سوال : علمائے اہل سنت نے حدیث ”سلونی قبل ان تفقدونی“ کو کس طرح اور کس سے نقل کیا ہے؟
جواب : اہل سنت کی کتابوں میں بہت زیادہ روایتیں اس مضمون کے ساتھ حضرت علی (علیہ السلام) سے بیان ہوئی ہیں کہ آپ نے فرمایا: مجھ سے سوال کرو ، اس سے قبل کہ میں تمہارے درمیان سے چلاجاؤں) ۔ نمونہ کے طور پر حاکم نے مستدرک میں کہا ہے : علی (علیہ السلام) منبر کے اوپر بلند آواز سے کہتے تھے : ”سلونی قبل ان لا تسالونی ، ولن تسالوا بعدی مثلی “ (۱) قبل اس سے کہ میں دنیا سے چلاجاؤں ، مجھ سے سوال کرو کیونکہ میرے بعد مجھ جیسا کوئی نہیں ملے گا جس سے تم سوال کرسکو گے ۔
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں دو مختلف طرق سے اس حدیث کو آپ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :
”لا تسالونی عن آیة فی کتاب اللہ تعالی و لا سنة عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) الا انباتکم بذلک “ (۲) ۔قرآن کریم کی جس آیت اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جس سنت کے بارے میں بھی مجھ سے سوال کروگے میں ہر ایک کا تم کو جواب دوں گا ۔
محب الدین طبری نے ”الریاض النظرة“ میں لکھا ہے : حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : سلونی ، واللہ لاتسالونی عن شیء یکون الی یوم القیامة الا اخبرتکم ، وسلونی عن کتاب اللہ ، فواللہ ما من آیة الا و انا اعلم ابلیل نزلت ام بنھار فی سھل ام فی جبل(۳) ۔ اے لوگو! مجھ سے سوال کرو ، خدا کی قسم ! آئندہ سے لے کر قیامت تک جس چیز کے بارے میں بھی سوال کرو گے میں اس کا جواب دوں گا ، کتاب خدا سے سوال کرو ، خد ا کی قسم ، قرآن کریم میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے مگر یہ کہ میں جانتا ہوں کہ وہ رات کو نازل ہوئی ہے یادن میں ، دشت میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر۔
ابو نعیم اصفہانی نے ”حلیة الاولیاء“ میں لکھا ہے کہ علی (علیہ السلام) کہتے تھے : واللہ ما نزلت آیة الا وقد علمت فیم انزلت ، واین انزلت، ان ربی وھب لی قلبا عقولا ولسانا سئوولا“ (۴) خدا کی قسم کوئی آیت نازل نہیں ہوئی مگر یہ میں جانتا ہوں کہ وہ کس متعلق اور کہاں نازل ہوئی ہے ،کیونکہ میرے پروردگار نے مجھے بہت زیادہ حاصل کرنے والاقلب اور بہت ہی گویا و شفاف زبان عطا کی ہے ۔
نیز فرماتے ہیں : ”سلونی قبل ان تفقدونی ، سلونی عن کتاب اللہ ، وما من آیة الا و انا اعلم حیث انزلت بحضیض جبل او سھل ارض ، و سلونی عن الفتن فما من فتنة الا و قد علمت من کسبھا و من یقتل فیھا“ اس سے قبل کہ میں تمہارے درمیان باقی نہ رہوں مجھ سے سوال کرو، کتاب خدا کے متعلق سوال کرو ، خبردار ! کوئی ایسی آیت نہیں ہے مگر یہ کہ میں اس کے نازل ہونے کی جگہ کوجانتا ہوں چاہے وہ پہاڑ پر نازل ہوئی یا زمین پر۔ فتنوں اور آشوب کے متعلق سوال کرو ، کوئی فتنہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق میں نہ جانتا ہوں ، میں جانتا ہوں کہ اس فتنہ کو کون بپا کرے گا اورکون کون اس میں قتل ہوں گے ۔ اس روایت کو امام احمد بن حنبل نے بھی نقل کیا ہے اور کہا ہے : امام علی (علیہ السلام) سے اس طرح کی بہت سی باتیں نقل ہوئی ہیں (۵) ۔
نیز نقل ہوا ہے کہ ایک روز جب آپ نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زرہ پہن رکھی تھی اور آپ کی تلوار اور عمامہ کو پہن رکھا تھا تو کوفہ کے منبر پر گئے اور اپنے پیراہن کو اوپر اٹھاکر فرمایا :
