Wednesday, 16 July 2014
حضرت علی (علیہ السلام) کے علم اور حکمت پر خلیفہ دوم کی گواہی
ابن عباس سے نقل ہوا ہے : شریح قاضی نے عمر بن خطاب سے مشکل مسئلہ کا حل دریافت کیا ، اس کے چہرہ کا رنگ متغیر ہوگیا اور غصہ کی حالت میں ادھر سے ادھر کررہے تھے ،خلاصہ یہ کہ وہ اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکے ، یہاں تک کہ تمام اصحاب کو بلایا اور مسئلہ کو ان کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اس کا راہ حل بیان کرو ، ان سب نے کہا : ” یاامیر المومنین ! انت المفزع و انت المنزع“ ۔ اے امیر المومنین تم سب کی پناہ گا ہ ہواور تم ہی منبع و مآخذ ہو ۔ عمر اس بات سے غصہ ہوگئے اور کہا : ”اتقو اللہ و قولوا قولا سدیدا یصلح لکم اعمالکم“۔ خدا سے ڈرو اور ایسی بات کہو جو تمہارے لئے فائدہ مند ہو ۔ سب نے کہا : اے امیر المومنین ! ہمارے پاس تمہارے سوال کا جواب نہیں ہے ۔ عمر نے کہا : ”اما واللہ انی لاعرف ابا بجدتھا و ابن بجدتھا، واین مفزعھا و این منزعھا “ لیکن خدا کی قسم ایسے شخص کو پہچانتا ہوں جو علم و دانش کا چشمہ اور حلال مشکلات ہے (اور تمام مسائل کو جانتا ہے ) اور اس مسئلہ کا جواب بھی اچھی طرح جانتا ہے، سب نے کہا : شاید تمہاری مراد علی ابن ابی طالب ہیں؟ اس نے کہا : للہ ھو و وھل طفحت حرة بمثلہ و ابرعتہ؟! انھضوابنا الیہ“۔ جی ہاں میری مراد وہی ہیں،کیا کوئی ایسی ماں ہے جس نے ایسا بچہ کو جنم دیا ہو اور ایسا کامل انسان، معاشرہ کے حوالہ کیا ہو؟ ! لہذا کھڑے ہوجاؤ ،ان کے پاس چلتے ہیں، ان سب نے کہا : کیا تم ان کے پاس جانا چاہتا ہو؟! تم حکم کرو کہ وہ تمہارے پاس آئیں،عمر نے کہا : ”ھیھات ھنالک شجنة من بنی ھاشم ، و شجنة من الرسول، و اثرة من علم یوتی لھا ولایاتی، فی بیتہ یوتی الحکم، فاعطفوا نحوہ“۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اس گھر میں بنی ہاشم کی ایک شاخ ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شاخ ہے اور ان کے پاس علم کی بہت سی نشانیاں ہیں جن کے پاس ہمیں خود جانا چاہئے، وہ کسی کے پاس نہیں جاتے اور حکمت ان ہی کے گھر سے ملے گی لہذا ان کے پاس چلو ۔ تمام اصحاب ، عمر کے ساتھ حضرت علی (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور سب نے دیکھا کہ وہ ایک دیوار کے پاس کھڑے ہیں اور اس آیت کی تلاوت کررہے ہیں :”ایحسب الانسان ان یترک سدی“ (۱) ۔ کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اس کو بے ہدف چھوڑ دیا گیا ہے ؟! اس کے بعد اس کی تکرار کرتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں ، عمر نے شریح سے کہا : جو مسئلہ تم نے مجھ سے نقل کیا ہے اس کو اباالحسن سے نقل کرو ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment