مشھور روایت کے مطابق ۱۵ رمضان المبارک سبط اکبر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) ، سردار جوانان اھل بہشت حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی تاریخ ھے۔
امام حسن علیہ السلام کی پیدائش کے بعد حضرت امیر المومنین علیہ السلام ان کو حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں لے کر گئے، چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنی زبان آپ کے منھ میں دی اور آپ نے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زبان چوسنا شروع کردی، اس کے بعد حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سوال کیا کہ کیا آپ نے اس بچہ کا نام منتخب کرلیا ھے؟ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے عرض کی: میں نام رکھنے میں آپ پر پھل نھیں کرسکتا، چنانچہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: میں بھی اپنے پروردگار پر پھل نھیں کرسکتا، اس کے بعد خداوندعالم نے جناب جبرئیل کو نازل کیا اور فرمایا: حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے یھاں فرزند پیدا ھوا ھے ان تک میرا سلام پھنچادو، اور میری طرف سے تھنیت اور مبارکباد پیش کرو، اور کھو کہ علی آپ سے وھی نسبت رکھتے ھیں جو ھارون کو موسیٰ [علیہ السلام] سے تھی، لہٰذا اس بچہ کا نام ھارون کے بچہ کے نام پر رکھو۔۔۔ اور ھارون کے بیٹے کا نام عربی میں ”حسن“ تھا۔
حضرت امام حسن علیہ السلام ان حضرات میں سے ھیں جن سے ھر قسم کا رجس و پلیدی دور ھے، اور ان کے دل کو ایسی طھارت سے مطھر کیا کہ جو اسرار کتاب خدا کا خزانہ دار بن گیا۔
اسی طرح شیعہ اور سنی دونوں نے روایت کی ھے کہ خداوندعالم نے امام حسن مجتبیٰ اور ان کے بھائی امام حسین علیھما السلام کے ذریعہ بہشت کو زینت بخشی ھے۔
آپ جب وضو فرماتے تھے تو آپ کے اعضائے بدن لرزتے تھے اور آپ کا رنگ زرد ھوجاتا تھا، اور جب امام علیہ السلام سے سوال ھوتا تھا تو فرماتے تھے: جو شخص پرودگار عالم کی بارگاہ میں حاضر ھو اس کے چھرہ کا رنگ بدلنا اور بدن کے اعضاءکا لرزنا حق ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے والد گرامی کے واسطہ سے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت نقل کی ھے کہ حسن بن علی علیھما السلام اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عابد اور سب سے بڑے زاہد اور سب سے بڑے فاضل شخص تھے، جب آپ حج کے لئے جاتے تھے تو پیدل جاتے تھے اور کبھی کبھی پابرھنہ، اور جب بھی موت کو یاد کرتے تھے تو گریہ فرماتے تھے، اور جب قبر کی یاد آتی تھی تو بھی گریہ کرتے تھے، اور جب قیامت کے دن حشر کے میدان کو یاد کرتے تھے تو گریہ فرماتے تھے، اور جب خداوندعالم کے حضور میں پیش ھونے کو یاد فرماتے تھے تو بے ھوش ھوجاتے تھے، اور جب نماز پڑھتے تھے تو آپ کے اعضائے بدن لرزتے تھے، اور جب جنت و جھنم کی یاد آتی تھے تو سانپ ڈھسے ھوئے کی طرح تڑپتے تھے اور خدا سے جنت کا سوال کرتے تھے اور آتش جھنم سے خدا کی پناہ مانگنے تھے، اور جب بھی قرآن مجید کی آیہ ¿: ”یا ایھا الذین آمنوا“ کی تلاوت فرماتے تھے تو کہتے تھے: ”لبیک اللھم لبیک“، اور آپ ھر وقت خداوندسبحان کے ذکر میں مشغول رہتے تھے، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی اور آپ کا پیغام سب سے زیادہ واضح تھا۔
آپ کا حلم دوست و دشمن کے لئے سورج کی طرح روشن تھا، منجملہ منقول ھے:
معاویہ نے مروان کو مدینہ کا گورنر بنایا وہ ھر جمعہ کے روز منبر پر جاکر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتا تھا، جیسے امام علیہ السلام کی شھادت ھوئی وہ آپ کے جنازہ کے ھمراہ روتا ھوا چلا امام حسین علیہ السلام نے اس کے رویہ کو امام حسن علیہ السلام سے بیان کیا کہ ان پر کیا کیا ظلم کیا ، تو اس نے کھا: میں نے اس شخص کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ جس کا حلم پھاڑ سے بھی زیادہ عظیم تھا۔
جس شخص کی بردباری اور صبر کا اقرار دشمن اس طرح کرے اور دشمنی کا بادل آفتاب کمالات کے حجاب کو نہ دھو سکے، اور دشمن اس پر آنسوں بھائے مناسب ھے کہ دنیا بھر کی آنکھیں اس پر خون کے آنسو بھائیں۔
حضرت رسول خدا (ص) سے منقول ھے کہ جو شخص ”حسن“ پر گریہ کرے اس کی آنکھ اس دن اندھی نھیں ھوگی کہ جس دن آنکھیں اندھی ھوں گی ، اور جو شخص ان کے غم میں مغموم رھے اس دن اس کا دل مغموم نھیں ھوگی کہ جس دن ھر دل غمزدہ ھوگا اور جو شخص بقیع میں آپ کی زیارت کرے تو اس کے قدم اس روز صراط پر نھیں لڑکھڑائیں گے کہ جس دن ھر قدم صراط پر لڑکھڑائیں گے۔
جو لوگ بقیع میں ائمہ معصومین علیھم السلام کی قبروں کے زیارت کے لئے جائیں ان کے لئے مناسب ھے کہ خشوع و خضوع کے ساتھ پابرھنہ اس مقدس مزار میں وارد ھوں، اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی دیگر ائمہ معصومین علیھم السلام کے ساتھ ساتھ زیارت کریں۔
ھم یھاں پر حضرت امام حسن علیہ السلام کی پانچ حدیث بیان کرتے ھیں:
جس انسان نے مشورہ کیا وہ کامیاب و کامراں ھوا۔
ایسی نیکی جس میں کوئی بُرائی نھیں وہ نعمت پر شکر اور سخت مصیبت پر صبر ھے۔
امام علیہ السلام سے مروت کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو فرمایا: انسان کا اپنے دین کے سلسلہ میں دریغ کرنا یعنی”اپنے دین کی حفاظت کرنا“ اور اپنے مال کی اصلاح کرنا، اور حقوق کا ادا کرنا۔
فرصت تیزی سے گزرتی ھے اور بہت آہستہ پلٹی ھے۔
غور و فکر کرو کیونکہ غور و فکر انسان کے دل کی کی حیات بابصیرت ھے اور حکمت کے دروازوں کی کلید۔
Source
دفتر مرجع عاليقدر شيعه حضرت آيت الله العظمى وحيد خراسانى
No comments:
Post a Comment