Friday, 18 July 2014
Wednesday, 16 July 2014
توسل ، توحيد يا شرک؟
توسل کرنا عين توحيد ہے يا شرک ہے؟ (اہل سنت کي مشہور کتابوں سے توسل کے بارے ميں وہابيوں کے اعتراض کا جواب)
محقق سعيد داودي
مترجم : سيد حسين حيدر زيدي
وہابيوں کے طرف سے وہ اعتراض جس کي انہوں نے بہت شدت سے تبليغ و ترويج کي ہے اوراس کا شمار ان کے انحرافي عقايد ميں ہوتا ہے وہ اعتراض يہ ہے کہ رسول خدا (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم)،آپ کے اہل بيت اور اولياء الہي سے توسل کرنا جائز نہيں ہے ، وہابي فرقے کي تعليم ان ذوات مقدسہ سے توسل کرنے ہي کو منع نہيں کرتي بلکہ وہ اس کوشرک اور ان سے متوسل ہونے والے کو مشرک سمجھتے ہيں اور اس کے خون کو مباح جانتے ہيں (يہ بات ياد رہے کہ توسل کے مسئلہ کووہابيوں کے علاوہ باقي تمام اسلامي فرقے قبول کرتے ہيں ) ?
اس مقالہ ميں چند لحاظ سے اس نظريہ کي تحقيق کي جائے گي :
?? توسل کے بارے ميں وہابيوں کا عقيدہ?
?? توسل کے معني ?
?? قرآن کے اعتبار سے توسل کي اصل و اساس ?
?? پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي ميں آپ سے توسل کرنا ?
?? پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي زندگي اور وفات کے بعد آنحضرت سے توسل?
?? ايک سوال کا جواب ?
?? توسل کا فلسفہ ?
?? توسل عين توحيد ہے ، شرک نہيں ہے ?
اول : توسل کے متعلق وہابيوں کا عقيدہ:
توسل کے متعلق وہابيوں کا نظريہ اس قدر مشہور اور معروف ہے کہ جو بھي حجاز کا سفر کرتا ہے، وہ وہاںپر (خصوصا مدينہ منورہ ميں)پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے متوسل ہونے والے کے ساتھ تند و تيز اور توہين آميز برخورد کو ديکھ سکتا ہے، يہ ديکھنے کے لئے کافي ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي قبر کے نزديک جائے اور آنحضرت کو مخاطب کرکے ان سے خدا کے نزديک اپني شفاعت کي درخواست کرے يا آنحضرت (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کے ذريعہ اپني مادي يا معنوي حاجت کو خداوند عالم سے طلب کرے ،اس صورت ميں فورا ان کے بدتميز کارندوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور شرک کي چھڑي سے اس کو وہاں سے نکال ديا جائے گا ?
ان کے خطيب ،نماز جمعہ کے خطبوں ميں ہميشہ اس بات کي تکرار کرتے رہتے ہيں کہ رسول خدا (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) اور اولياء الہي سے توسل کرنا شرک ہے ، يہ ايسي تکرار ہے جس سے لوگ تھک چکے ہيں اس کے بعد وہ مزيدکہتے ہيں : ”من يشرک باللہ فقد حرم اللہ عليہ الجنة“ جو بھي خدا سے شرک کرے اس کے اوپر بہشت حرام ہے (?) ?
اس کے علاوہ ہر سال بہت سے مضامين کي لاکھوں کتابيں مختلف زبانوں ميں منتشر ہوتي ہيں اور مختلف ملکوں کے زائرين کو وہ کتابيں دي جاتي ہيں، اور دنيا کے مختلف گوشوں ميں وہ کتابيں بھيجي جاتي ہيں، ان تمام کتابوں ميں اس بات کي تکرار ہوتي ہے ?
سعودي عرب ميں اس نظريہ کو فرقہ وہابيت کے موسس محمد بن عبدالوہاب نے اپني کتاب ميں وضاحت کے ساتھ بيان کيا ہے اس نے صراحت کے ساتھ کہا ہے : ”من عبداللہ ليلا و نہارا ثم دعا نبيا او وليا عند قبرہ فقد اتخذ الھين اثنين و لم يشھد ان لاالہ الا اللہ “? اگر کوئي شب وروز خدا کي عبادت کرے اور پھر پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) يا اولياء الہي کي قبر کے نزديک ان کو پکارے (اور ان سے کوئي حاجت طلب کرے) تو اس نے گويا اپنے لئے دو معبود انتخاب کئے ہيں اور اس نے گواہي نہيں دي ہے کہ خدا ئے واحدہ لاشريک کے علاوہ کوئي خدا نہيں ہے (?) ?
اسي طرح اس کي نظر ميں واقعي مسلمان وہ ہے جوصرف خود اولياء الہي سے توسل کرنے پر اکتفاء نہ کرے بلکہ ايسے لوگوں سے برائت اور دوري کا اعلان کرے جو توسل کرتے ہيں اور ان کو کافر سمجھے ! وہ لکھتا ہے : ” لا يصح دين الاسلام الا بالبراة ممن يتقرب الي اللہ بالصلحاء و تکفيرھم “ ? کسي کا اسلام قابل قبول نہيں ہے مگر يہ کہ وہ ان لوگوں سے بيزاري اختيار کرے جو خدااور صالحين سے توسل کرتے ہيں اور ان کو کافر سمجھے (?) ?
اس بناء پر محمد بن عبدالوہاب ايسے لوگوں کا خون بہانا مباح سمجھتا ہے اور جھوٹ ہي کہتا ہے: ”اجماع المذاہب کلھم علي ان من جعل بينہ و بين اللہ وسائط يدعوھم انہ کافر مرتد حلال المال والدم “ ? اس بات پر تمام مذاہب کا اجماع ہے کہ جو بھي اپنے اور خدا کے درميان واسطہ قرار دے اور ان کو پکارے وہ کافر مرتد ہے ، اس کي جان اور مال حلال ہے (?) ?
سعودي عرب کي فتوي دينے والي کميٹي نے اہل بيت (عليہم السلام) سے توسل کرنے والوں کو کافر کہتے ہوئے اس بات کي تاکيد کي ہے ?
سعودي عرب کے بعض مفتي اہل کتاب کي عورتوں سے شادي کرنے کو جائز سمجھتے ہيں (?) ليکن شيعوں کے ساتھ شادي کرنے کو جائز نہيں سمجھتے اور اس کي وجہ يہ بيان کرتے ہيں : ” لان المعروف عن الشيعة دعاء اہل البيت والاستغاثة بھم و ذلک شرک اکبر“ ? کيونکہ شيعہ اہل بيت کو پکارتے ہيں اور ان سے توسل کرتے ہيں اور يہ بہت بڑا شرک ہے (?) ?
جب کہ عيسائي تثليث يعني تين خدا، باپ، بيٹا اور روح القدس کے قائل ہيں ?
ايک دوسرے استفتاء کے جواب ميں لکھا ہے : ” اذا کان الواقع کما ذکرت من دعاءھم عليا والحسن والحسين و نحوھم فھم مشرکون شرکا اکبر يخرج من ملة الاسلام فلايحل ان نزوجھم المسلمات، و لا يحل لنا ان نتزوج من نسائھم و لا يحل لنا ان ناکل من ذبائحھم“ ? جيسا کہ کہا جاتا ہے کہ يہ علي ، حسن اور حسين کو پکارتے ہيں (مثلا يا علي ، يا حسن اور يا حسين کہيں) تو يہ مشرک ہيں اوراسلام کے آئين سے خارج ہيں ان سے شادي کرنا حرام ہے نہ ان کو عورتيں دي جاسکتي ہيں او ران کي عورتوں سے شادي کي جاسکتي ہے ان کاذبيحہ بھي حلال نہيں ہے (?) ?
اس بناء پر وہابي توسل کو شرک سمجھتے ہيں اور جو بھي اولياء الہي سے توسل کرتا ہے اس کو مشرک شمار کرتے ہيں ، ان کے ساتھ شادي کرنے کو جائز نہيں سمجھتے اوران کے ذبيحہ کو بھي حلال نہيں سمجھتے ?
جب کہ ہم جانتے ہيں کہ اسلام کے تمام فرقے بزرگان دين سے توسل کرتے ہيں اور مختلف شہروں ميں ان کي زيارت گاہ اس پربہترين دليل ہے لہذا يہ سب کافر اور مشرک ہيں ،ان کي جان اور مال حلال ہے اور يہيں سے ان کے قتل وغارت اور خون ريزي کرنے کي وجہ معلوم ہوجاتي ہے ?
دوم : توسل کے معني :
اس نظريہ کا جواب حاصل کرنے کيلئے سب سے پہلے توسل کے لغوي اور اصطلاحي معني کي تحقيق ضروري ہے ، اس کے بعد توسل کو قرآن اور سنت ميں تلاش کريں گے ?
مشہور لغوي خليل بن احمد نے کہا ہے : ”وسلت الي ربي وسيلة اي عملت عملا اتقرب بہ اليہ و توسلت الي فلان بکتاب او قرابة اي تقربت بہ اليہ “ ? ميں نے اپنے پروردگار کو وسيلہ قرار ديا يعني ميں نے ايسا عمل انجام ديا جس سے اس کے نزديک ہوجاؤں، جب ميں کہتا ہوں : ميں نے فلاں شخص سے کتاب يا رشتہ داري کے ذريعہ سے توسل کيا تو اس کے معني يہ ہيں کہ ميں اس کے ذريعہ اس سے نزديک ہوگيا (?) ?
ابن منظور نے بھي لکھا ہے : توسل اليہ بوسيلة اذا تقرب اليہ بعمل? اس کي طرف کسي وسيلہ سے توسل کيا ، يعني کسي عمل کو انجام دينے کے ذريعہ اس سے نزديک ہوگيا،اس کے بعد جوہري سے نقل کيا ہے کہ ”الوسيلة ما يتقرب بہ الي الغير“ ? وسيلہ وہ چيز ہے جس کے ذريعہ دوسرے سے نزديک ہوا جاتا ہے (?) ?
اس بناء پر کسي چيز کے ذريعہ دوسرے سے نزديک ہونے کو توسل کہتے ہيں اورخداوندعالم سے توسل کرنے کے معني يہ ہيں کہ مشروع امور سے استفادہ کرتے ہوئے خداوندعالم سے نزديک ہونا ?
ليکن اولياء الہي سے توسل کرنا يعني ان کو خدا کے نزديک شفيع قرار ينا ? حقيقت ميں توسل کي ماہيت اور شفاعت کي ماہيت ميں کوئي فرق نہيں ہے ، وہ (اولياء الہي) خدا وند عالم کي بارگاہ ميں اپنے سے متوسل ہونے والے کي شفاعت کرتے ہيں (??) ?
البتہ يہ بات بھي واضح ہے کہ اولياء الہي سے توسل کرنے کے معني مشکلات ميں ان کو مستقل سمجھنا نہيں ہے ،بلکہ ان سے اس لئے شفاعت کرتے ہيں کہ بندگي کي وجہ سے ان کامقام خدا کے نزديک بہتر ہے ?ہم چاہتے ہيں کہ وہ ہمارے لئے خداوند عالم سے طلب استغفار کريں، تاکہ خدا ہماري مشکل کو دور کرے، يا ہمارے گناہوں کو معاف کردے يا کبھي کبھي خود ان سے چاہتے ہيں کہ وہ اللہ کے حکم سے يا اس کي تکويني اجازت سے ہماري مشکل کو دور کريں ? ليکن جو بات غلط ہے وہ يہ ہے کہ کوئي تصرف اورتاثير ميں ان کو مستقل سمجھے اور اولياء الہي کو پروردگار کے مقابلہ ميں مشکلات کو دور اور حاجات کو پورا کرنے والا سمجھے ?
?? قرآن کے اعتبار سے توسل کي اصل و اساس
اولياء الہي سے توسل کرنے کي دو قسميں ہيں : کبھي کبھي ان سے مدد مانگي جاتي ہے کہ وہ خدا کے اذن سے ان کي مشکل کو دور کرديں اورکبھي کبھي ان کو اپنے اور خداکے درميان واسطہ قرار ديتے ہيں تاکہ خداوند ان کي مشکل کو دور کردے اور توسل کي يہ دونوں قسميں قرآن ميں پائي جاتي ہيں :
?? اولياء الہي، خداوند عالم کے ذريعہ مشکل کو دور کرتے تھے :
فطري سي بات ہے کہ ہر مسلمان ، اوليائے الہي ميں سے کسي کو اس وقت واسطہ قرار دے سکتا ہے يا اس سے مشکلات ميں مددکي درخواست کرسکتا ہے جب خدا اس کو اس بات کي اجازت دے ، ورنہ اس سے مدد نہيں مانگي جاسکتي ، حقيقت ميں اس عمل کي مشروعيت ، خداوند عالم کے اذن پر متوقف ہے ?
قرآن کريم ميں حضرت عيسي (عليہ السلام) کے بارے ميں بيان ہوا ہے کہ حضرت عيسي ، خداوند عالم کے حکم سے مشکلات کو دور کرتے تھے ، بيماروں کو شفا ديتے تھے ،يہاں تک کہ مردوں کو زندہ کرتے تھے ? سورہ مائدہ کي ??? ويں آيت ميں خداوند عالم حضرت عيسي کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے : ”وَ ا?ِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ کَہَيْئَةِ الطَّيْرِ بِا?ِذْني فَتَنْفُخُ فيہا فَتَکُونُ طَيْراً بِا?ِذْني وَ تُبْرِءُ الْا?َکْمَہَ وَ الْا?َبْرَصَ بِا?ِذْني وَ ا?ِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتي بِا?ِذْني “ ?
اور جب تم ميرے حکم سے مٹي سے پرندہ کي طرح کوئي چيز بناتے پھر اس پر کچھ دم کرديتے تو وہ مرے حکم سے پرندہ بن جاتا اور تم ميرے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھي کو اچھا کرديتے اور تم ميرے حکم سے مردوں کو زندہ ديتے ?
اس الہي اجازت کے بعد حضرت عيسي اعلان کرتے ہيں کہ ميں خداوند عالم کے حکم سے ان امور کو انجام ديتا ہوں ? سورہ آل عمران کي ?? ويں آيت ميں آپ کي زباني پڑھتے ہيں : ” ا?َنِّي قَدْ جِئْتُکُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ ا?َنِّي ا?َخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّينِ کَہَيْئَةِ الطَّيْرِ فَا?َنْفُخُ فيہِ فَيَکُونُ طَيْراً بِا?ِذْنِ اللَّہِ وَ ا?ُبْرِءُ الْا?َکْمَہَ وَ الْا?َبْرَصَ وَ ا?ُحْيِ الْمَوْتي بِا?ِذْنِ اللَّہِ وَ ا?ُنَبِّئُکُمْ بِما تَا?ْکُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ في بُيُوتِکُم“ ?
ميں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کي طرف سے نشاني لے کر آيا ہوں ، ميں تمہارے لئے مٹي سے پرندہ کي شکل بناؤں گا اور اس ميں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکم ِ خدا سے پرندہ بن جائے گا اور ميں پيدائشي اندھے اور َمبروص کا علاج کروں گا اور حکمِ خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا اور تمہيں اس بات کي خبردوں گا کہ تم کيا کھاتے ہو اور کيا گھر ميں ذخيرہ کرتے ہو?
اس بناء پر اگر کوئي حضرت عيسي (عليہ السلام) کے پاس آتا تھا اور کہتا تھا : ميرے بيٹے کو خدا کے حکم سے زندہ کرديں! يا اس مردہ کو خدا کے حکم سے زندہ کرديں تو وہ کبھي بھي شرک نہيں تھا کيونکہ حضرت عيسي (عليہ السلام) اور درخواست کرنے والا جانتا تھا کہ خدا کے حکم سے ايسا کام انجام پائے گا ?
ہم جانتے ہيں کہ اگر شرعا جائز نہ ہوتا اور شرک ہوتا تو اس کا ايک مورد بھي جائز نہ ہوتا ! کيونکہ خداوند عالم کے لئے شرک کے جائز ہونے ميں کوئي استثناء نہيں پايا جاتا جس کے نتيجہ ميں اگر کوئي ولي او ربارگاہ الہي کا مقرب بندہ پروردگار کے اذن سے اپني مشکل کو برطرف کرتا تو يہ کوئي غلط کام نہيں تھا ،يہ بات بھي قابل توجہ ہے کہ اسي سورہ کي ?? ويں آيت ميں خداوند عالم نے ان کو اپنا مقرب بندہ بتايا ہے ، جب فرشتہ حضرت مريم کو حضرت عيسي کے وجود کي بشارت ديتا ہے اور کہتا ہے : ” وَجيہاً فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبينَ “ ? دنيا اور آخرت ميں صاحبِ وجاہت اور مقربين بارگاہ ال?ہي ميں سے ہے ?
?? دعاء اور طلب مغفرت کے لئے اولياء الہي سے درخواست کرنا
اولياء الہي سے توسل کرنے کي ايک قسم يہ ہے کہ انسان ان سے درخواست کرے کہ وہ خداوندعالم سے ان کے لئے دعاء يا استغفار کريں اور خداوندعالم سے ان کے گناہوں کے معاف ہونے کي درخواست کريں، اس طرح کي خواہشات بھي قرآن کريم ميں بيان ہوئي ہيں :
?? بني اسرائيل جب صحرا و بيابان ميں پريشان تھے تو انہوں نے حضرت موسي سے مخاطب ہو کر کہا : ” ْ يا مُوسي لَنْ نَصْبِرَ عَلي طَعامٍ واحِدٍ فَادْعُ لَنا رَبَّکَ يُخْرِجْ لَنا مِمَّا تُنْبِتُ الْا?َرْضُ مِنْ بَقْلِہا وَ قِثَّائِہا وَ فُومِہا وَ عَدَسِہا وَ بَصَلِہا قالَ ا?َ تَسْتَبْدِلُونَ الَّذي ہُوَ ا?َدْني بِالَّذي ہُوَ خَيْرٌ اہْبِطُوا مِصْراً فَا?ِنَّ لَکُمْ ما سَا?َلْتُمْ“ ? جب تم نے موس?ي عليہ السّلام سے کہا کہ ہم ايک قسم کے کھانے پر صبر نہيں کرسکتے. آپ پروردگار سے دعا کيجئے کہ ہمارے لئے زمين سے سبزيً ککڑي، لہسنً مسوراور پياز وغيرہ پيدا کرے(??) ?
بني اسرائيل ، حضرت موسي سے چاہتے تھے کہ وہ خدا کي بارگاہ ميں دعاء کريں تاکہ مختلف قسم کي سبزيوں کے ذريعہ سے ان کي مشکل برطرف ہوجائے (??) ?
?? جس وقت حضرت يعقوب (عليہ السلام) کے بيٹے اپني غلطي کي طرف متوجہ ہوگئے تو انہوں نے آپ سے کہا : ”قالُوا يا ا?َبانَا اسْتَغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا ا?ِنَّا کُنَّا خاطِئينَ “ ? ان لوگوں نے کہا بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کريں ہم يقينا خطاکار تھے ?
حضرت يعقوب (عليہ السلام) نے ان کے جواب ميں کہا : ” قالَ سَوْفَ ا?َسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّي ا?ِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحيم“ ? انہوں نے کہا کہ ميں عنقريب تمہارے حق ميں استغفار کروں گا کہ ميرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے ?
اس بناء پر گنہگار لوگ ، اولياء الہي سے درخواست کرسکتے ہيں کہ وہ ان کيلئے خدا سے طلب مغفرت کريں ?
?? جن لوگوں نے گناہ کيا ہے ان سے خداوند عالم کہتا ہے ، اگر رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے پاس جاؤ اوراستغفار کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کيلئے آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے درخواست کريں کہ وہ خداوند عالم سے ان کےلئے طلب مغفرت کريں : ” وَ لَوْ ا?َنَّہُمْ ا?ِذْ ظَلَمُوا ا?َنْفُسَہُمْ جاؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّاباً رَحيماً“ ? اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کيا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھي اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھي ان کے حق ميں استغفار کرتا تو يہ خدا کو بڑا ہي توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے(??) ?
اس بناء پر گناہوں کي بخشش کا ايک راستہ يہ ہے کہ رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے استغفار کي درخواست کريں ، جن کي سفارش کو خداوند عالم قبول کرتا ہے ?
ان آيتوں ميں بھي توسل کو صراحت کے ساتھ بيان کيا گيا ہے ?
چہارم : پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي ميں آپ سے توسل
يہ بات واضح ہوگئي کہ قرآن کريم نے مشکلات کو دور کرنے کے لئے اولياء الہي سے کو جائز قرار ديا ہے اور اس کي طرف رغبت بھي دلائي ہے ? اب ہم ديکھتے ہيں کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي ميں ان سے توسل ہوتا تھا يا نہيں؟ کيا آنحضرت (ص) لوگوں کي درخواست کا مثبت جواب ديتے تھے ؟ روايات ميں آنحضرت (ص) سے متعدد توسل نقل ہوئے ہيں ، ہم يہاں پر اہل سنت کي کتابوں سے دو نمونوں کي طرف اشارہ کريں گے :
?? نابينا شخص کا رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل کرنا
ترمذي نے اپني صحيح ميں عثمان بن حنيف سے نقل کيا ہے کہ ايک نابينا شخص رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا : اے رسول خدا ! خدا سے ميري شفاعت کيلئے درخواست کرو ? ”ادع اللہ ان يعافيني“ ?
آپ نے فرمايا : ” ان شئت دعوت ، و ان شئت صبرت فھو خير لک“ ? اگر تم چاہتے ہو تو ميں تمہارے لئے دعاء کرتاہوں اور اگر انتظار کرو گے تو يہ تمہارے لئے بہتر ہے ?
اس شخص نے کہا : ميں چاہتا ہوں کہ آپ ميرے لئے دعاء کريں ?
رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے اس کو حکم ديا کہ کامل اور اچھي طرح سے وضو کرو، اس کے بعد اس دعاء کو پڑھو : ” اللھم اني اسالک و اتوجہ اليک بنبيک محمد نبي الرحمة، يا محمد ! اني توجھت بک الي ربي في حاجتي ھذہ لتقضي لي ، اللھم فشفعہ في “ ? خدايا ميں تجھے پکار رہاہوں اور ميں تيرے پيغمبر حضرت محمد مصطفي (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے ذريعہ تيري طرف متوجہ ہوں ، اے محمد ! ميں تمہارے توسل سے اپني حاجت حاصل کرنے کيلئے اپنے پروردگار کي طرف متوجہ ہوں تاکہ ميري حاجت پوري ہوجائے ، پس خدايا ، ان کو ميرے لئے شفيع قرار دے (??) ?
حاکم نيشاپوري نے بھي اس حديث کو نقل کرنے کے بعد تصريح کي ہے کہ يہ حديث بخاري اور مسلم کے شرايط کے مطابق صحيح ہے ، اگر چہ انہوں نے اس حديث کو نقل نہيں کيا ہے (??) اور مسند احمد کے نقل کے مطابق اس شخص نے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے حکم کے مطابق عمل کيا اور اس کو شفاعت مل گئي (??) ?
?? قحط اور خشک سالي کو دور کرنے کيلئے دعاء
صحيح بخاري ميں انس بن مالک (پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے مشہور صحابي)سے نقل ہوا ہے کہ ايک سال مدينہ ميں قحط اورخشک سال ہوگئي ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نماز جمعہ کا خطبہ پڑھنے ميں مشغول تھے کہ ايک شخص کھڑا ہوا اور عرض کيا : ” يا رسول اللہ ھلک المال و جاع العيال، فادع اللہ لنا“? اے رسول خدا ہمارا مال نابود ہوگيا اور ہمارے بچے بھوکے ہيں، خداوند عالم کي درگاہ ميں ہمارے لئے دعاء کيجئے ?
رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے اپنے مبارک ہاتھوں کو آسمان کي طرف بلند کئے ، اس وقت آسمان ميں بادل نہيں تھے ، خدا کي قسم جس کے قبضہ قدرت ميں ميري جان ہے ، ابھي آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے ہاتھ نيچے نہيں آئے تھے کہ پہاڑ کي مانند بادل آشکار ہوئے اور ابھي آپ منبر سے نيچے نہيں آئے تھے کہ بارش ہونا شروع ہوئي ،يہاں تک کہ بارش کے پاني سے آپ کي محاسن بھيگ گئي ? اور ايک ہفتہ تک بارش جاري رہي ، اگلے جمعہ کے روز ، آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے درخواست کي کہ وہ بارش رکنے کيلئے دعاء کريں (??) !
کيا يہ شخص عرب ، يا رسول اللہ کہنے اور بارش کي دعاء مانگنے کي وجہ سے کافر اور مہدور الدم ہوگيا؟!
پنجم : آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي اور وفات کے بعد آپ سے توسل
جن آيات اور روايات ميں پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل کرنا جائز ہے جب وہابيوں کو ان کا حوالہ ديتے ہيں اور ان کے پاس کوئي جواب نہيںہوتا تو کہتے ہيں کہ يہ آنحضرت (ص) کي زندگي کے واقعات ہيں ، آپ کي وفات کے بعد توسل جائز نہيں ہے ،کيونکہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) دنياسے چلے گئے ہيں ”ا?ِنَّکَ مَيِّتٌ وَ ا?ِنَّہُمْ مَيِّتُونَ “ ? پيغمبر آپ کو بھي موت آنے والي ہے اور يہ سب مرجانے والے ہيں ?اور اب وہ ہماري آواز نہيں سنتے اس لئے آنحضرت سے توسل کرنا شرک ہے ? ہم ان کے جواب ميں کہتے ہيں :
?? شرک کيوں !
