Tuesday, 29 September 2015

-- ** نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ کی بشریت کا مسئلہ** ----------

معاشرے میں ایسے بہت سے مسایل ہیں جو سرے سے ایشو ہی نہیں تہے لیکن زبردستی انہیں ایشو بنادیا گیا ہے.. انہی مسائل میں سے ایک مسالہ بشریت نبی کا ہے. جسے بعض خطباء و ذاکرین کی جانب سے خوب اچہال گیا ہے
اللہ قران میں نبی اکرم .ص. اور دیگر تمام انبیاء کو بشر کہتا ہے مگر ہمارا علامہ انہیں بشر ماننے سے انکاری ہے.
یوں اس وجہ سے بعض ایمہ کی ولادت تک کا انکار کر بیٹہتے ہین
جناب ادم و حوا علیہما السلام ماں باپ سے پیدا نہی ہویے. پہر بہی ابو البشر ہیں
اور ہمارے نبی انہی کی پاک ذریت میں سے ایک عظیم ہستی ہیں. لیکن انکی بشریت کا انکار کیا جاتا ہے این چہ بوالعجبی است ؟ 
جناب عیسی علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہویے. اللہ انہیں سورہ مریم میں "عبد و رسول " قرار دیتا ہے. اور کہتا ہے کہ وہ اور انکی ماں کہانا کہاتے اار بازاروں میں چلتے تہے.. یعنی بشر تہے..
پتہ نہی بعض لوگوں کو واہ واہ اور بانیان مجلس کو خوش کرنے کیلیے کیوں نبی کریم .ص. کی بشریت کا انکار کرنا پڑتا ہے.
یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اولین و اخرین میں افضل ترین بشر ہیں. اپکی بشریت پر قران و روایات سے مضبوط و مستحکم دلایل موجود ہیں.
(قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی - الكهف 110 ) 
یعنی " بتادیجیے کہ میں بہی تم جیسا ایک بشر ہوں بس فرق یہ ہے کہ مجہ پر وحی کی جاتی ہے
اور یہی وہ عظیم فرق ہے جو انبیاء کو دیگر پر امتیاز عطا کرتا ہے.
اسے علم منطق میں " فصل " کہتے ہیں جو کسی ایک طبقے کو ایک نوع سے جدا کرے.
پس نوع بشر ہونے میں کویی فرق نہیں البتہ ان میں اور دیگر میں حد فاصل یہ ہے کہ انبیاء تابع وحی ہوتے ہیں. اور ایک طرف سے اگر وہ عالم بشریت سے متصل ہیں تو دوسری طرف وہ عالم ملکوت سے وابستہ ہیں
قران میں ایک اور جگہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا.
یہ کفار کہتے ہیں کہ
" کیا اللہ نے بشر کو رسول بناکر بہیجا ؟" مگر کیوں ؟ ( الكهف 95-94) 
پس ثابت ہوا کہ نبی کے بشر ہونے پر اعتراض کفار کی روش ہے
اس کے جواب میں اللہ عزوجل نے ارشاد کیا
" ان سے کہ دیجیے کہ اگر زمین پر فرشتے اطمینان سے چل پہر رہے ہوتے تو رسول بہی فرشتوں میں سے ہی اتا "
ایک اور ایت میں اللہ کا ارشاد ہے
( وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ - ابراهيم -4 )
ہم نے کسی رسول کو نہی بہیجا مگر اسکی اپنی قوم کی زبان میں "
پس قوم کا لفظ یہاں بتا رہا ہے کہ یہ انبیاء اس قوم کے شریف خاندانوں کے افراد میں سے ایک تہے. ہمیشہ قوم کے افراد میں سے ایک ممتاز فرد ہی نبی .رسول یا امام ہوتا ہے
لہذا جو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بشریت کے منکر ہیں بلکہ بعض تو اس موضوع پر عشرہ مجالس بہی پڑہ چکے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ قران کریم کا بنظر حقیقت مطالعہ کریں اور اہنی خود ساختہ نظریات سے باز اجاییں.
زیارات ایمہ میں بہی ہمیں یہی ملتا ہے جس میں کہا گیا ہے
" میں گواہی دیتا ہوں کہ اپ کا نور یعنی (وجود تکوینی) بلند صلبوں اور پاکیزہ ارحام میں رہا جنہیں نجاست نہ چہوسکی " 
پس 
سجده گذاروں کے صلبوں اور رحموں سے ہوتا ہوا یہ سسلہ جناب عبد المطلب.ع. تک پہنچا جہاں سے نور کا ایک حصہ صلب جناب عبد اللہ میں اور دوسرا حصہ صلب جناب ابو طالب.ع. میں منقسم ہوا.
یہی ایت کریمہ ( متقلبک فی الساجدین کا مفہوم حقیقی و مصداقی ہے ( الشعراء- 218- 219) 
نور کا مطلب یہاں سے ظاہری و باطنی روشنی ہے.
بلاشبہ جن صلبوں اور رحموں میں یہ حضرات رہے وہ پیشانیاں مثل روشن چاند کے چمکتی تہیں کیونکہ ان میں افضل ترین خلق خدا کا وجود پوشیدہ تہا
لیکن یہ بہی واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور انکی پاک ال والدین سے ہی پیدا ہویے .لہذا بشر ہین 
بیشک انکی ولادت کا قیاس عام ولادتوں پر نہیں کیا جاسکتا.
یہ ماں کی شکم میں گفتگو کرتے ہیں. پیدا ہوتے ہی خالق کا سجدہ کرتے ہیں اور اقرار شہادتین کرکے ثابت کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہی چاہتے .
پس بجپنے میں اغوش مادر میں دودہ پینا ' ہرن کے بچے کیلیے تڑپنا. .عید کے دن نیے لباس کا تقاضا کرنا یہ سب فطرت بشری کا حصہ ہیں
بیشک یہ انکی عظمت ہے کہ انکے لیے جنت سے خوان اتا تہا. رضوان جنت انکی بارگاہ میں تواضع کیساتہ حاضر ہوتا تہا 
کیونکہ جبرییل تا رضوان سب ملایکہ جانتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں انکی کتنی بلند عزت اور عظیم ترین درجہ و مرتبہ ہے. لذا جہاں ملکوت میں انکا مرتبہ اہل اسمان سے بلند ہے وہیں زمین پر یہ افضل الخلق ہیں
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ ہی ہے جسکا نہ کویی بیٹا نہ اولاد نہ بیوی نہ ہمسر ہے
اس کے علاوہ جتنے اس کے بندے ہیں سب کسی نہ کسی ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں. اور انبیاء بہی اس حکم میں صنف بشر میں داخل ہیں
تبہی تو وہ شادیاں کرتے ہیں. بچے پیدا کرتے ہیں. خوشی میں مسرت اور غمی میں روتے ہیں. کہاتے پیتے ہیں اور نظام تکوینی کے ان پر بہی وہی اثرات ہوتے ہیں جو دوسروں پر ہوتا ہے .مثلا بڑہاپا جوانی ضعیفی کمزوری صحت و بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں 
یہ سب امور انکے بشر ہونے پر دلیل ہیں 
انکی فضیلت خلق پر انکی عبادت و معرفت و تقوی و علم وحلم و کرم و سخاوت و عصمت اور اس عہدہ الہی کے سبب ہےجس کیلیے اللہ نے اپنے علم سے انہیں اس عظیم منصب کیلیے چنا ہے.
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں
کہ وہ ہمیں ان معصوم ہستیوں سے فیض حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے اور انکو ہمارا دنیا واخرت میں شفیع قرار دے 
اور ہمیں نفس امارہ کی پیروی سے بچایے. 
امین یارب العالمین

*** معاشرے کی ایک اہم برائی: اولاد میں عدم مساوات اور تعلیمات رسول عربی ***


ہمارے معاشرے میں نا انصافی بڑتھتی جا رہی ہے اور یہاں پر تقریبا ہر آدمی اپنی اپنی ذات اور اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے نا انصاف ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ نا انصافیاں گھروں میں بھی بہت ذیادہ شدت کے ساتھ سرایت کر چکی ہوئی ہیں۔ ایک ہی گھر میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ عدل و انصاف سے کام نہیں لیتے۔ کسی ایک بچے سے ذیادہ پیار کرتے ہیں (عموما لڑکوں سے) اور دوسرے بچے سے کم پیار کرتے ہیں اور اپنی اولاد میں ایک واضح فرق رکھتے ہیں۔ افسوس صد افسوس تو اس بات پر ہے کہ اس بیماری میں پڑھے لکھے اور جاہل دونوں طبقے ہی مبتلا ہیں۔

چنانچہ اسی اہم معاشرتی پہلو ہم آج ہم یہ مختصر سی پوسٹ آپ سب کے ساتھ شئیر کر رہے ہیں تا کہ اس غلط روش کا خاتمہ ہو سکے اور لوگوں کو سمجھایا جائے کہ بطور ایک والد یا والدہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں۔

اللہ کی ایک صفت عادل بھی ہے۔ یعنی اللہ بھی نا انصاف نہیں ہے اور اللہ لوگوں کو عدل کی تلقین کرتا ہے۔

إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ۔ ۔ ۔ ۔

"بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔"
(سورہ النحل، آیت 90)

اسی طرح رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

سووا بین اولادکم فی العطیہ

"اپنے بچوں میں ہدیہ دینے میں مساوات قائم کرو۔"
(نہج الفصاحتہ، صفحہ 519، طبع بیروت، مفاتیح الحیات، صفحہ 236)

ایک اور جگہ پر آپ (ص) فرماتے ہیں:

ان النبی ابصر رجلا لہ ولدین فقبل احد ھما و ترک الاخر فقال رسول اللہ فھلا واسیت بینھما۔

"رسول خدا نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے دو بچے تھے صرف ایک کا بوسہ لیتا تھا ، آپ (ص) نے اس سے فرمایا: اپنے بچوں کے درمیان عدالت اور مساوات قائم کرو۔"
(کتاب الجعفریات، صفحہ 55، طبع قم، مفاتیح الحیات، صفحہ 236)

اسی طرح آپ (ص) فرماتے ہیں:

اعدلوا بین اولادکم فی السر کما تحبون ان یعدلو بینکم فی البر و اللطف

"اپنے بچوں کے درمیان عدالت سے کام لو جس طرح تم پسند کرتے ہو کہ وہ تمھارے ساتھ نیکی اور لطف کرنے میں عدالت سے کام لیں۔"
(مکارم الاخلاق، صفحہ 218، طبع بیروت)

بیٹیوں سے متعلق رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

من دخل السوق فاشتری تحفتہ فحملھا الی عیالہ کان کحامل صدقہ الی قوم محاویج ولیبتدا بالاناث قبل الذکور فانہ من فرح انثی فکانما اعتق رقبتہ من ولد اسماعیل۔

"جو شخص بازار جاتا ہے اور تحفہ خرید کر لے آتا ہے اور وہ اپنے اہل و عیال کو دیتا ہے ایسا شخص درحقیقت فقیروں کے لئے صدقہ دے رہا ہوتا ہے۔ بچیوں کو بچوں پر مقدم رکھو کیونکہ جو شخص بیٹیوں کو خوشحال رکھتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے حضرت اسماعیل (ع) کی نسل سے ایک غلام آزاد کیا ہو۔"
(ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، صفحہ 210، طبع قم)

ایک اور مقام پر آپ (ص) نے فرمایا:

ولو کنت مفصلا احدا الفصلت الاناث

"اپنے بچوں کو ہدیہ دیتے وقت مساوات قائم کرو اگر چاہتے ہو کہ کسی کو ذیادہ ہدیہ دو تو پہلے بیٹیوں کو دو۔"
(الخلاف طوسی، جلد ۳، صفحہ 542، طبع قم)

عزیزان اگر آپ اپنے گھر میں ہی انصاف نہیں کریں گے اور اپنی اولاد کے ساتھ عدل نہیں کریں گے تو آپ کی اولاد ایک تو آپ سے بدظن ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ آپ ان کی نظر میں گر جائیں اور پھر وہ باہر کسی اور کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔

اسی طرح سے یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے بچے احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں اور بچوں میں ایک دوسرے کے خلاف حسد پیدا ہو جائے دل میں۔ اور جب آپ نے ان کی تربیت میں ہی عدل و انصاف نہیں رکھا تو پھر وہ دوسروں سے کیسے عدل و انصاف سے پیش آئیں گے ؟ اسی وجہ سے معاشرے میں پھر بے ایمان اور نا انصاف لوگوں کی کثرت ہو رہی ہے۔ لہذا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تربیت میں کمی کی وجہ سے ان کے دل میں بے ایمانی اور ملاوٹ آ جائے۔

ان سب باتوں کا شائد احساس ماں باپ کو نہ ہو لیکن یہ باتیں انتہائی گہرا اثر چھوڑتی ہیں بچوں پر۔ اسی وجہ سے رسول اللہ (ص) نے بھی آپ سب کو انصاف سے پیش آنے کی نصیحت کی ہے۔

اسلام کی آمد سے پہلے بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا تھا۔ اس نا انصافی کو رسول اللہ (ص) نے آ کر ختم کیا۔ لیکن بدقستمی سے ہندو کلچر کی وجہ سے ہمارے ہاں آج بھی جہالت چل رہی ہے۔ اس لئے اس جہالت کا خاتمہ کیجئے۔ تعلیمات اسلام پر عمل کیجئے۔ اپنے اوپر اسلام کا صرف لیبل ہی مت لگائیں۔

اسی طرح سے صحیفہ سجادیہ میں حضرت امام زین العابدین (ع) کی ایک دعا بھی ہے جو ماں باپ کو ضرور پڑھنی چاہئے اپنی اولاد کے حوالے سے۔

