راحت سے باب تفاعل کا مصدر ہے یعنی دو آدمیوں کا یکے بعد دیگرے صبح سے شام تک کنویں سے پانی کھینچنا، اسلئے کہ اس میں بھی ایک شخص دوسرے کے لئے استراحت و آرام کا باعث ہوتا ہے اور گھڑی ہوئی و ایجاد شدہ نماز تراویح بھی اسی باب سے ہے چونکہ نماز گذار ہر چار رکعت کے بعد آرام کرتا ہے.....(2)

تراویح باعتبار اصطلاح : علم لغت کے دو ماہر اور خریت فن کے بیانات سے معنیِ لغوی کے ساتھ ساتھ اصطلاحی معنی بھی واضح و روشن ہو جاتے ہیں اگرچہ نماز تراویح کیا ہے ؟ اور نماز تراویح کس کو کہتے ہیں؟ اس کی تلاش میں زیادہ سر گرداں ہونے کی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ ماہ مبارک رمضان میں اہلسنت کی مساجد میں یہ فعل عملا دیکھا جا سکتا ہے یعنی مذہب اہلسنت کے نزدیک ماہ مبارک رمضان میں نماز مغرب و عشاء کے بعد نافلہ نمازوں کو با جماعت انجام دینا تراویح کہلاتا ہے اور اب نماز تراویح پر اسقدر اصرار و تاکید ہے کہ نماز تراویح مذہب اہلسنت کے لئے شعار اور پہچان بن گئی ہے ۔

ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں
ماہ مبارک رمضان ، عظیم اور خیر و برکت کا مہینہ ہے کہ جسمیں خداوند عالم اپنے بندوں پر دریائے رحمت کو کھول دیتا ہے اور شیطان کو محبوس کر لیا جاتا ہے ۔
رمضان المبارک ، عبادت، ریاضت، قناعت، تقوی، پرہیزگاری، تزکیۂ نفس، نجات، بخشش، توبہ، مغفرت، رحمت، شب قدر اور آرام و سکون کے ساتھ ساتھ کچھ مخصوص واجبات و مستحبات کے ہمراہ آنے والا با برکت مہینہ ہے ۔ اشرف کائنات افضل مخلوقات حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مہینہ کے سلسلے میں ماہ شعبان کے آخر میں ایک عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ جسکا خلاصہ یہ ہے :
 "اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ خدا کا مہینہ برکت و رحمت و مغفرت لیکر تمہارے پاس آیا ہے یہ وہ مہینہ ہے کہ خدا کے نزدیک سب مہینوں سے افضل اس کے دن تمام دنوں سے بہتر اور اس کی راتیں تمام راتوں سے بالاتر ہیں اس مہینے میں تمہارا ہر سانس تسبیح کی مانند ہے ، تمہارا سونا بمنزلہ عبادت ہے ، تمہارے عمل مقبول ہیں اور تمہاری دعائیں مستجاب ہیں پس تم صدق نیت سے خداوند عالم سے سوال کرو کہ وہ اس مبارک مہینے میں روزہ رکھنے اور قرآن پڑھنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ اے لوگو ! جو تم میں سے کسی مؤمن کو اس مہینے میں افطار دے گا اس کو خدائے کریم ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے یہ سن کر بعض اصحاب نے عرض کی یا رسول اللہ ہم افطار کرانے پر قادر نہیں ہیں تب آپ نے فرمایا افطار دینے کے ذریعہ خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ چہا ہے یہ افطار خرمے کے آدھے دانے کے برابر ہو یا ایک گھونٹ پانی کے برابر، پھر بھی خدا یقیناً وہی ثواب دے گا ۔ پھر فرمایا : اے لوگو جو اس مہینے میں صلۂ رحم کرے گا خدا قیامت میں اس کے ساتھ صلۂ رحمت کرے گا اور جو اس ماہ میں قطع رحم کرے گا خداوند قیامت میں اس کے ساتھ قطع رحمت کرے گا جو اس مہینے میں مستحبی نمازیں انجام دے گا خدا اس کے لئے جہنم سے امان کا پروانہ لکھ دے گا ، جو مجھ پر اور میری آل پر کثرت سے درود بھیجے گا خدا اس دن اس کے اعمال کی ترازو کو بھاری کر دے گا جس دن اعمال کی ترازو ہلکی ہو جائیں گی اور جو اس مہینے میں ایک آیت کی تلاوت کرے گا خداوند اس کو اس قدر ثواب مرحمت فرمائے گا جتنا کہ اور مہینوں میں ختم قرآن کا ہوتا ہے ۔ اے لوگو تمہارے لئے اس مہینے میں جنت کے دروازے کھلے ہوے ہیں لہذا خدا سے دعا کرو کہ انہیں تمہارے لئے بند نہ کرے اور جہنم کے دروازے بند ہیں لہذا خدا سے سوال کرو کہ ان کو تم پر نہ کھولے اس مہینے میں شیاطین مقید اور باندھ دئے گئے ہیں تم خدا سے چاہو کہ ان کو تمہارے اوپر مسلط نہ کرے.....(3)
بہر حال اس عظیم اور بابرکت مہینے کے اعمال میں سے نافلہ نمازیں بھی ہیں اگرچہ سال میں ہر روز نافلہ نمازوں کا وجود ہے لیکن یہ نمازیں اپنی خصوصیات و فضائل میں یکتا ہیں.

مذہب شیعہ اور ما ہ رمضان کی نافلہ نمازیں
مذہب امامیہ شیعہ اثنا عشری کے نزدیک ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کا وجود مسلم ہے اور ان کی تعداد ایک ہزار رکعت ہے کہ جو اول ماہ رمضان سے بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت اور اکیس سے آخر ماہ رمضان تک ہر شب تیس رکعت و  شبہائے قدر میں ہر شب سو رکعت جداگانہ انجام دی جاتی ہے کہ جو مجموعاً ایک ہزار رکعت ہو جاتی ہے ۔ البتہ یہ عام دنوں میں ہر روز کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے ۔اس مطلب کی تائید میں مذہب حقہ شیعہ اثنا عشری کی معتبر کتب سے کچھ احادیث اور چند جید علماء کے نظریے و فتوے قارئین کے حضور پیش کرتے ہیں 

پہلی روایت: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ان کارناموں میں سے کہ جو رسول اسلام ماہ مبارک رمضان میں انجام دیتے تھے نافلۂ ماہ رمضان ہے کہ جو سالانہ ایام کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے وہ ہر شب بیسویں ماہ رمضان تک بیس رکعت نماز انجام دیتے آٹھ رکعت مغرب کے بعد بارہ رکعت عشاء کے بعد اور اکیسویں ماہ سے آخر ماہ تک ہر شب تیس رکعت نماز انجام دیتے بارہ رکعت مغرب کے بعد اور اٹھارہ رکعت عشاء کے بعد بہت دعا فرماتے اور بہت زحمت و مشقت اٹھاتے نیز اکیس و تیئیس کی شبوں میں سو سو رکعت نماز انجام دیتے اور بہت ہی جہد و کوشش کرتے.....(4)