پہلي بات يہ ہے کہ اگر ہم فرض کرليں کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اوراولياء الہي ہماري آواز نہيں سنتے تو پھر يہ عمل شرک کيوں ہے؟ کم سے کم اس عمل پر يہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ يہ کام لغو اور بيہودہ ہے ، يعني تم ايسے لوگوں سے کمک اور توسل کرتے ہو جو تمہاري آواز نہيں سنتے اور تمہارے مقام کو نہيں ديکھتے ، تمہارے احوال سے بے خبر ہيں، اس بناء پر لغو اور بيہودہ ہيں،شرک کيوں ہے؟
اس کي مثال ايسي ہے کہ تم ديوار سے خطاب کرو اور اس سے کہو : مجھے سيراب کرو ، اگر کوئي وہاں سے گذرے گا تو کہے گا کيا بيہودہ اورلغوکام کررہے ہو ؟ بعبارت ديگر : پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي ميں ان سے توسل کرنا اور ان کي طرف رغبت دلانا کس طرح جائز ہے ،ليکن آپ کي وفات کے بعد يہي کام شرک ميں تبديل ہوجاتا ہے ؟ آپ کي زندگي ميں توسل ، ايمان کي علامت اور آپ کي وفات کے بعد شرک کي علامت ہے؟!
اس بناء پرچاہے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے نزديک آنحضرت سے درخواست کريں کہ وہ اذن خدا سے بيمار کو شفا ديں، يا آنحضرت سے دعاء کريں کہ وہ ان کے بيمار کے لئے شفاء طلب کريں يا آپ کے لئے استفار کريں، يہ شرک نہيں ہے !کيونکہ دونوں صورتوں ميں آپ آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کو خداوند عالم کے مقابلہ ميں تصور نہيں کرتے اور اگر پيغمبر اکرم(صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) آپ کي آواز کو نہ سنيںتو يہ ايک بيہودہ اور بيکارعمل توہوسکتا ہے ليکن شرک آميز عمل نہيں ہوسکتا ?
افسوس کے وہابيوں کے لئے دوسروں کو شرک سے متصف کرنا بہت آسان ہے ، جو بھي آنحضرت سے توسل کرتا ہے اس کو شرک کي چھڑي سے بھگا ديتے ہيں اور شرک کے تمام آثار اس پر تھونپ ديتے ہيں ،يہاں تک کہ اس کے قتل کے جائز ہونے کا فتوي صادر ہوجاتا ہے ،جيسا کہ پوري دنيا شاہد ہے کہ تمام وہابي اسي عقيدے کے ساتھ پاکستان، عراق اور افغانستان ميں شب و روز مسلمانوں کو قتل کرنے ميں مشغول ہيں، اور کبھي کبھي خود کشي کے عمل سے ہزاروں لوگوں کے خون کي ہولي کھيلتے ہيں ، جب کہ يہ سب بے گناہ مسلمان ہيں، شہادتين کو زبان پر جاري کرتے ہيں ، اسلام کے اصول و فروع پر پابند ہيں، اہل قبلہ ہيں، ليکن اولياء الہي سے توسل کے جرم ميں ايک گروہ کے ذريعہ جو خود کو مسلمان کہتا ہے ، قتل کردئيے جاتے ہيں، اسي خشونت اور قتل وغارت نے اسلام اور مسلمانوں کي شناخت کو لوگوں کے سامنے نفرت ميں تبديل کردي ہے ?
?? پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي حيات سے قبل آپ سے توسل
حاکم نيشاپوري نے اپني کتاب ”مستدرک“ ميں عمر بن خطاب سے اس نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت نے فرمايا : ” جس وقت حضرت آدم(عليہ السلام) نے ترک اولي انجام ديا تو خداوندعالم سے عرض کيا : ” يا رب اسالک بحق محمد لماغفرت لي“ ? پروردگارا ! ميں تجھے محمد کا واسطہ ديتا ہوں مجھے بخش دے ? خداوند عالم نے حضرت آدم سے فرمايا : اے آدم ! تم نے کس طرح محمد کو پہچانا جب کہ ميں نے ابھي تک ان کو خلق نہيں کيا ? آدم نے عرض کيا : پروردگارا ! جب تو نے مجھے خلق کيا تو ميں نے اوپر کي طرف نظر کي تو عرش کے ستون پر لکھا ہوا تھا : لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ “ ?ميں سمجھ گيا کہ محمد (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) بہترين مخلوق ہيں جو خدا کے نام کے ساتھ ان کانام لکھا ہوا ہے ?
خداوند عالم نے فرمايا : ”صدقت يا آدم ! انہ لاحب الخلق الي ادعني بحقہ فقد غفرت لک ، ولو لا محمد ما خلقتک“ ? اے آدم تم نے سچ کہا ، يقينا پوري مخلوقات ميں محمد ميري سب سے محبوب مخلوق ہے اور چونکہ تم نے مجھے ان کے حق کا واسطہ ديا ہے تو ميں تمہيں بخش ديتا ہوں اور اگر محمد نہ ہوتے تو ميں تمہيں خلق نہ کرتا ?
حاکم نيشاپوري نے اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : ھذا حديث صحيح الاسناد ? اس حديث کي سند صحيح ہے (??) ?
?? رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي وفات کے بعد آپ سے توسل
پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي وفات کے بعد آپ سے توسل کے متعدد واقعات نقل ہوئے ہيں ہم يہاں پر اختصار کي وجہ سے تين واقعات کي طرف اشارہ کرتے ہيں :
الف : بلال بن حارث کا پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل
اہل سنت کے مشہور علماء اور محدثين جيسے بيہقي ،ابن ابي شيبہ، ابن حجر، ابن کثير اور دوسرے علماء نے نقل کيا ہے کہ عمربن خطاب کي خلافت کے زمانہ ميں قحط پڑ گيا، ايک شخص پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے پاس آيا اور آنحضرت کو مخاطب کرکے عرض کيا : ” يا رسول اللہ ! ھلک الناس، استسق لامتک “ ? يا رسول اللہ ! لوگ قحط اور خشک سالي سے نابود ہوگئے ، اپني امت کے لئے بارش کي دعاء کيجئے ?
رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ، اس کے خواب ميں آئے اور کہا : ” ائت عمر فاقراہ مني السلام و اخبرہ انھم مسقون، و قل لہ : عليک الکيس“ ? عمر کے پاس جاؤ اور اس کو ميرا سلام پہنچاؤ اور اس کو خبر دو کہ بہت جلد بارش ہونے والي ہے اور اس سے کہو کہ اپني سخاوت اور بخشش کے تھيلے کو کھول دو ?
وہ شخص عمر کے پاس آيا اور پورا واقعہ اس کو سنايا ، عمر رونے لگا اور کہا : ” يا رب ما الو الا ما عجزت عنہ“ ? پروردگارا ! ميں نے اپني کوشش کي ليکن ميں کمزور تھا (??) ?
ابن حجر لکھتا ہے : اس روايت کي سند جس کو ابن ابي شيبہ نے نقل کيا ہے، صحيح ہے ،اس کے بعد مزيد کہتا ہے : جس شخص نے يہ خواب ديکھا اس کا نام بلال بن حارث ہے جو رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کا ايک صحابي تھا (??) ?
ابن کثير نے بھي اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : ”وھذا اسناد صحيح “ ? اس روايت کي سند صحيح ہے (??) ?
اہل سنت کے اعتقاد کے مطابق جوکہ صحابہ کي سنت کو بھي حجت مانتے ہيں، اس واقعہ ميں ايک شخص بلال بن حارث ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے پاس آيا اور آنحضرت سے توسل کيا اور دوسرے صحابي سے اپنے خواب کا واقعہ نقل کيا اور اس نے بھي اس کي سرزنش نہيں کي اور کفر کي چھڑي سے اس کو نہيں بھگايا اوراس کي جان ، مال اور ناموس کو مباح نہيں کيا ?
ب : ابوايوب انصار ي، رسول خدا(صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے نزديک
حاکم نيشاپوري ، احمد بن حنبل اور اہل سنت کے بعض دوسرے علماء نے نقل کيا ہے کہ مروان بن حکم ايک روز پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے پاس سے گذر رہا تھا تو اس نے ديکھا کہ ايک شخص رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر پر اپنا چہرہ رکھ کر آپ سے راز و نياز کررہا ہے ، مروان نے اس کي گردن پکڑ کر کہا : ”اتدري ما تصنع“ کيا تمہيں معلوم ہے کہ تم کيا کررہے ہو ؟ اس شخص نے جواب ديا : جي ہاں مجھے معلوم ہے کہ ميں کيا کررہا ہوں ? مروان نے ديکھا کہ وہ شخص ابو ايوب انصاري (رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے مشہور صحابي ) ہيں ? ابوايوب نے اپني بات کو جاري رکھتے ہوئے کہا : ” جئت رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) و لم آت الحجر“ ? ميں رسول خدا کي خدمت ميں آيا ہوں ، پتھر کے پاس نہيں آيا ? اس کے بعد کہا : ”سمعت رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) : يقول لا تبکوا علي الدين اذا وليہ اھلہ و لکن ابکوا عليہ اذا وليہ غير اھلہ“ ? ميں نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمايا : جب بھي دين کے امور اس کے اہل کے پاس پہنچ جائيں توکوئي پريشاني کي بات نہيں ہے اور جب بھي دين کے امور کسي نااہل (مروان اور اس کے جيسوں کي طرف اشارہ ہے) کے پاس پہنچ جائيں تو گريہ کرو (??) ?
ابوايوب انصاري بہت ہي جليل القدر صحابي جانتے ہيں کہ رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے پاس آنا گويا ان کي خدمت ميں شرفياب ہونا ہے ، وہ آپ کي مادي زندگي اور برزخي زندگي ميں کوئي فرق محسوس نہيں کرتے تھے ، لہذا ان کي قبر پر اپنا رخسار رکھتے ہيں اور راز و نياز کرتے ہيں ?
اس طرف مروان بن حکم (رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اور ان کے اہل بيت کا دشمن ) ہے جو اس واقعہ کي تاب نہيں لاتا اور ان پر اعتراض کرتا ہے جس کے مقابلہ ميں اس کو بہت سخت جواب سننا پڑتا ہے ?
ج : رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کي برکت
اہل سنت کے مشہور عالم دارمي نے اپني کتاب کے ايک باب ميں رسول اکرم کي ان کرامت کو نقل کيا ہے جن کو خداوند عالم نے پيغمبر اکرم کو ان کي وفات کے بعد عطاء کي ہيں ، وہ نقل کرتے ہيں ايک مرتبہ مدينہ ميں قحط پڑ گيا اور لوگ عائشہ کے پاس آکر شکايت کي اور اس سے کہا کہ خشک سالي ختم ہونے کے لئے کچھ کرو ، عائشہ نے کہا : ”انظروا قبر النبي (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم)، فاجعلوا منہ کوي الي السماء حتي لا يکون بينہ و بين السماء سقف“ ? پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے پاس جاؤ اور آپ کي قبر کے اوپر چھت ميں سوراخ کرو تاکہ قبر اورآسمان کے درميان کوئي مانع نہ رہے (اور آسمان نظر آئے) اور انتظار کرو? لوگوں نے بھي اس پر عمل کيا ، جس کے نتيجہ ميں بارش ہوئي اور ايسي بارش ہوئي کہ بيابان سبزہوگئے ، اونٹ (اس کا گھانس کھانے کے بعد) موٹے ہوگئے (??) ?
کيا عائشہ کا يہ حکم ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل کے علاوہ کچھ اور تھا؟ يقينا وہابي ان پر بھي کفر کا فتوي لگاتے ہوں گے !
?? دوسرے اولياء سے توسل
اہل سنت کي کتابوں ميں پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم)کے علاوہ اولياء الہي سے توسل کرنا بھي نقل ہوا ہے :
الف : پيغمبر کرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے چچا سے توسل
صحيح بخاري ميں انس سے نقل ہوا ہے کہ جب بھي مدينہ ميں قحط پڑتا تھا تو عمر بن خطاب عباس بن عبدالمطلب سے توسل کرکے بارش کي درخواست کرتاتھا وہ اس طرح کہتا تھا : ”اللھم انا کنا نتوسل بنبينا و انا نتوسل اليک بعم نبينا فاسقنا “ ? خدايا ہم خشکسالي کے زمانہ ميں رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل کرتے تھے اور انبياء کے وسيلہ سے تجھ سے بارش مانگتے تھے اور تو ہميں سيراب کرتاتھا او راب پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے چچا کے ذريعہ تجھ سے توسل کرتے ہيں لہذا اب تو ہميں ان کے وسيلہ سے سيراب کر? اور اس کے بعد بارش ہوجاتي تھي اور لوگ سيراب ہوجاتے تھے (??) ?
کيا وہابي ان دونوں پر بھي کفر کا فتوي لگاتے ہيں ؟!
ب : امام کاظم (عليہ السلام) کي قبر سے توسل
اہل سنت کے مشہور عالم خطيب بغدادي نے لکھا ہے : ابوعلي خلال (متوفي ???) کہتے تھے : ” ما ھمني امر فقصدت قبر موسي بن جعفر فتوسلت بہ الا سھل اللہ تعالي لي ما احب“ ? جب بھي مجھ پر کوئي مشکل آتي تھي تو ميں موسي بن جعفر (عليہما السلام) کي قبر کے پاس جاتا تھا اور ان سے توسل کرتاتھا اور جس طرح ميں چاہتا تھا اسي طرح وہ ميري مشکل کو خداوند عالم کے ذريعہ برطرف کرتے تھے (??) ?
ج : امام علي بن موسي الرضا (عليہ السلام) کي قبر سے توسل
اہل سنت کے رجال کے مشہور عالم ابن حبان نے لکھا ہے : طوس ميں علي بن موسي الرضا (عليہ السلام) کي قبر ہارون کي قبر کے پاس ہے اور يہ مشہور زيارت گاہ ہے ،ميں نے بارہا اس کي زيارت کي ہے ، اس کے بعد مزيد کہتا ہے : جس وقت ميں طوس ميں مقيم تھا تو جب بھي مجھے کوئي مشکل پيش آتي تھي تو ميں علي بن موسي الرضا (عليہ السلام) کي قبر کي زيارت کرتا تھا اور ان کي زيارت کي برکت سے خداوند عالم ميري وہ مشکل حل کرديتا تھا ،ميں نے اس بات کا بارہا تجربہ کيا ہے ? آخر ميں کہتے ہيں : ” اماتنا اللہ علي محبة المصطفي و اھل بيتہ صلي اللہ عليہ و آلہ اجمعين“? خداوند عالم ہميں محمد مصطفي اور ان کے خاندان(خداوند عالم کا درود وسلام ہو ان پر) کي محبت پر موت دينا(??) ?
د : پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کا خاندان ، وسيلہ نجات
شافعي (مذہب شافعي کے موسس ) نے اپنے اشعار ميں رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے خاندان کو نجات کا وسيلہ بيان کيا ہے ، وہ کہتے ہيں :
آل النبي ذريعتي و ھم اليہ وسيلتي
ارجو بھم اعطي غدا بيداليمين صحيفتي
پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کا خاندان ميرا شفيع ہے ، وہ خدا سے نزديک ہونے کيلئے وسيلہ ہيں، مجھے اميد ہے کہ قيامت کے روز ان کي وجہ سے ميرا اعمال نامہ ميرے سيدھے ہاتھ ميں ديا جائے گا (??) ?
ششم : ايک سوال کا جواب :
متعدد روايات مختلف واقعات سے يہ بات سمجھ ميں آجاتي ہے کہ مسلمان ،پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اور اولياء الہي سے متوسل ہوتے ہيں اور ان کو اپنے اور خدا کے درميان واسطہ قرار ديتے ہيں ، ان کي عزت و آبرو اور بلند مقام کي وجہ سے خداوند عالم ان کي حاجات کوپورا کرديتا ہے ،ان کي مشکلات اور سختيوں کو برطرف کرديتا ہے ? مذکورہ بعض واقعات اولياء الہي کي زندگي ميں رو نما ہوئے ہيں اور بعض واقعات ان کي زندگي کے بعد واقع ہوئے ہيں ? اب يہ سوال باقي رہ جاتا ہے کہ کيا اولياء الہي مرنے کے بعد بھي ہمارے حال سے آگاہ ہيں اور اپني زندگي کے زمانے کي طرح ہماري شفاعت کرسکتے ہيں ? وہابيت سب سے زيادہ اسي چيز کي نفي کرتي ہے ، وہ کہتے ہيں : مرنے کے بعد وہ ہمارے حال سے آگاہ نہيں ہيں، خداوندعالم ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے بارے ميں فرماتا ہے : ”ا?ِنَّکَ مَيِّتٌ وَ ا?ِنَّہُمْ مَيِّتُون“(??) ? پيغمبر آپ کو بھي موت آنے والي ہے اور يہ سب مرجانے والے ہيں ?لہذا آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) بھي دوسرے لوگوں کي طرح مرتے ہيں اور مردہ انسان کو زندہ لوگوں کے بارے ميں کوئي خبر نہيں ہوتي ، لہذا ان سے توسل کرنا جائز نہيں ہے ?
البتہ جيسا کہ ہم اس سے پہلے بھي کہہ چکے ہيں کہ وہابي لوگ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اوراوليائے الہي کے مرنے کے بعد توسل کو شرک سمجھتے ہيں ،ليکن يہ بات واضح نہيں ہے کہ ان کي زندگي ميں ان سے توسل کرنا اور ان کي طرف رغبت دلانا کس طرح جائز ہے ؟!اور ان کے مرنے کے بعد اچانک يہ توسل شرک اور کفر ميں تبديل ہوجاتا ہے ؟ ! ? اگر کوئي ان ذوات مقدسہ کو چاہے ہي کي زندگي ميں اور چاہے مرنے کے بعد ،تاثير ميں مستقل سمجھے تو وہ مشرک ہے اور اگر تاثير ميں مستقل نہ سمجھے اور اس کا عقيدہ يہ ہو کہ يہ حضرات خدا کے اذن سے ہماري حاجات کو پورا کرتے ہيں يا خدا سے ہماري حاجات کے پورا ہونے کي دعاء کرتے ہيں تو يہ ہرگز شرک نہيں ہے ? اور اگر کسي کا اعتقادہو کہ يہ مرنے کے بعد بھي ہماري آوازکو نہيں سنتے اور ہماري مشکلات کو دور کرنے کيلئے خدا سے درخواست کي توانائي نہيں رکھتے تو پھر ايسے لوگوں کے متعلق کہنا چاہئے کہ يہ لغو اور بيہودہ کام انجام ديتے ہيں ، ليکن مشرک پھر بھي نہيں ہيں ? جب کہ انشاء اللہ ہم ديکھيں گے کہ ان کے باس برزخي کي زندگي ہے اور وہ کامل طور سے ہمارے کلام کو سنتے ہيں اور يہ بے خبر لوگ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي شان ميں بہت بڑي گستاخي کرتے ہيں ?
ايک واقعہ
بہتر ہے کہ مذکورہ سوال کے جواب ميں اپنا ايک واقعہ کو نقل کريں جو ايام حج (???? ہجري قمري)ميں ايک وہابي کے ساتھ پيش آيا:
اعمال حج ختم ہونے کے بعد مکہ مکرمہ ميں ہماري سکونت کے نزديک ايک مسجد تھي جس کا نام مسجد سيدالشہداء حمزة بن عبدالمطلب تھا وہاں پر ايک خطيب نمازظہر کے بعد نمازيوں کے سامنے تقرر کررہاتھا ? سب سے پہلے اس نے حج کے بے شمار ثواب اور گناہوں کے بخشنے ميں اس کے کردار کو بيان کيا اور بہت اچھي اچھي روايتيں بيان کيں، اس کے بعد کہا : ليکن يہ ثواب ان لوگوں سے مخصوص ہے جو مشرک نہ ہوں، کيونکہ خداوند عالم نے فرمايا ہے : ”لَئِنْ ا?َشْرَکْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُک“ ? اگر تم شرک اختيار کرو گے تو تمہارے تمام اعمال برباد کرديئے جائيں گے (??) ?
اسي طرح خداوند عالم نے فرمايا ہے : ”من يشرک باللہ فقد حرم اللہ عليہ الجنة“ جو بھي خدا سے شرک کرے اس کے اوپر بہشت حرام ہے (??) ?
اس کے بعد کہتا ہے : جو بھي کوئي يا رسول اللہ ، يا علي اور يا ولي کہے وہ مشرک ہے !! اور اس سلسلہ ميں بہت سي باتيں بيان کيں ?
اس روز اس کي تقرير بہت لمبي ہوگئي ، اگلے روز نماز ظہر اور تقرير کے بعد جب وہ خطيب مسجد سے نکل رہا تھا تو ميں اس کے پاس گيااور سلام و احترام کے بعد اس سے کہا : تم نے کل اپني تقرير ميں کہا کہ اگر کوئي يا رسول اللہ اور يا ولي اللہ کہے تو مشرک ہے ! کيا واقعا تم اس بات کے معتقد ہو کہ جو ايسا کہے وہ مشرک ہے ؟ اس نے کہا : جي ہاں ?
ميں نے کہا : کيا رسول اللہ سے يہ درخواست نہيں کي جاسکتي کہ وہ خدا کي بارگاہ ميں ہمارے لئے استغفار کريں ؟
اس نے کہا : اس کے جائز ہونے کي کوئي دليل نہيں ہے ?
ميں نے کہا : قرآن کريم ميں اس کي بہترين دليل يہ آيت ہے : ” وَ لَوْ ا?َنَّہُمْ ا?ِذْ ظَلَمُوا ا?َنْفُسَہُمْ جاؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّاباً رَحيماً“ (??) ? اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کيا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھي اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھي ان کے حق ميں استغفار کرتا تو يہ خدا کو بڑا ہي توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ?
اس نے کہا : يہ آيت پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي حيات سے مربوط ہے ، آپ کے مرنے کے بعد اس سے کوئي ربط نہيں ہے ?
ميں نے کہا : اب وہ ہماري بات کو نہيں سنتے ؟
اس نے کہا : نہيں ! کيونکہ قرآن کريم فرماتا ہے : ”ا?ِنَّکَ مَيِّتٌ وَ ا?ِنَّہُمْ مَيِّتُون“(??) ? پيغمبر آپ کو بھي موت آنے والي ہے اور يہ سب مرجانے والے ہيں ?
ميں نے کہا : يہ آيت کہتي ہے : رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي مادي حيات ان سے سلب ہوگئي ہے ليکن ان کي زندگي سے مطلق نفي نہيں کي ہے اس کے بعد ميں نے مزيد کہا : اولا : قرآن کريم ،موت کو فنائے مطلق نہيں سمجھتا ، موت کو توفي سے تعبير کرتا ہے (??) يعني فرشتہ روح کو کامل طور سے اس جسم سے نکال ليتے ہيں اور انسان کي مادي حيات ختم ہوجاتي ہے ، ليکن اس کے معني يہ نہيں ہيں کہ مردے ہماري دنيا سے بالکل بے خبر ہيں(??) ?
ثانيا : خدا کے نزديک احد کے شہداء کا مقام زيادہ بلند ہے يا پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کا مقام بلند ہے ، اس نے جواب ديا پيغمبر کا مقام بلند ہے ? ميں نے کہا : خداوندعالم ، احد کے شہداء کے متعلق فرماتا ہے : ” وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلُوا في سَبيلِ اللَّہِ ا?َمْواتاً بَلْ ا?َحْياء ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ يُرْزَقُون“ (??) ? اور خبردار راہ خدا ميں قتل ہونے والوں کو مردہ خيال نہ کرنا وہ زندہ ہيں اور اپنے پروردگار کے يہاں رزق پارہے ہيں ?
خدا وند عالم کہہ رہا ہے کہ وہ زندہ ہيں البتہ برزخي حيات ميں زندہ ہيں، اور پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) شہداء سے برتر ہيں اس لئے وہ بھي زندہ ہيں ?
اس بناء پر بعض مسلمانوں کا عقيدہ ہے کہ آنحضرت آج بھي زندہ ہيں اور وہ ان کي آوازوں کو سنتے ہيں ،اس لئے وہ ان سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ ان کے لئے دعاء يا استغفار کريں ? ليکن تمہارا عقيدہ ہے کہ آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) مرنے کے بعد کچھ نہيں سنتے اور اس دنيا سے ان کا کوئي ارتباط نہيں ہے ? بہر حال اگر کوئي اس اعتقاد کے ساتھ کہ رسو ل اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ان کي آواز کو سنتے ہيں اور وہ ان سے توسل کرتے ہيں تو کيا تمہارے لئے جائز ہے کہ تم اس کو مشرک کہو ؟!?
ثالثا : اسي مسجد ميں ديوار پر پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) پر صلوات بھيجنے کي فضيلت کے بارے ميں ايک پوسٹر لگا ہوا ہے جس ميں ايسي روايتيں نقل ہوئي ہيں جن سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ہماري آواز کو سنتے ہيں ? اس نے کہا : کونسي روايات ؟
ميں نے کہا : ابوہريرہ نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے نقل کيا ہے : ”صلوا علي فان صلاتکم تبلغني حيث کنتم“? مجھ پر صلوات بھيجو ، کيونکہ تمہارا درود و سلام تم چاہے جہاں بھي ہو ، ہم تک پہنچتا ہے (??) ?