تقیہ کا مقصد کیا ھے؟

تقیہ ایک دفاعی ڈھال
یہ صحیح ھے کہ انسان کبھی بلند مقاصد، شرافت کے تحفظ اور حق کی تقویت اور باطل کے تزلزل کے لئے اپنی عزیز جان قربان کرسکتا ھے، لیکن کیا کوئی عاقل یہ کہہ سکتا ھے کہ انسان کے لئے بغیر کسی خاص مقصد کے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا جائز ھے ؟!
اسلام نے واضح طور پر اس بات کی اجازت دی ھے کہ اگر انسان کی جان، مال اور عزت خطرہ میں ھو اور حق کے اظھار سے کوئی خاص فائدہ نہ ھو، تو وقتی طور پر اظھار حق نہ کرے بلکہ مخفی طریقہ سے اپنی ذمہ داری کو پورا کرتا رھے، جیسا کہ قرآن مجید کے سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۲۸ اس چیز کی نشاندھی کرتی ھے[1] یا دوسرے الفاظ میں سورہ نحل میں ارشاد ھوتا ھے:
<مَنْ کَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِہِ إِلاَّ مَنْ اٴُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَان>[2]
”جو شخص بھی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کر لے علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ھو “۔
کتب احادیث اور تواریخ میں جناب ”عمار یاسر رۻ“ اور ان کے والدین کا واقعہ سب کے سامنے ھے، جو مشرکین اور بت پرستوں کے ھاتھوں اسیر ھوگئے تھے، ان کو سخت تکلیفیں پھنچا ئی گئی تھیں تاکہ اسلام سے بیزاری کریں، اسلام کو چھوڑ دیں، لیکن جناب عمار کے ماں باپ نے ایسا نھیں کیا جس کی بنا پر مشرکین نے ان کو قتل کردیا، لیکن جناب عمار رۻ نے ان کی مرضی کے مطابق اپنی زبان سے سب کچھ کہہ دیا، اور خوف خدا کی وجہ سے روتے ھوئے پیغمبراکرم(ص)کی خدمت میں حاضر ھوئے، (واقعہ بیان کیا) تو آنحضرت(ص)نے ان سے فرمایا: ”إنْ عَادُوا لَکَ فَعَدّلَہُم“ اگر پھر کبھی ایسا واقعہ پیش آئے تو جو تم سے کھلائیں کہہ دینا، اور اس طرح آنحضرت(ص)نے ان کے خوف و پریشانی کو دور کردیا۔
مزید توجہ کا حامل ایک دوسرا نکتہ یہ ھے کہ تقیہ کا حکم سب جگہ ایک نھیں ھے بلکہ کبھی واجب، کبھی حرام اور کبھی مباح ھوتا ھے۔
تقیہ کرنا اس وقت واجب ھے جب بغیر کسی اھم فائدہ کے انسان کی جان خطرہ میں ھو، لیکن اگر تقیہ باطل کی ترویج، لوگوں کی گمراھی اور ظلم و ستم کی تقویت کا سبب بن رھا ھو تو اس صورت میں حرام اور ممنوع ھے۔
اس لحاظ سے تقیہ پر ھونے والے اعتراضات کا جواب واضح ھوجاتا ھے، در اصل اگر تقیہ پر ا عتراض کرنے والے تحقیق و جستجو کرتے تو ان کو معلوم ھوجاتا کہ یہ عقیدہ صرف شیعوں کا نھیں ھے بلکہ تقیہ کا مسئلہ اپنی جگہ پر عقل کے قطعی حکم اور انسانی فطرت کے موافق ھے۔[3]
کیونکہ دنیا بھرکے تمام صاحبان عقل و خرد جس وقت ایک ایسی جگہ پھنچتے ھیں جھاں سے دو راستہ ھوں یا تو اپنے اندرونی عقیدہ کے اظھار سے چشم پوشی کریں یا اپنے عقیدہ کا اظھار کرکے اپنی جان و مال اور عزت کو خطرہ میں ڈال دیں، توایسے موقع پر انسان تحقیق کرتا ھے کہ اگر اس عقیدہ کے اظھارسے اس کی جان و مال اور عزت کی قربانی کی کوئی اھمیت اور فائدہ ھے تو ایسے موقع پر اس فدا کاری اور قربانی کو صحیح مانتے ھیںاور اگر دیکھتے ھیں کہ اس کا کوئی خاص فائدہ نھیں ھے تو اپنے عقیدہ کے اظھار سے چشم پوشی کرتے ھیں۔
تقیہ یا مقابلہ کی دوسری صورت
مذھبی، اجتماعی اور سیاسی مبارزات اور تحریک کی تاریخ میں یہ بات دیکھنے میں آتی ھے کہ جب ایک مقصدکا دفاع کرنے والے اگر علی الاعلان جنگ یا مقابلہ کریں تو وہ خود بھی نیست و نابود ھوجائیں گے اور ان کے مقاصد بھی خاک میں مل جائیں گے یا کم سے کم ان کے سامنے بہت بڑا خطرہ ھوگاجیسا کہ غاصب حکومت بنی امیہ کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے شیعوں نے ایسا ھی کردار ادا کیا تھا، ایسے موقع پر صحیح اور عاقلانہ کام یہ ھے کہ اپنی طاقت کو یونھی ضائع نہ کریں اور اپنے اغراض و مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے غیر مستقیم اور مخفی طریقہ سے اپنی فعالیت و تحریک جاری رکھیں، در اصل تقیہ اس طرح کے مکاتب اور ان کے پیرووٴں کے لئے ایسے موقع پر جنگ و مبارزہ کی ایک دوسری شکل شمار ھوتا ھے جو ان کو نابودی سے نجات دیتا ھے اوروہ اپنے مقاصد میں کامیاب ھوجاتے ھیں، تقیہ کو نہ ماننے والے افراد نامعلوم اس طرح کے مواقع پر کیا نظر یہ رکھتے ھیں؟ کیا ان کا نابود ھونا صحیح ھے یا صحیح اور منطقی طریقہ پر اس مبارزہ کو جاری رکھنا؟ اسی دوسرے راستہ کو تقیہ کہتے ھیں جبکہ کوئی بھی صاحب عقل اپنے لئے پھلے راستہ کو پسند نھیں کرتا۔[4]
حقیقی مسلمان، اور پیغمبر اسلام کا تربیت یافتہ انسان دشمن سے مقابلہ کا عجیب حوصلہ رکھتا ھے، اور ان میں سے بعض ”عمار یاسر رۻ کے والد“ کی طرح دشمن کے دباؤپر بھی اپنی زبان سے کچھ کھنےکے لئے تیار نھیں ھوتے، اگرچہ ان کا دل عشق خدا و رسول سے لبریز ھوتا ھے، یھاں تک کہ وہ اس راستہ میں اپنی جان بھی قربان کردیتے ھیں۔
ان میں سے بعض خود ”عمار رۻ یاسر“ کی طرح اپنی زبان سے دشمن کی بات کھنے کے لئے تیار ھوجاتے ھيں لیکن پھر بھی ان پر خوف خدا طاری ھوتا ھے، اور خود کو خطا کار اور گناھگار تصور کرتے ھیں، جب تک خود پیغمبر اسلام(ص)اطمینان نھیں دلا دیتے کہ ان کا یہ کام اپنی جان بچانے کے لئے شرعی طور پر جائز ھے؛ اس وقت تک ان کو سکون نھیں ملتا!
جناب ”بلال رۻ “ کے حالات میں ھم پڑھتے ھیں کہ جس وقت وہ اسلام لائے اور جب اسلام اور پیغمبراکرم(ص)کی حمایت میں دفاع کے لئے اٹھے تو مشرکین نے بہت زیادہ دباؤ ڈالا، یھاں تک کہ ان کو تیز دھوپ میں گھسیٹتے ھوئے لے جاتے تھے اور ان کے سینہ پر ایک بڑا پتھر رکھ دیتے تھے اور ان سے کہتے تھے: تمھیں ھماری طرح مشرک رھنا ھوگا۔
لیکن جناب بلال رۻ اس بات پر آمادہ نھیں ھوتے تھے حالانکہ ان کی سانس لبوں پر آچکی تھی لیکن ان کی زبان پر یھی کلمہ تھا: ”احد، احد“(یعنی اللہ ایک ھے، اللہ ایک ھے) اس کے بعد کہتے تھے: خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ھوتا کہ اس کلام سے ناگوارتر تمھارے لئے کوئی اور لفظ ھے تو میں وھی کہتا![5]
اسی طرح ”حبیب بن زید“ کے حالات میں ملتا ھے کہ جس وقت ”مسیلمہ کذاب“ نے ان کو گرفتار کرلیا اور ان سے پوچھا کہ کیا تو گواھی دیتا ھے کہ محمد رسول خدا ھیں؟ تو اس نے کھا: جی ھاں!
پھر سوال کیا کہ کیا تو گواھی دیتا ھے کہ میں خدا کا رسول ھوں؟ تو حبیب نے اس کی بات کا مذاق اڑاتے ھوئے کھا کہ میں نے تیری بات کو نھیں سنا! یہ سن کر مسیلمہ اور اس کے پیروکاروں نے ان کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، لیکن وہ پھاڑ کی طرح ثابت قدم رھے۔[6]
اس طرح کے دل ھلا دینے والے واقعات تاریخ اسلام میں بہت ملتے ھیں خصوصاً صدر اسلام کے مسلمانوں اور ائمہ علیھم السلام کے پیرووں میں بہت سے ایسے واقعات موجود ھیں۔
اسی بنا پر محققین کا کھنا ھے کہ ایسے مواقع پر تقیہ نہ کرنا اور دشمن کے مقابل تسلیم نہ ھونا جائز ھے اگرچہ ان کی جان ھی چلی جائے کیونکہ ایسے مواقع پر، پرچم اسلام اور کلمہ اسلام کی سرفرازی مقصود ھے، خصوصاً پیغمبراکرم(ص)کی بعثت کے آغاز میں اس مسئلہ کی خاص اھمیت تھی۔
لہٰذا اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ اس طرح کے مواقع پر تقیہ بھی جائز ھے اور ان سے زیادہ خطرناک مواقع پر واجب ھے، اور کچھ جاھل اور نادان لوگوں کے بر خلاف تقیہ(البتہ خاص مواقع پر نہ سب جگہ) نہ تو ایمان کی کمزوری کا نام ھے اور نہ دشمن کی کثرت سے گھبرانے کا نام ھے اور نا ھی دشمن کے دباؤ میں تسلیم ھونا ھے بلکہ تقیہ انسان کی حفاظت کرتا ھے اور مومنین کی زندگی کو چھوٹے اور کم اھمیت موضوع کے لئے برباد نھیں ھونے دیتا۔
یہ بات پوری دنیا میں رائج ھے کہ مجاھدین اور جنگجو لوگوں کی اقلیت؛ ظالم و جابر اکثریت کا تختہ پلٹنے کے لئے عام طور پر خفیہ طریقہ پر عمل کرتی ھے، اور انڈر گراؤنڈ کچھ لوگوں کو تیار کیا جاتا ھے اور مخفی طور پر منصوبہ بندی ھو تی ھے، بعض اوقات کسی دوسرے لباس میں ظاھر ھوتے ھیں، اور اگر کسی موقع پر گرفتار بھی ھوجاتے ھیں تو ان کی اپنی گروہ کے اسرار کو فاش نہ کرنے کی پوری کوشش ھوتی ھے، تاکہ ان کی طاقت فضول نیست و نابود نہ ھونے پائے، اور آئندہ کے لئے اس کو ذخیرہ کیا جاسکے۔
عقل اس بات کی اجازت نھیں دیتی کہ مجاھدین کی ایک اقلیت اپنے کو ظاھری اور علی الاعلان پہچنوائے، اور اگر ایسا کیا تو دشمن پہچان لے گا اور بہت ھی آسانی سے ان کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔
اسی دلیل کی بنا پر ”تقیہ“ اسلامی قانون سے پھلے تمام انسانوں کے لئے ایک عقلی اور منطقی طریقہ ھے جس پر طاقتور دشمن کے مقابلہ کے زمانہ میں عمل ھوتا چلا آیا ھے اور آج بھی اس پر عمل ھوتا ھے۔
اسلامی روایات میں تقیہ کو ایک دفاعی ڈھال سے تشبیہ دی گئی ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”التقیة ترس الموٴ من والتقیة حرز الموٴمن “ [7]
”تقیہ مومن کے لئے ڈھال ھے، اور تقیہ مومن کی حفاظت کا سبب ھے“۔
(محترم قارئین ! اس بات پر توجہ رھے کہ یھاں تقیہ کو ڈھال سے تشبیہ دی گئی ھے اور یہ معلوم ھے کہ ڈھال کو صرف دشمن کے مقابلہ اور میدان جنگ میں استعمال کیاجاتا ھے)
اور اگر ھم یہ دیکھتے ھیں کہ احادیث اسلامی میں تقیہ کو دین کی نشانی اور ایمان کی علامت قرار دیا گیا ھے اور دین کے دس حصوں میں سے نو حصہ شمار کیا گیا ھے، تو اس کی و جہ یھی ھے۔
البتہ تقیہ کے سلسلہ میں بہت زیادہ تفصیلی بحث ھے جس کا یہ موقع نھیں ھے، ھمارا مقصد یہ تھا کہ تقیہ کے سلسلہ میں اعتراض کرنے والوں کی جھالت اور نا آگاھی معلوم ھوجائے کہ وہ تقیہ کے شرائط اور فلسفہ سے جاھل ھیں، بے شک بہت سے ایسے مواقع ھیں جھاں تقیہ کرنا حرام ھے، اور وہ اس موقع پر جھاں انسان کی جان کی حفاظت کے بجائے مذھب کے لئے خطرہ ھو یا کسی عظیم فساد کا خطرہ ھو، لہٰذا ایسے مواقع پر تقیہ نھیں کرنا چاہئے اس کا نتیجہ جو بھی ھو قبول کرنا چاہئے۔[8]
[1] )< لاَیَتَّخِذْالمُؤْمِنُونَ الکَافِرِینَ اٴَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِالمُؤْمِنِینَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنْاللهِ فِی شَیْءٍ إِلاَّ اٴَنْ تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاةً۔۔۔> (سورہال عمران ، آیت ۲۸)”خبردار صاحبان ایمان ؛مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی و سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ھوگامگر یہ تمھیں کفار سے خوف ھو تو کوئی حرج بھی نھیں ھے“
[2] سورہ نحل ، آیت ۱۰۶۔
[3] اقتباس ، کتاب آئین ما، صفحہ ۳۶۴۔
[4] تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۳۷۳۔
[5] تفسیر فی ظلال ، جلد ۵، صفحہ ۲۸۴۔
[6] تفسیر فی ظلال ، جلد ۵، صفحہ ۲۸۴۔
[7] وسائل الشیعہ ، جلد ۱۱حدیث ۶ ، باب ۲۴ از ابواب امر بالمعروف ۔
[8] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۱، صفحہ ۴۲۳۔

