Sunday, 8 November 2015

Martyrs of Karbala- Martyrdom of Burayr bin Khuzayr

Martyrdom of Burayr bin Khuzayr
(Tabari) Thus the battle started. Azdi says that Yusuf bin Yazeed related to me from Afeef bin Zuhayr bin Abi Akhnas, who was present at Karbala. He says that Yazeed bin Ma'qal, who was from the tribe of Bani Umayrah bin Rabi'ah, which is a branch of Bani Salimah of Abdal Qays, came forward. He told Burayr, "O Burayr bin Khuzayr! Do you see as to what Allah has done to you." Burayr replied, "By Allah! Allah has dealt fairly with me and has brought forth evil for you." Yazeed said, "You speak a lie, and you never lied before. Do you remember once when I was walking alongwith you in Bani Lawzan, you told me that Usman bin Affan had killed himself, while Mu'awiyah bin Abu Sufyan was a misguided man and the one who leads others astray, while the true and Righteous Imam and guide is Ali bin Abi Talib"? Burayr replied, "I bear witness that this is (still) my belief." Yazeed bin Ma'qal said, "I bear witness that you are among the astray." Then Burayr said, "Then do you desire that we imprecate one another, while invoking the curse of Allah upon the one who lies. Then the one on the right path should kill the one who is upon the wrong, then I shall come out to fight with you."
The narrator says that both of them came out into the battlefield and lifting their hands invoked the curse of Allah upon the liar and that the righteous one should kill the evil. Then they started fighting one another. There were exchange of swords between them, when Yazeed bin Ma'qal dealt a light and ineffective blow on Burayr. Then Burayr dealt a blow upon his head, which cut his head and reached his brain. He rolled down upon the ground like a ball, while the sword of Burayr was stuck in his head, and he was lifting it up and down to pull it out.
Then Razee bin Manqaz Abadi attacked Burayr and grappled him. Both of them struggled until Burayr threw him down and sat on his chest. Then Razee called out, "Where are my defenders"? Hearing this Ka'ab bin Jabir bin Umro Azdi advanced to assist him, when I said, "This is Burayr bin Khuzayr, the recitor of the Qur'an, who taught us the Qur'an in the Mosque." He attacked Burayr with his spear. When Burayr felt the point of the spear, he threw himself upon him and bit his nose. But Ka'ab sunk his spear into him and drew it till his heart, while the entire point of the spear entered his back. Then he hit him on the head and started attacking him with his sword until he killed him (May Allah's Mercy and Blessings be upon him).
Afeef bin Zuhayr bin Abi Akhnas says, that it is as if I see Razee, who was scattered on the ground, arising while brushing off the dust from his cloak and telling Ka'ab that, "O brother (from the clan) of Azd! You have favoured me and I shall never forget it."
Yusuf bin Yazeed says, that I asked Afeef whether he had really witnessed it with his own eyes, to which he replied that, "I have seen it with my own eyes and heard it with my own ears."
When Ka'ab bin Jabir returned back, his wife, and his sister, Nawar binte Jabir told him, "You have sided with the opponents of the son of Fatemah (a.s.), and have killed the chief of the Qur'an Recitors? By Allah! I shall never ever speak to you from now on." And Ka'ab bin Jabir recited the following couplets: "You ask regarding me and shall be informed regarding the morning of Imam Husain (a.s.), when the spears were being thrust, that did not I commit the act which you despise? When it could not be imagined that day as to what I would do, I had with me my spear, which did not falter and a white shining sword, which was sharp-edged and fierce, then I unsheathed it and attacked a group, whose Religion was not the same as mine, which was the obedience to the son of Harb, when I had not witnessed anyone similar to them in their age before them, who had fought fiercely in the battle, they are those who safeguard their honour, then they bore patiently against the spears and swords and stepped into the battlefield, I wish this had profited them, then when you meet Ubaydullah, give him this message that I am obedient to the Caliph and compliant of his words, then it is I who killed Burayr and favoured the son of Manqaz, when he called for assistance."
Reference: Nafasul Mahmoom
by Sheikh Abbas Qummi
Page 115
Publisher: Islamic Study Circle

Wednesday, 14 October 2015

امام رضا علیہ السلام اور ذبح عظیم کی تفسیر

جب ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنے فرزند دلبند حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنا چاہا تو چھری نے گلا نہیں کاٹا؛ ابراہیم علیہ السلام نے چھری پتھر پر ماری تو پتھر ٹوٹ گیا اور آپ مطمئن ہوگئے کہ چھری میں کوئی نقص نہیں ہے تا ہم چھری اسمعیل کے گلے پر کارگر نہ ہوئی اور پھر اسی اثناء میں ایک دنبہ ظاہر ہوا اور حکم آیا کہ اب یہ دنبہ ذبح کرو اور یہ کہ ہم نے ذبح عظیم کو اسمعیل کی قربانی کا متبادل قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ ذبح عظیم اس دنبے کی قربانی تو نہیں ہوسکتی تھی چنانچہ ایک ایسی شخصیت کی قربانی متبادل ہونا ضروری ہے جس کا مقام اسمعیل علیہ السلام سے کہیں اونچا ہے۔ ہم یہاں امام رضا علیہ السلام کی نگاہ بیان کرتے ہیں ذبح عظیم کے بارے میں اور یہ بات ایک حدیث کے ضمن میں بیان ہوئی ہے جو حقیقت کے جستجوگروں کے لئے کافی جاذب و دلچسپ ہے:ما جاء عن الرضا عليه السلام في تفسير قول الله عز وجل: "و فديناه بذبح عظيم" حدثنا عبد الواحد بن محمد بن عبدوس النيسابوري العطار بنيسابور في شعبان سنه اثنين وخمسين وثلاثمأه قال: حدثنا محمد بن على بن محمد بن قتيبه النيسابوري عن الفضل بن شاذان قال: سمعت الرضا عليه السلام يقول: لما أمر الله تبارك وتعالى إبراهيم عليه السلام ان يذبح مكان ابنه اسماعيل الكبش الذي انزله عليه تمنى إبراهيم عليه السلام ان يكون يذبح ابنه اسماعيل عليه السلام بيده وانه لم يؤمر بذبح الكبش مكانه ليرجع الى قلبه ما يرجع قلب الوالد الذي يذبح اعز ولده بيده فيستحق بذلك ارفع درجات أهل الثواب على المصائب فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم من احب خلقي اليك؟ فقال: يا رب ما خلقت خلقا هو احب الى من حبيبك محمد (ص) فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم افهو احب اليك أو نفسك؟ قال: بل هو احب الى من نفسي قال: فولده احب اليك أو ولدك؟ قال: بل ولده قال: فذبح ولده ظلما على اعدائه اوجع لقلبك أو ذبح ولدك بيدك في طاعتي؟ قال: يا رب بل ذبحه على ايدى اعدائه اوجع لقلبي قال: يا إبراهيم فإن طائفه تزعم انها من امه محمد (ص) ستقتل الحسين عليه السلام ابنه من بعده ظلما وعدوانا كما يذبح الكبش فيستوجبون بذلك سخطى فجزع إبراهيم عليه السلام لذلك وتوجع قلبه واقبل يبكى فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم قد فديت جزعك على ابنك اسماعيل لو ذبحته بيدك بجزعك على الحسين عليه السلام وقتله واوجبت لك ارفع درجات أهل الثواب على المصائب فذلك قول الله عز وجل: (وفديناه بذبح عظيم) (1) ولا حول ولا قوه إلا بالله العلى العظيم .
(عیون اخبارالرضا (ع) ج 2 ص 188)۔
و فدیناہ بذبح عظیم (سورہ صافات آیت 107) کے بارے میں امام رضا سے جو منقول ہے وہ کچھ یوں ہے:شیخ صدوق روایت کرتے ہیں کہ عبد الواحد بن محمد بن عبدوس النيسابوري العطار نے ماہ شعبان سنہ 352 کو ہمارے لئے نقل کیا اور کہا کہ ہمیں محد بن علی بن محمد بن قتیبہ النیسابوری نے فضل بن شاذان سے نقل کرکے سنایا کہ میں (فضل بن شاذان) نے امام رضا علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: جب خداوند متعال نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا ہے اپنے بیٹے کی جگہ دنبے کو ذبح کردے تو اہراہیم علیہ السلام کے دل میں گذری کہ کاش میں اپنا بیٹا اسمعیل اپنے ہاتھ سے خدا کی راہ میں ذبح کرتا اور مجھے بیٹے کی جگہ دنبہ ذبح کرنے کا حکم نہ ملتا تا کہ اس طرح وہ اس باپ کا احساس پاتے جس نے اپنے سب سے پیارے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہوتا ہے اور اس کے مصائب برداشت کرنے پر انہیں ثواب کے بلند ترین مراتب نصیب ہوتے خداوند متعال نے ابراہیم علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ اے ابراہیم (ع)! آپ کے نزدیک میری محبوبترین مخلوق کون ہے؟ عرض کیا: خداوندا! تو نے اب تک ایسی مخلوق خلق نہیں فرمائی جو میرے نزدیک تیرے حبیب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ محبوب ہو۔ وحی آئی: اے ابراہیم! آپ ان سے زیادہ محبت کرتے ہيں یا اپنے آپ سے؟عرض کیا: ان سےوحی آئی: اے ابراہیم! کیا آپ ان کے بیٹے سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا اپنے بیٹے سے؟عرض کیا: ان کے بیٹے سےوحی آئی: کیا آپ ظلم و ستم کی وجہ سے دشمنوں کے ہاتھوں ان کے بیٹے کا سر جدا ہونے سے آپ کو زیادہ صدمہ پہنچتا ہے یا میری اطاعت کی بنا پر اپنے ہاتھوں اپنے بیٹے کا سر جدا کرنے سے؟عرض کیا: دشمنوں کے ہاتھوں ان کے بیٹے کا سر جدا ہونے سے مجھے زیادہ صدمہ پہنچتا ہےخداوند متعال نے ارشاد فرمایا: لوگوں کا ایک گروہ جو اپنے آپ کو امت محمد (ص) سمجھتے ہیں محمد (ص) کے بیٹے کو گوسفند کی مانند ذبح کریں گے اور اپنے اس کام کی وجہ سے میرے غضب کے مستحق قرار پائیں گےابراہیم علیہ السلام اس حقیقت سے آگاہ ہو کر جزع و فزع کرنے لگے، ان کو سخت صدمہ ہوا اور گریہ و بکاء کرنے لگے چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی:اے ابراہیم (ع)! حسین علیہ السلام اور ان کے قتل پر آپ کے اس جزع و فزع کی بنا پر میں نے اسمعیل (ع) پر آپ کے غم اور رنج کو ـ اگر آپ انہیں ذبح کرتے ـ قبول کرلیا اور مصائب پر صبر کی پاداش میں ثواب کے بلند ترین درجات آپ کے نصیب کروں گآ۔ [امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں] یہی ہے اللہ تعالی کے اس قول کا مطلب کہ "و فدیناهم بذبح عظیم = ہم نے ذبح عظیم اور عظیم قربانی کو اسمعیل (ع) کی قربانی کا فدیہ اور عوض قراردیا۔ (سورة الصافات: الاية 107.) لا حول و لا قوة الا بالله العلی العظیم. مرحوم علامه طهرانی اپنی کتاب "روح مجرد" ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:طہران میں جس خطیب کو محرم کے عشرے کے لئے بلایا چاتا عشرے کی آخری رات اس کو آئندہ سال کے اسی عشرے کے لئے بلایا جاتا تھا۔ مرحوم دُرّی کی حیات کا آخری سال تھا اور طہران میں خطابت کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ آٹھویں یا نویں رات کو ایک نوجوان نے مجلس سے پہلے ان سے پوچھا: اس شعر سے مراد کیا ہے:
مرید پیر مغانم ز من مرنج ای شیخ چرا كه وعده تو كردی و او به جاآورد
میں پیر مغان کا مرید ہوں مجھ سے رنجیدہ خاطر مت ہونا اے شیخکیونکہ وعدہ آپ نے کیا اور وہ بجا لائے
مرحوم دُرّی نے کہا: اس سوال کہ جواب میں منبر سے دوں گا تا کہ دوسرے بھی استفادہ کرسکیں۔انھوں نے منبر پر خدا کی طرف سے آدم ابوالبشر علیہ السلام کو گندم کھانے سے روکے جانے کی داستان نقل کرتے ہوئے کہا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کبھی گندم کی روٹی تناول نہیں فرمائی اور جو کی روٹی بھی کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور پھر کہا:اس شعر میں شیخ سے مراد "حضرت آدم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام ہے جنہوں نے جنت میں گندم سے استفادہ نہ کرنے کا وعدہ دیا لیکن اس پر عمل نہ کرسکے اور گندم کھا لی اور یہاں "پیر مغان" سے مراد امیرالمؤمنین صلوات اللہ علیہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی گندم کی روٹی نہیں کھائی اور آدم (ع) کا وعدہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نبھایا۔ یہ اس شعر کی پوری تشریح تھی جو مرحوم دری نے پیش کرکے مجلس ختم کردی۔سال ختم ہونے سے پہلے ہی مرحوم دری دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور محرم میں اسی رات ـ جس رات اس نوجوان نے مرحوم دری سے مذکورہ بالا سوال پوچھا تھا وہ نوجوان ـ مرحوم دری کو خواب میں دیکھتا ہے اور مرحوم دری کہتے ہیں: آپ نے مجھ سے گذشتہ سال اس شعر کا مطلب اور مفہوم پوچھا تھا اور میں نے اس طرح جواب دیا تھا لیکن اب مجھ پر اس شعر کا صحیج مفہوم منکشف ہوا اور وہ یہ ہے کہ:شعر میں شیخ سے مراد حضرت ابراہیم علیہ و علی نبینا و آلہ الصلواة والسلام ہیں اور وعدہ "بیٹے کی قربانی" ہے اور "پیر مغان" سے مراد حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں اور اگرچہ ابراہیم علیہ السلام نے وعدہ وفا کیا لیکن وعدے کی تکمیل سیدالشہداء علیہ السلام نے کی اور کربلا میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کی قربانی دی۔
(حافظ و پیرمغان، ص ،۱۸ به نقل از روح مجرد، علامه طهرانی).
اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر
اقبال

جن افراد کی ماں سید ہے، وہ سید کیوں شمار نہیں ہوتے، جبکہ حضرت زہرا{ع} کے تمام فرزند سید ہیں؟