دوسری روایت: جناب ابوحمزہ کا بیان ہے کہ ہم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ابوبصیر نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ ماہ رمضان کی نمازوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں تب آب نے فرمایا بیشک ماہ رمضان کا خاص احترام ہے ، حق یہ ہے کہ اس ماہ کو کسی مہینے سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی رمضان کی شب و روز میں مستحب نمازیں جتنی بھی ہوسکتی ہیں انجام دیں اور اگر ہوسکے تو ہر شبانہ روز ایک ایک ہزار رکعت پڑھیں، حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام اپنی عمر کے آخری ایام میں ہر شب و روز ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے ، اے ابو محمد آپ زیادہ سے زیادہ سے نمازیں انجام دیں عرض کی آپ پر ہماری جانیں قربان کتنی نماز ؟ تب آپ نے فرمایا پہلی بیس شبوں میں ہر شب بیس بیس رکعت نماز کہ آٹھ رکعت عشاء سے پہلے اور بارہ رکعت عشاء کے بعد ان نمازوں کے علاوہ جو غیر ماہ رمضان میں انجام دی جاتی ہیں اور رمضان کے آخری عشرے میں ہر تیس رکعت نماز انجام دیں یہ بھی عام نمازوں کے علاوہ ہے.....(5)

تیسری روایت : حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے حضور احمد ابن مطہر نے عریضہ لکھا اور نماز نافلۂ رمضان کے متعلق دریافت کیا تب آپ نے جواب ارسال فرمایا: بیسویں ماہ رمضان تک ہر شب بیس رکعت نماز انجام دیں اور اکیس و تیئیسویں شب کو سو سو وکعت نیز آخری عشرے میں ہر شب تیس رکعت نماز انجام دیں.....(6)

ان روایتوں کے علاوہ کتب احادیث شیعہ میں اسطرح کی روایات بھر پور ہیں کہ جن میں کہیں پر اول ماہ سے آخر ماہ تک کی نماز مذکور ہے اور بعض روایات میں صرف شبہائے قدر کی نمازوں کا ذکر ہے بلکہ وسائل الشیعہ میں مستقل ایک باب ہے کہ جس میں شبہائے قدر کی سو سو رکعت نماز سے متعلق متعدد احادیث درج ہیں.....(7)

 جبکہ بعض روایات میں 19، 21، 32، رکعت کو مشخص کر کے نماز کا حکم ہے اور بعض روایات میں صرف اتنا آیا ہے (فصل فی رمضان زیادۃ الف رکعۃ).....(8)
 یعنی ماہ رمضان میں کل ملاکر ایک ہزار رکعت نماز پڑھی جانی ہے یہی وجہ ہے کہ علماء شیعہ نے بھی انہی روایات سے استنباط کر کے ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کی تعداد ایک ہزار رکعت بتائی ہے اور اس کا طریقہ بھی بیان فرمایا ہے ، لہذا چند ممتاز و جید علماء و مراجع کے نظریے پیش خدمت ہیں۔

سید مرتضی تحریر فرماتے ہیں کہ یہ مذہب شیعہ کی انفرادیت میں سے ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کو اسطرح انجام دیا جائے کہ ہر شب بیس رکعت جس میں آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد، انیسوی شب میں سو رکعت اور پھر بیسوی شب میں پہلے کی ترتیب ، پھر اکیسوی شب میں سو رکعت اور بائسویں شب میں تیس رکعت نماز پڑھی جائے گی کہ آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بائیس رکعت نماز عشاء کے بعد انجام دی جائے گی گویا اول شب سے بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت اور اکیس سے آخر ماہ تک ہر شب تیس رکعت نیز قدر کی راتوں میں ہر شب 100 رکعت نماز انجام دی جاتی ہے.....(9)
شیح طوسی رقمطراز ہیں کہ اول ماہ رمضان سے آخر تک ہمیشہ و روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ایک ہزار رکعت نماز پڑھی جائے اسطرح کہ بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت کہ آٹھ رکعت نماز کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری دس شبوں میں ہر رات تیس رکعت ، نیز تین شبوں میں کہ جو انیس اکیس اور تئیس کی شبیں ہیں ہر شب سو رکعت نماز انجام دی جائے.....(10)

جناب علامہ حلی تحریر فرماتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ایک ہزار رکعت ہیں کہ جن کی انجام دہی کی ترتیب اس طرح ہے کہ اول ماہ رمضان سے آخر ماہ تک ہر شب بیس رکعت اور آخری عشرہ میں ہر شب دس رکعت کا اور اضافہ ہو گا اور تین شبھای قدر میں ان نمازوں کے علاوہ سو سو رکعت نماز اور انجام دی جائے گی.....(11)

جناب محقق حلی بیان فرماتے ہیں کہ ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازیں روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ  ایک ہزار رکعت ہیں کہ جن کو اس طرح انجام دیا جاتا ہے کہ اول ماہ رمضان سے آخر ماہ تک ہر شب بیس رکعت ، آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری عشرے میں ہر شب دس رکعت اور زیادہ انجام دی جائے گی نیز تین شبہائے قدر میں ہر شب سو رکعت کا اور اضافہ ہو گا.....(12)

جناب فاضل نراقی تحریر فرماتے ہیں کہ ہمیشہ روزمرہ کی نوافل کے علاوہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں ایک ہزار رکعت ہیں یہ بر بناء قول اشھر باعتبار روایت و فتوی مستحب ہیں بلکہ اسپر علماء شیعہ کا اجماع ہے پھر یہ ہزار رکعت پورے مہینہ پر اس طرح تقسیم ہوتی ہیں کہ ہر شب بیس رکعت آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری دس شبوں میں ہر شب دس رکعت کا اور اضافہ کیا جائے گا نیز تینوں شبھای قدر میں اس مذکورہ وظیفہ کے ساتھ ساتھ ہر شب 100 رکعت نماز کا اور اضافہ ہو گا.....(13)

مذہب اہلسنت اور ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں
اہل تسنن کے نزدیک نوافل ماہ رمضان میں بہت زیادہ اختلاف ہے لیکن مشہور بیس رکعت ہیں انہیں کو نماز تراویح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ جماعت سے انجام دی جاتی ہیں اس مطلب کی تائید میں ہم اہل تسنن کے جید علماء کے نظریات پیش کرتے ہیں ۔

مذہب اہلسنت کی عظیم ترین کتاب صحیح بخاری کی معتبر ترین شرح عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری میں تحریر ہے کہ نافلہ ماہ رمضان کی تعداد رکعات میں علماء کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہے بعض افراد اکتالیس رکعت کے قائل ہیں تو بعض اڑتیس رکعت کے ، کچھ نے چھتیس کو ترجیح دی ہے تو کسی نے چونتیس رکعت کو اپنایا ہے ، کوئی چوبیس رکعت کا قائل ہوا توکسی نے اکیس رکعت کو اخذ کیا ، لیکن مشہور و معروف بیس رکعت ہے اور اس کے علاوہ نماز وتر ہے اگرچہ بعض افراد سولہ رکعت اور کچھ تیرہ رکعت ہی کے معتقد ہیں بلکہ بعض نے رمضان کی نافلہ اور غیر رمضان کی نافلہ نمازوں میں کوئی فرق نہیں جانا بلکہ کہا ہے کہ ہر شب صرف گیارہ رکعت نماز نافلہ مستحب ہے.....(14)
علامہ قسطلانی نے بخاری شریف کی شرح ارشاد الساری میں تحریر کیا ہے کہ  ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کے بارے میں معروف یہ ہے کہ بیس رکعت ہیں یہی علماء جمہور کا نظریہ ہے کہ جو دس سلام کے ساتھ یعنی دو دو رکعت کر کے انجام دی جاتی ہے اسمیں پانچ ترویحہ (آرام و استراحت)ہیں اور ہر ترویحہ چار رکعت کے بعد ہے.....(15)