قرآن کا سیاسی نظام

انسانی زندگی کے مختلف تاریخی ادوار نے ثابت کیا ھے کہ انسانی معاشرے سے وابستہ امور کی تدبیر اور سیاست پر خاص توجہ رکھنا چاھئے ، کیونکہ معاشرے کے نظام کو عقل و رسم و رواج اور شرع نے موضوع بحث قراردیا ھے اور ان میں سے ھر ایک کے تقاضے کی بنا پر انسانی معاشرے کا نظام تیار ھوا ھے ۔
سیاست اور نظم و نسق کا مسئلہ اسلام میں دوسرے ادیان سے کھیں زیادہ اھم اور نمایاں ھے ۔ اسلامی احکام و قوانین پر طائرانہ نظر ڈالنے سے بھی یقین ھوجاتا ھے کہ سیاست کو شرع مقدس سے جدا نھیں کیا جا سکتا کیونکہ شرع کے تار و پود میں سیاست مضمر ھے ۔
حکومت ، ولایت ، امر بہ معروف ، نھی عن المنکر ، جھاد ، دفاع ، قضاوت ، شھادات ، حدود ، قصاص ، تجارت ، معاملات ، نا بالغوں ، یتیموں اور مجانین کی ولایت ، سماجی اور گھریلو حقوق ، تربیتی اور ثقافتی امور ، اقتصادی مسائل ، زکوٰة ، خمس ، غنائم ، ذمّی اور اھل کتاب کے احکام ، دوسری ملتوں سے امت مسلمہ کے تعلقات ، جنگ و صلح اور اسی طرح کے دوسرے مسائل ان فقھی اور اسلامی معارف کے زمرے میں شامل ھیں جنھیں معاشرے کی سیاست و تدبیر سے علیحدہ نھیں کیا جا سکتا ۔ یھاں تک کہ عبادات میں سے حج ، نماز جمعہ اور جماعت وغیرہ کا تعلق سیاست سے قابل توجہ ھونے کے ساتھ ساتھ ناقابل جدائی ھے ۔
پیغمبر اسلام کی سیرت اور سیاست دونوں ایک کھلی کتاب کے مانند ھیں ، جو تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ھے۔
یہ کھنا غلط ھے کہ رسول خدا محض عبادات ، اعتقادات کی تعلیم اور لوگوں کی تربیت و ھدایت ھی کرتے رھے ۔ اسلامی ملک کی اندرونی و بیرونی سیاست سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا ! مختلف ملکی سر براھوں کے نام آنحضرت کے خطوط ، عملی طور پر ظالم و جابر افراد کے خلاف اقدامات ، شیطانی سیاست اور سیاست مداروں سے ٹکر ، باطل کے خلاف جنگ میں لوگوں کو جمع کرنا ، مسند قضاوت پر بیٹھنا ، (عدل و انصاف قائم کرنا ) اور تمام سماجی امور میں رھنمائی کرنا .........․․․ایسے رویّے اور طور طریقے ھیں جن کو پیغمبر کی سنت و سیرت سے جدا نھیں کیا جاسکتا ۔ لھذا سیاسی مسائل کی اھمیت ، ان کا شریعت سے تعلق ، اور بانی ٴاسلام کی ان معاملات میں براہ راست رھنما ئی ، نیز اسلامی معاشرے کی ھدایت کی ذمہ داری نہ صرف عقل و شرع کے بدیھی امور میں شمار کی جاتی ھے بلکہ ان میں ابھام کی کوئی گنجائش نھیں ھے ۔
چونکہ پیش نظر مباحث کا موضوع اسلام کا سیاسی نظام ھے ، لھذا ان میں حسب ذیل امور کا تجزیہ ضردری ھے :
سیاست کا مفھوم اور حیات انسانی میں اس کامقام
۲۔ اسلام میں سیاست اور اس کے ابعاد
۳۔اسلام کا سیاسی نظام اور قرآن میں اس کے مقدمات و اصول
۴۔ قرآنی نقطۂ نظر سے سیاست کے مقاصد
سیاست کا مفھوم
لفظ سیاست کے مروجّہ معنوں اور دنیا کے دھوکے باز سیاسی رھنماؤں کے عمل کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ بات کھی جا سکتی ھے کہ لفظ سیاست کے معنوں میں اتنی تحریف کی گئی ھے کہ آج دنیا میں جو کچہ ھو رھا ھے وہ اس لفظ کے لغوی و حقیقی معنوں سے تضاد رکھتا ھے ۔یہ بات ھم کو مجبور کرتی ھے کہ ھم سب سے پھلے لفظ سیاست کے مفھوم کی توضیح پیش کریں ۔ اس کے بعد سیاسی نظام کے ابعاد اور قرآنی نقطۂ نظر سے اس کے مقاصد پر روشنی ڈالیں ۔
لغت اور اسلامی کتابوں کے ماخذ اور متون میں مندرج لفظ سیاست کے معنوں پر غور کرنے سے یہ مستفاد ھوتاھے کہ سیاست کے حقیقی معنی ، انسانی معاشرے ، ملک اور عوام کی سر پرستی و قیادت کے ان ابعاد پر مشتمل ھیں ، جن کے ذریعہ ان کی فلاح و بھبود اور ترقی کی ضمانت ملتی ھے ۔
لفظ سیاست پر مشتمل تشریحات کو لغت کی بعض کتابوں نے درج کیا ھے :
مجمع البحرین
ساس ، یسوس ، الرعیہ ، امرھا و نھاھا ، سیاست کے معنی ، عوام پر احکام جاری کرنے اور پابندی عائد کرنے کے ھیں ۔ حدیث میں ھے : ” ثم فوض الی النبی امر الدین و الامة لیسوس عباد“ ” دین اور امت مسلمہ سے وابستہ امور کی ذمہ داری پیغمبر اسلام کو سونپی گئی تاکہ لوگوں کو سیاست اور راھنمائی کریں ۔
دائرة المعارف بستانی
ساس القوم ، دبرھم و تولیٰ امرھم ۔ الامر : قام بہ ، فھو ساس السیاسة : استصلاح الخلق بار شاد ھم الی الطریق المنجی فی العاجل او الآجل السیاسة المدینة : تدبیر المعاش مع العموم علیٰ سنن العدل و الاستقامہ “
کسی معاشرے کی سیاست کرنا : ان کے امور کی تدبیر اور ان کے تقاضوں کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف و رھنمائی کے معاملات کو آزادی سے بجالاناھے ۔ سیاست مدن : یعنی معاشرے کی معیشت ،عدل و انصاف اور آزادی کے اصولوں پر فراھم کرنا ۔
عربی لغت ، لاروس
ساس الوالی الرعیہ : ”تولی امرھاواحسن النظر الیھا “ حاکم نے رعایا کی سیاست کرنے کی ذمہ داری قبول کی : یعنی عوام کے تمام کارو بار کی ذمہ داری قبول کر کے ان کی فلاح و بھبود کے لئے سوچا ۔
” منجد الطلاب “ کے ترجمے میں بھی سیاست کی اس طرح تعریف کی گئی ھے ۔ مملکت داری، عوام کے امور کی اصلاح ، ملکی کار وبار کا انتظام ، اور سیاست مدن یعنی معاشرے کو سیاست کرنا ۔
فارسی لغت ’ ’معین “ میں سیاست مذکورہ بالا معنوں کے علاوہ حسب ذیل معنی بھی درج کئے گئے ھیں ۔ ” قضاوت ، عدالت ، سزا ، جزا ، تنبیہ ، ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور ملک کے داخلی اور خارجی امور کا انتظام “
اسی طرح ” اخوان الصفا “ کتاب کے حوالے سے سیاست کے کئی بُعد بتائے جاتے ھیں ۔ اقتصادی سیاست ، سیاست مدن اور جسمانی سیاست جو بدن کو قوت بخشنے اور اس کی حفاظت کرنے کے علاوہ اسے توازن اور حد اعتدال سے خارج ھونے سے روکتی ھے ۔ ” اخلاق ناصری “ کتاب سے نقل کیا گیا ھے کہ سیاست فاضلہ کو امامت کھتے ھیں ۔ اور اس سے مراد تکمیل خلق ھے جو سعادت کے حصول کے لئے ضروری اور لازمی ھے ۔
علمی اور عقلی مباحث میں حکماء و فلاسفہ نے حکمت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ھے ۔
حکمت نظری: اس علم کو کھتے ھیں جس کے ذریعہ عقل انسانی اپنی قدرت و توانائی کے مطابق جو موجودات کے حقیقی حالات کے بارے میں علم رکھتی ھو۔
حکمت عملی :جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ھے ۔
(۱)اخلاق یعنی خود سازی (۲)تدبیر منزل یعنی گھریلو امور کی تنظیم (۳)سیاست مدن یعنی شھری اور ملکی پیمانے پر تشکیل حکومت تاکہ انسانی اجتماع کے مسائل و مشکلات کو حل کیا جائے ۔
مذکورہ مفاھیم اور آج کی دنیا میں رائج سیاست اور سیاسی رھنماؤں کی منطق کے درمیان مکمل تضاد ھے ، اس لئے کہ ان لوگوں نے عوامی مصلحت ، ترقی اور سر حدوں کی حفاظت کے بجائے اپنی سیاست کی بنیاد ، مکاری ، قتل و غارت گری ، جاہ طلبی ، ریاست اور وسعت طلبی ،نیز محروموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے پر رکھی ھے۔ یہ عوام دشمن غریبوں کو موت کے حوالے کرنے ، انھیں علمی ، فنی اور فکری افلاس کے حوالے کرنے کو نصب العین بنائے ھوئے ھیں ۔ ظاھر ھے اس سیاست کی دین، ضمیر اور عقل میں کوئی گنجائش نھیں ۔
اب تک سیاست کے مختلف معنی جو ھم ذکر کرتے چلے آئے ھیں اورجن معنوں پر مصلح اور دانشور افراد غور و فکر کرتے رھے ھیں ، وہ انسان کی ضروریات زندگی سے وابستہ ھیں اور بے شک اسلام اور دوسرے ادیان نے اس کی نسبت خاص اھتمام کیا ھے اور کبھی اس پر غور و فکر کرنے سے منع نھیں کیاھے ۔
اگر محض قرآنی نقطۂ نظر سے انبیاء علیھم السلام کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ھے کہ انسانوں کے حقیقی اور سچے رھنما اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں (ع) نے عوامی معاملات کی بھلائی کے لئے کس قدر جانفشانی کی ھے ، خاص طور پر سیاست ، رھبری اور اصلاح کے لحاظ سے ان کی خدمات مثالی ، قابل تحسین و قابل عمل و پیروی ھیں ۔
دو طرح کے سر براہ
بے جانہ ھو گا اگر یھاں ایک خاص نکتے کی طرف توجہ مبذول کرتے چلیں کہ قرآن مجید نے دو طرح کے سر براھوں کا ذکر کیا ھے ۔الھی رھبراور شیطانی سربراہ جو ایک دوسرے کی مخالف جھت میں چلتے رھے ھیں ۔ قرآن میں جھاں بھی ان دونوں طرح کے سربراھوں کا ذکر ھوا ھے وھاں ان کے حکمرانی کے طریقوں کی بھی وضاحت کی گئی ھے ، بعنوان مثال :
۱۔ سلیمان (ع) اور بلقیس کے سلسلے میں یوں بیان ھواھے :
” قالت ان الملوک اذا دخلوا قریة افسد و ھا وجعلوا اعزة اھلھا اذلة و کذلک یفعلون “(۱)
اس نے کھا کہ بادشاہ جب کسی علاقہ میں داخل ھوتے ھیں تو بستی کو ویران کردیتے ھیں اور صاحبان عزت کو ذلیل کردیتے ھیں اور ان کا یھی طریقہ کار ھوتا ھے ۔
اگر چہ یہ آیت بلقیس کی ترجمانی کر رھی ھے ، لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ قرآن مجید جب کبھی کسی بات کو درج کر کے رد نھیں کرتا تو اس کا حکم دستخط اور تصدیق کے برابر ھے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ھے کہ بادشاہ بنیادی طور پر اسی طرح کے ھوتے ھیں، یعنی مفسد ، تباہ کار ، گمراہ کن اور غاصب ۔
۲۔ حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت خضر (ع) سے متعلق کشتی کا واقعہ بیان ھوا ھے ۔ وھاں حسب ذیل آیت ھے :
” ام السفینة فکانت لمساکین یعملون فی البحر فاٴردت ان اعیبھا و کان و راء ھم ملک یاٴخذ کل سفینة غصبا “
جھاں تک اس کشتی کی بات ھے تو اس کا تعلق ان غریب افراد سے تھا جو دریا میں کام کرتے تھے ۔ میں نے اس کشتی میں سوراخ اس لئے کرنا چاھا تھا ،کہ ان پر ایک ایسے بادشاہ کا تسلط تھا جو کشتیوں کوھتھیا لیتا تھا ۔
قرآن میں مسرفین ، مستکبرین ، مفسدین اور مترفین جیسی تعبیریں طاغوتوں اور صاحب مال و قدرت سربراھوں کےلئے بارھا استعمال ھوئی ھیں ۔
قیقی سر براھوں کی خصوصیات
قرآن میں ایسے واقعات بھی ھیں جن میں ایسے سر براھوں کا ذکر ھے جنھوں نے عوام کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ھوئے صحیح اقدامات کئے ھیں۔
ایک واقعہ تو وھی ھے جب بنی اسرائیل نے اپنے ایک نبی سے درخواست کی تھی کہ انھیں ایک ایسا فرما نروا اور سر براہ دیا جائے جو ان کو ساتھ لے کر دشمن سے مقابلہ کر سکے :
” وقال لھم نبیھم ان اللہ قد بعث لکم طالوت ملکا قالوا انی یکون لہ الملک علینا ونحن احق بالملک منہ و لم یؤت سعة من المال قال ان اللہ اصطفہ علیکم و زادہ بسطة فی العلم وا لجسم و اللہ یؤتی ملکہ من یشاء و اللہ واسع علیم “ (۲)
” ان کے پیغمبر نے کھا اللہ نے تمھارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا ھے ۔ ان لوگوں نے کھا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے ان کے پاس تو مال کی فراوانی نھیں ھے ان سے زیادہ تو ھمیں حقدار حکومت ھیں ۔ نبی نے جواب دیا کہ انھیں اللہ نے تمھارے لئے منتخب کیا ھے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ھے اور اللہ جسے چاھتا ھے اپنا ملک دے دیتا ھے کہ وہ صاحب وسعت بھی ھے اور صاحب علم بھی ھے ۔
یہ آیت ان افراد کے افکار و خیالات کی تردید کرتی ھے جو سربراھی کے لئے مال و ثروت کو ضروری سمجھتے ھیں اور ایک ایسے معیار سے آشنا کراتی ھے جو کسی فرد کی حاکمانہ لیاقت و قابلیت کا ثبوت فراھم کرتا ھو ، یھاں علم و قدرت کواستحقاق فرمانروائی کا معیار قرار دیا گیا ھے ۔
اس آیۂ مبارکہ میں ایک بھت لطیف نکتہ یہ ھے کہ جو سر براھی قابلیت اور صلاحیت کی بنیادوں پر مستحکم ھوتی ھے وہ الطاف باری تعالیٰ سے سر شار ھوتی ھے اور خدا وند کریم سوائے ان لوگوں کے جو اھلیت رکھتے ھیں ھر کس و ناکس کو اس عطیہ سے نھیں نوازتا ، اس لئے کہ یہ عطیہ وھی مالکیت مالک الملک ھے جو لائق و شایستہ سربراہ کی ملکیت میں دیا جاتا ھے ورنہ انسان کوحق نھیں ھے کہ وہ علم ، قدرت اور اپنی سربراھی پر ناز کرے ، اس لئے کہ قدرت اور علم در حقیقت ابتداء خدا وند کریم کے لئے ھے پھر کھیں انسان تک اس کی رسائی ھوتی ھے ۔
”قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئی قدیر “ ( ۳)
پیغمبر آپ کھئے کہ خدا یا تو صاحب اقتدار ھے جس کو چاھتا ھے اقتدار دیدیتاھے اور جس سے چاھتا ھے سلب کرلیتا ھے ۔ جس کو چاھتا ھے عزت دیتاھے اور جس کو چاھتا ھے ذلیل کرتا ھے ۔ سارا خیر تیر ے ھاتھ میں ھے اور تو ھی ھر شہ پر قادر ھے ۔
سورہ بنی اسرائیل میں طالوت و جالوت کے درمیان جنگ کے واقعات اس طرح بیان کئے گئے ھیں :
” فھزموھم باذن اللہ و قتل داود جالوت و اٰتاہ اللہ الملک و الحمکة و علمہ مما یشاء “ (۴)
نتیجہ یہ ھوا کہ ان لوگوں نے جالوت کے لشکر کو خدا کے حکم سے شکست دیدی اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انھیں ملک اور حکمت عطاکردی اور اپنے علم سے جس قدر چاھا دیدیا ۔
اسی طرح یہ آیت حکومت کے اقتدار و مدارج کے ساتھ ساتھ علم اور حکمت پر زور دیتے ھوئے ذمہ داریوں میں سے ایک ایسی ذمہ داری کی طرف بھی اشارہ کرتی ھے جو الٰھی سر براھوں کے ذمے ھوتی ھے ، مثلا دشمنان خدا سے مقابلہ کرنا .........․۔ اس بحث کو حکومت کے سیاسی مسائل اور فرائض کے ضمن میں بیان ھونا چاھئے ۔
قرآن کریم میں ایسے پیغمبروں کے نام بھی درج ھیں جو مقام نبوت کے علاوہ معاشرتی ثقافت و سیاست کے فرائض بھی انجام دیتے تھے ، ان میں سے پیغمبر داؤد ، سلیمان ، یوسف اور ذو القرنین علیھم السلام کے نام قابل ذکر ھیں۔
۱۔” یا دا وٴد انا جعلناک خلیفةفی الارض فاحکم بین الناس بالحق و لا تتبع الھویٰ فیضلک عن سبیل اللہ “ ( ۵)
