پروردگار عالم اس مبارک مہینے میں اپنی نعمتوں اور برکتوں سے اپنے تمام بندوں کو نوازتا ہے بھوک اور پیاس کے تحمل اور روزہ رکھنے کی توفیق عطا کرتا ہے اور دعا مانگنے کی دعوت دیتاہے۔
دعا اور مناجات ، انسان کے لئے اپنے خالق حقیقی سے رابطہ برقرار کرنے کا بہترین راستہ ہے ۔ خدا وند کریم سے رازو نیاز پروردگار عالم کی جانب انسان کے فطری رجحان کی نشاندہی کرتاہے ۔ ایک روز ایک شخص پیغمبر اکرمۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سوال کیاکہ اے رسول خداۖ کیا خدا ہم سے نزدیک ہے اور ہم چاہیں تو اس سے آہستہ سے راز ونیاز کرسکتے ہیں یا دور ہے کہ اس کو زور سے پکارناپڑے گا؟ رسول خداۖ نے ابھی لب بھی نہیں کھولے تھے کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 186 آپ پر نازل ہوئی اور" اے پیغمبر اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں پکارنے والے کی آواز سنتاہوں جب بھی وہ پکارتاہے۔ لہذا مجھسے طلب قبولیت کریں اور مجھی پر ایمان و اعتقاد رکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں"
دنیا کے ہر انسان کو زندگی کے تمام مرحلوں میں ایک مضبوط سہارے اور پشت پناہ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ زندگی کے مختلف امور کو آگے بڑھایا جاسکے اور ترقی و کمال کے راستے پر گامزن ہوا جاسکے۔ خداوند کریم سے رابطے کے وقت انسان اپنے کو نفسیاتی اعتبار سے خصوصی روحانی ماحول اور معنوی فضا میں محسوس کرتاہے ۔ صبح کا وقت ایسا قیمتی وقت ہے کہ اس وقت دعا بہت جلدی باب اجابت تک پہنچ جاتی ہے،خاص طور سے ماہ رمضان کی سحر خدا سے دنیوی اور اخروی حاجتیں طلب کرنے نیز پروردگار سے استغفار کرنے اور اس کی جانب پلٹنے کا بہترین وقت ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگاکہ قطب نما ہمیشہ حرکت میں ہوتا ہے مگر اس وقت رک جاتا ہے جب قبلے سے اسکا رابطہ ہوجاتاہے آدمی کا دل بھی قطب نما کی مانند لرزاں اور مضطرب ہے مگر جب یاد وذکر خدا میں مشغول ہو تو انسان کے دل کو سکون ملتا ہے ۔ پیغمبر اکرمۖ ہمیشہ مطمئن اور پرسکون رہتے تھے اس لئے کہ ہمیشہ یاد الہی میں مشغول رہتے تھے اور اٹھتے بیٹھتے ذکر خدا کرتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ فقط زبان سے ذکر الہی فرماتےتھے بلکہ آپ اپنے سارے امور کی انجامدہی میں مرضئ الہی کو پیش نظر رکھتے تھے۔
ایک ماں نے اپنے نوجوان فرزند کو گھر سے باہر جاتے دیکھ کر اس سے سوال کیا بیٹا کہاں جارہے ہو؟ بیٹے نے کہا امی جان میرا محبوب ترین اداکار اس شہر میں آیاہے میرے لئے اس سے ملاقات اور اس سے گفتگو کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ میں جا رہا ہوں بہت جلدی واپس آجاؤں گا۔ اگر اس کے پاس مجھسے باتیں کرنے کا وقت ہوا تو کیا اچھی بات ہوگی" وہ اپنے محبوب اداکار کے دیدار کے تصور سے خوش تھا اور مسکراتا ہوا خدا حافظ کہہ کر گھر سے باہر نکل گیا اور آدھ گھنٹے میں غصّے میں بھرا ہوا واپس آیا ماں نے پوچھا بیٹا کیوں پریشان ہو؟ کیا ہوا تمھارے محبوب اداکار سے تمھاری ملاقات ہوئی؟