بہرحال گزشتہ گفتگو سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کا وجود مذہب امامیہ شیعہ اثنا عشری اور مذہب اہلسنت دونوں کے نزدیک ثابت ہے لیکن اختلاف رکعتوں کی تعداد اور کیفیت میں ہے ۔ لہذا اصل موضوع یہ ہے کہ نماز تراویح کہ جو ماہ مبارک رمضان میں ہر شب بیس رکعت جماعت کے ساتھ دو دو رکعت کر کے انجام دی جاتی ہے اور ہر چار رکعت کے بعد آرام و استراحت کیا جاتا ہے اسی کی وجہ سے اس کو نماز تراویح کہتے ہیں یہ نماز اس و کیفیت اور جماعت کے ساتھ کب ؟ اور کہاں سے شروع ہوئی ؟ کس نے شروع کی ؟!!!

نماز تراویح کی ایجاد ! موجد کون ؟
کسی بھی چیز کی حقیقت تک پہونچنے کیلئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کی ایجاد و آغاز کی تفتیش کی جائے کہ یہ اسلام محمدی میں کب سے وارد ہوئی ؟ کیوں وارد ہوئی ؟ اور کسنے ایجاد کی ؟ اگرچہ نماز تراویح کا شمار ان بدعتوں میں سے ہے کہ جس کے بارے میں زیادہ تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ مذہب اہلسنت کی عظیم ترین کتاب صحیح بخاری میں نماز تراویح کی حقیقت مفصل درج ہے
 (عن ابن شھاب عن عروۃ بن الزبیر عن عبد الرحمن بن عبد القاری انہ قال خرجت مع عمربن الخطاب لیلۃ فی رمضان الی المسجد فاذا الناس اوزاع متفرقون یصلی الرجل لنفسہ ویصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط فقال عمر انی اری لو جمعت ھولاء علی قاری واحد لکان امثل ثم عزم فجمعھم علی ابی بن کعب ثم خرجت معہ لیلۃ اخری والناس یصلون بصلاۃ قارئھم قال عمر نعمت البدعۃ ھذہ والتی ینامون عنھا افضل من التی نقومون یرید آخر اللیل وکان الناس یقومون اولہ)
ترجمہ : ابن شہاب نے عروۃ بن زبیر سے اسنے عبدالرحمن بن قاری سے روایت کی ہے کہ عبدالرحمن کا بیان ہے کہ میں ایک شب ماہ رمضان میں عمر بن الخطاب کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا تو دیکھا کہ لوگ جدا جدا نماز نافلۂ ماہ رمضان انجام دے رہے ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی نمازوں میں مشغول ہے عمر نے کہا میری رائے یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا اور کچھ عور و فکر کرنے کے بعد ابی بن کعب کی اقتداء میں سب کو جماعت کا حکم دیا۔ پھر اگلی شب عمر کے ساتھ مسجد کی روانہ ہوا تو دیکھا کہ لوگ جماعت کے ساتھ نافلہ نماز میں مشغول ہیں تب عمر نے کہا یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور وہ لوگ جو آرام سے سورہے ہیں وہ ان نماز گذاروں سے افضل ہیں (چونکہ وہ آخر شب میں نافلہ انجام دیں گے جب کہ یہ اول شب میں تراویح پڑھ رہے ہیں).....(16)

شرح : انی اری میری رائے یہ ہے اس جملے کا لغوی ترجمہ یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں لیکن اصطلاحی ترجمہ اس طرح ہو گا کہ میرا نظر یہ ہے ، میری رائے یہ ہے ، میرا نظریہ یہ ہے کہ جس کا مطلب یہ ہے کہ عمر ظاہر بظاہر اپنے نظریے اور اپنی رائے سے دین میں کمی و زیادتی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اسی جملہ کی تفسیر صاحب عمدۃ القاری نے صحیح بخاری کی شرح میں تحریر کی ہے کہ یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جناب عمر نے اپنے اجتہاد و رائے سے یہ فعل انجام دیا اور ان کے استنباط کیلیے تین دلیلیں ہوسکتی ہیں۔(ہم قارئین کے حضور تینوں دلیلیں مع جوابات پیش کر رہے ہیں)
دلیل اول : پیغمبر اسلام کی رضایت کہ چند روز لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز تراویح انجام دی!
جواب : یہ روایت اور اس کی حقیقت انشاءاللہ آئندہ آئے گی جبکہ واضح رہے کہ اگر پیغمبر اکرم اس کام کو انجام دیتے تو عمر کبھی بھی اس کو بدعت نہ کہتے ، بدعت کہنا بتا رہا ہے کہ یہ کام اس سے پہلے اسلام میں انجام ہی نہیں دیا گیا۔
دلیل دوم : استحسان ، کہ یہ کام عمر کو اچھا لگا لہذا انجام دینے کا حکم دے دیا!
جواب : شریعت اسلام میں استحسان حجت نہیں ہے اور استحسان بھی ہرکس وناکس کا کہ جو بھی اچھا لگے دین میں داخل کر لیا جائے اور جو برا لگے اس کو دین سے نکال دیا جائے تو پھر دین کی کیا حالت ہو گی یہ لمحۂ فکریہ ہے ! جبکہ قرآن کریم میں ارشاد گرامی ہے کہ ہر چیز جو تمہیں اچھی لگے اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں بھی اچھی ہو بلکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جو آپ کو اچھی لگتی ہیں لیکن آپ کے لیے اچھی نہیں ہیں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ آپ کو بری لگتی ہیں جبکہ آپ کے لیے اچھی ہیں. عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیرلکم
دلیل سوم : قیاس ، چونکہ واجب نمازوں میں جماعت جائز ہے بلکہ مستحب ہے لہذا نافلہ نماز میں بھی جماعت ہونی چاہیے !
جواب : قیاس دین مقدس اسلام میں باطل ہے ، اول من قاس فھو ابلیس۔ نیز یہ قیاس مع الفارق ہے اس لیے کہ واجب نمازوں میں جماعت کی تشریع موجود ہے نافلہ نمازوں میں جماعت کی تشریع تو کجا بلکہ انکار و تحریم ہے سوائے بعض موارد کے کہ جو روایات کی رو سے استثناء ہیں ۔
ثم خرجت معہ لیلۃ اخری جب دوسری رات عمر کے ساتھ مسجد کی طرف کو نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے ساتھ نماز تراویح میں مشغول ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز تراویح عمر نے نہ پڑھی ہے اور نہ پڑھائی ہے جبکہ خلیفہ وقت ہونے کی صورت میں اور ان کے حضور و صحت و سلامتی کے دوران کسی دوسرے کا امامت کرنا یہ خود ذہن مسلمین میں بہت سے خطور پیدا کرتا ہے ۔
نعمت البدعۃ ھذہ یعنی یہ کام بدعت ہے سنت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے پہلے کسی نے انجام دیا۔
والتی ینامون عنھا افضل من التی یقومون جناب عمر کی نظر میں نماز تراویح کو انجام دینے والوں سے انجام نہ دینے والے بہتر و افضل ہیں، جبکہ اس فعل خود ہی موجد بھی ہیں۔
اور اس کے علاوہ تمام ہی محدثین و مؤرخین و فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ نماز تراویح کی ایجاد عمر کے ذریعہ سے ہوئی مثلاً علامہ ابن سعد الطبقات الکبری میں عمر کا زندگی نامہ تحریر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ عمر ہی نے پہلی مرتبہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو تراویح میں تبدیل کیا لوگوں کو تراویح کے لیے جمع کیا اور دوسرے شہروں میں تراویح کے سلسلے میں نامے ارسال کیے یہ چودہ ہجری کے ماہ رمضان کی بات ہے.....(17)
علامہ ابن عبدالبر عمر کی تاریخ زندگی تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عمر ہی نے پہلی مرتبہ نماز تراویح کے لیے لوگوں کو جمع کیا.....(18)
علامہ قلقشندی ان چیزوں کو تحریر کرتے ہوئے کہ جن کی ابتداء عمر نے کی اور اس سے پہلے اسلام میں موجود نہ تھیں لکھتے ہیں کہ اولیات عمر میں سے ایک ماہ رمضان کی تراویح ہے کہ عمر نے لوگوں کو ایک امام کی اقتداء میں نماز تراویح کیلیے جمع کیااس وقت چودہ ہجری تھی.....(19)
صاحب محاضرات الاوائل تحریر کرتے ہیں نافلۂ ماہ رمضان کو جماعت سے انجام دینا عمر کی ایجادات میں سے ہے.....(20)
علامہ زرقانی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں کہ عمر ہی وہ پہلے ہیں کہ جنہوں نے نماز تراویح کی ایجاد ڈالی اور اس کو بدعت کا نام دیا چونکہ لفظ بدعت اس بات پر دلیل ہے کہ یہ کام اس سے پہلے انجام نہیں دیا گیا.....(21)
علامہ کحلانی تحریر کرتے ہیں عمر نے نماز تراویح کی بنیاد ڈالی اور اس کو بدعت کہا.....(22)
بہر حال خود علماء اہل تسنن کے اعتراف کے مطابق نماز تراویح بدعت ہے اور یہ بعد میں جناب عمر کے ذریعہ اسلام میں وارد ہوئی ہے لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ خود بدعت کس کو کہتے ہیں اور بدعت کا اسلام میں کیا مقام ہے ؟

