Wednesday, 26 March 2014

3 covenants with Allah mentioned in Quraan


وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ

اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد وپیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں

3:81

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ

اور جب خدا نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار کرلیا کہ (جو کچھ اس میں لکھا ہے) اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا۔ اور اس (کی کسی بات) کو نہ چھپانا تو انہں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی۔ یہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں برا ہے

3:187

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ

اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے)۔ یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن (کہیں یوں نہ) کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی

7:172

Friday, 14 March 2014

غلاۃ کی خیانت اور امام صادق ع پر جھوٹ باندھنا

غلاۃ کی خیانت اور امام صادق ع پر جھوٹ باندھنا
غلاۃ اور خونی ماتم کے حق میں فاسد تاویل کرنے والے اب اس قدر آگے پڑھ چکے ہیں کہ انھوں نے خونی ماتم جیسی بدعت کے جواز کے لئے آئمہ اھل بیت ع پر جھوٹ باندھنا شروع کر دیا ہے اور آئمہ اھل بیت ع کی احادیث مبارکہ میں تحریف کر کے اپنے مقصد کو حاصل کیا جا رہا ہے اور عوام الناس کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔
حال ہی میں ایک روایت غلاۃ کی جانب سے وسائل الشیعہ کا حوالہ دے کر خونی ماتم کا جواز ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ۔
ہم سب سے پہلے غلاۃ کی تحریف شدہ روایت نقل کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کا رد بلیغ پیش کریں گے
غلاۃ کی تحریف شدہ روایت :
على مثل الحسين فلتشق الجيوب ، "ولتخمش الوجوه "، ولتلطم الخدود۔ راجع وسائل الشيعة ج 15 ص 583 نقلا عن تهذيب الطوسي
امام صادق ع فرماتے ہیں کہ حسین ع جیسی شخصیت کے لئے تم پر لازم ہے کہ اپنا گریبان چاک کروں ،"اپنے چہرے کو نوچ لو "اور اپنے رخساروں کو پیٹو
اس کے بعد غلاۃ کہتے ہیں کہ خمش والوجوہ کا مطلب یہ ہے کہ چہرے کو اتنا نوچو کہ خون نکل آئے۔۔۔
نوٹ : غلاۃ کی تحریف شدہ روایت اور ان کا باطل استدلال تصویر میں دیکھ سکتے ہیں‌
ہمارا رد :
چونکہ غلاۃ نے وسائل الشیعہ کا حوالہ دیا تھا ، چنانچہ جب ہم نے وسائل الشیعہ کی طرف رجوع کیا تو معاملہ بالکل ہی برعکس تھا ، وہاں پر امام صادق ع کی روایت تو موجود تھی مگر اس میں خاص وہ الفاظ "خمش الوجوہ" یعنی اپنے چہرے کو نوچ لو ، والے الفاظ بالکل موجود نہیں تھے جس سے غلاۃ خونی ماتم جیسے فاسد عمل پر استدلال کر رہے تھے ، اب ہم مکمل روایت وسائل الشیعہ سے بمع سکین صفحہ نقل کرتے ہیں تاکہ غلاۃ کی خیانت واضح ہو جائے ، مکمل روایت اس طرح ہے :
وقد شققن الجيوب ولطمن الخدود الفاطميات على الحسين بن علي عليهما السلام ، وعلى مثله تلطم الخدودوتشق الجيوب .
ترجمہ
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں کہ جناب السیدہ فاطمہ زھراء ع کی بیٹیوں نے امام حسین ع کی مصیبت پر گریبان چاک کئے تھے اور رخساروں پر تھپڑ مارے تھے اور ایسے مظلوم پر رخساروں پر تھپڑ مارنے چاہئیں اور گریبان چاک کرنے چاہیئں ۔
وسائل الشیعہ // حرالعالملی // ج 15 //ص 304 // طبع 2007 بیروت
شیخ طوسی رہ نے بھی تہذیب میں اس روایت کو جزما نقل کیا ہے اور اس میں بھی "خمش الوجوہ " والی الفاظ نہیں ہیں ۔
اب ہم غلاۃ جنہوں نے روایت میں تحریف کی اور امام صادق ع پر جھوٹ باندھا ان سے سوال کرتے ہیں کہ بتائوں ! اصل ماخذ میں " "خمش الوجوہ ' یعنی اپنے چہرے کو نوچ لو ، والے الفاظ کہاں ہیں ۔ کچھ خدا کا خوف کروں ، اپنی نفسانی خواہشات پر اتنا عمل نہ کرو کے آئمہ اھل بیت ع پر جھوٹ باندھنے لگ جائو ، لیکن کیا کہہ سکتے ہیں کیونکہ آئمہ اھل بیت ع نے خود ہی سچ کہا ہے کہ
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں : بعض غالی اس قدر جھوٹے ہیں کہ شیطان کو بھی ان کے جھوٹ کی ضرورت پڑ جاتی ہے
سفینتہ البحار//شیخ عباس قمی // ج 6 // ص 667// طبع قم ایران
اگر غلاۃ کہے جیسا کہ تصویر میں غالی نے کہا بھی ہے کہ فقہاء نے خونی ماتم کے جواز کے لئے اس روایت سے استدلال کیا ہے جس میں "خمش الوجوہ " یعنی اپنے چہرے کو نوچ لو والے الفاظ ہیں ، تو ہم ان غلاۃ سے یہ ہی کہے گے کہ سب سے پہلے ہم کو اصل ماخذ سے دلیل کو دیکھنا ہے ، جب اصل ماخذ میں وہ الفاظ ہی نہیں ہیں تو ان فقہاء کا استدلال باطل ہے کیونکہ اصل ماخذ میں ، امام صادق ع کی روایت میں ان الفاظ کا وجود نہیں ہے ۔ چنانچہ فتویٰ کی بنیاد ، دلیل ہوتی ہے ، جب دلیل ہی باطل اور تحریف شدہ روایت پر قائم ہے تو وہ تمام فتویٰ‌ جو اس خاص تحریف شدہ روایت کے ضمن میں دیے گئے ہیں وہ تمام کے تمام باطل ، غیر قول احسن ہیں اور ان پر عمل کرنا حرام ہے ۔
آخر میں ، میں ان تمام عوام الناس سے اپیل کروں گا کہ فیس بک پر ، نیٹ پر کوئی بھی قول رسول و آئمہ اھل بیت ع کو نقل کرنے سے پہلے ، اس قول کی تصدیق اصل ماخذ سے لازمی کر لیا کریں ، یا کسی ایسے اھل علم سے پوچھ لیا کریں کہ یہ روایت صحیح ہے کہ نہیں ، ورنہ رسول اللہ ع و آئمہ اھل بیت ع پر جھوٹ باندھنے کے ضمن میں ہم دائرے ایمان سے خارج ہو سکتے ہیں ۔





جناب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہ : قال المسيح (عليه السلام): مثل الدنيا والآخرة كمثل رجل له ضرتان ، إن أرضى إحداهما سخطت الاخرى ، دنیا اور آخرت کی مثال ایک ایسے شخص کی طرح ہے جس کی دو بیویاں ہو اگر ایک کو راضی کرے تو دوسری ناراض ہوجاتی ہے ( مشكاة الأنوار ، الشيخ الطبرسي ، جلد : 1 صفحه : 467 )اور اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی طرف بھی ہے کہ : الدنيا والآخرة ضرتان إن ملت إلى إحداهما أضررت بالأخرى، وبينهما في الجمال والكمال والدوام أبعد مما بين المشرق والمغرب ، کہ دنیا و آخرت دو بیویوں کی طرح ہے اگر ایک کی طرف آدمی جھکے گا تو دوسری ناراض ہوجاتی ہے ، دنیا و آخرت کے کمال و جمال ایسے فرق و فاصلہ ہے جیسے مشرق اور مغرب کے درمیان ہے (موسوعة فقه القلوب للشيخ محمد بن إبراهيم التويجري. الجزء الأول ، صفحہ ٦٢٠ )

مولاعلیعلیہ السلام نے فرمایا ہے : ان الدنیا و الآخره عدو ان متفاوتان و سبیلان مختلفان فمن احب الدنیا و تولاها ابغض الآخره و عاداها و هما بمنزله المشرق و المغرب و ماش بینهما كلما قرب من واحد بعد من الآخر و هما بعد ضرتان، نهج البلاغه، حكمت 103.
بیشک دنیا اور آخرت دو مختلف دشمن ہیں ، اور دو مختلف راستے جس نے دنیا سے محبت کی وہ آخرت سے دشمنی کرے گا ان دونوں کے درمیاں مشرق و مغرب کے جیسا فاصلہ ہے اور ان کی طرف جانے والا ایک طرف جاتا ہے تو دوسری جھت و دوسرے طرف سے سے دور ہوتا جاتا ہے ، یہ دونوں دو بیویوں ( سوکن ) کی طرح فاصلہ ہے

*ابن طاوس اور شہادت زھرا علیھا السلام*

بمسہ رب فاطمہ علیھا السلام
ابن طاوس اپنی اقبال میں ایک زیارت نقل کرتے ہیں جسکے الفاظ کچھ اسطرح ہیں ،
"درود ہو بتول طاہرہ پر ...........مظلومہ پر ،جسکا حق غصب ہوا ، جسکی وراثت چھینی گئی جسکی پسلیاں شہید ہوئی جسکے فرزند کو شہید کیا گیا "
عربی عبارت : اللّهمّ صلّ على محمّد وأهل بيته، وصلّ على البتول الطاهرة، الصدّيقة المعصومة، التقيّة النقيّة، الرّضيّة المرضيّة، الزكيّة الرشيدة، المظلومة المقهورة، المغصوبة حقّها، الممنوعة إرثها، المكسورة ضلعها، المظلوم بعلها، المقتول ولدها
-الإقبال لابن طاووس // صفحہ ٦٢٥//