اے داؤد ھم نے تم کو زمین پر اپنا جانشین بنایا ھے ، لھذا لوگوں کے درمیان جن کے ساتھ فیصلہ کرو اورخواھشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں بیشک جو لوگ رارہ خدا سے بھٹک جاتے ھیں ان کے لئے شدید عذاب ھے کہ انھوں نے روز حساب کو یکسر نظر انداز کردیا ۔
۲۔” و ورث سلیمان داوٴد و قال یا ایھا الناس علمنا منطق الطیر و اوتینا من کل شئی ان ھٰذا لھو الفضل المبین “ ” و حشر لسلیمان جنود ہ من الجن و الانس و الطیر فھم یوزعون “ (۶)
” اورپھر سلیمان داؤدکے وراث ھوئے اور انھوںنے کھا کہ لوگوںمجھے پرندوں کی باتوں کا علم دیا گیاھے اورھر فضیلت کا ایک حصہ عطا کیا گیا ھے اور یہ خدا کا کھلا ھوا فضل وکرم ھے اور سلیمان کے لئے ان کا تمام لشکر جنات انسان اورپرندے سب اکٹھا کئے جاتے تھے تو بالکل مرتب منظم کھڑے کردئے جاتے تھے ۔
تفسیر صافی میں مجمع البیان سے اور مجمع البیان میں امام جعفر صادق (ع) سے روایت ھے کہ حضرت سلیمان (ع) کی حکومت کا دائرہ مشرق سے لیکر مغرب تک پھیلا ھوا تھا ۔ انھوں نے زمین پر بسنے والے تمام جن و انس ، شیاطین ، چرند و پرند اور وحشی جانوروں پر سات سو سال سے زیادہ حکومت کی تھی ۔
۳۔” و قال الملک ائتونی بہ استخلصہ لنفسی فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین “
” قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم “ ” و کذلک مکنا لیوسف فی الارض یتبوا منھا حیث یشاء نصیب برحمتنا من نشاء و لا نضیع اجر المحسنین “ ( ۷)
اور بادشاہ نے کھا کہ انھیں لے آؤ میں اپنے ذاتی امور میں ساتھ رکھوں گا اس کے بعد جب ان سے بات کی تو کھا کہ تم آج ھمارے دربار میں باوقار امین کی حیثیت سے رھو گے پھریوسف نے کھا مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو کہ میں محافظ بھی ھوں اور صاحب علم بھی اور اس طرح ھم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ وہ جھاں چاھیں رھیں ھم اپنی رحمت سے جس کو بھی چاھتے ھیں مرتبہ دے دیتے ھیں اور کسی نیک کردار کے اجر کو ضائع نھیں کرتے ۔
ضرت یوسف (ع) مصر کے زندان میں بھی لوگوں کی بری حالت اور حکومت وقت کے فتنہ و فساد سے با خبر تھے ۔ انھوں نے مصر ی عوام پر حکمراں سیاسی نظام کو ختم کر کے انھیں امن و انصاف مھیا کرنے کی فکر میں کوئی فروگذاشت نھیں کی ۔جس وقت وہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بیان کرنے کے سلسلے میں بے گناہ قیدی کی حیثیت سے پھچانے گئے ، بادشاہ نے ان کے چھرۂ مبارک پر دانشمندی و بیدار مغزی کے آثار دیکھے تو ۔ وہ چاھتا تھا کہ ملک و ملت کی شہ رگ یعنی ملک کی اقتصادی سیاست کی ذمہ داری انھیں سونپ دے۔ اس اھم نکتے سے چشم پوشی نھیں کرنا چاھیے کہ اقتصادی سیاست پر ملک کے سارے نظام اور عوام کے مستقبل کا دار و مدار ھوتا ھے ۔ ملک کی سیاست سنبھالنے کے سلسلے میں حضرت یوسف (ع) کے اقوال میں سے ایک اور اھم نکتہ سامنے آتا ھے جو دو بنیادی شرطوں پر مبنی ھے ۔ ایک ” حفیظ “ یعنی محافظ ، امانت دار اور قابل اعتماد ھونا ، دوسری شرط ” علیم “ یعنی ملکی منافع ، مال و دولت ، ذخیروں اور سیاست دولت سے با خبر ھونا ھر سر براہ کے لئے شرط لازم ھے ۔
آیا حضرت آدم (ع) کی خلافت و حکومت میں علم و امانت کے سوا اور کوئی دوسرا محور تھا ؟
” و علم آدم الاسماء کلھا “ ” انا عرضنا الامانة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وحملھا الانسان “
جو شخص ان دونوں صفتوں سے محروم رھا وہ یقینی طور پر ” ظلوم و جھول “ یعنی نادان و ستمگر ٹھھرا ۔ انسانیت پر اب تک جتنے مصائب گذرے ھیں و ہ سب انھیں نادان ا ور ستمگر افراد کے ھاتھوں گذرے ھیں جنھوں نے خلافت کی امانت غصب کر کے انسانی زندگی کے نظام کو تباھی کے حوالے کر رکھا ھے ۔
۴۔ ”ویسئلونک عن ذی القرنین قل ساٴتلوا علیکم منہ ذکر ا انا مکنّا لہ فی الارض و آتیناہ من کل شئی سببا “(۸)
اے پیغمبر یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ھیں تو آپ کھدیجئے کہ میں عنقریب تمھارے سامنے انکا تذکرہ پڑھ کر سنادوں گا ۔ ھم نے ان کو زمین میں اقتدار دیا اور ھر شئی کا سازو سامان عطا کردیا ۔
اس کے بعد محروم طبقوں کو نجات دلانے کے لئے ان کے مشرق و مغرب کے سفر کا ذکر ھوتا ھے ۔ یا جوج و ماجوج کے ظلم و ستم اور فساد کو روکنے اور مستضعفین اور محرومین کو شکنجے سے نجات دلانے کے لئے اسکندر نے دونوں طبقوں کے درمیان ایک دفاعی دیوار بنانے کے لئے کچہ اقدامات کئے تھے ، اس کی مزیز تفصیل قرآن مجید ا ور تفسیروں میں تلاش کرنا چاھئے ، بنیادی نکتہ یہ ھے کہ خدا وند کریم کی جانب سے مبعوث ھونے والے اس سربراہ اور انصاف پسند حکمراں نے ( اسکندر نام کا ایک باندہ ) قائم کیا تاکہ محروموں پر حملہ آور دشمن کے حملوں میں رکاوٹ ڈال سکے اور اس قابل تعریف اقدام کو اس طرح انجام دیا جس طرح سے ایک الٰھی سیاست کا ر اور زمامدار کو انجام دینا چاھئے ۔( سورہ کھف کی ۸۳ سے لیکر ۹۸ آیت تک ملاحظہ ھو )
بیان کردہ واقعات و حقائق ثابت کرتے ھیں کہ تاریخ کے طویل عرصے میں ایسے پیغمبر اور مردان حق گذرے ھیں جنھوں نے ملک اور عوام کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ عوام کی راھنمائی اور سیاست کے فرائض بھی معیاری طریقے پر انجام دیے ھیں ،اور جس راہ پر سیاسی کارکنوں کو چلنا اور جن اغراض و مقاصد کو پورا کرنا چاھئے ان کی نشاندھی بھی انھوں نے اس طرح سے کی ھے کہ دوسروں کے لئے بطور نمونہ باقی رھیں ۔
تتمہ : سیاسی رجحانات کے سامنے عوام اور مذھبی رھنماؤں کی ذمہ داری
بنیاد ِحکومت
فرمانروائی
نص قرآن کے مطابق مطلق اور کلی حاکمیت صرف خالق کائنات کو حاصل ھے کائناتی مطالعے ، آئیڈیا لوجی اور اعتقاد کا نتیجہ یھی ھے ۔ یھی عقیدہ پورے نظام کی اساس ھے۔ چونکہ ایک وجود مطلق ھی پوری کائنات کا فرمانروائے حکیم و عادل وقادر و سرمدی ھے لھذاظاھر ھے کہ انسانی سر نوشت بھی اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ھے ۔ اسی فلسفے سے یہ نتیجہ بھی حاصل ھوتا ھے کہ اولاً وبالذات اللہ حاکم ھے اور اس کے بعد ھر انسان خلیفہ ،نمایندہ اور رضائے خدا یا احکام خدا کا نافذکرنے والا ھے ۔ اس فلسفے کے لئے قرآن کی درج ذیل آیتیں تائید و راھنمائی کرتی ھیں :
” ان الحکم الا للّہ امر الا تعبد و ا الا ایاہ “ ( ۹)
جب کہ حکم کرنے کا حق صر ف خدا کو ھے اور اسی نے حکم دیا ھے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے ۔
” فالحکم للّہ العلی الکبیر “ (۱۰)فیصلہ صرف خدائے بلند و بزرگ کے ھاتھ میں ھے ۔
” و من احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون “ ( ۱۱)جب کہ صاحبان یقین کے لئے اللہ کے فیصلہ سے بھتر کسی کا فیصلہ ھوسکتا ھے ۔
” ان الحکم الا للّہ یقص الحق و ھو خیر الفاصلین “ ( ۱۲)حکم صرف اللہ کے اختیار میں ھے وھی حق کو بیان کرتا ھے اور وھی بھترین فیصلہ کرنے والا ھے ۔
متعدد آیات کے مطالعے سے معلوم ھوتا ھے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی انسانی فرمانروائی کی طرح نھیں ھے ، جو طاقت اور سطوت کے بل بوتے پر حاصل ھوتی ھے ، بلکہ ان اشاروں کے سھارے جو آیات میں موجود ھیں اسکی فرمانروائی کا راز جبروت ، استغنا ، قدرت ، علم ، حکمت ، ربوبیت ، عدل و انصاف اور اللہ کے دیگر صفات جمالیہ وجلالیہ میں تلاش کرنا چاھئے ۔ اس طرح سے اگر خدا وند عالم حاکمیت اور فرمانروائی اپنے بندوں کو عطا کرتا ھے تو محض اس لئے کہ وہ بھی اس کی حکمت کے تابع اور اسی کے تقاضوں کو پورا کرتے ھیں۔ پیغمبر اکرم کی فرمانروائی کے سلسلے میں ارشاد ھوتا ھے :
”فلا و ربک لا یوٴمنون حتیٰ یحکموک فیما شجربینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما “ (۱۳)
پس آپ کے پروردگا ر کی قسم یہ ھرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپکو اپنے اختلافات میں حکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپکے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ھوجائیں ۔
” و ان حکمت فا حکم بینھم بالقسط ان اللہ یحب المقسطین “ ’(۱۴)’ اور اگر فیصلہ کرو تو ان کے ما بین انصاف سے فیصلہ کرو ۔ بے شک اللہ منصفوں کو دوست رکھتا ھے “ ۔
اس سلسلے میں اور بھی بھت سی آیات ھیں ۔
حق اور انصاف کے ساتھ فرمانروائی کا حکم اللہ نے محض اپنے پیغمبروں تک ھی محدود نھیں رکھا بلکہ تمام مومنوں پر بھی یہ حکم نافذ ھوتا ھے کہ جب کبھی کوئی فیصلہ کریں تو حق اور انصاف کا پورا پورا خیال رکھیں اوراسکے پابند رھیں ۔
” ان اللہ یامرکم ان تودوا الامانات الی اھلھا و اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا با لعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ ان اللہ کان سمیعا بصیرا “ (۱۵)
” بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ھے کہ امانتوں کو ان کے اھل تک پھنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو اللہ تمھیں بھترین نصیحت کرتا ھے بیشک اللہ سمیع بھی ھے اور بصیر بھی ۔
آیت کے دو حصے ھیں ۔ ” ان اللہ یامرکم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واذاحکمتم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ان دونوں حصوں میں اگر واو کو قرینہ مانا جائے تو امانت سے مراد امامت ، حکومت اور عدالت ھے لیکن اگر امانت کو کلی بھی مان لیا جائے تو اس میں ھر قسم کی امانتیں شامل ھوں گی اور اگر اس بحث میں نہ بھی پڑیں تب بھی ماننا پڑے گا کہ امامت و حکومت تمام انواع امانت میں نمایاں ترین امانت ھے اور یقینی طور پر آیت سے یھی حکم ملتا ھے کہ یہ امانت یعنی حکومت ، اھل افراد کے حوالے کی جائے ، کیونکہ اگر ایک نا چیز مادی شئی کو امانت کا نام دیکر اھل کے حوالے کرنا فرض ھے تو حکومت وقضا ، سیاست و تدبیر معاشرہ ، امانت کا برتر و بھتر مصداق کیوں نہ اھل کے سپرد ھو ؟ چنانچہ تفاسیر میں ” امانت “ کو امامت و زعامت سے تعبیر کیا گیا ھے اور ” انا عرضنا الامانة “ میں امانت سے متعلق واضح ترین تفسیر یھی ھے ائمہ اھل بیت (ع) کی روایات اس کی طرف رھنمائی کرتی ھیں ۔
بھرحال یہ دیکھا جائے کہ اس امانت کا اھل کون ھے ؟ کیا ظلوم و جھول افراد ھیں “ جو ” لا ینال عھد ی الظالمین “ کے مصداق ھیں ؟ یا صالح ،مومن ، بے لوث اور عالم و متقی افراد ھیں ؟ ظاھر ھے کہ دوسرا جواب صحیح ھے ۔
بھر حال ، خدا وند کریم نے مومنوں کو امانت کی نمایاں قسم امامت و سیاست کو ان اھل افراد کے سپرد کرنے کا حکم دیا ھے جو خلافت الٰھی کی صلاحیت اور پیغمبروں کی نیابت رکھتے ھوئے امة مسلمہ کی قیادت اور اسلامی قدروں کی حفاظت کر سکتے ھوں ،صرف یھی نھیں ” حکم بین الناس “ کے سلسلے میں بھی لوگوں کو یہ ھدایت کی گئی ھے کہ انصاف کا دامن نہ چھوڑیں ، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بھترین نصیحت ھے ۔
ولایت
جس طرح سے لفظ ” حکم “ کا تعلق ابتداء ًاللہ سے پھر اس کے بندوں سے ھے اسی طرح لفظ ” ولایت “ جو سر پرستی اور سربراھی کے معنی رکھتا ھے ، پھلے اللہ پھر پیغمبر اور اولی الامر سے تعلق رکھتا ھے ۔
” انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلٰوة و یؤتون الزکوٰة و ھم راکعون “ ( ۱۶)
ایمان والوں بس تمھارا ولی اللہ ھے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے ھیں ، نماز پڑھتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ھیں ۔
” النبی اولی بالمومنین من انفسھم “ (۱۷)
”بیشک نبی تمام مومنین کی جانوںپر خود ان سے زیادہ اختیار رکھنے والا ھے “۔
” یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم “ (۱۸)” اے ایمان لانے والو ! اللہ ، رسول اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ھیں “ ۔
والیان امر کون ھیں ؟ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت کون رکھتا ھے ؟ آیا مسند حکومت پر ھر بیٹھنے والے شخص کی اطاعت واجب ھے ؟
نعوذ باللہ ، ایسا ھرگز نھیں ھے کیا قرآن یہ نھیں کھتا ؟ ” و لا تطیعوا امر المسرفین الذین یفسدون فی الارض و لا یصلحون “ ( ۱۹)
اور ان زیادتی ( اسراف ) کرنے والوں کی جو زمین پر فساد کرتے ھیں اور اصلاح نھیں کرتے اطاعت نہ کرو ۔
قرآن کریم ان لوگوں کی مذمت کرتا ھے جو اللہ کے پیغمبروں سے بے رخی اختیار کرتے اور ظالم و جابر افراد کے نقش قدم پر گامزن رھتے ھیں ۔
” و عصوا رسلہ و اتبعوا امر کل جبار عنید “ (۲۰) ” یہ قوم عاد کے افراد ھیں جو اس کے رسولوں کی نافرمانی کیا کرتے تھے اور ھر کینہ ور ظالم کے فرمان کی تعمیل کرتے تھے “ ۔
اسی طرح فرعون کے بارے میں ارشاد ھے:
” وما امر فرعون برشید “ (۲۱) ” فرعون کا حکم صحیح نہ تھا “ ۔
ولایت اور امر کے متعلق جو آیتیں پیش کی گئیں ان پر غور و فکر کرنے سے یہ نتیجہ عائد ھوتا ھے کہ ظالم و جابراور بے صلاحیت حکام جو ضدی ، مسرف ، غاصب، ظالم اور عقل و علم کے دشمن ھیں ھرگز ” اولی الامر “ کا مصداق نھیں ھو سکتے ۔
” اولی الامر “ کا اطلاق ان رھبروں پر ھوتا ھے جو صالح ، عالم اور منصف ھوں ، پھلے مرحلے میں اولی الامر سے مراد اگر پیغمبر کے ذریعے منتخب افراد ھیں تو دوسرے مرحلے میں اس سے مرادوہ افرادھیں جو علم ، زھد و تقویٰ ، عصمت اور عدل و انصاف کے لحاظ سے تمام انسانوں پر برتری رکھتے ھو ۔
