Wednesday, 16 July 2014

اجتہاد کی طرز و روش

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ثم الصلاۃ و السلام علیٰ نبینا و آلہ الطاھرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضیں عجل اللہ تعالیٰ فرجہ و سھل اللہ مخرجہ و لعنۃ اللہ علیٰ اعدائھم اجمعین من الآن الیٰ قیام یوم الدین۔ قال اللہ تعالیٰ فی کتابہ الشریف:
ھو الذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ھن امّ الکتاب و أخر متشابہات فامّا الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ و ابتغاء تاویلہ۔ (سورۂ آل عمران/ ۷)
مذکورہ آیۂ شریفہ کی تفسیر میں مطالب بہت زیادہ ہیں لیکن آج جن چیزوں کو ذکر کرنا ہے وہ ناگفتہ بہ حالات ہیں جو ان بعض حضرات کی سعی و کوشش کا نتیجہ ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ آیات قرآن کو حقوق بشر اور مغربی تفکرات کے ہم ردیف اور ہم سنگ قرار دیں تاکہ دین خدا اور قرآن کو اعتراضات کے ہجوم سے محفوظ رکھ سکیں۔
یہ ایک دیرینہ فکر ہے جس کا آغاز زمانۂ نزول سے ہی ہوا تھا کہ قرآن کریم کی دلخواہ اور ہوائے نفسانی کی بنیاد پر تفسیر ہو بہت سے افراد اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس طرز تفکر کی مذمت میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں جن میں صراحتاً تفسیر بہ رائے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ مذکورہ سورہ آل عمران کی آیت کریمہ بھی اسی جانب راہنمائی کررہی ہے اس ہم آہنگی کا بخار آج اس شدت کو پہنچ چکا ہے کہ بعض جگہوں پر آیۂ قصاص "الانثیٰ بالانثیٰ" کا معنی اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرد و زن قصاص میں برابر ہیں اور اسے فقہ متوازن سے یاد کرتے ہیں یہ حضرات غافل ہیں اس چیز سے کہ اس آیۂ کریمہ میں مقصود یہ ہے کہ اگر عورت کسی عورت کو قتل کرے تو اسے قتل کیا جائے نہ یہ کہ مرد کو قتل کیا جائے، تعبیر اگر اس طرح ہوتی کہ "المرء بالمرءۃ" اس وقت معنی وہ ہوتا جسے ان لوگوں نے بیان کیا ہے عورت کے بدلے مرد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ روایات بھی جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں اسی مطلب کو بیان کرتی ہیں۔
کچھ دنوں قبل ایک تحریر پر نظر پڑی جس میں سید طباطبائی قدس سرہ پر اعتراض کیا گیا تھا کہ قرآن میں بارہ مرتبہ لفظ معروف کا استعمال ہوا ہے (عاشروھن بالمعروف او سرحوھن بالمعروف) معروف یعنی جو منکر کے مقابلے میں ہو اگر کوئی چیز معروف ہو اس کا مطلب کہ اس میں برائی اور ظلم اور زشتی نہ پائی جائے۔ جب معروف کا معنی یہ ہے تو کس طرح سید یزدی جیسا شخص عروۃ میں تحریر کرتا ہے کہ "یستحب تعدد الزوجات" (متعدد شادیاں مستحب ہیں فرق نہیں پڑتا کہ پہلی بیوی خوش ہو یا ناراض، پہلی زوجہ خود کشی کرے یا نہ کرے۔۔۔) پھر اس شخص نے کچھ ایسی باتیں تحریر کی ہیں جنہیں ذکر کرنے سے قلم کی بے حرمتی ہوگی۔
پھر اس کے بعد یہ معترض بیان کرتا ہے کہ آیا اس طرح کی باتیں عاشروھن بالمعروف جیسی آیات کی متنافی نہیں ہیں؟ آیا وہ عمومات و اطلاقات جو دلالت کرتے ہیں کہ مرد بیوی کی رضایت کے بغیر متعدد شادیاں کرسکتا ہے انہیں اس آیۂ کریمہ عاشروھن بالمعروف کے ذریعہ مقید کرکے ان اطلاقات کا دائرہ تنگ نہیں کیا جاسکتا ہے؟ اور مرد کی دوبارہ شادی پہلی بیوی کی موجودگی میں صرف اس وقت تسلیم کیا جائے جب پہلی بیوی راضی ہو۔
معترض کہتا ہے کہ بلکہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جو مرد کی متعدد شادیوں کے جواز پر دلالت کرے چہ جائیکہ ہم اس امر کے استحباب کے قائل ہوں بس جواز کی ایک صورت ہے وہ یہ کہ ان شادیوں پر عنوان معروف صادق آئے۔( مراجعہ فرمائیں: نشریۂ کرامت انسانی، شمارہ نمبر۴، خرداد ۸۶، ص۸)