اس روايت کے ذيل ميں لکھا ہوا ہے :” رواہ احمد و ابوداؤد و صححہ الامام النووي“? امام احمد اور ابوداؤد نے اس کو نقل کيا ہے اورامام نووي نے اس کو صحيح شمار کيا ہے (??) ?
ايک دوسري صحيح روايت ہے جس کو ابوہريرہ نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمايا : ”ما من احد يسلم علي الا رد اللہ عزوجل الي روحي حتي ارد عليہ السلام “ ? کوئي بھي مجھ پر سلام نہيں کرے گا مگر يہ کہ خدا وند عالم ميري روح کو واپس پلٹائے گا تاکہ ميں اس کے سلام کا جواب دے سکوں (??) ? اس روايت کے ذيل ميں لکھا ہے : ” رواہ احمد و ابوداؤد باسناد صحيح? اس روايت کو احمد اور ابوداؤد نے صحيح سند کے ساتھ نقل کيا ہے (??) ?
ميں نے اپني بات کو جاري رکھتے ہوئے کہا کہ يہ روايت تمہاري کتاب ميں موجود ہے اور تمہارے تبليغ و ہدايت کے ادارے کي طرف سے آمادہ کي گئي ہے اور صحيح سند کي تصريح کے ساتھ چھپي ہے اور اس مسجد کي ديوار پر بھي نصب ہے ،يہ روايتيں وضاحت کے ساتھ بتاتي ہيں کہ ہماري صلواتيں ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) تک پہنچتي ہيں اور وہ ان کا جواب بھي ديتے ہيں ?
وہ خطيب جب جواب دينے سے عاجز ہوگيا تو عذر خواہي کرنے کے بجائے بدگوئي اور توہين پر اتر آيا اور کہنے لگا تم ايسے ہو اور ويسے ہو!!
جي ہاں جب وہ عاجز ہوجاتے ہيں تو ان کا عاجزانہ جواب يہ ہوتا ہے ?
مذکورہ جوابوں کے علاوہ يہ نکات بھي اس ميں بڑھائے جاسکتے ہيں :
تمام مسلمان نماز کے تشہد اور سلام ميں آنحضرت پر سلام کرتے ہيں اور کہتے ہيں : ”السلام عليک ايھا النبي و رحمة اللہ وبرکاتہ“ ? اگر آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ہمارے سلام کو نہيں سنتے تو نماز ميں ان کو سلام کرنا لغو ہوگا ?
اہل سنت کے علماء نے بھي ذکر کيا ہے : نماز کے تشہد ميں کم سے کم اس طرح کہنا چاہئے : التحيات للہ ، سلام عليک ايھا النبي و رحمة اللہ و برکاتہ (??) ?
ايک روايت ميں نقل ہوا ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے فرمايا : ” ان للہ ملائکة سياحين يبلغوني عن امتي السلام“? خداوند عالم کے کچھ ايسے فرشتہ ہيں جو زمين کي سير کرتے ہيں اور ميري امت کے سلام کو مجھ تک پہنچاتے ہيں(??) ?
قرآن کريم ،پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے :
”فَکَيْفَ ا?ِذا جِئْنا مِنْ کُلِّ ا?ُمَّةٍ بِشَہيدٍ وَ جِئْنا بِکَ عَلي ہؤُلاء ِ شَہيداً “ ? اس وقت کيا ہوگا جب ہم ہر امت کو اس کے گواہ کے ساتھ بلائيں گے اور پيغمبر آ پ کو ان سب کا گواہ بناکر بلائيں گے(??) ?
اس آيت کا مضمون يہ ہے کہ خداوند عالم ہر امت ميں سے ايک شخص کو اس امت پر گواہ بنائے گاجو اس امت کا پيغمبر ہوگا، اس کے بعد پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے : آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر بلائيں گے ? ھولاء سے کون مراد ہيں اس ميں دو نظريہ پائے جاتے ہيں کہ اس سے مراد کفار قريش ہيں يا تمام امت (??) ? ليکن يہ بات واضح ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي شہادت اپني امت پر اس بات کي گواہي ديتي ہے کہ آپ اپني امت کے حال و احوال سے آگاہ ہيں ? عمر بن خطاب نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمايا : ”من زار قبري کنت لہ شفيعا او شھيدا“ ? جو بھي ميري قبر کي زيارت کرے گا ميں خدا کے نزديک اس کي شفاعت کروں گا يا اس کے فائدہ ميں گواہي دوں گا(??) ?
اسي طرح انس بن مالک نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے نقل کيا ہے : ” من زارني بالمدينة محتسبا کنت لہ شھيدا و شفيعا يوم القيامة “ ? جو بھي خالص نيت کے ساتھ مدينہ ميں ميري زيارت کرے گا ، قيامت کے روز ميں اس کي شفاعت اور گواہي دوں گا (??) ?
ايک دوسري روايت ميں جس کو ابوہريرہ نے آپ سے نقل کيا ہے ، بيان ہوا ہے : ”من صلي علي عند قبري سمعتہ و من صلي علي نائبا کفي امر دنياہ و آخرتہ و کنت لہ شھيدا و شفيعا يوم القيامة “ ? جو بھي ميري قبر کے نزديک مجھ پر درود و صلوات بھيجتا ہے ميں اس کو سنتا ہوں اور جوبھي دور سے مجھ پر صلوات بھيجتا ہے اس کي دنيا اور آخرت کے امور کے لئے وہ کافي ہوگا اور ميں قيامت ميں اس کا شفيع اور گواہ بنوں گا (??) ?
اس بناء پر آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کا اپني امت کے حال و احوال سے آگاہ ہونا اور گواہي دينا اور اپني قبر کے زائر کي طرف متوجہ ہونا پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي حيات پر بہترين اور واضح دليل ہے ?
ايک بار پھر تاکيد کرتا ہوں کہ جس وقت پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي مادي حيات کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس سے مراد مادي حيات جس ميں پاني، غذا، ہوااور نور کي ضرورت ہوتي ہے ،نہيں ہے ، جس زندگي ميں مادي دنيا کے عوارض جيسے رشد و نمو،تباہ ہونا وغيرہ پائے جاتے ہوں ہماري مراد يہ دنيا نہيں ہے ، کيونکہ يہ زندگي مرنے کے بعد ختم ہوجاتي ہے ، بلکہ ہماري مراد برزخي زندگي ہے جس ميں ان تمام شرايط و عوارض کے بغير ايک طرح کا شعور اورآگاہي پائي جاتي ہے ، اگر چہ اس کي حقيقت صحيح طرح سے ہميں معلوم نہيں ہے ?
اگر رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ہماري آواز کو سنتے ہيں ، يا ہمارے سلام کا جواب ديتے ہيں او رہمارے اعمال پر گواہ ہيں تو اس کے معني يہ ہيں کہ وہ ہمارے حال و احوال سے باخبر ہيں، لہذا ہم آنحضرت پر سلام کے ذريعہ ان سے توسل کرسکتے ہيں اور مادي حيات کي طرح آپ ہماري دعاؤں کو پورا کرسکتے ہيں، ان تمام دلائل کے باوجود وہابي فرقہ کس طرح توسل کا انکار کرتا ہے ?
ہفتم : توسل کا فلسفہ
کبھي کبھي سوال ہوتا ہے : کيا خدا کي بارگاہ ميں جانے اور حاجت طلب کرنے کيلئے واسطہ کي ضرورت ہے؟ کيا خداوند عالم قرآن مجيد ميں نہيں فرماتا : ” وَ ا?ِذا سَا?َلَکَ عِبادي عَنِّي فَا?ِنِّي قَريبٌ ا?ُجيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ ا?ِذا دَعانِ“ ? اور اے پيغمبر! اگر ميرے بندے تم سے ميرے بارے ميں سوال کريں تو ميں ان سے قريب ہوں. پکارنے والے کي آواز سنتا ہوں جب بھي پکارتا ہے(??) ?
اس بناء پر خداوند عالم سے مستقيم بات کي جاسکتي ہے ،راز و نياز کيا جاسکتا ہے، اپني حاجات اور مشکلات کو اس سے بيان کيا جاسکتا ہے ،لہذا کسي دوسرے واسطہ کي کيا ضرورت ہے؟!
اس سوال کا جواب يہ ہے کہ اگر چہ خداوند عالم سے درخواست کرنے کيلئے کسي واسطہ کي ضرورت نہيں ہے ، پروردگار ہماري آواز سنتا ہے اور اگر مصلحت سمجھتا ہے تو ہماري ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ،ليکن خود خداوندعالم نے حکم ديا ہے کہ اس کا بندہ ، صالحين اور اولياء کو واسطہ قرا ردے اور ان سے دعاء کرنے کي خواہش کرے کہ وہ خداوندعالم سے ان کي حاجات کو پورا کرنے کي دعاء کريں ? (اس سلسلہ ميں آيات و روايات گذر گئي ہيں) ? اورخداوندعالم کي اس ترغيب کي (کم سے کم)دو دليليں ہو سکتي ہيں :
الف : دعاء مقبول ہونے کا نزديک ترين راستہ
انبياء اور اولياء الہي ، خداوند عالم کے نزديک محبوب ہيں، يہ حضرات اپنے خالص اعمال کي وجہ سے اس نزديک آبرومند ہيں (??) ?
فطري سي بات ہے کہ کہ گنہگار اور مصيبت ميں گرفتار انسان کے لئے ان کي وساطت اور شفاعت زيادہ نزديک ہے ، اسي وجہ سے حضرت يعقوب کے بيٹوں نے اپنے والد سے درخواست کي کہ وہ ان کے لئے طلب استغفار کريں اور خداوند عالم ، گنہگار مسلمانوں کو سے کہتا ہے کہ اپنے آپ استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ رسول خدا سے بھي استغفار کي درخواست کرو ، تاکہ وہ خداوند عالم کي بارگاہ ميں طلب مغفرت کريں ?
ب : سعي و کوشش کي قدر داني
يقينا ہم نے اپني اور دوسروں کي زندگي ميں مشاہدہ کيا ہے کہ کبھي کوئي حساس اور اہم کام دوسروں کے لئے انجام ديتے ہيں ، مثلا کو ئي استاد اپنے بيٹے کے لئے بہت زيادہ سعي و کوشش کرتا ہے اور اس کي تعليم و تربيت ميں اپني حد سے زيادہ وقت خرچ کرتا ہے ، کبھي کوئي ڈاکٹر دقت اور مہارت کے ساتھ اپنے بچے کو موت سے نجات ديتا ہے ،يا کوئي پڑوسي يا دوست اپنے بيوي بچوں کو جلتے ہوئے گھر سے باہر نکالتا ہے ،اس صورت اس دلسوز استاد ،مہربان ڈاکٹر اور فدکار دوست يا پڑوسي کي محبت پيدا ہوجاتي ہے جس کا خط، سفارش يا شفاعت بہت آساني کے ساتھ قابل قبول ہوجاتي ہے ?
اس کي نصيحت کو قبول کرنا اس کي زحمتوں کي قدرداني کرنے کي علامت ہے ?
دوسري عبارت ميں يہ کہا جائے : بعض مرتبہ بہت سي فداکارئياں ايسي ہوتي ہيں کہ معمولي اجر اس کو پورا نہيں کرسکتا ، لہذا اپنا اجر دينے کے علاوہ اس کي شفاعت اور سفارش دوسرے کے حق ميں قبول کرلي جاتي ہے ، انہي اجر و ثواب ميں سے ايک يہ ہے کہ اعلان کرديا جائے جب بھي فلاں شخص کسي گناہگار اور خطا کار کي شفاعت کرے گا تو ميں اس کو قبول کرلوں گا ?
اولياء الہي خصوصا پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے بہت زيادہ محنت او رسعي و کوشش کے ساتھ توحيد کو پھيلا يا اور کفر و بت پرستي کے ساتھ مقابلہ کيا، يہ عظيم الہي پاداش کے مستحق ہيں اس پاداش کا ايک حصہ يہ ہے کہ گنگار لوگوں کے حق ميں ان کي شفاعت قبول کرلي جائے ?
رسول اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے بندگي کے راستہ ، انسان سازي اور توحيد کي آواز کو منتشر کرنے ميں بہت زيادہ زحمات اٹھائي ہيں، نہ صرف آپ خدا کے لئے بہترين بندہ تھے بلکہ آپ نے ہزاروں افراد کو خدا کي بندگي کيلئے ہدايت فرمائي اور آپ کي ان زحمات کي وجہ سے لاکھوں کروڑوں انسان پوري دنيا ميں لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگاتے ہيں ،انہوں نے اپني پوري زندگي بندگان خدا کي خدمت، کفر و شرک سے جنگ اور خدا کے دشمنوں سے جنگ کرنے ميں صرف کردي ? دنيوي خوشيوں کو چھوڑ ديا، مادي لذتوں کو الگ کرديا ، قريش کے ثروتمند افراد کي پيش کش کو ٹھکرا ديا اور بہت زيادہ رنج و مشقت، اتہام، توہين اور جلاوطني کي زندگي بسر کي ، ليکن دعوت الہي سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا پروردگار کے لئے بجا ہے کہ وہ ان کي سعي و کوشش اور زحمتوں کي قدر داني کے لئے آپ کي شفاعت کو گناہگار اور پريشان حال انسانوں کے حق ميں قبول کرے ، ان کي دعاء کي برکت سے قحط اور خشک سالي کو دور کرے ?
ليکن افسوس تعصب کي وجہ سے وہابيوں کي سمجھ ميں يہ حقايق نہيں آتے ?
قرآن کريم ميں پيغمبر اکرم کي عظمت
خداوند عالم نے قرآن کريم ميں متعدد جگہوں پر پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي تعظيم و تکريم اور عظمت بيان کيا ہے اور مومنين کو اس کي نصيحت کي ہے ، واضح ہے کہ ايسي شخصيت سے توسل کرنا ،مومنين کي طرف سے آپ کي تعظيم وتکريم کا بہترين مصداق ہے ?
خداوند عالم نے قرآن مجيد ميں پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي جان کي قسم کھائي ہے اور فرمايا ہے : ” لَعَمْرُکَ ا?ِنَّہُمْ لَفي سَکْرَتِہِمْ يَعْمَہُون“ ? آپ کي جان کي قسم يہ لوگ گمراہي کے نشہ ميں اندھے ہورہے ہيں اوريہ اپني عقل و شعور کو کھو بيٹھے ہيں(??) ?
خداوند عالم اپنے پيغمبر کي خوشنودي کو طلب کرتا ہے اور فرماتا ہے ” قَدْ نَري تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِي السَّماء ِ فَلَنُوَلِّيَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضاہا ?“ ? اے رسول ہم آپ کي توجہ کو آسمان کي طرف ديکھ رہے ہيں تو ہم عنقريب آپ کو اس قبلہ کي طرف موڑ ديں گے جسے آپ پسند کرتے ہيں(??) ?
اہل سنت کے مشہور مفسر کي تعبير کے مطابق خدا وند عالم نے اس آيت ميں يہ نہيں فرمايا : ”قبلة ارضاھا“ جس قبلہ کو ہم پسند کرتے ہيں ? بلکہ فرمايا : قبلہ کي طرف جس کو آپ پسند کرتے ہو ? گويا خداوند عالم فرما رہا ہے : ” يا محمد کل احد يطلب رضاي و انا اطلب رضاک في الدارين “ ? اے محمد سب لوگ ميري خوشنودي کو طلب کرتے ہيں اور ميں دنيا و آخرت ميں آپ کي خوشنودي کو طلب کرتا ہوں، ليکن دنيا ميں يہي چيز جس کا تذکرہ اس آيت ميں ہوا ہے (ايسا قبلہ جسے آپ پسند کرتے ہيں) اور آخرت کيلئے فرمايا : ” وَ لَسَوْفَ يُعْطيکَ رَبُّکَ فَتَرْضي“ ? اور عنقريب تمہارا پروردگار تمہيں اس قدر عطا کردے گا کہ خوش ہوجاؤ ( امت کے حق ميں تمہاري شفاعت کو قبول کريں گے تاکہ تم خوش ہوجاؤ)(??) ? (??) ?
اسي طرح قرآن کريم ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي دو صفتوں کو بيان کرتا ہے اور فرماتا ہے : ” لَقَدْ جاء َکُمْ رَسُولٌ مِنْ ا?َنْفُسِکُمْ عَزيزٌ عَلَيْہِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنينَ رَؤُفٌ رَحيمٌ ?“ ? يقينا تمہارے پاس وہ پيغمبر آيا ہے جو تم ہي ميں سے ہے اور اس پر تمہاري ہر مصيبت شاق ہوتي ہے وہ تمہاري ہدايت کے بارے ميں حرص رکھتا ہے اور مومنين کے حال پر شفيق اور مہربان ہے(??) ?
رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) خدا کے نزديک اس قدر محبوب ہيں کہ خداوند عالم ہميشہ فرشتوں کے ساتھ آپ درود بھيجتا ہے : ” ا?ِنَّ اللَّہَ وَ مَلائِکَتَہُ يُصَلُّونَ عَلَي النَّبِيِّ يا ا?َيُّہَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْہِ وَ سَلِّمُوا تَسْليما ?“ ? بيشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صل?وات بھيجتے ہيں تو اے صاحبانِ ايمان تم بھي ان پر صل?وات بھيجتے رہو اور سلام کرتے رہو (??) ?
اسي طرح جب آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ، گنہگار بندوں کے لئے استغفار کرتے ہيں تو خدا ان کو معاف کرديتا ہے : ” وَ لَوْ ا?َنَّہُمْ ا?ِذْ ظَلَمُوا ا?َنْفُسَہُمْ جاؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّاباً رَحيما“ ? اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کيا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھي اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھي ان کے حق ميں استغفار کرتا تو يہ خدا کو بڑا ہي توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے(??) ?
ہشتم : توسل عين توحيد ہے ، شرک نہيں ہے
گذشتہ باتوں کومد نظر رکھتے ہوئے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اور اہل بيت (عليہم السلام) سے توسل کرنا شرک ہي نہيں بلکہ عين توحيد ہے ، کيونکہ توحيد کے ابعاد ميں سے ايک توحيد اطاعت اور فرمانبرداري ہے اور جو کوئي اولياء الہي سے متوسل ہوتا ہے وہ خدا کے حکم کي اطاعت کرتا ہے ،ايک مومن متوسل جانتا ہے کہ جو کچھ بھي اس دنيا ميں محقق ہوتا ہے وہ خداوند عالم کے اذن سے انجام پاتا ہے ?
مسلمان پياس کودور کرنے کيلئے پاني تلاش کرتا ہے، بھوک دور کرنے کيلئے کھانا تلاش کرتا ہے اور بيماري دور کرنے کيلئے دوائي کا استعمال کرتا ہے ليکن ان تمام باتوں کے باوجود جانتا ہے کہ يہ سب واسطہ اور اسباب ہيں ،اصلي سيراب کرنے والا ، بھوک دور کرنے والا اور حقيقي علاج کرنے والا خداوند عالم ہے ” وَ الَّذي ہُوَ يُطْعِمُني وَ يَسْقينِ، وَ ا?ِذا مَرِضْتُ فَہُوَ يَشْفين“ ? وہي کھاناديتا ہے اور وہي پاني پلاتا ہے ، اور جب بيمار ہوجاتا ہوں تو وہي شفا بھي ديتا ہے ?
اگر مسلمان ان تمام چيزوں کي تلاش ميں جاتا ہے تواس کي وجہ يہ ہے کہ ان سب چيزوں کو خداوند عالم نے خلق کيا ہے اور خداوند عالم نے يہ آثار ان کے اندر رکھے ہيں، اور يہ تمام چيزيں خدا کے اذن سے اپنا اثر چھوڑتي ہيں ?
اولياء الہي سے توسل کرنا بھي اسي ميں شامل ہے ،ہم خدا کے حکم سے گناہوں کو بخشوانے کيلئے اولياء الہي کي تلاش ميں جاتے ہيں اور مصيبتوں کودور کرنے کيلئے ان سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ ہمارے لئے دعاء کريں ، يا ہماري مشکل کو دور کريں، ليکن ہم جانتے ہيں کہ يہ سب واسطہ فيض اور الطاف الہي کو جاري کرنے والے ہيں ، ليکن جومشکل کودور کرتا ہے وہ خدا ہے جس طرح سے ہميں سيراب کرنے والا خدا ہے ?
دوسري عبارت ميں يہ کہا جائے : کبھي کبھي خدا ہماري شفاء کو کسي دوائي ميں قرار ديتا ہے اور کبھي ولي خدا کي دعاء ميں شفاء قرار ديتا ہے ، ليکن حقيقي شفاء دينے والا خدا ہے ?
اب اس اعتقاد کے ساتھ (جس کا اعتقاد ہر مسلمان کو ہے چاہے وہ زبان پر لائے يا زبان پر نہ لائے) کيا پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اور اولياء الہي سے متوسل ہونے والا مشرک ہے يا متوحد؟
کيا وہ خدا کي اطاعت کرتا ہے يا نافرماني؟
کيا وہ قابل احترام ہے يا تو ہين کا مستحق ہے؟
کيا اس کا خون محترم ہے يا وہ مہدور الدم ہے؟
ہمارا عقيدہ ہے کہ ايسا شخص احترام کے لائق ، موحد واقعي اور حقيقي مومن ہے ،يہاں تک کہا جاسکتا ہے : جو شخص رسول خدا کي کار سازي پر اعتقاد نہيں رکھتا ، مدينہ جاتا ہے ليکن رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل نہيں کرتا اور خيال کرتا ہے کہ آنحضرت کچھ نہيں کرسکتے اور سورہ نساء کي آيت پر عمل نہيں کرتا وہ نافرمان ہے ، اس کو اس عقيدہ سے دست بردار ہونا چاہئے اور اپنے اس گناہ سے استغفار کرے ?
کيا اس سے بھي زيادہ وضاحت کي ضرورت ہے؟ ليکن افسوس کبھي کبھي تعصبات صحيح اور واضح مطالب کودرک کرنے کي اجازت نہيں ديتے ?
خلاصہ
?? وہابي اسلامي تمام مذاہب کے عقايد کے برخلاف اولياء الہي سے توسل کرنے کو شرک جانتے ہيں اور ان ذوات مقدسہ سے متوسل ہونے والے کو مشرک او رمہدور الدم شمار کرتے ہيں ، اس عقيدہ کي وجہ سے بہت زيادہ مسلمانوں کا خون بہايا گيا اور روزانہ بے گناہ لوگوں کا خون بہايا جارہا ہے ، دنيا ميں اسلام کے چہرہ کو خراب کررہے ہيں ? يہ بات واضح ہوگئي ہے کہ حقيقت ميں اولياء الہي سے توسل کرنا ان کو واسطہ اور شفيع قرار دينا ہے اور اس عمل کي اساس قرآن کريم ميں پائي جاتي ہے ، کيونکہ انبياء الہي خداوندعالم کي اجازت سے لوگوں کي مشکل کشائي کرتے ہيں، گناہگاروں کے لئے استغفار کرتے ہيں اور خداوندعالم بھي گنہگار مسلمانوں کو اس کے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے پاس جانے کي وجہ سے معاف کرديتا ہے ?
?? روايات اور تاريخي واقعات سے معلوم ہوگيا کہ مسلمان ،پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي ميں آپ کے پاس جاتے تھے اور آپ سے دعا کي درخواست کرتے تھے اور خدا کو اس کے رسول کي عظمت کا واسطہ ديتے تھے تاکہ ان کي حاجت پوري ہوجائے ?
?? اسي طرح يہ بات بھي واضح ہوگئي کہ آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے خاکي وجود سے پہلے اور آپ کي رحلت کے بعد آپ سے توسل کيا گيا اور آپ کي برکت سے مشکل دور ہوگئي ?
?? پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے علاوہ دوسرے اولياء الہي سے بھي مسلمان متوسل ہوتے تھے ،کيونکہ اوليائے الہي سے توسل کرنے کے معني يہ نہيں ہيں کہ ان کو خدا سے مستقل سمجھيں،بلکہ اولياء الہي کو خداوندعالم کي بندگي کرنے کے سايہ ميں جو معنوي مقام حاصل ہوتا ہے اس کے ذريعہ وہ واسطہ فيض ہوتے ہيں اور ان کي دعاء کي برکت سے خداوند عالم ان کي مشکلات اور گناہوں کو دور کرديتا ہے ?
?? وہابيوں کي اہم غلطي يہ ہے کہ وہ معتقد ہيں اولياء الہي سے مرنے کے بعد توسل جائز نہيں ہے ، کيونکہ مرنے سے تمام چيزيں ختم ہوجاتي ہيں، اور وہ توسل کرنےوالوں کي آواز کو نہيں سنتے ، اس کا جواب ديا گيا کہ اولا : اگر فرض کرليں کہ وہ ہمارے حال و احوال اور ہمارے مقام سے آگاہ نہيں ہيں تو کم سے کم يہ بات کہي جاسکتي ہے کہ ہمارا ان سے اور دوسرے اولياء الہي سے توسل کرنا بيکار اور بيہودہ ہے ليکن شرک پھر بھي نہيں ہے ?
ثانيا : موت کے معني فنا اور نابود ہونے کے نہيں ہيں، بلکہ ايک زندگي سے دوسري زندگي کي طرف منتقل ہونے کا نام موت ہے ?
ثالثا : متعدد آيات و روايات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ہمارے کلام کو سنتے ہيں ،ہمارا سلام ان تک پہنچتا ہے اور وہ اس کا جواب ديتے ہيں اور يہ سب چيزيں اس بات کي علامت ہيں کہ پيغمبر اکر (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اپني امت سے آگاہ ہيں ?