اسلام میں "سید" کی اصطلاح کا ان افراد پر اطلاق ہوتا ہے، جن کے باپ کا شجرہ نسب، پیغمبراسلام{ص} کے جد امجد ہاشم تک پہنچتا ہو، اگرچہ حضرت زہراء{س} کی اولاد بھی نہ ہو۔ بہ الفاظ دیگر سادات سے مراد وہ افراد ہیں جن کا شجرہ نسب ہاشم تک پہنچتا ہو اور ضروری نہیں ہے کہ وہ حضرت زہرا{ع} کی اولاد ہوں۔ اس لیے ، حضرت زہرا{ع} کی اولاد ان سے نسبت رکھنے کی وجہ سے سادات نہیں ہیں، بلکہ اس لیے سید ہیں کہ باپ اور ماں دونوں کی طرف سے ان کا شجرہ نسب ہاشم تک پہنچتا ہے۔ 

جن افراد کی ماں سید ہے، وہ سیادت کے لحاظ سے حضرت زہراء{س} سے منسوب ہیں، لیکن اس نکتہ پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ "سید" کی اصطلاح حضرت زہراء{ع} کی اولاد سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ وہ تمام افراد، جن کے باپ کا شجرہ نسب پیغمبراسلام{ص} کے جد امجد ہاشم تک پہنچتا ہو، سید شمار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے تمام علماء کا اس مسئلہ پر اتفاق نظر ہے اور صرف اس مسئلہ سے متعلق بعض احکام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر سادات کو خمس دینا، کہ اکثر فقہا کی نظر میں جائز نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے ، کہ جن کی ماں سید ہے، یقیناً وہ رسول خدا{ص} کی ذریت ہیں، کیونکہ ائمہ اطہار{ع} بھی اسی وجہ سے پیغمبراکرم{ص} کی ذریت شمار ہوتے ہیں۔ اس مسئلہ کی گواہ وہ روایت ہے، جو امام رضا{ع} نے عباسی خلیفہ مامون کے جواب میں فرمائی ہے:
" مامون نے حضرت{ع} سے کہا: میں تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حسب و نسب کے لحاظ سے آپ{ع} اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے اور فضیلت کے لحاظ سے بھی ہم دونوں گروہ یکساں ہیں اور ہمارے فضائل بیان کرنے میں جو اختلاف ہمارے پیرووں کے درمیان ہے، وہ نفسانی خواہشات اور تعصبات پر مبنی ہے۔
امام{ع} نے فرمایا: اگر اجازت دو تو میں تمھارے سوال کا جواب دوں اور اگر نہیں چاہتے ہو تو میں جواب نہیں دوں گا۔ مامون نے کہا: میں نے یہ سوال اس لیے پیش کیا ہے کہ آپ سے استفادہ کروں۔ حضرت{ع} نے فرمایا: اگر رسول خدا{ص} اس بید کے کھیت {نیزار} سے نکل کر آپ کی بیٹی کی خواستگاری کریں گے تو آپ کیا کریں گے؟ مامون نے کہا: سبحان اللہ؛ کیا کوئی ایسا ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی رشتہ داری پر خوش نہ ہو؟؛ حضرت{ع} نے فرمایا: کیا میں بھی اس قسم کے رشتہ پر راضی ہوسکتا ہوں؟؛ مامون نے، ایک لمحہ رکنے کے بعد جواب دیا: خدا کی قسم آپ کی قرابت رسول خدا{ص} سے متصل ہے[1]۔
اس روایت سے نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ رسول خدا{ص} کی دختر کی نسبت سے اولاد اور نواسے بھی رسول خدا{ص} کی ذریت ہیں اور رسول خدا{ص} کے لیے ان سے ازدواج کرنا جائز نہیں ہے۔
لیکن باپ کی راہ سے نسل و قبیلہ کا انتساب، ایک رائج اور عرفی امر ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک کے مانند، ہمارے ملک {ایران} میں بھی افراد کا باپ کی نسبت سے اندراج کرتے ہیں، اگرچہ ماں سے انتساب بھی ایک مسلم امر ہے۔ لیکن جس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قوموں کے بعض عرفی امور کو اسلام نے بھی ایک اصول کے عنوان سے قبول کیا ہے، اس مسئلہ کی دلیل بھی تعبدی ہے اور روایات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ سوال میں بیان کیے گیے موضوع کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں امام کاظم{ع} مستحقین خمس کا بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: جن کی ماں بنی ہاشم سے اور باپ قریش کے دوسرے قبائل میں سے ہوں، وہ صدقات سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن ان کے لیے خمس نہیں ہے، کیونکہ خداوندمتعال قرآن مجید میں فرماتا ہے: " ادعوھم لابائھم" یعنی لوگوں کو ان کے باپ سے پکارتے ہیں۔[2] ، [3]
[1]مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 10، ص 349، ح 9، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ھ.
[2]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج1، ص 539، ح4، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 ھ ش.
[3]الأحزاب، 5

کسی سیدہ خاتون کا غیر سید مرد سے شادی کا کیا حکم ہے ؟

- شیعہ غیرسید مرد کا شیعہ سیدہ لڑکی سے شادی کرنے میں شرعی لحاظ سے کوئی اشکال نہیں ہے اور اسلام کی نظر میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ سیدہ لڑکی کا غیر سید سے شادی جائز نہ ہو ۔
اس مسئلہ کی دلیل خود قرآن ہے ۔
اوراس کاواضح نمونہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی پھوپھی زینب کا زید بن حارثہ سے شادی کرنا ہے کہ قرآن کریم میں یہ صریحاً ذکر ہوا ہے ۔
جیسا کہ سور احزاب میں فرماتا ہے :''« وَ ما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا مُبِيناً * وَ إِذْ تَقُولُ للَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللَّهَ وَ تُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ وَ اللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشاهُ فَلَمَّا قَضى زَيْدٌ مِنْها وَطَراً زَوَّجْناكَها لِكَيْ لا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْواجِ أَدْعِيائِهِمْ إِذا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَراً وَ كانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا»)سوره احزاب آیت 36 تا 37)
اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب ا للہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کردیں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا ۔اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت ) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا ، کہہ رہے تھے :اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو اور وہ بات آپ نے اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں ، پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پور ی کر لی تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تا کہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے ) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر ہی رہے گا ''۔
واقعہ یہ ہے کہ :بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جب حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے شادی کی ، اس وقت خدیجہ نے ''زید '' نامی کسی غلام کو خریدا اور بعد میں اسے پیغمبر اکرم (ص) کو ہدیہ کے طور پر دیا ،اور پیغمبر اکرم(ص) نے اسے آزاد فرمایا، اورجب اس کے قبیلہ والوں نے اس سے بائیکاٹ کیا تو آپ (ص) نے اسے اپنا بیٹا بنایا کہ اصطلاح میں اسے تبنی کہا جاتا ہے ۔
اسلام کے ظہور ہونے کے بعد ''زید '' ایک مخلص مسلمان ہوا ، اور اسلام میں اپنا مقام پیدا کیا ،اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ ''موتہ'' میں لشکر اسلام کے کمانڈر بن گئے اور اسی جنگ میں شہید ہوئے ۔
جب پیغمبر اکرم(ص) کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت زینب بنت جحش کی منگنی کی ،زینب بنت جحش رسول خدا (ص) کی پھوپھی کی بیٹی تھی اور سیدہ تھی اور زید ایک آزاد ہونے والا غلام تھ کہ حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم(ص) کو ہدیہ دیاتھا اور وہ سید نہیں تھا ، پیغمبر اکرم (ص)نے جب زینب کی منگنی کی تو وہ یہ سوچ کر خوشحال ہوئی تھی کہ آپ(ص)اپنے لیے منگنی کررہے ہیں اس لیے خوشحال ہو کر راضی ہوئی ،لیکن جب بعد میں یہ پتہ چلا کہ زیدکے لئے منگنی کی ہے تو سخت پریشان ہوئی اور منع کرنے لگی ، اور اس کا بھائی ''عبدا للہ '' بھی اس کے لئے راضی نہیں تھا اور سختی سے مخالفت کررہا تھا، اس وقت جن آیات کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے ان میں سے ایک نازل ہوئی اور زینب اورعبداللہ کو یہ خبر دار کیا کہ جب خدا اور اس کا رسول کی کام کو ضروری سمجھتے ہیں تو کوئی اس کی مخالفت نہیں کر سکتا ،انہوں نے جب یہ بات سنی تو وہ بھی خدا کے حکم سے سامنے سر تسلیم خم ہوئے ( البتہ جیسا کہ معلوم ہے یہ شادی کوئی معمولی شادی نہیں تھا بلکہ یہ زمان جاہلی کی ایک غلط رواج کو باطل قرار دینے کے لئے ایک مقدمہ تھا ، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں کوئی با شخصیت عورت کسی غلام سے شادی کرنے پر رضامند نہیں ہوتی تھی،اگرچہ اس کا انسانی لحاظ سے بہت ہی قدر و قیمت والا ہی کیوں نہ ہو ۔
اگر سیدہ لڑکی کا کسی غیر سید سے شادی کرنے میں کوئی مختصر بھی مشکل ہوتا تو خدا اور اس کا رسول ا س کی تائید نہیں کرتے ، لیکن یہاں پر زینب نے جب اس سے منع کیا تو خداوند متعالی نے اسے خبردار کیا ۔
کہ یہ کسی بھی صورت میں یہ شادی واقع ہونا چاہئے تا کہ یہ غلط اور باطل رواج اور نسلی امتیاز بندی ختم ہو جائے ۔
البتہ بعد میں زید اور زینب کے درمیان اختلافات ہوئے اورزینب کو طلاق ہوئی اس کے بعد زینب کی حوصلہ افزائی اورتبنی کے غلط رواج کو توڑنے کے لئے پیغمبر اکرم(ص) زینب سے شادی کر لی کہ دوسری آیت اس مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔
بہر حال یہ آیت کریمہ سید ہ کا غیر سید سے شادی کے جائز ہونے کا بہترین دلیل ہے ۔
اس کا ایک اور نمونہ ، عبد المطلب کی پوتی ضباعہ کا مقداد سے شادی کرنا ہے کہ روایات میں نقل ہوا ہے مخصوصاً اس روایت کے ذیل میں تصریح ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:''میں نے یہ شادی کرایا ہے تا کہ لوگوں کے درمیان شادی وسیع پیمانہ پر واقع ہو جائے اور تمام قسم کے قید اور بند ختم ہو جائے ''۔
ہمارے زمانہ کے بہت سارے مراجع جیسے آیت اللہ خوئی اور آیت اللہ گلپائیگانی کہ خود سادات بنی زہرا میں سے ہیں ، لیکن انہوں نے اپنی بیٹیوں کو غیر سادات کو دیئے ہیں ۔
لہذا سید ہ اور غیر سید میں شادی جائز نہ ہونے کا جو عقیدہ ہے دین میں بدعت ہے شاید دشمنان اہل بیت نے اس کو رواج دیا ہو گا تا کہ اس طرح سادات اور غیر سادات میں کوئی گهرا تعلقات پیدا نہ ہو جائے ۔
http://www.fazellankarani.com/urdu/qa/6191

