تدوین ونگارش:ملک حسنین رضاعسکری
رسول اکرمؐ اورباقی معصومین (ع)کی شفاعت اورقرآن مجیدکی سورہ بقرہ کی آیت نمبر123کہ جوفرمارہی ہے۔ ﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾ اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کافدیہ نہ ہوسکے گااورنہ کوئی معاوضہ کام آئے گا،نہ کوئی سفارش ہوگی اورنہ کوئی مددکی جاسکے گی۔کے درمیان اختلاف کاوہم اس لئے پایاگیاہے کہ
اوّلاً:
اس آیت کے ماقبل اورمابعدکی طرف توجہ نہیں کی جاتی؛بلکہ اسی آیت کے ظاہر کی طرف دیکھاجاتاہے اوربس۔
دوّماً:
قرآن مجیدمیں فقط ان آیات کی طرف توجہ کی جاتی ہے کہ جوآیات شفاعت کوخداوندمنّان کی ذات کے ساتھ مختص کرتی ہیں اوران کثیرآیات کی طرف توجہ نہیں کی جاتی کہ جو شفاعت کواذن پروردگار کے ساتھ معصومین(ع)کیلئے بھی جائز سمجھتی ہیں۔
قیامت کے دن شفاعت کامسئلہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یقینی اورمسلّم ہے اورکوئی بھی مسلمانوں کافرقہ اس کاانکار نہیں کرتااورسورہ بقرہ کی آیت نمبر123بھی دودلیل کی وجہ سے شفاعت کاانکار نہیں کررہی ہے۔
دلیل اوّل:
اگراس آیت کے ماقبل اورمابعدکی طرف نگاہ کی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ یہ آیت کسی خاص قسم کی شفاعت کی نفی کررہی ہے اوروہ شفاعت ہے کہ جس کے بارے میں یہودی سماج اوربنی اسرائیل عقیدہ رکھتے تھے کہ اس دنیاکی طرح آخرت میں بھی دوستی اوررشتہ داری کی بناپرخداکے عذاب سے نجات پالیں گے۔[1]
لہذاجملہ((واتقوا))کامخاطب بنی اسرائیل ہیں اوراس سے پہلے والی آیت یہ ہے:﴿يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾[2]اے بنی اسرائیل ان نعمتوں کویادکروجوہم نے تمہیں عنایت کی ہیں اور جن کے طفیل تمہیں سارے عالم سے بہتر بنادیاہے۔
دلیل دوّم:
سورہ بقرہ کی یہ آیت غیرخدا کی اس شفاعت کی نفی کررہی ہے جو مستقل اورخداکےاذن کےبغیرہو،لہذایہ آیت گناہ گاروں کی شفاعت کرنے کی نفی نہیں کررہی ہے۔
توضیح:
شفاعت کے مسئلہ کومزیدواضح کرنے کیلئے ضروری ہے کہ چندچیزوں کی وضاحت کی جائے۔
1۔شفاعت کامعنی
لغت میں شفاعت،مادہ (شَفَع)سے لیاگیاہے کہ جومتعددمعانی میں استعمال کیاجاتاہے مثلاً:جفت،جوکہ طاق کے مقابلہ میں ہوتا ہے،زیادہ کرنا،درخواست کرنا،پشت پناہی کرنا۔[3]
علّامہ محمّد حسین طباطبائی فرماتےہیں:اصل میں شفاعت(شَفع)یعنی جفت سے لیاگیاہےکہ حقیقت میں شفاعت کرنے والااس ناقص وسیلہ کے ساتھ مل جاتا ہے جوشفاعت چاہنے والے کے پاس ہوتاہے اورشفاعت کرنے والااوروہ وسیلہ دونوں مل کر وہ مقاصدحاصل کرسکتے ہیں کہ جن کو شفاعت ہونے والااپنے ضعیف اور کمزوروسیلہ کی بناپرحاصل نہیں کرپا رہا تھا۔[4]اس لحاظ سے شفاعت،ناقص وسیلہ کوکامل کرنے والی اورحقیقت میں سبب اورمسبب کے درمیان واسطہ ہوتی ہے۔
2۔شفاعت کی اقسام
(۱لف)شفاعتِ تکوینی:
اس قسم کی شفاعت اپنے عام معنی میں استعمال ہوئی ہے کہ جوتمام موجودات کوشامل ہے ؛یعنی تمام مخلوقات،انسانوں تک خداکی رحمت پہچانے کاواسطہ ہیں کہ حقیقت میں وہ واسطہ فیض اور انسان کے ہدف تک پہنچنے کیلئے اس کی مددکرتے ہیں۔
(ب)شفاعتِ تشریعی:
اس قسم کی شفاعت ہراس واسطہ کوشامل ہے کہ جوانسان کوصراط مستقیم اورشریعت حقہ کی طرف راہنمائی کرے،اس قسم کی شفاعت کی بھی بہت ساری اقسام ہیں کہ جن کواس تحریر میں بیان کرنے کی گنجاءش نہیں ہے؛فقط اس حدتک اشارہ کیا جاتاہے کہ ان میں سے ایک قسم،شفاعت مغفرت ہے کہ جس کے متعلق ہماری بحث ہے اور شفاعت مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ آلودگی وناپاکی وگناہوں کی بخشش کیلئے وسیلہ بنانا۔
3۔قرآن میں شفاعت
جن آیات میں شفاعت کامسئلہ بیان ہواہے وہ آیات دوطرح کی ہیں:کچھ آیات،شفاعت کی سرے سے نفی کرتی ہیں اورکچھ آیات،شفاعت کوغیرخدا کیلئے،خدا کی اجازت سے جائزسمجھتی ہیں۔
الف)شفاعت کی نفی کرنے والی آیات:
﴿أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا﴾[5]
کیاان لوگوں نے خداکوچھوڑکرسفارش کرنے والے اختیارکرلئے ہیں توآپ کہہ دیجئے کہ ایساکیوں ہے چاہے یہ لوگ کوئی اختیارنہ رکھتے ہوں اورکسی طرح کی بھی عقل نہ رکھتے ہوں،کہہ دیجئے کہ شفاعت کاتمامتراختیاراللہ کے ہاتھوں میں ہے۔
﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾[6] اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کابدل نہ بن سکے گااورکسی کی سفارش قبول نہ ہوگی،نہ کوئی معاوضہ لیا جائے گااورنہ کسی کی مددکی جائے گی۔
﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾[7] اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کافدیہ نہ ہوسکے گااورنہ کوئی معاوضہ کام آئے گا،نہ کوئی سفارش ہوگی اورنہ کوئی مددکی جاسکے گی۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ﴾[8]اے ایمان والوجوتمہیں رزق دیاگیاہے اس میں سے راہ خدامیں خرچ کروقبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اورنہ سفارش۔
جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا آیات مذکور شفاعت کی نفی کررہی ہیں مخصوصاً آخری تین آیات میں قیامت کے دن صراحتاً شفاعت کی نفی کی گئی ہے۔
ب)شفاعت کوثابت کرنے والی آیات
﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الأَمْرَ مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ﴾[9]بیشک تمہاراپروردگاروہ ہے جس نےزمین وآسمان کوچھے دنوں میں پیداکیاہے پھراس کے بعدعرش پراپنااقتدارقائم کیاہے وہ تمام امورکی تدبیرکرنے والاہے کوئی اس کی اجازت کے بغیرشفاعت کرنے والانہیں ہے۔
﴿يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا﴾[10]اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدانے اجازت دے دی ہواوروہ ان کی بات سے راضی ہو۔
﴿إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ، يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ،إِلَّا مَن رَّحِمَ اللَّهُ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾[11]بیشک فیصلہ کادن ان سب کے اٹھائے جانے کامقررہ وقت ہے،جس دن کوئی دوست دوسرے دوست کے کام آنے والانہیں ہے اورنہ ان کی کوئی مددکی جائے گی،علاوہ اس کے جس پرخدارحم کرے کہ بیشک وہ بڑا بخشنے والااورمہربان ہے۔
﴿وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ،لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ،يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾[12]
اورلوگوں نے یہ کہناشروع کردیاکہ اللہ نے کسی کوبیٹابنالیاہے حالانکہ وہ اس امرسے پاک وپاکیزہ ہے؛بلکہ وہ سب اس کے محترم بندے ہیں،جوکسی بات پراس پرسبقت نہیں کرتے ہیں اوراس کے احکام پربرابرعمل کرتے رہتے ہیں،وہ ان کے سامنے اور ان کےپسِ پشت کی تمام باتوں کوجانتاہے اورفرشتے کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے مگریہ کہ خدااس کوپسندکرے اوروہ اس کے خوف سے برابرلرزتے رہتے ہیں۔
جیساکہ ان آیات کے ظاہرسے یہ معلوم ہورہاہےکہ قیامت کے دن خداکی اجازت سے شفاعت ہوگی،اب ان
دونوں قسم کی آیات کومدنظررکھ کریہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ قیامت کے دن شفاعت کے کچھ قوانین واصول ہیں اوروہ یہ کہ قیامت میں شفاعت استقلالی نہیں ہے؛بلکہ خداکی اجازت واذن کے ساتھ ہے؛یعنی اصل میں شفاعت فقط وفقط خداوند متعال کی ذات کے ساتھ مختص ہے؛لیکن بعض مقامات پرخداکی رحمت وشفقت موجب بنتی ہے کہ ان کے خاص بندے مانند:انبیاء واولیاء کوبھی اجازت مل جاتی کہ وہ بھی شفاعت کریں۔
اس بناپرقیامت کے دن شفاعت کے جوازکامسئلہ مسلّم اوریقینی ہے اورعلمائے اسلام نے بھی اس بات کی وضاحت فرمائی ہے اوراگرشفاعت کے بارے میں اختلاف ہے تووہ شفاعت کے معنی اور ملاک کے بارے میں ہے نہ اصل شفاعت کے بارے میں۔
مسلمانوں میں سے معتزلہ اورخوارج اصل شفاعت کوقبول کرنے کے باوجودشفاعت کی تفسیرمیں باقی مسلمانوں سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں؛ان کاخیال ہے کہ شفاعت فقط نیک وفرماںبردارافرادکوشامل ہے نہ گناہ گاروں کو؛یعنی پیغمبرؐ کی شفاعت کے نتیجہ میں نیک افرادکے درجات بلندہونگے لیکن گناہ گاران کی شفاعت کے ذریعہ نجات حاصل نہیں کرسکتے۔[13]
علمائے اسلام کے نظریات
علّامہ محمّدحسین طباطبائی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸کے ذیل میں دونوں قسم کی آیات(شفاعت کی نفی کرنے والی آیات وشفاعت کواثبات کرنے والی آیات)کوذکرکرنے کے بعد نتیجہ اخذکرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:اگرچہ بعض آیات،شفاعت کی نفی کرتی ہیں لیکن بعض دوسری آیات جوشفاعت کی تائیدکرتی ہیں کومدّنظررکھ کریہ قبول کرناپڑتاہے کہ قرآن کی آیات اصلِ شفاعت کوبغیرکسی اشکال کے ثابت کررہی ہیں؛لیکن بعض آیات،اصل شفاعت کو خداوندسے مخصوص کررہی ہیں اورغیرخداکے معاملہ میں شفاعت کوخداکی اجازت اوراس کے اذن کے ذریعہ ثابت کررہی ہیں۔[14]
فخررازی سورہ بقرہ کی آیت۴۸ کے ذیل میں شفاعت کومسلمانوں کے درمیان امرمسلّم اورمتفقٌ علیہ سمجھتے ہیں،اگرچہ معتزلہ کاباقی مسلمانوں کے ساتھ تفسیرِشفاعت میں اختلاف کوبھی ذکرکیاہے۔[15]
شیخ طوسی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸ کے ذیل میں فرماتے ہیں:یہ آیت کافروں کے ساتھ مربوط ہے،کیونکہ پیغمبراکرمؐ قیامت کے دن مؤمنوں کی شفاعت کریں گے اوران کی شفاعت کے نتیجہ میں گناہ گارافرادعذاب خداسے نجات پائیں گے۔[16]