?? ايک جدا بحث ميں توسل کا فلسفہ بيان کيا گيا اور اس ميں کہا گيا کہ اولياء الہي سے توسل کے ذريعہ انسان اپني دعاؤں کي اجابت کے لئے ليک نزديکي راستہ اختيار کرتا ہے اسي طرح دوسرا فلسفہ يہ ہے کہ خداوند عالم نے اولياء الہي سے توسل کرنے کا حکم ديا ہے ?
واضح ہوگيا کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ،خداوند عالم کے نزديک محبوب ہيں اور خداوند عالم نے قرآن کريم ميں مختلف طرح سے آپ کي تعظيم و تکريم بيان کي ہے اور آپ سے توسل کرنا بھي ايک قسم کي تعظيم ہے ?
?? آخري بات يہ ہے کہ صرف توسل کرنا شرک ہي نہيںبلکہ عين عبادت ہے کيونکہ يہ خداوند عالم کے فرمان کي اطاعت ميں شامل ہے اور ولي خدا سے توسل کرنے والا کامل طور سے جانتا ہے کہ يہ بزرگ حضرات صرف واسطہ فيض ہيں ? جو يہ خيال کرتا ہے کہ رسول خدا اور ولي خدا (مرنے کے بعد) کوئي کام نہيں کرسکتے اس کو استغفار کرنا چاہئے اوراپنے عقيدہ کو بدل کر فرمانبردار مسلمانوں ميںشامل ہونا چاہئے ،اختلاف ،اتہام ،خشونت اور اسلام کے نام پر دوسروں کا خون بہانے سے دست بردار ہونا چاہئے ?
اس مقالہ ميں چند لحاظ سے اس نظريہ کي تحقيق کي جائے گي :
?? توسل کے بارے ميں وہابيوں کا عقيدہ?
?? توسل کے معني ?
?? قرآن کے اعتبار سے توسل کي اصل و اساس ?
?? پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي ميں آپ سے توسل کرنا ?
?? پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي زندگي اور وفات کے بعد آنحضرت سے توسل?
?? ايک سوال کا جواب ?
?? توسل کا فلسفہ ?
?? توسل عين توحيد ہے ، شرک نہيں ہے ?
اول : توسل کے متعلق وہابيوں کا عقيدہ:
توسل کے متعلق وہابيوں کا نظريہ اس قدر مشہور اور معروف ہے کہ جو بھي حجاز کا سفر کرتا ہے، وہ وہاںپر (خصوصا مدينہ منورہ ميں)پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے متوسل ہونے والے کے ساتھ تند و تيز اور توہين آميز برخورد کو ديکھ سکتا ہے، يہ ديکھنے کے لئے کافي ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي قبر کے نزديک جائے اور آنحضرت کو مخاطب کرکے ان سے خدا کے نزديک اپني شفاعت کي درخواست کرے يا آنحضرت (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کے ذريعہ اپني مادي يا معنوي حاجت کو خداوند عالم سے طلب کرے ،اس صورت ميں فورا ان کے بدتميز کارندوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور شرک کي چھڑي سے اس کو وہاں سے نکال ديا جائے گا ?
ان کے خطيب ،نماز جمعہ کے خطبوں ميں ہميشہ اس بات کي تکرار کرتے رہتے ہيں کہ رسول خدا (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) اور اولياء الہي سے توسل کرنا شرک ہے ، يہ ايسي تکرار ہے جس سے لوگ تھک چکے ہيں اس کے بعد وہ مزيدکہتے ہيں : ”من يشرک باللہ فقد حرم اللہ عليہ الجنة“ جو بھي خدا سے شرک کرے اس کے اوپر بہشت حرام ہے (?) ?
اس کے علاوہ ہر سال بہت سے مضامين کي لاکھوں کتابيں مختلف زبانوں ميں منتشر ہوتي ہيں اور مختلف ملکوں کے زائرين کو وہ کتابيں دي جاتي ہيں، اور دنيا کے مختلف گوشوں ميں وہ کتابيں بھيجي جاتي ہيں، ان تمام کتابوں ميں اس بات کي تکرار ہوتي ہے ?
سعودي عرب ميں اس نظريہ کو فرقہ وہابيت کے موسس محمد بن عبدالوہاب نے اپني کتاب ميں وضاحت کے ساتھ بيان کيا ہے اس نے صراحت کے ساتھ کہا ہے : ”من عبداللہ ليلا و نہارا ثم دعا نبيا او وليا عند قبرہ فقد اتخذ الھين اثنين و لم يشھد ان لاالہ الا اللہ “? اگر کوئي شب وروز خدا کي عبادت کرے اور پھر پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) يا اولياء الہي کي قبر کے نزديک ان کو پکارے (اور ان سے کوئي حاجت طلب کرے) تو اس نے گويا اپنے لئے دو معبود انتخاب کئے ہيں اور اس نے گواہي نہيں دي ہے کہ خدا ئے واحدہ لاشريک کے علاوہ کوئي خدا نہيں ہے (?) ?
اسي طرح اس کي نظر ميں واقعي مسلمان وہ ہے جوصرف خود اولياء الہي سے توسل کرنے پر اکتفاء نہ کرے بلکہ ايسے لوگوں سے برائت اور دوري کا اعلان کرے جو توسل کرتے ہيں اور ان کو کافر سمجھے ! وہ لکھتا ہے : ” لا يصح دين الاسلام الا بالبراة ممن يتقرب الي اللہ بالصلحاء و تکفيرھم “ ? کسي کا اسلام قابل قبول نہيں ہے مگر يہ کہ وہ ان لوگوں سے بيزاري اختيار کرے جو خدااور صالحين سے توسل کرتے ہيں اور ان کو کافر سمجھے (?) ?
اس بناء پر محمد بن عبدالوہاب ايسے لوگوں کا خون بہانا مباح سمجھتا ہے اور جھوٹ ہي کہتا ہے: ”اجماع المذاہب کلھم علي ان من جعل بينہ و بين اللہ وسائط يدعوھم انہ کافر مرتد حلال المال والدم “ ? اس بات پر تمام مذاہب کا اجماع ہے کہ جو بھي اپنے اور خدا کے درميان واسطہ قرار دے اور ان کو پکارے وہ کافر مرتد ہے ، اس کي جان اور مال حلال ہے (?) ?
سعودي عرب کي فتوي دينے والي کميٹي نے اہل بيت (عليہم السلام) سے توسل کرنے والوں کو کافر کہتے ہوئے اس بات کي تاکيد کي ہے ?
سعودي عرب کے بعض مفتي اہل کتاب کي عورتوں سے شادي کرنے کو جائز سمجھتے ہيں (?) ليکن شيعوں کے ساتھ شادي کرنے کو جائز نہيں سمجھتے اور اس کي وجہ يہ بيان کرتے ہيں : ” لان المعروف عن الشيعة دعاء اہل البيت والاستغاثة بھم و ذلک شرک اکبر“ ? کيونکہ شيعہ اہل بيت کو پکارتے ہيں اور ان سے توسل کرتے ہيں اور يہ بہت بڑا شرک ہے (?) ?
جب کہ عيسائي تثليث يعني تين خدا، باپ، بيٹا اور روح القدس کے قائل ہيں ?
ايک دوسرے استفتاء کے جواب ميں لکھا ہے : ” اذا کان الواقع کما ذکرت من دعاءھم عليا والحسن والحسين و نحوھم فھم مشرکون شرکا اکبر يخرج من ملة الاسلام فلايحل ان نزوجھم المسلمات، و لا يحل لنا ان نتزوج من نسائھم و لا يحل لنا ان ناکل من ذبائحھم“ ? جيسا کہ کہا جاتا ہے کہ يہ علي ، حسن اور حسين کو پکارتے ہيں (مثلا يا علي ، يا حسن اور يا حسين کہيں) تو يہ مشرک ہيں اوراسلام کے آئين سے خارج ہيں ان سے شادي کرنا حرام ہے نہ ان کو عورتيں دي جاسکتي ہيں او ران کي عورتوں سے شادي کي جاسکتي ہے ان کاذبيحہ بھي حلال نہيں ہے (?) ?
اس بناء پر وہابي توسل کو شرک سمجھتے ہيں اور جو بھي اولياء الہي سے توسل کرتا ہے اس کو مشرک شمار کرتے ہيں ، ان کے ساتھ شادي کرنے کو جائز نہيں سمجھتے اوران کے ذبيحہ کو بھي حلال نہيں سمجھتے ?
جب کہ ہم جانتے ہيں کہ اسلام کے تمام فرقے بزرگان دين سے توسل کرتے ہيں اور مختلف شہروں ميں ان کي زيارت گاہ اس پربہترين دليل ہے لہذا يہ سب کافر اور مشرک ہيں ،ان کي جان اور مال حلال ہے اور يہيں سے ان کے قتل وغارت اور خون ريزي کرنے کي وجہ معلوم ہوجاتي ہے ?
دوم : توسل کے معني :
اس نظريہ کا جواب حاصل کرنے کيلئے سب سے پہلے توسل کے لغوي اور اصطلاحي معني کي تحقيق ضروري ہے ، اس کے بعد توسل کو قرآن اور سنت ميں تلاش کريں گے ?
مشہور لغوي خليل بن احمد نے کہا ہے : ”وسلت الي ربي وسيلة اي عملت عملا اتقرب بہ اليہ و توسلت الي فلان بکتاب او قرابة اي تقربت بہ اليہ “ ? ميں نے اپنے پروردگار کو وسيلہ قرار ديا يعني ميں نے ايسا عمل انجام ديا جس سے اس کے نزديک ہوجاؤں، جب ميں کہتا ہوں : ميں نے فلاں شخص سے کتاب يا رشتہ داري کے ذريعہ سے توسل کيا تو اس کے معني يہ ہيں کہ ميں اس کے ذريعہ اس سے نزديک ہوگيا (?) ?
ابن منظور نے بھي لکھا ہے : توسل اليہ بوسيلة اذا تقرب اليہ بعمل? اس کي طرف کسي وسيلہ سے توسل کيا ، يعني کسي عمل کو انجام دينے کے ذريعہ اس سے نزديک ہوگيا،اس کے بعد جوہري سے نقل کيا ہے کہ ”الوسيلة ما يتقرب بہ الي الغير“ ? وسيلہ وہ چيز ہے جس کے ذريعہ دوسرے سے نزديک ہوا جاتا ہے (?) ?
اس بناء پر کسي چيز کے ذريعہ دوسرے سے نزديک ہونے کو توسل کہتے ہيں اورخداوندعالم سے توسل کرنے کے معني يہ ہيں کہ مشروع امور سے استفادہ کرتے ہوئے خداوندعالم سے نزديک ہونا ?
ليکن اولياء الہي سے توسل کرنا يعني ان کو خدا کے نزديک شفيع قرار ينا ? حقيقت ميں توسل کي ماہيت اور شفاعت کي ماہيت ميں کوئي فرق نہيں ہے ، وہ (اولياء الہي) خدا وند عالم کي بارگاہ ميں اپنے سے متوسل ہونے والے کي شفاعت کرتے ہيں (??) ?
البتہ يہ بات بھي واضح ہے کہ اولياء الہي سے توسل کرنے کے معني مشکلات ميں ان کو مستقل سمجھنا نہيں ہے ،بلکہ ان سے اس لئے شفاعت کرتے ہيں کہ بندگي کي وجہ سے ان کامقام خدا کے نزديک بہتر ہے ?ہم چاہتے ہيں کہ وہ ہمارے لئے خداوند عالم سے طلب استغفار کريں، تاکہ خدا ہماري مشکل کو دور کرے، يا ہمارے گناہوں کو معاف کردے يا کبھي کبھي خود ان سے چاہتے ہيں کہ وہ اللہ کے حکم سے يا اس کي تکويني اجازت سے ہماري مشکل کو دور کريں ? ليکن جو بات غلط ہے وہ يہ ہے کہ کوئي تصرف اورتاثير ميں ان کو مستقل سمجھے اور اولياء الہي کو پروردگار کے مقابلہ ميں مشکلات کو دور اور حاجات کو پورا کرنے والا سمجھے ?
?? قرآن کے اعتبار سے توسل کي اصل و اساس
اولياء الہي سے توسل کرنے کي دو قسميں ہيں : کبھي کبھي ان سے مدد مانگي جاتي ہے کہ وہ خدا کے اذن سے ان کي مشکل کو دور کرديں اورکبھي کبھي ان کو اپنے اور خداکے درميان واسطہ قرار ديتے ہيں تاکہ خداوند ان کي مشکل کو دور کردے اور توسل کي يہ دونوں قسميں قرآن ميں پائي جاتي ہيں :
?? اولياء الہي، خداوند عالم کے ذريعہ مشکل کو دور کرتے تھے :
فطري سي بات ہے کہ ہر مسلمان ، اوليائے الہي ميں سے کسي کو اس وقت واسطہ قرار دے سکتا ہے يا اس سے مشکلات ميں مددکي درخواست کرسکتا ہے جب خدا اس کو اس بات کي اجازت دے ، ورنہ اس سے مدد نہيں مانگي جاسکتي ، حقيقت ميں اس عمل کي مشروعيت ، خداوند عالم کے اذن پر متوقف ہے ?
قرآن کريم ميں حضرت عيسي (عليہ السلام) کے بارے ميں بيان ہوا ہے کہ حضرت عيسي ، خداوند عالم کے حکم سے مشکلات کو دور کرتے تھے ، بيماروں کو شفا ديتے تھے ،يہاں تک کہ مردوں کو زندہ کرتے تھے ? سورہ مائدہ کي ??? ويں آيت ميں خداوند عالم حضرت عيسي کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے : ”وَ ا?ِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ کَہَيْئَةِ الطَّيْرِ بِا?ِذْني فَتَنْفُخُ فيہا فَتَکُونُ طَيْراً بِا?ِذْني وَ تُبْرِءُ الْا?َکْمَہَ وَ الْا?َبْرَصَ بِا?ِذْني وَ ا?ِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتي بِا?ِذْني “ ?
اور جب تم ميرے حکم سے مٹي سے پرندہ کي طرح کوئي چيز بناتے پھر اس پر کچھ دم کرديتے تو وہ مرے حکم سے پرندہ بن جاتا اور تم ميرے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھي کو اچھا کرديتے اور تم ميرے حکم سے مردوں کو زندہ ديتے ?
اس الہي اجازت کے بعد حضرت عيسي اعلان کرتے ہيں کہ ميں خداوند عالم کے حکم سے ان امور کو انجام ديتا ہوں ? سورہ آل عمران کي ?? ويں آيت ميں آپ کي زباني پڑھتے ہيں : ” ا?َنِّي قَدْ جِئْتُکُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ ا?َنِّي ا?َخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّينِ کَہَيْئَةِ الطَّيْرِ فَا?َنْفُخُ فيہِ فَيَکُونُ طَيْراً بِا?ِذْنِ اللَّہِ وَ ا?ُبْرِءُ الْا?َکْمَہَ وَ الْا?َبْرَصَ وَ ا?ُحْيِ الْمَوْتي بِا?ِذْنِ اللَّہِ وَ ا?ُنَبِّئُکُمْ بِما تَا?ْکُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ في بُيُوتِکُم“ ?
ميں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کي طرف سے نشاني لے کر آيا ہوں ، ميں تمہارے لئے مٹي سے پرندہ کي شکل بناؤں گا اور اس ميں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکم ِ خدا سے پرندہ بن جائے گا اور ميں پيدائشي اندھے اور َمبروص کا علاج کروں گا اور حکمِ خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا اور تمہيں اس بات کي خبردوں گا کہ تم کيا کھاتے ہو اور کيا گھر ميں ذخيرہ کرتے ہو?
اس بناء پر اگر کوئي حضرت عيسي (عليہ السلام) کے پاس آتا تھا اور کہتا تھا : ميرے بيٹے کو خدا کے حکم سے زندہ کرديں! يا اس مردہ کو خدا کے حکم سے زندہ کرديں تو وہ کبھي بھي شرک نہيں تھا کيونکہ حضرت عيسي (عليہ السلام) اور درخواست کرنے والا جانتا تھا کہ خدا کے حکم سے ايسا کام انجام پائے گا ?
ہم جانتے ہيں کہ اگر شرعا جائز نہ ہوتا اور شرک ہوتا تو اس کا ايک مورد بھي جائز نہ ہوتا ! کيونکہ خداوند عالم کے لئے شرک کے جائز ہونے ميں کوئي استثناء نہيں پايا جاتا جس کے نتيجہ ميں اگر کوئي ولي او ربارگاہ الہي کا مقرب بندہ پروردگار کے اذن سے اپني مشکل کو برطرف کرتا تو يہ کوئي غلط کام نہيں تھا ،يہ بات بھي قابل توجہ ہے کہ اسي سورہ کي ?? ويں آيت ميں خداوند عالم نے ان کو اپنا مقرب بندہ بتايا ہے ، جب فرشتہ حضرت مريم کو حضرت عيسي کے وجود کي بشارت ديتا ہے اور کہتا ہے : ” وَجيہاً فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبينَ “ ? دنيا اور آخرت ميں صاحبِ وجاہت اور مقربين بارگاہ ال?ہي ميں سے ہے ?
?? دعاء اور طلب مغفرت کے لئے اولياء الہي سے درخواست کرنا
اولياء الہي سے توسل کرنے کي ايک قسم يہ ہے کہ انسان ان سے درخواست کرے کہ وہ خداوندعالم سے ان کے لئے دعاء يا استغفار کريں اور خداوندعالم سے ان کے گناہوں کے معاف ہونے کي درخواست کريں، اس طرح کي خواہشات بھي قرآن کريم ميں بيان ہوئي ہيں :
?? بني اسرائيل جب صحرا و بيابان ميں پريشان تھے تو انہوں نے حضرت موسي سے مخاطب ہو کر کہا : ” ْ يا مُوسي لَنْ نَصْبِرَ عَلي طَعامٍ واحِدٍ فَادْعُ لَنا رَبَّکَ يُخْرِجْ لَنا مِمَّا تُنْبِتُ الْا?َرْضُ مِنْ بَقْلِہا وَ قِثَّائِہا وَ فُومِہا وَ عَدَسِہا وَ بَصَلِہا قالَ ا?َ تَسْتَبْدِلُونَ الَّذي ہُوَ ا?َدْني بِالَّذي ہُوَ خَيْرٌ اہْبِطُوا مِصْراً فَا?ِنَّ لَکُمْ ما سَا?َلْتُمْ“ ? جب تم نے موس?ي عليہ السّلام سے کہا کہ ہم ايک قسم کے کھانے پر صبر نہيں کرسکتے. آپ پروردگار سے دعا کيجئے کہ ہمارے لئے زمين سے سبزيً ککڑي، لہسنً مسوراور پياز وغيرہ پيدا کرے(??) ?
بني اسرائيل ، حضرت موسي سے چاہتے تھے کہ وہ خدا کي بارگاہ ميں دعاء کريں تاکہ مختلف قسم کي سبزيوں کے ذريعہ سے ان کي مشکل برطرف ہوجائے (??) ?
?? جس وقت حضرت يعقوب (عليہ السلام) کے بيٹے اپني غلطي کي طرف متوجہ ہوگئے تو انہوں نے آپ سے کہا : ”قالُوا يا ا?َبانَا اسْتَغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا ا?ِنَّا کُنَّا خاطِئينَ “ ? ان لوگوں نے کہا بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کريں ہم يقينا خطاکار تھے ?
حضرت يعقوب (عليہ السلام) نے ان کے جواب ميں کہا : ” قالَ سَوْفَ ا?َسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّي ا?ِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحيم“ ? انہوں نے کہا کہ ميں عنقريب تمہارے حق ميں استغفار کروں گا کہ ميرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے ?
اس بناء پر گنہگار لوگ ، اولياء الہي سے درخواست کرسکتے ہيں کہ وہ ان کيلئے خدا سے طلب مغفرت کريں ?
?? جن لوگوں نے گناہ کيا ہے ان سے خداوند عالم کہتا ہے ، اگر رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے پاس جاؤ اوراستغفار کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کيلئے آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے درخواست کريں کہ وہ خداوند عالم سے ان کےلئے طلب مغفرت کريں : ” وَ لَوْ ا?َنَّہُمْ ا?ِذْ ظَلَمُوا ا?َنْفُسَہُمْ جاؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّاباً رَحيماً“ ? اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کيا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھي اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھي ان کے حق ميں استغفار کرتا تو يہ خدا کو بڑا ہي توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے(??) ?
اس بناء پر گناہوں کي بخشش کا ايک راستہ يہ ہے کہ رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے استغفار کي درخواست کريں ، جن کي سفارش کو خداوند عالم قبول کرتا ہے ?
ان آيتوں ميں بھي توسل کو صراحت کے ساتھ بيان کيا گيا ہے ?
چہارم : پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي ميں آپ سے توسل
يہ بات واضح ہوگئي کہ قرآن کريم نے مشکلات کو دور کرنے کے لئے اولياء الہي سے کو جائز قرار ديا ہے اور اس کي طرف رغبت بھي دلائي ہے ? اب ہم ديکھتے ہيں کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي ميں ان سے توسل ہوتا تھا يا نہيں؟ کيا آنحضرت (ص) لوگوں کي درخواست کا مثبت جواب ديتے تھے ؟ روايات ميں آنحضرت (ص) سے متعدد توسل نقل ہوئے ہيں ، ہم يہاں پر اہل سنت کي کتابوں سے دو نمونوں کي طرف اشارہ کريں گے :
?? نابينا شخص کا رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل کرنا
ترمذي نے اپني صحيح ميں عثمان بن حنيف سے نقل کيا ہے کہ ايک نابينا شخص رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا : اے رسول خدا ! خدا سے ميري شفاعت کيلئے درخواست کرو ? ”ادع اللہ ان يعافيني“ ?
آپ نے فرمايا : ” ان شئت دعوت ، و ان شئت صبرت فھو خير لک“ ? اگر تم چاہتے ہو تو ميں تمہارے لئے دعاء کرتاہوں اور اگر انتظار کرو گے تو يہ تمہارے لئے بہتر ہے ?
اس شخص نے کہا : ميں چاہتا ہوں کہ آپ ميرے لئے دعاء کريں ?
رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے اس کو حکم ديا کہ کامل اور اچھي طرح سے وضو کرو، اس کے بعد اس دعاء کو پڑھو : ” اللھم اني اسالک و اتوجہ اليک بنبيک محمد نبي الرحمة، يا محمد ! اني توجھت بک الي ربي في حاجتي ھذہ لتقضي لي ، اللھم فشفعہ في “ ? خدايا ميں تجھے پکار رہاہوں اور ميں تيرے پيغمبر حضرت محمد مصطفي (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے ذريعہ تيري طرف متوجہ ہوں ، اے محمد ! ميں تمہارے توسل سے اپني حاجت حاصل کرنے کيلئے اپنے پروردگار کي طرف متوجہ ہوں تاکہ ميري حاجت پوري ہوجائے ، پس خدايا ، ان کو ميرے لئے شفيع قرار دے (??) ?
حاکم نيشاپوري نے بھي اس حديث کو نقل کرنے کے بعد تصريح کي ہے کہ يہ حديث بخاري اور مسلم کے شرايط کے مطابق صحيح ہے ، اگر چہ انہوں نے اس حديث کو نقل نہيں کيا ہے (??) اور مسند احمد کے نقل کے مطابق اس شخص نے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے حکم کے مطابق عمل کيا اور اس کو شفاعت مل گئي (??) ?
?? قحط اور خشک سالي کو دور کرنے کيلئے دعاء
صحيح بخاري ميں انس بن مالک (پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے مشہور صحابي)سے نقل ہوا ہے کہ ايک سال مدينہ ميں قحط اورخشک سال ہوگئي ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نماز جمعہ کا خطبہ پڑھنے ميں مشغول تھے کہ ايک شخص کھڑا ہوا اور عرض کيا : ” يا رسول اللہ ھلک المال و جاع العيال، فادع اللہ لنا“? اے رسول خدا ہمارا مال نابود ہوگيا اور ہمارے بچے بھوکے ہيں، خداوند عالم کي درگاہ ميں ہمارے لئے دعاء کيجئے ?
رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے اپنے مبارک ہاتھوں کو آسمان کي طرف بلند کئے ، اس وقت آسمان ميں بادل نہيں تھے ، خدا کي قسم جس کے قبضہ قدرت ميں ميري جان ہے ، ابھي آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے ہاتھ نيچے نہيں آئے تھے کہ پہاڑ کي مانند بادل آشکار ہوئے اور ابھي آپ منبر سے نيچے نہيں آئے تھے کہ بارش ہونا شروع ہوئي ،يہاں تک کہ بارش کے پاني سے آپ کي محاسن بھيگ گئي ? اور ايک ہفتہ تک بارش جاري رہي ، اگلے جمعہ کے روز ، آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے درخواست کي کہ وہ بارش رکنے کيلئے دعاء کريں (??) !
کيا يہ شخص عرب ، يا رسول اللہ کہنے اور بارش کي دعاء مانگنے کي وجہ سے کافر اور مہدور الدم ہوگيا؟!