امام حسن علیہ السلام کے واقعات بھی واقعات کربلا سے کچھ کم نہیں

صلح حسن نے دراصل امام حسین کی آنے والی قربانی اور ذبح عظیم کی گہری تاثیر کی داغ بیل ڈالی ۔ چنانچہ جب حسین علیہ السلام مظلوم کی شہادت عظمیٰ کا امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے دس سال بعد وقت آ گیا تو امام حسین نے بڑی آن بان سے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرلی تو اس درخت میں ثمر آیا جو امام حسن نے لگایا تھا اوراسلام کے بھیس میں اسلام کشی کا جو بھوت بنایا گیا تھا اس کا پردہ چاک ہو گیا۔اور دنیا والوں نے دیکھ لیا کہ محمد (ص) اور آل محمد کیا چاہتے ہیں اور سلطنتوں کا بہاؤ کس طرف تھا۔
امام حسن علیہ السلام کی صلح شیعہ حضرات کے نزدیک کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ۔وہ انہیں امام ۔ جانشین رسول ۔ صاحب اعجاز ۔علم وہبی کے مالک مانتے ہیں۔ ایک بڑے عالم دین سے ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی طرز زندگی بالکل مختلف بتائی جاتی ایک نے صلح اختیار کی اور دوسرے نے جنگ۔ وہ بزرگ ایک موٹی سی چادر لے کر دریا پر گئے اور اس کو دریا کے پانی میں خوب اچھی طرح سے ڈبویا ۔اس کے بعد چونکہ پانی کے وزن سے چادر بہت بھاری ہو گئی تھی لہٰذا ایک شاگرد کو ایک سرا پکڑوایا اور خود دوسرا سرا پکڑا اور کہا اسے نچوڑو۔اب شاگرد ہاتھ دائیں طرف گھما کر پانی نچوڑ رہا تھا اور قبلہ کا ہاتھ ادھر سے اگر دیکھا جائے تو مخالف سمت میں چل رہا تھا تاکہ پانی نچوڑتا رہے ۔ جب چادر کا پانی نکل گیا تو مولانا نے شاگردوں سے پوچھا ۔ کیا بات تم لوگوں کی سمجھ میں آئی۔ دیکھو چادر کو سکھانے کے لئے ایک کا ہاتھ CLOCKWISE اور دوسری سمت والے کا اس کی مخالف سمت میں چل رہا ہے مگر مقصد دونوں کا ایک ہی ہے کہ کپڑے سے پانی نکال دیا جائے۔اسی طرح سے دونوں شہزادوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ نانا کے دین اسلام کو کسی طرح سے بچا لیا جائے ۔ایک نے صلح کا طریقہ استعمال کیا دوسرے نے کربلا میں روز عاشورہ جنگ کر کے اور قربانیاں دے کر اسلام کو بچایا۔ اور حسین علیہ السلام بھی بھائی حسن علیہ السلام کی ۰۵ ہجری میں شہادت کے بعد 10 سال تک صبر کا مظاہرہ کرتے رہے۔
بحکم حق کہیں پر صلح کر لیتے ہیں دشمن سے کہیں پر جنگ ِ خاموشی جواب ِ جنگ ہوتی ہے
زمانہ یہ سبق لے فاطمہ(س) کے دل کے ٹکڑوں سے کہاں پر صلح ہوتی ہے کہاں پر جنگ ہوتی ہے
امام حسن علیہ السلام ایک ایسے ہادی اور رہنما تھے کہ جنہوں نے بچپن ہی سے دین کی تبلیغ اور رہنمائی کا کام شروع کر دیا تھا۔ آپ نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ سرکار رسالت کو گود میں لے کر کہنا پڑا کہ یہ دونوں میرے فرزند امام ہیں چاہے کھڑے رہیں یا بیٹھ جائیں ۔ یہ دونوں جوانان ِ جنت کے سردار ہیں اور ان کا باپ ان سے بھی افضل ہے ۔ اب اگر امت کے بوڑھے بھی جنت میں جانے کے خواہش مند ہوں گے تو ان کو ان شہزادوں کو جنت کا سردار ماننا پڑے گا اور ان کے بابا کو افضل ماننا پڑے گا۔جنت ان کے قبضے میں ہے اور کوثر ان کے باپ کے قبضے میں ہے۔ ان کی ماں خاتون جنت ہے ۔ ان سے واسطہ رکھنا ہی پڑے گا. جب ہی تو اصحاب کبار اپنے بچوں کی شکایت کے جواب میں کہا کرتے تھے کہ اگر حسن علیہ السلام ابن علی علیہ السلام تم کو غلام زادہ کہتے ہیں تو ان سے لکھوا لاؤ ہم ان کے غلام بن کر جنت میں چلے جائیں گے۔
رسول اللہ نے اپنے قول وفعل سے امام حسن علیہ السلام کے فضائل بیان کئے ہیں۔ نواسہ مسجد میں آ جائے تو منبر سے اتر کر گودی میں بٹھا لیا کرتے تھے۔ سجدے میں آ جائے تو سر نہ اٹھاتے تھے۔عید کا دن تھا تو کاندھے پر بٹھا کر ناقہ بن گئے۔مباھلے کا دن آیا تو انگلی پکڑ کر لے چلے۔ تطہیر کی منزل آئی تو گلے سے لگا کر ضعف رسالت کو قوت میں تبدیل کر دیا۔ عید کا دن آیا تو بیٹی زہرا (س) کی دہلیز پر بیٹھ کر امام حسن علیہ السلام کے دہن اقدس کے بوسے لئے۔اور ہرنی کا بچہ آیا تو اسے شہزادے کے حوالے کر دیا۔
امیر امومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زمانے میں بھی اگر کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو آپ امام حسن علیہ السلام سے ہی جواب دلواتے تھے۔ سب ہی کی کتابوں میں ہے کہ امام حسن علیہ السلام گہوارہ سے ہی لوح محفوظ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
امام حسن علیہ السلام کے کردار پر نظر کی جائے تو اخلاق میں نبی کا انداز نظر آتا ہے ۔کردار میں علی علیہ السلام کا انداز۔ شجاعت میں ھاشم کا جلال ۔استقلال میں ابو طالب کے تیور ۔ ایمان و یقین میں عبدالمطلب کا نقشہ۔ خاندان کی عزت ۔ بزرگوں کی یادگار۔مذہب کا ذمہ دارا۔ اسلام کا خطیب۔صلح کا نقیب۔قرآن کامفسر۔اُمت کا مصلح۔کعبہ کا محافظ۔ اور سیرت رسول کا ایسا ورثہ دار کہ کہ ہجوم ِ مصائب میں طعن و طنز کے باوجود حدیبیہ کی تاریخ دہرا کر صلح کر لی اور اسلام کو ایک بڑے خطرے سے بچا لیا۔ قدرت کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ دونوں کی تاریخ وفات کو ایک کر دیا ۔ یعنی ۸۲ صفر۔ جس تاریخ کو پہلا مصلح دنیا سے گیا تھا اسی تاریخ کو دوسرا شہزادہ صلح بھی دنیا سے رخصت ہوا۔
قرآن مجید کی آیتیں اور مرسل اعظم کے ارشادات امام حسن کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں ۔ آیة تطہیر عصمت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت مباھلہ صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت صلح کردار پر روشنی ڈال رہی ہے ۔ اور سورة دہر آپ کی سخاوت کا قصیدہ پڑھ رہی ہے ۔امام حسن امام معصوم ہیں ان کا ہر قول و فعل ، حرکت و سکون میزان عصمت میں تلا ہوا ہے۔، اور اعتراض سے بالا تر ہے۔ مستحق اتباع و تحسین ہے ممکن ہے کہ ہماری سمجھ میں کسی فعل کی مصلحت نہ آتی ہو۔
آئمہ علیہم السلام کے علم اللہ کے خاص عطا کردہ تھے انہوں نے کسی اسکول میں نہیں پڑھا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ روم نے حاکم ِ شام سے دو سوال کے جواب مانگے تھے وہ عاجز آگیا تو اس نے مسئلے کو امام حسن علیہ السلام کے سامنے پیش کیا اور آپ نے بتا دیا کہ زمین پر وہ جگہ جو آسمان کے ٹھیک وسط میں واقع ہے وہ پشت ِ خانہ ءکعبہ ہے ۔ اور زمین کا وہ خطہ جس پر سورج کی روشنی صرف ایک بار پڑی وہ نیل کی گہرائی ہے جس پر ایک دفعہ حضرت موسیٰ کے گزرتے ہوئے سورج کی روشنی پڑی تھی اور اس کے بعد پھر دریا حائل ہو گیا۔
امام حسن علیہ السلام کا دستر خوان مدینہ منورہ میں بہت مشہور تھا ۔ ایک شخص مہمان آیا اورجب وہ کھانے بیٹھا تو ایک لقمہ کھاتا تھا اور ایک لقمہ بچا کر رکھ لیتا تھا ۔امام نے فرمایا تو صاحب عیال ہے َ؟ اس نے کہا۔ نہیں ۔ میں نے مسجد میں ایک شخص کو جو کی سوکھی روٹیاں کھاتے دیکھا ہے چاہتا ہوں کہ اس کی بھی کچھ مدد کر دوں۔ امام نے فرمایا ۔ بھئی وہ میرے بابا علی مرتضےٰ ہیں ۔ان کی زندگی کا یہی معمول ہے ۔ہم اہل بیت جو دنیا کو کھلاتے ہیں وہ اور ہوتا ہے اور جس پر خود اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ اور ہوتا ہے۔ہمارے لئے نعمتوں کا دسترخوان اللہ نے آخرت میں بچھایا ہے۔
ایک دفعہ معاویہ نے مدینہ آ کر اعلان کیا کہ لوگ بادشاہ کو آ کر سلام کریں اور بادشاہ سب کو انعام و اکرام تقسیم کرے گا۔ یہانتک کہ امام حسن علیہ السلام کو اس کے کارندے مجبور کرکے اس کے پاس لے آئے۔ امام حسن جب پہنچے تو اس نے ارکان سلطنت سے کہا کہ حسن اس لئے دیر سے آئے ہیں کہ میرا خزانہ ختم ہو جائے۔ لہذا میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ صبح سے سارا دن جتنا مال ،سارا اہل مدینہ کو انعام دیا ہے اس سے زیادہ ان کو دوں۔ یہ کہہ کر اس نے خزانہ منگوایا اور کہا یہ آپ کا حصہ ہے۔ امام جب جانے لگے تو معاویہ کے ایک ملازم نے آپ کی جوتیاں سیدھی کر دیں ۔مولا نے حکم دیا کہ یہ سب دولت میری جوتی سیدھی کرنے کے عوض اس ملازم کو دے دی جائے۔ مولا کی سخاوت پر معاویہ کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔

سوال: امام زمانہ(عج) کی حکومت میں ، علم کے میدان میں کس قسم کی پیشرفت اور ترقی ہوگی ، اور اس زمانے میں علم میں ترقی ہونے کا کیا فایدہ ہے؟

جواب : امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ"تمام اولین و آخرین کا علم ستائیس(۲۷)حروف پر مشتمل ہے ، ان ستائیس(۲۷) حروف میں دو حرف انبیاء اور پیامبران خدا کو عطا کیے گیے ہیں اور ابھی جو علم لوگوں اور انسان کے پاس موجود ہے ، انہیں دو حروف پر مشتمل ہے ، اور دنیا والے ان دو حروف سے زیادہ تر علم نہیں رکھتے ، لیکن جب ہمارے قائم (مہدی) قیام کریں گے اس علم کے بقیہ ۲۵ حروف کو بھی خزانۂ علم سے خارج کرکے لوگوں کے درمیان منتشر کریں گے اور وہ دو حروف پر مشتمل علم جو اس وقت انسانوں کے پاس ہے ان ۲۵ کے ساتھ کو اکھٹا کرکے پورے ۲۷ حروف پر مشتمل علم کو نشر کریں گے"(بصائر الدرجات،ص۱۱۷)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور اور حکومت میں علم کے میدان میں غیر قابل تصور ترقی ہوگا ۔
اور جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اس زمانے میں اس علم کا کیا فایدہ ؟یہ ایک طبیعی اور مسلم بات ہے کہ انسان کو جو دنیوی اور اخروی سعادت کا وعدہ دیا گیا ہے وہ علم ہی کے مرہون منت ہے اور جن نیکیوں کا وعدہ منتظرین مہدی کے لئے روایات میں دیا گیا ہے وہی علم و معرفت سے مربوط ہے ، اور جب تک انسان علم و آگاہی کے میدان میں ترقی نہیں کرے گا دنیوی امور ، معنویت ،عدل و انصاف اور معاشرے میں امنیت کا قیام ممکن نہیں ہے ، مختصر یہ کہ انسانیت کی فلاح ، مادی اور معنوی ترقی علم کے بغیر ممکن نہیں ہے ، اور مذکورہ روایت میں اسی بات کی اہمیت کو بیان کردیا گیا ہے ، البتہ بعض دانشوروں نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ اس علم سے مراد علوم تجربی یعنی سائنس و ٹیکنالوجی ، صنعت، و …میں ترقی مراد ہے ، اور دوسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ اس حدیث میں علم سے مراد خدا کی معرفت اور عبودیت و بندگی ہے یعنی زمانہ ظہور میں انسان کی سمجھ میں آئے گا کہ بندگی کا راستہ کیا ہے اور کس طرح خداوند متعال کی عبادت و بندگی کی جائے ۔
بہر حال خواہ مراد علوم تجربی اور سائنس و ٹیکنالوجی ہوں یا علم معرفت خداوند، علم کے فواید مسلم اور ناقابل انکار نیز کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ۔

امام زین العابدین کی عزاداری

حضرت امام زین العابدین پر واقعہ کربلا کا اتنا زیادہ اثر تھا کہ آپ کی آنکھوں سے ہمیشہ آنسو جاری رہتا تھا۔ آپ ان مصائب کو یاد کر کے روتے رہتے تھے۔ جو حضرت امام حسین پر آپ کے چچا جناب عباس، آپ کے بھائیوں اوررشتہ داروں پر ڈھائے گئے تھے۔ جب بھی پانی آپ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے اور فرماتے تھے:
میں کس طرح پانی پیوں جبکہ فرزند رسول کو پیاسا ذبح کر دیا گیا۔
(بحار الانوار، ج ۴۴، ص ۱۴۵)