بدعت کی تعریف
باعتبار لغت : علامہ زبیدی نے تاج العروس میں علامہ فراھیدی نے کتاب العین میں علامہ راغب اصفہانی نے معجم مفردات میں علامہ ازھری نے تھذیب اللغہ میں علامہ ابن منظور نے لسان العرب میں علامہ جوھری نے صحاح اللغہ میں اور علامہ طریحی نے مجمع البحرین میں بلکہ تمام ہی لغویین نے بدعت کے ایک ہی معنی بیان کیے ہیں کہ بدعت اس کو کہتے ہیں کہ کسی چیز کا اس طرح ایجاد کرنا کہ وہ خود یا اس کی مثال و نظیر قبلًا موجود نہ ہو.....(23)

اصطلاح شریعت میں بدعت کا مفہوم : علماء و بزرگان کی تصانیف و تحقیقات کو مد نظر رکھتے ہوے بدعت کا مفہوم شرع و شریعت کی اصطلاح میں اس طرح سامنے آتا ہے کہ کسی ایسی چیز کو دین میں داخل کرنا کہ جو دین میں سے نہ ہو اس کو اور واضح کرنے کیلیے لغوی معنی کو بھی اگر سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ بدعت اس کو کہتے ہیں کہ کسی ایسی چیز کو دین میں داخل کرنا کہ جو  نہ خود دین میں موجود ہو اور نہ اس کی مثال و نظیر موجود ہو اس کے ساتھ ساتھ بعض علماء نے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ بدعت سنت کے مقابل کی ایک شے ہے اور ظاہر ہے کہ جو  شے مد مقابل ہوتی ہے اس کو خود اس  شے میں داخل نہیں کیا جا سکتا لہذا بدعت کبھی بھی کسی بھی حال میں سنت واقع نہیں ہوسکتی ۔ اس صاف و شفاف بدعت کی تعریف کو دیکھتے ہوئے تراویح کی حقیقت خود سامنے آ جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اہلسنت نے اس طرح کی بدعتوں کو شریعت کا لباس پنہانے کیلیے بدعت کی تقسیم حسنہ و قبیحہ سے کی ہے لیکن کیا واقعاً بدعت قابل تقسیم ہے ؟

کیا بدعت قابل تقسیم ہے ؟
بدعت باعتبار لغت ممکن ہے کہ تقسیم ہو جائے بلکہ انصافاً عقلاً بھی بدعت کی تقسیم ممکن ہے لیکن شرعاً ؟ جبکہ اصطلاح شریعت میں بدعت سنت کے مقابل ایک شے  ہے اور یہ جملہ کہ بدعت کو تقسیم کر کے بدعت حسنہ کو شریعت میں داخل کرنا غیر معقول ہے چونکہ بدعت حسنہ ہی کیوں نہ ہو لیکن سنت نہیں ہوسکتی اس مدعی پر محکم دلیل خود رسول اکرم کی وہ حدیث شریف ہے کہ جسکو اسلام کے تمام مکاتب فکر نے نقل کیا ہے کہ حضور کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی راہی جہنم کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ بدعت کی کسی بھی قسم کا سنت میں داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس حقیقت کے بہت سے علماء اہلسنت بھی معتقد ہیں جیسے علامہ کحلانی اپنی کتاب سبل السلام میں رقمطراز ہیں کہ عمر کا قول کہ یہ اچھی بدعت ہے ! جبکہ بدعت میں کوئی اچھائی نہیں پائی جاتی بلکہ ہر بدعت گمراہی ہے.....(24)
علامہ شاطبی کتاب الاعتصام میں لکھتے ہیں کہ بدعت کے سلسلے میں جتنی بھی احادیث پیغمبر اکرم(ص) سے منقول ہیں سب کی سب عام و مطلق ہیں اور لفظ کل کے ساتھ وارد ہوئی ہیں جیسے کل بدعۃ ضلالۃ تو اگر بدعت کو تفسیم بھی کیا جائے تو بھی اس کی ہر قسم ضلالت و گمراہی ہے لہذا بدعت کی کسی بھی قسم کو شریعت میں داخل نہیں کرسکتے اور پھر لکھتے ہیں کہ  بدعت، شارع مقدس اسلام کی ضد ہے بدعت کو اپنانا گویا شریعت کو ترک کرنا ہے اور جو اس مقام پر ہو اس کی حسن و قبح اور اچھی و بری سے تقسیم محال و ناممکن ہے.....(25)
ابن رجب حنبلی تحریر کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) کا  ارشاد گرامی کل بدعۃ ضلالۃ ، بدعت کی تمام اقسام کو شامل ہے چونکہ اس میں کسی چیز کو استثنا اور جدا نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ قول جوامع حکم میں سے ہے کہ جس سے کوئی چیز خارج و علیحدہ نہیں ہوتی اور یہ ایک اصل عظیم ہے کہ جسمیں احکام و افعال دین کو تولا جا سکتا ہے کہ ہر وہ چیز یہ جو بدعت ہے دین نہیں ہے بلکہ گمراہی و ضلالت ہے .....(26)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علماء اہل حل و عقد ہیں کہ جو یا تو اصلا تقسیم بدعت کے قائل نہیں ہیں یا تقسیم کے ساتھ بدعت کی ہر قسم کو گمراہی و ضلالت مانتے ہیں۔یہی بات معقول و قرین قیاس بھی نظر آتی ہے اس لئے کہ :