پنجم : آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي اور وفات کے بعد آپ سے توسل
جن آيات اور روايات ميں پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل کرنا جائز ہے جب وہابيوں کو ان کا حوالہ ديتے ہيں اور ان کے پاس کوئي جواب نہيںہوتا تو کہتے ہيں کہ يہ آنحضرت (ص) کي زندگي کے واقعات ہيں ، آپ کي وفات کے بعد توسل جائز نہيں ہے ،کيونکہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) دنياسے چلے گئے ہيں ”ا?ِنَّکَ مَيِّتٌ وَ ا?ِنَّہُمْ مَيِّتُونَ “ ? پيغمبر آپ کو بھي موت آنے والي ہے اور يہ سب مرجانے والے ہيں ?اور اب وہ ہماري آواز نہيں سنتے اس لئے آنحضرت سے توسل کرنا شرک ہے ? ہم ان کے جواب ميں کہتے ہيں :
?? شرک کيوں !
پہلي بات يہ ہے کہ اگر ہم فرض کرليں کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اوراولياء الہي ہماري آواز نہيں سنتے تو پھر يہ عمل شرک کيوں ہے؟ کم سے کم اس عمل پر يہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ يہ کام لغو اور بيہودہ ہے ، يعني تم ايسے لوگوں سے کمک اور توسل کرتے ہو جو تمہاري آواز نہيں سنتے اور تمہارے مقام کو نہيں ديکھتے ، تمہارے احوال سے بے خبر ہيں، اس بناء پر لغو اور بيہودہ ہيں،شرک کيوں ہے؟
اس کي مثال ايسي ہے کہ تم ديوار سے خطاب کرو اور اس سے کہو : مجھے سيراب کرو ، اگر کوئي وہاں سے گذرے گا تو کہے گا کيا بيہودہ اورلغوکام کررہے ہو ؟ بعبارت ديگر : پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي ميں ان سے توسل کرنا اور ان کي طرف رغبت دلانا کس طرح جائز ہے ،ليکن آپ کي وفات کے بعد يہي کام شرک ميں تبديل ہوجاتا ہے ؟ آپ کي زندگي ميں توسل ، ايمان کي علامت اور آپ کي وفات کے بعد شرک کي علامت ہے؟!
اس بناء پرچاہے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے نزديک آنحضرت سے درخواست کريں کہ وہ اذن خدا سے بيمار کو شفا ديں، يا آنحضرت سے دعاء کريں کہ وہ ان کے بيمار کے لئے شفاء طلب کريں يا آپ کے لئے استفار کريں، يہ شرک نہيں ہے !کيونکہ دونوں صورتوں ميں آپ آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کو خداوند عالم کے مقابلہ ميں تصور نہيں کرتے اور اگر پيغمبر اکرم(صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) آپ کي آواز کو نہ سنيںتو يہ ايک بيہودہ اور بيکارعمل توہوسکتا ہے ليکن شرک آميز عمل نہيں ہوسکتا ?
افسوس کے وہابيوں کے لئے دوسروں کو شرک سے متصف کرنا بہت آسان ہے ، جو بھي آنحضرت سے توسل کرتا ہے اس کو شرک کي چھڑي سے بھگا ديتے ہيں اور شرک کے تمام آثار اس پر تھونپ ديتے ہيں ،يہاں تک کہ اس کے قتل کے جائز ہونے کا فتوي صادر ہوجاتا ہے ،جيسا کہ پوري دنيا شاہد ہے کہ تمام وہابي اسي عقيدے کے ساتھ پاکستان، عراق اور افغانستان ميں شب و روز مسلمانوں کو قتل کرنے ميں مشغول ہيں، اور کبھي کبھي خود کشي کے عمل سے ہزاروں لوگوں کے خون کي ہولي کھيلتے ہيں ، جب کہ يہ سب بے گناہ مسلمان ہيں، شہادتين کو زبان پر جاري کرتے ہيں ، اسلام کے اصول و فروع پر پابند ہيں، اہل قبلہ ہيں، ليکن اولياء الہي سے توسل کے جرم ميں ايک گروہ کے ذريعہ جو خود کو مسلمان کہتا ہے ، قتل کردئيے جاتے ہيں، اسي خشونت اور قتل وغارت نے اسلام اور مسلمانوں کي شناخت کو لوگوں کے سامنے نفرت ميں تبديل کردي ہے ?
?? پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي حيات سے قبل آپ سے توسل
حاکم نيشاپوري نے اپني کتاب ”مستدرک“ ميں عمر بن خطاب سے اس نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت نے فرمايا : ” جس وقت حضرت آدم(عليہ السلام) نے ترک اولي انجام ديا تو خداوندعالم سے عرض کيا : ” يا رب اسالک بحق محمد لماغفرت لي“ ? پروردگارا ! ميں تجھے محمد کا واسطہ ديتا ہوں مجھے بخش دے ? خداوند عالم نے حضرت آدم سے فرمايا : اے آدم ! تم نے کس طرح محمد کو پہچانا جب کہ ميں نے ابھي تک ان کو خلق نہيں کيا ? آدم نے عرض کيا : پروردگارا ! جب تو نے مجھے خلق کيا تو ميں نے اوپر کي طرف نظر کي تو عرش کے ستون پر لکھا ہوا تھا : لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ “ ?ميں سمجھ گيا کہ محمد (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) بہترين مخلوق ہيں جو خدا کے نام کے ساتھ ان کانام لکھا ہوا ہے ?
خداوند عالم نے فرمايا : ”صدقت يا آدم ! انہ لاحب الخلق الي ادعني بحقہ فقد غفرت لک ، ولو لا محمد ما خلقتک“ ? اے آدم تم نے سچ کہا ، يقينا پوري مخلوقات ميں محمد ميري سب سے محبوب مخلوق ہے اور چونکہ تم نے مجھے ان کے حق کا واسطہ ديا ہے تو ميں تمہيں بخش ديتا ہوں اور اگر محمد نہ ہوتے تو ميں تمہيں خلق نہ کرتا ?
حاکم نيشاپوري نے اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : ھذا حديث صحيح الاسناد ? اس حديث کي سند صحيح ہے (??) ?
?? رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي وفات کے بعد آپ سے توسل
پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي وفات کے بعد آپ سے توسل کے متعدد واقعات نقل ہوئے ہيں ہم يہاں پر اختصار کي وجہ سے تين واقعات کي طرف اشارہ کرتے ہيں :
الف : بلال بن حارث کا پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل
اہل سنت کے مشہور علماء اور محدثين جيسے بيہقي ،ابن ابي شيبہ، ابن حجر، ابن کثير اور دوسرے علماء نے نقل کيا ہے کہ عمربن خطاب کي خلافت کے زمانہ ميں قحط پڑ گيا، ايک شخص پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے پاس آيا اور آنحضرت کو مخاطب کرکے عرض کيا : ” يا رسول اللہ ! ھلک الناس، استسق لامتک “ ? يا رسول اللہ ! لوگ قحط اور خشک سالي سے نابود ہوگئے ، اپني امت کے لئے بارش کي دعاء کيجئے ?
رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ، اس کے خواب ميں آئے اور کہا : ” ائت عمر فاقراہ مني السلام و اخبرہ انھم مسقون، و قل لہ : عليک الکيس“ ? عمر کے پاس جاؤ اور اس کو ميرا سلام پہنچاؤ اور اس کو خبر دو کہ بہت جلد بارش ہونے والي ہے اور اس سے کہو کہ اپني سخاوت اور بخشش کے تھيلے کو کھول دو ?
وہ شخص عمر کے پاس آيا اور پورا واقعہ اس کو سنايا ، عمر رونے لگا اور کہا : ” يا رب ما الو الا ما عجزت عنہ“ ? پروردگارا ! ميں نے اپني کوشش کي ليکن ميں کمزور تھا (??) ?
ابن حجر لکھتا ہے : اس روايت کي سند جس کو ابن ابي شيبہ نے نقل کيا ہے، صحيح ہے ،اس کے بعد مزيد کہتا ہے : جس شخص نے يہ خواب ديکھا اس کا نام بلال بن حارث ہے جو رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کا ايک صحابي تھا (??) ?
ابن کثير نے بھي اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : ”وھذا اسناد صحيح “ ? اس روايت کي سند صحيح ہے (??) ?
اہل سنت کے اعتقاد کے مطابق جوکہ صحابہ کي سنت کو بھي حجت مانتے ہيں، اس واقعہ ميں ايک شخص بلال بن حارث ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے پاس آيا اور آنحضرت سے توسل کيا اور دوسرے صحابي سے اپنے خواب کا واقعہ نقل کيا اور اس نے بھي اس کي سرزنش نہيں کي اور کفر کي چھڑي سے اس کو نہيں بھگايا اوراس کي جان ، مال اور ناموس کو مباح نہيں کيا ?
ب : ابوايوب انصار ي، رسول خدا(صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے نزديک
حاکم نيشاپوري ، احمد بن حنبل اور اہل سنت کے بعض دوسرے علماء نے نقل کيا ہے کہ مروان بن حکم ايک روز پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے پاس سے گذر رہا تھا تو اس نے ديکھا کہ ايک شخص رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر پر اپنا چہرہ رکھ کر آپ سے راز و نياز کررہا ہے ، مروان نے اس کي گردن پکڑ کر کہا : ”اتدري ما تصنع“ کيا تمہيں معلوم ہے کہ تم کيا کررہے ہو ؟ اس شخص نے جواب ديا : جي ہاں مجھے معلوم ہے کہ ميں کيا کررہا ہوں ? مروان نے ديکھا کہ وہ شخص ابو ايوب انصاري (رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے مشہور صحابي ) ہيں ? ابوايوب نے اپني بات کو جاري رکھتے ہوئے کہا : ” جئت رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) و لم آت الحجر“ ? ميں رسول خدا کي خدمت ميں آيا ہوں ، پتھر کے پاس نہيں آيا ? اس کے بعد کہا : ”سمعت رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) : يقول لا تبکوا علي الدين اذا وليہ اھلہ و لکن ابکوا عليہ اذا وليہ غير اھلہ“ ? ميں نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمايا : جب بھي دين کے امور اس کے اہل کے پاس پہنچ جائيں توکوئي پريشاني کي بات نہيں ہے اور جب بھي دين کے امور کسي نااہل (مروان اور اس کے جيسوں کي طرف اشارہ ہے) کے پاس پہنچ جائيں تو گريہ کرو (??) ?
ابوايوب انصاري بہت ہي جليل القدر صحابي جانتے ہيں کہ رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے پاس آنا گويا ان کي خدمت ميں شرفياب ہونا ہے ، وہ آپ کي مادي زندگي اور برزخي زندگي ميں کوئي فرق محسوس نہيں کرتے تھے ، لہذا ان کي قبر پر اپنا رخسار رکھتے ہيں اور راز و نياز کرتے ہيں ?
اس طرف مروان بن حکم (رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اور ان کے اہل بيت کا دشمن ) ہے جو اس واقعہ کي تاب نہيں لاتا اور ان پر اعتراض کرتا ہے جس کے مقابلہ ميں اس کو بہت سخت جواب سننا پڑتا ہے ?
ج : رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کي برکت
اہل سنت کے مشہور عالم دارمي نے اپني کتاب کے ايک باب ميں رسول اکرم کي ان کرامت کو نقل کيا ہے جن کو خداوند عالم نے پيغمبر اکرم کو ان کي وفات کے بعد عطاء کي ہيں ، وہ نقل کرتے ہيں ايک مرتبہ مدينہ ميں قحط پڑ گيا اور لوگ عائشہ کے پاس آکر شکايت کي اور اس سے کہا کہ خشک سالي ختم ہونے کے لئے کچھ کرو ، عائشہ نے کہا : ”انظروا قبر النبي (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم)، فاجعلوا منہ کوي الي السماء حتي لا يکون بينہ و بين السماء سقف“ ? پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي قبر کے پاس جاؤ اور آپ کي قبر کے اوپر چھت ميں سوراخ کرو تاکہ قبر اورآسمان کے درميان کوئي مانع نہ رہے (اور آسمان نظر آئے) اور انتظار کرو? لوگوں نے بھي اس پر عمل کيا ، جس کے نتيجہ ميں بارش ہوئي اور ايسي بارش ہوئي کہ بيابان سبزہوگئے ، اونٹ (اس کا گھانس کھانے کے بعد) موٹے ہوگئے (??) ?
کيا عائشہ کا يہ حکم ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل کے علاوہ کچھ اور تھا؟ يقينا وہابي ان پر بھي کفر کا فتوي لگاتے ہوں گے !
?? دوسرے اولياء سے توسل
اہل سنت کي کتابوں ميں پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم)کے علاوہ اولياء الہي سے توسل کرنا بھي نقل ہوا ہے :
الف : پيغمبر کرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے چچا سے توسل
صحيح بخاري ميں انس سے نقل ہوا ہے کہ جب بھي مدينہ ميں قحط پڑتا تھا تو عمر بن خطاب عباس بن عبدالمطلب سے توسل کرکے بارش کي درخواست کرتاتھا وہ اس طرح کہتا تھا : ”اللھم انا کنا نتوسل بنبينا و انا نتوسل اليک بعم نبينا فاسقنا “ ? خدايا ہم خشکسالي کے زمانہ ميں رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل کرتے تھے اور انبياء کے وسيلہ سے تجھ سے بارش مانگتے تھے اور تو ہميں سيراب کرتاتھا او راب پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے چچا کے ذريعہ تجھ سے توسل کرتے ہيں لہذا اب تو ہميں ان کے وسيلہ سے سيراب کر? اور اس کے بعد بارش ہوجاتي تھي اور لوگ سيراب ہوجاتے تھے (??) ?
کيا وہابي ان دونوں پر بھي کفر کا فتوي لگاتے ہيں ؟!
ب : امام کاظم (عليہ السلام) کي قبر سے توسل
اہل سنت کے مشہور عالم خطيب بغدادي نے لکھا ہے : ابوعلي خلال (متوفي ???) کہتے تھے : ” ما ھمني امر فقصدت قبر موسي بن جعفر فتوسلت بہ الا سھل اللہ تعالي لي ما احب“ ? جب بھي مجھ پر کوئي مشکل آتي تھي تو ميں موسي بن جعفر (عليہما السلام) کي قبر کے پاس جاتا تھا اور ان سے توسل کرتاتھا اور جس طرح ميں چاہتا تھا اسي طرح وہ ميري مشکل کو خداوند عالم کے ذريعہ برطرف کرتے تھے (??) ?
ج : امام علي بن موسي الرضا (عليہ السلام) کي قبر سے توسل
اہل سنت کے رجال کے مشہور عالم ابن حبان نے لکھا ہے : طوس ميں علي بن موسي الرضا (عليہ السلام) کي قبر ہارون کي قبر کے پاس ہے اور يہ مشہور زيارت گاہ ہے ،ميں نے بارہا اس کي زيارت کي ہے ، اس کے بعد مزيد کہتا ہے : جس وقت ميں طوس ميں مقيم تھا تو جب بھي مجھے کوئي مشکل پيش آتي تھي تو ميں علي بن موسي الرضا (عليہ السلام) کي قبر کي زيارت کرتا تھا اور ان کي زيارت کي برکت سے خداوند عالم ميري وہ مشکل حل کرديتا تھا ،ميں نے اس بات کا بارہا تجربہ کيا ہے ? آخر ميں کہتے ہيں : ” اماتنا اللہ علي محبة المصطفي و اھل بيتہ صلي اللہ عليہ و آلہ اجمعين“? خداوند عالم ہميں محمد مصطفي اور ان کے خاندان(خداوند عالم کا درود وسلام ہو ان پر) کي محبت پر موت دينا(??) ?
د : پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کا خاندان ، وسيلہ نجات
شافعي (مذہب شافعي کے موسس ) نے اپنے اشعار ميں رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے خاندان کو نجات کا وسيلہ بيان کيا ہے ، وہ کہتے ہيں :
آل النبي ذريعتي و ھم اليہ وسيلتي
ارجو بھم اعطي غدا بيداليمين صحيفتي
پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کا خاندان ميرا شفيع ہے ، وہ خدا سے نزديک ہونے کيلئے وسيلہ ہيں، مجھے اميد ہے کہ قيامت کے روز ان کي وجہ سے ميرا اعمال نامہ ميرے سيدھے ہاتھ ميں ديا جائے گا (??) ?
ششم : ايک سوال کا جواب :
متعدد روايات مختلف واقعات سے يہ بات سمجھ ميں آجاتي ہے کہ مسلمان ،پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اور اولياء الہي سے متوسل ہوتے ہيں اور ان کو اپنے اور خدا کے درميان واسطہ قرار ديتے ہيں ، ان کي عزت و آبرو اور بلند مقام کي وجہ سے خداوند عالم ان کي حاجات کوپورا کرديتا ہے ،ان کي مشکلات اور سختيوں کو برطرف کرديتا ہے ? مذکورہ بعض واقعات اولياء الہي کي زندگي ميں رو نما ہوئے ہيں اور بعض واقعات ان کي زندگي کے بعد واقع ہوئے ہيں ? اب يہ سوال باقي رہ جاتا ہے کہ کيا اولياء الہي مرنے کے بعد بھي ہمارے حال سے آگاہ ہيں اور اپني زندگي کے زمانے کي طرح ہماري شفاعت کرسکتے ہيں ? وہابيت سب سے زيادہ اسي چيز کي نفي کرتي ہے ، وہ کہتے ہيں : مرنے کے بعد وہ ہمارے حال سے آگاہ نہيں ہيں، خداوندعالم ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے بارے ميں فرماتا ہے : ”ا?ِنَّکَ مَيِّتٌ وَ ا?ِنَّہُمْ مَيِّتُون“(??) ? پيغمبر آپ کو بھي موت آنے والي ہے اور يہ سب مرجانے والے ہيں ?لہذا آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) بھي دوسرے لوگوں کي طرح مرتے ہيں اور مردہ انسان کو زندہ لوگوں کے بارے ميں کوئي خبر نہيں ہوتي ، لہذا ان سے توسل کرنا جائز نہيں ہے ?
البتہ جيسا کہ ہم اس سے پہلے بھي کہہ چکے ہيں کہ وہابي لوگ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اوراوليائے الہي کے مرنے کے بعد توسل کو شرک سمجھتے ہيں ،ليکن يہ بات واضح نہيں ہے کہ ان کي زندگي ميں ان سے توسل کرنا اور ان کي طرف رغبت دلانا کس طرح جائز ہے ؟!اور ان کے مرنے کے بعد اچانک يہ توسل شرک اور کفر ميں تبديل ہوجاتا ہے ؟ ! ? اگر کوئي ان ذوات مقدسہ کو چاہے ہي کي زندگي ميں اور چاہے مرنے کے بعد ،تاثير ميں مستقل سمجھے تو وہ مشرک ہے اور اگر تاثير ميں مستقل نہ سمجھے اور اس کا عقيدہ يہ ہو کہ يہ حضرات خدا کے اذن سے ہماري حاجات کو پورا کرتے ہيں يا خدا سے ہماري حاجات کے پورا ہونے کي دعاء کرتے ہيں تو يہ ہرگز شرک نہيں ہے ? اور اگر کسي کا اعتقادہو کہ يہ مرنے کے بعد بھي ہماري آوازکو نہيں سنتے اور ہماري مشکلات کو دور کرنے کيلئے خدا سے درخواست کي توانائي نہيں رکھتے تو پھر ايسے لوگوں کے متعلق کہنا چاہئے کہ يہ لغو اور بيہودہ کام انجام ديتے ہيں ، ليکن مشرک پھر بھي نہيں ہيں ? جب کہ انشاء اللہ ہم ديکھيں گے کہ ان کے باس برزخي کي زندگي ہے اور وہ کامل طور سے ہمارے کلام کو سنتے ہيں اور يہ بے خبر لوگ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي شان ميں بہت بڑي گستاخي کرتے ہيں ?
ايک واقعہ
بہتر ہے کہ مذکورہ سوال کے جواب ميں اپنا ايک واقعہ کو نقل کريں جو ايام حج (???? ہجري قمري)ميں ايک وہابي کے ساتھ پيش آيا:
اعمال حج ختم ہونے کے بعد مکہ مکرمہ ميں ہماري سکونت کے نزديک ايک مسجد تھي جس کا نام مسجد سيدالشہداء حمزة بن عبدالمطلب تھا وہاں پر ايک خطيب نمازظہر کے بعد نمازيوں کے سامنے تقرر کررہاتھا ? سب سے پہلے اس نے حج کے بے شمار ثواب اور گناہوں کے بخشنے ميں اس کے کردار کو بيان کيا اور بہت اچھي اچھي روايتيں بيان کيں، اس کے بعد کہا : ليکن يہ ثواب ان لوگوں سے مخصوص ہے جو مشرک نہ ہوں، کيونکہ خداوند عالم نے فرمايا ہے : ”لَئِنْ ا?َشْرَکْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُک“ ? اگر تم شرک اختيار کرو گے تو تمہارے تمام اعمال برباد کرديئے جائيں گے (??) ?
اسي طرح خداوند عالم نے فرمايا ہے : ”من يشرک باللہ فقد حرم اللہ عليہ الجنة“ جو بھي خدا سے شرک کرے اس کے اوپر بہشت حرام ہے (??) ?
اس کے بعد کہتا ہے : جو بھي کوئي يا رسول اللہ ، يا علي اور يا ولي کہے وہ مشرک ہے !! اور اس سلسلہ ميں بہت سي باتيں بيان کيں ?
اس روز اس کي تقرير بہت لمبي ہوگئي ، اگلے روز نماز ظہر اور تقرير کے بعد جب وہ خطيب مسجد سے نکل رہا تھا تو ميں اس کے پاس گيااور سلام و احترام کے بعد اس سے کہا : تم نے کل اپني تقرير ميں کہا کہ اگر کوئي يا رسول اللہ اور يا ولي اللہ کہے تو مشرک ہے ! کيا واقعا تم اس بات کے معتقد ہو کہ جو ايسا کہے وہ مشرک ہے ؟ اس نے کہا : جي ہاں ?
ميں نے کہا : کيا رسول اللہ سے يہ درخواست نہيں کي جاسکتي کہ وہ خدا کي بارگاہ ميں ہمارے لئے استغفار کريں ؟
اس نے کہا : اس کے جائز ہونے کي کوئي دليل نہيں ہے ?
ميں نے کہا : قرآن کريم ميں اس کي بہترين دليل يہ آيت ہے : ” وَ لَوْ ا?َنَّہُمْ ا?ِذْ ظَلَمُوا ا?َنْفُسَہُمْ جاؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّاباً رَحيماً“ (??) ? اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کيا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھي اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھي ان کے حق ميں استغفار کرتا تو يہ خدا کو بڑا ہي توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ?
اس نے کہا : يہ آيت پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي حيات سے مربوط ہے ، آپ کے مرنے کے بعد اس سے کوئي ربط نہيں ہے ?
ميں نے کہا : اب وہ ہماري بات کو نہيں سنتے ؟
اس نے کہا : نہيں ! کيونکہ قرآن کريم فرماتا ہے : ”ا?ِنَّکَ مَيِّتٌ وَ ا?ِنَّہُمْ مَيِّتُون“(??) ? پيغمبر آپ کو بھي موت آنے والي ہے اور يہ سب مرجانے والے ہيں ?
ميں نے کہا : يہ آيت کہتي ہے : رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي مادي حيات ان سے سلب ہوگئي ہے ليکن ان کي زندگي سے مطلق نفي نہيں کي ہے اس کے بعد ميں نے مزيد کہا : اولا : قرآن کريم ،موت کو فنائے مطلق نہيں سمجھتا ، موت کو توفي سے تعبير کرتا ہے (??) يعني فرشتہ روح کو کامل طور سے اس جسم سے نکال ليتے ہيں اور انسان کي مادي حيات ختم ہوجاتي ہے ، ليکن اس کے معني يہ نہيں ہيں کہ مردے ہماري دنيا سے بالکل بے خبر ہيں(??) ?
ثانيا : خدا کے نزديک احد کے شہداء کا مقام زيادہ بلند ہے يا پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کا مقام بلند ہے ، اس نے جواب ديا پيغمبر کا مقام بلند ہے ? ميں نے کہا : خداوندعالم ، احد کے شہداء کے متعلق فرماتا ہے : ” وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلُوا في سَبيلِ اللَّہِ ا?َمْواتاً بَلْ ا?َحْياء ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ يُرْزَقُون“ (??) ? اور خبردار راہ خدا ميں قتل ہونے والوں کو مردہ خيال نہ کرنا وہ زندہ ہيں اور اپنے پروردگار کے يہاں رزق پارہے ہيں ?
خدا وند عالم کہہ رہا ہے کہ وہ زندہ ہيں البتہ برزخي حيات ميں زندہ ہيں، اور پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) شہداء سے برتر ہيں اس لئے وہ بھي زندہ ہيں ?
اس بناء پر بعض مسلمانوں کا عقيدہ ہے کہ آنحضرت آج بھي زندہ ہيں اور وہ ان کي آوازوں کو سنتے ہيں ،اس لئے وہ ان سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ ان کے لئے دعاء يا استغفار کريں ? ليکن تمہارا عقيدہ ہے کہ آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) مرنے کے بعد کچھ نہيں سنتے اور اس دنيا سے ان کا کوئي ارتباط نہيں ہے ? بہر حال اگر کوئي اس اعتقاد کے ساتھ کہ رسو ل اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ان کي آواز کو سنتے ہيں اور وہ ان سے توسل کرتے ہيں تو کيا تمہارے لئے جائز ہے کہ تم اس کو مشرک کہو ؟!?