فتّال نیشاپوری اس آیت ﴿عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا﴾[17]عنقریب آپ کاپروردگاراسی طرح آپ کومقام محمودتک پہنچادےگا۔کے ذیل میں فرماتے ہیں:مقام محمودسے مرادیہ ہے کہ پیغمبراکرمؐ شفاعت کریں گے اورفتّال نے ایک روایت بھی رسول خداؐ سے نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: (المقام الذی أشفع فيه لأمتی)وہ مقام کہ جس میں میں اپنی امّت کی شفاعت کرونگا۔[18]
مرحوم طبرسی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸ کے ذیل میں فرماتے ہیں:تمام مسلمان اس بات پرمتفق ہیں کہ قیامت کے دن رسول خداؐ کی شفاعت قبول ہوگی،اگرچہ اس کی کیفیت میں معتزلہ اورباقی مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے کہ معتزلہ معتقد ہیں کہ شفاعت فقط مطیع افرادکے شامل حال ہوگی؛لیکن ہم(شیعہ)معتقدہیں کہ شفاعت کاہدف،گناہ گاروں کوعذاب سے نجات دلاناہے۔پھرفرماتے ہیں:نہ فقط رسولؐ کی شفاعت؛بلکہ ان کے برگزیدہ اصحاب ومعصومین(ع)وباایمان وصالح افرادکی بھی شفاعت قابل قبول ہوگی۔[19]
ابوالفتوح رازی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸ کے ذیل میں فرماتے ہیں:یہ آیت کفارومعاندین کے بارے میں ہے معتزلہ کے علاوہ تمام مسلمان شفاعت کوقبول کرتے ہیں،پھر رازی ان آیات کوذکرکرتے ہیں جوروزقیامت شفاعت پردلالت کرتی ہیں۔[20]
میمون بن محمدنسفی نے بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کیاہے اوروہ قیامت کے دن رسول ؐ کی شفاعت کومسلمانوں کے نزدیک ایک مسلّم اور قطعی امرسمجھتاہے۔[21]
حتی کہ وہابی حضرات بھی کہ جن کے بہت سارے علماء شفاعت کے منکرہیں،کلی طورپرشفاعت کاانکارنہیں کرتے؛ بلکہ رسول ؐ کی قیامت کے دن خداوندکے اذن سے شفاعت کوقبول کرتے ہیں۔[22]
گذشتہ بحث کی روشنی میں یہ ظاہرہوجاتاہے کہ جوآیات شفاعت کی نفی کررہی ہیں مثل سورہ بقرہ کی آیت نمبر۱۲۳، اس سے مرادوہ شفاعت ہے جو خداکے اذن کے بغیرہو،پس شفاعت ایک اصل مسلّم ہے کہ جس میں شک وتردید گویااسلام کے اساسی مسائل میں شک وتردیدہے۔
شفاعت ا وروحدانیت
یہاں پرایک سوال اورپھراس کاجواب پیش کیاجاتاہے،سوال یہ ہے کہ انبیاء واولیاء کی شفاعت خداکی وحدانیت کے ساتھ کیسے سازگارہے؟
مزیدوضاحت:جیساکہ روشن ہوچکاہے کہ مسلمانوں کے نزدیک شفاعت ایک اصل مسلّم اوریقینی امرہے، وہابیوں اورابن تیمیہ کی نگاہ میں (کہ جس کی تفصیل بعدمیں بیان کی جائے گی)اگرکوئی پیغمبراسلام ؐ یاائمہ معصومین(ع)سے شفاعت کی درخواست کرے تو وہ مشرک ہوجاتاہے؛کیونکہ اس نے معصومین(ع)کوخداکے مقابلہ میں لاکھڑاکیاہے کہ جو وحدانیت ِخداکے ساتھ سازگار نہیں ہے۔
جواب: شفاعت،مصدرِ شفیع سے لیاگیاہے کہ لغت میں جس کامعنی،وساطت،پشتبانی،[23]نتیجہ مطلوب تک پہنچنے کیلئے کسی چیزمیں ہمراہ ہوناہے۔[24]
علم کلام کی اصطلاح میں شفاعت، خداکی وہ رحمت ومغفرت ہے کہ جوانبیاء واولیاء کے وسیلہ سے بعض بندگانِ خدا کوشامل ہوتی ہے۔[25]
رسول خداؐ کے زمانہ سے لیکرآج تک مسلمانوں کایہ شیوہ رہاہے کہ اپنی زندگی میں اورمرنے کے بعد،سچے وصادق شافعین سے شفاعت کرنے کی درخواست کریں اورعلمائے اسلام ومفکرین اسلامی میں سے کسی ایک نے بھی اس قسم کی درخواست کواصول ومبانی اسلامی کے خلاف نہیں سمجھا،ساتویں صدی میں ابن تیمیہ نےاس مسئلہ(شفاعت)میں اوربہت ساری سنتوں میں مخالفت شروع کی ہے،ابن تیمیہ کے تین سوسال بعد،محمدبن عبدالوہاب نجدی نے دوبارہ مخالفت کاپرچم بلندکیااور ابن تیمیہ کے مکتب فکرکوزندہ کیا۔[26]
اصل شفاعت کووہابی بھی قبول کرتے ہیں فقط شفاعت کے جزی احکام میں اورشفاعت کی خصوصیات میں اختلاف کرتے ہیں۔
وہابیوں کی نگاہ میں شفاعت اُس صورت میں درست ہے کہ انسان مستقیماً خداسے طلب کرے کہ رسول اکرمؐ یاجس کسی کوشفاعت کی اجازت ہے وہ اس کے حق میں شفاعت کریں۔
ابن تیمیہ کہتاہے:
اگرکوئی کہے کہ خداکاقرب حاصل کرنے کیلئے چاہتاہوں،پیغمبرؐ ان امورمیں میری شفاعت کرے،اس کایہ کام مشرکانہ ہے۔
محمدبن عبدالوہاب کہتاہے:
شفاعت کی طلب فقط خداسے ہونی چاہیے نہ شافعان سے؛یعنی اس طرح کہناچاہیے:خدایاقیامت کے دن حضرت محمدؐ کوہمارت حق میں شفیع قراردے۔[27]
یہاں پرلازم ہے کہ وہ آیات جوشفاعت سے مربوط ہیں کوذکر کیاجائے تاکہ شفاعت حقیقی کوغیرحقیقی سے جداکیا جاسکے اوربعدمیں معلوم ہوسکے گاکہ شفاعت،خداکی وحدانیت سے کیسے سازگارہے۔
قرآن مجیدمیں جوآیات شفاعت سے مربوط ہیں ان کو سات گروہ میں تقسیم کیاجاسکتاہے کہ ہرگروہ میں سے نمونہ کے طورپرفقط ایک آیت کوپیش کیاجاتاہے اوراس کے بعدباقی مربوط مسائل کوذکرکیاجائے گا۔
1-مطلَقًا شفاعت کی نفی
قرآن مجیدمیں بعض ایسی آیات بھی پائی جاتی ہیں کہ جوشفاعت کی مطلَقًانفی کرتی ہیں۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ﴾[28] اے ایمان والوجوتمہیں رزق دیاگیاہے اس میں سے راہ خدامیں خرچ کروقبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اورنہ سفارش۔
البتہ جونشانیاں دوسری آیات میں پائی جاتی ہیں ان کومدنظررکھ کریہ کہاجاسکتاہے کہ اس آیت اور اس قسم کی دوسری آیات میں مطلَقًا شفاعت کی نفی نہیں کی گئی؛بلکہ باطل شفاعت کی نفی کی گئی ہے۔
2-یہودیوں کی موردنظرشفاعت کی نفی
قرآن کریم فرماتاہے: ﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ
يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾[29]اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کابدل نہ بن سکے گااورکسی کی سفارش قبول نہ ہوگی،نہ کوئی معاوضہ لیاجائے گااورنہ کسی کی مددکی جائے گی۔
اس آیت میں شفاعت سے مرادوہ شفاعت ہے کہ جوبنی اسرائیل اپنے بارے میں معتقدتھے؛بنی اسرائیل کہتے تھے کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں پس ہم جتنے بھی گناہ کریں اورجتنے بھی ہمارے گناہ زیادہ ہوجائیں ہمارے آباواجدادہماری شفاعت کریں گے اورہم گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے، لہذااس آیت نےآکربتلایاکہ ایساکچھ ہونے والانہیں ہے۔
3-کفارسے شفاعت کی نفی
آیات قرآنی واضح طورپریہ بیان کررہی ہیں کہ قیامت کے دن کافروں کیلئے کسی قسم کی شفاعت نہیں ہوگی:﴿فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ﴾[30]انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی۔
4-بتوں کوشفیع قراردینے کی نفی
بعض آیات قرآنی بتوں کوشفیع قراردینے سے منع کررہی ہیں: ﴿وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَاءكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاء لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ﴾[31]اورہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارش کرنے والوں کوبھی نہیں دیکھتے جنہیں تم نے اپنے لئے خداکاشریک بنایاتھا،تمہارے ان کے تعلقات قطع ہوگئے ہیں۔
بت پرست یہ خیال کررہے تھے کہ لکڑی اورپتھراورفلزکے بتوں اورمصنوعی خداؤں کی پرستش سے ان کی رضاوتوجہ حاصل کررہے ہیں کہ جوخداوندحقیقی کی بارگاہ میں ان کی شفاعت کریں گے۔
5- خداکیساتھ مخصوص شفاعت
قرآن مجیدکی کچھ آیات شفاعت کوخداوندکریم کے ساتھ مختص کرتی ہیں: ﴿قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾[32]کہہ دیجئے کہ شفاعت کاتمامتراختیاراللہ کے ہاتھوں میں ہے اسی کے پاس زمین وآسمان کاسارااقتدارہےاوراس کے بعدتم بھی اسی کی بارگاہ میں پلٹائے جاؤگے۔
6-شفاعت بااذن خدا
کچھ آیات اذن خداکوشفیع میں شرط سمجھتی ہیں: ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه﴾ِ[33]کون ہے جواس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرسکے؛یعنی فقط وہ گروہ شفاعت کرسکتا ہے کہ جن کوخداوندنے اجازت دی ہو۔
7-شفاعت کرنے والوں کی نشانیاں
قرآن مجیدنے فقط شفاعت کرنے والوں کی خبرنہیں دی ہے؛بلکہ ان کی کچھ نشانیاں بھی ذکرکی ہیں: ﴿ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ،يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾[34]جوکسی بات پراس پرسبقت نہیں کرتے ہیں اوراس کے احکام پربرابرعمل کرتے رہتے ہیں وہ ان کے سامنے اوران کے پسِ پشت کی تمام باتوں کوجانتاہےاورفرشتے کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے مگریہ کہ خدااس کو پسندکرےاوروہ اس کے خوف سےبرابرلرزتے رہتے ہیں۔
فی الجملہ یہ کیاجاسکتاہے کہ جوآیات شفاعت کی نفی کررہی ہیں وہ شفاعت استقلالی کی نفی کررہی ہیں اورجوآیات شفاعت کواثبات کررہی ہیں وہ پہلے شفاعت کوخداوندکریم سے مختص کررہی ہیں اوربعدمیں دوسری آیات آکریہ بتلاتی ہیں کہ خداوندنے شفاعت کاحق دوسرے شفاعت کرنے والوں کودے دیاہے کہ وہ خداکی اجازت سے شفاعت کریں،اس لحاظ سے شفاعت کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے اور خداکے اذن سے غیرخداکی شفاعت کوقرآن قبول کرتاہے۔[35]
یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ خودقرآن نے شائستہ افرادسے دعاکرانے کی تاکیدکی ہے اورصحابہ کرام کی بھی اس بات پرسیرت رہی ہے کہ وہ رسول اکرمؐ سے شفاعت کرنےکی درخواست کرتے تھے اورابن تیمیہ کی نگاہ میں بھی زندہ افرادسے دعاکی درخواست کرنادرست ہے۔
نظام نیشاپوری اس آیت ﴿ مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ﴾[36]جوشخص اچھی سفارش کرے گااسے اس کاحصہ ملے گا۔کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:حقیقت میں شفاعت ،مسلمانوں کیلئے دعاکرناہے۔[37]