یہ ایک ایسی حقیقت ھے جو تھوڑی سمجہ بوجہ رکھنے والا بھی آسانی سے سمجہ سکتا ھے ،۔ اگر کوئی شخص اس تعریف کے باجود ” اولی الامر “ جیسی مقدس اصطلاح کو ظالم و جابر افراد کے لئے استعمال کر کے انھیں اللہ و رسول کی صف میں کھڑا کرے تو تعجب کا مقام ھے، لھذا اسلامی معاشرے کو سیاست کرنے کی ذمہ داری ، اسی شخص کو زیب دیتی ھے جو صراط مستقیم پر ایمان رکھتا ھو اور انبیاء و رسل کی راہ پر چلتا اور برحق اماموں کے مشن کی توسیع و تبلیغ کرتا ھو ۔
امامت
قرآن مجید میں اصطلاح ( امام ) کا ذکر متعدد آیات میں ھواھے ، بعض جگھوں پراسے انسانی ارتقاء کے بلند ترین مقام سے تعبیر کیاگیا ھے کہ نبوت و رسالت کے مقام سے بھی بالا و برترھے ، بعنوان مثال درج ذیل آیت ملاحظہ ھو :
” و اذابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن ، قال انی جاعلک للناس اماما ، قال و من ذریتی قال لا ینال عھدی الظالمین “ (۲۲) ” اور (اس وقت کو یاد کرو ) جبکہ ابراھیم (ع) کا اس کے رب نے چند کلمات سے امتحان لیا اور ابراھیم (ع) نے اس کو پورا کر دیا، ( خدا نے ) فرمایا کہ میں تم کو تمام انسانوں کا امام مقرر کرنے والا ھوں ،( ابراھیم نے ) عرض کی ،اور میری اولاد میں سے ،( خدا نے ) فرمایا جو ظالم ھوں گے ان تک میرا عھدہ نھیں پھنچے گا ۔
اگر چہ یہ آیت نفوس و قلوب کے اس معنوی مقام و منزل کی نشاندھی کرتی ھے جس کا تعلق عالم ملکوت اور ولایت تکوینی تک محدود ھے اور اس سے ھٹ کر عام چیزوں سے اس کا کوئی تعلق نھیں ھے لیکن اس لفظ کے عام مفھوم اور آیت کے آخری حصے کو مد نظر رکھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ ظالم افراد قیادت و امامت کے لائق نھیں ھیں ۔ لفظ ظلم کی ضد یعنی عدالت ، امامت و رھبری کے لئے بنیادی شرط ھے لیکن جن آیات میں لفظ امام استعمال ھوا ھے ( اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ امام کے معنی رھبر و پیشوا اور مقدم کے ھیں ) اگر ان پر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ محسوس ھوتا ھے کہ رھبر و پیشوا دو قسم کے ھیں جو ھمیشہ سے انسانوں کو الگ اور متضاد سمتوں میں لے جاتے رھے ھیں ۔
بعنوان مثال لائق اور بر حق اماموں کی بابت یوں بیان ھوا ھے :
” و جعلنا ھم ائمة یھدون بامرنا و اوحینا الیھم فعل الخیرات و اقام الصلوٰة و ایتاء الزکوٰة و کانوا لنا عابدین “ (۲۳)
” اور ان کو ھم نے ایسا امام بنایا جو ھمارے حکم کے بمطابق ھدایت کرتے ھیں اور ان کی طرف ھم نے نیکیاں کرنے ، نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے کی وحی کی اور وہ سب کے سب ھماری بندگی کرنے والے تھے “ ۔
اگر چہ مذکورہ آیت پیغمبروں اور ان کے بار رسالت و ھدایت کے بارے میں نشاندھی کرتی ھے ، لیکن اس کے باوجود انسان کی راھنمائی اور قیادت کو محض پیغمبروں ھی تک محدود نہ کرنا چاھئے اور نہ ھی ان کے دائمی وجود کی کوئی شرط ھونا چاھئے۔اس لئے کہ بھرحال پیغمبروں کی زندگی کا دور بھی اختتام پذیر ھے ۔ اگر یہ طے پائے کہ تا قیامت انسانوں کی راھنمائی الٰھی شریعت کا جذبہ ھی کرتا رھے جو کر رھا ھے ، تو اس جذبے اور اس کے اثرات کو شریعت کے دوسرے ابعاد کی طرح جاری و ساری رھنا چاھئے ۔ لھذا فکری ، دینی ، سماجی اور سیاسی قیادت و رھبری انھیں لوگوں کو زیب دیتی ھے جن کی خصوصیات مذکورہ آیت میں بیان کردہ خصوصیات کے مطابق ھوں ،یعنی خالص بندگیٴ خدا ، پابندی ٴنماز و روزہ اور محرومین و مستضعفین کی مدد کا جذبہ ان میں پایا جاتا ھو ۔ اسی ضمن میں دوسری آیتوں میں بیان شدہ خصوصیات ( علم ، عدل ، پرھیزگاری اور انسان دوستی ) کا حامل بھی ھونا چاھئے ۔
یہ مختصر بیان انسانوں کے سچے اور حقیقی رھنماؤں کے سلسلے میں تھا۔گمراہ اور لیاقت سے عاری رھنماؤں کے بارے میں بھی قرآن ایک اھم نکتہ بیان کرتا ھے :
” و جعلنا ھم ائمة یدعون الیٰ النار و یوم القیامة لا ینصرون “ ” ھم نے ان کو ایسا امام بنایا ھے جو جھنم کی طرف دعوت دیتے ھیں اور روز قیامت ایسے لوگوں کاکوئی مدد گار نہ ھوگا “ ۔
یہ آیت اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ مصر میں حکومت ،فرعون اورآل فرعون کے پاس تھی جولوگوں کو جھنم کی اس آگ کی طرف لے جا رھے تھے جس سے نجات پانا مشکل ھے ۔
اس میں کوئی شک نھیں کہ تاریکی و ظلمت کے دلال بننے ، دوزخ کا بیج بونے اور لوگوں کو دنیا و آخرت سے محروم کرنے کے سوا ظلم و جور کے سر براھوں کا پیشہ اور کچہ نھیں رھا ھے ۔ ان کی ھزاروں سال پر مشتمل حکومت کا نتیجہ یھی تھا کہ انھوں نے ھمیشہ جنگ کی آگ کو بھڑکایا اور ظلم و جور کا سھارا لیکر خود اپنے اور دوسروں کے لئے آخرت کی آگ فراھم کی ۔
اس قسم کی سیاست و رھبری کے مد مقابل لوگوں کے فرائض کیا ھیں ؟
اس کا جواب کسی دوسرے موقعہ پر بیان کیاجائےگا ۔ فی الحال اسی سلسلے میں قرآن کریم کی ایک آیت مندرجہ ذیل ھے :
”فقاتلوا ائمة الکفر انھم لا ایمان لھم “ (۲۴)” سرداران کفر کو یھاں تک مارو کہ وہ باز آجائیں ۔ بے شک وہ ایسے ھیں جن کی قسم کوئی حیثیت نھیں رکھتی “ ۔
فتنہ و فساد کے اختتام اور الٰھی حکومت کے مستقر ھونے تک کفر و استکبار کے خلاف جنگ ( وقاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین للّہ ) (۲۵) اسلامی سیاست کا وہ جز ھے ، جسے فوجی سیاست یا اصول ِ دفاع کا نام دیا جا سکتا ھے یہ بحث کافی طویل ھے اور اس مختصر مقالے میں بحث کی گنجائش نھیں ۔ 
قرآنی نقطۂ نظر سے سیاسی نظام کے بنیادی مقاصد و نتائج
کسی حکومت یا سیاسی نظام کی تشکیل اور اسے قانونی درجہ حاصل ھونے کے ھدف کو نظام خلقت اور کائنات کے سارے نظام سے علیحدہ نھیں سمجھا جا سکتا ۔ انسانی زندگی سے وابستہ تمام مسائل کے ساتھ ساتھ ھم حکومت کے مقاصد کا تعین بھی کر سکتے ھیں ۔
جس حکومت کی بنیاد مادیت یا اس کے نتائج پر مبنی ھو ، اس کے اغراض و مقاصد استکبار ، تسلط ، جاہ طلبی ، ھوا و ھوس اور زیادہ سے زیادہ عیش و عشرت کے سوا اور کچہ نھیں ھوتے ۔ قرآن کریم فرعونی حکومت اور اس کی سیاست کے متعلق حسب ذیل وضاحت پیش کرتا ھے :
” ان فرعون علافی الارض و جعل اھلھا شیعا یستضعف طائفة منھم یذبح ابناء ھم یستحی نساء ھم انہ کان من المفسدین “ (۲۶)
فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اوراس نے اھل زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا کہ ایک گروہ نے دوسرے گروہ کو بالکل کمزور بنادیا ۔
رعونی سیاست کے اصول
۱۔ تکبر و غرور ،جو اپنی ذات کو مرکز سمجھنے کا نتیجہ اور جس کی غرض جاہ طلبی کی خواھش کو پورا کرنا ھے ۔
۲۔ جس امت میں اتحاد کی تاکید کی گئی تھی اس کے اتحاد کو ختم کرنا فرعونی سیاست کا نصب العین ھے۔
۳۔ مستکبر اور صاحب جاہ و جلال افراد کی عیش و عشرت اور آرام کی خاطر ان محروموں اور مستضعفوں کو غلام بنا نا جن کی زندگی فرعون کے ھاتھ میں تھی ۔
۴۔ لڑکوں کو اس خوف کی وجہ سے قتل کرنا کہ کسی دن یہ بغاوت نہ کردیں ۔
۵۔ لڑکیوں کی عزت و آبرو سے کھیلنا ۔
۶۔ ھر طرح کے سیاسی ، فکری ، اعتقادی ، اقتصادی ، اخلاقی ، فردی اور سماجی انحطاط اور فساد کو فروغ دینا ۔
مذکورہ چھ نکاتی اصولوں کو ان ظالم و جابر حکمرانوں کی اسٹراٹیجک سیاست کا نچوڑ سمجھا جا سکتا ھے ، جو ماضی سے لیکر آج تک انسانوں پر حکومت کرتے چلے آئے ھیں ۔ انسانی تھذیب و تمدن ، آبادی اور ملکوں کے وسیع ھونے کے نتیجہ میں ان کی ظالمانہ سیاست دن بدن رنگ لاتی رھی ، یھاں تک کہ آج کی سیاست فرعونیوں کے زمانے سے کھیں زیادہ تباہ کن اورافسوسناک صورتحال اختیار کر چکی ھے ۔ اس موضوع پر یہ ایک آیت ھردور کی فرعونی سیاست کے رویے اور اس کے مقاصد و نتائج کی فھرست مرتب کرنے کے لئے کافی ھے ۔
خلافت الٰھی ، وراثت زمین اور امامت مستضعفین
قرآن مجید میں حکمت الھیہ کی بنیادوں پر حکومت کے اغراض و مقاصد اور اسکے مطلوبہ نتائج اسطرح بیان کیے گئے ھیں :
” و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمة و نجعلھم الوارثین “ (۲۷)
اور ھم یہ ارادہ رکھتے ھیں کہ ان لوگوں پر جو اس سر زمین میں کمزور کر دیے گئے ھیں احسان کریں اور ان کولوگوں کا پیشوا بنائیں اور ان کو زمین کا وارث قرار دیں ۔ اس سے قبل آیت میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کی سیاست بیان ھوئی ھے اوریہ آیت حضرت موسیٰ (ع) کا مقصد بعثت بیان کررھی ھے ۔ حضرت موسیٰ (ع) اس لئے مبعوث ھوئے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی حکومت ختم کر کے مستضعفین کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور اس سر زمین کے اصلی مالکوں کو ان کا حق دلائیں ۔ مستقبل کے لئے صاحب اختیار امام و رھبر کا انتخاب کریں اور بنی اسرائیل کے مظلوم عوام کے طبقے سے نکلنے والے رھنما کے ذریعے خدا کے پیام اور الٰھی فلسفے کی حفاظت کریں ۔ حضرت موسیٰ (ع) کی رسالت کا تقاضا یھی تھا ۔
اس آیت کو حضرت موسیٰ (ع) اور بنی اسرائیل ھی تک محدود نھیں سمجھنا چاھئے ۔ اس لئے کہ فعل( نرید ان نمن ) صیغۂ مضارع میں استعمال ھواھے جواستمرارپردلالت کرتاھے ،یعنی خدا وند کریم کا ارادہ ھمیشہ سے یھی رھا ھے کہ وہ انسانوں کی امامت و رھبری اور زمین کی وراثت ، ظالم و غاصب افراد سے چھین کر ان لوگوں کے سپرد فرماتا ھے جو نیک اور صالح ھوں ، یہ سیاست الھیہ دنیا کے قائم رھنے تک جاری ھے اور اس کی مکمل کامیابی اسی وقت ھو گی جب دنیا میں مستبد اور مستکبروں کے آثار باقی نہ رھیں اور زمین پر امامت ، امت مسلمہ کے نیک افراد اور الٰھی ولائق رھبروں کے سپرد ھو جائے ، یہ قرآن مجید اور پیغمبر اکرم کی بیان کی ھوئی وھی خوشخبری ھے جس کے مسلمان منتظر ھیں اور جس کو عملی جامہ پھنانے کی انھیں کوشش کرنا چاھئے ۔
عدل اور اس کے نفاذ کی ضمانت
”لقد ارسلنا رسلنا بالبینات .........․․․ان اللہ قوی عزیز “(۲۸) ”بے شک ھم نے اپنے رسولوں کو کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ھم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ عدالت پر قائم ھو جائیں اور ھم نے ( خاص )لوھا نازل کیا جس میں سخت خوف ( بھی ) ھے اور لوگوں کے لئے منافع (بھی ) اوراس لئے تاکہ اللہ یہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی بغیر دیکھے کون مدد کرتا ھے ، بے شک اللہ صاحب قوت و غلبہ اورعزیز ھے “ ۔
یہ آیت انبیا کی بعثت کا اصل مقصد واضح کرنے کے علاوہ ھمیں چند اصول اور بتاتی ھے مثلا :
(الف) تمام پیغمبر عدل و مساوات قائم کرنے کے ذمہ دار ھیں اور یہ کام معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے بغیر ممکن نھیں ۔ لھذا ملک و ملت کی تدبیرا ور سیاست کی ذمہ داری پیغمبروں کا اولین فرض ھے ۔
(ب) اس ھدف کا عملی ھونا اس قانون کی بنیاد پر ھے جو آسمان سے انسانوں کے لئے نازل ھوا ھے ۔ یعنی وہ قانون جو حق و انصاف اور حکمت کے اصولوں پر قائم ھو اور سیاست مداروں کی افراط و تفریط اور تحریف سے دور ھو ۔
(ج) اگر حکمت و نصیحت کا کوئی اثر نہ ھو اور حملہ آور افراد اسی طرح اپنے حملوں کو جاری رکھیں تو اس لوھے سے بنے ھوئے ھتھیاروں سے انھیں کچل دینا چاھئے تاکہ فتنہ و فسادکا خاتمہ ھوجائے ۔
(د) اس آیت میں جھاں سیاست کے بنیادی اصول ، حکمراں ، قانون اور نفاذ کا ذکر ھوا ھے ، وھاں ان کا مبداٴ غیب اور خالق کائنات سے تعلق کا ذکر بھی موجود ھے ۔ اس طرح عوام کا حکومت سے فکری و اعتقادی تعلق بھی ھونا چاھئے ۔ یہ مرحلہ افراد و معاشرہ ٴ انسانی کے لئے آزمائش کا مرحلہ ھے ۔ آیت کا آخری حصہ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت و عزت کی نشاندھی کرتا ھے اسی کے ساتھ یہ اشارہ بھی ملتا ھے کہ چونکہ قدرت ، عزت ، مالکیت اور ملوکیت صرف خدا کو زیب دیتی ھے لھذا انسان کسی اور ذریعے سے عزت و طاقت حاصل کرنا چاھے تو وہ ایک غلط اور نا زیباطریقہ ھے اوروہ تکبر وغرور کا راستہ اختیار کر کے ظالم اور جابر افراد کی طرح مجرم قرار پاتا ھے ۔ جبکہ انبیاء و رسل کی راہ اور الٰھی سیاست کی روش یہ نھیں ھے ۔
عدل و مساوات قائم کرنے کے بارے میں تاکید اگر چہ انبیاء و رسل کے عام پروگراموں میں شامل رھی ھے لیکن پیغمبر اسلام نے اس پر خاص توجہ فرمائی ھے ۔
قرآ ن مجید میں ان فرائض کی نشاندھی کی گئی ھے :
” و امرت لا عدل بینکم “ (۲۹) ” مجھے یہ حکم دیا گیا ھے کہ تمھارے ما بین عدل قائم کروں “ ” فاحکم بینھم بالقسط “ (۳۰)” لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو!“
مومنین سے خطاب ھے:
کونوا قوامین للہ شھدا ء بالقسط (۳۱)” ُخداکیلئے انصاف کے ساتھ گواہ بننے کیلئے تیار ھو “
عدل و انصاف قائم کرنا الٰھی حکومت کا مقدس فریضہ ھے اور یہ فریضہ انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور امت مسلمہ کے ھر فرد پر عائد ھوتا ھے کہ اپنی طاقت و توانائی کے مطابق اسے پورا کرنے کی جد و جھد کرے ۔ ظلم کا خاتمہ اور ظالموں کو ان کے اصلی ٹھکانے تک پھنچانے میں ذرہ برابربھی تامل نھیں کرنا چاھئے ۔ ظالموں کا ٹھکانا جھنم ھے ۔
” و اما القاسطون فکانوا لجھنم حطبا “ ( ۳۲) ” اور رھے نا فرمان ، تو وھی جھنم کے کندے بنے ۔“
مکتب فکر اور قیادت کے تحت اتحاد
اسلامی حکومت کے دوسرے مقاصد و فرائض میں امت مسلمہ کے اتحاد کو مستحکم کرنا اور اس کی حفاظت کرناھے ۔
” کان الناس امة واحدة فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین و انزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ و .........“ (۳۳)