اولاً : یہ قاعدہ کلی و اصلی عملی ہے کہ جو چیز شریعت میں بار بار بیان کی جائے مختلف حالات و زمان میں تکرار ہوتی رہے اور ہمیشہ عام و مطلق بیان ہو، کسی چیز کو کسی بھی وقت جدا و علیحدہ نہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شی اپنے اجزاء و اقسام کے ساتھ منظور ہے یہی حال بدعت کا ہے کہ مختلف اوقات و حالات میں متعدد مرتبہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا کل بدعۃ ضلالۃ اور کسی مرتبہ بھی تخصیص و تقیید نہ کی تو مقصد یہ ہوا کہ ہر بدعت گمراھی و ضلالت ہے ۔
ثانیاً: بدعت کو اگر حسنہ اور اچھا تسلیم کر کے دین میں داخل کر لیا جائے تو دین کو ناقص ماننا لازم آئے گا اسلئے کہ آیۃ اکمال(الیوم اکملت لکم دینکم) کی مخالفت ہو گی کہ جو کفر ہے ۔

ثالثاً: بدعت کو اگر حسنہ مان کر دین میں داخل کر لیں تو دین بازیچہ بن کر رہ جائے گا اور کوئی بھی اپنی خواہش نفس کے مطابق کسی بھی چیز کو بدعت حسنہ کہہ کر دین میں داخل کرسکتا ہے ۔

رابعاً: اگر کسی چیز کو بدعت حسنہ کہہ کر دین میں داخل کیا جا سکتا ہے تو کسی بھی چیز کو اسی نام سے خارج بھی کیا جا سکتا ہے اسلئے کہ جب بڑھانے میں کوئی حرج نہیں تو کم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہو گا اور پھر دین کا کیا حشر ہو گا یہ خدا بہتر جانتا ہے ۔

خامساً: اگر بدعت کی تقسیم کو قبول بھی کر لیا جائے تو بھی کس میزان پر پرکھا جائے کہ یہ حسنہ ہے اور یہ قبیحہ ہے کس پیمانے سے ناپا جائے اور کس ترازو میں تولا جائے ، بدعت حسنہ کو بدعت قبیحہ سے کیسے مشخص کیا جائے ؟؟؟

اس میں بدعت کون سی چیز ہے ؟
البتہ ایک سادہ لوح انسان کے لیے یہ سوال پیش آسکتا ہے کہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں مذہب شیعہ میں بھی موجود ہیں اور مذہب اہلسنت میں بھی، نافلہ نمازوں کو اسلام کے تمام فرقوں میں شرعی حیثیت حاصل ہے یہ پہلے بھی مستحب تھیں اور آج بھی مستحب ہیں تو پھر بدعت کون سی چیز ہے ؟
جواب،گزشتہ مطالب کو بغور مطالعہ کرنے سے واضح ہو جائے گا کہ نماز نافلہ پڑھنے والوں کو ایک خاص کیفیت کے ساتھ ایک شخص کے پیچھے جماعت کا حکم دینا اور ان کا اس نماز کو جماعت سے پڑھنا بدعت ہے ، ورنہ واقعاً اس حادثہ سے پہلے بھی یہ لوگ نافلہ پڑھتے تھے جس شب عمر نے جماعت کا حکم دیا اس شب بھی نافلہ ہی پڑھ رہے تھے لیکن اگلی شب جب سب کو نماز نافلۂ ماہ رمضان جماعت سے پڑھتے دیکھا تو کہا نعمت البدعۃ ھذہ ، یعنی نافلہ نمازوں کا جماعت سے پڑھنا بدعت ہے ۔ اسی کا علماء اہلسنت نے بھی اعتراف کیا ہے لہذا علامہ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں اس کا نام عمر نے بدعت اس لیے رکھا چونکہ رسول اکرم(ص) نے اس نماز کو جماعت سے انجام دینے کیلیے بیان نہیں فرمایا تھا اور نہ ہی یہ جماعت ابوبکر کے زمانے میں تھی.....(27)
ابن قدامہ کا بیان ہے کہ نماز تراویح عمر ابن خطاب سے اسلیے منسوب ہے کہ عمر نے لوگوں کو ابی بن کعب کے ساتھ سے پڑھنے کا حکم دیا.....(28)
علامہ عینی رقمطراز ہیں عمر نے اس کو بدعت اسلیے کہا کہ چونکہ رسول اکرم(ص) نے اس جماعت کو سنت قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی یہ ابوبکر کے زمانے میں تھی.....(29)
کحلانی لکھتے ہیں یہ عمر ہی ہیں جنہوں نے نافلہ ماہ رمضان کو جماعت سے قرار دیا اور اس کا نام بدعت رکھا.....(30)