ثالثا : اسي مسجد ميں ديوار پر پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) پر صلوات بھيجنے کي فضيلت کے بارے ميں ايک پوسٹر لگا ہوا ہے جس ميں ايسي روايتيں نقل ہوئي ہيں جن سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ہماري آواز کو سنتے ہيں ? اس نے کہا : کونسي روايات ؟
ميں نے کہا : ابوہريرہ نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے نقل کيا ہے : ”صلوا علي فان صلاتکم تبلغني حيث کنتم“? مجھ پر صلوات بھيجو ، کيونکہ تمہارا درود و سلام تم چاہے جہاں بھي ہو ، ہم تک پہنچتا ہے (??) ?
اس روايت کے ذيل ميں لکھا ہوا ہے :” رواہ احمد و ابوداؤد و صححہ الامام النووي“? امام احمد اور ابوداؤد نے اس کو نقل کيا ہے اورامام نووي نے اس کو صحيح شمار کيا ہے (??) ?
ايک دوسري صحيح روايت ہے جس کو ابوہريرہ نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمايا : ”ما من احد يسلم علي الا رد اللہ عزوجل الي روحي حتي ارد عليہ السلام “ ? کوئي بھي مجھ پر سلام نہيں کرے گا مگر يہ کہ خدا وند عالم ميري روح کو واپس پلٹائے گا تاکہ ميں اس کے سلام کا جواب دے سکوں (??) ? اس روايت کے ذيل ميں لکھا ہے : ” رواہ احمد و ابوداؤد باسناد صحيح? اس روايت کو احمد اور ابوداؤد نے صحيح سند کے ساتھ نقل کيا ہے (??) ?
ميں نے اپني بات کو جاري رکھتے ہوئے کہا کہ يہ روايت تمہاري کتاب ميں موجود ہے اور تمہارے تبليغ و ہدايت کے ادارے کي طرف سے آمادہ کي گئي ہے اور صحيح سند کي تصريح کے ساتھ چھپي ہے اور اس مسجد کي ديوار پر بھي نصب ہے ،يہ روايتيں وضاحت کے ساتھ بتاتي ہيں کہ ہماري صلواتيں ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) تک پہنچتي ہيں اور وہ ان کا جواب بھي ديتے ہيں ?
وہ خطيب جب جواب دينے سے عاجز ہوگيا تو عذر خواہي کرنے کے بجائے بدگوئي اور توہين پر اتر آيا اور کہنے لگا تم ايسے ہو اور ويسے ہو!!
جي ہاں جب وہ عاجز ہوجاتے ہيں تو ان کا عاجزانہ جواب يہ ہوتا ہے ?
مذکورہ جوابوں کے علاوہ يہ نکات بھي اس ميں بڑھائے جاسکتے ہيں :
تمام مسلمان نماز کے تشہد اور سلام ميں آنحضرت پر سلام کرتے ہيں اور کہتے ہيں : ”السلام عليک ايھا النبي و رحمة اللہ وبرکاتہ“ ? اگر آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ہمارے سلام کو نہيں سنتے تو نماز ميں ان کو سلام کرنا لغو ہوگا ?
اہل سنت کے علماء نے بھي ذکر کيا ہے : نماز کے تشہد ميں کم سے کم اس طرح کہنا چاہئے : التحيات للہ ، سلام عليک ايھا النبي و رحمة اللہ و برکاتہ (??) ?
ايک روايت ميں نقل ہوا ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے فرمايا : ” ان للہ ملائکة سياحين يبلغوني عن امتي السلام“? خداوند عالم کے کچھ ايسے فرشتہ ہيں جو زمين کي سير کرتے ہيں اور ميري امت کے سلام کو مجھ تک پہنچاتے ہيں(??) ?
قرآن کريم ،پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے :
”فَکَيْفَ ا?ِذا جِئْنا مِنْ کُلِّ ا?ُمَّةٍ بِشَہيدٍ وَ جِئْنا بِکَ عَلي ہؤُلاء ِ شَہيداً “ ? اس وقت کيا ہوگا جب ہم ہر امت کو اس کے گواہ کے ساتھ بلائيں گے اور پيغمبر آ پ کو ان سب کا گواہ بناکر بلائيں گے(??) ?
اس آيت کا مضمون يہ ہے کہ خداوند عالم ہر امت ميں سے ايک شخص کو اس امت پر گواہ بنائے گاجو اس امت کا پيغمبر ہوگا، اس کے بعد پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے : آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر بلائيں گے ? ھولاء سے کون مراد ہيں اس ميں دو نظريہ پائے جاتے ہيں کہ اس سے مراد کفار قريش ہيں يا تمام امت (??) ? ليکن يہ بات واضح ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي شہادت اپني امت پر اس بات کي گواہي ديتي ہے کہ آپ اپني امت کے حال و احوال سے آگاہ ہيں ? عمر بن خطاب نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمايا : ”من زار قبري کنت لہ شفيعا او شھيدا“ ? جو بھي ميري قبر کي زيارت کرے گا ميں خدا کے نزديک اس کي شفاعت کروں گا يا اس کے فائدہ ميں گواہي دوں گا(??) ?
اسي طرح انس بن مالک نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے نقل کيا ہے : ” من زارني بالمدينة محتسبا کنت لہ شھيدا و شفيعا يوم القيامة “ ? جو بھي خالص نيت کے ساتھ مدينہ ميں ميري زيارت کرے گا ، قيامت کے روز ميں اس کي شفاعت اور گواہي دوں گا (??) ?
ايک دوسري روايت ميں جس کو ابوہريرہ نے آپ سے نقل کيا ہے ، بيان ہوا ہے : ”من صلي علي عند قبري سمعتہ و من صلي علي نائبا کفي امر دنياہ و آخرتہ و کنت لہ شھيدا و شفيعا يوم القيامة “ ? جو بھي ميري قبر کے نزديک مجھ پر درود و صلوات بھيجتا ہے ميں اس کو سنتا ہوں اور جوبھي دور سے مجھ پر صلوات بھيجتا ہے اس کي دنيا اور آخرت کے امور کے لئے وہ کافي ہوگا اور ميں قيامت ميں اس کا شفيع اور گواہ بنوں گا (??) ?
اس بناء پر آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کا اپني امت کے حال و احوال سے آگاہ ہونا اور گواہي دينا اور اپني قبر کے زائر کي طرف متوجہ ہونا پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي حيات پر بہترين اور واضح دليل ہے ?
ايک بار پھر تاکيد کرتا ہوں کہ جس وقت پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي مادي حيات کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس سے مراد مادي حيات جس ميں پاني، غذا، ہوااور نور کي ضرورت ہوتي ہے ،نہيں ہے ، جس زندگي ميں مادي دنيا کے عوارض جيسے رشد و نمو،تباہ ہونا وغيرہ پائے جاتے ہوں ہماري مراد يہ دنيا نہيں ہے ، کيونکہ يہ زندگي مرنے کے بعد ختم ہوجاتي ہے ، بلکہ ہماري مراد برزخي زندگي ہے جس ميں ان تمام شرايط و عوارض کے بغير ايک طرح کا شعور اورآگاہي پائي جاتي ہے ، اگر چہ اس کي حقيقت صحيح طرح سے ہميں معلوم نہيں ہے ?
اگر رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ہماري آواز کو سنتے ہيں ، يا ہمارے سلام کا جواب ديتے ہيں او رہمارے اعمال پر گواہ ہيں تو اس کے معني يہ ہيں کہ وہ ہمارے حال و احوال سے باخبر ہيں، لہذا ہم آنحضرت پر سلام کے ذريعہ ان سے توسل کرسکتے ہيں اور مادي حيات کي طرح آپ ہماري دعاؤں کو پورا کرسکتے ہيں، ان تمام دلائل کے باوجود وہابي فرقہ کس طرح توسل کا انکار کرتا ہے ?
ہفتم : توسل کا فلسفہ
کبھي کبھي سوال ہوتا ہے : کيا خدا کي بارگاہ ميں جانے اور حاجت طلب کرنے کيلئے واسطہ کي ضرورت ہے؟ کيا خداوند عالم قرآن مجيد ميں نہيں فرماتا : ” وَ ا?ِذا سَا?َلَکَ عِبادي عَنِّي فَا?ِنِّي قَريبٌ ا?ُجيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ ا?ِذا دَعانِ“ ? اور اے پيغمبر! اگر ميرے بندے تم سے ميرے بارے ميں سوال کريں تو ميں ان سے قريب ہوں. پکارنے والے کي آواز سنتا ہوں جب بھي پکارتا ہے(??) ?
اس بناء پر خداوند عالم سے مستقيم بات کي جاسکتي ہے ،راز و نياز کيا جاسکتا ہے، اپني حاجات اور مشکلات کو اس سے بيان کيا جاسکتا ہے ،لہذا کسي دوسرے واسطہ کي کيا ضرورت ہے؟!
اس سوال کا جواب يہ ہے کہ اگر چہ خداوند عالم سے درخواست کرنے کيلئے کسي واسطہ کي ضرورت نہيں ہے ، پروردگار ہماري آواز سنتا ہے اور اگر مصلحت سمجھتا ہے تو ہماري ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ،ليکن خود خداوندعالم نے حکم ديا ہے کہ اس کا بندہ ، صالحين اور اولياء کو واسطہ قرا ردے اور ان سے دعاء کرنے کي خواہش کرے کہ وہ خداوندعالم سے ان کي حاجات کو پورا کرنے کي دعاء کريں ? (اس سلسلہ ميں آيات و روايات گذر گئي ہيں) ? اورخداوندعالم کي اس ترغيب کي (کم سے کم)دو دليليں ہو سکتي ہيں :
الف : دعاء مقبول ہونے کا نزديک ترين راستہ
انبياء اور اولياء الہي ، خداوند عالم کے نزديک محبوب ہيں، يہ حضرات اپنے خالص اعمال کي وجہ سے اس نزديک آبرومند ہيں (??) ?
فطري سي بات ہے کہ کہ گنہگار اور مصيبت ميں گرفتار انسان کے لئے ان کي وساطت اور شفاعت زيادہ نزديک ہے ، اسي وجہ سے حضرت يعقوب کے بيٹوں نے اپنے والد سے درخواست کي کہ وہ ان کے لئے طلب استغفار کريں اور خداوند عالم ، گنہگار مسلمانوں کو سے کہتا ہے کہ اپنے آپ استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ رسول خدا سے بھي استغفار کي درخواست کرو ، تاکہ وہ خداوند عالم کي بارگاہ ميں طلب مغفرت کريں ?
ب : سعي و کوشش کي قدر داني
يقينا ہم نے اپني اور دوسروں کي زندگي ميں مشاہدہ کيا ہے کہ کبھي کوئي حساس اور اہم کام دوسروں کے لئے انجام ديتے ہيں ، مثلا کو ئي استاد اپنے بيٹے کے لئے بہت زيادہ سعي و کوشش کرتا ہے اور اس کي تعليم و تربيت ميں اپني حد سے زيادہ وقت خرچ کرتا ہے ، کبھي کوئي ڈاکٹر دقت اور مہارت کے ساتھ اپنے بچے کو موت سے نجات ديتا ہے ،يا کوئي پڑوسي يا دوست اپنے بيوي بچوں کو جلتے ہوئے گھر سے باہر نکالتا ہے ،اس صورت اس دلسوز استاد ،مہربان ڈاکٹر اور فدکار دوست يا پڑوسي کي محبت پيدا ہوجاتي ہے جس کا خط، سفارش يا شفاعت بہت آساني کے ساتھ قابل قبول ہوجاتي ہے ?
اس کي نصيحت کو قبول کرنا اس کي زحمتوں کي قدرداني کرنے کي علامت ہے ?
دوسري عبارت ميں يہ کہا جائے : بعض مرتبہ بہت سي فداکارئياں ايسي ہوتي ہيں کہ معمولي اجر اس کو پورا نہيں کرسکتا ، لہذا اپنا اجر دينے کے علاوہ اس کي شفاعت اور سفارش دوسرے کے حق ميں قبول کرلي جاتي ہے ، انہي اجر و ثواب ميں سے ايک يہ ہے کہ اعلان کرديا جائے جب بھي فلاں شخص کسي گناہگار اور خطا کار کي شفاعت کرے گا تو ميں اس کو قبول کرلوں گا ?
اولياء الہي خصوصا پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے بہت زيادہ محنت او رسعي و کوشش کے ساتھ توحيد کو پھيلا يا اور کفر و بت پرستي کے ساتھ مقابلہ کيا، يہ عظيم الہي پاداش کے مستحق ہيں اس پاداش کا ايک حصہ يہ ہے کہ گنگار لوگوں کے حق ميں ان کي شفاعت قبول کرلي جائے ?
رسول اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے بندگي کے راستہ ، انسان سازي اور توحيد کي آواز کو منتشر کرنے ميں بہت زيادہ زحمات اٹھائي ہيں، نہ صرف آپ خدا کے لئے بہترين بندہ تھے بلکہ آپ نے ہزاروں افراد کو خدا کي بندگي کيلئے ہدايت فرمائي اور آپ کي ان زحمات کي وجہ سے لاکھوں کروڑوں انسان پوري دنيا ميں لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگاتے ہيں ،انہوں نے اپني پوري زندگي بندگان خدا کي خدمت، کفر و شرک سے جنگ اور خدا کے دشمنوں سے جنگ کرنے ميں صرف کردي ? دنيوي خوشيوں کو چھوڑ ديا، مادي لذتوں کو الگ کرديا ، قريش کے ثروتمند افراد کي پيش کش کو ٹھکرا ديا اور بہت زيادہ رنج و مشقت، اتہام، توہين اور جلاوطني کي زندگي بسر کي ، ليکن دعوت الہي سے دست بردار نہيں ہوئے ، لہذا پروردگار کے لئے بجا ہے کہ وہ ان کي سعي و کوشش اور زحمتوں کي قدر داني کے لئے آپ کي شفاعت کو گناہگار اور پريشان حال انسانوں کے حق ميں قبول کرے ، ان کي دعاء کي برکت سے قحط اور خشک سالي کو دور کرے ?
ليکن افسوس تعصب کي وجہ سے وہابيوں کي سمجھ ميں يہ حقايق نہيں آتے ?
قرآن کريم ميں پيغمبر اکرم کي عظمت
خداوند عالم نے قرآن کريم ميں متعدد جگہوں پر پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي تعظيم و تکريم اور عظمت بيان کيا ہے اور مومنين کو اس کي نصيحت کي ہے ، واضح ہے کہ ايسي شخصيت سے توسل کرنا ،مومنين کي طرف سے آپ کي تعظيم وتکريم کا بہترين مصداق ہے ?
خداوند عالم نے قرآن مجيد ميں پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي جان کي قسم کھائي ہے اور فرمايا ہے : ” لَعَمْرُکَ ا?ِنَّہُمْ لَفي سَکْرَتِہِمْ يَعْمَہُون“ ? آپ کي جان کي قسم يہ لوگ گمراہي کے نشہ ميں اندھے ہورہے ہيں اوريہ اپني عقل و شعور کو کھو بيٹھے ہيں(??) ?
خداوند عالم اپنے پيغمبر کي خوشنودي کو طلب کرتا ہے اور فرماتا ہے ” قَدْ نَري تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِي السَّماء ِ فَلَنُوَلِّيَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضاہا ?“ ? اے رسول ہم آپ کي توجہ کو آسمان کي طرف ديکھ رہے ہيں تو ہم عنقريب آپ کو اس قبلہ کي طرف موڑ ديں گے جسے آپ پسند کرتے ہيں(??) ?
اہل سنت کے مشہور مفسر کي تعبير کے مطابق خدا وند عالم نے اس آيت ميں يہ نہيں فرمايا : ”قبلة ارضاھا“ جس قبلہ کو ہم پسند کرتے ہيں ? بلکہ فرمايا : قبلہ کي طرف جس کو آپ پسند کرتے ہو ? گويا خداوند عالم فرما رہا ہے : ” يا محمد کل احد يطلب رضاي و انا اطلب رضاک في الدارين “ ? اے محمد سب لوگ ميري خوشنودي کو طلب کرتے ہيں اور ميں دنيا و آخرت ميں آپ کي خوشنودي کو طلب کرتا ہوں، ليکن دنيا ميں يہي چيز جس کا تذکرہ اس آيت ميں ہوا ہے (ايسا قبلہ جسے آپ پسند کرتے ہيں) اور آخرت کيلئے فرمايا : ” وَ لَسَوْفَ يُعْطيکَ رَبُّکَ فَتَرْضي“ ? اور عنقريب تمہارا پروردگار تمہيں اس قدر عطا کردے گا کہ خوش ہوجاؤ ( امت کے حق ميں تمہاري شفاعت کو قبول کريں گے تاکہ تم خوش ہوجاؤ)(??) ? (??) ?
اسي طرح قرآن کريم ، پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي دو صفتوں کو بيان کرتا ہے اور فرماتا ہے : ” لَقَدْ جاء َکُمْ رَسُولٌ مِنْ ا?َنْفُسِکُمْ عَزيزٌ عَلَيْہِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنينَ رَؤُفٌ رَحيمٌ ?“ ? يقينا تمہارے پاس وہ پيغمبر آيا ہے جو تم ہي ميں سے ہے اور اس پر تمہاري ہر مصيبت شاق ہوتي ہے وہ تمہاري ہدايت کے بارے ميں حرص رکھتا ہے اور مومنين کے حال پر شفيق اور مہربان ہے(??) ?
رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) خدا کے نزديک اس قدر محبوب ہيں کہ خداوند عالم ہميشہ فرشتوں کے ساتھ آپ درود بھيجتا ہے : ” ا?ِنَّ اللَّہَ وَ مَلائِکَتَہُ يُصَلُّونَ عَلَي النَّبِيِّ يا ا?َيُّہَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْہِ وَ سَلِّمُوا تَسْليما ?“ ? بيشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صل?وات بھيجتے ہيں تو اے صاحبانِ ايمان تم بھي ان پر صل?وات بھيجتے رہو اور سلام کرتے رہو (??) ?
اسي طرح جب آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ، گنہگار بندوں کے لئے استغفار کرتے ہيں تو خدا ان کو معاف کرديتا ہے : ” وَ لَوْ ا?َنَّہُمْ ا?ِذْ ظَلَمُوا ا?َنْفُسَہُمْ جاؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّاباً رَحيما“ ? اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کيا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھي اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھي ان کے حق ميں استغفار کرتا تو يہ خدا کو بڑا ہي توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے(??) ?
ہشتم : توسل عين توحيد ہے ، شرک نہيں ہے
گذشتہ باتوں کومد نظر رکھتے ہوئے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اور اہل بيت (عليہم السلام) سے توسل کرنا شرک ہي نہيں بلکہ عين توحيد ہے ، کيونکہ توحيد کے ابعاد ميں سے ايک توحيد اطاعت اور فرمانبرداري ہے اور جو کوئي اولياء الہي سے متوسل ہوتا ہے وہ خدا کے حکم کي اطاعت کرتا ہے ،ايک مومن متوسل جانتا ہے کہ جو کچھ بھي اس دنيا ميں محقق ہوتا ہے وہ خداوند عالم کے اذن سے انجام پاتا ہے ?
مسلمان پياس کودور کرنے کيلئے پاني تلاش کرتا ہے، بھوک دور کرنے کيلئے کھانا تلاش کرتا ہے اور بيماري دور کرنے کيلئے دوائي کا استعمال کرتا ہے ليکن ان تمام باتوں کے باوجود جانتا ہے کہ يہ سب واسطہ اور اسباب ہيں ،اصلي سيراب کرنے والا ، بھوک دور کرنے والا اور حقيقي علاج کرنے والا خداوند عالم ہے ” وَ الَّذي ہُوَ يُطْعِمُني وَ يَسْقينِ، وَ ا?ِذا مَرِضْتُ فَہُوَ يَشْفين“ ? وہي کھاناديتا ہے اور وہي پاني پلاتا ہے ، اور جب بيمار ہوجاتا ہوں تو وہي شفا بھي ديتا ہے ?
اگر مسلمان ان تمام چيزوں کي تلاش ميں جاتا ہے تواس کي وجہ يہ ہے کہ ان سب چيزوں کو خداوند عالم نے خلق کيا ہے اور خداوند عالم نے يہ آثار ان کے اندر رکھے ہيں، اور يہ تمام چيزيں خدا کے اذن سے اپنا اثر چھوڑتي ہيں ?
اولياء الہي سے توسل کرنا بھي اسي ميں شامل ہے ،ہم خدا کے حکم سے گناہوں کو بخشوانے کيلئے اولياء الہي کي تلاش ميں جاتے ہيں اور مصيبتوں کودور کرنے کيلئے ان سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ ہمارے لئے دعاء کريں ، يا ہماري مشکل کو دور کريں، ليکن ہم جانتے ہيں کہ يہ سب واسطہ فيض اور الطاف الہي کو جاري کرنے والے ہيں ، ليکن جومشکل کودور کرتا ہے وہ خدا ہے جس طرح سے ہميں سيراب کرنے والا خدا ہے ?
دوسري عبارت ميں يہ کہا جائے : کبھي کبھي خدا ہماري شفاء کو کسي دوائي ميں قرار ديتا ہے اور کبھي ولي خدا کي دعاء ميں شفاء قرار ديتا ہے ، ليکن حقيقي شفاء دينے والا خدا ہے ?
اب اس اعتقاد کے ساتھ (جس کا اعتقاد ہر مسلمان کو ہے چاہے وہ زبان پر لائے يا زبان پر نہ لائے) کيا پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اور اولياء الہي سے متوسل ہونے والا مشرک ہے يا متوحد؟
کيا وہ خدا کي اطاعت کرتا ہے يا نافرماني؟
کيا وہ قابل احترام ہے يا تو ہين کا مستحق ہے؟
کيا اس کا خون محترم ہے يا وہ مہدور الدم ہے؟
ہمارا عقيدہ ہے کہ ايسا شخص احترام کے لائق ، موحد واقعي اور حقيقي مومن ہے ،يہاں تک کہا جاسکتا ہے : جو شخص رسول خدا کي کار سازي پر اعتقاد نہيں رکھتا ، مدينہ جاتا ہے ليکن رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے توسل نہيں کرتا اور خيال کرتا ہے کہ آنحضرت کچھ نہيں کرسکتے اور سورہ نساء کي آيت پر عمل نہيں کرتا وہ نافرمان ہے ، اس کو اس عقيدہ سے دست بردار ہونا چاہئے اور اپنے اس گناہ سے استغفار کرے ?
کيا اس سے بھي زيادہ وضاحت کي ضرورت ہے؟ ليکن افسوس کبھي کبھي تعصبات صحيح اور واضح مطالب کودرک کرنے کي اجازت نہيں ديتے ?
خلاصہ
?? وہابي اسلامي تمام مذاہب کے عقايد کے برخلاف اولياء الہي سے توسل کرنے کو شرک جانتے ہيں اور ان ذوات مقدسہ سے متوسل ہونے والے کو مشرک او رمہدور الدم شمار کرتے ہيں ، اس عقيدہ کي وجہ سے بہت زيادہ مسلمانوں کا خون بہايا گيا اور روزانہ بے گناہ لوگوں کا خون بہايا جارہا ہے ، دنيا ميں اسلام کے چہرہ کو خراب کررہے ہيں ? يہ بات واضح ہوگئي ہے کہ حقيقت ميں اولياء الہي سے توسل کرنا ان کو واسطہ اور شفيع قرار دينا ہے اور اس عمل کي اساس قرآن کريم ميں پائي جاتي ہے ، کيونکہ انبياء الہي خداوندعالم کي اجازت سے لوگوں کي مشکل کشائي کرتے ہيں، گناہگاروں کے لئے استغفار کرتے ہيں اور خداوندعالم بھي گنہگار مسلمانوں کو اس کے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے پاس جانے کي وجہ سے معاف کرديتا ہے ?
?? روايات اور تاريخي واقعات سے معلوم ہوگيا کہ مسلمان ،پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي زندگي ميں آپ کے پاس جاتے تھے اور آپ سے دعا کي درخواست کرتے تھے اور خدا کو اس کے رسول کي عظمت کا واسطہ ديتے تھے تاکہ ان کي حاجت پوري ہوجائے ?
?? اسي طرح يہ بات بھي واضح ہوگئي کہ آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے خاکي وجود سے پہلے اور آپ کي رحلت کے بعد آپ سے توسل کيا گيا اور آپ کي برکت سے مشکل دور ہوگئي ?
?? پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے علاوہ دوسرے اولياء الہي سے بھي مسلمان متوسل ہوتے تھے ،کيونکہ اوليائے الہي سے توسل کرنے کے معني يہ نہيں ہيں کہ ان کو خدا سے مستقل سمجھيں،بلکہ اولياء الہي کو خداوندعالم کي بندگي کرنے کے سايہ ميں جو معنوي مقام حاصل ہوتا ہے اس کے ذريعہ وہ واسطہ فيض ہوتے ہيں اور ان کي دعاء کي برکت سے خداوند عالم ان کي مشکلات اور گناہوں کو دور کرديتا ہے ?
?? وہابيوں کي اہم غلطي يہ ہے کہ وہ معتقد ہيں اولياء الہي سے مرنے کے بعد توسل جائز نہيں ہے ، کيونکہ مرنے سے تمام چيزيں ختم ہوجاتي ہيں، اور وہ توسل کرنےوالوں کي آواز کو نہيں سنتے ، اس کا جواب ديا گيا کہ اولا : اگر فرض کرليں کہ وہ ہمارے حال و احوال اور ہمارے مقام سے آگاہ نہيں ہيں تو کم سے کم يہ بات کہي جاسکتي ہے کہ ہمارا ان سے اور دوسرے اولياء الہي سے توسل کرنا بيکار اور بيہودہ ہے ليکن شرک پھر بھي نہيں ہے ?