حضرت زھراء سلام اللہ علیہا ایک پرافتخار هستی


انا اعطیناک الکوثر:فصل لربک وانحر ان شانئک ھو الابتر۔ہم نے تجھے کوثر عطا کیا پس اپنے پروردگار کے لیے نماز ادا کراور قربانی کر بتحقیق تیرا دشمن دم بریدہ رہیگا۔زھراء وہی کوثر ہے ،رسول (ص):خداوند انکے ناراض ہونے سے ناراض ہوجاتاہےاور انکے خوشنود ہونے سے خوشنود ہوجاتاہےفاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو اسے اذیت دے وہ مجھے اذیت دیتاہے ۔اور ان سے دوستی رکھے وہ مجھے سے دوستی رکھتاہے ۔فاطمہؑ میرا دل ہے ، فاطمہ میری روح ہے ۔فاطمہؑ دوجہانوں کی خواتین کی سردار ہیں۔زھراء وہ نمونہ ہے ، وہ دل ہے ، وہ روح ہے ۔زھراء مایۂ افتخار ہیں۔جس دنیا میں ہم رہتے ہیں،ماضی سے اب تک انسانوں اپنی فکرونگاہ کے حساب سے بعض اشیاء کو یا بعض اشخاص کو مایہ فخر جانتے ہیں۔امام خمینی فرماتے ہیں کہ زھراءؑ ہمارے لیےمایۂ افتخار ہیں۔زھراء ایسی خاتون ہے جو عالم ہستی کے لیے مایۂ افتخار ہے ۔کہ وہ عالمین کی خواتین کی سردار ہیں۔زھراء کے وجود پہ خدافخرکرتاہے۔اور فرشتوں سے فرماتاہے ، کہ دیکھو میرے فرشتو محراب عبادت میںمیری کنیز خاص کیسی کھڑی عبادت کررہی ہیں؟خداکو فخرہے کہ میں زھراءؑ جیسی کنیز خاص کا خالق ہوں۔زھراء خاندان وحی مایۂ افتخار ہیں۔تاریخ پیغمبر اسلامؐ کے بے حد وحساب احترامات کی گواہ ہےجو اس بی بی کے لیے رسول انجام دیا کرتے تھے ۔رسول فخرکرتے ہیں کہ زھراءؑ جیسی میری بیٹی ہے ۔علی کو فخرہے کہ زھرا ء انکی ہمسرہیں۔انا زوج البتول کہہ کر علی فخرکرتے ہیں ۔و أنا زوج البتول : سیدۃ نساء العالمین .میں ہمسر زھراءؑ ہو جو عالمین کی خواتین کی سرادار ہیں۔فاطمۃ التقیۃ النقیۃ الزكية ، المبرة المھدیۃ .وہ جو فاطمہ ہیں پاک وپاکیز ، ہدایت یافتہ ہیں۔حبیبۃ حبیب اللہ وہ جو حبیب خدا کی حبیبہ ہیں ،و خير بناتہ و سلالتہ وہ حبیب خدا کی بہترین بیٹی ہے ۔و ریحانۃ رسول اللہ وہ جو رسول خداکی خوشبوہیںزھراءؑ :وہی ہمسر، وہی حبیبہ،وہی بیٹی اور وہی خوشبوہے ۔حسین:ؑ فخرکرتے ہیں کہ زھراء کے فرزند ہیں۔حبیب ابن مظاہر کو خط میں لکھامن حسین ابن فاطمہحبیب میں فرزند میں حسینؑ فرزند فاطمہ تجھے خط لکھ رہاہوں۔حضرت مھدی موعود عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف جو اپنے ظہورپرنور سےکائنات ہستی کو نور ایمان واسلام وقرآن سے روشن کرینگے ۔سراسر ہستی کو عدل وانصاف اسلامی سے بھر دینگے ۔وہ موعود فرماتے ہیں: فی اِبنۃ رسولِ اللہ لی اسوۃٌ حسنۃٌ
میرے لیے بنت رسول بہترین نمونہ ہیں۔ (غیبت طوسی /۲۸۶)زھراء وہ بانوی نمونہ ہیں جو سرمشق مھدی موعودؑ ہیں۔خواتین کےلیے فخرکی بات ہے کہ ایام فاطمیہ کو خواتین کے دنکے عنوان سے پرجوش وخروش طریقے سے منائیں۔اور ان دنوں کو روز مادر، روز دختر وروز ہمسر قرار دیں ۔زھراء:ؑ تجلی کمال کا نام ہے ۔تمام ہویت انسان زھراءؑ میں جلوہ گر ہے ۔وہ تمام ابعاد وجہات جو ایک خاتون کے لیےاور ایک انسان کے لیے متصور ہوسکتاہے بہ تمام وکمال زھراءؑ میں جلوہ گرہیں۔زھراءؑ :ایک انسان ہیں ، بہ تمام معنی انسان ۔زھراءؑ :ایک نسخہ انسانیت ہے ، بہ تمام معنی۔زھراءؑ :ایک حقیقت زن ہے ، تمام حقیقتِ زن۔زھراءؑ : تمام حیثیت زن ہے ، تمام شخصیت زن۔وہ تمام کمالات جو ایک انسان کامل کے لیے تصور ہوسکتاہےسب کے سب اس خاتون میں بہ تمام موجود ہیں۔نور زھراءؑ خلقت بشر سے پہلے خلق ہوا۔خلقت آدم سے چودہ ہزار سال پہلے ۔زھراءؑ :ایک ملکوتی موجود ہیں جو انسان کی شکل میں ظاہر ہواہے۔رسول (ص) : وھی حوراء إنسيّۃفاطمہؑ انسان کی شکل میں ایک حورھیں۔زھراءؑ وہ انبیاء صفت خاتون ہیں جن پہ جبریل نازل ہوتے ھیںنہ ایک بار بلکہ معصوم فرماتے ھیں کہ بارھا وبارھا نازل ھوتے تھےیہ صفت طبقہ اول انبیاء کی ھے کہ بار ھا وبارھا جبریل نازل آتے تھے۔جبریل کا کسی پہ نازل ہونا ایک سادہ سی بات نہیں ھے۔جبریل جوکہ روح اعظم ہے اس میں اس جس کے پاس جبریل نازل ھواس کی روح میں ایک قسم کاتناسب ھونا لازمی ھے۔امام خمینی فرماتے ھیں کہ میں زھراءؑ کی اس فضیلت کو زھراء (س)تمام فضائل سے بالاتر سمجھتاہوں۔یہ وہ فضائل ھیں جو مختص ھیں حضرت زھراءؑ سے ۔

کسی پر لعنت کرنا ۔۔


اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں ۔۔
گسی کو گالی دینا ۔۔۔۔۔۔ کسی پر لعنت کرنا ۔۔
یہ دو الگ باتیں ہيں ۔۔۔۔ پہلی بات کسی کو گالی دینے سے کا حکم میرے ذہن میں کہیں پر نہيں ہے ۔ اور خاص کر کے کسی مومن کو گالی دینا تو برا ہے اور گناہ بھی ہے ۔۔۔
لیکن لعنت کرنا ۔ یہ اس کا حکم قران میں ہے اور اگر میں قران سے اس پر ایات اکٹھی کرنا شروع ہو جاؤں تو شاید اتنا ہو جائيں کہ اپ لوگ پڑھیں نا ۔ یہ سوچ کر کے یہ تو بہت بڑا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اگر کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو اس میں ایک بات جو صاف اتی وہ یہ کہ اس سے اسی کی ذاتی دشمنی ہے یا وہ ذاتی طور پر اس کو برا جانتا ہے لیکن اس کا غیر مسلم ہونا ۔۔ اس بات میں نہيں اتا ۔ کہ اگر میں کسی کو گالی دوں تو یہ بات نہیں کہ مہ کافر ہے تو گالی دی ہے ۔۔
لیکن لعنت ۔۔ لعنت کسی بھی مومن پر مسلم پر نہيں کی جاسگتی کیوں کہ میرے علم میں کوئی بھی ایک بھی حدیث یا ایت نہيں ہے جو کسی مومن یا مسلم پر لعنت کرنے کا حکم دیتی ہو ۔
اور میرا کسی پر لعنت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ میں اس کو مومن مسلم نہیں سمجھتا۔۔
ناصبیوں کا ایک دعوی جو صرف اور صرف اپنے دل کی تسکین کے لیے لگایا جاتا ہے ۔۔
علی عـ معاویہ بھائی بھائی ۔۔۔۔۔
اب میں حیران ہوں کہ یہ لوگ کس بناء پر یہ نعرہ لگاتے ہيں ۔۔۔ یہ خود جانتے ہیں ۔۔
پہلی بات یہ ہے کہ معاویہ امام علی عـ کو برا بھلا کہتا تھا گالیاں دیتا تھا اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتا تھا ۔۔۔
پہلا ثبوت ۔۔
صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب
- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
ترجمہ:
معاویہ نے سعد کو حکم دیا [أَمَرَ مُعَاوِيَةُ] اور کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے [مَا مَنَعَكَ] کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] پر سب نہ کرو [سب: گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا]۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہیں کہہ سکتا ۔۔۔
اس میں امام علی عـ پر سب کرنے کا حکم موجود ہے ۔۔
دوسرا ثبوت ۔۔
ابن کثیر الدمشقی، کتاب البدایہ و النہایہ، حلد7، صفحہ341، باب فضائل علی ابن ابی طالب
وقال أبو زرعة الدمشقي: ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال: لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص.فقال: يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك.قال: فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه.فقال: أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ؟والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ((إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ؟))أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر: ((لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار)) (ج/ص: 7/377)أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج.
ترجمہ:
ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب کہ آنحضور ص غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا:"کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو آنحضور ص نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ "میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں [غیر فرار]۔ یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول ص کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور آنحضور ص کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔"
اس میں معاویہ کا امام علی عـ پر گالیاں دینا موجود ہے ۔۔
اس سے ایک بات صاف ہوتی ہے کہ معاویہ امام علی عـ سے نفرت کرتا تھا ۔۔ ان کو برا جانتا اور مانتا تھا اس لیے ایسا کیا کرتا تھا ۔۔
اب کیوں کرتا تھا وغیرہ وغیرہ ۔۔ ان باتوں کا تذکرہ کرنے جتنا وقت نہيں ۔۔۔
اب ہم دیکھتے تھے کہ امام علی عـ کے نزدیک معاویہ ۔ کیسا تھا ۔۔۔
إبن أبي شيبة - المصنف - الجزء : ( 2 ) - رقم الصفحة : ( 216 )
6947 - حدثنا : هشيم ، قال : ، أخبرنا : حصين ، قال : ، حدثنا : عبد الرحمن بن معقل قال : صليت مع علي صلاة الغداة ، قال : فقنت فقال في قنوته : اللهم عليك بمعاوية وأشياعه وعمرو بن العاص وأشياعه وأبا السلمي وأشياعه وعبد الله بن قيس وأشياعه.
--------------------------------------------------------------------------------
المتقي الهندي - كنز العمال - الجزء : ( 8 ) - رقم الصفحة : ( 82 )
21989 - عن عبد الرحمن بن معقل قال : صليت مع علي صلاة الغداة ، فقنت فقال في قنوته : اللهم عليك بمعاوية وأشياعه ، وعمرو بن العاص وأشياعه ، وأبي الأعور السلمي وأشياعه ، وعبد الله بن قيس وأشياعه.
ان دو حدیثوں میں ایک بات اتی ہے کہ امام علی عـ معاویہ اور اس کے شیعوں پر قنوت میں لعنت کرتے تھے ۔۔۔۔
1 لعنت کرنا اور وہ بھی امام علی عـ کا امام علی عـ جن کے بارے میں ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی عـ اس کا دروازہ ۔
یہ ثابت کرتا ہے کہ امام علی عـ معاویہ کو قطعی مومن یا مسلم نہيں سمجھتے تھے اس لیے لعنت کرتے تھے ۔
2 ۔۔ اور لعنت کرنے کا انداز مطلب قنوت میں لعنت کرنا ۔۔۔ یہ طریقہ کار بھی نبی صـ کا ہے انہوں نے کافروں کے لیے قنوت میں بدعا کی تھی ۔ روایت نقل کرتا ہوں ۔۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ سَأَلْتُ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ عَنِ الْقُنُوتِ. قَالَ قَبْلَ الرُّكُوعِ. فَقُلْتُ إِنَّ فُلاَنًا يَزْعُمُ أَنَّكَ قُلْتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ، فَقَالَ كَذَبَ. ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَنَتَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ ـ قَالَ ـ بَعَثَ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ ـ يَشُكُّ فِيهِ ـ مِنَ الْقُرَّاءِ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَعَرَضَ لَهُمْ هَؤُلاَءِ فَقَتَلُوهُمْ، وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَهْدٌ، فَمَا رَأَيْتُهُ وَجَدَ عَلَى أَحَدٍ مَا وَجَدَ عَلَيْهِمْ.
میں نے انس رضی اللہ عنہ سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہئے ، میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب ( محمد بن سیرین ) تو کہتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ رکوع کے بعد ہوتی ہے ، انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا تھا کہ انہوں نے غلط کہا ہے ۔ پھر انہوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعا قنوت کی تھی ۔ اور آپ نے اس میں قبیلہ بنوسلیم کے قبیلوں کے حق میں بددعا کی تھی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت ، راوی کو شک تھا ، مشرکین کے پاس بھیجی تھی ، لیکن بنوسلیم کے لوگ ( جن کا سردار عامر بن طفیل تھا ) ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا ۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ تھا ۔ ( لیکن انہوں نے دغا دی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے
اس کا ان لائن لنک یہاں پر ہے ۔۔۔
اب ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاویہ ایک تو بد ذبان تھا لیکن وہ ۔ امام علی عب کے نذدیک کافر بھی تھا ۔۔۔
اب وہ لوگ جو ایک کافر منکر فاسق کو امام علی عـ سے ملاتے ہیں اور اپنے دل کو تسلیاں دیتے ہیں ۔۔۔۔
ان کے لیے امام علی عـ کا ایک اور قول نقل کرتا ہوں ۔۔۔
کنزالعمال ۔ حصہ یازدہم ۔ ص 117
امام علی عـ نے فرمایا ۔ جو ہم میں اور ہمارے دشمن میں برابری کرے اس کا ہم سے کوئي تعلق نہین ۔۔ ۔
لنک ۔۔
اب ناصبیوں سے گزارش ہے کہ یا تو اپنی اصلاح کریں یا پھر امام علی عـ سے محبت کے جھوٹے دعوی کو }ختم کریں ۔۔
طالـــــــــــــب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دعـــــــــــا ۔ طاہــــــــــــــــــــر عباس جعفری۔۔۔۔۔۔

Friday, 7 March 2014

عظمت تسبیح حضرت زہراء سلام اللہ علیہا

سید عرفان نقوی( نزیل مشہد مقدس)برادر محترم سید شہنشاہ حسین نقوی کے حکم پر لکھا گیا
بزرگی و عظمت خداوند متعال کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ صرف وہی ذات ہے جو ہر کمال کی حامل ہے جسے جامع کمالات کہا جاتا ہے ، اور جو چیز تمام کمالات و فضائل کی حامل ہو وہی تسبیح و عبادت کی حقدار و سزاوار ہے ۔قرآن کریم میں جہاں استغفار و توکل کا حکم آیا ہے وہیں پر تسبیح کرنے کا بھی حکم موجود ہے اورمجموعی طور پر تسبیح کے مادے یعنی ’’ سبح ، تسبح ، سبحان ، و دوسرے مشتقات کے ساتھ 92 بار قرآن میں ذکر ہوا ہے ( تفصیل دیکھنے کے لئے رجوع کریں معجم المفھرس لالفاظ القرآن الکریم ، محمد فواد عبد الباقی صفحہ 430 پر ) اور قرآن میں تسبیح کرنے کا حکم 18 بار آیا ہے 13 مرتبہ سَبِّح کے صیغے کے ساتھ ، سَبِّحہُ ۳ مرتبہ اور جمع کے صیغے سَبِّحوا کے ساتھ ۲ مرتبہ ، اس سے تسبیح کی اہمیت اور عظمت ظاہر ہوتی ہے ۔
تسبیح کی لغت میں معنی :راغب اپنی مفرادات میں مادہ سبح کی معنی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : السبح: المر السريع في الما و في الهواء یعنی پانی یا ہوا میں جلدی ڈوب جانا یا چلے جانااصطلاح میں تین ۳ معنائوں میں استعمال ہوتا ہے1 - تنزیہ یعنی خداوند متعال کو ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ جاننا :اللہ ان تمام باتوں سے پاک و پاکیزہ ہے(مومنون/91، انبياء/12، صافات/159و180، زخرف/82، انعام/100)خدا ان کے شرک سے پاک اور بلند و برتر ہے(طور/43، قصص/68، توبه/31، يونس/18، نحل/1، روم/40، زمر/67، حشر/23)2 - حمد اور تعریف تنزیہ کے ساتھ :پس پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس کے ہاتھوں میں ہر شے کا اقتدار ہے اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹا کر لے جائے جاؤ گے۔(زخرف/13، بقره/32، آل عمران/191، اعراف/143، فرقان/18، يس/83، سبأ/41)3- تعجب اور تعظیم تنزیہ کے ساتھ :خدایا تو پاک و بے نیاز ہے اور یہ بہت بڑا بہتان ہے(نور/16، اسري/1)ان موارد میں جو معنی سب میں مشترک ہے وہ خداوند متعال کو ہر عیب و ریب سے پاک قرار دینا ہے جو خداوند متعال کی اصلی حمد و تعریف و تسبیح ہے ، اور یہ وہ خاص معنی ہے جو مطلوب خداوند ی ہے اسی وجہ سے خداوند متعال نے قرآن میں اپنی تسبیح یعنی اس کو ہر عیب سے منزہ قرار دینے کا حکم دیا ہے اور اس حکم کی پابندی ہر مخلوق پر واجب ہے ارشاد ہوتا ہے : تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْ‌ضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ، آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اس کی تسبیح کررہے ہیں اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو ۔
تسبیخ کیوں کرنی چاہئے ؟اگر ہم کسی چیز کو دل سے چاہتے ہیں اور اس سے والہانہ محبت کرتے ہیں تو اس کا ذکر صبح و شام ہماری زبان پر رہتا ہے ، بار بار ہم اس کو دہراتے رہتے ہیں ، اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے دلائل و براہین قائم کرنے یامثالیں دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کوہر شخص اپنے اندر محسوس کر سکتا ہے،لیکن قہراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم خدا سے محبت کرتے ہیں تو اپنی زندگی میں اس کے ذکر کو کتنی جگہ دیتے ہیں ؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام اذکار سے زیادہ ہماری زبان پر اسی کا ذکر ہو بلکہ صرف اور صرف اسی کا ذکر ہو کیونکہ حقیقی محبت کی حقدار صرف اسی کی ذات اقدس ہے ،مزید بر آن یہ کہ آیا ت و روایات بھی ذکر خدا کی تاکید سے بھری پڑی ہیں اور اس کے آثار و فوائد اور برکات بھی مفصل طور پر بیان کر دئے گئے ہیں ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ‌ اللَّـهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ‌ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ( رعد ۔ 28 )یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دُلوں کو یادُ خدا سے اطمینان حاصل ہوتا ہے اور آگاہ ہوجاؤ کہ اطمینان یادُ خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔یا دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہےفَاذْكُرُ‌ونِي أَذْكُرْ‌كُمْ وَاشْكُرُ‌وا لِي وَلَا تَكْفُرُ‌ونِ(بقرہ ۔ 152)اب تم ہم کو یاد کرو تاکہ ہم تمہیں یاد رکھیں اور ہمارا شکریہ ادا کرو اور کفرانِ نعمت نہ کرواسی طرح کافی آیات ہیں۔مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام دعائے کمیل میں ارشاد فرماتے ہیں : أن تَجْعَلَ أَو قاتی مِن اللیل والنھار بذکرک معمورۃ ۔ خدایا ! تو میرے دن اور رات کو اپنے ذکر سے معمور و منور فرما۔اسی طرح مولائے متقیان وقت آخر امام حسن علیہ السلام سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یا بُنَیَّ کُن اللہ َ ذاکراً علیٰ کُلِّ حال (بحار الانوار ج 90 ۔ ص 152)اے میرے فرزند ہر حال میں خدا کا ذکر کرتے رہو ۔
تو معلوم ہوا کہ ذکر خدا ایک اہم مسئلہ ہے جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔اس باب میں کہ تسبیح کی کتنی اقسام ہیں زبانِ حال و زبان قال کے ذریعے سے تسبیح ، تسبیح حقیقی اور صوری میں کیا فرق ہے ؟ قرآن میں تسبیح کرنے کے کونسے وقت ذکر ہوئے ہیں ؟ کون کون سے ذکر تسبیح کے عنوان سے ذکر ہوئے ہیں یہ سارے مطالب اس مقالے کی حد سے زیادہ ہیں انشاء اللہ اس پر ایک اور مقالہ لکھوں گا من اللہ التوفیق ۔یہاں مختصر طور پر بیان کریں گے اس ذات بابرکات کا ذکر کیسے کیا جائے ؟ الفاظ کہاں سے لائے جائیں ؟ کون سے کلمات ہوں جو اس کی شان اقدس اور بارگاہ پر عظمت کے مطابق ہوں اور بر ترین و بالا ترین کلمات شمار کئے جاتے ہوں ۔ جب ہم روایات کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو ہمیں مختلف چیزیں نظر آتی ہیں ۔ اگر تمام روایات کی کلی طور پر تقسیم بندی کی جائے تو یہ روایتیں چند حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں ۔ جن کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے ۔( تفصیل سے روایات دیکھنے کے لئے حوالے کی طرف رجوع کریں )(1)بعض روایات وہ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تسبیحات اربعہ ٫٫ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر بہترین ذکر ہے(2)بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ : لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم بہترین و بالا ترین ذکر ہے ۔(3)بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ : لا الہ الا اللہ بہترین اور افضل ترین ذکر ہے ۔)4(بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ صرف الحمد للہ بہترین اور افضل ترین ذکر ہے ۔(5)بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ اللہ اکبر بہترین ذکر ہے ۔(6)بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ محمد ؐ وآل محمد ؑ پر صلوات بھیجنا بہترین ذکر ہے ۔(7)بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ تسبیح حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا بہترین اور افضل ترین ذکر ہے(ان تمام روایات کے مطالعہ کے لئے کتاب بحار الانوار ج 90 باب ذکر اللہ تعالیٰ ، صفحہ 147 یا جلد 82 صفحہ 329 کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے )روایات کے مطالعہ سے اتنا بہر حال واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تمام اذکار اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت اور عظمت کے حامل ہیں اور ان کا ورد فضیلت سے خالی نہیں ہے لیکن تسبیح حضرت فاطمہ زہراء ؐ اس لئے اپنے اندر عظمت کا پہلو رکھتی ہے کیونکہ یہ نبی اکرم ؐ کی لخت جگر ، سیدہ نساء عالمین سے منسوب ہے اور خود آپ ؐ نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کویہ ذکر تعلیم فرمایا تھا جس پر آپ ساری عمر مداوت فرماتی رہیں ۔اس واقعہ کو علما نے اس طرح نقل کیا ہے ۔شیخ صدوق قدس سر کتاب علل اشرایع میں نقل کرتے ہیں کہ : عن علي صلوات الله عليه أنه قال لرجل من بني سعد: ألا احدثك عني وعن فاطمة ؟ إنها كانت عندي وكانت من أحب أهله إليه، وإنها استقت بالقربة حتى أثر في صدرها وطحنت بالرحى حتى مجلت يداها، وكسحت البيت حتى اغبرت ثيابها، وأوقدت النار تحت القدر حتى دكنت ثيابها، فأصابها من ذلك ضرر شديد، فقلت لها: لو أتيت أباك فسألتيه خادما يكفيك حرما أنت فيه من هذا العمل ۔ فأتت النبي صلى الله عليه وآله فوجدت عنده حداثا فاستحت فانصرفت، قال: فعلم النبي صلى الله عليه وآله أنها جاءت لحاجة، قال: فغدا علينا ونحن في لفاعنا، فقال: السلام عليكم، فسكتنا واستحيينا لمكاننا، ثم قال: السلام عليكم فسكتنا، ثم قال: السلام عليكم فخشينا إن لم نرد عليه أن ينصرف، وقد كان يفعل ذلك يؤسلم ثلاثا فان اذن له وإلا انصرف فقلت: وعليك السلام يا رسول الله صلى الله عليه وآله ادخل. فلم يعد أن جلس عند رؤوسنا، فقال: يا فاطمة ما كانت حاجتك أمس عند محمد، قال: فخشيت إن لم تجبه أن يقوم قال: فأخرجت رأسي فقلت: أنا والله اخبرك يا رسول الله صلى الله عليه وآله إنها استقت بالقربة حتى أثر في صدرها، وجرت بالرحا حتى مجلت يداها وكسحت البيت حتى اغبرت ثيابها، وأوقدت تحت القدر حتى دكنت ثيابها فقلت لها: لو أتيت أباك فسألتيه خادما يكفيك حرما أنت فيه من هذا العمل. قال صلى الله عليه وآله: أفلا اعلمكما ما هو خير لكما من الخادم ؟ إذا أخذتما منامكما فسبحا ثلاثا وثلاثين، واحمدا ثلاثا وثلاثين، وكبرا أربعا وثلاثين، قال: فأخرجت عليها السلام رأسها فقالت: رضيت عن الله ورسوله، رضيت عن الله ورسوله، رضيت عن الله ورسوله (علل الشرايع ج 2 ص 54 – 55 ، من لا یحضره الفقیه، ج1، ص 211، ح 32، چار جلدی ، بحارالانوار، ج 82، ص 329)امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے ’’ بنی سعد ‘‘ کے ایک شخص سے فرمایا : کیا تم چاہتے ہو میں اپنے اور فاطمہ ( سلام اللہ علیہما ) کے بارے میں تم کو بتائوں ؟ حضرت فاطمه سلام اللہ علیہا میرے گھر میں تھیں اور انہوں نے پانی کی مشک میں اتنا پانی بھر ا جو مشک کا نشان ان کے بدن پر ثبت ہوگئے اور( گندم کو پیسنے والی ) چکی ( آسیاب ) کو اتنا چلایا کہ ان کے ہاتھ زخمی ہوگئے ، گھر میں اتنا جھاڑو دیا جو ان کے کپڑے خاک و مٹی زدہ ہوگئے ، اور چولہے پر آگ کے اثر سے ان کا لباس سیاہ ہوگیا ۔ میں ( علی ) نے فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) سے کہا کہ : کاش آپ اپنے بابا کے پاس جاتیں اور ان سے ایک نوکر کی درخواست کرتیں تاکہ وہ خادمہ یہ سارے کام انجام دیتی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس آئیں تو اس وقت پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کچھ افراد کے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے ، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا شرم و حیا کی وجہ سے اپنے بابا کو کچھ کھ نہ سکیں اور گھر واپس آگئیں ۔رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے آنے سے سمجھ گئے کہ ان کو کوئی کام تھا اسی وجہ سے دوسرے دن وہ ہمارے گھر تشریف لائے اور دروازے پر آ کر کھا السلام علیکم : ہم شرم سے چپ رہے ، کچھ دیر بعد پھر انہوں نے کھا السلام علیکم : ہم حیا کی وجہ سے چپ رہے جب انہوں نے تیسری مرتبہ کھا السلام علیکم تو ہم ڈر گئے کہ کہیں وہ واپس چلے نہ جائیں کیونکہ وہ جب کسی کہ پاس جاتے تھے تو دروازے پرتین 3 مرتبہ سلام کرتے تھے اگر جواب نہیں ملتا تھا تو واپس چلے جاتے تھے تو میں نے جواب دیا اور کہا : وعلیک السلام یا رسول الله! آجائیں ۔آن حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ تشریف لے کر آئے اور کھا بیٹی کل آپ میرے پاس آئیں تھیں کوئی کام تھا ؟جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے شرم و حیا کی وجہ سے کوئی جواب نہ دیا تو میں نے کھا کہ یا رسول اللہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ کیوں آئی تھیں : انہوں نے پانی کی مشک میں اتنا پانی بھر ا جو اس مشک کا نشان ان کے بدن پر ثبت ہوگئے تھے اور( گندم کو پیسنے والی ) چکی ( آسیاب ) کو اتنا چلایا جو ان کے ہاتھ زخمی ہوگئے ، گھر میں اتنا جھاڑو دیا جو ان کے کپڑے خاک و مٹی زدہ ہوگئے ، اور چولہے پر آگ کے اثر سے ان کا لباس سیاہ ہوگیا تو میں ( علی ) نے فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) سے کہا کہ : کاش آپ اپنے بابا کے پاس جاتیں اور ان سے ایک نوکرانی کی درخواست کرتیں تاکہ وہ خادمہ یہ سارے کام انجام دیتی ۔ ( یہ بات سننے کے بعد ) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ تم کو ایسا عمل بتائوں جو خادم و نوکر سے بہتر ہو ؟جب آپ سونے کا ارادہ کریں تو 34 بار «الله اکبر»، 33 بار «الحمدللّه» و 33 بار «سبحان الله» پڑہیں ۔ تو فاطمہ سلام اللہ علیہا نے 3 تین بار فرمایا میں خدا اور اس کے رسول سے راضی ہوگئی ۔ویسے تو کتابوں میں اس تسبیح کو پڑہنے کے کئی طریقوں کا تذکرہ ملتا ہے جن کو تفصیلی طور پر بحار الانوار ج89 ، کامل الزیارات وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن مشہور و معروف تسبیح وہی ہے کہ جو ہم اور آپ نماز کے بعد پڑھتے ہیں اور جس کے بارے میں اوپر ذکر شدہ روایت کے علاوہ امیر المومنین حضرت علی ؑ اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایت ہے کہ : تسبیح فاطمہ ھو اللہ اکبر اربع و ثلاثون مرّۃ ، سبحان اللہ ثلاث و ثلاثون مرّۃ ، و الحمد للہ ثلاث و ثلاثون مرّۃ(من لا یحضرہ الفقیہ ج١ ص 211 و ثواب الاعمال ص 196)یعنی تسبیح فاطمہ یہ ہے : 34 مرتبہ اللہ اکبر 33مرتبہ سبحان اللہ 33 مرتبہ الحمد للہ ۔اس روایت سے اگر چہ ظاہراً یہ سمجھ میں آتا ہے سبحان اللہ کو الحمد للہ پر مقدم کیا جائے لیکن سبحان اللہ کو بعد ہی میں پڑھنا چاہئے کیونکہ اکثر روایات میں وارد ہوا ہے کہ سبحان اللہ کو الحمد للہ کے بعد پڑھا جائے ۔ مثلاً جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے تسبیح فاطمہ ؐ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ : تبدأ بالتکبیر ثم التحمید ثم التسبیح یعنی پہلے اللہ اکبر کہو پھر الحمد للہ اور پھر سبحان اللہ ۔(من لا یحضرہ الفقیہ جلد 1صفحہ 211 و ثواب الاعمال ص 196)
ان تین جملوں کی کچھ وضاحت :اس تسبیح میں تین جملے ہیں اللہ اکبر ، الحمد للہ ، سبحان اللہ ان کی کچھ تشریح عرض کرتے ہیں کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک خادمہ کے بدلے میں اپنی دختر نیک اختر کو یہ عمل دیا ہے اور اس عمل کو رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ نے نوکرسے زیادہ بہتر قرار دیا ہے یہ ایک عظیم امر ہے اس پر سوچا جائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ اپنی اکلوتی بیٹی کی درخواست کے بدلے میں کیا دے رہے ہیں اور کیا دے سکتے تھے۔اس تسبیح کا پہلا ذکر ’’ اللہ اکبر ‘‘ ہے اللہ اکبر کہنے سے انسان اپنی نہایت ہی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کرتا ہے ۔ امام خمینی ؒ اپنی کتاب شرح چہل حدیث ( اربعین حدیث ) میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ : جمیع بن عُمیر کہتا ہے : میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھا امام علیہ السلام نے مجھ سے پوچھا : «الله اکبر» کی کیا معنی ہے ؟ تو میں نے کھا مولا یعنی خداوند ہر چیز سے بڑا ہے ، امام علیہ السلام نے فرمایا : اس معنی کے مطابق تم نے خدا کو ایک حد میں تصور کیا ہے اور اس کے بعد اس کا دوسری چیزوں کے ساتھ مقایسہ و قیاس کر کے کھا ہے کہ خدا ان سے بڑا ہے ، میں نے کھا مولا تو اس اللہ اکبر کی معنی کیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا :اللہ اکبر کی معنی ہے اللہ اکبرُ اَن یُوصَفَ خدا اس ہر وصف و تعریف سے بڑا ہے ( یعنی جو صفات خدا کی بیان کی جائیں خداوند متعال کی ذات بابرکات اس سے بڑی ہے )(شرح چهل حدیث (اربعین حدیث) امام خمینی، ص656)اس تسبیح کا دوسرا ذکر ’’ الحمد للہ ‘‘ ہے ، انسان جب اپنی انکساری و عاجزی کا درگاہ خداوندی میں اظہار کرکےالحمدلله کہتا ہے تو اس جملے کے ذریعے سے دراصل شکر خدا کو بجا لاتا ہے ۔امام خمینی قدس سرہ باب حمد میں فرماتے ہیں : خداوند متعال کی حمد اس کے شکر کے برابر ہے کیونکہ بہت ساری روایات میں وارد ہوا ہے کہ جو الحمد للہ کہتا ہے اس نے شکر خدا کو انجام دیا ہے ۔حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر نعمت کا گرچہ وہ ( نعمت) کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو شکر ادا کرنے کے لئے خداوند کی حمد کیا کرو اور کمال شکر یہ ہے کہ تم الحمد للہ ربّ العالمین کہو۔دوسری حدیث میں حماد بن عثمان کہتا ہے کہ : امام صادق علیہ السلام مسجد سے باہر آئے درحالنکہ ان کی سواری گم ہوگئی تھی ، امام علیہ السلام فرما رہے تھے : اگر خداوند نے میری سواری کو مجھے واپس دلوایا تو میں اس کا شکر بجا لائوں گا جیسے اس کے شکر ادا کرنے کا حق ہے ، ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ امام علیہ السلام کی سواری مل گئی تو امام علیہ السلام نے فرمایا : الحمد للہ ، کہنے والے نے کہا کہ : میں آپ پر فدا جائوں آپ نے تو فرمایا تھا کہ میں خدا کا شکر بجا لائوں گا ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : کیا تم نے نہیں سنا میں نے کہا : الحمد للہاس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند متعال کی حمد کرنا ہی اس کا زبان کے ذریعے سے شکر بجا لانا ہے ۔ (اسرار و آثار تسبیح حضرت زهرا(س)، ص 48)اس تسبیح کا تیسرا ذکر ’’ سبحان اللہ ‘‘ ہے امام خمینی ؒنقل فرماتے ہیں ایک شخص نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ مولا ’’ سبحان اللہ ‘‘ کی معنی کیا ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: سبحان اللہ یعنی خداوند متعال کے بلند مقام و عظمت کے سامنے تعظیم بجا لاکر اس کو ان صفات سے بے نیاز و منزہ جاننا جو مشرکین اس کے لئے بیان کرتے ہیں ، جب کوئی اس جملے کو اپنی زبان پر جاری کرتا ہے تو سب ملائکہ خداوند متعال سے اس پر رحمت نازل کرنےکی دعا کرتے ہیں ۔(شرح چهل حدیث، امام خمینی، ص 349)