فخررازیبھی شفاعت کی تفسیردعاکے ساتھ کرتے ہیں،وہ اس آیت ﴿ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً ﴾[38]اورصاحبان ایمان کیلئے استغفارکررہے ہیں کہ خدایاتیری رحمت اورتیراعلم ہرشئی پرمحیط ہے کے ذیل میں لکھتے ہیں:یہ آیت گواہ ہے کہ حاملان عرش کی شفاعت فقط گناہ گاروں کیلئے ہے، درخواست شفاعت، درخواست دعا ہے۔[39] اس بناپرشفاعت ،فخررازی کی نظرمیں گناہ گاروں کے حق میں شفاعت کرنے والوں کی دعاہے۔
احادیث میں آیاہےکہ مسلمان کی دعادوسرے مسلمان کے حق میں شفاعت ہے۔
ابن عباس حضرت رسول گرامی اسلامؐ سے نقل کرتے ہیں:جب بھی کوئی مسلمان مرجائے اوراس کے جنازہ پر ایسے چالیس افرادجوشرک نہ کرتے ہوں نمازپڑھ لیں توخداوند ان کی شفاعت(دعا)کواس مرنے والے کے حق میں قبول کرتاہے۔[40]، اس حدیث میں دعاکرنے والا شفیع کے عنوان سے ذکرہواہے۔
اہل سنت کی روایات کی بناپر،ایک خاص زمانہ میں مسلمان کسی امام یادوسرے مسلمان کی خدمت میں حاضرہوکران سے درخواست کرتے تھے کہ خداوندسے رحمت کی بارش طلب کریں،اس قسم کی درخواست شفاعت کے علاوہ کیاہوسکتی ہے؟[41]
محمدبن عبدالوہاب بھی زندہ انسان سے طلب دعاکوجائزسمجھتاہے۔[42]
8-شفاعت واقعی وغیرواقعی
شفاعت واقعی اورغیرواقعی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ شفاعت واقعی خداسےشروع ہوتی ہے اورگناہ گارپرختم ہوتی ہے؛جبکہ شفاعت باطل وغیرواقعی اس کے الٹ ہے؛شفاعت واقعی میں شفیع؛یعنی وسیلہ کوخداابھارنے والاہوتاہے کہ گناہ گاروں کی تم شفاعت کرو؛لیکن شفاعت باطل میں ،شفیع؛یعنی وسیلہ کو گناہ گار ابھارنے والاہوتاہے کہ تم ہماری شفاعت کرو؛یعنی باطل وغیرواقعی شفاعت میں شفیع،گناہ گاروں کی طرف سے صفت وسیلہ کوحاصل کرتا ہے،کیونکہ اس کوگناہ گاروں نے آمادہ کیاہے کہ وہ ان کی شفاعت کرے؛لیکن شفاعت حقیقی میں شفیع،صفت وسیلہ کوخداوند سے حاصل کرتا ہے جیساکہ خدانے اپنے انبیاء کرام کواجازت دی ہے کہ وہ گناہ گاروں کی شفاعت کریں۔[43]
9-اطاعت وشفاعت کاخداکی وحدانیت کیساتھ رابطہ
اگرہرقسم کی درخواست واطاعت شرک ہوتولازم آتاہے کہ حضرت آدمؑ سے لیکرآج تک تمام افرادمشرک وکافر ہونگے؛کیونکہ ہرکوئی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی سے درخواست کرتارہاہے یاکسی نہ کسی کی اطاعت کرتارہاہے،ہمیشہ اولاد، خدمت کار،کاری گر،فوجی،پولیس مین وغیرہ اپنے ماں باپ،رئیس،افسروغیرہ سے درخواست یااطاعت کرتے رہتے ہیں۔
لہذادوسروں سےہرقسم کی درخواست واطاعت،عبادت وپرستش نہیں ہے،جیساکہ ہرقسم کی درخواست واطاعت شرک بھی نہیں ہے؛کیونکہ عبادت وہ ہوتی ہے کہ کسی سے کہ جوفاعل مطلق ہونہایت ذلت وخضوع کے ساتھ اموردنیایا آخرت میں حاجت کی درخواست کرنا،غیرخدا سےاگراس صورت میں کسی چیزکی درخواست کی جائے تویہ شرک ہے۔[44]
علامہ طباطبائی(رح)فرماتےہیں:مقام شفاعت میں شفیع،خداسے تین چیزوں کی طلب نہیں کرتا:
الف:شفیع،خداوندسے یہ نہیں چاہتاکہ خدااپنی مولویت اورشفیع کی عبودیت کونظراندازکردے۔
ب:شفیع،خداسے یہ نہیں چاہتاکہ وہ اپنے حکم کونظراندازکردے۔
ج:شفیع،خداسے یہ نہیں چاہتاکہ وہ اپنے سزاوجزاکے کلی قانون کوباطل کردے۔؛بلکہ شفیع،خداوندکی ایک یاچند صفات مثل:کرم،بزرگی،سخاوت و۔۔۔کہ جوخداکی رحمت ومغفرت کاموجب بنتی ہیں،سے تمسک کرتاہے اورعبدکی ان صفات کومثل:بدحالی،بندگی،ذلت و۔۔۔کاذکرکرتاہے کہ جن کی وجہ سے خداکی رحمت ومغفرت کیلئے زمینہ ہموارہوتاہے اسی طرح شفیع اپنی صفات کوبھی وسیلہ بناتاہے مثلاًخداکی نزدیکی،خداکے نزدیک منزلت وغیرہ کاذکرکرکے خداسے استدعاکرتاہے کہ وہ شفاعت چاہنے والے گناہ گاروں سے درگذرکرے اوران کے گناہ معاف کردے۔
خداوندنے ان اسباب کواپنی مغفرت کیلئے ذکرکیاہے،اورجب بھی یہ اسباب مہیاہوجائیں خداکی مغفرت بھی جاری ہوجاتی ہے۔[45]
باالفاظ دیگرجیساکہ واجب الوجوداپنی ذات میں غیرکامعلول نہیں ہے اسی طرح اپنی صفات وافعال میں بھی کسی غیرکا معلول اورتحت تاثیرنہیں ہوسکتا،خدامؤثرمحض ہے اور کسی چیزسے تاثیرقبول نہیں کرتا،خودخدانے ہم سے چاہاہے کہ ان اسباب ووسائل سے استفادہ کریں لہذاکسی بھی صورت میں یہ(شفاعت)شرک نہیں ہے؛بلکہ عین توحیدہے۔[46]
یہ امر(شفاعت)اگرشرک شمارہوتاتولوگ حضرت پیغمبراکرمؐ کی زندگی اور ان کی رحلت کے بعدان سے شفاعت کی درخواست نہیں کرتے۔[47]
10-شفاعت عین وحدانیت ہے
حقیقتِ توحیداورحقیقت شفاعت کی چھان بین کرنے کے بعدیہ واضح ہوجاتاہے کہ نہ فقط شفاعت وحدانیت کے ساتھ سازگارہے؛بلکہ شفاعت عینِ وحدانیت ہے۔
توحیدکی اقسام
توحیدذاتی:
خداوندایسی ذات ہے کہ جس کاکوئی شریک اورمِثل نہیں ہے اوراس عقیدہ کے مقابلہ میں دوگانہ خدا کاعقیدہ پیش کیاجاتاہے کہ جوذاتِ خدامیں شرک شمارکیاجاتاہے۔
توحیدافعالی:
اس جہان میں مؤثرحقیقی وواقعی فقط ایک ہے اورہرموجودکااثرخداوندکی جانب سے ہے؛آگ کاجلانا، تلوارکاکاٹناو۔۔۔یہ سب خداکی طرف سے اوراس کے حکم سے ہے۔
توحیدعبادی:
خداوندکی ذات کے علاوہ کوئی بھی عبادت وبندگی کے لائق نہیں ہے،اس جہان میں موجودات میں سے کوئی بھی چیز،بت،پتھر،و۔۔۔حتی اس کے انبیاء واولیاء کہ جوخداکی صفات کے مظہرہیں وہ بھی عبادت کے لائق نہیں ہیں۔
توحیدکی اقسام کومدنظررکھ کر،یہ کہاجاسکتاہے کہ شافعان واقعی سے شفاعت کی درخواست کرناتوحیدکی کسی بھی قسم سے منافات نہیں رکھتا؛کیونکہ اولیاء سے شفاعت طلب کرناخدامیں دوگانگی کاسبب نہیں بنتا(توحیدذاتی)یااس بات کاموجب نہیں بنتاکہ تاثیریافیض کے پہنچانے میں اولیاء وانبیاء مستقل ہیں(توحیدافعالی)یااس بات کاسبب بھی نہیں بنتاکہ انبیاء واولیاءکی عبادت یابندگی کاطوق گلے میں ڈال دیاہواوران کی معبودکے طورپرپرستش کررہے ہوں(توحیدعبادی)۔[48]
اس لحاظ سے کہاجاسکتاہے کہ شفاعت کسی قسم کی توحیدسے منافی نہیں ہے؛شفاعت کرنے والے کی رحمت،خداکی رحمت کامظہر ہے اوراس رحمت وشفاعت کی طرف ابھارنے والا بھی خودخدا ہے؛یعنی خودخدانے فرمایاہے کہ تم شفیع بناؤ۔[49]
پس اگر شفاعت کرنےوالے(الٰہ)اورچھوٹے خداسمجھے جانے لگیں،اس طرح کہ خداکی اجازت کے بغیرشفاعت
کے مقام کے مالک بن گئے ہیں اورجس کی بھی چاہیں شفاعت کریں،اس صورت میں یقینی طورپران شافعان سے شفاعت کی درخواست کرناغیرخداکی عبادت شمارہوگااورشفاعت کی درخواست کرنے والامشرک ہوگا۔
لیکن اگرشافعان خداکی مخلوق سمجھے جائیں کہ جوخداوندکی خاص اجازت سے اس کے کچھ افرادکی شفاعت کرسکتے ہیں،ایسی شرائط کومدنظررکھ کراگرکوئی ایسے شافعان سے شفاعت کی درخواست کرتاہے تویہ باقی عام کاموں کی درخواست کے ساتھ فرق نہیں رکھتااوریہ درخواست توحیدکی حدودسے باہرنہیں ہے،لہذااس بات کاتصورکہ خداکے اولیاء اور اس کے انبیاء سےشفاعت کرناظاہری طورپرمشرکوں کے عمل جیساہے کہ وہ بھی اپنے بتوں سے شفاعت کی درخواست کیاکرتے تھے،یہ تصورباطل وبے بنیادہے؛کیونکہ ایک موحدکاخداوندکے اولیاء کے بارے میں اعتقاد،ایک مشرک کے بتوں کے بارے میں اعتقاد سے کاملاً متفاوت ہے،مشرک بتوں کوشفاعت کے مقام کامالک سمجھتے ہیں کہ جب چاہے جس کی چاہے جس طرح چاہے شفاعت کرسکتاہے۔اس قسم کااعتقاد،بتوں کے خداہونے کااعتقادہے اورشرک شمارکیاجاتاہے،حالانکہ مسلمان اولیاء وانبیاء کے بارے میں اس قسم کے مقام اورمالکیت کے قائل نہیں ہیں۔ [50] اورہمیشہ دن رات اس بات کوگنگناتے رہتے ہیں﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه﴾ِ[51] کون ہے جواس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرسکے۔
اس بحث کانتیجہ
شفاعت خداوندکامخصوص حق ہےکہ کبھی وہ اپنے بندون میں سےاولیاء کرام کو اجازت دیتاہے کہ اس حق سے استفادہ کریں،اورخداونداپنے اس حق کو دودلیلوں کی بنیادپراپنے خاص بندوں کے حوالے کرتاہے۔
الف:جس طرح خداوندکریم کی رحمت(مادی ومعنوی)ہم تک اسباب کے ذریعہ پہنچتی ہے مثلاً انسانوں کوسعادت وہدایت کی راہ دیکھانے کیلئے انبیاء کرام کومبعوث کیاہے،سورج کوخلق کیاہے تاکہ وہ اپنی حیات بخش روشنی کے ذریعہ زندگی کورونق بخشے و۔۔۔اس کی مغفرت و رحمت بھی اسباب مثل اولیاء الہی کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہے،لیکن مؤثرِاصلی خداوندہے۔
ب:خداوندنے اپنے اولیاء وانبیاء کوشفاعت کامقام عطاکرکےچاہاہے کہ ان کی عزت واحترام کرے اوران کے وجودکی ارزش وقیمت دوسروں کوبتائے۔[52]
شفاعت ا ورخداکی تبدیل نہ ہونے والی سنت
یہاں پریہ سوال پیش آسکتاہے کہ آیاشفاعت،خداکی ان سنتوں سے منافات رکھتی ہے جوثابت ہیں اورجن میں تبدیلی نہیں ہوتی؟
مزیدوضاحت:اس جہان کے عالم تکوینی وتشریعی میں کچھ ایسے ثابت وتبدیل نہ ہونے والےقوانین پائے جاتے ہیں کہ کسی بھی صورت میں ان میں تبدیلی وتغیرممکن نہیں ہے اوروہی قوانین ماضی میں اس جہان پرحکم فرماتھے اورآج بھی ہیں اورکل بھی حکم فرمارہیں گے اورقرآن مجید ان قوانین کوسنت الہی کے نام سے یادکرتاہے،جیساکہ خداوندمتعال فرماتاہے:﴿ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا ﴾[53] اورخداکاطریقہ کاربھی نہ بدلنے والاہے اورنہ اس میں کسی طرح کاتغیرہوسکتاہے۔
سنت الہی کے مصادیق میں سےایک یہ ہے کہ خداگناہ گاروں کوسزادےگااوریہ کہ ان کے گناہ اورجرائم کے مطابق خداوندنے سزاکوبھی مدنظررکھا ہوا ہے،اس مطلب کوسامنے رکھتے ہوئے یہ سوال پیش آتاہے کہ آیاشفاعت خداکی سنت سے منافات نہیں رکھتی؟اورگناہ گاروں کوسزانہ دینانقض غرض نہیں ہے؟
جواب:خداوندکی وسیع رحمت ومغفرت اورانبیاء واولیاء الہی کی شفاعت کہ جوخاص شرائط کے مطابق گناہ گاروں کوشامل ہوتی ہےکے ضمن میں گناہ گاروں کے گناہوں کی بخشش خودخداکی تبدیل نہ ہونے والی سنتوں میں سے ایک سنت ہے،پس جب شفاعت خداکی سنت میں سے ہے توکیسے خداکی باقی سنتوں کے مخالف ہوسکتی ہے؟!!