ثانيا : موت کے معني فنا اور نابود ہونے کے نہيں ہيں، بلکہ ايک زندگي سے دوسري زندگي کي طرف منتقل ہونے کا نام موت ہے ?
ثالثا : متعدد آيات و روايات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ہمارے کلام کو سنتے ہيں ،ہمارا سلام ان تک پہنچتا ہے اور وہ اس کا جواب ديتے ہيں اور يہ سب چيزيں اس بات کي علامت ہيں کہ پيغمبر اکر (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اپني امت سے آگاہ ہيں ?
?? ايک جدا بحث ميں توسل کا فلسفہ بيان کيا گيا اور اس ميں کہا گيا کہ اولياء الہي سے توسل کے ذريعہ انسان اپني دعاؤں کي اجابت کے لئے ليک نزديکي راستہ اختيار کرتا ہے اسي طرح دوسرا فلسفہ يہ ہے کہ خداوند عالم نے اولياء الہي سے توسل کرنے کا حکم ديا ہے ?
واضح ہوگيا کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) ،خداوند عالم کے نزديک محبوب ہيں اور خداوند عالم نے قرآن کريم ميں مختلف طرح سے آپ کي تعظيم و تکريم بيان کي ہے اور آپ سے توسل کرنا بھي ايک قسم کي تعظيم ہے ?
?? آخري بات يہ ہے کہ صرف توسل کرنا شرک ہي نہيںبلکہ عين عبادت ہے کيونکہ يہ خداوند عالم کے فرمان کي اطاعت ميں شامل ہے اور ولي خدا سے توسل کرنے والا کامل طور سے جانتا ہے کہ يہ بزرگ حضرات صرف واسطہ فيض ہيں ? جو يہ خيال کرتا ہے کہ رسول خدا اور ولي خدا (مرنے کے بعد) کوئي کام نہيں کرسکتے اس کو استغفار کرنا چاہئے اوراپنے عقيدہ کو بدل کر فرمانبردار مسلمانوں ميںشامل ہونا چاہئے ،اختلاف ،اتہام ،خشونت اور اسلام کے نام پر دوسروں کا خون بہانے سے دست بردار ہونا چاہئے ?
حوالہ جات :
?? سورہ مائدہ ، آيت ???
?? مجموعہ مولفات شيخ محمد بن عبدالوہاب، ج ? ، ص ????
?? مجموعہ مولفات شيخ محمد بن عبدالوہاب، ج ? ، ص ????
?? گذشتہ حوالہ ، ص ??? ، ???، ??? ، ??? ، ??? ? اس نکتہ کي طرف توجہ ضروري ہے کہ اجماع مذاہب کا دعوي کرنا صحيح نہيں ہے ? موسوعيہ کويتيہ ميں بيان ہوا ہے : مالکي اور شافعي کے تمام فقہاء اور حنبلي مذہب کے علماء متاخرين کا عقيدہ ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کو اپنے اور خدا کے درميا ن واسطہ قرار دينا چاہے ان کي زندگي ميں اور چاہے مرنے کے بعد ، جائز ہے (ذهب جمهور الفقهاء ـ المالکية والشافعية ومتأخرى الحنفية وهو المذهب عند الحنابلة الى جواز هذا النوع من التوسّل سواء فى حياة النبىّ او بعد وفاته)، (الموسوعة الفقيهة الکويته، ج 14، ص 156) اس کتاب ميں دوسرے مآخذ بھي نقل ہوئے ہيں ?
?? «يجوز للمسلم ان يتزوّج کتابيّة ـ يهوديّة أو نصرانيّة ـ اذا کانت محصنة وهى الحرّة العفيفة; مسلمان مرد کا يہودي يا عيسائي عورت سے شادي کرنا (اگر عفيف ہو) جائز ہے ? (فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية و الافتاء، ج 18، ص 315).
?? گذشتہ حوالہ ، ص ???و ????
?? گذشتہ حوالہ،ج ?، ص ????
?? کتاب العين ، لفظ وسل?
?? لسان العرب ، لفظ وسل?
??? آية اللہ العظمي مکارم شيرازي کي کتاب ”شيعہ جواب ديتے ہيں“ ، ص ???? ????
??? سورہ بقرة ، آيت ???
??? آپ نے ان کے جواب ميں نہيں فرمايا کہ تمہارا يہ عمل شرک آميز ہے بلکہ فرمايا : کيا بہتر غذا کي جگہ خراب اور پست غذا کاانتخاب کرتے ہو؟ اس کے بعد فرمايا : اب جب کہ تم ايسا چاہتے ہو تو اس بيابان سے شہر کي طرف جانے کي کوشش کرو کيونکہ وہاں پر جو تم چاہو گے وہ تمہيں مل جائے گا ?
??? سورہ يوسف، آيت ?? و ???
??? سورہ نساء ، آيت ???
??? سنن ترمذى، ج 5، ص 229، ح 3649 ترمذي نے حديث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : يہ حديث حسن اور صحيح ہے ? سنن ابن ماجہ ، ج?، ص ??? ، ؛ ????? ( ابن ماجہ کے نقل کے مطابق پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے اس سے فرمايا : وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھو اور پھر يہ دعاء پڑھو ، ابن ماجہ نے بھي ابواسحاق سے نقل کيا ہے : يہ حديث صحيح ہے) ?
??? مستدرک حاکم، ج? ، ص ????
??? مسند احمد ، ج ?،ص ????
??? صحيح بخاري ، ج ? ، ص ??? ? کتاب الجمعہ : يہ واقعہ کچھ فرق کے ساتھ صحيح مسلم کي ج ?، ص ????? پر ذکر ہوا ہے ?
??? سورہ زمر ، آيت ???
??? مستدرک حاکم، ج ? ، ص ???? متقي ہندي نے اس حديث کو کنز العمال ، ج??، ص ???، ح ????? ميں، ابن عساکر نے تاريخ مدينہ دمشق ، ج ??، ص ??? ميں نقل کيا ہے ? سيوطي نے تفسير در المنثور (ج?، ص ?? ? ??) ميں ابن عباس سے نقل کيا ہے کہ انہوں نے رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) سے ان کلمات کے بارے ميں سوال کيا جن کے ذريعہ حضرت آدم نے توبہ کي تھي ؟ فرمايا : ” سال بحق محمد و علي و فاطمة والحسن والحسين الا تبت علي فتاب عليہ“? خداوند عالم کو محمد ، علي ، فاطمہ ، حسن اور حسين کے مقام کا واسطہ دے کر پکارا تو ان کي توبہ قبول ہوگئي ? اس روايت کو حاکم حسکاني نے بھي شواہدالتنزيل ميں نقل کيا ہے ?
??? دلائل النبوة ، بيہقي، ج ?، ص ??، باب ما جاء في روية النبي (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) في المنام? مصنف ابن ابي شيبہ، ج ?، ص ??? ? ???، ح ??? الاستيعاب ، ج ?، ص ????
کنزالعمال، ج8، ص 431، ح 23535; تاريخ مدينة دمشق، ج 44، ص 345; تاريخ الاسلام ذهبى، ج 3، ص 273.
??? ديوان الامام الاشافعي، ص ?? (ناشر مکتبة الاداب، قاہرة، چاپ دوم ، ????، تدقيق و تحقيق، صالح الشاعر) صالح شاعر نے مذکورہ اشعار ميں ذريعہ کو شفيع اور وسيلہ کے معني ميں استعمال کيا ہے ?
??? قرآن کريم فرماتا ہے : ” حَتَّي ا?ِذا جاء َ ا?َحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنا “ ? جب تم ميں سے کسي کي موت آتي ہے تو ہمارے فرشتہ اس کي روح قبض کرليتے ہيں (سورہ انعام، آيت ??) ?
??? احمد العيني (متوفي ???) نے کتاب عمدةالقاري ميں جو کہ صحيح بخاري کي شرح ہے ، موت کے بارے ميں لکھا ہے : ” الموت ليس بعدم انما ھو انتقال من دار الي دار، فاذا کان ھذا للشھداء کان الانبياء بذلک احق و اولي“? موت ،نابود ہونے کا نام نہيں ہے بلکہ موت کي حقيقت ايک جگہ سے دوسري جگہ منتقل ہونا ہے ،جب شہداء کے لئے ايسا ہے کہ وہ نابود نہيں ہوتے اورزندہ ہيں تو پھر انبياء ان سے بھي زيادہ اس مقام کے مستحق ہيں، اس کے بعد کہتا ہے : ” مع انہ صح عنہ ان الارض لا تاکل اجساد الانبياء“ ? اس کے علاوہ صحيح روايت ہے کہ زمين ، انبياء کے جسم کو نابود نہيں کرتي ? اس کے بعد نتيجہ نکالتا ہے کہ انبياء اگر چہ مرنے کے بعد ہماري آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوجاتے ہيں اور ہم ان کو نہيں ديکھ پاتے ، ليکن يقيني طور پر وہ زندہ ہيں، ان کي مثال فرشتوں کي طرح ہے جو موجود ہيں، زندہ ہيں ليکن ہم ان کو نہيںديکھ پاتے ، اگر خداوند عالم کسي کو اپني مخصوص کرامت عطا کردے تو وہ فرشتوں کوديکھ سکتا ہے (عمدة القاري، ج ??، ص ???) ? قرطبي سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے استاد سے نقل کيا ہے : موت نابودي کا نام نہيں ہے بلکہ ايک حالت سے دوسري حالت ميں منتقل ہونے کو موت کہتے ہيں اور جب شہداء زندہ ہيں، اور خدا کے نزديک روزي حاصل کرتے ہيں (وہي صفتيں جو دنيا ميں زندہ لوگوں کو حاصل ہيں) تو يقينا انبياء ان خصوصيات کے زيادہ مستحق ہيں ? سبل الھدي والرشاد، صالحي شامي، ج ??، ص ????
??? سورہ آل عمران، آيت ????
?? ? سنن ابي داؤد ، ج ?، ص ???? مسند احمد ، ج ?،ص ????
??? محيي الدين نووي نے المجموع ، ج ?، ص ??? ميں اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : ”رواہ ابواداؤد باسناد صحيح “ ? اس روايت کو ابوداؤد نے صحيح سند کے ساتھ نقل کيا ہے ?
??? مسند احمد، ج 2، ص 527 ; سنن ابى داود، ج 1، ص 453 .
??? محيي الدين نووي نے مذکورہ حديث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : ”رواہ ابوداؤد باسناد صحيح “ (المجموع ، ج ?، ص ???) ? البتہ ہمارے نظريہ کہ جب بھي ہم پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کو سلام کرتے ہيں تو ان کي روح دوبارہ آپ کے جسم ميں آجاتي ہے تاکہ آپ اس کا جواب دے سکيں، پھر بدن سے خارج ہوجاتي ہے،زيادہ واضح نہيں ہے کيونکہ اس کا لازمہ يہ ہے کہ روزانہ لاکھوں افراد آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کو سلام کرتے ہيں ، توپھر ہر مرتبہ روح جسم ميں واپس آئے اور خارج ہو ، يا ہميشہ جسم ميں باقي رہے ? اس حديث کو استدلال کي وجہ سے نقل کيا ہے کيونکہ وہ لوگ ان کتابوں کوقبول کرتے ہيں ورنہ ہمارا عقيدہ ہے کہ روح ہي سلام کا جواب ديتي ہے ?
??? المجموع نووي، ج?، ص ???? نووي نے تشہد اور سلام کو دوسري طرح سے نقل کيا ہے ليکن اس ميں پيغمبر اکرم پر سلام ذکر ہوا ہے (گذشتہ حوالہ، ص ???) ?
??? مسند احمد، ج 1، ص 387، سنن دارمى، ج 2، ص 317; سنن نسائى، ج 3، ص 43; مستدرک حاکم، ج 2، ص 421. حاکم نے حديث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : ”صحيح الاسناد“? اس کي سند صحيح ہے ?
44 . نساء، آيه 41.
45 . ر.ک: التحرير و التنوير، ج 4، ص 130; تفسير ابن کثير، ج 2، ص 269 ـ 270; جامع البيان، ج 5، ص 59 ـ 60; روح المعانى، ج 3، ص 33 ـ 34.
46 . الدر المنثور، ج 1، ص 237.
??? گذشتہ حوالہ ، شايد اسي دليل کي وجہ سے سيوطي نے لکھا ہے : عمر بن عبدالعزيز نے اپنا نمايندہ مدينہ بھيجا تاکہ وہ اس کا سلام آنحضرت(صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) کو پہنچا دے ?
48 . الدرّ المنثور، ج 5، ص 219; کنزالعمال، ج 15، ص 652، ح 42584.
49 . بقره، آيه 186.
??? خداوند عالم نے عيسي (عليہ السلام) کے بارے ميں فرمايا : ” وجيھا في الدنيا والآخرة و من المقربين“ ? وہ دنيا و آخرت ميں آبرومند ہيں اور اللہ کے
نزديک بہت مقرب ہيں (سورہ آل عمران، آيت ??) ?
51 . سوره حجر، آيه 72.
52 . سوره بقره، آيه 144.
53 . سوره ضحى، آيه 1.
54 . مفاتيح الغيب (تفسير فخر رازى)، ج 4، ص 82.
55 . توبه، آيه 128.
56 . احزاب، آيه 56.
57 . نساء، آيه 64.
58 . سوره شعرا، آيه 79 و 80.
فہرست مآخذ
1. قرآن کريم
2. الاستيعاب فى معرفة الاصحاب، ابوعمر يوسف بن عبدالله بن محمد بن عبدالبر، تحقيق على محمد البجاوى، دارالجيل، بيروت، چاپ اوّل، 1412ق.
3. البداية والنهاية، ابن کثير دمشقى، دارالفکر، بيروت، 1407ق.
4. تاريخ الاسلام، شمس الدين محمد ذهبى، تحقيق عمر عبدالسلام، دارالکتاب العربى، بيروت، چاپ دوم، 1413ق.
5. تاريخ بغداد، خطيب بغدادى، تحقيق مصطفى عبدالقادر عطا، دارالکتب العلمية، بيروت، 1417ق.
6. تاريخ مدينة دمشق، ابن عساکر دمشقى، دارالفکر، بيروت، 1415ق.
7. التحرير والتنوير، محمد بن طاهر (ابن عاشور)، مؤسسة التاريخ، بيروت، چاپ اوّل، 1420ق.
8. تفسير القرآن العظيم (تفسير ابن کثير)، ابن کثير دمشقى، دارالکتب العلمية، منشورات محمد على بيضون، بيروت، 1419ق.
9. الثقات، محمد بن حبان، مؤسسة الکتب الثقافية، حيدرآباد هند، 1393ق.
10. جامع البيان فى تفسير القرآن (تفسير طبرى)، محمد بن جرير طبرى، دارالمعرفة، بيروت، 1412ق.
11. الدرّ المنثور، جلال الدين سيوطى، دارالفکر، بيروت، 1423ق.
12. دلائل النبوة، احمد بن حسين بيهقى، تحقيق عبدالمعطى قلعجى، دارالکتب العلمية، بيروت، 1405ق.
13. ديوان الإمام الشافعى، تدقيق وتحقيق صالح الشاعر، مکتبة الآداب، قاهرة، چاپ دوم، 1427ق.
14. روح المعانى فى تفسير القرآن العظيم، سيد محمود آلوسى، دارالکتب العلمية، بيروت، 1415ق.
15. سبل الهدى والرشاد، صالحى شامى، تحقيق عادل احمد عبدالموجود، دارالکتب العلمية، بيروت، 1414ق.
16. سنن ابن ماجه، محمد بن يزيد قزوينى، تحقيق محمد فؤاد عبدالباقى، دارالفکر، بيروت، بى تا.
17. سنن ابى داود، ابن اشعث سجستانى، تحقيق سعيد محمد اللحام، دارالفکر، بيروت، 1410ق.
18. سنن ترمذى، ابوعيسى ترمذى، تحقيق عبدالرحمن محمد عثمان، دارالفکر، بيروت، چاپ اوّل، 1424ق.
19. سنن دارمى، عبدالله بن بهرام دارمى، مطبعة الحديثة، دمشق.
20. سنن نسائى، احمد بن شعيب نسائى، دارالفکر، بيروت، 1930م.
21. شواهد التنزيل، حاکم حسکانى، مجمع الإحياء الثقافة الاسلامية، چاپ اول، بى تا.
22. شيخ پاسخ مى گويد، آيت الله مکارم شيرازى، انتشارات امام على بن ابى طالب(عليه السلام)، چاپ يازدهم، 1387ش.
23. صحيح بخارى، ابوعبدالله محمد بن اسماعيل بخارى، دارالجيل، بيروت.
24. صحيح مسلم، مسلم بن حجّاج نيشابورى، دارالفکر، بيروت.
25. عمدة القارى، بدرالدين محمود بن احمد العينى، دار احياء التراث العربى، بيروت.
26. فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء، جمع وترتيب احمد بن عبدالرزاق الدرويش، دارالمؤيد، رياض، چاپ پنجم، 1424ق.
27. فتح البارى، احمد بن على بن حجر عسقلانى، دارالمعرفة، بيروت، چاپ دوم.
28. کتاب العين، خليل بن احمد فراهيدى، مؤسسه دارالهجرة، چاپ دوم، 1409ق.
29. کنزالعمّال، متقى هندى، مؤسّسة الرسالة، بيروت، 1409ق.
30. لسان العرب، ابن منظور اندلسى، دارصادر، بيروت، 1997م.
31. مجمع الزوائد، نورالدين ابوبکر هيثمى، دارالکتب العلمية، بيروت، 1408ق.
32. المجموع شرح المهذب، محيى الدين بن شرف نووى، دارالفکر، بيروت.
33. مجموعه مؤلفات شيخ محمد عبدالوهاب، عربستان سعودى، چاپ دوم، 1422ق.
34. المستدرک على الصحيحين (مستدرک حاکم)، حاکم نيشابورى، تحقيق يوسف عبدالرحمن مرعشلى.
35. مسند احمد، احمد بن حنبل، دارصادر، بيروت.
36. المصنف، ابن ابى شيبه کوفى، تحقيق سعيد اللحام، دارالفکر، بيروت، چاپ اوّل، 1409ق.
37. مفاتيح الغيب، فخرالدين رازى، دار احياء التراث العربى، بيروت، چاپ سوم، 1420ق.
38. الموسوعة الفقهية (الکويتية)، وزارة الاوقاف والشؤون الاسلامية، کويت، چاپ سوم، 1421ق.
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
''وما اَفائَ اللّٰہُ علیٰ رسولہ منھم فما اَوجَفتم علیہ من خَیلٍ ولا رکابٍ و لکنّ اللّٰہ یُسلّطُ رُسُلَہ علیٰ من یشائُ و اللّٰہ علیٰ کلّ شیئٍ قدیر '' ١
''خداوند عالم نے جو مال ان (یہودیوں)کی طرف سے اپنے رسول کو دلوایا ہے وہ چیز ہے کہ جس کو حاصل کرنے کے لئے تم نے نہ کوئی زحمت کی، نہ کوئی گھوڑے دوڑائے اور نہ کوئی اونٹ ،لیکن خداوند عالم جس پر چاہتا ہے اپنے رسولوں کو غلبہ عنایت کرتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔''
علمائے جغرافیہ ،محدثین اور اخبار آل محمد کے راویوں کی تحقیق کی بناء پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فدک خیبر کی سرزمین پر ایک قریہ ہے اور بہت زر خیز سرزمین ہے اور فدک کو فدک اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کی سب سے زیادہ پیداوارروئی تھی اور لغت میںفدک کے معنی روئی کا پراکندہ ہونا ہے ۔
تحقیق کے مطابق اس سرزمین پر کھجور کے درخت بہت زیادہ تھے اورعباسی خلفاء کے دور تک یہ سرزمین آباد تھی اور بعد میں کسی علت کی بناء پر ویران ہوگئی۔ ٢
یہ سرزمین ٧ ھ میں رسول خدا ۖکے تصرف میں آئی اور اس زرخیز زمین کی دوری مدینہ تک ١٦٠کیلو میٹر ہے چنانچہ اسلامی تاریخ اور روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جب باغ فدک اور اس کی سرزمین رسول خد ا ۖکے اختیار میں آئی تو درخت سرسبز و شاداب اور پھلوں سے بھرے ہوئے تھے اور ان درختوں کی تعداد شہر کوفہ کے تمام درختوں کے برابر تھی۔ ٣
جنگ خیبر مولائے کائنات علی ابن ابی طالب ـکے ہاتھوں فتح ہوئی جس کے نتیجہ میں دشمنوں کے دل میں ایک عجیب و غریب خوف و ہراس طاری ہوا،فدک کے لوگ جو خیبر والوں سے بہت قریب تھے انھیں بہت زیادہ وحشت تھی اوروہ بہت ڈرے ہوئے تھے اسی وجہ سے ایک شخص کو پیغمبر اسلام ۖکی خدمت میں روانہ کیا اور یہ پیشکش کی کہ ہم سالانہ پیداوار کا آدھا حصہ آپ کو دینے کے لئے تیار ہیں اور اس کے مقابلہ میں لشکر اسلام سے ہماری جان ،مال اور ناموس کی حفاظت ہو ،پیغمبر اسلام ۖجو ہمیشہ صلح و آشتی کے قائل تھے اس پیشکش کو قبول کیا اور صلح نامہ لکھا گیا ،اس تاریخ سے پیداوارکا آدھا حصہ پیغمبر ۖسے مخصوص ہوگیا اور ان کی ملکیت میں آگیا۔
سورۂ حشر آیت نمبر ٦ کے مطابق وہ سرزمین جو بغیر جنگ کے سپاہ اسلام کے تصرف میں آئی ہے اسے فَے کہا جاتا ہے اور اس طرح کے اموال پیغمبر ۖسے مخصوص ہیںاور انھیں پورا اختیار ہے وہ جیسے چاہیںاور جہاں چاہیں تصرف کرسکتے ہیں ،رسول خدا ۖفدک کی درآمد کو سورۂ روم آیت نمبر ٧کے مطابق فقراء ،مساکین اور تمام ضرورت مند افراد منجملہ اپنے قرابتداروں پر خر چ کرتے تھے ،لیکن ابن عباس اور تمام مفسرین کی نقل کے مطابق جب سورۂ روم کی ٣٨ویں آیت نازل ہوئی ٤ تو پروردگار عالم نے پیغمبر ۖکو حکم دیا کہ فدک حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کو عطا کردیں ،پیغمبرۖ نے اس حکم کی تعمیل کی اور فدک حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کوعطا کر دیا٥،اس تاریخ سے حضرت فاطمۂ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے فدک کے امور خود اپنے ہاتھ میں لے لئے اور ان کی ملکیت میں آگئی۔ ٦
ہارون رشید نے ساتویں امام سے کہا:'' حُدَّ (خُذ) فدکاًاَرُدُّھاالیک '' یعنی فدک کی حد معین کیجئے میں فدک آپ کو واپس کردوں گا امام نے منفی جواب دیا اور لینے سے نکار کردیا ،ہارون نے بہت اصرار کیا تو امام نے فرمایا :اگر تم دینے پر تیار ہو تو سنو باغ فدک کو اس کے تمام حدود کے ساتھ واپس کرنا ہوگاجو اس کے واقعی اور حقیقی حدود ہیں ہارون نے کہا: واقعی اور حقیقی حدود کیا ہیں ؟امام نے فرمایا:اگر میں اس کے واقعی حدود بیان کردوں تو تم موافقت نہیں کرو گے اور واپس کرنے سے انکار کردوگے ہارون نے کہا:آپ کے جد کے حق کی قسم اس کے حدود بیان کیجئے:
امام نے فرمایا:اس کی پہلی حد سرزمین عدن ہے ،جب ہارون نے یہ سنا تو اس کا چہرہ دگرگوں ہوگیا اور کہا عجب !عجب!
اس کے بعدامام نے فرمایا:اس کی دوسری حد سمرقند ہے یہ سن کر اس کے چہرے پر ناراضگی کے آثار نمایاں ہوگئے اوراس کا چہرہ لال پیلا ہونے لگا۔
پھر امام نے فرمایا:اس کی تیسری حد افریقہ ہے ،غصہ سے ہارون کا چہرہ سیاہ ہوگیا اور کہا :عجب!!!