عظمت تسبیح حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی دختر مصداق کوثر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو یہ تسبیح عنایت کی تو حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے دھاگے کے ذریعے سے ایک تسبیح بنائی اور یہ ذکر پڑہا کرتی تھیں اور جب سید الشھدا حمزہ بن عبد المطلب شہید ہوئے تو ان کی قبر سے مٹی اٹھا کر انہوں نے دانے بنا کر ایک دھاگے میں ڈال کر تسبیح بنائی ، اس کے بعد جب امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہوئی تو ان کی قبر اطہر سے مٹی اٹھا کر تسبیح بنائی جاتی ہے اس سلسلے میں امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے منقول ایک روایت نقل کرتا ہوں کہ : كتب الحميري إلى القائم عليه السلام يسأله هل يجوز أن يسبح الرجل بطين القبر ؟ وهل فيه فضل ؟ فأجاب عليه السلام يسبح به فما من شئ من التسبيح أفضل منه، ومن فضله أن الرجل ينسى التسبيح ويدير السبحة فيكتب له التسبيح حمیری نے امام زمان عج کو خط لکھا اور سوال کیا کہ کیا امام حسین علیہ السلام کی قبر سے مٹی اٹھا کر اس سے تسبیح بنانا جائز ہے ؟ اور کیا اس تسبیح سے ذکر پڑہنے کی کوئی فضیلت ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے جواب دیا کہ کسی اورچیز سے بنائی ہوئی چیز سے تسبیح کرنا امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی سے بنائی ہوئی تسبیح سے افضل نہیں ہوسکتی ، اور اس مٹی سے بنی ہوئی تسبیح کی فضیلتوں میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ جب کوئی شخص تسبیح پڑہتے ہوئے بھول جائے اور وہ تسبیح اس کے ہاتھ میں ہو تو ( جب تک ہاتھ میں ہے ) اس کو تسبیح کا ثواب ملے گا ۔( بحار الانوار جلد 82 صفحہ 327 باب تسبيح فاطمة صلوات الله عليها وفضله وأحكامه )
* قال الصادق عليه السلام: السبحة التي من قبر الحسين عليه السلام تسبح بيد الرجل من غير أن يسبح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں وہ تسبیح جو امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی کی بنی ہوئی ہووہ جس کے ہاتھ میں ہو اس میں ذکر کرتی ہے چاہے وہ شخص خود ذکر نا پڑہ رہا ہو
(مكارم الاخلاق ص 326)
* روی أن الحور العين إذا أبصرن بواحد من الاملاك يهبط إلى الارض لامر ما يستهدين منه السبح والتراب من طين قبر الحسين عليه السلام : روایت ہوئی ہے کہ جب کبھی جنت کی حوریں دیکھتی ہیں کہ کوئی فرشتہ کسی کام سے زمین پر جاتا ہے تو وہ ان کو قبر امام حسین علیہ السلام کی مٹی سے بنی ہوئی تسبیح کی فرمائش کرتی ہیں ۔(مكارم الاخلاق ص 326)
* عن الصادق عليه السلام أنه سئل عن قول الله عزوجل (اذكروا الله ذكرا كثيرا) ما هذا الذكر الكثير ؟ قال: من سبح تسبيح فاطمة عليها السلام فقد ذكر الله الذكر الكثير: امام صادق علیہ السلام اس آیت یا أَیهَا الذینَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللهَ ذِکْراً کَثیرا : ایمان والواللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو (احزاب ، آیه 41) کی تفسیر پوچھی گئی کہ ذکر کثیر سے کیا مراد ہے ؟ تو امام علیہ السلام فرماتے ہیں : جو کوئی تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو پڑہے تو اس نے خدا کا ذکر کثیر کیا ہے
(بحار الانوار جلد 82 صفحہ 331 باب تسبيح فاطمة صلوات الله عليها وفضله وأحكامه )
* الحسن بن علي العلوي يقول سمعت على بن محمد بن علي بن موسى الرضا عليهم السلام يقول لنا أهل البيت عند نومنا عشر خصال الطهارة وتوسد اليمين وتسبيح الله ثلثا وثلثين وتحميده ثلثا و ثلثين وتكبيره أربعا وثلثين ونستقبل القبلة بوجوهنا ونقرء فاتحة الكتاب وآية الكرسي و... حسن بن علی علوی امام علی نقی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام علیہ السلام فرما رہے تھے کہ :ہم اہل بیت علیہم السلام میں رات کو سوتے وقت دس 10 خصلتیں ہیں : ایک وضو کر کے سونا ، دائیں طرف سونا ( قبلہ مونھ ہوکر ) ، اور تسبیح فاطمہ سلام اللہ علیہا یعنی 34 مرتبہ اللہ اکبر ، 33 مرتبہ الحمد للہ ، 33 مرتبہ سبحان اللہ پڑہنا ، اور سورہ فاتحہ اور آیۃ الکرسی پڑہنا اور . . .(فلاح السائل - السيد ابن طاووس - صفحہ 280)
* عن أبي عبد الله عليه السلام قال: من بات على تسبيح فاطمة كان من الذاكرين الله كثيرا والذاكرات ، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جو شخص سوتے وقت تسبیح جناب زہراء سلام اللہ علیہا کو پڑہ کر سوئے تو وہ خدا کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے والوں میں قرار پاتا ہے(مجمع البيان ج 8 ص 358 سورہ احزاب کی آیت: 35)
آثار و فوائد تسبیح زہراء سلام اللہ علیہا
ہماری اس عظیم ذکر سے غفلت یا تغافل کا سبب خود اس کے فضائل و فوائد سے نا واقف و جاہل ہونا بھی ہے ۔ اگر ہم ان اسرار و رموز سے واقف ہو جائیں جو ان الفاظ کے دامن میں چھپا دئے گئے ہیں تو ہم کسی حد تک خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنی زندگی کو ان جواہرات سے سنوار سکتے ہیں ۔ ذکر تسبیح حضرت فاطمہ ؐ کے لئے بہت سے فوائد ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں ۔1 - گناہوں کی بخشش ، شیطان سے دوری ، رضائے الہی کا حصول:عن الصادق عليه السلام قال: من سبح تسبیح فاطمه الزهراء(س) قبل ان یثنى رجلیه من صلاة الفریضه، غفر الله له : امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا : جو کوئی شخص واجب نمازوں کے بعد جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی تسبیح کو پڑہے تو اس سے پہلے کہ وہ اپنے دائیں پیر کو بائیں پیر سے اٹھائے (قبلہ سے منحرف ہونے سے قبل ) خداوند اس کے سب گناہ معاف کر دیتا ہے ۔(فلاح السائل ، السيد ابن طاووس ص 165)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہمَن سبَّح َ تسبیحَ الزھراء (س) ثم استغفر غفر لہ و ھی مائۃ با للمان والف فی المیزان و تُطردُ الشیطان و تُر ضِی الرحمن ۔جو بھی تسبیح حضرت زہرا علیہا السلام کو پڑہ کر استغفار کریگا خدا اس کے گناہوں کو بخش دے گا ۔ اس تسبیح میں ظاہراً سو 100ذکر ادا ہوتے ہیں لیکن انسان کے نامہ اعمال کو ہزار گناوزنی بنا دیتا ہے ۔ اور ساتھ ہی شیطان کو دور بھگا دیتی ہے اور رضائے احمن کو جلب کرتی ہے(ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ص 148)
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف تسبیح بخشش کا ذریعہ بنتی ہے اور کسی دیگر امر کی ضرورت نہیں ہے ۔ جب کہ دوسری روایت سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ تسبیح کے ساتھ ساتھ خود انسان کا استغفار کرنا بھی ضروری ہے ’’ ثم استغفر غفر لہ ‘‘ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام انسان کے قلب میں احساس استغفار پیدا کرتی ہے اور جب دل میں ایک مخصوص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ بندہ گناہوں کی تکرار نہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے تو خدا بھی اسے معاف کر دیتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس مسئلہ کو صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے ۔فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّـهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ(مائدہ / 39)پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے تو خدا اس کی توبہ قبول کریگا کہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَ‌بُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّ‌حْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ(انعام / 54)اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو ان سے کہئے السلام علیکم ... تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرر دے لی ہے کہ تم میں جو بھی ازروئے جہالت برائی کرے گا اور اس کے بعد توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہےإِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ(نور / 5)اور میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کے لئے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے ۔ان آیات میں غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ گناہوں کی بخشش کے لئے تو بہ کے ساتھ اعمال صالحہ کی پابندی اور حتی المقدور گناہوں کے تکرار سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔اور اس حدیث سے یہ بھی بلکل واضح ہوتا ہے کہ انسانیت و ایمان کا ازلی دشمن شیطان پر یہ تسبیح کس قدر سخت و اذیت ناک ہے کہ اس کے پڑہنے والے کے قریب بھی نہیں آتا اور اس سے دور ہوتا ہے ۔