مزیدوضاحت: یہ بات کہ خداوندمتعال کی سنت میں تبدیلی وتغیرواقع نہیں ہوتاکاملاًصحیح ہے؛لیکن اس بات کی طرف بھی متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ خداکی سنت،خداکی فقط ایک صفت پراستوارنہیں ہے اورخداکی فقط ایک سنت نہیں ہے؛بلکہ خداوندمتعال کی فراوان سنتیں ہیں کہ ہرایک خداکی کسی نہ کسی صفت سےپھوٹتی ہے اورہرایک اپنی جگہ پرکامل اورتام ہے۔
علامہ محمدحسین طباطبائی اورآیۃ اللہ جوادی آملی اس بارے میں یوں فرماتے ہیں:اس بات میں شک بھی نہیں ہے کہ خداکی سنت کاراستہ مستقیم ہے اوراس میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی؛لیکن یہ سنت کاتبدیل نہ ہونا،خداکی ایک صفت؛یعنی صفتِ تشریع پراستوارنہیں ہے تاکہ کوئی حکم وجزا اپنے مقام سے حرکت نہ کرسکے؛بلکہ یہ سنت خداکی تمام صفات عالیہ پراستوارہے ،اس بناپرہرحادثہ اپنے وجودی اعتبارسے خداکی ایک صفت یاچندصفات عالیہ پرتکیہ کئے ہوئے ہے اورجیسے جیسے وہ صفت تقاضاکرتی ہے وہ حادثہ بھی اسی کے مطابق واقع ہوتاجاتاہے۔
خلاصہ یہ کہ شفاعت کاواقع ہونااورعذاب کاشفاعت کی وجہ سےاٹھ جانااس لحاظ سے ہےکہ یہ مختلف اسباب مثل:رحمت،مغفرت،حکم قضا،حق دارکواس کاحق دینا اورصحیح قضاوت کانتیجہ ہے اوریہ خداکی جاری سنت میں اختلاف
وتبدیلی ایجادنہیں کرتا۔[54]
حقیقت میں اعتراض کرنے والے نے یہ تصورکیاہواہے کہ گناہ گارکوعذاب اورسزادیناخداکی اصلی سنت ہے اور شفاعت کے وسیلہ سے عفوومغفرت ایک قسم کااس سنت سے استثناہے؛حالانکہ دونوں ایک دوسرے کی نسبت استثنانہیں رکھتے ؛بلکہ دونوں خداکی قطعی سنت میں سے ہیں اورہرایک اپنے اپنے مقام پرجاری ہوتی ہے،لہذاایک کوسنت خدااوردوسری کو سنت کے خلاف قدم سے تفسیرنہیں کرناچاہیے؛اصلاً اس بات کاکہ خداکی سنت تبدیل نہیں ہوتی کایہ معنی بھی نہیں بنتاکہ خداکی فقط ایک سنت ہے؛حالانکہ خودخدااپنی یوں تعریف کررہاہے: ﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴾ [55]وہ ہرروزایک نئی شان والاہے،اس بناپرخداکاہرکام اورہرجلوہ اس کی کسی نہ کسی صفت کی بنیادپرہے۔[56]
پس اگرکسی کی شفاعت کی بنیادپرکسی سے عذاب ٹل جائے تویہ خداکی تبدیل نہ ہونے والی سنت سے تعارض ومنافات نہیں رکھتا؛بلکہ شفاعت بعض عوامل مثل رحمت،مغفرت،حکم،قضا اورصاحب حق کااپنے حق میں رعایت،کے اثرسے ہوتی ہے،اگرشفاعت کے حق کوخداوندمتعال نے اپنے انبیاء یااولیاء کودے دیاہے تویہ خداکی سنت کے خلاف نہیں ہواہے۔
آخر میں تبرک کے طورپررسول گرامی اسلامؐ کی شفاعت کے متعلق ایک حدیث پیش کی جاتی ہے:رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:مجھے اختیاردیاگیاہے کہ میں شفاعت کروں یااپنی آدھی امت کوجنت میں لے جاؤں،میں نے شفاعت کاانتخاب کیاہے؛کیونکہ اس کادائرہ وسیع ہے،کیاتم یہ خیال کرتے ہوکہ شفاعت فقط پرہیزگارمؤمنوں کیلئے ہے؟!نہ،بلکہ گناہوں میں آلودہ وخطاکاروں کیلئے ہے۔[57]
وصلی اللہ علی فاطمۃ وابیھاوبعلھاوبنیھا۔
ملک حسنین رضاعسکری
اوّلاً:
اس آیت کے ماقبل اورمابعدکی طرف توجہ نہیں کی جاتی؛بلکہ اسی آیت کے ظاہر کی طرف دیکھاجاتاہے اوربس۔
دوّماً:
قرآن مجیدمیں فقط ان آیات کی طرف توجہ کی جاتی ہے کہ جوآیات شفاعت کوخداوندمنّان کی ذات کے ساتھ مختص کرتی ہیں اوران کثیرآیات کی طرف توجہ نہیں کی جاتی کہ جو شفاعت کواذن پروردگار کے ساتھ معصومین(ع)کیلئے بھی جائز سمجھتی ہیں۔
قیامت کے دن شفاعت کامسئلہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یقینی اورمسلّم ہے اورکوئی بھی مسلمانوں کافرقہ اس کاانکار نہیں کرتااورسورہ بقرہ کی آیت نمبر123بھی دودلیل کی وجہ سے شفاعت کاانکار نہیں کررہی ہے۔
دلیل اوّل:
اگراس آیت کے ماقبل اورمابعدکی طرف نگاہ کی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ یہ آیت کسی خاص قسم کی شفاعت کی نفی کررہی ہے اوروہ شفاعت ہے کہ جس کے بارے میں یہودی سماج اوربنی اسرائیل عقیدہ رکھتے تھے کہ اس دنیاکی طرح آخرت میں بھی دوستی اوررشتہ داری کی بناپرخداکے عذاب سے نجات پالیں گے۔[1]
لہذاجملہ((واتقوا))کامخاطب بنی اسرائیل ہیں اوراس سے پہلے والی آیت یہ ہے:﴿يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾[2]اے بنی اسرائیل ان نعمتوں کویادکروجوہم نے تمہیں عنایت کی ہیں اور جن کے طفیل تمہیں سارے عالم سے بہتر بنادیاہے۔
دلیل دوّم:
سورہ بقرہ کی یہ آیت غیرخدا کی اس شفاعت کی نفی کررہی ہے جو مستقل اورخداکےاذن کےبغیرہو،لہذایہ آیت گناہ گاروں کی شفاعت کرنے کی نفی نہیں کررہی ہے۔
توضیح:
شفاعت کے مسئلہ کومزیدواضح کرنے کیلئے ضروری ہے کہ چندچیزوں کی وضاحت کی جائے۔
1۔شفاعت کامعنی
لغت میں شفاعت،مادہ (شَفَع)سے لیاگیاہے کہ جومتعددمعانی میں استعمال کیاجاتاہے مثلاً:جفت،جوکہ طاق کے مقابلہ میں ہوتا ہے،زیادہ کرنا،درخواست کرنا،پشت پناہی کرنا۔[3]
علّامہ محمّد حسین طباطبائی فرماتےہیں:اصل میں شفاعت(شَفع)یعنی جفت سے لیاگیاہےکہ حقیقت میں شفاعت کرنے والااس ناقص وسیلہ کے ساتھ مل جاتا ہے جوشفاعت چاہنے والے کے پاس ہوتاہے اورشفاعت کرنے والااوروہ وسیلہ دونوں مل کر وہ مقاصدحاصل کرسکتے ہیں کہ جن کو شفاعت ہونے والااپنے ضعیف اور کمزوروسیلہ کی بناپرحاصل نہیں کرپا رہا تھا۔[4]اس لحاظ سے شفاعت،ناقص وسیلہ کوکامل کرنے والی اورحقیقت میں سبب اورمسبب کے درمیان واسطہ ہوتی ہے۔
2۔شفاعت کی اقسام
(۱لف)شفاعتِ تکوینی:
اس قسم کی شفاعت اپنے عام معنی میں استعمال ہوئی ہے کہ جوتمام موجودات کوشامل ہے ؛یعنی تمام مخلوقات،انسانوں تک خداکی رحمت پہچانے کاواسطہ ہیں کہ حقیقت میں وہ واسطہ فیض اور انسان کے ہدف تک پہنچنے کیلئے اس کی مددکرتے ہیں۔
(ب)شفاعتِ تشریعی:
اس قسم کی شفاعت ہراس واسطہ کوشامل ہے کہ جوانسان کوصراط مستقیم اورشریعت حقہ کی طرف راہنمائی کرے،اس قسم کی شفاعت کی بھی بہت ساری اقسام ہیں کہ جن کواس تحریر میں بیان کرنے کی گنجاءش نہیں ہے؛فقط اس حدتک اشارہ کیا جاتاہے کہ ان میں سے ایک قسم،شفاعت مغفرت ہے کہ جس کے متعلق ہماری بحث ہے اور شفاعت مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ آلودگی وناپاکی وگناہوں کی بخشش کیلئے وسیلہ بنانا۔
3۔قرآن میں شفاعت
جن آیات میں شفاعت کامسئلہ بیان ہواہے وہ آیات دوطرح کی ہیں:کچھ آیات،شفاعت کی سرے سے نفی کرتی ہیں اورکچھ آیات،شفاعت کوغیرخدا کیلئے،خدا کی اجازت سے جائزسمجھتی ہیں۔
الف)شفاعت کی نفی کرنے والی آیات:
﴿أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا﴾[5]
کیاان لوگوں نے خداکوچھوڑکرسفارش کرنے والے اختیارکرلئے ہیں توآپ کہہ دیجئے کہ ایساکیوں ہے چاہے یہ لوگ کوئی اختیارنہ رکھتے ہوں اورکسی طرح کی بھی عقل نہ رکھتے ہوں،کہہ دیجئے کہ شفاعت کاتمامتراختیاراللہ کے ہاتھوں میں ہے۔
﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾[6] اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کابدل نہ بن سکے گااورکسی کی سفارش قبول نہ ہوگی،نہ کوئی معاوضہ لیا جائے گااورنہ کسی کی مددکی جائے گی۔
﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾[7] اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کافدیہ نہ ہوسکے گااورنہ کوئی معاوضہ کام آئے گا،نہ کوئی سفارش ہوگی اورنہ کوئی مددکی جاسکے گی۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ﴾[8]اے ایمان والوجوتمہیں رزق دیاگیاہے اس میں سے راہ خدامیں خرچ کروقبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اورنہ سفارش۔
جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا آیات مذکور شفاعت کی نفی کررہی ہیں مخصوصاً آخری تین آیات میں قیامت کے دن صراحتاً شفاعت کی نفی کی گئی ہے۔
ب)شفاعت کوثابت کرنے والی آیات
﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الأَمْرَ مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ﴾[9]بیشک تمہاراپروردگاروہ ہے جس نےزمین وآسمان کوچھے دنوں میں پیداکیاہے پھراس کے بعدعرش پراپنااقتدارقائم کیاہے وہ تمام امورکی تدبیرکرنے والاہے کوئی اس کی اجازت کے بغیرشفاعت کرنے والانہیں ہے۔
﴿يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا﴾[10]اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدانے اجازت دے دی ہواوروہ ان کی بات سے راضی ہو۔
﴿إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ، يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ،إِلَّا مَن رَّحِمَ اللَّهُ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾[11]بیشک فیصلہ کادن ان سب کے اٹھائے جانے کامقررہ وقت ہے،جس دن کوئی دوست دوسرے دوست کے کام آنے والانہیں ہے اورنہ ان کی کوئی مددکی جائے گی،علاوہ اس کے جس پرخدارحم کرے کہ بیشک وہ بڑا بخشنے والااورمہربان ہے۔
﴿وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ،لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ،يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾[12]
اورلوگوں نے یہ کہناشروع کردیاکہ اللہ نے کسی کوبیٹابنالیاہے حالانکہ وہ اس امرسے پاک وپاکیزہ ہے؛بلکہ وہ سب اس کے محترم بندے ہیں،جوکسی بات پراس پرسبقت نہیں کرتے ہیں اوراس کے احکام پربرابرعمل کرتے رہتے ہیں،وہ ان کے سامنے اور ان کےپسِ پشت کی تمام باتوں کوجانتاہے اورفرشتے کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے مگریہ کہ خدااس کوپسندکرے اوروہ اس کے خوف سے برابرلرزتے رہتے ہیں۔
جیساکہ ان آیات کے ظاہرسے یہ معلوم ہورہاہےکہ قیامت کے دن خداکی اجازت سے شفاعت ہوگی،اب ان
دونوں قسم کی آیات کومدنظررکھ کریہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ قیامت کے دن شفاعت کے کچھ قوانین واصول ہیں اوروہ یہ کہ قیامت میں شفاعت استقلالی نہیں ہے؛بلکہ خداکی اجازت واذن کے ساتھ ہے؛یعنی اصل میں شفاعت فقط وفقط خداوند متعال کی ذات کے ساتھ مختص ہے؛لیکن بعض مقامات پرخداکی رحمت وشفقت موجب بنتی ہے کہ ان کے خاص بندے مانند:انبیاء واولیاء کوبھی اجازت مل جاتی کہ وہ بھی شفاعت کریں۔
اس بناپرقیامت کے دن شفاعت کے جوازکامسئلہ مسلّم اوریقینی ہے اورعلمائے اسلام نے بھی اس بات کی وضاحت فرمائی ہے اوراگرشفاعت کے بارے میں اختلاف ہے تووہ شفاعت کے معنی اور ملاک کے بارے میں ہے نہ اصل شفاعت کے بارے میں۔