” ابتدا میں سب لوگ ایک ھی حال پر تھے ۔ پھر خدا نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے انبیا ء بھیجے اور ان کے ساتھ بر حق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان جس بارے میں اختلاف ھے اس کا فیصلہ کریں ،،۔
بشریت کے اتحاد سے اختلاف و انتشار کے خطرے کو دو چیزیں دور کر سکتی ھیں، ایک مکتب فکر اور دوسری قیادت ۔ ان دونوں کا ذکر قرآن میں موجود ھے ۔ مکتب فکرسے مراد وہ دبستان و اسلوب فکر و عمل ھے جس کا ماخذ قرآن مجید اور وحی الٰھی ھے ۔ اور قیادت سے مراد پیغمبروں اور صالح افراد کی قیادت ھے ۔ امت مسلمہ کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں غیر صالح رھبروں کا دخل رھا ھے اور آج بھی امت مسلمہ کو اس افسوسناک المیہ کا سامنا کرنا پڑ رھا ھے ۔ حالانکہ اس وقت ایک ارب مسلمان دنیا میں موجود ھیں اور یہ افراد متحد ھوکر دنیا کے خونخوار دشمنوں کے مقابلے میں ایک عظیم الشان طاقت بن سکتے ھیں
۔ یہ امت اپنی ذاتی قوت، اپنی اسٹراٹیجک سیاسی و جغرافیائی حیثیت ، سونے، تیل کے زیر زمینی ذخائر اور اسلام پر بھروسہ کر کے دنیا کے تمام کاروبار کی باگ دوڑ اپنے ھاتھ میں لے سکتی ھے ۔ اس راہ میں ایک مشکل حکمران ھیں جو انسانی معاشرے میں فساد کی جڑ اور ممالک کےلئے کینسر بن چکے ھیں ۔ قرآن کے حکم کے مطابق اس طرح کی حکومتوں کی بیخ کنی کرنا چاھئے تاکہ امت متحد ھو کر ایک صالح قیادت کے تحت اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کر سکے ۔ یہ قرآن کی ھدایت ھے۔ ” فقاتلوا ائمة الکفر ۔۔۔۔۔(۳۴) وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة “ ۔(۳۵)
ارتقائے انسانیت
زندگی کی اصلی غایت انسان کی ارتقا ھے اوراگر شریعت کی تشریع اور پیغمبروں کی بعثت اسی مقصود کو عملی جامہ پھنا نے کے لئے ھوئی ھے تو یقینی طور پر اس غرض کو پورا کرنے میں حکومت کا کردار نا قابل انکار ھے ۔
ملکوں کی تباھی اور انسانوں کی گمراھی زیادہ تر ظالم و جابر حکام کے زیر نگرانی ھوئی ھے اور یھی وجہ ھے کہ قرآن مجید بار بار ان کا ذکر کرتا ھے ۔
” و لقد ارسلنا موسیٰ بآیاتنا و سلطان مبین الیٰ فرعون و ملائہ فاتبعوا امر فرعون و ما امر فرعون برشید ، یقدم قومہ یوم القیامة فاوردھم النار و بئس الورد المورود “(۳۶)
” اور بے شک ھم نے موسیٰ (ع) کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ فرعون اوراس کے سرداروں کے پاس بھیجا پھر ان سب نے فرعون ھی کے حکم کی تعمیل کی ۔ حالانکہ فرعون کا حکم سچائی سے موافق نہ تھا ۔ قیامت کے دن فرعون اپنی قوم کے آگے آگے آئے گا اور ان سب کو جھنم میں پھنچا دے گا اور وہ کیسی بری اترنے کی جگہ ھو گی جھاں وہ اتریں گے “
طاغوتی حکام انسانی ارتقا میں رکاوٹ ڈالتے ھیں ،انھیں روکنا ٹوکنا چاھئے ۔ ” فمن یکفر بالطاغوت و یوٴمن باللہ فقد استمسک بالعروة الوثقیٰ لاانفصام لھا “ (۳۷)” جو طاغوت کا انکارکرے اورخداپر ایمان لائے اس نے خدا کی ایسی مضبوط رسی کوپکڑلیا ھے جو ٹوٹنے والی نھیں ھے ۔
خدا پر ایمان اور طاغوت کاانکار ، مکتب توحید کی پھلی شق ھے : ” و لقد بعثنافی کل امة رسولا ان اعبدو اللہ و اجتنبوا الطاغوت “ (۳۸)
” اور ھم نے ھر قوم کے لئے ایک رسول بھیجا ، جوان سے کھے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت ( شیطان ) سے دوری اختیار کرو “
در اصل ارتقاء و وحدت ، صالح افراد کی حاکمیت یعنی قانون ، سیاست اور دینی ثبات ھی کے زیر سایہ ممکن ھے ، اور کفر ، ضلالت اور تباھی طاغوتی سر براھوں کا وہ پیشہ ھے جس سے وہ باز نھیں آسکتے ۔لھذا اصلاح طلب افراد کا ایمانی و انسانی فریضہ ھے کہ انسانی ارتقا کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے عناصر کو فناکے حوالے کر دیں ، تاکہ انسانیت بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کر سکے ۔ اس کے لئے یہ ضروری ھے کہ جس طرح سے حضرت ابراھیم (ع) ،موسیٰ ، حضرت محمد مصطفیٰ اور اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء و اولیاء نے عمل کیا اسی طرح عمل کیا جائے ۔ خاتم انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ نے اپنی اعلانیہ دعوت کے دوران تمام ممالک کے سربراھوں کو پیغام روانہ کیے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ظلم و ستم ڈھانے سے باز آکر تسلیم حق ھو جائیں یا مکے کے قبائلی سرداروں ، ثروت مندوں اور سود خواروں کو تنبیہ کی تھی کہ وہ محروم افراد کے استحصال سے باز آجائیں ۔ آپ پیش قدمی کرتے رھے یھاں تک کہ ان علاقوں ، حکومتوں اور قبائلی سرداروں کے افکار و خیالات میں موجود فساد کی جڑوںکو ریشہ کن کر کے ایسی اسلامی حکومت کی سنگ بنیاد رکھی جو خدا پر ایمان اور انسان کی قد ر وقیمت کی قائل ھے ۔ ” کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیاتنا و یزکیکم و یعلمکم الکتاب و الحکمة و یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون “ (۳۹)
” جیسے ھم نے تم ھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ھماری آیتیں تم کو پڑھ کر سناتا ھے،تم کو پاکیزہ کرتا ھے، تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے اور تم کو وہ سب کچہ سکھاتا ھے جو کچہ تم نھیں جانتے تھے “ ۔
رآن مجید تربیت اور تزکیہ کے لحاظ سے رھبروں کی ذمہ داری کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ھے ۔
” الذین ان مکنا ھم فی الارض .........․․․․ وللہ عاقبة الامور “ (۴۰)
”یھی وہ لوگ ھیں جن کو ھم نے زمین میں اقتدار دیاتوانھوں نے نمازقائم کی اور زکوٰة ادا کی ،اور نیک کاموں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور تمام کاموں کا انجام اللہ ھی کے ھاتھ میں ھے ۔
اس لحاظ سے سیاسی رھبروں کی ذمہ داری محض یھی نھیں ھے کہ ملک کے اقتصادیات، سیاست اور امن و امان ھی کو بحال کریں ، بلکہ اخلاق ، ایمان ، عمل ، تقویٰ ، احسان کوبحال کرنے اور فساد و منکر کو اپنی حکومت کے دائرے سے ختم کرنے کی ذمہ داری اس سے بڑھ کر ھے ، در حقیقت یہ بڑی خصوصیت ھے جو اسلام کے سیاسی نظام کو دوسرے سیاسی نظاموں پر فوقیت عطا کرتی ھے ۔
اسلامی نظام میں حقوق
حقوق بھی اسلامی سیاست کا ایک حصہ ھیں اور اس مفروضہ کی بنا پر حقوق سے وابستہ قوانین کا تعین اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسی طرح قانونی حیثیت کا حامل ھے جس طرح سے دین اسلام کی بنیاد پر مبنی اسلامی عدالتوں کے قوانین و مقررات کوقانونی حیثیت حاصل ھے ۔
قرآن مجید میں غیر شرعی اور غیر قانونی عدالتوں کا ذکر طاغوت کے عنوان سے کیا گیا ھے اور ان کی اطاعت قبول کرنا طاغوت کی اطاعت قبول کرنے کے برابر بتائی گئی ھے ، جبکہ عدالت اور انصاف کا تعلق صرف اللہ ، اس کے رسولوں اور ان کی پیروی کرنے والوں سے ھے ۔
(۵) ” یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واحسن تاویلا “ ” الم تر الی الذین یزعمون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان یضلھم ضلالا بعیدا “ (۴۱)
” اے ایمان لانے والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول(ص) کی اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم ھی میں سے ھیں پھر اگر کسی معاملے میں تم میں آپس میں جھگڑا ھو تو فیصلے کےلئے اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹادو بشرطیکہ تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ھو ۔ یھی سب سے بھتر اور عمدہ تاویل ھے ۔ کیا تم نے ان کو نھیں دیکھا جو یہ گمان کرتے ھیں کہ جو کچہ تم پرنازل کیا گیا اور جو کچہ تم سے پھلے نازل کیا گیا وہ سب پر ایمان لائے ھیں اور چاھتے ھیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم دیا جا چکا ھے کہ اس کے منکر ھوں اور شیطان یہ ارادہ رکھتا ھے کہ ان کو بھٹکا کر بڑی گمراھی میں ڈال دے۔
ان آیتوں میں ان لوگوں کی سخت مذمت کی گئی ھے جنھوں نے غیر شرعی اور غیر قانونی عدالتوں کے فیصلوں کو مانا اور ان پر عمل کیا ھے حالانکہ اسلام کے سیاسی، قانونی اور سماجی نظام میں حاکمیت اور قضا کے قانونی مقام کا تعین اللہ ، اس کے رسول اور والیان حق کے ذریعے ھونا لازمی ھے اور جو حکم ان کی جانب سے صادر ھو اس پر عمل کرنا بھی ضروری ھے۔
” و ما کان لمؤمن و لا مؤمنة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقد ضل ضلالا مبینا “ (۴۲)” کسی مومن مرد کے لئے یہ بات مناسب ھے نہ کسی مومن عورت کے لئے کہ جب خدا اور اس کے رسول نے ایک بات طے کر دی تو پھر انھیں اپنے اس معاملہ میں کچہ بھی اختیار ( باقی ) رھے ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا یقینا وہ تو کھلی گمراھی میں پڑے گا “
افراد اور اسلامی معاشرے سے وابستہ قوانین کی ضمانت شرع مقدس اور اس کے قوانین و مقررات کی روشنی میں ان شرعی حاکموں کے ذریعے ھوتی ھے جو اسلامی نظام میں والیان صالح کے ذریعے مقرر کیے جاتے ھیں ۔
قرآنی آیات کی بنا پر اب تک اسلام کے سیاسی نظام میں حکومت کے اغراض و مقاصد اور فرائض کے بارے میں جو کچہ معروضات پیش کیے جا چکے ھیں ان کا خلاصہ یہ ھے :
۱۔ مکتب حق یعنی اسلام کی حفاظت ،جو تمام فضیلتوں کی اساس ھے ۔
۲۔ طاغوت سے جنگ ،جو تمام خبائث اور تباھیوں کی جڑ ھے ۔
۳۔ مستضعفین کی حمایت اور غریبوں کی مدد ،جو دستور قرآن کی بجا آوری ھے ۔
۴۔ محروموں کے حقوق چھیننے اور غصب کرنے والوں کو کچلنا ۔
۵۔حق ،انصاف اور مساوات کی بنیادوںپر انفرادی اور سماجی حقوق کو محفوظ رکھنا ۔
۶۔ ملک کے اقتصادیات کو فروغ دینے کی غرض سے تبعیض اور استحصال پر قابو پانا ۔
۷۔ اتحاد کو محفوظ رکھتے ھوئے اختلافات کو ختم کرنا ۔
۸۔ انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ارتقا کے لئے شائستہ مکتب فکر اور رھبری کی بنیاد پر لوگوں کو تربیت دینا ۔
اسلام میں نظام حکومت
دوسرا قابل بحث موضوع اسلام میں سیاسی نظام ھے ۔ نظریات ، فلسفوں ، عرف عام اور رسم و رواج کے نقطۂ نظر سے سیاسی نظام اور حکومت کی قسمیں مختلف ھیں ۔حضرت عیسیٰ (ع) مسیح کی ولادت سے چار صدی پھلے یونانی معاشرے میں ارسطو نے ” سیاست “ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی تھی جس میں تین طرح کی حکومتوں کی طرف اشارہ کیا گیاھے : استبدادی ( شخصی ) ، اشرافی ( بالا طبقے کی حکومت ) اور ڈیموکریسی ۔ تاریخ علم سیاسیات کی طویل مدت میں ڈیموکریسی حکومت سب سے بھتر سمجھی گئی ھے ، اس سے قطع نظر کہ مفاھیم میں کس قسم کے اختلافات موجود ھیں ، لوگ اس سے کیا مراد لیتے ھیں اور کس حد تک یہ لفظ صحت و سقم پر مبنی ھے ۔ ھمارا مقصد صرف اتنا ھے کہ اسلامی سیاست و حکومت، مذکورہ حکومتوں میں سے کس حکومت سے مماثلت رکھتی ھے ؟
اس سوال کے جواب میں قرآنی آیتوں پر غور و فکر کرنے کے بعدھم اس نتیجہ پر پھنچتے ھیں کہ اسلامی معاشرے میں سیاست کا مفھوم ڈیموکریسی کے اس مفھوم سے قریب ھے جس میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب شامل نہ ھو، لیکن ان دونوں کے درمیان وہ بنیادی اختلاف بھی موجود ھے جو اسلامی نظام میں روح سیاست کے تشخص کا باعث ھوتا ھے اور وہ ھے حاکمیت خدائے لا یزال ۔
اس موضوع کو مزید واضح کرنے کی غرض سے قرآن مجید کی روشنی میں ان اصولوں کو پیش کیاجا رھاھے جن سے حکومت کو قانونی حیثیت ملتی ھے اور اس کے بعد مذکورہ خصوصیت کا تفصیلی جائزہ لیاجائے گا ۔
ومت کے بروئے کار آنے کی صورتیں
۱۔ نص : یعنی خدا اور رسول کی طرف سے تعین ۔یہ امتیاز در اصل پیغمبر و امام کو حاصل ھوتا ھے ، پھر نتیجةً” ولی فقیھہ کو ، بشرطیکہ اس میں نبی و اوصیائے نبی کے بیان کردہ اساسی صفات پائے جاتے ھوں ۔ جیسا کہ آیۂ ذیل سے واضح ھے ۔
”یاایھاالذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم “ (۴۳) ” اے ایمان لانے والو ، اللہ رسول اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم ھی میں سے ھیں “ ۔
۲۔ شوریٰ یعنی ارباب حل و عقد جو عوام کی نظر میں مقبول ھوں وھی آپس میں مشورہ کر کے نیک اور صالح ترین شخص کو انتخاب کر سکتے ھیں ۔
۳۔ رائے عامہ : نص صریح کی عدم موجودگی میں عوام ، اسلام میں مذکورہ صفات و خصوصیات کے حامل شخص کو حکمرانی کے لئے انتخاب کر کے اسے اسلامی معاشرے میں سیاست کرنے کی ذمہ داری سونپ سکتے ھیں ۔
لیکن انتخاب ھو یا شوریٰ ان دونوں کے نتیجہ میں ایک بنیادی نکتہ جو لوگوں کی فکر و توجہ کا مرکز اور جس کے ذریعے اسلامی نظام دوسرے نظاموں سے ممتاز قرار پاتا ھے ، اسلامی سیاست کے معاملوں پر ولی امر کی نظارت کا مسئلہ ھے ، جسے ھر حالت میں ھونا چاھئے ۔ اس بات کی وضاحت ضروری ھے کہ ولایت امر کا تعلق صرف پیغمبر و امام (ع) اورزمانہ غیب میں جبکہ پیغمبر و امام تک رسائی ممکن نھیں ،اس فقیہ سے ھے جسکے اندر وہ تمام شرائط پائی جاتی ھوں جو ولی امر کے لئے بیان کی گئی ھیں ۔ ولی امر لوگوں سے مشورہ اور رائے طلب کرنے کے بعد منظور ھونے والی قرار دادوں پر غور و فکر کر کے ان کو منظور یا نا منظور کر سکتا ھے اور یہ حق ولی امر کے لئے ھمیشہ سے محفوظ ھے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ھے : ” و شاور ھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “ ” آیت میں مشورہ کرنے پر زور ضرور ھے لیکن آخری فیصلہ کرنا پیغمبر کے ذمے ھے وہ بھی خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے “ ۔