2 - جنت کا واجب ہوجانا :
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: سمعته يقول من سبح تسبيح فاطمة في دبر المكتوبة من قبل أن يبسط رجليه أوجب الله له الجنة ، امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ راوی کھتا ہے کہ میں نے سنا کہ امام علیہ السلام فرما رہے تھے جو کوئی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کہ تسبیح کو واجب نماز کے بعد پڑہے تو اس سے پہلے کہ وہ اپنے پاوں کو کھولے خداوند اس پرجنت واجب کر دیتا ہے(فلاح السائل ، السيد ابن طاووس ص 165 و بحار الانوار جلد 82 صفحہ 327 باب تسبيح فاطمة صلوات الله عليها وفضله وأحكامه )
یہاں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ ؐ کتنا پر عظمت اور با فضیلت ذکر ہے اور یقیناً اگر اس سے زیادہ فضیلت والا کوئی ذکر ہوتا تو پیغمبر اکرم ؐ اپنی بیٹی کو وہی تعلیم فرماتے ۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :ما عُبد اللہ ُ بشیئ افضل من تسبیح الزھراء ( س) لو کان شیء افضل منہ لَنَخلہ رسول اللہ فاطمہ : یعنی تسبیح فاطمہ زہراء علیہا السلام سے بہتر کسی اور طریقے سے خدا کی عبادت نہیں کی گئی بے شک اگر کوئی چیز اس سے بھی زیادہ افضل ہوتی تو رسول اکرم اپنی بیٹی فاطمہ کو وہی تعلیم فرماتے ۔( زندگانی حضرت زھراء ؐ ص 98)ان روایات کے بعد ذکر تسبیح حضرت فاطمہ زھراء ؐ کی عظمت و فضیلت اور دوسرے اذکار پر اس کی بر تری روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے اور اگر اس پر مداومت کر لی جائے تو انسان دنیا و آخرت کی برکتیں اور نعمتیں سمیٹ سکتا ہے ۔ اور کل قیامت میں حضرت فاطمہ ؐ کے محضر میں سر خرو ہو سکتا ہے ۔3-ایک تسبیح ایک ہزار رکعات کے برابر :
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: تسبيح الزهراء فاطمة عليها السلام في دبر كل صلاة أحب إلى من صلاة ألف ركعة في كل يوم ، اما صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر نماز ( واجب ) کے بعد مجھے تسبیح فاطمہ سلام اللہ علیہا پڑہنا ہر روز 1000 رکعت پڑہنے سے زیادہ پسند ہے (ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ص 149)یعنی امام علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ جو نماز تسبیح کے ساتھ پڑہی جائے وہ اس ایک ہزار رکعات سے افضل ہے جو بغیر تسبیح کے پڑہی جائیں ۔
4 - شقاوت اور بدبختی سے نجات کا ذریعہ :
ہر انسان اپنی عقل و معرفت کے حساب سے اس پر آشوب دنیا میں خوشبختی کا طالب ہے ، دوسرے الفاظ میں ہر انسان چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی سعادت اور اطمئنان کی راہ پر چلنے کے لئے کوشاں ہوتا ہے اور یہ تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ذریعہ ہے جس سے انسان سعادت کی راہ پر چلتے ہوئے شقاوت اور بدبختی کی آفات سے بچ سکتا ہے۔عن أبی عبد الله (ع) قال لأبی هارون المکفوف: یا أبا هارون إنّا نأمر صبیاننا بتسبیح الزهراء (س) کما نأمرهم بالصلاة فالزمه فإنه لم یلزمه عبد فیشقی ، اما م صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے ابوھارون سے فرمایا : ای ابو ہارون ہم اپنے چھوٹے بچوں جس طرح نماز پڑہنے کا حکم دیتے ہیں اسی طرح ان کو تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا پڑہنے کا بھی حکم دیتے ہیں ، تم بھی اس کو پڑہنے کو اپنے لئے لازم بنا دو کیونکہ جو شخص اس کو مدام پڑہتا رہے کبھی شقاوت و بدبختی میں مبتلیٰ نہیں ہوسکتا ۔( ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ترجمه انصارى محلاتى، ص 315)
اس روایت میں آپ ملاحضہ کر سکتے ہیں کہ جیسے ایک واجب فعل ( نماز ) کا امام علیہ السلام اپنی اولاد و خاندان کے بچوں کو حکم دیتے ہیں اسی طرح وہ تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا بھی حکم دیتے ہیں، یہ حدیث اس تسبیح کی عظمت کو معراج تک لے جاتی ہے ، اور ہمیں بھی اپنے بچوں کو اس تسبیح کے پڑہنے کا حکم دینا چاہئے ۔
5 -محبوب خدا بن کر جہنم و منافقت سے نجات کا سبب :
اوپر ایک آیت کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام کا قول نقل کیا کہ امام علیہ السلام نے تسبیح جناب فاطمہ (س) کو خدا کا ذکر کثیر کا مصداق قرار دیا اس سے ذمیمہ کرتے ہوئے ایک حدیث رسول گرامی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ فرماتے ہیں : من اکثر ذکر الله عز و جل احبه الله و من ذکر الله کثیرا کتبت له برائتان؛ برائة من النار و برائة من النفاق ، جو خدا کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرتا ہے تو خدا اس سے محبت کرنا شروع کردیتا ہے جو خدا کا زیادہ ذکر کرتا ہے خدا اس کو جہنم اور منافقت سے بچاتاہے۔(اصول کافى، ج 2، ص 499، ح 3)
6-جسمانی امراض و بالخصوص بھرے پن کا علاج :جہاں یہ تسبیح حمد خدا و شکر خدا کو بجا لانے کا ذریعہ بھی ہے ساتھ میں اوپر بیان شدہ معنوی نعمات کا وسیلہ بھی ہونے کے ساتھ ساتھ ظاہری امراض و جسمانی مشکلات کو دور کرنے کا سبب بھی ہے اس سلسلے میں دو 2 روایتوں کو ذکر کرتے ہیں
(1)قال بعض أصحاب أبي عبد الله عليه السلام: شكوت إليه ثقلا في اذني، فقال عليه السلام: عليك بتسبيح فاطمة عليها السلام ، امام صادق علیہ السلام کے ایک صحابی نے امام علیہ السلام سے اپنے بھرے پن ( کم شنوائی ) کی شکایت کی تو امام علیہ السلام نے اس کو فرمایا : تسبیح فاطمہ (س) پڑہا کرو ۔
(2)دخل رجل على أبي عبد الله وكلمه فلم يسمع كلام أبي عبد الله عليه السلام وشكى إليه ثقلا في اذنيه، فقال له: ما يمنعك ؟ وأين أنت من تسبيح فاطمة عليها السلام قال: جعلت فداك، وما تسبيح فاطمة ؟ فقال: تكبر الله أربعا وثلاثين وتحمد الله ثلاثا وثلاثين وتسبح الله ثلاثا وثلاثين تمام المائة، قال: فما فعلت ذلك إلا يسيرا حتى أذهب عني ما كنت أجده ، امام صادق علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا امام علیہ السلام نے اس سے بات کی تو وہ امام علیہ السلام کے کلام کو نہ سن سکا اور امام علیہ السلام سے اپنے بھرے پن کی شکایت کی ، تو امام علیہ السلام نے اس کو فرمایا : تمہیں کس نےمنع کیا ہے ، تم کیوں تسبیح جناب فاطمہ (س) سے غافل ہو ؟ تو اس شخص نے کہا : میں آپ پر قربان جائوں، یہ تسبیح فاطمہ (س) کیا ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : 34 مرتبہ اللہ اکبر کہنا ، 33 مرتبہ الحمد للہ ، 33 مرتبہ سبحان اللہ کا پڑہنا ( تسبیح جناب فاطمہ (س) کہلاتا ہے ) وہ شخص کہتا ہے میں نے تھوڑا عرصہ ہی اس عمل کو انجام دیا تھا کہ میرا بھرا پن ختم ہوگیا ۔(بحار الانوار جلد 82 صفحہ 332 باب تسبيح فاطمة صلوات الله عليها وفضله وأحكامه )
شرائط تسبیح جناب سیدہ علیہا السلام
علما کرام نے اس تسبیح کے اسرار و رموز و اثر کو محسوس کرنے کے لئے حد اقل تین 3 شرطیں بیان کی ہیں1- تسبیح کرتے وقت حضور قلب و خشوع و خضوع :ہر عمل کی مقبولیت میں عموما اور تسبیح جناب سیدہ علیہا السلام میں خصوصا حضور قلب و خشوع و خضوع کا بڑا دخل ہے ، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس بہترین تسبیح کو نماز کے بعد یا تو پڑہتے ہی نہیں ہیں یا فقط فارملٹی پوری کرنے کے لئے جلدی جلدی پڑہ کے ختم کردیتے ہیں ۔2 - نماز کے فوراََ بعد پڑہا جانا :ہر واجب نماز کے فوراََ بعد یعنی جیسے ہی آخری سلام کے بعد تکبیر کہی جاتی ہے اس تسبیح کو پڑہا جائے ۔3 -موالات :یعنی تسبیح کو پڑہتے وقت بغیر کسی دوسرے کام یا بات کرنے کے تینوں اذکار کو پی در پی پڑہا جائے ۔ہم سب شہزادی کونین کو وسیلہ قرار دیتے ہوئے بارگاہ خدا وندی میں دعا کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کو تسبیح حضرت فاطمہ الزہرا علیہا السلام کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر محبوب افکار کے سہارے معمور و منور فرما آمین یا رب العالمین ۔