مسلمانوں میں سے معتزلہ اورخوارج اصل شفاعت کوقبول کرنے کے باوجودشفاعت کی تفسیرمیں باقی مسلمانوں سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں؛ان کاخیال ہے کہ شفاعت فقط نیک وفرماںبردارافرادکوشامل ہے نہ گناہ گاروں کو؛یعنی پیغمبرؐ کی شفاعت کے نتیجہ میں نیک افرادکے درجات بلندہونگے لیکن گناہ گاران کی شفاعت کے ذریعہ نجات حاصل نہیں کرسکتے۔[13]
علمائے اسلام کے نظریات
علّامہ محمّدحسین طباطبائی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸کے ذیل میں دونوں قسم کی آیات(شفاعت کی نفی کرنے والی آیات وشفاعت کواثبات کرنے والی آیات)کوذکرکرنے کے بعد نتیجہ اخذکرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:اگرچہ بعض آیات،شفاعت کی نفی کرتی ہیں لیکن بعض دوسری آیات جوشفاعت کی تائیدکرتی ہیں کومدّنظررکھ کریہ قبول کرناپڑتاہے کہ قرآن کی آیات اصلِ شفاعت کوبغیرکسی اشکال کے ثابت کررہی ہیں؛لیکن بعض آیات،اصل شفاعت کو خداوندسے مخصوص کررہی ہیں اورغیرخداکے معاملہ میں شفاعت کوخداکی اجازت اوراس کے اذن کے ذریعہ ثابت کررہی ہیں۔[14]
فخررازی سورہ بقرہ کی آیت۴۸ کے ذیل میں شفاعت کومسلمانوں کے درمیان امرمسلّم اورمتفقٌ علیہ سمجھتے ہیں،اگرچہ معتزلہ کاباقی مسلمانوں کے ساتھ تفسیرِشفاعت میں اختلاف کوبھی ذکرکیاہے۔[15]
شیخ طوسی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸ کے ذیل میں فرماتے ہیں:یہ آیت کافروں کے ساتھ مربوط ہے،کیونکہ پیغمبراکرمؐ قیامت کے دن مؤمنوں کی شفاعت کریں گے اوران کی شفاعت کے نتیجہ میں گناہ گارافرادعذاب خداسے نجات پائیں گے۔[16]
فتّال نیشاپوری اس آیت ﴿عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا﴾[17]عنقریب آپ کاپروردگاراسی طرح آپ کومقام محمودتک پہنچادےگا۔کے ذیل میں فرماتے ہیں:مقام محمودسے مرادیہ ہے کہ پیغمبراکرمؐ شفاعت کریں گے اورفتّال نے ایک روایت بھی رسول خداؐ سے نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: (المقام الذی أشفع فيه لأمتی)وہ مقام کہ جس میں میں اپنی امّت کی شفاعت کرونگا۔[18]
مرحوم طبرسی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸ کے ذیل میں فرماتے ہیں:تمام مسلمان اس بات پرمتفق ہیں کہ قیامت کے دن رسول خداؐ کی شفاعت قبول ہوگی،اگرچہ اس کی کیفیت میں معتزلہ اورباقی مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے کہ معتزلہ معتقد ہیں کہ شفاعت فقط مطیع افرادکے شامل حال ہوگی؛لیکن ہم(شیعہ)معتقدہیں کہ شفاعت کاہدف،گناہ گاروں کوعذاب سے نجات دلاناہے۔پھرفرماتے ہیں:نہ فقط رسولؐ کی شفاعت؛بلکہ ان کے برگزیدہ اصحاب ومعصومین(ع)وباایمان وصالح افرادکی بھی شفاعت قابل قبول ہوگی۔[19]
ابوالفتوح رازی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸ کے ذیل میں فرماتے ہیں:یہ آیت کفارومعاندین کے بارے میں ہے معتزلہ کے علاوہ تمام مسلمان شفاعت کوقبول کرتے ہیں،پھر رازی ان آیات کوذکرکرتے ہیں جوروزقیامت شفاعت پردلالت کرتی ہیں۔[20]
میمون بن محمدنسفی نے بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کیاہے اوروہ قیامت کے دن رسول ؐ کی شفاعت کومسلمانوں کے نزدیک ایک مسلّم اور قطعی امرسمجھتاہے۔[21]
حتی کہ وہابی حضرات بھی کہ جن کے بہت سارے علماء شفاعت کے منکرہیں،کلی طورپرشفاعت کاانکارنہیں کرتے؛ بلکہ رسول ؐ کی قیامت کے دن خداوندکے اذن سے شفاعت کوقبول کرتے ہیں۔[22]
گذشتہ بحث کی روشنی میں یہ ظاہرہوجاتاہے کہ جوآیات شفاعت کی نفی کررہی ہیں مثل سورہ بقرہ کی آیت نمبر۱۲۳، اس سے مرادوہ شفاعت ہے جو خداکے اذن کے بغیرہو،پس شفاعت ایک اصل مسلّم ہے کہ جس میں شک وتردید گویااسلام کے اساسی مسائل میں شک وتردیدہے۔
شفاعت ا وروحدانیت
یہاں پرایک سوال اورپھراس کاجواب پیش کیاجاتاہے،سوال یہ ہے کہ انبیاء واولیاء کی شفاعت خداکی وحدانیت کے ساتھ کیسے سازگارہے؟
مزیدوضاحت:جیساکہ روشن ہوچکاہے کہ مسلمانوں کے نزدیک شفاعت ایک اصل مسلّم اوریقینی امرہے، وہابیوں اورابن تیمیہ کی نگاہ میں (کہ جس کی تفصیل بعدمیں بیان کی جائے گی)اگرکوئی پیغمبراسلام ؐ یاائمہ معصومین(ع)سے شفاعت کی درخواست کرے تو وہ مشرک ہوجاتاہے؛کیونکہ اس نے معصومین(ع)کوخداکے مقابلہ میں لاکھڑاکیاہے کہ جو وحدانیت ِخداکے ساتھ سازگار نہیں ہے۔
جواب: شفاعت،مصدرِ شفیع سے لیاگیاہے کہ لغت میں جس کامعنی،وساطت،پشتبانی،[23]نتیجہ مطلوب تک پہنچنے کیلئے کسی چیزمیں ہمراہ ہوناہے۔[24]
علم کلام کی اصطلاح میں شفاعت، خداکی وہ رحمت ومغفرت ہے کہ جوانبیاء واولیاء کے وسیلہ سے بعض بندگانِ خدا کوشامل ہوتی ہے۔[25]
رسول خداؐ کے زمانہ سے لیکرآج تک مسلمانوں کایہ شیوہ رہاہے کہ اپنی زندگی میں اورمرنے کے بعد،سچے وصادق شافعین سے شفاعت کرنے کی درخواست کریں اورعلمائے اسلام ومفکرین اسلامی میں سے کسی ایک نے بھی اس قسم کی درخواست کواصول ومبانی اسلامی کے خلاف نہیں سمجھا،ساتویں صدی میں ابن تیمیہ نےاس مسئلہ(شفاعت)میں اوربہت ساری سنتوں میں مخالفت شروع کی ہے،ابن تیمیہ کے تین سوسال بعد،محمدبن عبدالوہاب نجدی نے دوبارہ مخالفت کاپرچم بلندکیااور ابن تیمیہ کے مکتب فکرکوزندہ کیا۔[26]
اصل شفاعت کووہابی بھی قبول کرتے ہیں فقط شفاعت کے جزی احکام میں اورشفاعت کی خصوصیات میں اختلاف کرتے ہیں۔
وہابیوں کی نگاہ میں شفاعت اُس صورت میں درست ہے کہ انسان مستقیماً خداسے طلب کرے کہ رسول اکرمؐ یاجس کسی کوشفاعت کی اجازت ہے وہ اس کے حق میں شفاعت کریں۔
ابن تیمیہ کہتاہے:
اگرکوئی کہے کہ خداکاقرب حاصل کرنے کیلئے چاہتاہوں،پیغمبرؐ ان امورمیں میری شفاعت کرے،اس کایہ کام مشرکانہ ہے۔
محمدبن عبدالوہاب کہتاہے:
شفاعت کی طلب فقط خداسے ہونی چاہیے نہ شافعان سے؛یعنی اس طرح کہناچاہیے:خدایاقیامت کے دن حضرت محمدؐ کوہمارت حق میں شفیع قراردے۔[27]
یہاں پرلازم ہے کہ وہ آیات جوشفاعت سے مربوط ہیں کوذکر کیاجائے تاکہ شفاعت حقیقی کوغیرحقیقی سے جداکیا جاسکے اوربعدمیں معلوم ہوسکے گاکہ شفاعت،خداکی وحدانیت سے کیسے سازگارہے۔
قرآن مجیدمیں جوآیات شفاعت سے مربوط ہیں ان کو سات گروہ میں تقسیم کیاجاسکتاہے کہ ہرگروہ میں سے نمونہ کے طورپرفقط ایک آیت کوپیش کیاجاتاہے اوراس کے بعدباقی مربوط مسائل کوذکرکیاجائے گا۔
1-مطلَقًا شفاعت کی نفی
قرآن مجیدمیں بعض ایسی آیات بھی پائی جاتی ہیں کہ جوشفاعت کی مطلَقًانفی کرتی ہیں۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ﴾[28] اے ایمان والوجوتمہیں رزق دیاگیاہے اس میں سے راہ خدامیں خرچ کروقبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اورنہ سفارش۔
البتہ جونشانیاں دوسری آیات میں پائی جاتی ہیں ان کومدنظررکھ کریہ کہاجاسکتاہے کہ اس آیت اور اس قسم کی دوسری آیات میں مطلَقًا شفاعت کی نفی نہیں کی گئی؛بلکہ باطل شفاعت کی نفی کی گئی ہے۔
2-یہودیوں کی موردنظرشفاعت کی نفی
قرآن کریم فرماتاہے: ﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ
يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾[29]اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کابدل نہ بن سکے گااورکسی کی سفارش قبول نہ ہوگی،نہ کوئی معاوضہ لیاجائے گااورنہ کسی کی مددکی جائے گی۔
اس آیت میں شفاعت سے مرادوہ شفاعت ہے کہ جوبنی اسرائیل اپنے بارے میں معتقدتھے؛بنی اسرائیل کہتے تھے کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں پس ہم جتنے بھی گناہ کریں اورجتنے بھی ہمارے گناہ زیادہ ہوجائیں ہمارے آباواجدادہماری شفاعت کریں گے اورہم گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے، لہذااس آیت نےآکربتلایاکہ ایساکچھ ہونے والانہیں ہے۔
3-کفارسے شفاعت کی نفی
آیات قرآنی واضح طورپریہ بیان کررہی ہیں کہ قیامت کے دن کافروں کیلئے کسی قسم کی شفاعت نہیں ہوگی:﴿فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ﴾[30]انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی۔
4-بتوں کوشفیع قراردینے کی نفی
بعض آیات قرآنی بتوں کوشفیع قراردینے سے منع کررہی ہیں: ﴿وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَاءكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاء لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ﴾[31]اورہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارش کرنے والوں کوبھی نہیں دیکھتے جنہیں تم نے اپنے لئے خداکاشریک بنایاتھا،تمہارے ان کے تعلقات قطع ہوگئے ہیں۔
بت پرست یہ خیال کررہے تھے کہ لکڑی اورپتھراورفلزکے بتوں اورمصنوعی خداؤں کی پرستش سے ان کی رضاوتوجہ حاصل کررہے ہیں کہ جوخداوندحقیقی کی بارگاہ میں ان کی شفاعت کریں گے۔
5- خداکیساتھ مخصوص شفاعت
قرآن مجیدکی کچھ آیات شفاعت کوخداوندکریم کے ساتھ مختص کرتی ہیں: ﴿قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾[32]کہہ دیجئے کہ شفاعت کاتمامتراختیاراللہ کے ہاتھوں میں ہے اسی کے پاس زمین وآسمان کاسارااقتدارہےاوراس کے بعدتم بھی اسی کی بارگاہ میں پلٹائے جاؤگے۔
6-شفاعت بااذن خدا
کچھ آیات اذن خداکوشفیع میں شرط سمجھتی ہیں: ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه﴾ِ[33]کون ہے جواس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرسکے؛یعنی فقط وہ گروہ شفاعت کرسکتا ہے کہ جن کوخداوندنے اجازت دی ہو۔
7-شفاعت کرنے والوں کی نشانیاں
قرآن مجیدنے فقط شفاعت کرنے والوں کی خبرنہیں دی ہے؛بلکہ ان کی کچھ نشانیاں بھی ذکرکی ہیں: ﴿ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ،يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾[34]جوکسی بات پراس پرسبقت نہیں کرتے ہیں اوراس کے احکام پربرابرعمل کرتے رہتے ہیں وہ ان کے سامنے اوران کے پسِ پشت کی تمام باتوں کوجانتاہےاورفرشتے کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے مگریہ کہ خدااس کو پسندکرےاوروہ اس کے خوف سےبرابرلرزتے رہتے ہیں۔
فی الجملہ یہ کیاجاسکتاہے کہ جوآیات شفاعت کی نفی کررہی ہیں وہ شفاعت استقلالی کی نفی کررہی ہیں اورجوآیات شفاعت کواثبات کررہی ہیں وہ پہلے شفاعت کوخداوندکریم سے مختص کررہی ہیں اوربعدمیں دوسری آیات آکریہ بتلاتی ہیں کہ خداوندنے شفاعت کاحق دوسرے شفاعت کرنے والوں کودے دیاہے کہ وہ خداکی اجازت سے شفاعت کریں،اس لحاظ سے شفاعت کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے اور خداکے اذن سے غیرخداکی شفاعت کوقرآن قبول کرتاہے۔[35]
یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ خودقرآن نے شائستہ افرادسے دعاکرانے کی تاکیدکی ہے اورصحابہ کرام کی بھی اس بات پرسیرت رہی ہے کہ وہ رسول اکرمؐ سے شفاعت کرنےکی درخواست کرتے تھے اورابن تیمیہ کی نگاہ میں بھی زندہ افرادسے دعاکی درخواست کرنادرست ہے۔
نظام نیشاپوری اس آیت ﴿ مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ﴾[36]جوشخص اچھی سفارش کرے گااسے اس کاحصہ ملے گا۔کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:حقیقت میں شفاعت ،مسلمانوں کیلئے دعاکرناہے۔[37]
فخررازیبھی شفاعت کی تفسیردعاکے ساتھ کرتے ہیں،وہ اس آیت ﴿ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً ﴾[38]اورصاحبان ایمان کیلئے استغفارکررہے ہیں کہ خدایاتیری رحمت اورتیراعلم ہرشئی پرمحیط ہے کے ذیل میں لکھتے ہیں:یہ آیت گواہ ہے کہ حاملان عرش کی شفاعت فقط گناہ گاروں کیلئے ہے، درخواست شفاعت، درخواست دعا ہے۔[39] اس بناپرشفاعت ،فخررازی کی نظرمیں گناہ گاروں کے حق میں شفاعت کرنے والوں کی دعاہے۔
احادیث میں آیاہےکہ مسلمان کی دعادوسرے مسلمان کے حق میں شفاعت ہے۔
ابن عباس حضرت رسول گرامی اسلامؐ سے نقل کرتے ہیں:جب بھی کوئی مسلمان مرجائے اوراس کے جنازہ پر ایسے چالیس افرادجوشرک نہ کرتے ہوں نمازپڑھ لیں توخداوند ان کی شفاعت(دعا)کواس مرنے والے کے حق میں قبول کرتاہے۔[40]، اس حدیث میں دعاکرنے والا شفیع کے عنوان سے ذکرہواہے۔
اہل سنت کی روایات کی بناپر،ایک خاص زمانہ میں مسلمان کسی امام یادوسرے مسلمان کی خدمت میں حاضرہوکران سے درخواست کرتے تھے کہ خداوندسے رحمت کی بارش طلب کریں،اس قسم کی درخواست شفاعت کے علاوہ کیاہوسکتی ہے؟[41]
محمدبن عبدالوہاب بھی زندہ انسان سے طلب دعاکوجائزسمجھتاہے۔[42]
8-شفاعت واقعی وغیرواقعی
شفاعت واقعی اورغیرواقعی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ شفاعت واقعی خداسےشروع ہوتی ہے اورگناہ گارپرختم ہوتی ہے؛جبکہ شفاعت باطل وغیرواقعی اس کے الٹ ہے؛شفاعت واقعی میں شفیع؛یعنی وسیلہ کوخداابھارنے والاہوتاہے کہ گناہ گاروں کی تم شفاعت کرو؛لیکن شفاعت باطل میں ،شفیع؛یعنی وسیلہ کو گناہ گار ابھارنے والاہوتاہے کہ تم ہماری شفاعت کرو؛یعنی باطل وغیرواقعی شفاعت میں شفیع،گناہ گاروں کی طرف سے صفت وسیلہ کوحاصل کرتا ہے،کیونکہ اس کوگناہ گاروں نے آمادہ کیاہے کہ وہ ان کی شفاعت کرے؛لیکن شفاعت حقیقی میں شفیع،صفت وسیلہ کوخداوند سے حاصل کرتا ہے جیساکہ خدانے اپنے انبیاء کرام کواجازت دی ہے کہ وہ گناہ گاروں کی شفاعت کریں۔[43]
9-اطاعت وشفاعت کاخداکی وحدانیت کیساتھ رابطہ
اگرہرقسم کی درخواست واطاعت شرک ہوتولازم آتاہے کہ حضرت آدمؑ سے لیکرآج تک تمام افرادمشرک وکافر ہونگے؛کیونکہ ہرکوئی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی سے درخواست کرتارہاہے یاکسی نہ کسی کی اطاعت کرتارہاہے،ہمیشہ اولاد، خدمت کار،کاری گر،فوجی،پولیس مین وغیرہ اپنے ماں باپ،رئیس،افسروغیرہ سے درخواست یااطاعت کرتے رہتے ہیں۔
لہذادوسروں سےہرقسم کی درخواست واطاعت،عبادت وپرستش نہیں ہے،جیساکہ ہرقسم کی درخواست واطاعت شرک بھی نہیں ہے؛کیونکہ عبادت وہ ہوتی ہے کہ کسی سے کہ جوفاعل مطلق ہونہایت ذلت وخضوع کے ساتھ اموردنیایا آخرت میں حاجت کی درخواست کرنا،غیرخدا سےاگراس صورت میں کسی چیزکی درخواست کی جائے تویہ شرک ہے۔[44]
علامہ طباطبائی(رح)فرماتےہیں:مقام شفاعت میں شفیع،خداسے تین چیزوں کی طلب نہیں کرتا:
الف:شفیع،خداوندسے یہ نہیں چاہتاکہ خدااپنی مولویت اورشفیع کی عبودیت کونظراندازکردے۔
ب:شفیع،خداسے یہ نہیں چاہتاکہ وہ اپنے حکم کونظراندازکردے۔
ج:شفیع،خداسے یہ نہیں چاہتاکہ وہ اپنے سزاوجزاکے کلی قانون کوباطل کردے۔؛بلکہ شفیع،خداوندکی ایک یاچند صفات مثل:کرم،بزرگی،سخاوت و۔۔۔کہ جوخداکی رحمت ومغفرت کاموجب بنتی ہیں،سے تمسک کرتاہے اورعبدکی ان صفات کومثل:بدحالی،بندگی،ذلت و۔۔۔کاذکرکرتاہے کہ جن کی وجہ سے خداکی رحمت ومغفرت کیلئے زمینہ ہموارہوتاہے اسی طرح شفیع اپنی صفات کوبھی وسیلہ بناتاہے مثلاًخداکی نزدیکی،خداکے نزدیک منزلت وغیرہ کاذکرکرکے خداسے استدعاکرتاہے کہ وہ شفاعت چاہنے والے گناہ گاروں سے درگذرکرے اوران کے گناہ معاف کردے۔
خداوندنے ان اسباب کواپنی مغفرت کیلئے ذکرکیاہے،اورجب بھی یہ اسباب مہیاہوجائیں خداکی مغفرت بھی جاری ہوجاتی ہے۔[45]
باالفاظ دیگرجیساکہ واجب الوجوداپنی ذات میں غیرکامعلول نہیں ہے اسی طرح اپنی صفات وافعال میں بھی کسی غیرکا معلول اورتحت تاثیرنہیں ہوسکتا،خدامؤثرمحض ہے اور کسی چیزسے تاثیرقبول نہیں کرتا،خودخدانے ہم سے چاہاہے کہ ان اسباب ووسائل سے استفادہ کریں لہذاکسی بھی صورت میں یہ(شفاعت)شرک نہیں ہے؛بلکہ عین توحیدہے۔[46]
یہ امر(شفاعت)اگرشرک شمارہوتاتولوگ حضرت پیغمبراکرمؐ کی زندگی اور ان کی رحلت کے بعدان سے شفاعت کی درخواست نہیں کرتے۔[47]
10-شفاعت عین وحدانیت ہے
حقیقتِ توحیداورحقیقت شفاعت کی چھان بین کرنے کے بعدیہ واضح ہوجاتاہے کہ نہ فقط شفاعت وحدانیت کے ساتھ سازگارہے؛بلکہ شفاعت عینِ وحدانیت ہے۔
توحیدکی اقسام
توحیدذاتی:
خداوندایسی ذات ہے کہ جس کاکوئی شریک اورمِثل نہیں ہے اوراس عقیدہ کے مقابلہ میں دوگانہ خدا کاعقیدہ پیش کیاجاتاہے کہ جوذاتِ خدامیں شرک شمارکیاجاتاہے۔
توحیدافعالی:
اس جہان میں مؤثرحقیقی وواقعی فقط ایک ہے اورہرموجودکااثرخداوندکی جانب سے ہے؛آگ کاجلانا، تلوارکاکاٹناو۔۔۔یہ سب خداکی طرف سے اوراس کے حکم سے ہے۔
توحیدعبادی:
خداوندکی ذات کے علاوہ کوئی بھی عبادت وبندگی کے لائق نہیں ہے،اس جہان میں موجودات میں سے کوئی بھی چیز،بت،پتھر،و۔۔۔حتی اس کے انبیاء واولیاء کہ جوخداکی صفات کے مظہرہیں وہ بھی عبادت کے لائق نہیں ہیں۔
توحیدکی اقسام کومدنظررکھ کر،یہ کہاجاسکتاہے کہ شافعان واقعی سے شفاعت کی درخواست کرناتوحیدکی کسی بھی قسم سے منافات نہیں رکھتا؛کیونکہ اولیاء سے شفاعت طلب کرناخدامیں دوگانگی کاسبب نہیں بنتا(توحیدذاتی)یااس بات کاموجب نہیں بنتاکہ تاثیریافیض کے پہنچانے میں اولیاء وانبیاء مستقل ہیں(توحیدافعالی)یااس بات کاسبب بھی نہیں بنتاکہ انبیاء واولیاءکی عبادت یابندگی کاطوق گلے میں ڈال دیاہواوران کی معبودکے طورپرپرستش کررہے ہوں(توحیدعبادی)۔[48]
اس لحاظ سے کہاجاسکتاہے کہ شفاعت کسی قسم کی توحیدسے منافی نہیں ہے؛شفاعت کرنے والے کی رحمت،خداکی رحمت کامظہر ہے اوراس رحمت وشفاعت کی طرف ابھارنے والا بھی خودخدا ہے؛یعنی خودخدانے فرمایاہے کہ تم شفیع بناؤ۔[49]
پس اگر شفاعت کرنےوالے(الٰہ)اورچھوٹے خداسمجھے جانے لگیں،اس طرح کہ خداکی اجازت کے بغیرشفاعت
کے مقام کے مالک بن گئے ہیں اورجس کی بھی چاہیں شفاعت کریں،اس صورت میں یقینی طورپران شافعان سے شفاعت کی درخواست کرناغیرخداکی عبادت شمارہوگااورشفاعت کی درخواست کرنے والامشرک ہوگا۔
لیکن اگرشافعان خداکی مخلوق سمجھے جائیں کہ جوخداوندکی خاص اجازت سے اس کے کچھ افرادکی شفاعت کرسکتے ہیں،ایسی شرائط کومدنظررکھ کراگرکوئی ایسے شافعان سے شفاعت کی درخواست کرتاہے تویہ باقی عام کاموں کی درخواست کے ساتھ فرق نہیں رکھتااوریہ درخواست توحیدکی حدودسے باہرنہیں ہے،لہذااس بات کاتصورکہ خداکے اولیاء اور اس کے انبیاء سےشفاعت کرناظاہری طورپرمشرکوں کے عمل جیساہے کہ وہ بھی اپنے بتوں سے شفاعت کی درخواست کیاکرتے تھے،یہ تصورباطل وبے بنیادہے؛کیونکہ ایک موحدکاخداوندکے اولیاء کے بارے میں اعتقاد،ایک مشرک کے بتوں کے بارے میں اعتقاد سے کاملاً متفاوت ہے،مشرک بتوں کوشفاعت کے مقام کامالک سمجھتے ہیں کہ جب چاہے جس کی چاہے جس طرح چاہے شفاعت کرسکتاہے۔اس قسم کااعتقاد،بتوں کے خداہونے کااعتقادہے اورشرک شمارکیاجاتاہے،حالانکہ مسلمان اولیاء وانبیاء کے بارے میں اس قسم کے مقام اورمالکیت کے قائل نہیں ہیں۔ [50] اورہمیشہ دن رات اس بات کوگنگناتے رہتے ہیں﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه﴾ِ[51] کون ہے جواس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرسکے۔
اس بحث کانتیجہ
شفاعت خداوندکامخصوص حق ہےکہ کبھی وہ اپنے بندون میں سےاولیاء کرام کو اجازت دیتاہے کہ اس حق سے استفادہ کریں،اورخداونداپنے اس حق کو دودلیلوں کی بنیادپراپنے خاص بندوں کے حوالے کرتاہے۔
الف:جس طرح خداوندکریم کی رحمت(مادی ومعنوی)ہم تک اسباب کے ذریعہ پہنچتی ہے مثلاً انسانوں کوسعادت وہدایت کی راہ دیکھانے کیلئے انبیاء کرام کومبعوث کیاہے،سورج کوخلق کیاہے تاکہ وہ اپنی حیات بخش روشنی کے ذریعہ زندگی کورونق بخشے و۔۔۔اس کی مغفرت و رحمت بھی اسباب مثل اولیاء الہی کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہے،لیکن مؤثرِاصلی خداوندہے۔
ب:خداوندنے اپنے اولیاء وانبیاء کوشفاعت کامقام عطاکرکےچاہاہے کہ ان کی عزت واحترام کرے اوران کے وجودکی ارزش وقیمت دوسروں کوبتائے۔[52]
شفاعت ا ورخداکی تبدیل نہ ہونے والی سنت
یہاں پریہ سوال پیش آسکتاہے کہ آیاشفاعت،خداکی ان سنتوں سے منافات رکھتی ہے جوثابت ہیں اورجن میں تبدیلی نہیں ہوتی؟
مزیدوضاحت:اس جہان کے عالم تکوینی وتشریعی میں کچھ ایسے ثابت وتبدیل نہ ہونے والےقوانین پائے جاتے ہیں کہ کسی بھی صورت میں ان میں تبدیلی وتغیرممکن نہیں ہے اوروہی قوانین ماضی میں اس جہان پرحکم فرماتھے اورآج بھی ہیں اورکل بھی حکم فرمارہیں گے اورقرآن مجید ان قوانین کوسنت الہی کے نام سے یادکرتاہے،جیساکہ خداوندمتعال فرماتاہے:﴿ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا ﴾[53] اورخداکاطریقہ کاربھی نہ بدلنے والاہے اورنہ اس میں کسی طرح کاتغیرہوسکتاہے۔
سنت الہی کے مصادیق میں سےایک یہ ہے کہ خداگناہ گاروں کوسزادےگااوریہ کہ ان کے گناہ اورجرائم کے مطابق خداوندنے سزاکوبھی مدنظررکھا ہوا ہے،اس مطلب کوسامنے رکھتے ہوئے یہ سوال پیش آتاہے کہ آیاشفاعت خداکی سنت سے منافات نہیں رکھتی؟اورگناہ گاروں کوسزانہ دینانقض غرض نہیں ہے؟
جواب:خداوندکی وسیع رحمت ومغفرت اورانبیاء واولیاء الہی کی شفاعت کہ جوخاص شرائط کے مطابق گناہ گاروں کوشامل ہوتی ہےکے ضمن میں گناہ گاروں کے گناہوں کی بخشش خودخداکی تبدیل نہ ہونے والی سنتوں میں سے ایک سنت ہے،پس جب شفاعت خداکی سنت میں سے ہے توکیسے خداکی باقی سنتوں کے مخالف ہوسکتی ہے؟!!
