Sunday, 29 June 2014

حضرت امام مہدی عَجَّلَ اللہُ فَرَجَہ



حضرت امام مہدی ؑ کے ظاہر ہونے کی خوش خبری جو حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد میں سے ہیں اور جو آخری زمانے میں جب روئے زمین پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک ظلم و ستم کی کثرت ہوجائے گی تو وہ اس میں عدل و انصاف رائج کریں گے۔ آنحضرت ﷺ سے بہت سی متواتر روایات کے ذریعے سے منقول ہے مسلمانوں کے تمام فرقوں نے اپنے اپنے اختلاف کے باوجود یہ روایتیں لکھی ہیں اور انہیں مستند مانتے ہیں۔
حضرت امام مہدی آخرالزمان ؑ کے ظہور سے متعلق عقیدہ صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے ۔
(نوٹ، تفصیلات کے لیے دیکھیے انتظار امام مولفہ آیت اللہ محمد باقر صدر ، مطبوعہ جامعہ تعلیمات اسلامی )
کہ وہ جو یہ عقیدہ قائم کرکے ظالموں اور ستمگروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو یہ تسلی دینا چاہیں اور اپنا دل خوش کرنا چاہیں کہ امام مہدی ؑ ظہور فرمائیں گے اور روئے زمین کو ظلم سے پاک کردیں گے جیسا کچھ گمراہ کرنے والوں نے ناانصافی سے کام لیتے ہوئے اس عقیدے کو اسی سبب سے شیعوں سے مخصوص کر دیا ہے۔
اگر ظہور مہدی ؑ کا عقیدہ پیغمبر اسلام ﷺ سے منقول نہ ہوتا، مسلمانوں کے تمام فرقے اسے مستند نہ جانتے اور اس کی تردید کرتے تو مہدویت کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا وہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں کیسانیوں اور کچھ عباسیوں اور علویوں وغیرہ کی طرح مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے، اس کے ذریعے سے لوگوں کو دھوکا دیتے اور اس عام عقیدے سے حکومت اور سلطنت حاصل کرنے میں فائدہ اٹھاتے، ان لوگوں نے یہ غلط دعویٰ کرکےیہ چاہا کہ اس اسلامی عقیدے (ظہور امام مہدی ؑ کا عقیدہ جو تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلم ہے) کو عوام کے خیالات پر اثر ڈالنے اور ان پر اپنا غلبہ قائم کرنے کا ذریعہ بنالیں، اگر یہ عقیدہ صرف شیعوں کا ہوتا تو مہدویت کا دعویٰ کرنے والے اس خصوصی عقیدے سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے تھے۔
ہم شیعہ دین اسلام کو سچا سمجھتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام خدا کا آخؒری دین ہے اور ہم انسانی بھلائی کے لیے کسی دوسرے دین کے منتظر نہیں ہیں، اس کے باوجود ایک طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ظلم اور تباہی ہر جگہ اس طرح مسلط ہے کہ آئندہ انصاف اور اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے، یہاں تک کہ خود مسلمان اسلام کے قانون سے کنارہ کش ہوگئے ہیں اور انہوں نے تمام اسلامی ملکوں می اس کے احکام معطل کردیے ہیں اور اس کے ہزاروں اصولوں میں سے ایک اصول پر بھی عمل نہیں کرتے
جس کو کہتے ہیں مسلمان دوستوں اب وہ کہاں
دین حق اس دور میں ہے یوسف بے کارواں
(خوش قسمتی سے امت مسلمہ کو آج اسلامی فکر کے احیاء اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کے لیے امام خمینی کی صورت میں ایک عزیمت پیکر رہبر میسر آگیا ہے ، جس نے طاغوتی فضا میں لاَ شَرقِیَّہ وَلاَ غَربِیَّہ کا قرآنی نعرہ بلند کرکے عالم اسلام کو صحیح معنوں میں آزاد اور خود مختار اسلامی حکومت قائم کرنے کی راہ دکھلا دی ہے جہاں اسلامی قوانین اور اصولوں کا نفاذ شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، ناشر)
ہم جب یہ عقیدہ رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ اسلامی ملکوں کی حالت خراب ہوچکی ہے اور اصلاح کرنے والے کا ظہور لازمی اور ضروری سمجھتے ہوئے اس کا انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ اسلام کو اس کی قوت اور بزرگی واپس دلائے اور ظلم اور خرابی کے گڑھے میں دھنسی ہوئی اس دنیا کو بچالے۔
دوسری طرف یہ خیال ہے کہ آج کے مسلمان اختلافات، گمراہیوں ، بدعتوں اور اسلامی قوانین کی تبدیلیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے اور پچھلے مسلمانوں کے درمیان میں غلط اور فضول قسم کے دعوے بھی ظاہرہوچکے ہیں لہذا ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے کہ دین اسلام اپنی قوت اور عظمت دوبارہ حاصل کرلے۔
ان حالات میں صرف ایک شخص اسلام کی قابل دید عظمت کو تازہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے، اس عظیم المرتبت مصلح کا ظہور جو مسلمانوں کو متحد کر دے گا اور خدا کے لطف کی بدولت اسلام کی پیشانی سے تبدیلیوں ، بدعتوں اور گمراہیوں کے داغ دھو دے گا ، صرف ایک رہنما ایسے انقلاب کی طاقت رکھتا ہے۔ جو ہر طرح کی ہدایت پائے ہوئے ہو اور ایک عظیم سرداری اور غیر معمولی قدرت اور عظمت کا مالک ہو تاکہ جب پوری زمین ظلم سے بھر جائے تو اس میں عدل اور انصاف قائم کرے۔