بغض اہلبیت (ع) پر تنبیہ::



رسول اکرم ! اگر کوئی بندہ صفاء و مروہ کے درمیان ہزا ر سال عبادت الہی کرے پھر ہزار سال دوبارہ اور ہزار سال تیسری مرتبہ اور ہم اہلبیت (ع) کی محبت حاصل نہ کرسکے تو پروردگار اسے منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا جیسا کہ ارشاد هوتاهے ” میں تم سے محبّتِ اقربا کے علاوہ اور کوئی سوال نہیں کرتاهوں“
Ref: ( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 1 ص 132 / 182 روایت ابوامامہ باہلی ، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 198) ۔-------------------رسول اکرم ! میرے بعد بارہ امام هوں گے جن میں سے نوحسین (ع) کے صلب سے هوں گے اور نواں ان کا قائم هوگا، اور ہمارا دشمن منافق کے علاوہ کوئی نہیں هوسکتاهے ۔Ref: (کفایة الاثر ص 31 روایت ابوسعید خدری) ۔----------------------رسول اکرم ! جو ہماری عترت سے بغض رکھے وہ ملعون، منافق اور خسارہ والا هے ۔Ref: ( جامع الاخبار ص 214 / 527) ۔-----------------------جابر بن عبداللہ رسول اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، لوگو! جو ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا اللہ اسے روز قیامت یهودی محشور کرے گا۔میں نے عرض کی حضور ! چاهے نماز روزہ کیوں نہ کرتا هو؟ فرمایا چاهے نماز روزہ کا پابند هوا اور اپنے کو مسلمان تصور کرتا هو۔Ref: (المعجم الاوسط 4 ص 212 / 4002 ، امالی صدوق (ر) 273 / 2 روایت سدیف ملکی، روضة الواعظین ص 297) ۔-----------------رسول اکرم ! ہر خاندان اپنے باپ کی طرف منسوب هوتاهے سوائے نسل فاطمہ (ع) کے کہ میں ان کا ولی اور وارث هوں اور یہ سب میری عترت ہیں ، میری بچی هوئی مٹی سے خلق کئے گئے ہیں، ان کے فضل کے منکروں کے لئے جہنم هے، ان کا دوست خدا کا دوست هے اور ان کا دشمن خدا کا دشمن هے ۔Ref: ( کنز العمال 12 ص 98 / 34168 روایت ابن عساکر، بشارة المصطفیٰ ص 20 روایت جابر) ۔

اہل عذاب میں سے ایک مردہ کا زندہ ہونا

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:عیسی بن مریم ایک گاوں میں پہنچے کہ وہاں کے رہنے والے، جانوروں پرندوں سمیت سب مر چکے تھے۔ فرمایا: یہ سب اللہ کے غضب اور عذاب کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں اور اگر اپنی طبیعی موت سے الگ الگ مرتے یقینا ایک دوسرے کو دفن کرتے۔ حواریوں نے عرض کیا: اے روح اللہ! اللہ سے کہیں کہ انہیں ہمارے لیے زندہ کرے۔ تاکہ ہمیں بتائیں کہ ان کا کردار کیسا تھا۔ حضرت عیسی نے اپنے خدا کی بارگاہ میں ان کے زندہ ہونے کی دعا کی۔ خدا کی جانب سے صدا آئی کہ انہیں آواز دو۔ پس حضرت عیسی علیہ السلام ایک ٹیلے پر چڑھے اور آواز دی: اے اس قریہ کے لوگو ان میں سے ایک نے جواب دیا: جی یا روح اللہ! ، فرمایا: وای ہو آپ پر تمہارا کردار کیسا تھا؟ اس نے جواب میں کہا: طاغوت کی عبادت اور دنیا سے محبت، لمبی لمبی آرزوئیں اور خدا کی عبادت سے غفلت۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا: دنیا کی نسبت تمہاری محبت کیسی تھی؟ عرض کیا: جیسے بچے کو ماں سے محبت ہوتی ہے۔ جب ہماری طرف رخ کرتی تھی ہم خوش ہو جاتے تھے اور جب منہ پھیر لیتی تھی تو غمگین ہو جاتے تھے۔فرمایا: طاغوت کی عبادت کیسی تھی؟ عرض کیا: گناہگاروں کو اپنا حاکم مانتے تھے ۔ فرمایا: آخر کار تم لوگوں کا انجام کیا ہوا؟ عرض کیا: ایک رات کو خوشی کے عالم میں سو رہے تھے۔ صبح کو ہاویہ میں گرفتار ہو گئے۔ فرمایا: ہاویہ کیا ہے؟ کہا : سجین ہے۔ فرمایا: سجین کیا ہے؟ عرض کیا: آگ کے پہاڑ کہ جو قیامت تک ہمارے اوپر گرتے رہیں گے۔ فرمایا: پس تم لوگوں نے کیا کہا اور کیا جواب ملا؟ کہا: ہم نے کہا ہمیں دنیا میں واپس پلٹا دو تاکہ ہم زہد اور تقوی اختیار کریں۔ ہمیں کہا گیا: تم لوگ جھوٹ بولتے ہو۔ فرمایا: وای ہو تم پر کیا ہوا کسی اور نے ان لوگوں میں سے ہم سے بات نہیں کی؟ عرض کیا: اے روح خدا! ان سب کے منہ میں آگ کی لگامیں پڑیں ہوئی ہیں۔ اور عذاب کے فرشتے ان پر مسلط ہیں۔ میں بھی ان کے درمیان پھنسا ہوا تھا لیکن ان میں سے نہیں تھا جب اللہ کا عذاب آیا مجھے بھی اپنی لپیٹ میں لے گیا۔ پس میں جہنم کے دروازے پر ایک بال سے باریک رسی کے ذریعے لٹا ہوا ہوں۔ نہیں جانتا کب اس میں گر جاوں گا یا رہائی پاوں گا۔ پس حضرت عیسی علیہ السلام نے حواریوں کی طرف رخ کر کے فرمایا: اے اللہ کے بندو! خشک روٹی نمک سے کھانا اور کھنڈروں میں سونا کہیں بہتر ہے اس صورت میں کہ دنیا اور آخرت خیر و عافیت کے ساتھ ہمراہ ہو۔كافي ج2 ص 318 (باب حب دنيا و حرص بر آن، ح 11)