Monday, 12 October 2015

شفاعت،قرآن کی نگاہ میں

تدوین ونگارش:ملک حسنین رضاعسکری
رسول اکرمؐ اورباقی معصومین (ع)کی شفاعت اورقرآن مجیدکی سورہ بقرہ کی آیت نمبر123کہ جوفرمارہی ہے۔ ﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾ اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کافدیہ نہ ہوسکے گااورنہ کوئی معاوضہ کام آئے گا،نہ کوئی سفارش ہوگی اورنہ کوئی مددکی جاسکے گی۔کے درمیان اختلاف کاوہم اس لئے پایاگیاہے کہ
اوّلاً:
اس آیت کے ماقبل اورمابعدکی طرف توجہ نہیں کی جاتی؛بلکہ اسی آیت کے ظاہر کی طرف دیکھاجاتاہے اوربس۔
دوّماً:
قرآن مجیدمیں فقط ان آیات کی طرف توجہ کی جاتی ہے کہ جوآیات شفاعت کوخداوندمنّان کی ذات کے ساتھ مختص کرتی ہیں اوران کثیرآیات کی طرف توجہ نہیں کی جاتی کہ جو شفاعت کواذن پروردگار کے ساتھ معصومین(ع)کیلئے بھی جائز سمجھتی ہیں۔
قیامت کے دن شفاعت کامسئلہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یقینی اورمسلّم ہے اورکوئی بھی مسلمانوں کافرقہ اس کاانکار نہیں کرتااورسورہ بقرہ کی آیت نمبر123بھی دودلیل کی وجہ سے شفاعت کاانکار نہیں کررہی ہے۔
دلیل اوّل:
اگراس آیت کے ماقبل اورمابعدکی طرف نگاہ کی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ یہ آیت کسی خاص قسم کی شفاعت کی نفی کررہی ہے اوروہ شفاعت ہے کہ جس کے بارے میں یہودی سماج اوربنی اسرائیل عقیدہ رکھتے تھے کہ اس دنیاکی طرح آخرت میں بھی دوستی اوررشتہ داری کی بناپرخداکے عذاب سے نجات پالیں گے۔[1]
لہذاجملہ((واتقوا))کامخاطب بنی اسرائیل ہیں اوراس سے پہلے والی آیت یہ ہے:﴿يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾[2]اے بنی اسرائیل ان نعمتوں کویادکروجوہم نے تمہیں عنایت کی ہیں اور جن کے طفیل تمہیں سارے عالم سے بہتر بنادیاہے۔
دلیل دوّم:
سورہ بقرہ کی یہ آیت غیرخدا کی اس شفاعت کی نفی کررہی ہے جو مستقل اورخداکےاذن کےبغیرہو،لہذایہ آیت گناہ گاروں کی شفاعت کرنے کی نفی نہیں کررہی ہے۔
توضیح:
شفاعت کے مسئلہ کومزیدواضح کرنے کیلئے ضروری ہے کہ چندچیزوں کی وضاحت کی جائے۔
1۔شفاعت کامعنی
لغت میں شفاعت،مادہ (شَفَع)سے لیاگیاہے کہ جومتعددمعانی میں استعمال کیاجاتاہے مثلاً:جفت،جوکہ طاق کے مقابلہ میں ہوتا ہے،زیادہ کرنا،درخواست کرنا،پشت پناہی کرنا۔[3]
علّامہ محمّد حسین طباطبائی فرماتےہیں:اصل میں شفاعت(شَفع)یعنی جفت سے لیاگیاہےکہ حقیقت میں شفاعت کرنے والااس ناقص وسیلہ کے ساتھ مل جاتا ہے جوشفاعت چاہنے والے کے پاس ہوتاہے اورشفاعت کرنے والااوروہ وسیلہ دونوں مل کر وہ مقاصدحاصل کرسکتے ہیں کہ جن کو شفاعت ہونے والااپنے ضعیف اور کمزوروسیلہ کی بناپرحاصل نہیں کرپا رہا تھا۔[4]اس لحاظ سے شفاعت،ناقص وسیلہ کوکامل کرنے والی اورحقیقت میں سبب اورمسبب کے درمیان واسطہ ہوتی ہے۔
2۔شفاعت کی اقسام
(۱لف)شفاعتِ تکوینی:
اس قسم کی شفاعت اپنے عام معنی میں استعمال ہوئی ہے کہ جوتمام موجودات کوشامل ہے ؛یعنی تمام مخلوقات،انسانوں تک خداکی رحمت پہچانے کاواسطہ ہیں کہ حقیقت میں وہ واسطہ فیض اور انسان کے ہدف تک پہنچنے کیلئے اس کی مددکرتے ہیں۔
(ب)شفاعتِ تشریعی:
اس قسم کی شفاعت ہراس واسطہ کوشامل ہے کہ جوانسان کوصراط مستقیم اورشریعت حقہ کی طرف راہنمائی کرے،اس قسم کی شفاعت کی بھی بہت ساری اقسام ہیں کہ جن کواس تحریر میں بیان کرنے کی گنجاءش نہیں ہے؛فقط اس حدتک اشارہ کیا جاتاہے کہ ان میں سے ایک قسم،شفاعت مغفرت ہے کہ جس کے متعلق ہماری بحث ہے اور شفاعت مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ آلودگی وناپاکی وگناہوں کی بخشش کیلئے وسیلہ بنانا۔
3۔قرآن میں شفاعت
جن آیات میں شفاعت کامسئلہ بیان ہواہے وہ آیات دوطرح کی ہیں:کچھ آیات،شفاعت کی سرے سے نفی کرتی ہیں اورکچھ آیات،شفاعت کوغیرخدا کیلئے،خدا کی اجازت سے جائزسمجھتی ہیں۔
الف)شفاعت کی نفی کرنے والی آیات:
﴿أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا﴾[5]
کیاان لوگوں نے خداکوچھوڑکرسفارش کرنے والے اختیارکرلئے ہیں توآپ کہہ دیجئے کہ ایساکیوں ہے چاہے یہ لوگ کوئی اختیارنہ رکھتے ہوں اورکسی طرح کی بھی عقل نہ رکھتے ہوں،کہہ دیجئے کہ شفاعت کاتمامتراختیاراللہ کے ہاتھوں میں ہے۔
﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾[6] اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کابدل نہ بن سکے گااورکسی کی سفارش قبول نہ ہوگی،نہ کوئی معاوضہ لیا جائے گااورنہ کسی کی مددکی جائے گی۔
﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾[7] اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کافدیہ نہ ہوسکے گااورنہ کوئی معاوضہ کام آئے گا،نہ کوئی سفارش ہوگی اورنہ کوئی مددکی جاسکے گی۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ﴾[8]اے ایمان والوجوتمہیں رزق دیاگیاہے اس میں سے راہ خدامیں خرچ کروقبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اورنہ سفارش۔
جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا آیات مذکور شفاعت کی نفی کررہی ہیں مخصوصاً آخری تین آیات میں قیامت کے دن صراحتاً شفاعت کی نفی کی گئی ہے۔
ب)شفاعت کوثابت کرنے والی آیات
﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الأَمْرَ مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ﴾[9]بیشک تمہاراپروردگاروہ ہے جس نےزمین وآسمان کوچھے دنوں میں پیداکیاہے پھراس کے بعدعرش پراپنااقتدارقائم کیاہے وہ تمام امورکی تدبیرکرنے والاہے کوئی اس کی اجازت کے بغیرشفاعت کرنے والانہیں ہے۔
﴿يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا﴾[10]اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدانے اجازت دے دی ہواوروہ ان کی بات سے راضی ہو۔
﴿إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ، يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ،إِلَّا مَن رَّحِمَ اللَّهُ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾[11]بیشک فیصلہ کادن ان سب کے اٹھائے جانے کامقررہ وقت ہے،جس دن کوئی دوست دوسرے دوست کے کام آنے والانہیں ہے اورنہ ان کی کوئی مددکی جائے گی،علاوہ اس کے جس پرخدارحم کرے کہ بیشک وہ بڑا بخشنے والااورمہربان ہے۔
﴿وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ،لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ،يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾[12]
اورلوگوں نے یہ کہناشروع کردیاکہ اللہ نے کسی کوبیٹابنالیاہے حالانکہ وہ اس امرسے پاک وپاکیزہ ہے؛بلکہ وہ سب اس کے محترم بندے ہیں،جوکسی بات پراس پرسبقت نہیں کرتے ہیں اوراس کے احکام پربرابرعمل کرتے رہتے ہیں،وہ ان کے سامنے اور ان کےپسِ پشت کی تمام باتوں کوجانتاہے اورفرشتے کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے مگریہ کہ خدااس کوپسندکرے اوروہ اس کے خوف سے برابرلرزتے رہتے ہیں۔
جیساکہ ان آیات کے ظاہرسے یہ معلوم ہورہاہےکہ قیامت کے دن خداکی اجازت سے شفاعت ہوگی،اب ان
دونوں قسم کی آیات کومدنظررکھ کریہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ قیامت کے دن شفاعت کے کچھ قوانین واصول ہیں اوروہ یہ کہ قیامت میں شفاعت استقلالی نہیں ہے؛بلکہ خداکی اجازت واذن کے ساتھ ہے؛یعنی اصل میں شفاعت فقط وفقط خداوند متعال کی ذات کے ساتھ مختص ہے؛لیکن بعض مقامات پرخداکی رحمت وشفقت موجب بنتی ہے کہ ان کے خاص بندے مانند:انبیاء واولیاء کوبھی اجازت مل جاتی کہ وہ بھی شفاعت کریں۔
اس بناپرقیامت کے دن شفاعت کے جوازکامسئلہ مسلّم اوریقینی ہے اورعلمائے اسلام نے بھی اس بات کی وضاحت فرمائی ہے اوراگرشفاعت کے بارے میں اختلاف ہے تووہ شفاعت کے معنی اور ملاک کے بارے میں ہے نہ اصل شفاعت کے بارے میں۔
مسلمانوں میں سے معتزلہ اورخوارج اصل شفاعت کوقبول کرنے کے باوجودشفاعت کی تفسیرمیں باقی مسلمانوں سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں؛ان کاخیال ہے کہ شفاعت فقط نیک وفرماںبردارافرادکوشامل ہے نہ گناہ گاروں کو؛یعنی پیغمبرؐ کی شفاعت کے نتیجہ میں نیک افرادکے درجات بلندہونگے لیکن گناہ گاران کی شفاعت کے ذریعہ نجات حاصل نہیں کرسکتے۔[13]
علمائے اسلام کے نظریات
علّامہ محمّدحسین طباطبائی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸کے ذیل میں دونوں قسم کی آیات(شفاعت کی نفی کرنے والی آیات وشفاعت کواثبات کرنے والی آیات)کوذکرکرنے کے بعد نتیجہ اخذکرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:اگرچہ بعض آیات،شفاعت کی نفی کرتی ہیں لیکن بعض دوسری آیات جوشفاعت کی تائیدکرتی ہیں کومدّنظررکھ کریہ قبول کرناپڑتاہے کہ قرآن کی آیات اصلِ شفاعت کوبغیرکسی اشکال کے ثابت کررہی ہیں؛لیکن بعض آیات،اصل شفاعت کو خداوندسے مخصوص کررہی ہیں اورغیرخداکے معاملہ میں شفاعت کوخداکی اجازت اوراس کے اذن کے ذریعہ ثابت کررہی ہیں۔[14]
فخررازی سورہ بقرہ کی آیت۴۸ کے ذیل میں شفاعت کومسلمانوں کے درمیان امرمسلّم اورمتفقٌ علیہ سمجھتے ہیں،اگرچہ معتزلہ کاباقی مسلمانوں کے ساتھ تفسیرِشفاعت میں اختلاف کوبھی ذکرکیاہے۔[15]
شیخ طوسی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸ کے ذیل میں فرماتے ہیں:یہ آیت کافروں کے ساتھ مربوط ہے،کیونکہ پیغمبراکرمؐ قیامت کے دن مؤمنوں کی شفاعت کریں گے اوران کی شفاعت کے نتیجہ میں گناہ گارافرادعذاب خداسے نجات پائیں گے۔[16]
فتّال نیشاپوری اس آیت ﴿عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا﴾[17]عنقریب آپ کاپروردگاراسی طرح آپ کومقام محمودتک پہنچادےگا۔کے ذیل میں فرماتے ہیں:مقام محمودسے مرادیہ ہے کہ پیغمبراکرمؐ شفاعت کریں گے اورفتّال نے ایک روایت بھی رسول خداؐ سے نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: (المقام الذی أشفع فيه لأمتی)وہ مقام کہ جس میں میں اپنی امّت کی شفاعت کرونگا۔[18]
مرحوم طبرسی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸ کے ذیل میں فرماتے ہیں:تمام مسلمان اس بات پرمتفق ہیں کہ قیامت کے دن رسول خداؐ کی شفاعت قبول ہوگی،اگرچہ اس کی کیفیت میں معتزلہ اورباقی مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے کہ معتزلہ معتقد ہیں کہ شفاعت فقط مطیع افرادکے شامل حال ہوگی؛لیکن ہم(شیعہ)معتقدہیں کہ شفاعت کاہدف،گناہ گاروں کوعذاب سے نجات دلاناہے۔پھرفرماتے ہیں:نہ فقط رسولؐ کی شفاعت؛بلکہ ان کے برگزیدہ اصحاب ومعصومین(ع)وباایمان وصالح افرادکی بھی شفاعت قابل قبول ہوگی۔[19]
ابوالفتوح رازی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۴۸ کے ذیل میں فرماتے ہیں:یہ آیت کفارومعاندین کے بارے میں ہے معتزلہ کے علاوہ تمام مسلمان شفاعت کوقبول کرتے ہیں،پھر رازی ان آیات کوذکرکرتے ہیں جوروزقیامت شفاعت پردلالت کرتی ہیں۔[20]
میمون بن محمدنسفی نے بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کیاہے اوروہ قیامت کے دن رسول ؐ کی شفاعت کومسلمانوں کے نزدیک ایک مسلّم اور قطعی امرسمجھتاہے۔[21]
حتی کہ وہابی حضرات بھی کہ جن کے بہت سارے علماء شفاعت کے منکرہیں،کلی طورپرشفاعت کاانکارنہیں کرتے؛ بلکہ رسول ؐ کی قیامت کے دن خداوندکے اذن سے شفاعت کوقبول کرتے ہیں۔[22]
گذشتہ بحث کی روشنی میں یہ ظاہرہوجاتاہے کہ جوآیات شفاعت کی نفی کررہی ہیں مثل سورہ بقرہ کی آیت نمبر۱۲۳، اس سے مرادوہ شفاعت ہے جو خداکے اذن کے بغیرہو،پس شفاعت ایک اصل مسلّم ہے کہ جس میں شک وتردید گویااسلام کے اساسی مسائل میں شک وتردیدہے۔
شفاعت ا وروحدانیت
یہاں پرایک سوال اورپھراس کاجواب پیش کیاجاتاہے،سوال یہ ہے کہ انبیاء واولیاء کی شفاعت خداکی وحدانیت کے ساتھ کیسے سازگارہے؟
مزیدوضاحت:جیساکہ روشن ہوچکاہے کہ مسلمانوں کے نزدیک شفاعت ایک اصل مسلّم اوریقینی امرہے، وہابیوں اورابن تیمیہ کی نگاہ میں (کہ جس کی تفصیل بعدمیں بیان کی جائے گی)اگرکوئی پیغمبراسلام ؐ یاائمہ معصومین(ع)سے شفاعت کی درخواست کرے تو وہ مشرک ہوجاتاہے؛کیونکہ اس نے معصومین(ع)کوخداکے مقابلہ میں لاکھڑاکیاہے کہ جو وحدانیت ِخداکے ساتھ سازگار نہیں ہے۔