یہ اس شخص کی باتیں ہیں جو خود کو فقیہ سمجھتا ہے اور اس طرح کے طرز تفکر کا مالک ہے۔ آپ ذرا انصاف سے بتائیے آیا اس طرح کی باتوں کی تصدیق و تائید کی جاسکتی ہے؟
اس مقام پر بہت سے جوابات ہیں جو پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن اس وقت جو چیز بیان کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ جناب معترض آیت کی صحیح تفسیر نہ کرسکے اور امر تفسیر میں اشتباہ کے شکار ہوئے ہیں کیونکہ "عاشروھن بالمعروف" کا معنی یہ نہیں ہے کہ مرد اپنی زندگی میں ایسا کوئی کام نہ کرے جو شریکۂ حیات پر گراں گزرے بلکہ اس آیت میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ مرد گھریلو زندگی میں عدل و عدالت کا دامن نہ چھوڑے اپنی غیر معقول باتوں کو اپنی شریکۂ حیات پر نہ تھونپے، ظلم و زیادتی کی کشتی پر سوار ہوکر ازدواجی دریا کو عبور نہ کرے، بیوی کو اس کے بنیادی حقوق جیسے نان و نفقہ سے محروم نہ رکھے۔ موصوف نے جو یہ بات فرمائی تھی کہ "اگر بیوی راضی ہو تو مرد دوسری شادی کرسکتا ہے اور اس طرح کے اتفاقات پیش بھی آئے ہیں کہ بیوی نے خود اپنے شوہر کے لئے دوسری زوجہ کا انتخاب کیا اور نہایت تفاہم اور آشتی کے ہمراہ زندگی بسر ہورہی ہے۔"
مجھے یہ باتیں صرف خیالی لگتی ہیں کائنات میں وہ کون عورت ہے جس نے اپنے شوہر کے لئے دوسری بیوی کا انتخاب کیا ہو اگر اس طرح کا واقعہ رونما ہوا بھی ہے تو وہ اپنے آپ میں ایک انوکھا اور نادر واقعہ ہے جو کسی خاص ضرورت کے تحت پیش آیا ہوگا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم آیۂ شریفہ "فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلاث و رباع"( سورۂ نساء، آیت3) کا مورد اور مصداق اس طرح کے نادر واقعات کو فرض کریں؟ یہ کہیں کہ درحقیقت یہ آیت اس طرح کے نادر واقعات کے جواز کو بیان کررہی ہے؟ کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ ایک شخص فقاہت کا دعویٰ کرے اور اس طرح کا طرز تفکر رکھے؟
آیا سیرت عملی جو زمان پیغمبر (ص) سے قائم رہے اس چیز کے جواز پر دلالت نہیں کرتی کہ مرد متعدد شادیاں کرسکتا ہے چاہے اس کی بیوی راضی ہو یا راضی نہ ہو؟
کیا پیغمبر (ص) اور امیر المومنین(ع) اور ان کی اولاد طاہرہ علیہم السلام جو اس مالی حالت میں متعدد شادیاں کرتے تھے ان کی بیویاں انہیں اجازت دیا کرتی تھیں اور اس امر سے راضی تھیں؟
کیا پیغمبر (ص) کے ان واقعات کو جو آپ کی ازواج کے سلسلہ سے رونما ہوئے انہیں تاریخی کتابوں میں نہیں پڑھا ہے یا پڑھ کر بھول گئے ہیں؟
اس سلسلہ میں ایک معروف واقعہ تاریخ میں ملتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حج کے ایک سفر میں اپنی کنیز سے ہمبستر ہوئے جس کے بعد آپؑ کی زوجہ (ام اسماعیل) نے اس کنیز کے بال کاٹ دیئے اور اسے مارا پیٹا اس وقت امام(ع) نے اپنی زوجہ سے فرمایا: "ھذا المکان الذی احبط اللہ فیہ حجک۔"( مراجعہ کریں: وسائل الشیعہ، ج۱، کتاب الطہارۃ، باب ۲۹، حدیث۱)
آیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام(ع) کا یہ عمل آپؑ کی زوجہ کی رضایت کے ہمراہ تھا؟
کیا ہمارے لئے سنت نبوی و علوی حجت نہیں ہے؟
میں تمامی حضرات سے گذارش کرتا ہوں کہ جدید فکروں سے متأثر نہ ہوں، محکمات کی تفسیر متشابہات کے ذریعے نہ کریں کیونکہ قرآن کا ارشاد ہے: "فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ و ابتغاء تاویلہ۔۔۔"
خدا سے دعاگو ہوں کہ ہم اس آیت کے مصداق نہ ٹھہریں ہم پر واجب ہے کہ ائمہ ہدیٰ جو راسخون فی العلم ہیں ان کی پیروی اور اتباع کریں۔
و السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حضرت آیت اللہ العظمیٰ دوزدوزانی حفطہ اللہ
تیر ماہ ۱۳۸۶ ہجری شمسی

No comments:

Post a Comment