(نماز تراویح اور پیغمبر اکرم(ص
خداوند کریم تمام مسلمانوں سے ببانگ دہل ارشاد فرما رہا ہے کہ میرا رسول تم لوگوں کیلیے اسوۂ حسنہ ہے اور تمہاری زندگی کیلیے بہترین نمونہ ہے لہذا یہ اپنا شیوا بنا لو کہ جو میرا حبیب دے اسے بے جھجک لے لو اور جس سے روکے اس سے بے چون و چرا رک جاؤ ( مااتاکم الرسول فخذواہ ومانھاکم عنہ فانتھوا) اسی عقیدے کو سامنے رکھتے ہوے مسلمانوں کو قدم بڑھانا ہے اور ہر مسئلے کی شرعی حیثیت دیکھنے کیلیے یہ ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا کہ یہ فعل حضور انور نے انجام دیا یا نہیں ؟ اگر چہ اس مطلب کے صاف و شفاف ہونے کے بعد کہ نماز تراویح کی ایجاد عمر کے زمانے سے ہوئی یہ بحث کرنا ہی عبث و بے فائدہ ہے کہ رسول اکرم(ص) نے نماز تراویح پڑھی یا نہیں ؟ جبکہ قول عمر کہ تراویح بدعت ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ فعل اس سے پہلے کسی نے انجام نہیں دیا چونکہ معنی بدعت ہی یہ ہیں کہ جو پہلے سے وجود نہ رکھتا ہو لہذا خود علماء اہل تسنن نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے کبھی نماز تراویح کو انجام نہیں دیا ہاں بلکہ وہ نافلۂ ماہ رمضان بجا لاتے تھے ۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نافلہ ماہ رمضان کی فضیلت میں حدیث ہے کہ جو شخص خلوص و ایمان کے ساتھ نافلہ ماہ رمضان انجام دے گا خداوند اس کے تمام گزشتہ گناہوں کو بخش دے گا اس کے بعد ابن شہاب کا بیان ہے نافلہ ماہ رمضان عصر پیغمبر اکرم(ص) میں انجام دی جاتی تھیں خلافت ابوبکر میں بھی باقی رہیں اور خلافت عمر کے ابتدائی زمانے تک انجام دی گئیں لیکن پھر عمر نے تراویح کی بدعت ڈالی لہذا نافلہ ختم تراویح شروع ہو گئی.....(31)
چونکہ ہمارا مبنی بھی عدل و انصاف پر ہے اور تعصب سے کام لینا ہمارا ہدف نہیں ہے یہی ہم قارئین سے بھی چاہتے ہیں لہٰذا وہ روایات بھی نقل کیے دے رہے ہیں کہ جن سے اہل تسنن اپنے مدعی پر استدلال کرتے ہیں اگرچہ قارئین کو عدل و انصاف کا بھر پور حق حاصل ہے ۔
شیعہ کتب کی روایت: زرارہ محمد بن مسلم اور فضیل نے امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھماالسلام سے ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو جماعت سے پڑھنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا بیشک پیغمبر اسلام(ص) ماہ رمضان نماز عشاء انجام دینے کے بعد اپنے بیت الشرف تشریف لے آتے تھے اور پھر آخر شب مسجد میں تشریف لے جا کر قیام فرماتے اور نماز نافلہ انجام دیتے کہ ایک مرتبہ لوگ ان کے پیچھے جمع ہو گئے آپ لوگوں کو اسی حال میں چھوڑ کر اپنے گھر واپس چلے گئے یہ سلسلہ تین شبوں تک جاری رہا پھر آپ تیسرے دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور حمد و ثناء الٰہی کے بعد ارشاد فرمایا اے لوگوں نافلہ ماہ مبارک رمضان جماعت کے ساتھ بدعت ہے اور نماز ضحی بدعت ہے ، آگاہ ہو جاؤ نافلہ ماہ رمضان جماعت سے انجام نہ دینا اور نہ ہی نماز ضحی پڑھنا اسلیے کہ یہ گناہ و معصیت ہے ، آگاہ ہو جاؤ کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کی راہ جہنم ہے ، پھر منبر سے نزول فرماتے ہوئے یہ کلمے زبان زد تھے تھوڑی سی سنت بہت زیادہ بدعت سے بہتر ہے.....(32)
یہ روایت چند اعتبار سے دیگر روایات سے مقدم ہے اول یہ کہ اس کو اکثر علماء شیعہ نے بیان کیا ہے مثلاً شیخ صدوق نے الفقیہ من لا یحضرہ الفقیہ میں شیخ طوسی نے تھذیب الاحکام و الاستبصار میں اور شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں، دوم یہ کہ دیگر روایات میں ایک شب کا ذکر ہے یا دو شبوں کا لیکن اسمیں تین شب مذکور ہیں البتہ تین شب سے زیادہ کسی بھی روایت میں یہ فعل نظر نہیں آتا خواہ روایت اہل تسنن ہو یا روایت شیعہ، بہر حال اس روایت میں رسول اکرم کی اقتداء میں نماز نافلہ پڑھنا پایا جاتا ہے لیکن رضایت رسول اکرم(ص) نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آپ ان کو چھوڑ کر گھر تشریف لے گئے اور آخر کار تیسرے روز منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ان کو اس کام سے زجر و منع فرمایا ، نتیجۃً اس طرح کی روایت سے کسی بھی عقل سلیم میں تراویح کا جماعت سے جائز ہونا ثابت نہیں ہو سکتا۔
روایت اہل تسنن: یحی بن بکیر کا بیان ہے کہ ہم سے لیث نے عقیل سے اور عقیل نے شھاب سے روایت کی ہے کہ مجھکو عروۃ نے خبر دی اور اس کو عائشہ نے بتایا کہ رسول اکرم نصف شب بیت الشرف سے باہر آئے اور مسجد میں تشریف لے جا کر نماز پڑھی لوگوں نے آپ کی اقتداء کی، صبح نمودار ہوئی لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا اگلے روز اور زیادہ افراد ہو گئے ، صبح ہوئی پھر ایک دوسرے کو اطلاع دی گئی اور اس شب گزشتہ شبوں سے بھی زیادہ اژدحام ہوا تب رسول اکرم نے صبح کو نماز فجر کے بعد فرمایا آپ کے ذوق و شوق سے مجھے خوف نہیں ہے بلکہ مجھکو خوف اس بات کا ہے کہ کہیں آپ پر یہ واجب نہ ہو جائے اور پھر تم اس کو انجام نہ دے سکو، رسول اکرم کی وفات واقع ہو گئی اور نماز نافلہ فردی ہی انجام دی جاتی رہی.....(33)
اس روایت میں چند چیز قابل تامل ہیں۔
اول : کیا کسی مستحب فعل کا مسلسل انجام دینا اس کے واجب ہونے کا سبب ہوسکتا ہے جبکہ واضح ہے کہ احکام الھی (وجوب و حرمت استحباب و کراہت و اباحہ) سب کے سب مشیت الہی و مصالحہ ومفاسدہ کے تابع ہیں نہ کہ مسلسل و مرتب انجام دینے کے نیز اگر کوئی شے مسلسل و مرتب انجام دینے کی وجہ سے واجب ہو تو خداوند علیم کا جاہل ہو نا لازم آئے گا چونکہ مطلب یہ ہو گا کہ خداوند پہلے سے اس کام کی مصلحت سے واقف نہ تھا بلکہ لوگوں کے ذوق وشوق کو دیکھکر اس فعل کو واجب قرار دیا۔ نعوذ باللہ من ذالک
دوم : اگر کسی نماز کو مرتب و مسلسل جماعت سے انجام دینا اس جماعت کے واجب ہونے کا سبب ہے تو پھر یہ جماعت یومیہ نمازوں میں کیوں واجب نہ ہوئی جبکہ یومیہ نمازیں پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے ہی سے جماعت سے مسلسل و مرتب انجام دی جاتی ہیں یا پھر اس وجوب کے خوف میں رسول مکرم(ص) کو یومیہ نمازوں کی جماعت سے بھی منع کرنا چاہیے تھا تاکہ کہیں جماعت واجب نہ ہو جائے ۔
سوم : رسول مکرم اسلام(ص) کو کس چیز کا خوف تھا آیا نماز نافلہ کے واجب ہونے کا یا جماعت کے واجب ہونے کا جبکہ متعدد نافلہ و مستحبی نمازیں جماعت سے پڑھی جاتی ہیں جیسے نماز عید نماز استسقاء وغیرہ اور متعدد واجب نمازوں میں جماعت مستحب ہے جیسے نماز یومیہ آپ نے کسی کیلیے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی واجب ہونے کا خوف کیا۔
چہارم : اس روایت میں اجازت حضور اکرم تو کہاں رضایت آنحضرت بھی نظر نہیں آتی۔ لہٰذا واضح ہے کہ اگر یہ روایت سندا و متنا ًصحیح ہو تو اس خوف و نہی سے مراد وہی ہے کہ جو ہمارا مقصود ہے یعنی تراویح بدعت ہے رسول مکرم اسلام نے اس سے منع فرمایا ہے اور اسطرح کی بدعتوں کو اختیار کرنا اتباع رسول نہیں ہے جبکہ خداوند عالم قرآن کریم میں صاف صاف الفاظ میں ارشاد فرما رہا ہے وما اتآکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا لہٰذا اب رسول اکرم کے نہی و منع کرنے کے باوجود بھی مسلمانوں کا نماز تراویح کے سلسلے میں کیوں مصر ہیں ہر صاحب عقل کے سامنے علامت سوال بنا ہوا ہے ۔