جواب: شفاعت،مصدرِ شفیع سے لیاگیاہے کہ لغت میں جس کامعنی،وساطت،پشتبانی،[23]نتیجہ مطلوب تک پہنچنے کیلئے کسی چیزمیں ہمراہ ہوناہے۔[24]
علم کلام کی اصطلاح میں شفاعت، خداکی وہ رحمت ومغفرت ہے کہ جوانبیاء واولیاء کے وسیلہ سے بعض بندگانِ خدا کوشامل ہوتی ہے۔[25]
رسول خداؐ کے زمانہ سے لیکرآج تک مسلمانوں کایہ شیوہ رہاہے کہ اپنی زندگی میں اورمرنے کے بعد،سچے وصادق شافعین سے شفاعت کرنے کی درخواست کریں اورعلمائے اسلام ومفکرین اسلامی میں سے کسی ایک نے بھی اس قسم کی درخواست کواصول ومبانی اسلامی کے خلاف نہیں سمجھا،ساتویں صدی میں ابن تیمیہ نےاس مسئلہ(شفاعت)میں اوربہت ساری سنتوں میں مخالفت شروع کی ہے،ابن تیمیہ کے تین سوسال بعد،محمدبن عبدالوہاب نجدی نے دوبارہ مخالفت کاپرچم بلندکیااور ابن تیمیہ کے مکتب فکرکوزندہ کیا۔[26]
اصل شفاعت کووہابی بھی قبول کرتے ہیں فقط شفاعت کے جزی احکام میں اورشفاعت کی خصوصیات میں اختلاف کرتے ہیں۔
وہابیوں کی نگاہ میں شفاعت اُس صورت میں درست ہے کہ انسان مستقیماً خداسے طلب کرے کہ رسول اکرمؐ یاجس کسی کوشفاعت کی اجازت ہے وہ اس کے حق میں شفاعت کریں۔
ابن تیمیہ کہتاہے:
اگرکوئی کہے کہ خداکاقرب حاصل کرنے کیلئے چاہتاہوں،پیغمبرؐ ان امورمیں میری شفاعت کرے،اس کایہ کام مشرکانہ ہے۔
محمدبن عبدالوہاب کہتاہے:
شفاعت کی طلب فقط خداسے ہونی چاہیے نہ شافعان سے؛یعنی اس طرح کہناچاہیے:خدایاقیامت کے دن حضرت محمدؐ کوہمارت حق میں شفیع قراردے۔[27]
یہاں پرلازم ہے کہ وہ آیات جوشفاعت سے مربوط ہیں کوذکر کیاجائے تاکہ شفاعت حقیقی کوغیرحقیقی سے جداکیا جاسکے اوربعدمیں معلوم ہوسکے گاکہ شفاعت،خداکی وحدانیت سے کیسے سازگارہے۔
قرآن مجیدمیں جوآیات شفاعت سے مربوط ہیں ان کو سات گروہ میں تقسیم کیاجاسکتاہے کہ ہرگروہ میں سے نمونہ کے طورپرفقط ایک آیت کوپیش کیاجاتاہے اوراس کے بعدباقی مربوط مسائل کوذکرکیاجائے گا۔
1-مطلَقًا شفاعت کی نفی
قرآن مجیدمیں بعض ایسی آیات بھی پائی جاتی ہیں کہ جوشفاعت کی مطلَقًانفی کرتی ہیں۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ﴾[28] اے ایمان والوجوتمہیں رزق دیاگیاہے اس میں سے راہ خدامیں خرچ کروقبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اورنہ سفارش۔
البتہ جونشانیاں دوسری آیات میں پائی جاتی ہیں ان کومدنظررکھ کریہ کہاجاسکتاہے کہ اس آیت اور اس قسم کی دوسری آیات میں مطلَقًا شفاعت کی نفی نہیں کی گئی؛بلکہ باطل شفاعت کی نفی کی گئی ہے۔
2-یہودیوں کی موردنظرشفاعت کی نفی
قرآن کریم فرماتاہے: ﴿وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ
يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ﴾[29]اوراس دن سے ڈروجس دن کوئی کسی کابدل نہ بن سکے گااورکسی کی سفارش قبول نہ ہوگی،نہ کوئی معاوضہ لیاجائے گااورنہ کسی کی مددکی جائے گی۔
اس آیت میں شفاعت سے مرادوہ شفاعت ہے کہ جوبنی اسرائیل اپنے بارے میں معتقدتھے؛بنی اسرائیل کہتے تھے کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں پس ہم جتنے بھی گناہ کریں اورجتنے بھی ہمارے گناہ زیادہ ہوجائیں ہمارے آباواجدادہماری شفاعت کریں گے اورہم گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے، لہذااس آیت نےآکربتلایاکہ ایساکچھ ہونے والانہیں ہے۔
3-کفارسے شفاعت کی نفی
آیات قرآنی واضح طورپریہ بیان کررہی ہیں کہ قیامت کے دن کافروں کیلئے کسی قسم کی شفاعت نہیں ہوگی:﴿فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ﴾[30]انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی۔
4-بتوں کوشفیع قراردینے کی نفی
بعض آیات قرآنی بتوں کوشفیع قراردینے سے منع کررہی ہیں: ﴿وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَاءكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاء لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ﴾[31]اورہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارش کرنے والوں کوبھی نہیں دیکھتے جنہیں تم نے اپنے لئے خداکاشریک بنایاتھا،تمہارے ان کے تعلقات قطع ہوگئے ہیں۔
بت پرست یہ خیال کررہے تھے کہ لکڑی اورپتھراورفلزکے بتوں اورمصنوعی خداؤں کی پرستش سے ان کی رضاوتوجہ حاصل کررہے ہیں کہ جوخداوندحقیقی کی بارگاہ میں ان کی شفاعت کریں گے۔
5- خداکیساتھ مخصوص شفاعت
قرآن مجیدکی کچھ آیات شفاعت کوخداوندکریم کے ساتھ مختص کرتی ہیں: ﴿قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾[32]کہہ دیجئے کہ شفاعت کاتمامتراختیاراللہ کے ہاتھوں میں ہے اسی کے پاس زمین وآسمان کاسارااقتدارہےاوراس کے بعدتم بھی اسی کی بارگاہ میں پلٹائے جاؤگے۔
6-شفاعت بااذن خدا
کچھ آیات اذن خداکوشفیع میں شرط سمجھتی ہیں: ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه﴾ِ[33]کون ہے جواس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرسکے؛یعنی فقط وہ گروہ شفاعت کرسکتا ہے کہ جن کوخداوندنے اجازت دی ہو۔
7-شفاعت کرنے والوں کی نشانیاں
قرآن مجیدنے فقط شفاعت کرنے والوں کی خبرنہیں دی ہے؛بلکہ ان کی کچھ نشانیاں بھی ذکرکی ہیں: ﴿ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ،يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾[34]جوکسی بات پراس پرسبقت نہیں کرتے ہیں اوراس کے احکام پربرابرعمل کرتے رہتے ہیں وہ ان کے سامنے اوران کے پسِ پشت کی تمام باتوں کوجانتاہےاورفرشتے کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے مگریہ کہ خدااس کو پسندکرےاوروہ اس کے خوف سےبرابرلرزتے رہتے ہیں۔
فی الجملہ یہ کیاجاسکتاہے کہ جوآیات شفاعت کی نفی کررہی ہیں وہ شفاعت استقلالی کی نفی کررہی ہیں اورجوآیات شفاعت کواثبات کررہی ہیں وہ پہلے شفاعت کوخداوندکریم سے مختص کررہی ہیں اوربعدمیں دوسری آیات آکریہ بتلاتی ہیں کہ خداوندنے شفاعت کاحق دوسرے شفاعت کرنے والوں کودے دیاہے کہ وہ خداکی اجازت سے شفاعت کریں،اس لحاظ سے شفاعت کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے اور خداکے اذن سے غیرخداکی شفاعت کوقرآن قبول کرتاہے۔[35]
یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ خودقرآن نے شائستہ افرادسے دعاکرانے کی تاکیدکی ہے اورصحابہ کرام کی بھی اس بات پرسیرت رہی ہے کہ وہ رسول اکرمؐ سے شفاعت کرنےکی درخواست کرتے تھے اورابن تیمیہ کی نگاہ میں بھی زندہ افرادسے دعاکی درخواست کرنادرست ہے۔
نظام نیشاپوری اس آیت ﴿ مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ﴾[36]جوشخص اچھی سفارش کرے گااسے اس کاحصہ ملے گا۔کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:حقیقت میں شفاعت ،مسلمانوں کیلئے دعاکرناہے۔[37]
فخررازیبھی شفاعت کی تفسیردعاکے ساتھ کرتے ہیں،وہ اس آیت ﴿ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً ﴾[38]اورصاحبان ایمان کیلئے استغفارکررہے ہیں کہ خدایاتیری رحمت اورتیراعلم ہرشئی پرمحیط ہے کے ذیل میں لکھتے ہیں:یہ آیت گواہ ہے کہ حاملان عرش کی شفاعت فقط گناہ گاروں کیلئے ہے، درخواست شفاعت، درخواست دعا ہے۔[39] اس بناپرشفاعت ،فخررازی کی نظرمیں گناہ گاروں کے حق میں شفاعت کرنے والوں کی دعاہے۔
احادیث میں آیاہےکہ مسلمان کی دعادوسرے مسلمان کے حق میں شفاعت ہے۔
ابن عباس حضرت رسول گرامی اسلامؐ سے نقل کرتے ہیں:جب بھی کوئی مسلمان مرجائے اوراس کے جنازہ پر ایسے چالیس افرادجوشرک نہ کرتے ہوں نمازپڑھ لیں توخداوند ان کی شفاعت(دعا)کواس مرنے والے کے حق میں قبول کرتاہے۔[40]، اس حدیث میں دعاکرنے والا شفیع کے عنوان سے ذکرہواہے۔
اہل سنت کی روایات کی بناپر،ایک خاص زمانہ میں مسلمان کسی امام یادوسرے مسلمان کی خدمت میں حاضرہوکران سے درخواست کرتے تھے کہ خداوندسے رحمت کی بارش طلب کریں،اس قسم کی درخواست شفاعت کے علاوہ کیاہوسکتی ہے؟[41]
محمدبن عبدالوہاب بھی زندہ انسان سے طلب دعاکوجائزسمجھتاہے۔[42]
8-شفاعت واقعی وغیرواقعی
شفاعت واقعی اورغیرواقعی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ شفاعت واقعی خداسےشروع ہوتی ہے اورگناہ گارپرختم ہوتی ہے؛جبکہ شفاعت باطل وغیرواقعی اس کے الٹ ہے؛شفاعت واقعی میں شفیع؛یعنی وسیلہ کوخداابھارنے والاہوتاہے کہ گناہ گاروں کی تم شفاعت کرو؛لیکن شفاعت باطل میں ،شفیع؛یعنی وسیلہ کو گناہ گار ابھارنے والاہوتاہے کہ تم ہماری شفاعت کرو؛یعنی باطل وغیرواقعی شفاعت میں شفیع،گناہ گاروں کی طرف سے صفت وسیلہ کوحاصل کرتا ہے،کیونکہ اس کوگناہ گاروں نے آمادہ کیاہے کہ وہ ان کی شفاعت کرے؛لیکن شفاعت حقیقی میں شفیع،صفت وسیلہ کوخداوند سے حاصل کرتا ہے جیساکہ خدانے اپنے انبیاء کرام کواجازت دی ہے کہ وہ گناہ گاروں کی شفاعت کریں۔[43]
9-اطاعت وشفاعت کاخداکی وحدانیت کیساتھ رابطہ
اگرہرقسم کی درخواست واطاعت شرک ہوتولازم آتاہے کہ حضرت آدمؑ سے لیکرآج تک تمام افرادمشرک وکافر ہونگے؛کیونکہ ہرکوئی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی سے درخواست کرتارہاہے یاکسی نہ کسی کی اطاعت کرتارہاہے،ہمیشہ اولاد، خدمت کار،کاری گر،فوجی،پولیس مین وغیرہ اپنے ماں باپ،رئیس،افسروغیرہ سے درخواست یااطاعت کرتے رہتے ہیں۔
لہذادوسروں سےہرقسم کی درخواست واطاعت،عبادت وپرستش نہیں ہے،جیساکہ ہرقسم کی درخواست واطاعت شرک بھی نہیں ہے؛کیونکہ عبادت وہ ہوتی ہے کہ کسی سے کہ جوفاعل مطلق ہونہایت ذلت وخضوع کے ساتھ اموردنیایا آخرت میں حاجت کی درخواست کرنا،غیرخدا سےاگراس صورت میں کسی چیزکی درخواست کی جائے تویہ شرک ہے۔[44]
علامہ طباطبائی(رح)فرماتےہیں:مقام شفاعت میں شفیع،خداسے تین چیزوں کی طلب نہیں کرتا:
الف:شفیع،خداوندسے یہ نہیں چاہتاکہ خدااپنی مولویت اورشفیع کی عبودیت کونظراندازکردے۔
ب:شفیع،خداسے یہ نہیں چاہتاکہ وہ اپنے حکم کونظراندازکردے۔
ج:شفیع،خداسے یہ نہیں چاہتاکہ وہ اپنے سزاوجزاکے کلی قانون کوباطل کردے۔؛بلکہ شفیع،خداوندکی ایک یاچند صفات مثل:کرم،بزرگی،سخاوت و۔۔۔کہ جوخداکی رحمت ومغفرت کاموجب بنتی ہیں،سے تمسک کرتاہے اورعبدکی ان صفات کومثل:بدحالی،بندگی،ذلت و۔۔۔کاذکرکرتاہے کہ جن کی وجہ سے خداکی رحمت ومغفرت کیلئے زمینہ ہموارہوتاہے اسی طرح شفیع اپنی صفات کوبھی وسیلہ بناتاہے مثلاًخداکی نزدیکی،خداکے نزدیک منزلت وغیرہ کاذکرکرکے خداسے استدعاکرتاہے کہ وہ شفاعت چاہنے والے گناہ گاروں سے درگذرکرے اوران کے گناہ معاف کردے۔
خداوندنے ان اسباب کواپنی مغفرت کیلئے ذکرکیاہے،اورجب بھی یہ اسباب مہیاہوجائیں خداکی مغفرت بھی جاری ہوجاتی ہے۔[45]
باالفاظ دیگرجیساکہ واجب الوجوداپنی ذات میں غیرکامعلول نہیں ہے اسی طرح اپنی صفات وافعال میں بھی کسی غیرکا معلول اورتحت تاثیرنہیں ہوسکتا،خدامؤثرمحض ہے اور کسی چیزسے تاثیرقبول نہیں کرتا،خودخدانے ہم سے چاہاہے کہ ان اسباب ووسائل سے استفادہ کریں لہذاکسی بھی صورت میں یہ(شفاعت)شرک نہیں ہے؛بلکہ عین توحیدہے۔[46]
یہ امر(شفاعت)اگرشرک شمارہوتاتولوگ حضرت پیغمبراکرمؐ کی زندگی اور ان کی رحلت کے بعدان سے شفاعت کی درخواست نہیں کرتے۔[47]
10-شفاعت عین وحدانیت ہے
حقیقتِ توحیداورحقیقت شفاعت کی چھان بین کرنے کے بعدیہ واضح ہوجاتاہے کہ نہ فقط شفاعت وحدانیت کے ساتھ سازگارہے؛بلکہ شفاعت عینِ وحدانیت ہے۔
توحیدکی اقسام
توحیدذاتی:
خداوندایسی ذات ہے کہ جس کاکوئی شریک اورمِثل نہیں ہے اوراس عقیدہ کے مقابلہ میں دوگانہ خدا کاعقیدہ پیش کیاجاتاہے کہ جوذاتِ خدامیں شرک شمارکیاجاتاہے۔
توحیدافعالی:
اس جہان میں مؤثرحقیقی وواقعی فقط ایک ہے اورہرموجودکااثرخداوندکی جانب سے ہے؛آگ کاجلانا، تلوارکاکاٹناو۔۔۔یہ سب خداکی طرف سے اوراس کے حکم سے ہے۔
توحیدعبادی:
خداوندکی ذات کے علاوہ کوئی بھی عبادت وبندگی کے لائق نہیں ہے،اس جہان میں موجودات میں سے کوئی بھی چیز،بت،پتھر،و۔۔۔حتی اس کے انبیاء واولیاء کہ جوخداکی صفات کے مظہرہیں وہ بھی عبادت کے لائق نہیں ہیں۔
توحیدکی اقسام کومدنظررکھ کر،یہ کہاجاسکتاہے کہ شافعان واقعی سے شفاعت کی درخواست کرناتوحیدکی کسی بھی قسم سے منافات نہیں رکھتا؛کیونکہ اولیاء سے شفاعت طلب کرناخدامیں دوگانگی کاسبب نہیں بنتا(توحیدذاتی)یااس بات کاموجب نہیں بنتاکہ تاثیریافیض کے پہنچانے میں اولیاء وانبیاء مستقل ہیں(توحیدافعالی)یااس بات کاسبب بھی نہیں بنتاکہ انبیاء واولیاءکی عبادت یابندگی کاطوق گلے میں ڈال دیاہواوران کی معبودکے طورپرپرستش کررہے ہوں(توحیدعبادی)۔[48]