پھر امام نے فرمایا:اس کی چوتھی حد دریائے خزر اور ارمنستان کے سواحل ہیں،غصہ میں آکرہارون نے کہا: پس میرے پاس تو کچھ نہیں بچے گا اب آپ یہاںسے اٹھیئے اور میری جگہ بیٹھ کر لوگوں پر حکومت کیجئے ۔
امام نے فرمایا:میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا کہ اگر میں اس کے حدود بیان کردوں گا تو تم ہرگز مجھے واپس نہیں کرو گے ٧ ۔ یہی وہ باتیں ہیں کہ جن کی وجہ سے ہارون ،امام کو شہید کرنے کے درپے ہوگیا۔
فدک حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کا ہدیہ
کئی روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر ۖ نے فدک حضرت فاطمۂ زہراسلام اللہ علیہاکو ہدیہ کردیا ہے ،اہلسنت کی تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں اس کے بارے میں مختلف روایتیں نقل ہوئی ہیں ،وہ بیان کرتے ہیں کہ پیغمبرۖ نے فدک حضرت فاطمۂ زہراسلام اللہ علیہاکو عطا کردیا۔
اہلسنت کی کتابوں میںسے ایک کتاب شواہد التنزیل ہے کہ جس میں اہلبیت علیہم السلام کی شان میں نازل شدہ آیتوں کی تحقیق کی گئی ہے کہ آیۂ ''وأتِ ذاالقربیٰ حقّہ''کے ذیل میں سات واسطوں سے ثابت کیا ہے کہ رسول خداۖنے فدک حضرت فاطمۂ زہراسلام اللہ علیہاکو عطا کیا ہے۔
اس روایت کی سند کو ابی سعید خدری پر ختم کرتے ہیں،سوائے ایک مورد کے کہ حضرت امیرالمومنین ـسے نقل کیا ہے ، ٨ لیکن وہ روایات کہ جس کو سات طریقوں سے نقل کیا ہے وہ یہ ہے :
لمّا نزلت''وأت ذاالقربیٰ حقّہ٩ ''دعا رسول اللّٰہۖ فاطمة فاعطاھافدکاً۔١٠
جب آیۂ''وأت ذاالقربیٰ حقّہ''نازل ہوئی تو رسول خداۖنے فاطمہ سلام اللہ علیہاکو بلایا اور انھیں فدک عطاکردیا۔حافظ ہیثمی اسی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
''دعا رسول اللّٰہۖ فاطمة فاعطاھافدکاً''١١
درمنثور میں سیوطی نے اس روایت کی سند کو دو افراد پر ختم کیا ہے ،ایک ابی سعید پر اور دوسرے ابن عباس پر۔١٢
ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر ۖنے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کو بلایا اور فدک الگ کرکے انھیں عطا کردیا۔
ٰلیکن علمائے شیعہ کے نزدیک واضح ہے کہ رسول خدا ۖنے حکم الٰہی سے حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کو فدک عطافرمایا،مگر ہم ایک روایت پر اکتفاء کرتے ہیں جو مختلف کتابوں میں نقل ہوئی ہے:
جب آیۂ ''وأت ذاالقربیٰ حقّہ'' ١٣ نازل ہوئی تو پیغمبرۖ نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ ذاالقربی کون ہیں؟ پروردگار عالم کی طرف سے جبرئیل نے وحی نازل کی کہ فدک حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کو ہدیہ کردو ،رسول خداۖ نے حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کو بلایا اور فرمایاخدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم کو فدک عطا کردوں ،حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے اس ہدیہ کو قبول کیا اور جب تک پیغمبرۖ باحیات تھے حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کے نمائندے کام کرتے رہے۔
بعض مورخین نے لکھا ہے ١٤ کہ حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے ابتداء میں عرض کیا کہ آپ مجھ سے بہتر ہیں جب تک آپ موجود ہیں میں اس میں تصرف نہیں کروں گی ،پیغمبر ۖنے فرمایا مجھے گوارہ نہیں ہے کہ لوگ میرے بعد تمھارے لئے مشکل ایجاد کریں اور فدک تم سے چھین لیں ،حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے عرض کیا :آپ جو حکم فرمائیں ۔
رسول خدا ۖنے اپنی بیٹی کے گھر لوگوں کو جمع کیا اور ان کے درمیان اعلان فرمایا:فدک فاطمہ کی ملکیت ہے اور پیغمبرۖ یہ اعلان ہر سال لوگوں کے سامنے فرماتے تھے ۔
جب رسول خداۖ رحلت فرماگئے تو سقیفہ ٔ بنی ساعدہ میں ایک گروہ نے اجتماع کیا اور سابقہ نقشہ کے مطابق ابو بکر کو تخت خلافت پر بٹھادیا ،تخت خلافت پر بیٹھنے کے بعد اس نے فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کے نمائندوں کو فدک سے باہر نکال دیا اور اسے غصب کرلیااور ابن ابی الحدید کی نقل کے مطابق اس نے فدک کو رسول خداۖ کی رحلت کے دس دن بعد غصب کیا تھا ۔١٥
فدک کے متعلق فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کا مطالبہ
یہ واقعہ ضروریات تاریخ میں سے ہے جیسا کہ شیعہ اور سنی کی روایتوں میں آیا ہے اس موضوع کے متعلق کسی کو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے اور سب نے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)نے فدک کا مطالبہ کیا اور بڑی سختی سے مطالبہ کیا یہاں تک کہ ان دو نوں کے متعلق فرمایا :میں تم دونوں سے بات نہیںکروں گی ،علمائے شیعہ اور اہل سنت کے بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) دنیا سے چلی گئیں اس حال میں کہ ان دونوں سے بہت زیادہ ناراض تھیں ۔
شیعہ و سنی دونوں فرقوں نے لکھا ہے کہ جب فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے فدک کا مطالبہ کیا تو ابوبکر نے آپ سے بینہ اور شاہد طلب کیا،لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کے لئے گواہ کی ضرورت ہے ؟جی نہیں ،لیکن فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے مجبور ہوکر اپنی حقانیت کو ثابت کر نے کے لئے بینہ پیش کیا ۔
حضرت امام علی ـاور ام ایمن دونوں نے گواہی دی کہ فدک حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کی ملکیت ہے ،لیکن ابو بکر کا جواب یہ تھا کہ ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی کافی نہیں ہے بلکہ دو مرد یا ایک مرد اوردو عورتوں کا ہونا ضروری ہے ...البتہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)اس مسئلہ کی طرف متوجہ تھیں ،لیکن اس مقام پر قضیہ ٔاختلاف قضاوت کے عنوان سے نہیں تھا کیوں کہ اس مقام پر ابوبکر خود ہی قاضی بھی تھے اور مدعی بھی ،اگر واقعی اور حقیقی قضاوت تھی تو قاضی کو ایک تیسرا شخص ہونا چاہیئے ،اس بناء پر اس مقام پر ایک گواہ کافی تھا جو مدعی کی بات کی تصدیق کرتا اور قصہ تمام ہوجاتا ،اس کے باوجود فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) دوسری مرتبہ علی ـ،ام ایمن ،اسماء بنت عمیس ،حضرت امام حسن مجبتیٰ اور حضرت امام حسین مظلوم کربلا کو گواہ کے عنوان سے اپنے ہمراہ لے کر آئیں پھر بھی ابوبکر نے قبول نہیں کیااس لئے کہ حضرت علی ـ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کے شوہر ،حسن اور حسین ان کے بیٹے ہیں اور فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کی طرفداری کریں گے اور ان کے نفع میں گواہی دیں گے ،لیکن اسماء بنت عمیس کی گواہی اس وجہ سے قبول نہیں ہوئی کہ جعفر بن ابی طالب کی زوجہ تھیں اور بنی ہاشم کے نفع میں گواہی دیں گی اور ام ایمن کی گواہی بھی قبول نہیں ہوئی اس لئے کہ غیر عرب (عجمی)عورت ہیں اور مطالب کو واضح طور پر بیان نہیں کرسکتیں ہیں ،لیکن یہ سوال کرنا ضروری ہے کہ فاطمہ(سلام اللہ علیہا)،علی ،حسن اور حسین جو آیۂ تطہیر کی بنیاد پر ہر رجس سے دور اور پاک ہیں کیا ان کی باتیں قابل قبول نہیں ہیں ؟
یہاں پر مناسب ہے کہ ہم اس واقعہ کی طرف متوجہ ہوں کہ جس کو شرح نہج البلاغہ میں ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے ،وہ کہتے ہیں ؛میں نے مدرسۂ بغداد کے مدیر علی بن فارقی سے پوچھا :کیا فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)اپنے دعوے میں سچی تھیں ؟انھوں نے جواب دیا :ہاں،میں نے دوبارہ پوچھا:پس ابوبکر نے انھیں فدک واپس کیوں نہیں کیا ؟جب کہ وہ جانتے تھے کہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)سچ کہہ رہی ہیں ؟استاد مسکرائے اس کے بعد ایک لطیف اورطنزیہ جملہ کہاجب کہ وہ اس طرح کا مذاق نہیں کرتے تھے انھوں نے کہا :اگر پہلے دن صرف حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کے دعویٰ کرنے کی بناء پرفدک واپس کردیتے تو کل کے دن حضر ت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)اپنے شوہر علی ـ کی خلافت کا دعویٰ پیش کرتیں تو ابوبکر کو مقام خلافت چھوڑنا پڑتا اور اس مقام پر ز مامدار خلافت کا عذر قابل قبول نہ تھا اور چونکہ پہلے انھوں نے خود پیغمبرۖ کی بیٹی کی صداقت اور سچائی کا اقرار کرلیا تھا اس لئے اب اس کے بعد جو بھی دعویٰ کرتیں اسے بغیر بینہ اور گواہ کے قبول کرنا ضروری ہوجاتا ۔
ابن ابی الحدید مزید کہتے ہیں کہ یہ بات صحیح ہے اگر چہ استاد نے اسے مذاق اور شوخی کے عنوان سے بیان کیا ہے ۔١٦
سچ مچ یہ سوال کرنا ضروری ہے کہ وہ علی کہ جس کو پیغمبرۖ ''اقضی الامة'' اور ''صدیق اکبر''جانتے ہیں اور فرماتے ہیں: ''علیّ مع الحق و الحقّ مع علی،یدور معہ حیثما دار''یعنی علی حق کے ساتھ ہیں اورحق علی کے ساتھ ہے اور حق کبھی بھی علی سے جدا نہیں ہوگا اور انھیں مومنین کا مولا اور مومنین کے نفس کی نسبت اولیٰ بالتصرف جانتے ہیں ،کیا فدک جیسی ایک ٹکڑا زمین کے متعلق ان کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ؟
کیا اس مقام پر وہ ناحق گواہی دے رہے ہیں ؟یقیناً ایسا نہیں ہے ،بلکہ کہنا چاہیئے کہ ابوبکر اور عمر کی پوری کوشش یہ تھی کہ باغ فدک کہ جس کی درآمدبے حدہے علی اور فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کے اختیار میں نہ جائے اور اس کی درآمد حکومت کو نابود کرنے میں خرچ نہ کرنے پائیںیا یہ کہ بخل اور حسد کی بناء پر تھا جیسا کہ خود حضرت علی ـ نے اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے :
''بلیٰ کانت فی ایدینا فدک من کلّ ما اضلّتہ السّماء فشحّت علیھا نفوس قوم و شحّت عنھا نفوس آخرین و نعم الحکم اللّٰہ ''١٧
''ہر وہ چیز کہ جس پر آسمان سایہ فگن ہوتا ہے ان میں سے ہمارے ہاتھ میں صرف فدک تھا لیکن اس پر بعض گروہ نے بخل اختیار کیا جب کہ دوسرے گروہ نے سخاوت کے طور پر اس سے نظر انداز کیا اور سب سے اچھا قاضی خدا ہے '' ١٨
عمر کے لئے فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کی بد دعا
شیخ قمی لکھتے ہیں جب فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)نے ابوبکر سے فدک کا نوشتہ لیا اور باہر آئیں تو راستے میں عمر بن خطاب سے ملاقات ہوئی اور اس نے صدیقۂ طاہرہ سے پوچھا :آپ کہاں سے آرہی ہیں اور خلیفہ کے ساتھ آپ کا مسئلۂ نزاع کہاں تک پہونچا ؟سیدة نساء العالمین نے فرمایا:یہ ایک نوشتہ مجھے دیا ہے کہ فدک میرا حق ہے اور کوئی شخص اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتا عمر پریشان ہوگئے اور وہ نوشتہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کے ہاتھ سے چھین کر پھاڑدیا ۔
جب فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے عمر کی یہ جسارت اور بے حیائی دیکھی تو رنجیدہ اور غمگین ہوئیں اور اس بے دین کے لئے اپنی زبان پر بد دعا کے الفاظ جاری کئے ،فرمایا:''یابن خطاب مزّقت کتابی مزّق اللّٰہ بطنک ...''''اے خطاب کے بیٹے تو نے میرا نوشتہ پھاڑ دیا خدا تمھارا پیٹ پھاڑے ،جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس مظلومۂ معصومہ کی دعا بعد میں قبول ہوئی اور اس ظالم کا پیٹ پھاڑا گیا اور وہ واصل جہنم ہوا ،دنیا کے تمام ظالموں پر خدا کی لعنت ہو ''۔١٩
حوالے:١۔سورۂ حشر ،آیت نمبر ٦۔٢۔زندگانی حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)،اقتباس ازکتاب عماد الدین حسین اصفہانی ،ص ٣٥٢۔
٣۔''واتِ ذاالقربیٰ حقّہ'' سورۂ روم ،آیت نمبر ٣٨۔٤۔''اقطع رسول اللّٰہ فاطمة فدکاً''٥۔تفسیر درّ منثور ،ج ٤ ،ص ١٧٧؛تفسیر مجمع البیان ،ج ٨ ،ص ٣٠٦؛تفسیر نمونہ ، ج ٢٣ ،ص ٥١٠۔٦۔وسائل الشیعہ ،ج ٦ ،ص ٣٦٦ ؛بحار الانوار ،ج ٤٨ ،ص ١٤٤؛مناقب ابن شہر آشوب ،ج ٤ ،ص ٣٢٠۔٧۔شواہد التنزیل ٣٢٩١۔٨۔ اپنے قرابتداروں کا حق ادا کردو ،سورۂ اسراء ،آیت ٢٦ ۔٩۔ فدک ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)،مؤلف سید محمد واحدی ،ص ٢٧۔٢٦۔١٠۔ مجمع الزوائد و منبع الفوائد ،ص ٤٩٧۔١١۔ کافی :٦٢٢١؛تہذیب :١٢٩٤؛وسائل الشیعہ :٣٦٦٦۔١٢۔ کافی ،ج ١،ص ٥٤٣ ۔بحار ،ج ٤٨ ،ص ١٥٦۔المقنعة ،ص ٢٨٨ ۔١٣۔ مناقب ابن شہر آشوب :١٤٢١ ،باب ماظہر من معجزاتہ بعد وفاتہ،کتاب ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)،مؤلف سید محمد واحدی ،ص ٢٧ ۔
١٤۔ ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ،ج ١٦ ،ص ٢٦٣ ۔١٥۔ اصول کافی ،ج ٨ ،ص ٢٤٥ ؛زیارت عاشورہ و آثار معجزہ آسائے آن ،مؤلف ناصر رستمی لاہیجانی ،٢٠٨ ۔١٦۔ ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ،ج ١٦ ،ص ٢٠٨ ؛بحار ،ج ٢٩ ،ص ٣٥٠ ۔١٧۔ ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ،ج ١٦ ،ص ٢٠٨ ؛بحار ،ج ٢٩ ،ص ٣٥٠ ۔١٨۔ کتاب قبر گمشدہ ،مؤلف مرحو م داود الہامی ،ص ١٠٥۔١٩۔ مراسم عروسی اور معجزات حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا)،ص ١٣٦ ؛٣٦٠ داستان از فضائل و مصائب و کرامات فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)،مؤلف عباس عزیزی ،ص ٢٧٢ و وفاة الصدیقة الطاھرة ،مرحوم مکرم ،ص ٧٨ و فاطمة الزہراء بہجة قلب المصطفیٰ،ص ٥٢٧
پيغمبراكرم (ص) كى رحلت سے خلافت تک
رسول (ص) اكرم كى وفات كے فوراًبعد ، بعض مسلمانوں نے سقيفہ بنى ساعدہ ميں جمع ہوكر جانشين پيغمبر(ص) معين كرنے كے بارے ميں ايک مٹينگ كى ، باوجوداس كے كہ پيغمبراكرم(ص) نے اپنى زندگى ہى ميں حضرت على (ع) كو حكم پروردگار كے مطابق اپنا جانشين مقرر فرماديا تھا_ ليكن اس كے برخلاف لوگوں نے حكومت ، ابوبكر كے حوالہ كردى _ ابوبكر 13ھ ق ميں 63 سال كى عمر ميں اس دنيا سے چلے گئے _ان كى مدت خلافت دو سال تين ماہ تھي_
ان كے بعد عمر بن خطاب نے ابوبكر كى وصيت كے مطابق خلافت كى زمام سنبھالى اور آخر ذى الحجہ 23ھ ق كو ابولولو ''فيروز'' كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے _اور ان كى خلافت كى مدت دس سال چھ ماہ اور چار دن تھى _
عمر نے اپنا خليفہ معين كرنے كے لئے ايک كميٹى تشكيل دى جس كا نتيجہ و ثمرہ عثمان ابن عفان كے حق ميں ظاہر ہوا_ انہوں نے عمر كے بعد محرم كے اواخر ميں 24ھ ق كو خلافت كى باگ ڈور سنبھالى اور ذى الحج 35ھ ق كو نا انصافى اور بيت المال ميں خرد برد كے الزامات كى وجہ سے مسلمانوں كى ايک شورش ميں ايک كثير جمعيت كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے اور ان كى خلافت بارہ سال سے كچھ كم مدت تک رہى _
مذكورہ تينوں خلفاء ، پيغمبراكرم(ص) كے بعد ، يكے بعد ديگرے تقريباً 25 سال تک لوگوں پر حكومت كرتے رہے_ اس طويل مدت ميں اسلام اور جانشينى پيغمبر(ص) كے حوالے سے سب سے زيادہ مستحق و سزاوار شخصيت اميرالمؤمنين علىؑ بن ابى طالبؑ _كى تھى كہ جنھوں نے صبر و شكيبائي سے كام ليا اور گھر ميں بيٹھے رہے_
حضرت على (ع) جوخلافت كو اپنا مسلم حق سمجھتے تھے ، ان لوگوں كے مقابل اٹھے جنہوں نے ان كے حق كو پامال كيا تھا، آپ(ع) نے اعتراض كيا اور جہاں تک اسلام كى بلند مصلحتوں نے اجازت دى اس حد تک آپ نے اپنے احتجاج و استحقاق كو ان پر، روشن فرمايا_
اسلام كى عظيم خاتون حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا نے بھى اس احتجاج ميں آپ كا مكمل ساتھ ديا اور تاحيات ہر موڑ پر آپ(ع) كى مدد كرتى رہيں اور انہوں نے عملى طور پرثابت كرديا كہ دوسروں كى حكومت غير قانونى ہے_
ليكن چونكہ اسلام ابھى نيا نيا تھا اس لئے حضرت علی(ع) نے تلوار اٹھانے اور جنگ كى آگ بھڑكانے سے گريز كيا_ كيونكہ طبيعى طور پر اس فعل سے اسلام كو نقصان پہنچتا_ اور ممكن تھا كہ پيغمبر(ص) كى زحمتوں پر پانى پھر جاتا يہاں تک كہ آپ(ع) نے اسلام كى آبرو بچانے كے لئے ضرورى مقامات پرتينوں خلفاء كى دينى امور اور بہت سے سياسى مشكلات ميں رہنمائي اور ان كى ہدايت سے دريغ نہيں فرمايا جيسا كہ يہ لوگ بھى مجبوراً، گاہے بہ گاہے آپ(ع) كى علمى بزرگى اور قابل قدر خدمات كا اعتراف كرتے رہے چنانچہ خليفہ دوم اكثر كہا كرتے تھے: '' لو لا عليٌ لہلك عمر'' يعنى اگر علىؑ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگئے ہوتے
حضرت امام مہدی (عَجَّ)
اگر دنیا کی عمر ختم ہو گئی ہو اور قیامت میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہو تو خدا اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ اس میں میرے اھلِ بیت میں سے ایک شخص کی حکومت قائم ہو سکے گی جو میرا ہم نام ہوگا ۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح اس سے پہلے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔
^ صحیح ترمذی ۔ جلد 2 صفحہ 86^ سنن ابی داود۔ جلد 2 صفحہ 7
اھل سنت کی امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں عمومی رائے
اہلسنت میں اس حوالے سے دو نظریے ہیں:الف: اکثریت اہلنست امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے قائل نہیں ہیں بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ آخری زمانہ میں پیدا ہوں گے۔ب: ان میں سے بعض نے حضرت کی ولادت کو قبول کیا ہے بعنوان مثال چند موارد نقل کیے جاتے ہیں: (1): محمد بن یوسف شافعی " البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں کہتے ہیں: میں نے کتاب تحریر کرتے وقت مہدی صاحب الزمان(عج) سے متعلق اخبار اور احادیث کو شیعہ ذرائع سے ہٹ کر حاصل کیا اگرچہ اس حوالے سے شیعہ جو بھی عقیدہ رکھتے ہیں اور قبول کرتے ہیں وہ صحیح اور اس کا نقل کرنا درست ہے۔یہ کتاب ۲۵ ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب میں صرف وہ احادیث ذکر ہوئی ہیں کہ جو اہل سنت کی نگاہ میں سے معتبر ہیں اس کتاب کے بعض ابواب یہ ہیں: مہدی(عج) آخری زمانہ میں قیام کریں گے ۔مہدی (عج) فاطمہ زہراء کی نسل سے ہیں، حضرت عیسی آخری زمانہ میں ان کی اقتداء کریں گے،ان کا نام اور رکنیت پیغمبراسلام ﷺ کی مانند ہے ،حضرت مہدی(عج) کی صفات، رنگ اور چہرہ، امام مہدی(عج) امام صالح ہیں اور جو خلیفۃ اللہ ہیں۔اس کتاب کا پچیسویں باب اس حوالے سے کہ امام مہدی(عج) اپنی غیبت کےابتدایی زمانہ سے سامرا کے سرداب میں غائب ہوئے تھے، ابھی تک زندہ اور باقی ہیں۔ پھر وہ حضرت کی طول عمر اور ان کی غیبت کے حوالے سے اعتراضات کا جواب دیتاہے۔۲)۔محمد بن طلحہ شافعی " مطالب السؤول فی مناقب آل ارسول" میں کہتے ہیں کہ" مہدی منتظر (عج) ۲۵۸قمری میں سامرا میں پیدا ہوئے ان کے والد حسن العسکری بن علی النقی بن محمد التقی بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد بن الباقر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی المرتضی ہیں ان کا نام محمد، ان کی کنیت ابوالقاسم اور حجت خلف صالح اورمنتظر ان کے القاب میں سے ہیں"۔ بعد میں وہ مہدی موعود(عج) کے بارے میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو نقل کرتے ہیں کہ'مہدی میری نسل اورفاطمہ سلام اللہ علیھا کی اولاد میں سے اور میرے ہم نام ہیں وہ آخری زمانے میں قیام کریں گے اورزمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھردیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھرچکی ہوگی اوریہ قیام حتمی اوریقینی ہے یہاں تک کہ اگر دنیا کی زندگی کا ایک دن ہی باقی رہ جائے۔ان احادیث کو ذکر کرنے کے بعد وہ انہیں ۲۵۵ ھ ق کو پیدا ہونے والے مولود ابوالقاسم محمد بن حسن بن علی ... بن علی ابن ابی طالب علیھم السلام پر تطبیق دیتے ہیں اوراس بارے میں ہونے والے اعتراضات اورشبہات کاجواب دیتے ہیں۔۳۔ سبط بن جوزی حنفی اپنی کتاب "تذکرۃ الخواص " میں لکھتے ہیں کہ 'حضرت مہدی محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب ہیں۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ اور ابوالقاسم ہیں اور وہ حضرت حجت صاحب الزمان اورقائم منتظر ہیں ۔‘‘پھرعبداللہ بن عمر سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 'آخری زمانے میں میری اولاد میں سے ایک مرد قیام کرے گا کہ اس کانام میرے نام کی طرح اور اس کی کنیت میری کنیت کی طرح ہے وہ زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھردیں گے جس طرح وہ پہلے ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی۔‘‘۴۔ عبدالوھاب شعرانی مختلف عقائدی مسائل کے بارے میں اہل سنت کے بڑے بڑے علماء کے نظریات پر مشتمل اپنی کتاب "الیواقیت والجواھر" کے ایک باب میں دنیا کے خاتمہ سے پہلے رونما ہونے والے واقعات کو ذکر کیا ہے اور ان واقعات میں سے ایک واقعہ ، حضرت مہدی علیہ السلام کے قیام کے بارے میں ہے کہ وہاں اس نے مفصل طور پر بحث کی ہے اور بعض بڑے بڑے علماء سے نقل کیا ہے کہ "مہدی "(عج) حسن عسکری علیہ السلام کے بیٹے ہیں جو پندرہ شعبان ۲۵۵ھ ق کو پیدا ہوئے تھے وہ زندہ اورباقی رہیں گے یہاں تک کہ عیسی علیہ السلام ظہور کریں گے اور اب ۹۵۸ھ ق کو ان کی عمر ۷۰۳سال ہوچکی ہے۔"وہ شیخ محی الدین عربی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ زمین کے ظلم و جور سے بھرجانے کے بعد مہدی(عج) کا قیام یقینی ہے یہاں تک کہ اگر اس دنیا کی زندگی کا ایک دن باقی رہ جائے یقیناً مہدی (عج)قیام کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ وہ پیغمبراکرم (ص) اورفاطمہ رضی اللہ عنھا کی نسل سے ہیں اوران کے جد امجد حسین بن علی ابن ابی طالب ہیں اور ان کے وا لد حسن عسکری ہیں جو علی نقی بن محمد تقی بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن زینعلی العابدین بن حسین بن علی ابن ابیطالب رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں ، ان کانام رسول خدا کے ہم نام کے اور اس کا چہرہ رسول اکرم کے چہرہ سے مشابہہ ہے...۔ ( معجم احادیث الامام المہدی، ج۲، ص۱۴۳.)ہم انہیں چندمثالوں پر اکتفا کرتے ہیں، مزید مطالعہ کے لئے شیخ طبرسی کی کتاب کفایۃ المؤحدین اور سید محمد کاظم قزوینی کی کتاب الامام المہدی کی طرف رجوع کریں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)