مزیدوضاحت: یہ بات کہ خداوندمتعال کی سنت میں تبدیلی وتغیرواقع نہیں ہوتاکاملاًصحیح ہے؛لیکن اس بات کی طرف بھی متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ خداکی سنت،خداکی فقط ایک صفت پراستوارنہیں ہے اورخداکی فقط ایک سنت نہیں ہے؛بلکہ خداوندمتعال کی فراوان سنتیں ہیں کہ ہرایک خداکی کسی نہ کسی صفت سےپھوٹتی ہے اورہرایک اپنی جگہ پرکامل اورتام ہے۔
علامہ محمدحسین طباطبائی اورآیۃ اللہ جوادی آملی اس بارے میں یوں فرماتے ہیں:اس بات میں شک بھی نہیں ہے کہ خداکی سنت کاراستہ مستقیم ہے اوراس میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی؛لیکن یہ سنت کاتبدیل نہ ہونا،خداکی ایک صفت؛یعنی صفتِ تشریع پراستوارنہیں ہے تاکہ کوئی حکم وجزا اپنے مقام سے حرکت نہ کرسکے؛بلکہ یہ سنت خداکی تمام صفات عالیہ پراستوارہے ،اس بناپرہرحادثہ اپنے وجودی اعتبارسے خداکی ایک صفت یاچندصفات عالیہ پرتکیہ کئے ہوئے ہے اورجیسے جیسے وہ صفت تقاضاکرتی ہے وہ حادثہ بھی اسی کے مطابق واقع ہوتاجاتاہے۔
خلاصہ یہ کہ شفاعت کاواقع ہونااورعذاب کاشفاعت کی وجہ سےاٹھ جانااس لحاظ سے ہےکہ یہ مختلف اسباب مثل:رحمت،مغفرت،حکم قضا،حق دارکواس کاحق دینا اورصحیح قضاوت کانتیجہ ہے اوریہ خداکی جاری سنت میں اختلاف
وتبدیلی ایجادنہیں کرتا۔[54]
حقیقت میں اعتراض کرنے والے نے یہ تصورکیاہواہے کہ گناہ گارکوعذاب اورسزادیناخداکی اصلی سنت ہے اور شفاعت کے وسیلہ سے عفوومغفرت ایک قسم کااس سنت سے استثناہے؛حالانکہ دونوں ایک دوسرے کی نسبت استثنانہیں رکھتے ؛بلکہ دونوں خداکی قطعی سنت میں سے ہیں اورہرایک اپنے اپنے مقام پرجاری ہوتی ہے،لہذاایک کوسنت خدااوردوسری کو سنت کے خلاف قدم سے تفسیرنہیں کرناچاہیے؛اصلاً اس بات کاکہ خداکی سنت تبدیل نہیں ہوتی کایہ معنی بھی نہیں بنتاکہ خداکی فقط ایک سنت ہے؛حالانکہ خودخدااپنی یوں تعریف کررہاہے: ﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴾ [55]وہ ہرروزایک نئی شان والاہے،اس بناپرخداکاہرکام اورہرجلوہ اس کی کسی نہ کسی صفت کی بنیادپرہے۔[56]
پس اگرکسی کی شفاعت کی بنیادپرکسی سے عذاب ٹل جائے تویہ خداکی تبدیل نہ ہونے والی سنت سے تعارض ومنافات نہیں رکھتا؛بلکہ شفاعت بعض عوامل مثل رحمت،مغفرت،حکم،قضا اورصاحب حق کااپنے حق میں رعایت،کے اثرسے ہوتی ہے،اگرشفاعت کے حق کوخداوندمتعال نے اپنے انبیاء یااولیاء کودے دیاہے تویہ خداکی سنت کے خلاف نہیں ہواہے۔
آخر میں تبرک کے طورپررسول گرامی اسلامؐ کی شفاعت کے متعلق ایک حدیث پیش کی جاتی ہے:رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:مجھے اختیاردیاگیاہے کہ میں شفاعت کروں یااپنی آدھی امت کوجنت میں لے جاؤں،میں نے شفاعت کاانتخاب کیاہے؛کیونکہ اس کادائرہ وسیع ہے،کیاتم یہ خیال کرتے ہوکہ شفاعت فقط پرہیزگارمؤمنوں کیلئے ہے؟!نہ،بلکہ گناہوں میں آلودہ وخطاکاروں کیلئے ہے۔[57]
وصلی اللہ علی فاطمۃ وابیھاوبعلھاوبنیھا۔
ملک حسنین رضاعسکری
منابع:
قرآن مجید
امین،سیدمحسن ،تاریخچہ نقدوبررسی وہابی ہا،ترجمہ سیدابراہیم سیدعلوی،سپہر،تہران،۱۳۶۷ش۔
بخاری،محمدبن اسماعیل، صحیح بخاری،دارالفکر،بیروت،۱۴۰۱ق۔
جمعی ازنویسندگان،مجمع اللغات،فرہنگ بزرگ جامع نوین عربی بہ فارسی،احمدسیاح۔
جوادی آملی،تفسیرموضوعی قرآن کریم،وحی ونبوت درقرآن،چاپ اول،مرکزنشراسراء،قم،۱۳۸۱ش۔
راغب اصفہانی،المفردات فی غریب القرآن،چاپ اول،دارالعلم الدارالشامیہ،دمشق-بیروت۱۴۱۲ق۔
رازی،ابوالفتوح،روض الجنان وروح الجنان فی تفسیرالقرآن،بنیادپژوہش ہای اسلامی آستان قدس رضوی،مشہد، ۱۴۰۸ق۔
رضوانی،علی اصغر،سلفی گری،وہابیت وپاسخ بہ شبہات،سمت،تہران۱۳۸۴۔
سبحانی،جعفر،آئین وہابیت، دفترانتشارات اسلامی،قم۱۳۶۴ش۔
سبحانی،جعفر،الھیات علی الھدی الکتاب والسنۃ والعقل،مرکزجہانی علوم اسلامی،قم۱۴۱۱ق۔
سبحانی،جعفر،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،انتشارات دارالکتب الاسلامیہ،۱۳۵۳۔
سبحانی،جعفر،منشورجاوید،دارالقرآن کریم،۱۴۱۰ق۔
شیخ طوسی،التبیان فی تفسیرالقرآن، داراحیاء التراث العربی،بیروت۔
طاہری،علی رضا، فرہنگ اصطلاحات متقابل ومتشابہ،انتشارات بخشائش،۱۳۸۵ش۔
طباطبائی،محمدحسین،المیزان فی تفسیرالقرآن،ترجمہ محمدباقرموسوی ہمدانی، پنجم،دفترانتشارات اسلامی،قم۱۳۷۴ش۔
طباطبائی،سیدمحمدحسین،المیزان فی تفسیرالقرآن، دفترانتشارات اسلامی،قم۱۳۱۷ق۔
طبرسی،امین الاسلام فضل بن حسن،مجمع البیان،انتشارات ناصرخسرو،تہران۱۳۷۲ش۔
طبسی،نجم الدین ،رویکردعقلانی برباورہای وہابیت،امیرالعلم،قم،۱۳۸۴ش۔
فخرالدین رازی،ابوعبداللہ محمدبن عمر،التفسیرالکبیر، داراحیاء التراث العربی،بیروت۔
قاضی،عبدالجبّار، شرح الاصول الخمسہ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۴۲۲ق۔
قشیری نیشاپوری،مسلم بن حجاج بن مسلم ،صحیح مسلم،دارالفکر،بیروت۔
مصطفوی،حسن،التحقیق فی کلمات القرآن الکریم،بانگاہ ترجمہ ونشرکتاب،تہران،۱۳۶۰ش۔
مطہری،مرتضی ،عدل الہی،صدرا،۱۳۷۱ش۔
نیشاپوری،محمدبن فتّال،روضۃ الواعظین،منشورات الرضی،قم۔
نسفی،میمون بن محمد، تبصرۃالادلہ فی اصول الدین،انتشارات ہاد،تہران،۱۳۸۰ش۔
حوالاجات
- طباطبائی المیزان فی تفسیرالقرآن،ج۱،ص۱۵۵۔[1]
-بقرہ،آیہ ۱۲۲۔[2]
- جمعی ازنویسندگان،مجمع اللغات،ص۵۴۳۔[3]
- المیزان فی تفسیرالقرآن،ج۱،ص۱۵۵۔[4]
- زمر،آیہ۴۳و۴۴۔[5]
- بقرہ،آیہ۴۸۔[6]
- بقرہ،آیہ۱۲۳۔[7]
- بقرہ،آیہ۲۵۴۔[8]
- یونس،آیہ۳۔[9]
- طہ،آیہ۱۰۹۔[10]
- دخان،آیہ۴۰الی۴۲۔[11]
- الانبیاء،آیہ۲۶الی۲۸۔[12]
- عبدالجبارقاضی،شرح الاصول الخمسہ،ص۴۶۳-۴۶۷؛ڈاکٹرسمیع دغیم،موسوعہ مصطلحات علم الکلام الاسلامی،ج۱،ص۶۶۷۔[13]
- المیزان،ج۱،ص۱۵۵-۱۵۷۔[14]
- امام محمدرازی،تفسیرکبیر،ج۳،ص۵۹۔[15]
- شیخ طوسی،التبیان فی تفسیرالقرآن،ج۱،ص۲۱۳،ذیل آیت۴۸،سورہ بقرہ۔[16]
- الاسراء۷۹۔[17]
- نیشاپوری،محمدبن فتّال،روضۃ الواعظین،ص۵۴۹۔[18]
- مجمع البیان،ج۱،ص۲۲۳۔[19]
- روح الجنان،ج۱،ص۱۶۴-۱۷۵۔[20]
- تبصرۃالادلہ فی اصول الدین،ج۲،ص۷۹۲۔[21]
- سیدمحسن امین،کشف الارتیاب فی اتباع محمدبن عبدالوہاب،ص۱۹۲۔[22]
- راغب اصفہانی،المفردات فی غریب القرآن،ص۴۵۷-۴۵۸،ذیل شفاعت۔ [23]
- حسن مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن،ج۶،ص۹۲۔[24]
- علی رضا،طاہری،فرہنگ اصطلاحات متقابل ومتشابہ،ص۱۱۶-۱۱۷۔[25]
- جعفرسبحانی،آئین وہابیت،ص۲۵۹و۲۶۱۔[26]
- علی اصغررضوانی،سلفی گری،وہابیت وپاسخ بہ شبہات،ص۴۵۸و۴۵۹۔[27]
- بقرہ،آیہ۲۵۴۔[28]
- بقرہ،آیہ۴۸۔[29]
- مدثر،آیت ۴۸؛اعراف،آیت ۵۳؛شعراء،آیت ۱۰۱۔[30]
- انعام،آیت ۹۴؛یونس،آیت ۱۸؛زمر،آیت ۴۳؛یس،آیت۲۳۔[31]
- زمر،آیہ۴۴؛انعام،آیہ ۵۱؛انعام،آیہ ۷۰؛سجدہ،آیہ ۴۔[32]