اس لحاظ سے کہاجاسکتاہے کہ شفاعت کسی قسم کی توحیدسے منافی نہیں ہے؛شفاعت کرنے والے کی رحمت،خداکی رحمت کامظہر ہے اوراس رحمت وشفاعت کی طرف ابھارنے والا بھی خودخدا ہے؛یعنی خودخدانے فرمایاہے کہ تم شفیع بناؤ۔[49]
پس اگر شفاعت کرنےوالے(الٰہ)اورچھوٹے خداسمجھے جانے لگیں،اس طرح کہ خداکی اجازت کے بغیرشفاعت
کے مقام کے مالک بن گئے ہیں اورجس کی بھی چاہیں شفاعت کریں،اس صورت میں یقینی طورپران شافعان سے شفاعت کی درخواست کرناغیرخداکی عبادت شمارہوگااورشفاعت کی درخواست کرنے والامشرک ہوگا۔
لیکن اگرشافعان خداکی مخلوق سمجھے جائیں کہ جوخداوندکی خاص اجازت سے اس کے کچھ افرادکی شفاعت کرسکتے ہیں،ایسی شرائط کومدنظررکھ کراگرکوئی ایسے شافعان سے شفاعت کی درخواست کرتاہے تویہ باقی عام کاموں کی درخواست کے ساتھ فرق نہیں رکھتااوریہ درخواست توحیدکی حدودسے باہرنہیں ہے،لہذااس بات کاتصورکہ خداکے اولیاء اور اس کے انبیاء سےشفاعت کرناظاہری طورپرمشرکوں کے عمل جیساہے کہ وہ بھی اپنے بتوں سے شفاعت کی درخواست کیاکرتے تھے،یہ تصورباطل وبے بنیادہے؛کیونکہ ایک موحدکاخداوندکے اولیاء کے بارے میں اعتقاد،ایک مشرک کے بتوں کے بارے میں اعتقاد سے کاملاً متفاوت ہے،مشرک بتوں کوشفاعت کے مقام کامالک سمجھتے ہیں کہ جب چاہے جس کی چاہے جس طرح چاہے شفاعت کرسکتاہے۔اس قسم کااعتقاد،بتوں کے خداہونے کااعتقادہے اورشرک شمارکیاجاتاہے،حالانکہ مسلمان اولیاء وانبیاء کے بارے میں اس قسم کے مقام اورمالکیت کے قائل نہیں ہیں۔ [50] اورہمیشہ دن رات اس بات کوگنگناتے رہتے ہیں﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه﴾ِ[51] کون ہے جواس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرسکے۔
اس بحث کانتیجہ
شفاعت خداوندکامخصوص حق ہےکہ کبھی وہ اپنے بندون میں سےاولیاء کرام کو اجازت دیتاہے کہ اس حق سے استفادہ کریں،اورخداونداپنے اس حق کو دودلیلوں کی بنیادپراپنے خاص بندوں کے حوالے کرتاہے۔
الف:جس طرح خداوندکریم کی رحمت(مادی ومعنوی)ہم تک اسباب کے ذریعہ پہنچتی ہے مثلاً انسانوں کوسعادت وہدایت کی راہ دیکھانے کیلئے انبیاء کرام کومبعوث کیاہے،سورج کوخلق کیاہے تاکہ وہ اپنی حیات بخش روشنی کے ذریعہ زندگی کورونق بخشے و۔۔۔اس کی مغفرت و رحمت بھی اسباب مثل اولیاء الہی کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہے،لیکن مؤثرِاصلی خداوندہے۔
ب:خداوندنے اپنے اولیاء وانبیاء کوشفاعت کامقام عطاکرکےچاہاہے کہ ان کی عزت واحترام کرے اوران کے وجودکی ارزش وقیمت دوسروں کوبتائے۔[52]
شفاعت ا ورخداکی تبدیل نہ ہونے والی سنت
یہاں پریہ سوال پیش آسکتاہے کہ آیاشفاعت،خداکی ان سنتوں سے منافات رکھتی ہے جوثابت ہیں اورجن میں تبدیلی نہیں ہوتی؟
مزیدوضاحت:اس جہان کے عالم تکوینی وتشریعی میں کچھ ایسے ثابت وتبدیل نہ ہونے والےقوانین پائے جاتے ہیں کہ کسی بھی صورت میں ان میں تبدیلی وتغیرممکن نہیں ہے اوروہی قوانین ماضی میں اس جہان پرحکم فرماتھے اورآج بھی ہیں اورکل بھی حکم فرمارہیں گے اورقرآن مجید ان قوانین کوسنت الہی کے نام سے یادکرتاہے،جیساکہ خداوندمتعال فرماتاہے:﴿ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا ﴾[53] اورخداکاطریقہ کاربھی نہ بدلنے والاہے اورنہ اس میں کسی طرح کاتغیرہوسکتاہے۔
سنت الہی کے مصادیق میں سےایک یہ ہے کہ خداگناہ گاروں کوسزادےگااوریہ کہ ان کے گناہ اورجرائم کے مطابق خداوندنے سزاکوبھی مدنظررکھا ہوا ہے،اس مطلب کوسامنے رکھتے ہوئے یہ سوال پیش آتاہے کہ آیاشفاعت خداکی سنت سے منافات نہیں رکھتی؟اورگناہ گاروں کوسزانہ دینانقض غرض نہیں ہے؟
جواب:خداوندکی وسیع رحمت ومغفرت اورانبیاء واولیاء الہی کی شفاعت کہ جوخاص شرائط کے مطابق گناہ گاروں کوشامل ہوتی ہےکے ضمن میں گناہ گاروں کے گناہوں کی بخشش خودخداکی تبدیل نہ ہونے والی سنتوں میں سے ایک سنت ہے،پس جب شفاعت خداکی سنت میں سے ہے توکیسے خداکی باقی سنتوں کے مخالف ہوسکتی ہے؟!!
مزیدوضاحت: یہ بات کہ خداوندمتعال کی سنت میں تبدیلی وتغیرواقع نہیں ہوتاکاملاًصحیح ہے؛لیکن اس بات کی طرف بھی متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ خداکی سنت،خداکی فقط ایک صفت پراستوارنہیں ہے اورخداکی فقط ایک سنت نہیں ہے؛بلکہ خداوندمتعال کی فراوان سنتیں ہیں کہ ہرایک خداکی کسی نہ کسی صفت سےپھوٹتی ہے اورہرایک اپنی جگہ پرکامل اورتام ہے۔
علامہ محمدحسین طباطبائی اورآیۃ اللہ جوادی آملی اس بارے میں یوں فرماتے ہیں:اس بات میں شک بھی نہیں ہے کہ خداکی سنت کاراستہ مستقیم ہے اوراس میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی؛لیکن یہ سنت کاتبدیل نہ ہونا،خداکی ایک صفت؛یعنی صفتِ تشریع پراستوارنہیں ہے تاکہ کوئی حکم وجزا اپنے مقام سے حرکت نہ کرسکے؛بلکہ یہ سنت خداکی تمام صفات عالیہ پراستوارہے ،اس بناپرہرحادثہ اپنے وجودی اعتبارسے خداکی ایک صفت یاچندصفات عالیہ پرتکیہ کئے ہوئے ہے اورجیسے جیسے وہ صفت تقاضاکرتی ہے وہ حادثہ بھی اسی کے مطابق واقع ہوتاجاتاہے۔
خلاصہ یہ کہ شفاعت کاواقع ہونااورعذاب کاشفاعت کی وجہ سےاٹھ جانااس لحاظ سے ہےکہ یہ مختلف اسباب مثل:رحمت،مغفرت،حکم قضا،حق دارکواس کاحق دینا اورصحیح قضاوت کانتیجہ ہے اوریہ خداکی جاری سنت میں اختلاف
وتبدیلی ایجادنہیں کرتا۔[54]
حقیقت میں اعتراض کرنے والے نے یہ تصورکیاہواہے کہ گناہ گارکوعذاب اورسزادیناخداکی اصلی سنت ہے اور شفاعت کے وسیلہ سے عفوومغفرت ایک قسم کااس سنت سے استثناہے؛حالانکہ دونوں ایک دوسرے کی نسبت استثنانہیں رکھتے ؛بلکہ دونوں خداکی قطعی سنت میں سے ہیں اورہرایک اپنے اپنے مقام پرجاری ہوتی ہے،لہذاایک کوسنت خدااوردوسری کو سنت کے خلاف قدم سے تفسیرنہیں کرناچاہیے؛اصلاً اس بات کاکہ خداکی سنت تبدیل نہیں ہوتی کایہ معنی بھی نہیں بنتاکہ خداکی فقط ایک سنت ہے؛حالانکہ خودخدااپنی یوں تعریف کررہاہے: ﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴾ [55]وہ ہرروزایک نئی شان والاہے،اس بناپرخداکاہرکام اورہرجلوہ اس کی کسی نہ کسی صفت کی بنیادپرہے۔[56]
پس اگرکسی کی شفاعت کی بنیادپرکسی سے عذاب ٹل جائے تویہ خداکی تبدیل نہ ہونے والی سنت سے تعارض ومنافات نہیں رکھتا؛بلکہ شفاعت بعض عوامل مثل رحمت،مغفرت،حکم،قضا اورصاحب حق کااپنے حق میں رعایت،کے اثرسے ہوتی ہے،اگرشفاعت کے حق کوخداوندمتعال نے اپنے انبیاء یااولیاء کودے دیاہے تویہ خداکی سنت کے خلاف نہیں ہواہے۔
آخر میں تبرک کے طورپررسول گرامی اسلامؐ کی شفاعت کے متعلق ایک حدیث پیش کی جاتی ہے:رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:مجھے اختیاردیاگیاہے کہ میں شفاعت کروں یااپنی آدھی امت کوجنت میں لے جاؤں،میں نے شفاعت کاانتخاب کیاہے؛کیونکہ اس کادائرہ وسیع ہے،کیاتم یہ خیال کرتے ہوکہ شفاعت فقط پرہیزگارمؤمنوں کیلئے ہے؟!نہ،بلکہ گناہوں میں آلودہ وخطاکاروں کیلئے ہے۔[57]
وصلی اللہ علی فاطمۃ وابیھاوبعلھاوبنیھا۔
ملک حسنین رضاعسکری
منابع:
قرآن مجید
امین،سیدمحسن ،تاریخچہ نقدوبررسی وہابی ہا،ترجمہ سیدابراہیم سیدعلوی،سپہر،تہران،۱۳۶۷ش۔
بخاری،محمدبن اسماعیل، صحیح بخاری،دارالفکر،بیروت،۱۴۰۱ق۔
جمعی ازنویسندگان،مجمع اللغات،فرہنگ بزرگ جامع نوین عربی بہ فارسی،احمدسیاح۔
جوادی آملی،تفسیرموضوعی قرآن کریم،وحی ونبوت درقرآن،چاپ اول،مرکزنشراسراء،قم،۱۳۸۱ش۔
راغب اصفہانی،المفردات فی غریب القرآن،چاپ اول،دارالعلم الدارالشامیہ،دمشق-بیروت۱۴۱۲ق۔
رازی،ابوالفتوح،روض الجنان وروح الجنان فی تفسیرالقرآن،بنیادپژوہش ہای اسلامی آستان قدس رضوی،مشہد، ۱۴۰۸ق۔
رضوانی،علی اصغر،سلفی گری،وہابیت وپاسخ بہ شبہات،سمت،تہران۱۳۸۴۔
سبحانی،جعفر،آئین وہابیت، دفترانتشارات اسلامی،قم۱۳۶۴ش۔
سبحانی،جعفر،الھیات علی الھدی الکتاب والسنۃ والعقل،مرکزجہانی علوم اسلامی،قم۱۴۱۱ق۔
سبحانی،جعفر،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،انتشارات دارالکتب الاسلامیہ،۱۳۵۳۔
سبحانی،جعفر،منشورجاوید،دارالقرآن کریم،۱۴۱۰ق۔
شیخ طوسی،التبیان فی تفسیرالقرآن، داراحیاء التراث العربی،بیروت۔
طاہری،علی رضا، فرہنگ اصطلاحات متقابل ومتشابہ،انتشارات بخشائش،۱۳۸۵ش۔
طباطبائی،محمدحسین،المیزان فی تفسیرالقرآن،ترجمہ محمدباقرموسوی ہمدانی، پنجم،دفترانتشارات اسلامی،قم۱۳۷۴ش۔
طباطبائی،سیدمحمدحسین،المیزان فی تفسیرالقرآن، دفترانتشارات اسلامی،قم۱۳۱۷ق۔
طبرسی،امین الاسلام فضل بن حسن،مجمع البیان،انتشارات ناصرخسرو،تہران۱۳۷۲ش۔
طبسی،نجم الدین ،رویکردعقلانی برباورہای وہابیت،امیرالعلم،قم،۱۳۸۴ش۔
فخرالدین رازی،ابوعبداللہ محمدبن عمر،التفسیرالکبیر، داراحیاء التراث العربی،بیروت۔
قاضی،عبدالجبّار، شرح الاصول الخمسہ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،۱۴۲۲ق۔
قشیری نیشاپوری،مسلم بن حجاج بن مسلم ،صحیح مسلم،دارالفکر،بیروت۔
مصطفوی،حسن،التحقیق فی کلمات القرآن الکریم،بانگاہ ترجمہ ونشرکتاب،تہران،۱۳۶۰ش۔
مطہری،مرتضی ،عدل الہی،صدرا،۱۳۷۱ش۔
نیشاپوری،محمدبن فتّال،روضۃ الواعظین،منشورات الرضی،قم۔
نسفی،میمون بن محمد، تبصرۃالادلہ فی اصول الدین،انتشارات ہاد،تہران،۱۳۸۰ش۔
حوالاجات
- طباطبائی المیزان فی تفسیرالقرآن،ج۱،ص۱۵۵۔[1]
-بقرہ،آیہ ۱۲۲۔[2]
- جمعی ازنویسندگان،مجمع اللغات،ص۵۴۳۔[3]
- المیزان فی تفسیرالقرآن،ج۱،ص۱۵۵۔[4]
- زمر،آیہ۴۳و۴۴۔[5]
- بقرہ،آیہ۴۸۔[6]
- بقرہ،آیہ۱۲۳۔[7]
- بقرہ،آیہ۲۵۴۔[8]
- یونس،آیہ۳۔[9]
- طہ،آیہ۱۰۹۔[10]
- دخان،آیہ۴۰الی۴۲۔[11]
- الانبیاء،آیہ۲۶الی۲۸۔[12]
- عبدالجبارقاضی،شرح الاصول الخمسہ،ص۴۶۳-۴۶۷؛ڈاکٹرسمیع دغیم،موسوعہ مصطلحات علم الکلام الاسلامی،ج۱،ص۶۶۷۔[13]
- المیزان،ج۱،ص۱۵۵-۱۵۷۔[14]
- امام محمدرازی،تفسیرکبیر،ج۳،ص۵۹۔[15]
- شیخ طوسی،التبیان فی تفسیرالقرآن،ج۱،ص۲۱۳،ذیل آیت۴۸،سورہ بقرہ۔[16]
- الاسراء۷۹۔[17]
- نیشاپوری،محمدبن فتّال،روضۃ الواعظین،ص۵۴۹۔[18]
- مجمع البیان،ج۱،ص۲۲۳۔[19]
- روح الجنان،ج۱،ص۱۶۴-۱۷۵۔[20]
- تبصرۃالادلہ فی اصول الدین،ج۲،ص۷۹۲۔[21]
- سیدمحسن امین،کشف الارتیاب فی اتباع محمدبن عبدالوہاب،ص۱۹۲۔[22]
- راغب اصفہانی،المفردات فی غریب القرآن،ص۴۵۷-۴۵۸،ذیل شفاعت۔ [23]
- حسن مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن،ج۶،ص۹۲۔[24]
- علی رضا،طاہری،فرہنگ اصطلاحات متقابل ومتشابہ،ص۱۱۶-۱۱۷۔[25]
- جعفرسبحانی،آئین وہابیت،ص۲۵۹و۲۶۱۔[26]
- علی اصغررضوانی،سلفی گری،وہابیت وپاسخ بہ شبہات،ص۴۵۸و۴۵۹۔[27]
- بقرہ،آیہ۲۵۴۔[28]
- بقرہ،آیہ۴۸۔[29]
- مدثر،آیت ۴۸؛اعراف،آیت ۵۳؛شعراء،آیت ۱۰۱۔[30]
- انعام،آیت ۹۴؛یونس،آیت ۱۸؛زمر،آیت ۴۳؛یس،آیت۲۳۔[31]
- زمر،آیہ۴۴؛انعام،آیہ ۵۱؛انعام،آیہ ۷۰؛سجدہ،آیہ ۴۔[32]
- بقرہ،آیہ۲۵۵؛یونس،آیہ۳؛مریم،آیہ۸۷؛طہ،آیہ ۱۰۹؛سباء،آیہ۲۳؛زخرف،آیہ۸۶۔[33]
- انبیاء،آیہ۲۷و۲۸؛نجم،آیہ۲۶؛غافر،آیہ۷۔[34]
- جعفرسبحانی،الھیات علی الھدی الکتاب والسنۃ والعقل،ص۳۳۸-۳۴۰۔[35]
- نساء،آیہ ۸۵۔[36]
- محسن امین،تاریخچہ نقدوبررسی وہابی ہا،ترجمہ سیدابراہیم سیدعلوی،ص۲۵۸۔[37]
- غافر،آیہ ۷۔[38]
- فخررازی،تفسیرکبیر،ذیل آیہ ۷سورہ غافر۔[39]
- مسلم بن حجاج بن مسلم قشیری نیشاپوری،صحیح مسلم،ج۲،ص۶۶۵۔[40]
- محمدبن اسماعیل بخاری،صحیح بخاری،ج۴،ص۹۸۔[41]
- نجم الدین طبسی،رویکردعقلانی برباورہای وہابیت،ص۶۸و۶۹۔[42]
- مرتضی مطہری،عدل الہی،ص۲۳۷و۲۳۸۔[43]
- جعفرسبحانی،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،ص۲۷۳و۲۷۴۔[44]
- المیزان،ترجمہ محمدباقرموسوی ہمدانی،ج۱،ص۲۴۔[45]
- مرتضی مطہری،عدل الہی،ص۲۳۹۔[46]
- جعفرسبحانی،الہیات علی الہدی الکتاب والسنۃ والعقل،ص۳۵۷و۳۵۸۔[47]
- جعفرسبحانی،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،ص۲۸۰و۲۸۲۔[48]
- مرتضی مطہری،عدل الہی،ص۲۴۰۔[49]
- جعفرسبحانی،تفسیرموضوعی،ج۲،ص ۴۶۲،۴۶۱،۳۶۴۔[50]
- بقرہ،آیہ۲۵۵۔[51]
- جعفرسبحانی،شفاعت درقلمروعقل،قرآن وحدیث،ص۹۰و۹۱۔[52]
- فاطر،آیہ ۴۳۔[53]
- المیزان،ج۱،ص۱۶۳؛تفسیرموضوعی قرآن کریم،ج۵،معاددرقرآن،ص۱۵۳-۱۵۴۔[54]
- الرحمن،آیہ ۲۹۔[55]
- جعفرسبحانی،منشورجاوید،ج۸،ص۱۱۰۔[56]
- الفصاحہ،ترجمہ ابراہیم احمدیان،ص۳۷۰۔[57