”سلونی قبل ان تفقدونی ، فانما بین الجوانح منی علم جم، ھذا سفط العلم ، ھذا لعاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ، ھذا ما زقنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)زقا زقا، فواللہ لو ثنیت لی و سادة فجلست علیھا لافتیت اھل التوراة بتوراتھم و واھل الانجیل بانجیلھم ، حتی ینطق اللہ التوراة والانجیل فیقولایان: صدق علی قد افتاکم بما انزل فی و انتم تتلون الکتاب افلا تعقلون “ مجھ سے سوال کرو ، اس سے قبل کہ میں تمہارے درمیان سے چلا جاؤں ، یقینا میرے سینہ میں بہت زیادہ علم ہے ، یہ علم کے عطر کا صندوق ہے ، یہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے علم کا سمندہ ہے،یہ وہ علم جس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک ایک کرکے میرے سینہ میں قرار دیا ہے ۔ خدا کی قسم ! اگر علم کی کرسی میرے لئے رکھ دی جائے اور میں اس پر بیٹھ جاؤں تو یقینا اہل توریت کا توریت سے جواب دوںگا اور اہل انجیل کا انجیل سے جواب دوں گا یہاں تک کہ خداوند عالم توریت اور انجیل کو بولنے کی صلاحیت عطا کرے اور وہ دونوں کہیں: علی نے صحیح کہا ہے ، یقینا انہوں نے تمہارے جواب اسی طرح دئیے ہیں جس طرح مجھ میں نازل ہوئے ہیں ، کیا جب تم کتاب کو پڑھتے ہو تو غور و فکر نہیںکرتے(اس حدیث کو شیخ الاسلام حموی نے فرائد السمطین میں ابو سعید سے روایت کی ہے(۶) ۔
ابن حجر نے صواعق میں سعید بن مسیب سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے : اصحاب میں علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے علاوہ کسی اور نے ”سلونی“ (۷) نہیں کہا ہے ۔
شایان ذکر ہے : ہمارے مولا و آقا امیر المومنین علی (علیہ السلام) سے پہلے آپ کے بھائی اور چچا کے بیٹے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے بارہا فرمایا ہے : ”سلونی عما شئتم“ جس چیز کے بارے میں بھی چاہو مجھ سے پوچھ لو ۔ یا دوسری جگہ فرمایا: ”سلونی سلونی“ اور یا ” سلونی و لا تسالونی عن شیء الا انباتکم بہ“ (۸) ۔ مجھ سے سوال کرو، تم جس چیز کے بارے میں بھی سوال کرو گے میں تم کو اس کا جواب دوں گا ۔ ہم نے تاریخ میں ان دو افراد کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیکھا جس نے مشکل ترین سوالات کا جواب دینے کے لئے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالنے کی کوشش کی ہو اور علمی مجمع کے درمیان بلند آواز سے کہا ہو : ” سلونی“ ، جو چاہو پوچھ لو اور تمام سوالوں کا صحیح جواب دیا ہو ۔
اور ان دونوں کے بعد بھی کسی نے آج تک ایسی بات اپنی زبان پر جاری نہیں کی ہے اور اگر کسی نے ایسا کیا ہے توہ خود ذلیل و رسوا ہوا ہے اور اس طرح اس نے اپنی جہالت کا پردہ فاش کیا ہے(۹) ۔
__________________
۱۔ اس روایت کو حاکم نے”المستدرک علی الصحیحین“ میں 2 : 466 ]2/506 ، ح 3736[ ، نقل کیا ہے ۔
۲۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر جلد ۴، ص ۲۳۱ میں اس کو دونوں طریقوں سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ مختلف طریقوں سے نقل ہوئی ہے ۔
3 ـ جامع بیان العلم ، ابو عمر 1 : 114 ]ص 137 ، ح 673[ ; الریاض النضرة ، محبّ طبرى 2 : 198 ]3/147[ .
4 ـ أبونعیم نے "حلیة الأولیاء" 1 : 68 می اس کو نقل کیا هے ، اور مفتاح السعادة 1 : 400 مین بهی ذکر کیا هے.
5 ـ ینابیع المودّة : 274 ]1/72 ، باب 14[ .
6 ـ فرائد السمطین ]1/341 ، ح 263 ، باب 63[ .
7 ـ أحمد نے مناقب ]ص 153 ح 220[ ، اور محبّ طبرى نے ریاض 2 : 198 ]3/146[ ، اور ابن حجر نے صواعق : 76 ]ص 127[ اس کو نقل کیا هے.
8 ـ صحیح بخارى 2 : 46 ; 10 : 240 و 241 ]1/200 ، ح 515 ; و 6/2660 ، ح 6864[ .
9 ـ شفیعى شاهرودى، گزیده اى جامع از الغدیر، ص 543.
No comments:
Post a Comment