نماز تراویح اور اہلبیت علیھم السلام
اہل بیت علیھم السلام ملجئ مسلمین ہیں اور ان کا ہر عمل مسلمین کیلیے قابل اتباع و پیروی ہے چونکہ پیغمبر اکرم اپنے بعد انہیں کو نمونہ عمل اور جائے تمسک قرار دیکر گیے ہیں لہٰذا حدیث ثقلین میں ارشاد فرماتے ہیں (انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی حتی یردا علی الحوض).....(34)
 گویا اہلبیت علیھم السلام کے دامن سے متمسک ھونے میں نجات یقینی ہے لہٰذا ان کا ہر عمل حجت ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اہل بیت علیھم السلام نے نماز تراویح انجام دی یا نہیں ؟
اہلبیت کی اولین فرد حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ہے کہ جن کی طرف سے نماز تراویح کے متعلق انکار ہی انکار ملتا ہے خواہ زمانۂ خلافت ہو یا اس کے علاوہ کہیں بھی کسی بھی عالم میں آپ نے نماز تراویح انجام نہیں دی اور کیسے انجام دیتے جبکہ رسول اکرم اس کو بدعت و گمراہی بتا گئے ہیں۔ لہٰذا جب آپ دوران خلافت کوفہ تشریف لائے اور کوفہ میں ماہ رمضان آیا لوگ آپ کے پاس تشریف لائے اور نماز تراویح کیلیے کسی امام کی تعین کیلیے عرض کی آپ نے انکار کیا اور ان کو جماعت سے منع فرمایا لیکن جب لوگوں نے اصرار کے باوجود امیر المؤمنین کو نماز تراویح سے راضی نہ پایا تو وا رمضانا وا رمضانا کہہ کر گڑگڑانے اور چلانے لگے حارث الاعور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا مولا لوگوں کو آپ کا فرمان ناگوار گزر رہا ہے تب آپ نے فرمایا ان کو چھوڑ دو جس کے ساتھ نماز پڑھنا چاہیں پڑھیں اور پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی جو لوگ مؤمنین کے راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں تو ہم بھی ان کو انہی کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جائیں جہنم میں کہ جو بہت برا راستہ ہے .....(35)
یہ روایت امیر المؤمنین کے مقصد کی عکاسی کر رہی ہے کہ نماز تراویح بدعت ہے بدعتوں پر عمل کرنا جہنم کے راستے پر گامزن ہونا ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام کو حکم دیا کہ اہل کوفہ کو نماز تراویح کے سلسلے میں منع کریں کہ یہ بدعت ہے اس کو انجام نہ دیا جائے امام حسن نے منبر کوفہ پر جاکر اعلان فرمایا لوگوں کو ناگوار گزرا یہاں تک کہ چیخنے گڑگڑانے لگے واعمراہ واعمراہ غیرت بدعۃ عمر کہتے ہوئے مسجد سے نکل گئے امام حسن نے واپس آ کر ماجراہ والد ماجد کی خدمت میں بیان کیا آپ نے فرمایا ان سے کہہ دو جس کے ساتھ پڑھنا چاہیں پڑھیں.....(36)
اگر چہ کچھ کج فہم افراد نے حضرت امیر  المؤمنین علیہ السلام کے اس طرح کے ارشادات سے نماز تراویح کے جواز میں سوء استفادہ کیا ہے جبکہ ہر عقل سلیم کیلیے نماز تراویح سے انکار واضح ہے ۔ ہاں ان روایات میں کجھ نرمی ضرور نظر آتی ہے جسکے بارے آپ نے ایک خطبہ میں نماز تراویح کے متعلق مکمل و مفصل نرمی کی وجہ بیان فرمائی ہے لہٰذا آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کو امر کیا کہ ماہ مبارک رمضان میں واجب نمازوں کے علاوہ جماعت نہ کریں اور ان کو سمجھایا کہ نافلہ نمازوں میں جماعت بدعت ہے تو میرے لشکر کے بعض سپاہیوں نے شور مچایا کہ اے اہل اسلام سنت عمر تبدیل ہو گئی اور ہم کو رمضان کی نافلہ نمازوں سے روکا جا رہا ہے (یہاں پر امیر المؤمنین نے مسلمانوں کی بے باکی، جرأت ، بے حیائی و جہالت پر گریہ کیا اور اپنی نرمی کی وجہ بیان فرمائی ) کہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں یہ لوگ میرے لشکر سے کنارہ کشی اختیار نہ کر لیں.....(37)
حضرت علی علیہ السلام کی طرح تمام آئمۂ اہلبیت علیھم السلام نماز تراویح کو بدعت جانتے ہیں لہٰذا نماز تراویح کی نفی میں حدیثی و فقہی شیعہ کتب روایات اہلبیت علیھم السلام سے مملوء ہیں اور اسی کا خود علماء اہل تسنن کو بھی اعتراف ہے لہٰذا علامہ شوکانی رقمطراز ہیں کہ عترت اطہار علیھم السلام کے نزدیک نماز تراویح یعنی نافلہ ماہ رمضان کو جماعت سے انجام دینا بدعت ہے.....(38)

نماز تراویح اور صحابہ کرام 
اگرچہ دین مقدس اسلام میں صحابہ کا عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحابی کے کسی فعل کو دلیل بنایا جا سکتا ہے مگر یہ کہ تقریر یا تائید معصوم موجود ہو اور پھر صحابی بھی ایک عام لفظ ہے کہ جو لاتعد ولا تحصی افراد پر صادق آتا ہے لیکن وہ صحابی کہ جو معروف و مشہور ہیں اور ان کے کارنامے تاریخ اسلام میں درج ہیں وہ بھی دو حصوں میں منقسم ہیں اسطرح کہ کچھ اصحاب تابع اہلبیت علیہم السلام ہیں اور نص کی موجودگی میں اظہار اجتہاد نہیں کرتے لہذ ا وہ مسئلہ تراویح میں بھی تابع ہیں اور جو راستہ اہلبیت علیہم السلام کا ہے وہی ان کا ہے جیسے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عماریاسر، مقداد وغیرہ اور کچھ وہ اصحاب ہیں کہ جو اپنے اجتہاد و رائے پر عمل کرتے ہیں ان میں سے بھی بزرگ اصحاب نماز تراویح کو بدعت و خلاف سنت مانتے ہوئے انجام نہیں دیتے جیسے عبداللہ ابن عمر وغیرہ لہٰذا علامہ عبدالرزاق نے اپنی عظیم کتاب المصنف میں تحریر کیا ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے کبھی نافلہ ماہ رمضان جماعت سے انجام نہیں دیں.....(39)