مباھلہ

سوال 1: اگر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مباھلہ کے واقعہ میں فقط حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام)، حسنین (علیہما السلام) اور امام علی (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ لے کر گئے تو پھر آیت میں عورتوں، بچوں اور نفسوں کے لئے جمع کا لفظ کیوں استعمال ہوا ہے ؟
جواب: علمائے اسلام کا اجماع، اور وہ بہت سی حدیثیں جو شیعہ اور اہل سنت کی معتبر اور اسلامی کتابوں میں اس حدیث کے شان نزول کو اہل بیت (علیہم السلام) کی شان میں نازل ہونے کو بیان کرتی ہیں ،ان میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنے ساتھ علی علیہ السلام، فاطمہ زہرا علیہا السلام اور حسنین علیہما السلام کے علاوہ کسی اور کو نہیں لے گئے اوریہ خود آیت کی تفسیر کے لئے بہترین قرینہ ہے ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کے لئے جو قرائن استعمال ہوتے ہیں ان میں سے ایک سنت اور شان نزول ہے ۔
اس بناء پر مذکورہ اعتراض صرف شیعوں پر نہیں ہے بلکہ تمام اسلامی علماء کو اس کا جواب دینا چاہئے ۔
ثانیا : صیغہ جمع کا مفرد یا تثنیہ پر اطلاق ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے اور قرآن وغیر قرآن اور ادبیات عربی بلکہ غیر عرب میں بھی اس پر بہت سی دلیلیں ہیں ۔
تفصیل کے ساتھ وضاحت :
بہت زیادہ ایسا ہوتا ہے کہ کس قانون کو بیان ، یا کسی عہدنامہ کو تنظیم کرتے وقت حکم عمومی طور پر یا جمع کے صیغہ میں بیان کیا جاتا ہے ،مثلا عہدنامہ میں اس طرح لکھتے ہیں : اس کو جاری کرنے والے ذمہ دار ، دستخط کرنے والے اور ان کے بچے ہیں جبکہ ممکن ہے کہ دونوں طرف سے ان کے صرف ایک یا دو بچے ہوں ، یہ موضوع کبھی بھی جمع کے صیغہ کے ساتھ قانون اور عہدنامہ لکھتے وقت غلط نہیں ہوتا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس کے دو مرحلہ ہیں : قرار داد کا مرحلہ اور اس کو جاری کرنے کا مرحلہ ۔ قرار داد کے مرحلہ میں کبھی الفاظ جمع کی صورت میں ذکر ہوتے ہیں تاکہ تمام مصادیق پرتطبیق کریں ، لیکن جاری کرنے کے مرحلہ میں ممکن ہے کہ مصداق صرف ایک آدمی میں منحصر ہو اور مصداق میں یہ انحصار ، مسئلہ کے عمومی ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) نے نجران کے نصاری کے ساتھ جو قرار داد کی تھی اس کے مطابق آپ کی ذمہ داری تھی کہ اپنے خاندان کے خاص بچوں ، عورتوں اور تمام ان لوگوں کو جو آپ کی جان کی طرح تھے ، مباھلہ میں لے جاتے ،لیکن دو بچوں ، ایک مرداور ایک عورت کے علاوہ کوئی دوسرا مصداق نہیں تھا (غور کریں) ۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر لفظ جمع استعمال ہوا ہے لیکن اس کا مصداق صرف ایک فرد میں منحصر ہے : مثلا اسی سورہ کی ١٧٣ ویں آیت میں بیان ہوا ہے : الَّذینَ قالَ لَہُمُ النَّاسُ ِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ ۔
یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہاکہ لوگو ں نے تمہارے لئے عظیم لشکر جمع کرلیا ہے لہذا ان سے ڈرو۔
اکثر مفسرین کی رائے کے مطابق یہاں پر :الناس (لوگوں) سے مراد نعیم بن مسعود ہے جس نے مسلمانوں کو مشرکین کی طاقت سے ڈرانے کے لئے ابوسفیان سے کچھ مال لیا تھا (١) ۔
اسی طرح ١٨١ ویں آیت میں ملتا ہے : لَقَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّذینَ قالُوا ِنَّ اللَّہَ فَقیر وَ نَحْنُ أَغْنِیاء۔ اللہ نے ان کی بات کوبھی سن لیا ہے جن کا کہنا ہے کہ خدا فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔لہذا اس نے ہم سے زکات دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔
جب کہ آیت میں الذین سے مراد حُیی بن ا خطب یا فنحاص ہے (٢) ۔
کبھی کبھی مفرد کے لئے لفظ جمع کا استعمال احترام کے لئے بھی ہوتا ہے جس طرح سے ابراہیم علیہ السلام) کے لئے ملتا ہے : اِنَّ ِبْراہیمَ کانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّہِ حَنیفاً وَ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکینَ۔ بیشک ابراہیم علیہ السّلام ایک مستقل امّت اور اللہ کے اطاعت گزار اور باطل سے کترا کر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے(٣) ۔
یہاں پر لفظ امت جو کہ اسم جمع ہے ایک شخص کے اوپر اطلاق ہوا ہے(٤) ۔
حوالہ جات:
١۔ تفسیر «قرطبى»، ذیل آیه 173 سوره «آل عمران»؛ تفسیر «فخر رازى»، ذیل آیه 173 سوره «آل عمران»؛ تفسیر «آلوسى»، ذیل آیه 173 سوره «آل عمران».
٢۔ تفسیر «طبرى»، جلد 4، صفحه 129، ذیل آیه 181 سوره «آل عمران»؛ تفسیر «قرطبى»، ذیل آیه 181 سوره «آل عمران»؛ تفسیر «ابن کثیر»، جلد 2، صفحه 155، ذیل آیه 188 سوره «آل عمران».
٣۔ سوره نحل، آیه 120.
٤۔ اقتباس از کتاب: تفسیر نمونه، آيت الله العظمي مکارم شيرازي، دار الکتب
سوال 2: کیا مباھلہ ایک عام حکم ہے ؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مباھلہ کی آیت تمام مسلمانوں کو مباھلہ کی دعوت دینے کے لئے ایک عام حکم نہیں ہے بلکہ اس آیت میں مخاطب صرف اور صرف پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہیں ، لیکن یہ موضوع اس بات سے منع نہیں کرتا کہ مخالفین کے سامنے مباھلہ ایک عام حکم ہوجائے اور ایماندار لوگ جو کہ کامل طور پر تقوی اور خدا کی عبادت کرتے ہیں وہ اپنے استدلال پیش کرتے وقت دشمن کی لجاجت کی وجہ سے ان کو مباھلہ کی دعوت دے سکتے ہیں ۔
اسلامی کتابوں میں جو روایات نقل ہوئی ہیں ان سے بھی اس حکم کا عام ہونا سمجھا جاتا ہے : تفسیر نور الثقلین کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ٣٥١ پر امام صادق (علیہ السلام) سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے :
اگر مخالفین تمہاری حق بات کو قبول نہ کریں تو تم ان کو مباھلہ کی دعوت دو ! ۔
راوی کہتا ہے : میں نے سوال کیا کہ ان سے کس طرح مباھلہ کریں؟
فرمایا : تین دن تک اپنی اخلاقی اصلاح کرو !
میں خیال کرتا ہوں کہ آپ نے فرمایا : روزہ رکھو، غسل کرو اور جس سے مباھلہ کرنا چاہتے ہو اس کے ساتھ صحرا میں جائو ، پھر اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیوں کو اس کے داہنے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالو اور تم خود شروع کرو اور کہو : خدایا ! تو ساتوں آسمانوں ا ور ساتوں زمینوں کا پروردگار ہے اور ان کے اندر چھپے ہوئے اسرار سے آگاہ ہے ، تم رحمان و رحیم ہے ، اگر میرا مخالف حق کا انکار کرے اور باطل کا دعوی کرے تو آسمان سے اس کے اوپر ایک بلاء نازل فرما اوراس کو دردناک عذاب میں مبتلا کردے !
اور ایک مرتبہ پھر اس دعا کو دہرائے اور کہے :
اگر یہ شخص حق کا انکار کرے اور باطل کا دعوی کرے تو آسمان سے اس کے اوپر ایک بلاء نازل فرما اوراس کو دردناک عذاب میں مبتلا کردے !
پھر فرمایا : کچھ دیر نہیں گزرے گی کہ اس کا نتیجہ ظاہر ہوجائے گا ،خدا کی قسم ! کوئی بھی شخص اس طرح سے میرے ساتھ مباھلہ کرنے کو تیار نہیں ہوا (١) ۔ (٢) ۔
حوالہ جات:
١۔ جواهر الکلام»، جلد 5، صفحه 40، دار الکتب الاسلامیة، چاپخانه خورشید؛ «المیزان»، جلد 4، صفحه 410، انتشارات جامعه مدرسین؛ «کافى»، جلد 2، صفحه 513 و 514، دار الکتب الاسلامیة؛ «وسائل الشیعه»، جلد 7، صفحه 134، چاپ آل البیت؛ «بحار الانوار»، جلد 92، صفحه 349؛ «عدّة الداعى»، صفحه 214 و 215، دار الکتاب الاسلامى، 1407 هـ ق؛ «نور الثقلین»، جلد 1، صفحه 351، مؤسسه اسماعیلیان، طبع چهارم، 1412 هـ ق.
٢۔ اقتباس از کتاب: تفسیر نمونه، آيت الله العظمي مکارم شيرازي، دار الکتب الإسلامیه، چاپ چهل و هفتم، ج 2، ص 684.
سوال 3: پیغمبر اسلام نے کس طرح مباھلہ کیا؟
جواب: مباہلہ “ در اصل ” بھل“ کے مادہ سے ہے ، اس کا معنی ہے ”رہا کرنا “ اور کسی کی قید و بندکو ختم کردینا ۔ اسی بناء پر جب کسی جانور کو اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اس کے پستان کسی تھیلی میں نہ باندھیں تاکہ اس کا نو زائیدہ بچہ آزادی سے اس کا دودھ پی سکے تو اسے ” باھل “ کہتے ہیں ۔ دعا میں ” ابتھال“ تضرع و زاری اور کام خدا کے سپرد کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔
کبھی کبہار یہ لفظ ہلاکت ، لعنت اورخدا سے دوری کے معنی میں اس لئے استعمال ہوتا ہے کہ بندے کو اس کے حال پر چھوڑدینا منفی نتائج کا حامل ہوتا ہے ۔ یہ تو تھا ” مباہلہ “ کا مفہوم اصل لغت کے لحاظ سے لیکن اس مروج مفہوم کے لحاظ سے جو اوپر والی آیت میں مراد لیا گیا ہے یہ دو اشخاص کے درمیان ایک دوسرے پر نفرین کرنے کو کہتے ہیں اور وہ ببھی اس طرح کہ دو گروہ جو کسی اہم مذہبی مسئلے میں اختلافَ
رائے رکھتے ہوں ، ایک جگہ جمع ہو جائیں ، بار گاہ الہٰی میں تضرع کریں اور اس سے دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا و ذلیل کرے اور اسے سزا و عذاب دے ۔
مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کو ئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے ” مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچو ں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوںاور عورتوں اور نفسوں کو بلا وٴ پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے ۔(» (فَمَنْ حَاجَّکَ فیهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللّهِ عَلَى الْکاذِبینَ).
اسلامی روایات میں ہے کہ “ مباہلہ “ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تاکہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی چغلی کھاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شو ر و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ ” مباہلہ“ کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور وغل کا سہارا لیا جائے اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جالینا چاہئیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صور میںان سے ”مباہلہ “ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے ۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (علیه السلام) کو گود میں لئے حسن (علیه السلام) کا ہاتھ پکڑے اور علی (علیه السلام) و فاطمہ (علیه السلام) کو ہمراہ لئے آپہنچے ہیں اور انہیں فرمارہے ہیںکہ جب میں دعا کرو ، تم آمین کہنا ۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۔
حوالہ
1. تفسیر نمونه، جلد 2، صفحه 671.
سوال 4: مباهله کس طرح پیغمبر(صلى الله علیه وآله وسلم) کی حقانیت کی دلیل هے ؟
جواب: خداوندمتعال سوره «آل عمران» کی آیت نمبر ۶۱ میں اپنے پیغمبر (صلى الله علیه وآله وسلم) کو حکم دیتا ہے
کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کو ئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے ” مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچو ں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں اور نفسوں کو بلا وٴ پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے ۔
" مباہلہ “ کی یہ صورت شاید قبل از این عرب میں مروج نہ تھی اور ایک ایسا راستہ ہے جو سوفی صد پیغمبر اکرم کے ایمان اور دعوت کی صداقت کا پتہ دیتا ہے ۔
کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کردے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔
یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہو اتو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا ۔
کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمنان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوتِ مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔

