Tuesday, 29 September 2015

*** معاشرے کی ایک اہم برائی: اولاد میں عدم مساوات اور تعلیمات رسول عربی ***


ہمارے معاشرے میں نا انصافی بڑتھتی جا رہی ہے اور یہاں پر تقریبا ہر آدمی اپنی اپنی ذات اور اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے نا انصاف ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ نا انصافیاں گھروں میں بھی بہت ذیادہ شدت کے ساتھ سرایت کر چکی ہوئی ہیں۔ ایک ہی گھر میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ عدل و انصاف سے کام نہیں لیتے۔ کسی ایک بچے سے ذیادہ پیار کرتے ہیں (عموما لڑکوں سے) اور دوسرے بچے سے کم پیار کرتے ہیں اور اپنی اولاد میں ایک واضح فرق رکھتے ہیں۔ افسوس صد افسوس تو اس بات پر ہے کہ اس بیماری میں پڑھے لکھے اور جاہل دونوں طبقے ہی مبتلا ہیں۔

چنانچہ اسی اہم معاشرتی پہلو ہم آج ہم یہ مختصر سی پوسٹ آپ سب کے ساتھ شئیر کر رہے ہیں تا کہ اس غلط روش کا خاتمہ ہو سکے اور لوگوں کو سمجھایا جائے کہ بطور ایک والد یا والدہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں۔

اللہ کی ایک صفت عادل بھی ہے۔ یعنی اللہ بھی نا انصاف نہیں ہے اور اللہ لوگوں کو عدل کی تلقین کرتا ہے۔

إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ۔ ۔ ۔ ۔

"بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔"
(سورہ النحل، آیت 90)

اسی طرح رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

سووا بین اولادکم فی العطیہ

"اپنے بچوں میں ہدیہ دینے میں مساوات قائم کرو۔"
(نہج الفصاحتہ، صفحہ 519، طبع بیروت، مفاتیح الحیات، صفحہ 236)

ایک اور جگہ پر آپ (ص) فرماتے ہیں:

ان النبی ابصر رجلا لہ ولدین فقبل احد ھما و ترک الاخر فقال رسول اللہ فھلا واسیت بینھما۔

"رسول خدا نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے دو بچے تھے صرف ایک کا بوسہ لیتا تھا ، آپ (ص) نے اس سے فرمایا: اپنے بچوں کے درمیان عدالت اور مساوات قائم کرو۔"
(کتاب الجعفریات، صفحہ 55، طبع قم، مفاتیح الحیات، صفحہ 236)

اسی طرح آپ (ص) فرماتے ہیں:

اعدلوا بین اولادکم فی السر کما تحبون ان یعدلو بینکم فی البر و اللطف

"اپنے بچوں کے درمیان عدالت سے کام لو جس طرح تم پسند کرتے ہو کہ وہ تمھارے ساتھ نیکی اور لطف کرنے میں عدالت سے کام لیں۔"
(مکارم الاخلاق، صفحہ 218، طبع بیروت)

بیٹیوں سے متعلق رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

من دخل السوق فاشتری تحفتہ فحملھا الی عیالہ کان کحامل صدقہ الی قوم محاویج ولیبتدا بالاناث قبل الذکور فانہ من فرح انثی فکانما اعتق رقبتہ من ولد اسماعیل۔

"جو شخص بازار جاتا ہے اور تحفہ خرید کر لے آتا ہے اور وہ اپنے اہل و عیال کو دیتا ہے ایسا شخص درحقیقت فقیروں کے لئے صدقہ دے رہا ہوتا ہے۔ بچیوں کو بچوں پر مقدم رکھو کیونکہ جو شخص بیٹیوں کو خوشحال رکھتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے حضرت اسماعیل (ع) کی نسل سے ایک غلام آزاد کیا ہو۔"
(ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، صفحہ 210، طبع قم)

ایک اور مقام پر آپ (ص) نے فرمایا:

ولو کنت مفصلا احدا الفصلت الاناث

"اپنے بچوں کو ہدیہ دیتے وقت مساوات قائم کرو اگر چاہتے ہو کہ کسی کو ذیادہ ہدیہ دو تو پہلے بیٹیوں کو دو۔"
(الخلاف طوسی، جلد ۳، صفحہ 542، طبع قم)

عزیزان اگر آپ اپنے گھر میں ہی انصاف نہیں کریں گے اور اپنی اولاد کے ساتھ عدل نہیں کریں گے تو آپ کی اولاد ایک تو آپ سے بدظن ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ آپ ان کی نظر میں گر جائیں اور پھر وہ باہر کسی اور کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔

اسی طرح سے یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے بچے احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں اور بچوں میں ایک دوسرے کے خلاف حسد پیدا ہو جائے دل میں۔ اور جب آپ نے ان کی تربیت میں ہی عدل و انصاف نہیں رکھا تو پھر وہ دوسروں سے کیسے عدل و انصاف سے پیش آئیں گے ؟ اسی وجہ سے معاشرے میں پھر بے ایمان اور نا انصاف لوگوں کی کثرت ہو رہی ہے۔ لہذا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تربیت میں کمی کی وجہ سے ان کے دل میں بے ایمانی اور ملاوٹ آ جائے۔

ان سب باتوں کا شائد احساس ماں باپ کو نہ ہو لیکن یہ باتیں انتہائی گہرا اثر چھوڑتی ہیں بچوں پر۔ اسی وجہ سے رسول اللہ (ص) نے بھی آپ سب کو انصاف سے پیش آنے کی نصیحت کی ہے۔

اسلام کی آمد سے پہلے بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا تھا۔ اس نا انصافی کو رسول اللہ (ص) نے آ کر ختم کیا۔ لیکن بدقستمی سے ہندو کلچر کی وجہ سے ہمارے ہاں آج بھی جہالت چل رہی ہے۔ اس لئے اس جہالت کا خاتمہ کیجئے۔ تعلیمات اسلام پر عمل کیجئے۔ اپنے اوپر اسلام کا صرف لیبل ہی مت لگائیں۔

اسی طرح سے صحیفہ سجادیہ میں حضرت امام زین العابدین (ع) کی ایک دعا بھی ہے جو ماں باپ کو ضرور پڑھنی چاہئے اپنی اولاد کے حوالے سے۔

No comments:

Post a Comment