مختصر یہ ہے کہ دنیا میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک خرابی ، تباہی اور ظلم کا پھیل جانا اس عقیدے کے ساتھ اسلام سچا اور آخری مذہب ہے فطری طور پر ایسے بزرگ مصلح (امام مہدی منتظر ؑ) کی آمد کا تقاضا کرتا ہے جو اپنے طاقت ور ارادے سے دنیا کو تباہیوں اور گمراہیوں سے بچالے۔
اس لیے تمام اسلامی فرقے بلکہ غیر مسلم قومیں بھی اس حقیقی نکتے پر ایمان رکھتی ہیں، اثنا عشری شیعوں کے اعتقاد کے مطابق بس اتنا سا فرق ہے کہ وہ اصلاح اور ہدایت کرنے والا ایک خاص فرد ہے جس نے ۲۵۵ ہجری میں اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی اور جو ابھی تک زندہ ہے، وہ امام حسن عسکری ؑ کے بیٹے ہیں اور ان کا نام ""محمدؑ"" ہے۔
حضرت پیغمبر خدا ﷺ اور ان کے خاندان والوں نے ان کی پیدائش اور ظہور کی جو خبر دی ہے وہ ہم تک بہت سی متواتر اور قطعی روایتوں کے ذریعے سے پہنچی ہے زمی پر امامت کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا اور ایک امام دنیا میں ضرور موجود رہتا ہے چاہے وہ نظروں سے اوجھل ہی ہو تاکہ وہ اس دن جو خدا نے مقرر کر دیا ہے اور جو خدا کے بھیدوں میں سے ہے اور جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، ظاہر ہوکر سچائی کا پرچم بلند کرے۔
بے شک یہ بات واضح ہے کہ اتنی لمبی مدت تک امام مہدی ؑ کی زندگی ایک معجزہ (غیر معمولی اور غیر عادی واقعہ) ہے لیکن یہ اس سے زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ آپ پانچ سال کی عمر میں جس روز آپ کے پدر بزگوار جنت کو سدھارے امام ہوگئے اور یہ واقعہ حضرت عسیٰ ؑ کے معجزے سے بھی بڑھ کر نہیں ہے۔جنہوں نے شیر خواری کے سن میں ہی اپنے جھولے می باتیں کیں اور اسی دوران میں نبوت کے منصب پر فائز ہوگئے۔
(نوٹ ، فَاَشَارَت اِلَیہِ قَالُوا کَیفَ نُکَلِّمُ مَن کَانَ فِی المَھدِ صَبِیّاً ، سورہ مریم آیت ۲۹)
علم طلب کی رو سے ایسی زندگی ناممکن نہیں ہے جو فطری عمر سے زیادہ ہو یا اسے عمر سے زیادہ ہو جو فطری سمجھی جاتی ہے، اس وقت کی صورت حالات یہ ہے کہ علم طب ابھی تک لمبی عمر پانے کے کسی طریقے یا لمبی عمر بخشنے والی کسی دوا کی تحقیق یا انکشاف میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے بہر حال اگر علم طب اس سے عاجز ہے تو خدا تو ہر شے پر قدرت رکھنا ہے اور خدا کے فرمانے کے مطابق کچھ لوگ حضر نوح ؑ (وَلَقَد اَرسَلنَا نوُحاً اِلیٰ قَومِہِ فَلَبِثَ فِیھِم اَلفَ سَنَۃٍ اِلاَّ خَمسِینں عَامَا ۔ سورہ عنکبوت ۔ آیت ۱۴ ) اور حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح بھی گزرے ہیں جنہوں نے عام فطری عمر سے زیادہ زندگی پائی اور جو قرآن کو ماننے والا مسلمان اس کے متعلق شک کرے یا اسے نہ مانے تو اسے چاہیے کہ وہ اسلام کو خیر باد کہہ دے ۔ بڑا تعجب ہوتا ہے جب کوئی قرآن کو ماننے والا مسلمان یہ سوال کر دیتا ہے کہ کیا زندگی طبیعی عمر سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے؟
یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری ہے کہ اصلاح کرنےوالے اور نجات دہندہ (مہدی ؑ ) کے انتظار کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور جو کچھ پر واجب ہے مثلاً حق کی حمایت ، خدا کے لیے جہاد ، تبلیغ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ ، اسے اسی امید پر چھوڑ دیں کہ امام مہدی ؑ آئیں گے اور کام سنوار دیں گے بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے تاکہ اسلام کی طرف سے اس کو جو فرض سونپا گیا ہے اسے ادا کرے، دین کا تعارف کرانے کے لیے ٹھیک طرح سے کوشش کرے اور جہاں تک ہوسکے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرے جیسا کہ پیغمبر خدا ﷺ نےفرمایا ہے۔
کُلُّکُم رَاعٍ وَکُلُّکُم مَسُولٌ عَن رَعِیَّتِہِ :۔ تم سب لوگ ایک دوسرے کے رہبر اور (ایک دوسرے کو اصلاح کے ) ذمے دار ہو۔ (نہج الفصاحتہ ، حدیث ۲۱۶۳)
اس بناپر کسی مسلمان کے لیے نہ مناسب نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے مصلح کے انتظار میں اپنے مسلم اور قطعی کاموں سے ہاتھ اٹھالے ، کیونکہ کسی مصلح کے متعلق عقیدہ کھنے سے نہ فرض ساقط ہوتا ہے اور نہ اپنی کوششوں میں سستی کرنا چاہیے کیا غفلت ، لاپروائی اور بے توجہی برتنے والا بے چروا ہے کے جانوروں کی طرح نہیں ہوتا؟

نام کتاب: مکتب تشیع
مصنف: محمد رضا مظفر

No comments:

Post a Comment