بیٹے نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا ہم اور ہماری طرح بہت سے لوگ اس کے آنے کے منتظر تھے لیکن پتہ چلا کہ آدھ گھنٹہ پہلے وہ شہر کو ترک کر چکا ہے۔ کاش خدا نے جیسی شہرت اسے عطا کی ہے مجھے عطاکی ہوتی۔ ماں اپنے بیٹے کی باتیں سن کر اپنے کمرے میں گئی اور تیار ہوکر بولی بیٹا تم بھی تیار ہوجاؤ چلو ایک جگہ چلتے ہیں۔ بیٹے نے بے اعتنائی کے ساتھ کہا کہ امی آپ کیا مذاق کررہی ہیں؟ وہ آدھ گھنٹہ پہلے اس شہر کو ترک کرچکا ہے آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟ ماں نے بڑے پیار سے کہا کہ بیٹا میرے اوپر اعتماد کرو اور میرے ساتھ چل چلو۔ بیٹے نے نہ چاہتے ہوئے بھی ماں کی بات مان لی کیونکہ وہ ماں سے بہت محبت کرتا تھا۔ تیار ہوکر دونوں گھر سے باہر نکل گئے چند قدم چلنے کےبعد ماں نے مسجد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بیٹے سےکہا کہ لو پہنچ گئے۔ بیٹے نے یہ سن کر ناراض ہوتے ہوئے کہا امی جان ہم نے آپ سے کہہ دیا کہ یہ مذاق کا وقت نہیں ہے۔ماں نے کہا کہ ابھی تم نے نہیں کہاتھا کہ کاش خدا اس کو اتنی شہرت دینے کے بجائے تمھیں دے دیتا؟ پس خدا ہر ایک سے برتر ہے اس لئے کہ وہی انسان کو شہرت و محبوبیت عطا کرتاہے اس سے بڑھ کر اور باعث افتخار کیا ہوگا کہ جوشہرت دینے والا ہے اس سے باتیں کریں۔
ماں کی منطقی بات بیٹے کی سمجھ میں آگئی اور اس نے یہ درک کرلیا کہ جو ساری نعمتوں کا خالق ہے اس سے گفتگو اور راز ونیاز ، خدا کے تخلیق کردہ ان انسانوں سے گفتگو کرنے سے زیادہ آسان اور زیادہ مؤثر ومفید ہے جو اپنے خالق سے زیادہ رابطہ بھی نہیں رکھتے۔ جی ہاں، خداوند کریم سے گفتگو اور راز ونیاز، ہواؤں کے نرم ولطیف جھوکے کی مانند روح کو بالیدگی نیز افسردہ مضطرب انسانوں کو سکون وقرار عطاکرتا ہے۔
آئیے اس ماہ خیر وبرکت میں سر چشمۂ توحید ومعرفت سے قلبی رابطہ برقرار کریں اور تنہائی میں اپنے خالق ومعبود سے رازونیاز اور دعاؤ مناجات کریں کیونکہ سورۂ رعد کی 28 ویں آیت میں ارشاد الہی ہے " صرف یادو ذکر خدا سے دلوں کو سکون حاصل ہوتاہے "
حضرت امام زین العابدین (ع) اپنی عرفانی مناجات میں اپنے خالق سے اس طرح محو گفتگو ہوتے ہیں کہ " اے مشتاقوں کے دلوں کی آرزو، اے عاشقوں کی منزل مقصود،اپنی دوستی اور اپنے دوست داروں اور ہر اس عمل کا عشق میرے دل کو عطا فرمادے جو تیرے تقرب کاباعث ہو" اس مناجات میں حضرت امام زین العابدین (ع) خالق حقیقی سے اپنے عاشقانہ رابطے کے علاوہ ایک توحیدی مسئلے پربھی تاکید فرماتے ہیں۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ عاشقان الہی کے لئے محبت خدا سے حاصل ہونے والے تمام نتائج کا سرچشمہ لطف وعنایت الہی ہے اور جب تک پروردگار کی مرضی نہ ہوکوئی بھی اس کی الفت ودوستی کے درجہ اور مرتبہ کو حاصل نہیں کرسکتاہے ۔ اسی طرح حضرت امام زین العابدین (ع) خدا سے اس کی نعمت الفت ومحبت طلب کرتے ہیں اور محبت الہی کا لازمہ یہ ہے کہ جب انسان خدا سے محبت طلب کرے گا تو لازما خدا کے دوستوں سے بھی الفت کرے گا۔اسی لئے آپ نے اپنے خالق سے اس کی محبت کے ساتھ اس کے عاشقوں کی بھی محبت والفت طلب فرمائی ہے، یہ محال ہے کہ انسان خدا کو دوست رکھے اور اس کے پیغیمبر کو جو حبیب الہی ہیں، دوست نہ رکھے۔ خدا کی محبت و دوستی کا معیار ہی اس کے پیغمبر کی دوستی ومحبت ہے ۔ اور حبیب الہی کی محبت والفت خدا کی محبت میں اضافے کا باعث ہے۔ حضرت امام سجاد (ع) اپنی مناجات میں خداسے ایسے امور کی بھی محبت و الفت کی درخواست کرتے ہیں جو محبت الہی تک رسائی کا وسیلہ قرار پائے۔حضرت اپنی اس مناجات کے آخری حصہ میں اپنے معبود سے یہ دعا فرماتے ہیں کہ " میرے مالک مجھ پر لطف وعنایت کی نظر فرما اور کبھی مجھے اپنی نظر عنایت سے محروم نہ فرمانا اور مجھے اپنی منظور نظر سعادت وکامرانی عطا فرما اے اپنے بندوں اور اپنی مخلوقات کی دعائیں قبول فرمانے والے اے ارحم الراحمین۔"
منجانب: تحریک تحفظ عقائد شیعہ
No comments:
Post a Comment