Tuesday, 29 September 2015

حضرت آدم (ع) کی خلقت سے پھلے، فرشتے کیسے جانتے تھے کہ وہ زمین پر فساد برپاکریں گے؟



اجمالی جواب :
حضرت آدم (ع) کی خلقت سے پھلے فرشتے کیسے جانتے تھے کہ وہ زمین پر فساد برپا کریں گے؟ اس کے جواب کے سلسلہ میں حسب ذیل چند وجوھات بیان کئے گئے ھیں:

۱ ۔ ملائکہ لوح محفوظ سے آگاہ ھوگئے تھے کہ حضرت آدم (ع) اور ان کی ذرٌیت زمین پر فساد و خون ریزی برپا کرے گی۔

۲ ۔ اخبار الھی سے باخبر ھوگئے تھے۔

۳ ۔ حقیقت میں یہ مطلب فرشتوں کی پیشین گوئی تھی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انسان خاک اور مادہ سے پیدا ھوا ھے، جن کے درمیان تضاد اور ٹکراؤ ایک فطری امر ھے، اس لحاظ سے انسان کی طرف سے خون ریزی اور فساد کی پیشین گوئی کرتے تھے۔

۴ ۔ بعض دوسرے مفسرین کا اعتقاد ھے کہ فرشتوں نے چونکہ آدم (ع) سے پھلے والے انسانوں کا دوسرے عالمین یا اسی عالم میں مشاھدہ کیا تھا اس لئے انھوں نے اس قسم کی پیشین گوئی کی ھے۔

مذکورہ مختلف تفسریں ایک دوسرے کی منافی نھیں ھیں، یعنی ممکن ھے کہ یہ سب امور اس مطلب کے بارے میں فرشتوں کی توجہ کا سبب بنے ھوں۔
تفصیلی جواب :
جب تمھارے پروردگار نے ملائکہ سے کھا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والاھوں” اور انھوں نے (حقیقت کو سمجھنے کے لئے اور نہ اعتراض کے عنوان سے) کھا کہ کیا اسے بنائے گا جو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرے؟! جب کہ ھم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ھیں؟
لیکن خداوند متعال نے یھاں پر ایک اجمالی جواب دیا ھے، جس کی وضاحت بعد مین آشکار ھوئی ھے، ارشاد ھوا کہ:“میں وہ جانتا ھوں جو تم نھیں جانتے ھو!۔”[1]

فرشتوں کی باتوں سے معلوم ھوتا ھے کہ انھیں پتہ چلاتھا کہ یہ انسان فساد برپا کرے گا، خون ریزی کرے گا اور خرابیاں کرے گا۔ لیکن انھیں یہ کھاں سے معلوم ھواتھا؟! [2] اس سلسلہ میں چند وجوھات بیان کئے گئے ھیں:

۱ ۔ خداوند متعال نے انسان کے مستقبل کے بارے میں اجمالی طور پر بیان کیا تھا، اور یہ دو صورتوں میں بیان کیاگیا ھے:

الف: ملائکہ کو لوح محفوظ سے معلوم ھو چکا تھا کہ حضرت آدم (ع) اور ان کی ذریت زمین میں فساد اور خون ریزی برپا کرے گی، اس لحاظ سے تعجب کی حالت میں سوال کرتے ھیں کہ تو کیا ایک ایسے شخص کو زمین میں قرار دیتا ھے جو فساد اور خون ریزی برپا کرے گا؟[3]

ب: اخبار الھی سے، یعنی خداوند متعال نے ملائکہ کو خبر دی تھی کہ اس آدم کی اولاد میں سے ایسے افراد پیدا ھوں گے جو فساد اور خون ریزی برپا کریں گے۔ جب خداوند متعال نے آدم کو پیدا کیا تو فرشتوں نے اسی لئے سوال کیا تاکہ سمجھ لیں کہ کیا یہ وھی ھے جس کے بارے میں خداوند متعال نے کھا تھا، کہ اس کی ذرٌیت فساد برپا کرے گی، یا کوئی اور ہے؟ [4]
۲ ۔ بعض لوگوں نے خیال کیا ھے کہ فرشتوں نے اس مطلب کو خداوند متعال کے کلام سے سمجھا ھے، جھاں پر ارشاد فرمایا: ”میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والاھوں” فرشتے سمجھ گئے کہ زمین میں حاکمیت اور وہ بھی محدود امکانات کے ساتھ ، انسانی نسل میں مشکلات پیدا کرے گی اور یہ مشکلات اور ٹکراؤ آخر کار فساد و خونریزی میں تبدیل ھوں گے،[5] حقیقت میں فطری مزاحمتوں کی صحیح پیشین گوئی کے پیش نظر جو وہ خاکی و مادی انسان کے بارے میں خون ریزی و فساد کی پیشین گوئی کرتے تھے،[6] بہ الفاظ دیگر ملائکہ نے اس مطلب کو لفظ ”فی الارض” (زمین میں) سے سمجھا تھا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انسان کو خاک سے پیدا کیا جارھا ھے اور مادہ اپنی محدودیتوں کے پیش نظر فطری طور پر لڑائی جھگڑوں کا مرکز ھے، کیونکہ یہ محدود مادی دنیا، انسان کی نفسانی خواھشات کو پورا نھیں کرسکتی ھے، حتی کہ اگر پوری دنیا بھی ایک شخص کو بخش دی جائے، پھربھی ممکن ھے کہ وہ مطمئن نھیں ھوگا، یہ حالت، خاص کر اس صورت میں رونما ھوتی ھے جب انسان میں کافی حد تک ذمہ داری کا احساس موجود نہ ھو اور یھی فساد اور خونریزی کا سبب بن جاتا ھے۔[7]