- بقرہ،آیہ۲۵۵؛یونس،آیہ۳؛مریم،آیہ۸۷؛طہ،آیہ ۱۰۹؛سباء،آیہ۲۳؛زخرف،آیہ۸۶۔[33]
- انبیاء،آیہ۲۷و۲۸؛نجم،آیہ۲۶؛غافر،آیہ۷۔[34]
- جعفرسبحانی،الھیات علی الھدی الکتاب والسنۃ والعقل،ص۳۳۸-۳۴۰۔[35]
- نساء،آیہ ۸۵۔[36]
- محسن امین،تاریخچہ نقدوبررسی وہابی ہا،ترجمہ سیدابراہیم سیدعلوی،ص۲۵۸۔[37]
- غافر،آیہ ۷۔[38]
- فخررازی،تفسیرکبیر،ذیل آیہ ۷سورہ غافر۔[39]
- مسلم بن حجاج بن مسلم قشیری نیشاپوری،صحیح مسلم،ج۲،ص۶۶۵۔[40]
- محمدبن اسماعیل بخاری،صحیح بخاری،ج۴،ص۹۸۔[41]
- نجم الدین طبسی،رویکردعقلانی برباورہای وہابیت،ص۶۸و۶۹۔[42]
- مرتضی مطہری،عدل الہی،ص۲۳۷و۲۳۸۔[43]
- جعفرسبحانی،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،ص۲۷۳و۲۷۴۔[44]
- المیزان،ترجمہ محمدباقرموسوی ہمدانی،ج۱،ص۲۴۔[45]
- مرتضی مطہری،عدل الہی،ص۲۳۹۔[46]
- جعفرسبحانی،الہیات علی الہدی الکتاب والسنۃ والعقل،ص۳۵۷و۳۵۸۔[47]
- جعفرسبحانی،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،ص۲۸۰و۲۸۲۔[48]
- مرتضی مطہری،عدل الہی،ص۲۴۰۔[49]
- جعفرسبحانی،تفسیرموضوعی،ج۲،ص ۴۶۲،۴۶۱،۳۶۴۔[50]
- بقرہ،آیہ۲۵۵۔[51]
- جعفرسبحانی،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،ص۹۰و۹۱۔[52]
- فاطر،آیہ ۴۳۔[53]
- المیزان،ج۱،ص۱۶۳؛تفسیرموضوعی قرآن کریم،ج۵،معاددرقرآن،ص۱۵۳-۱۵۴۔[54]
- الرحمن،آیہ ۲۹۔[55]
- جعفرسبحانی،منشورجاوید،ج۸،ص۱۱۰۔[56]
- الفصاحہ،ترجمہ ابراہیم احمدیان،ص۳۷۰۔[57
قرآن مجید
امین،سیدمحسن ،تاریخچہ نقدوبررسی وہابی ہا،ترجمہ سیدابراہیم سیدعلوی،سپہر،تہران،۱۳۶۷ش۔
بخاری،محمدبن اسماعیل، صحیح بخاری،دارالفکر،بیروت،۱۴۰۱ق۔
جمعی ازنویسندگان،مجمع اللغات،فرہنگ بزرگ جامع نوین عربی بہ فارسی،احمدسیاح۔
جوادی آملی،تفسیرموضوعی قرآن کریم،وحی ونبوت درقرآن،چاپ اول،مرکزنشراسراء،قم،۱۳۸۱ش۔
راغب اصفہانی،المفردات فی غریب القرآن،چاپ اول،دارالعلم الدارالشامیہ،دمشق-بیروت۱۴۱۲ق۔
رازی،ابوالفتوح،روض الجنان وروح الجنان فی تفسیرالقرآن،بنیادپژوہش ہای اسلامی آستان قدس رضوی،مشہد، ۱۴۰۸ق۔
رضوانی،علی اصغر،سلفی گری،وہابیت وپاسخ بہ شبہات،سمت،تہران۱۳۸۴۔
سبحانی،جعفر،آئین وہابیت، دفترانتشارات اسلامی،قم۱۳۶۴ش۔
سبحانی،جعفر،الھیات علی الھدی الکتاب والسنۃ والعقل،مرکزجہانی علوم اسلامی،قم۱۴۱۱ق۔
سبحانی،جعفر،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،انتشارات دارالکتب الاسلامیہ،۱۳۵۳۔
سبحانی،جعفر،منشورجاوید،دارالقرآن کریم،۱۴۱۰ق۔
شیخ طوسی،التبیان فی تفسیرالقرآن، داراحیاء التراث العربی،بیروت۔
طاہری،علی رضا، فرہنگ اصطلاحات متقابل ومتشابہ،انتشارات بخشائش،۱۳۸۵ش۔
طباطبائی،محمدحسین،المیزان فی تفسیرالقرآن،ترجمہ محمدباقرموسوی ہمدانی، پنجم،دفترانتشارات اسلامی،قم۱۳۷۴ش۔
طباطبائی،سیدمحمدحسین،المیزان فی تفسیرالقرآن، دفترانتشارات اسلامی،قم۱۳۱۷ق۔
طبرسی،امین الاسلام فضل بن حسن،مجمع البیان،انتشارات ناصرخسرو،تہران۱۳۷۲ش۔
طبسی،نجم الدین ،رویکردعقلانی برباورہای وہابیت،امیرالعلم،قم،۱۳۸۴ش۔
فخرالدین رازی،ابوعبداللہ محمدبن عمر،التفسیرالکبیر، داراحیاء التراث العربی،بیروت۔
قاضی،عبدالجبّار، شرح الاصول الخمسہ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۴۲۲ق۔
قشیری نیشاپوری،مسلم بن حجاج بن مسلم ،صحیح مسلم،دارالفکر،بیروت۔
مصطفوی،حسن،التحقیق فی کلمات القرآن الکریم،بانگاہ ترجمہ ونشرکتاب،تہران،۱۳۶۰ش۔
مطہری،مرتضی ،عدل الہی،صدرا،۱۳۷۱ش۔
نیشاپوری،محمدبن فتّال،روضۃ الواعظین،منشورات الرضی،قم۔
نسفی،میمون بن محمد، تبصرۃالادلہ فی اصول الدین،انتشارات ہاد،تہران،۱۳۸۰ش۔
حوالاجات
- طباطبائی المیزان فی تفسیرالقرآن،ج۱،ص۱۵۵۔[1]
-بقرہ،آیہ ۱۲۲۔[2]
- جمعی ازنویسندگان،مجمع اللغات،ص۵۴۳۔[3]
- المیزان فی تفسیرالقرآن،ج۱،ص۱۵۵۔[4]
- زمر،آیہ۴۳و۴۴۔[5]
- بقرہ،آیہ۴۸۔[6]
- بقرہ،آیہ۱۲۳۔[7]
- بقرہ،آیہ۲۵۴۔[8]
- یونس،آیہ۳۔[9]
- طہ،آیہ۱۰۹۔[10]
- دخان،آیہ۴۰الی۴۲۔[11]
- الانبیاء،آیہ۲۶الی۲۸۔[12]
- عبدالجبارقاضی،شرح الاصول الخمسہ،ص۴۶۳-۴۶۷؛ڈاکٹرسمیع دغیم،موسوعہ مصطلحات علم الکلام الاسلامی،ج۱،ص۶۶۷۔[13]
- المیزان،ج۱،ص۱۵۵-۱۵۷۔[14]
- امام محمدرازی،تفسیرکبیر،ج۳،ص۵۹۔[15]
- شیخ طوسی،التبیان فی تفسیرالقرآن،ج۱،ص۲۱۳،ذیل آیت۴۸،سورہ بقرہ۔[16]
- الاسراء۷۹۔[17]
- نیشاپوری،محمدبن فتّال،روضۃ الواعظین،ص۵۴۹۔[18]
- مجمع البیان،ج۱،ص۲۲۳۔[19]
- روح الجنان،ج۱،ص۱۶۴-۱۷۵۔[20]
- تبصرۃالادلہ فی اصول الدین،ج۲،ص۷۹۲۔[21]
- سیدمحسن امین،کشف الارتیاب فی اتباع محمدبن عبدالوہاب،ص۱۹۲۔[22]
- راغب اصفہانی،المفردات فی غریب القرآن،ص۴۵۷-۴۵۸،ذیل شفاعت۔ [23]
- حسن مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن،ج۶،ص۹۲۔[24]
- علی رضا،طاہری،فرہنگ اصطلاحات متقابل ومتشابہ،ص۱۱۶-۱۱۷۔[25]
- جعفرسبحانی،آئین وہابیت،ص۲۵۹و۲۶۱۔[26]
- علی اصغررضوانی،سلفی گری،وہابیت وپاسخ بہ شبہات،ص۴۵۸و۴۵۹۔[27]
- بقرہ،آیہ۲۵۴۔[28]
- بقرہ،آیہ۴۸۔[29]
- مدثر،آیت ۴۸؛اعراف،آیت ۵۳؛شعراء،آیت ۱۰۱۔[30]
- انعام،آیت ۹۴؛یونس،آیت ۱۸؛زمر،آیت ۴۳؛یس،آیت۲۳۔[31]
- زمر،آیہ۴۴؛انعام،آیہ ۵۱؛انعام،آیہ ۷۰؛سجدہ،آیہ ۴۔[32]
- بقرہ،آیہ۲۵۵؛یونس،آیہ۳؛مریم،آیہ۸۷؛طہ،آیہ ۱۰۹؛سباء،آیہ۲۳؛زخرف،آیہ۸۶۔[33]
- انبیاء،آیہ۲۷و۲۸؛نجم،آیہ۲۶؛غافر،آیہ۷۔[34]
- جعفرسبحانی،الھیات علی الھدی الکتاب والسنۃ والعقل،ص۳۳۸-۳۴۰۔[35]
- نساء،آیہ ۸۵۔[36]
- محسن امین،تاریخچہ نقدوبررسی وہابی ہا،ترجمہ سیدابراہیم سیدعلوی،ص۲۵۸۔[37]
- غافر،آیہ ۷۔[38]
- فخررازی،تفسیرکبیر،ذیل آیہ ۷سورہ غافر۔[39]
- مسلم بن حجاج بن مسلم قشیری نیشاپوری،صحیح مسلم،ج۲،ص۶۶۵۔[40]
- محمدبن اسماعیل بخاری،صحیح بخاری،ج۴،ص۹۸۔[41]
- نجم الدین طبسی،رویکردعقلانی برباورہای وہابیت،ص۶۸و۶۹۔[42]
- مرتضی مطہری،عدل الہی،ص۲۳۷و۲۳۸۔[43]
- جعفرسبحانی،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،ص۲۷۳و۲۷۴۔[44]
- المیزان،ترجمہ محمدباقرموسوی ہمدانی،ج۱،ص۲۴۔[45]
- مرتضی مطہری،عدل الہی،ص۲۳۹۔[46]
- جعفرسبحانی،الہیات علی الہدی الکتاب والسنۃ والعقل،ص۳۵۷و۳۵۸۔[47]
- جعفرسبحانی،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،ص۲۸۰و۲۸۲۔[48]
- مرتضی مطہری،عدل الہی،ص۲۴۰۔[49]
- جعفرسبحانی،تفسیرموضوعی،ج۲،ص ۴۶۲،۴۶۱،۳۶۴۔[50]
- بقرہ،آیہ۲۵۵۔[51]
- جعفرسبحانی،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،ص۹۰و۹۱۔[52]
- فاطر،آیہ ۴۳۔[53]
- المیزان،ج۱،ص۱۶۳؛تفسیرموضوعی قرآن کریم،ج۵،معاددرقرآن،ص۱۵۳-۱۵۴۔[54]
- الرحمن،آیہ ۲۹۔[55]
- جعفرسبحانی،منشورجاوید،ج۸،ص۱۱۰۔[56]
- الفصاحہ،ترجمہ ابراہیم احمدیان،ص۳۷۰۔[57
No comments:
Post a Comment