نماز تراویح اور شیخین
حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام کے موقف کی وضاحت کے بعد اور اس مسئلہ کی مکمل تحقیق و بررسی کے بعد کہ نماز تراویح بدعت و خلاف سنت ہے اور اس فعل کو نہ رسول اکرم نے انجام دیا نہ اہلبیت نے اور نہ ہی بزرگ صحابہ کرام نے اب مسئلہ یہ رھ جاتا ہے کہ آیا خود جناب ابوبکر و جناب عمر نے نماز تراویح انجام دی ہے یا نہیں ؟ چونکہ اہل تسنن مدعی ہیں کہ رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے کہ علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین.....(40)
 یا دوسری روایت اقتدوا باللذین بعدی.....(41)
 جواب یہ ہے کہ یہ دونوں روایتیں خود علماء اہل تسنن کے نزدیک جعلی و گھڑی ہوئی ہیں اور ضعف سند کو غض نظر کرتے ہوئے بھی اگر غور کیا جائے تو بھی رسول اکرم نے سنۃ الخلفاء الراشدین فرمایا ہے نہ کہ بدعۃ الخلفاء الراشدین جبکہ نماز تراویح کے بدعت ہونے کا خود جناب عمر کو بھی اعتراف ہے اور پھر صاحب سبل السلام اس روایت کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں کہ خلفاء راشدین کی سنت اس صورت میں قابل اقتداء ہے کہ چاروں خلفاء کسی ایک مسئلے پر متفق ہوں وگرنہ اگر اختلاف ہو تو قابل اقتداء نہیں ہیں جبکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ خلفاء راشدین میں سے حضرت علی علیہ السلام نے ہمیشہ نماز تراویح کی مخالفت کی ہے اور اس کو خلاف سنت قرار دیا ہے ۔
جناب ابوبکر کے سلسلے میں خود اہل تسنن کے مایۂ ناز علماء کتاب صحیح بخاری کے اس جملہ( فتوفی رسول اللہ والامر علی ذالک وفی خلافۃ ابی بکر و صدرا من خلافتۃ عمر).....(42)
 کے ذیل میں علامہ قسطلانی، علامہ عسقلانی، علامہ عینی و تمام شارحین بخاری و تمام ہی مؤرخین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عصر پیغمبر اکرم اور خلافت ابی بکر کے دوران نماز تراویح کا وجود نہ تھا بلکہ اس کو جناب عمر نے اپنی خلافت کے دوران سن 14 ہجری میں ایجاد کیا تو واضح ہے کہ جناب ابوبکر نے بھی نماز تراویح انجام نہیں دی ۔
جناب عمر کا تراویح پڑھنا شاید مسلمین کے لیے محکم دلیل قرار پائے لیکن افسوس کہ جناب عمر بھی کہیں پر نماز تراویح پڑھتے نظر نہیں آئے لہٰذا اہل تسنن کے عظیم محدث و فقیہ علامہ ابوطاہر بیان فرماتے ہیں کہ روایت عبدالرحمن بن عبدالقاری سے جو بات مسلم و ثابت ہے وہ یہ کہ نماز تراویح کی امامت ابی بن کعب انجام دیتے تھے اور عمر اپنے گھر میں نماز نافلہ پڑھتے تھے اسلیے کہ اگر جناب عمر نماز تراویح پڑھا کرتے تو حتماً و یقیناً خود ہی امام ہوتے.....(43)
 نیز شارح بخاری صاحب عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری جناب علامہ عینی اس جملہ کی شرح کرتے ہوئے خرجت معہ لیلۃ اخری ای عمر تحریر کرتے ہیں کہ یہ جملہ اس بات پر دلالت و اشعار ہے کہ عمر نماز تراویح انجام نہیں دیتے تھے اور وہ نافلہ نمازوں کو گھر میں خصوصاً آخر شب میں انجام دینا بہتر جانتے تھے.....(44)
بہر حال ہم اسلام کی بزرگ و عظیم ہستیوں کا ذکر چکے ہیں کہ کسی نے بھی نماز تراویح کو انجام نہیں دیا تو اب مسلمانوں پر کیا دلیل ہے ؟ مذکورہ بالا دو روایتوں کا حال بھی مشخص ہے کہ ضعف سند و دلالت کے بعد بھی اہل تسنن کے عظیم علماء اسطرح کی اقتداء کے منکر ہیں اور ان کو حجت نہیں مانتے لہٰذا امام ابوحامد غزالی کہ عارف فقیہ محدث مؤرخ بلکہ تمام علوم و فنون میں متبحر ہیں اپنی کتاب المستصفی میں تحریر کرتے ہیں کہ اصول موہومہ میں سے دوسری اصل قول صحابی ہے کہ کچھ لوگ قائل ہیں کہ مذہب صحابی مطلقاً حجت ہے اور بعض کا نظریہ ہے کہ قول صحابی اگر مخالف قیاس ہو تو حجت ہے ، ایک قوم معتقد ہے کہ قول ابوبکر و عمر حجت ہے چونکہ حدیث رسول ہے اقتدوا بالذین بعدی ابابکر و عمر اور کچھ افراد قائل ہیں کہ قول خلفاء راشدین حجت ہے اگر کسی قول پر یہ خلفاء متفق ہوں ، والکل عندنا باطل جبکہ یہ تمام نظریے ہمارے نزدیک باطل ہیں اس لیے کہ جو شخص غلط و سھو کا مرتکب ہوسکتا ہو اور اس کی عصمت ثابت نہ ہو اس کا کوئی فعل و عمل حجت نہیں ہے اور ایسے افراد کے قول کو کیسے دلیل بنایا جا سکتا ہے کہ جو خود جائزالخطاء ہیں.....(45)

نتیجۂ گفتگو
گزشتہ تلاش و جستجو اور تحقیق کے بعد یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ نماز تراویح ایک ایسی بدعت ہے کہ جسکو خود بانیِ بدعت نے بدعت قرار دیا اور آج تک تمام ہی مسلمان اس کو بدعت تسیلیم کرتے ہیں نیز یہ وہ فعل ہے کہ جسکو نہ رسول مکرم اسلام نے انجام دیا اور نہ اہلبیت اطہار نے نہ ہی معزز صحابہ نے اور نہ ہی محترم خلفاء نے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسلمان کس کی اقتداء کر رہے ہیں ؟ اور کس کے نقش قدم پر زندگی گزار رہے ہیں ؟
 بہر حال ہمیں امید ہے کہ اس پوسٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد مسلمان راہ حق پر آ جائیں گے اور پھر وہی عبادت انجام دیں گے کہ جو محل نزول وحی الہی کے توسط سے ہم تک پہونچی ہیں اور یہ اتحاد بین المسلیمن کا بھی بہترین ذریعہ قرار پائے گا۔

خداوند کریم کے حضور ملتمس ہوں کہ تمام ہی مسلمانان عالم کی عبادتوں کو  قبولیت سے نوازے اور حقیر کو بھی خدمت گزاران مؤمنین و شیعیان میں سے قرار دے ۔ آمین یا رب العالمین .

No comments:

Post a Comment