علامہ طباطبائی فرماتے ھیں: ”کیونکہ وہ (ملائکہ) جانتے تھے کہ یہ زمین مادی ھونے کی وجہ سے ، غضبی و شھوانی قوا کی مرکب ھونی چاھئے، اور چونکہ زمین لڑائی جھگڑے کا مرکز اور مختلف جھات کے لحاظ سے محدود ھے، اور اس میں ٹکراؤ اور مزاحمتیں زیادہ ھوتی ھیں ، اس کی ترکیب منحل ھونے کے خطرات سے دوچار ھے اور اس کے انتظامات اور اصلاحات، فساد اور بطلان میں تبدیل ھوجاتے ھیں۔ اس میں قطعی طور پر نوعی اور اجتماعی زندگی فراھم نھیں ھوتی ھے اور اس میں بقاء کمال تک نھیں پھنچتی ھے، اور معلوم ھے کہ سر انجام اس قسم کی زندگی فساد و خونریزی میں تبدیل ھوتی ھے۔[8]
۳ ۔ بعض دوسرے مفسرین اعتقاد رکھتے ھیں کہ فرشتوں نے حضرت آدم (ع) سے پھلے والے انسانوں کو دوسرے عالمین میں [9]یا اسی عالم میں دیکھا تھا اور اسی لئے پیشین گوئی کررہے تھے، اور وہ جانتے تھے کہ حضرت آدم (ع) زمین پر پھلے انسان نھیں تھے، بلکہ ان سے پھلے بھی دوسری مخلوقات تھیں، جنھوں نے زمین پر لڑائی جھگڑے اور خونریزی کی تھی، اسی وجہ سے وہ نسل آدم کے بارے میں بدظن ھوگئے تھے۔[10]

مذکورہ تین قسم کی تفسریں آپس میں منافات نھیں رکھتی ھیں، یعنی ممکن ھے یہ سب امور فرشتوں کے اس مطلب کی طرف توجہ کا سبب بنے ھوں، اور اتفاق سے یہ ایک حقیقت تھی کہ انھوں نے اسے بیان کیا ھے اور اس لحاظ سے خداوند متعال نے بھی ان کے جواب کا ھرگز انکار نھیں کیا ھے، بلکہ اشارہ فرمایا ھے کہ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ، انسان کے بارے میں اور بھی اھم تر حقیقتیں پائی جاتی ھیں کہ فرشتے ان حقائق سے آگاہ نھیں ھیں! وہ خیال کرتے تھے کہ اگر مقصد عبودیت و بندگی ھے، تو ھم اس کے مکمل نمونہ ھیں اور ھمیشہ عبادت و بندگی میں غرق ھیں اور خلافت کے لئے دوسروں سے زیادہ سزا وار ھیں! لیکن وہ اس سے غافل تھے کہ ان کی عبادت کی وجہ شھوت، غضب، اور نفسانی خواھشات سے ان کا پاک و منزہ ھونا تھا اور انسان کی بندگی، نفسانی خواھشات اور شیطانی وسوسوں کے ھونے کے باوجود ان پر کنٹرول کرکے انجام دینے میں زمین تا آسمان کا فرق ھے۔ اس طوفان سے دوچار مخلوق کی اطاعت و فرمانبرداری کھاں اور ملائکہ کی اس حالت میں اطاعت و فرمانبرداری کھاں؟! وہ کیا جانتے کہ اسی آدم (ع) کی نسل سے حضرت محمد مصطفیٰ (ص)، حضرت ابراھیم (ع)، حضرت نوح (ع)، حضرت موسیٰ (ع) جیسے پیغمبر، اھل بیت اطھار (ع) کے علاوہ صالح، جاں نثار مرد وزن پیدا ھوں گے جو اپنی پوری ھستی کو عاشقانہ طور پر راہ خدا میں فدا کریں گے، اور یہ ایسے افراد ھوں گے، جن کا ایک گھنٹہ تفکر فرشتوں کی برسوں کی عبارت کے برابر ھے۔[11]
[1] ۔ "قالُوا أَ تَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها وَ يَسْفِكُ الدِّماءَ". بقرہ/۳۰
[2] مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، ج 1، ص 173، دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع 1374 ش، طبع اول.
[3] طبرسى، فضل بن حسن، ترجمه جوامع الجامع، ج 1، ص 62، تحقيق: با مقدمه آية الله واعظ زاده خراسانى، ناشر بنياد پژوهش هاى اسلامى آستان قدس رضوى، طبع 1377 ش، طبع دوم.
[4] ملاحظہھو: ایضاً؛ تفسير نور، ج 1، ص 87.
[5] جعفرى، يعقوب، كوثر، ج 1، ص 122، 123.
[6] تفسير نور، ج 1، ص 87.
[7] تفسير نمونه، ج 1، ص 173-175. مترجمان، تفسير هدايت، ج 1، ص 136، ناشر، بنياد پژوهش هاى اسلامى آستان قدس رضوى، مشهد، 1377 ش، طبع اول
[8] طباطيايي، محمد حسين، ترجمه الميزان، ج 1، ص 177، ترجمه تفسير الميزان، مترجم، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ناشر، دفتر انتشارات اسلامى جامعۀ مدرسين حوزه علميه قم، قم،طبع 1374 ش، طبع پنجم.
[9] تفسير نور، ج 1، ص 87.
[10] مزید آگاھی کے لئے ملاحطہ ھو: ”خلقت حضرت آدم (ع) و یافته های دانشمندان“، سؤال 2999 (سایت: 3297)
[11] تفسير نمونه، ج 1، ص 173-175.
منبع : اسلام کوئسٹ ڈاٹ نٹ

No comments:

Post a Comment