لھذا اسلام کے سیاسی نظام میں شوریٰ اور رائے عامہ کی خصوصیت یہ ھے کہ دوسرے سیاسی نظام میں صرف شوریٰ اور رائے عامہ پر ھی زور دیتے ھیں اور خدا و پیغمبر سے ان کا کوئی واسطہ نھیں ھوتا جبکہ اسلامی سیاست کا زور زیادہ تر خدا اور بندوں کے درمیان حکومت میں پیغمبر کی نظارت پر ھوتا ھے ۔
جو حاکمیت ولی امر کے ذریعے عملی شکل اختیار کرتی ھے ، در حقیقت اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ھے ، البتہ لوگ بھی فکر و نظر کے مالک ھیں لیکن یہ فکر و نظر بطور مطلق نھیں بلکہ اس شرط پر ھے کہ ان کے افکار و خیالات احکام و قوانین الٰھی سے مطابقت اور ولایت امر سے موافقت رکھتے ھوں ۔” لتحکم بین الناس بما اراک اللہ “ (۴۴)
اسلام کے سیاسی نظام میں قوانین کے مآخذ
گذشتہ بحثوں کے دوران اشارہ کیا جا چکا ھے کہ اسلام کے سیاسی نظام میں احکام و قوانین وحی سے ماٴخوذ ھیں جو عالم غیب سے آنحضرت پر نازل ھوئے اور بعد میں ان کے قول و فعل سے اس کی تعبیر کی گئی ۔ امت مسلمہ کے اعتقاد کے مطابق ، قرآن مجید ان تمام اصولوں اور احکام و قوانین پر مشتمل ھے جو ھر دور اور ھر زمانے کے لحاظ سے انسانوں کی ضرورت کو پورا کرتے ھیں، لھذا ھر زمانے میں رونما ھونے والے مسائل اور جزئیات کو اس کلیہ پر منطبق کر کے ھر وقت نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ھے ۔
فقہ میں اجتھاد کا مسئلہ ایک خاص مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ ھر زمانے میں احکام و قوانین کا نفاذ ممکن ھے ۔ کیونکہ اس کا سر چشمہ ” قرآن و حدیث “ ھے ۔ قرآن و سنت سے ھر مسئلہ ، ھرضرورت اور ھر مشکل کا حل ملتا ھے ۔لھذ اسلام ،سیاست و ریاست اورقانون و آئین میں کبھی خاموش نظر نھیں آتا ۔ اجتھاد انسان کے انفرادی ، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی مسائل و معاملات میں معقول حل دریافت کر سکتا ھے ۔ ” لتحکم بین الناس بما اراک اللہ “(۴۵)
قوانین کے نفاذ کی ضمانت
اسلام کے سیاسی نظام میں اگر چہ احکام الٰھی کے نفاذ کی زیادہ تر ذمہ داری ملک کے سر براہ پر عائد ھوتی ھے ، لیکن امت کا ھر فرد بھی اس بات کا پابند ھے کہ وہ نفاذ قوانین میں خود کو ذمہ دار سمجھے ، کیونکہ اسلامی نظام میں قوانین محض خشک و جبری ضوابط نھیں ھیں جس سے لوگ اکتا کر بھاگ جائیں بلکہ ان کا شمار ان فرائض میں ھوتا ھے جن کو ایک مسلمان خدا سے لگاؤ اور اس کی خوشنودی اور سعادت حاصل کرنے کے لئے انجام دیتا ھے یھی وجہ ھے کہ اس طرح کے نظام میں قوانین کا نفاذ اسلامی حکومت کے لئے زحمت پیدا نھیں کرتا ، اگر چہ ھر معاشرے میں کچہ ایسے افراد ضرور ھوتے ھیں جو قانون شکنی پر کمر بستہ رھتے ھیں ۔اسلامی حکومت ایسے افراد سے نپٹنے کے لئے قانونی اور شرعی سزائیں دینے کی مجاز ھے اور اسلام کا قانون سزا ایسے ھی افراد کے لئے وضع کیا گیا ھے ۔ اس کے مقابلے میں معاشرے کے وہ افراد بھت نمایاں ھیں جو فکری و عملی طور پر خوشی خوشی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ھیں :
” انما کان قول المؤمنین اذا دعوا الی اللہ و رسولہ لیحکم بینھم ان یقولوا سمعنا و اطعنا و اولئک ھم المفلحون “ (۴۶)” جس وقت بھی مومنین خدا اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلائے جائیں کہ رسول ان کے ما بین فیصلہ کرے توان کا قول اس کے سوا اور کچہ ھوتا ھی نھیں کہ وہ کھتے ھیں کہ ھم نے سنا اور اطاعت کی اور وھی فلاح پانے والے ھیں ۔
” فلا و ربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم “ (۴۷)” خدا کی قسم وہ ایمان ھی نھیں لائینگے جب تک کہ اپنے ذاتی اختلافات میں تمھیں حَکَم نہ بنا لیں ۔
اسلامی معاشرے میں تو یھاں تک ھے کہ اگر کوئی مسلمان گروہ جھگڑا تا ھے تو تمام مسلمان اس گروہ کی اصلاح کرنے کے پابند ھیں اور اگر اصلاح طلب کو ششیں کرنے کے با وجود بھی فریق مخالف نہ مانے تو ان کے ساتھ وہ رویہ اختیار کریں جس سے ان کے فساد کا خاتمہ ھو جائے اور تمام اسلامی خطوں میں حق پھیل جائے ۔
” و ان طائفتان من المومنین .........․․․ان اللہ یحب المقسطین “ (۴۸)
” اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان کے ما بین صلح کرا دو ، پھر اگر ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو جو زیادتی کرتا ھے اس سے لڑو تا آنکہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف رجوع کرے ، اس وقت انصاف سے ان دونوں کے ما بین صلح کر دو اور انصاف بر تو ۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے“ ۔
انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا یہ مطلب نھیں کہ ھتھیار ڈال دیے جائیں اور مظلوم و ظالم کی پھچان نہ ھو سکے ، بلکہ اگر کسی مسلمان کی عزت و آبرو یا مال پر حملہ ھوتا ھے تو ظالم کو سزا ملنا چاھئے اور ھر صاحب حق کو اس کا حق ملنا چاھئے ۔ عدل و انصاف کا مطلب غصب شدہ حقوق واپس دلانے کے ھیں اور ان دونوں کا تعلق نا قابل تفکیک ھے ، لھذا صلح و انصاف کو ایک دوسرے کے ساتھ ھم آھنگ ھونا چاھئے تاکہ ظالموں کو سزا ملنے کے بجائے حوصلہ افزائی نہ ھو ۔
بھر حال اسلام کے سیاسی نظام سے وابستہ تمام امور میں قوانین کا ھونا لازمی ھے خواہ داخلی ھوں یا خارجی ،تاکہ اسلامی نظام افرا تفری سے بچ سکے اور امن و امان باقی رھے نیز لوگوں کے فردی و سماجی حقوق پامال نہ ھوں ۔
اب تک جن نکات پر بحث ھوئی ان کی مدد سے یہ بات واضح ھو گئی کہ تین ادارے ( مقننہ ، قضائیہ اور مجریہ ) ھر نظام کے ارکان شمار کیے جاتے ھیں ، اسلام کے سیاسی نظام میں ان اداروں کو قانونی حیثیت کھاں سے حاصل ھوتی ھے ؟ ان کے اغراض و مقاصد کیا ھیں ؟ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کا تعلق ھے ؟ اور اس کے مد مقابل عوام کا فرض کیا ھے؟ اس بحث میں آج کل کی سیاست میں منصوبوں اور پروگراموں کے نفاذ پر گفتگو کی جا سکتی ھے لیکن اس کی جزئیات پر بحث سر دست ممکن نھیں ھے ۔ 
عوام اور حکومت کا ایک دوسرے سے تعلق
اسلام کے سیاسی نظام میں عوام اور حکومت کا ایک دوسرے سے تعلق حاکم و محکوم ظالم و مظلوم اور طاقتور و کمزور جیسا نھیں ھے بلکہ یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ، عوام کے عزم و استقلال ، محبت ،تعاون اور ایمان و صداقت پر مبنی ھے ۔ یعنی وھی طرز عمل جو پیغمبر اسلام اور اللہ کے دیگر انبیاء و رسول نے اختیار کیا تھا ۔
قرآن کریم نے پیغمبر اکرم کے مقصد بعثت کی وضاحت کرتے ھوئے اس نکتہ پر خاص توجہ دلائی ھے کہ پیغمبر اکرم کی تحریک کا سارا دار و مدار اس پر تھا کہ وہ ان زنجیروں کو توڑ دیں جو اس زمانے کے لوگوں کو غلامی کے بندھن میں جکڑے ھوئے تھیں ۔
” و یضع عنھم اصرھم و الاغلال التی کانت علیھم “ (۴۹)
” یھی ولایت ھے جس کی بنیاد پر پیغمبر اور اولی الامر لوگوں پر حکومت کرتے ھیں “
” النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم “ ” نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ اختیار رکھنے والا ھے “ ۔
” فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجد وا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما “ (۵۰)
” تمھارے پروردگار کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہ ھوں گے جب تک کہ ان جھگڑوں میں جو ان کے درمیان ھوتے ھیں تم کو حاکم نہ بنا لیں پھر جو کچہ تم فیصلہ کر دو اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اس کو اس طرح تسلیم کر لیں جیسا کہ تسلیم کرنے کا حق ھے ۔
اس طرح کے نظام میں جس کی بنیاد ولایت ، ھم آھنگی اور مشترکہ مقاصد پر استوار و محکم ھے ، نہ صرف عوام اور حکومت ایک دوسرے سے جدا نھیں بلکہ عوام حکومت سے غافل نھیں رھتے ، نتیجةً نظام کی حفاظت اصلی اعتبار سے عوام و امام اور حکومت کے اتحاد پر منحصر ھو تی ھے۔
سیاسی مسائل میں علماء و عوام کی ذمہ داری
علماء دین جو اسلامی معاشرے میں صاحب فکر و نظر اور ھدایت و رھبری کے ذمہ دار سمجھے جاتے ھیں ، سیاسی مسائل میں بھی ان کی ذمہ داری عظیم و موثر ھے۔ قرآن کریم نے اھل کتاب کے مذھبی پیشواؤں میں سے ان افراد کی سخت مذمت کی ھے جنھوں نے مظالم دیکہ کر بھی ظلم کو روکنے کی کوشش نھیں کی ۔ جبکہ قرآن مجید امت مسلمہ کے ھر فرد اور خاص طور پر علماء دین کو امربالمعروف و نھی عن المنکر اور ظلم و ستم و بدعت ختم کرنے کی دعوت دیتا ھے ۔
” لولا ینٰھھم الربانیون و الاحبار عن قولھم الاثم و اکلھم السحت لبئس ما کانو ا یصنعون “(۵۱),, آخر اللہ والے اور علما ء ان کو جھوٹی بات کھنے اور حرام خوری سے کیوں نھیں منع کرتے یقینا جو کچہ وہ کرتے ھیں ‘بھت برا کرتے ھیں ،،
” لعن الذین کفر و امن بنی اسرائیل علی لسان داؤد و عیسیٰ ابن مریم ذالک بماعصوا و کانوا یعتدون ،کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ما کانوا یفعلون “ (۵۲)
” بنی اسرئیل میں سے جو کافر ھو گئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنت کی گئی ۔ یہ اس لئے کہ وہ نا فرمانی اور زیادتی کیا کرتے تھے اس سے وہ باز نہ آتے تھے ، ضرور جو کچہ وہ کرتے تھے وہ بھت ھی برا تھا “ ۔
مذکورہ آیتیں ، ظلم سے مفاھمت کرنے والوں اور ان علمائے دین کو جو ظلم کے سامنے سکوت اختیار کرتے ھیں ، کافروں میں شمار کرتی ھیں اور خدا و پیغمبر کی لعنت کا مستحق سمجھتی ھیں ۔
مذھبی علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری ان جابر و ظالم حکمرانوں کے اعمال پر نظارت اور ان پر قابو پانا ھے ۔ مسند اقتدار پر بیٹھ کر دینی مقدسات اور لوگوں کی عزت و آبرو سے کھیلنے والوں کے سامنے سکوت اختیار کرنا نا قابل معافی جرم اور سخت عذاب کا باعث ھے ۔
عوام کی ذمہ داری
اس اھم مسئلہ میں عوام کی ذمہ داریوں کوبھی معمولی نھیں سمجھنا چاھئے ، الٰھی عذابوں میں سے ایک عذاب لوگوں پر فاسد افراد کی حکومت ھے ، اس بارے میں قرآن مجید کا بیان ھے :
”واذا اردنا ان نھلک قریة امرنا مترفیھا ففسقوا فیھا فحق علیھا القول فد مرنا ھاتد میرا “ ( ۵۳)
” اور ھم جب کسی بستی کو(ان کے اعمال کی بناء پر ) ھلاک کر دینے کا ارادہ کرتے ھیں توھم اس بستی کے عیش پرست افراد کو حکم دیتے ھیں پس وہ نا فرمانی کرنے لگتے ھیں پھر وہ بستی عذاب کی مستحق ھو جاتی ھے اور ھم تھس نھس کر دیتے ھیں “ ۔
ظاھر ھے کہ اللہ تعالیٰ کے انصاف اور حکمت کی بنا پر یہ ” ھلاکت “ جو صاحب اقتدار ظالم و جابر افراد کے ذریعے عملی شکل اختیار کرتی ھے ، اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اقدام نھیں کھا جا سکتا ، بلکہ یہ ایک طرح کا عذاب ھے جس کا سامنا لوگوں کو ظلم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور سکوت اختیار کرنے کی وجہ سے کرنا پڑ رھا ھے ۔ جیسا کہ آیتیں بھی اسی طرف اشارہ کرتی ھیں :
” ذالک ان لم یکن ربک مھلک القریٰ بظلم و اھلھا غافلون “ (۵۴)
” (یہ رسولوں کا بھیجنا ) اس لئے ھے کہ تمھارا رب بستیوں کو نا حق بر باد نھیں کرتا درآنحالیکہ ان کے باشندے بالکل غافل و بے خبر ھوں “ ۔
اللہ کا طریقۂ کار یہ ھے کہ شروع میں خبر دار کرتا ھے اور لوگوں کی سیاسی ، عبادی ،سماجی ، اخلاقی ، ثقافتی اور فوجی و دفاعی وغیرہ ذمہ داریوں کو معین کرتا ھے ،پھر نیک حکمراں کو ان پر حکومت کے لئے معین کرتا ھے ۔ اب اگر لوگ ایسے حکمراں کی اطاعت نھیں کرتے تو پھر اللہ ظالم حکمرانوں کو ڈھیل دیتا ھے ، اس طریقے سے اللہ کا عذاب ظالم و جابر افراد کے ذریعے لوگوں پر نازل ھوتا ھے ۔
لھذا لوگوں کو چاھئے کہ وہ اپنا مقدر سنوار نے کی خاطر نیک رھبروں کی قیادت میں استکباری طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ھو جائیں تاکہ اللہ کی حاکمیت جو ایسے ھی نیک افراد کی حاکمیت ھے ، عملی جامہ پھن سکے ، اس لئے کہ:
” و ان الارض یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبة للمتقین “ ” زمین خدا کی ھے ، اپنے بندوں میں سے جسے چاھے وارث بنا سکتا ھے لیکن کامیاب وھی لوگ ھوں گے جو پرھیز گار اور متقی ھوں ۔
حوالے
۱۔ سورہ نمل آیت ۳۴
۲۔سورہ بقرہ ۲۴۷
۳۔سورہ آل عمران آیت ۲۶
۴۔سورہ بقرہ آیت ۲۵۱
۵۔سورہ ص ۲۶
۶۔سورہ نمل آیت ۱۶۔۱۷
۷۔سورہ یوسف آیت ۵۴تا۵۶
۸۔کھف ۸۳،۸۴
۹۔سورہ یوسف ۴۰
۱۰۔سورہ غافر آیت ۱۲
۱۱۔سورہ مائدہ آیت ۵۰
۱۲۔سورہ انعام آیت ۵۷
۱۳۔ سورہ نساء آیت ۵۶
۱۴۔ سورہ مائدہ آیت ۴۲
۱۵۔سورہ نساء آیت ۵۸
۱۶۔سورہ مائدہ آیت ۵۵
۱۷۔سورہ احزاب آیت ۶
۱۸۔ سورہ نساء آیت ۵۹
۱۹۔سورہ شعراء آیت ۵۱ ۱،۱۵۲
۲۰۔سورہ ھود ۵۹
۲۱۔سورہ ھود ۹۷
۲۲۔ سورہ بقرہ آیت ۱۲۴
۲۳۔سورہ انبیاء آیت ۷۳
۲۴۔سورہ توبہ آیت ۱۲
۲۵۔سورہ بقرہ آیت ۱۹۳
۲۶۔ سورہ قصص آیت ۴
۲۷۔ سورہ قصص آیت ۵
۲۸۔سورہ حدید آیت ۲۵
۲۹۔سورہ شوریٰ آیت ۱۵
۳۰۔سورہ مائدہ آیت ۴۲
۳۱۔ سورہ مائدہ آیت ۸
۳۲۔سورہ جن آیت ۱۵
۳۳۔سورہ بقرہ آیت ۲۱۳
۳۴۔سورہ توبہ ۱۲
۳۵۔سور ہ بقرہ ۱۹۳
۳۶۔سورہ ھود آیت ۹۶تا ۹۸
۳۷۔سورہ بقرہ ۲۵۶
۳۸۔سورہ نحل ۳۶
۳۹۔سورہ بقرہ آیت ۱۵۱
۴۰۔ سورہ حج آیت ۴۱
۴۱۔ سورہ نساء آیت ۵۹تا ۶۰
۴۲۔سورہ احزاب آیت ۳۶
۴۳۔سورہ نساء آیت ۵۹
۴۴۔سورہ نساء ۱۰۵
۴۵۔نساء ۱۰۵
۴۶۔سورہ نور آیت ۵۱
۴۷۔نساء ۶۵
۴۸۔سورہ حجرات آیت ۹
۴۹۔سورہ اعراف آیت ۱۵۷
۵۰۔سورہ نساء آیت ۶۵
۵۱۔سورہ مائدہ آیت ۶۳
۵۲۔سورہ مائدہ آیت ۷۸،۷۹
۵۳۔سورہ اسراء آیت ۱۶
۵۴۔سور ہ انعام آیت۱ ۱۳