ائمہ اثنا عشر کی روایت نقل کرنے والے صحابہ

ائمہ اثنا عشر کی روایت نقل کرنے والے صحابہ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعض اصحاب نے ایسی روایات نقل کی ہیں جن کی رُوسے بارہ اماموں کی امامت کا اثبات ہوتا ہے ان میں کچھ نام یہ ہیں:
۱۔جابر بن سمرہ، ۲۔عبداللہ بن مسعود، ۳۔ابوجحیفہ، ۴۔ابوسعید خدری، ۵۔سلمان فارسی، ۶۔انس بن مالک، ۷۔ابوہریرہ، ۸۔واثلہ بن اسقع، ۹۔عمر بن الخطاب، ۱۰۔ابوقتادہ، ۱۱۔ابوالطفیل، ۱۲۔ امام علی (ع)، ۱۳۔امام حسن(ع)، ۱۴۔امام حسین(ع)، ۱۵۔شفیاصبحی، ۱۶۔عبداللہ بن عمر، ۱۷۔عبداللہ بن اوفیٰ، ۱۸۔عمار بن یاسر، ۱۹۔ابوذر، ۲۰۔حذیفہ بن الیمان، ۲۱۔جابر بن عبداللہ الانصاری، ۲۲۔عبداللہ بن عباس، ۲۳۔حذیفہ بن اسید، ۲۴۔زید بن ارقم، ۲۵۔سعد بن مالک، ۲۶۔اسعد بن زرارہ، ۲۷۔عمران بن حصین، ۲۸۔زید بن ثابت، ۲۹۔عائشہ، ۳۰۔ام سلمہ، ۳۱۔ابوایوب انصاری، ۳۲۔حضرت فاطمہ زہراؐ، ۳۳۔ابوامامہ، ۳۴۔عثمان بن عفان۔
جن کتب حدیث میں یہ احادیث موجود ہیں
ان تمام کتب،جوامع اور اصول کو تلاش کرکے ایک جگہ جمع کرناانتہائی مشکل ہے جن میں یہ احادیث موجود ہیں سردست ہم شیعہ وسنی کتب میں سے صرف چند کتب کا تذکرہ کررہے ہیں۔
شیعہ کتب
۱۔الصراط المستقیم الی مستحق القدیم۳جلدیں۔
۲۔اثبات الہداۃ شیخ حرعاملی، جو کچھ عرصہ پہلے ۷ جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔
۳۔کفایۃ الاثر۔
۴۔مقتضب الاثر۔
۵۔مناقب شہر آشوب(ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب ’’متشابہ القرآن و مختلفہ‘‘ج۲ ص۵۵پراس حدیث کے راویوں میں دیگر اصحاب کا نام بھی ذکرکیاہے۔)
۶۔بحارالانوار۔
۷۔عوالم ۔
۸۔منتخب الاثر۔
کتب اہل سنت
۱۔صحیح بخاری، ۲۔صحیح مسلم، ۳۔سنن ترمذی، ۴۔سنن ابی داؤد، ۵۔مسند احمد، ۶۔مسند ابی داؤد طیالسی، ۷۔تاریخ بغداد، ۸۔تاریخ ابن عساکر، ۹۔مستدرک حاکم، ۱۰۔تیسیرالوصول، ۱۱۔منتخب کنزالعمال، ۱۲۔کنزالعمال، ۱۳۔الجامع الصغیر، ۱۴۔تاریخ الخلفاء، ۱۵۔مصابیح السنہ، ۱۶۔الصواعق المحرقہ، ۱۷۔الجمع بین الصحیحین، ۱۸۔معجم طبرانی، ۱۹۔التاج الجامع للاصول۔
مضمون احادیث
ہم یہاں ان ر وایات میں سے صرف چند کا تذکرہ کررہے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ مذہب شیعہ اثنا عشری کی بنیاد تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک قابل قبول اورمعتبر مدارک ومنابع پر ہے، اور ’’اثنا عشری‘‘ کا نام زبان وحی ورسالت یعنیحضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ کے معجزنما کلام سے ماخوذ ہے۔
۱۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں عالی اسناد کے ساتھ ۳۵ روایات پیغمبر اکرمؐ سے نقل کی ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد آپؐ کے جانشین اور امت کے رہبروں کی تعدادبارہ ہوگی........                                   

Tuesday, 29 September 2015

-- ** نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ کی بشریت کا مسئلہ** ----------

معاشرے میں ایسے بہت سے مسایل ہیں جو سرے سے ایشو ہی نہیں تہے لیکن زبردستی انہیں ایشو بنادیا گیا ہے.. انہی مسائل میں سے ایک مسالہ بشریت نبی کا ہے. جسے بعض خطباء و ذاکرین کی جانب سے خوب اچہال گیا ہے
اللہ قران میں نبی اکرم .ص. اور دیگر تمام انبیاء کو بشر کہتا ہے مگر ہمارا علامہ انہیں بشر ماننے سے انکاری ہے.
یوں اس وجہ سے بعض ایمہ کی ولادت تک کا انکار کر بیٹہتے ہین
جناب ادم و حوا علیہما السلام ماں باپ سے پیدا نہی ہویے. پہر بہی ابو البشر ہیں
اور ہمارے نبی انہی کی پاک ذریت میں سے ایک عظیم ہستی ہیں. لیکن انکی بشریت کا انکار کیا جاتا ہے این چہ بوالعجبی است ؟ 
جناب عیسی علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہویے. اللہ انہیں سورہ مریم میں "عبد و رسول " قرار دیتا ہے. اور کہتا ہے کہ وہ اور انکی ماں کہانا کہاتے اار بازاروں میں چلتے تہے.. یعنی بشر تہے..
پتہ نہی بعض لوگوں کو واہ واہ اور بانیان مجلس کو خوش کرنے کیلیے کیوں نبی کریم .ص. کی بشریت کا انکار کرنا پڑتا ہے.
یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اولین و اخرین میں افضل ترین بشر ہیں. اپکی بشریت پر قران و روایات سے مضبوط و مستحکم دلایل موجود ہیں.
(قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی - الكهف 110 ) 
یعنی " بتادیجیے کہ میں بہی تم جیسا ایک بشر ہوں بس فرق یہ ہے کہ مجہ پر وحی کی جاتی ہے
اور یہی وہ عظیم فرق ہے جو انبیاء کو دیگر پر امتیاز عطا کرتا ہے.
اسے علم منطق میں " فصل " کہتے ہیں جو کسی ایک طبقے کو ایک نوع سے جدا کرے.
پس نوع بشر ہونے میں کویی فرق نہیں البتہ ان میں اور دیگر میں حد فاصل یہ ہے کہ انبیاء تابع وحی ہوتے ہیں. اور ایک طرف سے اگر وہ عالم بشریت سے متصل ہیں تو دوسری طرف وہ عالم ملکوت سے وابستہ ہیں
قران میں ایک اور جگہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا.
یہ کفار کہتے ہیں کہ
" کیا اللہ نے بشر کو رسول بناکر بہیجا ؟" مگر کیوں ؟ ( الكهف 95-94) 
پس ثابت ہوا کہ نبی کے بشر ہونے پر اعتراض کفار کی روش ہے
اس کے جواب میں اللہ عزوجل نے ارشاد کیا
" ان سے کہ دیجیے کہ اگر زمین پر فرشتے اطمینان سے چل پہر رہے ہوتے تو رسول بہی فرشتوں میں سے ہی اتا "
ایک اور ایت میں اللہ کا ارشاد ہے
( وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ - ابراهيم -4 )
ہم نے کسی رسول کو نہی بہیجا مگر اسکی اپنی قوم کی زبان میں "
پس قوم کا لفظ یہاں بتا رہا ہے کہ یہ انبیاء اس قوم کے شریف خاندانوں کے افراد میں سے ایک تہے. ہمیشہ قوم کے افراد میں سے ایک ممتاز فرد ہی نبی .رسول یا امام ہوتا ہے
لہذا جو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بشریت کے منکر ہیں بلکہ بعض تو اس موضوع پر عشرہ مجالس بہی پڑہ چکے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ قران کریم کا بنظر حقیقت مطالعہ کریں اور اہنی خود ساختہ نظریات سے باز اجاییں.
زیارات ایمہ میں بہی ہمیں یہی ملتا ہے جس میں کہا گیا ہے
" میں گواہی دیتا ہوں کہ اپ کا نور یعنی (وجود تکوینی) بلند صلبوں اور پاکیزہ ارحام میں رہا جنہیں نجاست نہ چہوسکی " 
پس 
سجده گذاروں کے صلبوں اور رحموں سے ہوتا ہوا یہ سسلہ جناب عبد المطلب.ع. تک پہنچا جہاں سے نور کا ایک حصہ صلب جناب عبد اللہ میں اور دوسرا حصہ صلب جناب ابو طالب.ع. میں منقسم ہوا.
یہی ایت کریمہ ( متقلبک فی الساجدین کا مفہوم حقیقی و مصداقی ہے ( الشعراء- 218- 219) 
نور کا مطلب یہاں سے ظاہری و باطنی روشنی ہے.
بلاشبہ جن صلبوں اور رحموں میں یہ حضرات رہے وہ پیشانیاں مثل روشن چاند کے چمکتی تہیں کیونکہ ان میں افضل ترین خلق خدا کا وجود پوشیدہ تہا
لیکن یہ بہی واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور انکی پاک ال والدین سے ہی پیدا ہویے .لہذا بشر ہین 
بیشک انکی ولادت کا قیاس عام ولادتوں پر نہیں کیا جاسکتا.
یہ ماں کی شکم میں گفتگو کرتے ہیں. پیدا ہوتے ہی خالق کا سجدہ کرتے ہیں اور اقرار شہادتین کرکے ثابت کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہی چاہتے .
پس بجپنے میں اغوش مادر میں دودہ پینا ' ہرن کے بچے کیلیے تڑپنا. .عید کے دن نیے لباس کا تقاضا کرنا یہ سب فطرت بشری کا حصہ ہیں
بیشک یہ انکی عظمت ہے کہ انکے لیے جنت سے خوان اتا تہا. رضوان جنت انکی بارگاہ میں تواضع کیساتہ حاضر ہوتا تہا 
کیونکہ جبرییل تا رضوان سب ملایکہ جانتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں انکی کتنی بلند عزت اور عظیم ترین درجہ و مرتبہ ہے. لذا جہاں ملکوت میں انکا مرتبہ اہل اسمان سے بلند ہے وہیں زمین پر یہ افضل الخلق ہیں
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ ہی ہے جسکا نہ کویی بیٹا نہ اولاد نہ بیوی نہ ہمسر ہے
اس کے علاوہ جتنے اس کے بندے ہیں سب کسی نہ کسی ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں. اور انبیاء بہی اس حکم میں صنف بشر میں داخل ہیں
تبہی تو وہ شادیاں کرتے ہیں. بچے پیدا کرتے ہیں. خوشی میں مسرت اور غمی میں روتے ہیں. کہاتے پیتے ہیں اور نظام تکوینی کے ان پر بہی وہی اثرات ہوتے ہیں جو دوسروں پر ہوتا ہے .مثلا بڑہاپا جوانی ضعیفی کمزوری صحت و بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں 
یہ سب امور انکے بشر ہونے پر دلیل ہیں 
انکی فضیلت خلق پر انکی عبادت و معرفت و تقوی و علم وحلم و کرم و سخاوت و عصمت اور اس عہدہ الہی کے سبب ہےجس کیلیے اللہ نے اپنے علم سے انہیں اس عظیم منصب کیلیے چنا ہے.
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں
کہ وہ ہمیں ان معصوم ہستیوں سے فیض حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے اور انکو ہمارا دنیا واخرت میں شفیع قرار دے 
اور ہمیں نفس امارہ کی پیروی سے بچایے. 
امین یارب العالمین