دوسروں پر ناحق لعنت بھیجنے اور تکفیر کا حکم اور اس کے نتائج کیا ہیں؟

سوال
سلام علیکم ، دوسروں پر لعنت بھیجنے اور تکفیر کرنے کے کیا اثرات ہوتے ہیں، جبکہ ناحق ہو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
تفصیلی جوابات
ہماری دینی تعلیمات میں دوسروں پر ناحق لعن و تکفیر کرنے کی ممانعت کے علاوہ ، دین اسلام نے کسی کو اس کی اجازت نہیں دی ہے، ہمارے دینی پیشواوں کی کچھ روایتیں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ: اگر کوئی شخص کسی پر لعنت بھیجے اور وہ شخص لعنت کا مستحق نہ ہو، تو یہ لعنت خود لعنت کرنے والے کی طرف پلٹتی ہے۔
ہم، سوال میں کیے گیے موضوع کی، چند محوروں کے تحت تحقیق کرتے ہیں:
۱۔ دوسروں پر لعنت بھیجنا اور نفرین و تکفیر کرنا اور بُرا بھلا کہنا ، جبکہ طرف مقابل تکفیر و لعنت وغیرہ کا مستحق نہ ہو، قدرتی ہے ایسے کام کی شرع مقدس اسلام اور دینی تعلیمات میں ممانعت کی گئی ہے اور ایسے شخص کے لیے عذاب اخروی بھی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف اسلام کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے،جس کے احکام حکمت و مصلحت کی بنا پر ہیں، بلکہ کوئی انسان اور غیر الہٰی قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ہے اور انسانوں کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ دوسرے باشندوں کے ذاتی معاملات میں مداخلت کریں، بلکہ ایسا کام کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی بھی کی جاتی ہے۔
۲۔ اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ باایمان انسان ، نہ صرف ان چیزوں کو زبان پر جاری نہیں کرتے ہیں، جو گناہ ہوں اور کسی کی حق تلفی ہوں، بلکہ ان باتوں کو بھی زبان پر جاری نہیں کرتے ہیں جو گناہ اور منفی نہیں ہیں اور اصطلاح میں انہیں لغو کہتے ہیں۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے: " یقیناً صاحب ایمان کامیاب ہوگیے اور لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں۔[1]" یہ آیھ شریفہ کہتی ہے کہ درحقیقت مومنین ایسے تربیت ہوئے ہیں کہ نہ صرف باطل تصورات اور بے بنیاد باتوں اور بیہودہ کام انجام نہیں دیتے ہیں، بلکہ قرآن مجید کی تعبیر میں ان سے پرہیز کرتے ہیں، دوسروں کو لعن و تکفیر کرنے کی بات ہی نہیں۔
۳۔ ہماری دینی تعلیمات مین اس قسم کے کاموں کی ممانعت کے علاوہ ، دینی پیشواوں کی ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ : اگر کوئی کسی پر لعنت بھیجے اور وہ شخص لعنت کا مستحق نہ ہو تو یہ لعنت، اسی لعنت کرنے والے کی طرف پلٹتی ہے:وَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَجُلٌ الرِّيحَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) فَقَالَ لَا تَلْعَنِ الرِّيحَ فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ وَ إِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئاً لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ"[2]
" ایک شخص نے رسول خدا{ص} کے سامنے ہوا پر لعنت بھیجی،رسول خدا{ص} نے فرمایا: ہوا پر لعنت نہ بھیجو، کیونکہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہے اور بیشک جو کسی پر لعنت کرے اور وہ مستحق لعنت نہ ہو، تو وہ لعنت، لعنت کرنے والے کی طرف پلٹتی ہے۔"
اس روایت سے واضح ہے کہ ہوا پر لعنت کی گئی ہے اور اس کے خلاف برا بھلا کہا گیا ہے،نہ کہ انسان پر کہ جس کا احترام خانہ کعبہ کے احترام کے مانند ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے کردار و گفتار کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہئیے اور کسی دلیل اور شرعی حجت کے بغیر کسی کام کا اقدام نہ کریں۔
۴۔ البتہ اس نکتہ کی طرف یاددہانی کرنا ضروری ہے کہ اولیائے الہٰی کو اذیت پہنچانے والوں پر لعنت کرنا، نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کی ترجیح بھی ہے۔ لیکن جو کچھ بیان کیا گیا، مذکورہ سوال کے پیش نظر، ان افراد کے بارے میں ہے جو ناحق دوسروں پر لعنت بھیجتے ہیں اور تکفیر کرتے ہیں اور مختلف شخصیتوں کو چیلینج کرتے ہیں، نہ کہ ان لوگوں پر جنہوں نے انبیا و اولیائے الہٰی کو اذیت پہنچائی ہے کہ ان پر خدا اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد الہٰی ہے: " جو لوگ ہمارے نازل کیے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کر دینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں اور ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔[3]"
[1]مؤمنون، ۱-۲ " حقیقت میں لغو ، بعض مفسرین کے بقول ہر وہ گفتار و عمل ہے کہ جس کا قابل ملاحظہ فائدہ نہ ہو۔ ۔ "، مکارم، ناصر، تفسير نمونه، ج14، ص 195، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1372ش.
[2]کلینی، کافی، ج 8، ص 69، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1368ش.
[3]بقره، 159.