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی شہادت

شہزادي دوعالم حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ عليہاجناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی شہادت
تاریخ شہادت:
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخ شہادت کے بارے میں کئی نظر ئے پائے جا تے ہیں:
١۔ کچھ سنی اور شیعہ علما کا نظر یہ یہ ہے کہ آپ کی شہادت گیارہ ہجری تیرہ(١٣) جمادی الاول کو ہوئی جن کو ہمارے علما ء میں سے مر حوم کلینی صاحب الامامةوالسیاسة جناب طبری شیعی صاحب کشف الغمہ وغیرہ نے فرمایا ہیں۔
اس نظر یے کی بناء پر حضرت زہرا نے پیغمبر اکرم ۖ کے بعد صرف پچہتر دن زندگی گذاری کیونکہ پیغمبر اکرم کی وفات ٢٨ صفر گیارہ ہجری کو ہو ئی تھی ۔
علامہ مجلسی (٣) صاحب منتخب التواریخ ،صاحب منتہی الا مال وغیرہ نے فرمایا کہ جناب سیدہ کو نین کی شہادت تین جمادی الثانی گیارہ ہجری کو ہو ئی جس کی بناء پر حضرت زہرا نے پیغمبر گرامی کی وفات کے بعد پچا نوے دن زندگی گذاری۔
قارئین کرام ! اس اختلاف کی دو وجہ ہوسکتی ہے:
١۔ قدیم زمانے میں اکثر اسلامی مطالب اور تو اریخ خط کو فی میں لکھا جا تا تھا خط کو فی کی خصوصیت یہ تھی کہ نقطے کے بغیر لکھا جاتا تھا لہٰذا پڑھنے اور لکھنے میں لوگ اشتباہ کا شکار ہو جاتے تھے جیسے ٧٥دن حمسہ وسعون اور ٩٥ دن حمسہ وسعون کی شکل میں لکھا کر تے تھے لہٰذا نقطہ گزاری کے بعد اشتباہ ہوا ہے کیا خمسہ وسبعون تھا تا کہ ٧٥ دن والا نظر یہ صحیح ہو جا ئے یا خمسہ و تسعون صحیح ہے تاکہ ٩٥ والا نظریہ صحیح ہوجائے۔
٢۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ائمہ معصومین سے دو قسم کی روایات منقول ہیں ایک دستہ روایات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت زہرا نے پیغمبر اکرم کے بعد پچھتر دن زندگی گزاری ہے دوسرا دستہ روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبر کی وفات کے ٩٥دن بعد آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اگر چہ تاریخ شہادت حضرت زہراکے بارے میں اور بھی نظریات ہیں لیکن معروف اور مشہور یہی مذکو رہ دونظر ئے ہیں لہٰذا باقی اقوال اور نظر یات ذکر کر نے کی ضرورت نہیں ہے اور اسلامی جمہوری ایران میں ہمارے پیشوا مجتہدین کے مابین بھی اختلاف ہے کچھ حضرات ١٣ جمادی الاول اور دوسرے کچھ مجتہدین ٣ جمادی الثانی کو حضرت زہرا کی شہارت مناتے ہیں لہٰذا حو زہ علمیہ قم میں ایام فاطمیہ کے نام سے دونوں مہینوں میں کچھ دنوں کے درس وبحث کو حضرت زہرا کے غم میں تعطیل کر تے ہیں۔سبب شہادت حضرت زہرا
تاریخ اسلام میں دو قسم کے خائن کسی سے مخفی نہیں ہیں:
عداوت اور دشمنی کی وجہ سے حقائق اور حوادث کو تحریف کے ساتھ نقل کر نے والے۔
عداوت اور دشمنی کی بنا ء پر تاریخ اور حوادث کی تحریف کر نے کی کو شش تو نہیں کی ہے۔
لیکن اگر تاریخ اور حقائق نقل کریں تو اپنا عقیدہ زیر سوال اور مذہب بے نقاب ہو جا تا ہے لہٰذا حضرت زہرا، اسلام میں مثالی خاتون ہو نے کے باوجود حضرت محمد ۖکی لخت جگر ہو نے کے علاوہ صحابہ کرام نے پیغمبر کی وفات کے فورا بعد حضرت زہرا کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟اگر تاریخ اور روایات کا مطالعہ کریں تو فریقین کی کتابوں میں حضرت زہرا پر ڈھائے گئے مظالم کم وبیش موجود ہیں اور اکسیویں صدی کے مفکر اور محقق تعصب سے ہٹ کر غور کریں تو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا سبب بخوبی واضح ہو جا تا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا حضرت زہرا کے وفات پانے کی علت کیا تھی ؟ آپ نے فرمایا عمر نے اپنے قنفذ نا می غلام کوحکم دیا کہ اے غلام حضرت زہرا پر تلوار کا اشارہ کر جب قنفذ کی تلوار کی ضربت آپ کے نازک جسم پر لگی تو محسن سقط ہو ئے جس کی وجہ سے آپ بہت علیل ہوئیں اور دنیا سے چل بسیں (1)
سلیم ابن قیس سے نقل کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب کے دور خلافت میں ایک سال تمام ملازمین کے حقوق کا آدھا حصہ کم کردیاتھا صرف قنفذ کے حقوق کو حسب سابق پورا دیا اورسلیم نے کہا میں جب اس وقت مسجد نبوی میں داخل ہو ا تو دیکھا کہ مسجد کے ایک گو شہ میں حضرت علی کے ساتھ بنی ہا شم کی ایک جماعت سلمان ،ابوذر مقداد محمد ابن ابو بکر ،عمرابن ابی سلمہ ،قیس ابن سعد بیٹھے ہو ئے تھے، اتنے میں جناب عباس نے حضرت علی سے پوچھا اے مولا ا س سال عمر نے تمام مولازمین کے حقوق کو کم کردیا ہے لیکن قنفذ کے حقوق کو کم نہیں کیا جس کی وجہ کیا ہے؟
حضرت نے چاروں اطراف نظر دوڑائی اور آنسوبہاتے ہو ئے فرمایا:
'' شکر لہ ضربة ضربہا فاطمة بالسوّط فماتت وفی عضدہا اثرہ کانہ الدملج ۔''

عمر نے قنفذ کے حقوق کو اس لئے کم نہیں کیاکیونکہ اس نے جو تازیانہ حضرت زہرا کے بازو پر اشارہ کیا تھا جس کا عوض یہی حقوق کا کم نہ کر نا تھا حضرت زہرا جب دنیا سے رخصت کر گیئں تو اس ضربت کا نشان آپ کے بازوئے مبارک پر بازوبند کی طر ح نمایاں تھا لہٰذا حضرت زہرا نے قنفذ کی ضربت کی وجہ سے جام شہادت نوش فرمایا:
''قال النظام ان عمر ضرب بطن الفاطمة یوم البیعة حتی القت المحسن من بطنھا۔''

نظام نے کہا بتحقیق عمر نے حضرت فاطمہ زہرا کے شکم مبارک پر بیعت کے دن ایک ایسی ضربت لگا ئی جس سے ان کا بچہ محسن سقط کر گیا۔
چنانچہ صاحب میزان الا عتدال نے کہا :
''ان عمر رفص فاطمة حتی اسقطت بمحسن ۔''
بتحقیق عمرنے حضرت زہرا پر ایک ضربت لگا ئی جس سے محسن سقط ہوئے ۔
نیز جناب ابراہیم ابن محمد الحدید جو الجوینی کے نام سے معروف ہیں جن کے بارے میں جناب ذہبی نے یوں تعریف کی ہے (ہو امام محدث فرید فخرالا سلام صدر الدین) انھوںنے اپنی قابل قدر گراں بہا کتاب فرائد السمطین میں ایک لمبی روایت کو ابن عباس سے نقل کیا ہے جس کا ترجمہ قابل ذکر ہے۔
ایک دن پیغمبر اکرم ۖ بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں حضرت امام حسن تشریف لائے جب پیغمبر کی نظر امام پر پڑی تو گریہ کر نے لگے پھر فرمایا اے میرے فرزند میرے قریب تشریف لائیں امام پیغمبر کے قریب آئے تو پیغمبر نے ان کو اپنی دائیں ران پہ بٹھایا پھر امام حسین آئے جب پیغمبر کی نظر آپ پر پڑی تو روتے ہوئے فرمایا اے میرے فرزند میرے قریب تشریف لائیں امام آنحضرت کے قریب آئے تو آنحضرت نے آپ کو اپنی بائیں ران پہ بٹھا یا اتنے میں جناب سیدہ فاطمہ زہرا تشریف لائیں تو ان کے نظر آتے ہی آپ رونے لگے اور فرمایا اے میری بیٹی فاطمہ میرے قریب تشریف لائیں انحضرت نے حضرت فاطمہ کو اپنے قریب بٹھا یا پھر جناب امام علی تشریف لائے جب پیغمبر اکرم ۖ کو حضرت علی نظر آئے تو گریہ کر تے ہو ئے فرمایا اے میرے بھا ئی میرے قریب تشریف لائیں پیغمبر نے حضرت علی کو اپنے دائیں طرف بٹھا یا اور حضرت زہرا کی فضیلت بیان کر نے کے بعد آنحضرت ۖنے حضرت زہرا(س)کے بارے میں رونے کا سبب اس طرح بیان فرمایا :
''وانی لماراتیھا ذکرت مایصنع بہا بعدی کانی بہا وقد دخل الذل بیتہا وانتہکت حرمتہا وغصب حقہا ومنعت ارثہا وکسر جنبہا واسقطت جنینہا وہی تنادی یا محمداہ فلاتجاب وتسغیث فلا تغاث ۔''
بتحقیق جو سلوک میری رحلت کے بعد حضرت زہرا کے ساتھ کیا جائے گا وہ مجھے یاد آنے سے جب بھی حضرت زہرا نظر آتی ہیں بے ا ختیار آنسو آجاتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد ان کی حرمت پائمال اور ان کے گھر پر ذلت وخواری کا حملہ ان کے حقوق دینے سے انکار ان کا ارث دینے سے منع کر کے ان کا پہلو شہید کیا جائے گا اور ان کا بچہ سقط ہوگا اور وہ فریاد کرتی ہو ئی یا محمد اہ کی آواز بلند کریں گی لیکن کو ئی جواب دینے والا نہیں ہو گا وہ استغاثہ کریں گی لیکن ان کے استغاثہ پر لبیک کہنے والا کو ئی نہیں ہوگا۔
ان مذکورہ روایات سے بخوبی روشن ہو جاتا ہے کہ حضرت زہرا کے پیغمبر اکرم ۖکی رحلت کے فورا بعد شہید ہونے کا سبب صحابہ کرام کی طرف سےڈھائے گئے مظالم ہیں جن کا تحمل زمین اور آسما ن کو نہ ہو نے کا اعتراف خود حضرت زہرا نے کیا ہے:صبت علی مصائب لوانھا صبت علی الا یام صرن لیا لیا

ترجمہ : مجھ پر ایسی مصیبتیں اور مشقتیں ڈھائی گئیں اگر دنوں پرڈھائی جا تی تو دن اور رات بھی برداشت نہ کر تے ۔
پس خود اہل سنت کے معروف مورخین اور مئولفین کی کتابوں کا مطالعہ کر نے سے درج ذیل مطالب روشن ہو جاتے ہیں :
پیغمبر اکرم ۖ کی رحلت کے نو دن بعد فدک کوغصب کیا گیا۔
پیغمبر اکرم ۖ کی تجہیز وتکفین سے پہلے امامت اور خلافت کے ساتھ بازی کی گئی (٣) زہرا کے دولت سرا پر حملہ کر کے ان کی شخصیت کو پا ئمال کردیا گیا ان کے دروازے کو آگ لگا ئی گئی حضرت زہرا پر لگی ہو ئی ضربت نے حضرت زہرا کو مظلومیت کے ساتھ شہید کیا (٢)
لہٰذا وصیت میں حضرت زہرا نے فرمایا مجھے رات کو تجہیز وتکفین کر نا جس کا فلسفہ یہ تھا کہ زہرا دنیا کو یہ بتا نا چا ہتی تھیں کہ میں ان پر راضی نہیں ہو ںچو نکہ ان کے ہاتھوں ڈھائے گئے مظالم قابل عفوودرگزر نہیں ہے ۔………بحارالانوار جلد ٤٣ ص ١٩٣.کافی ج١ ص٤٥٨ الامامة و السیاسة ج١ ص٢٠ دلائل الامامة کشف الغمہ.٢۔یہ نظریہ ہمارے علماء میںسے جناب کفعمی (١)سید ابن طاووس
مصباح کفعمی ص٥١١ اقبال الاعمال ص ٦٢٣.(٣)بحارجلد ٤٣ ص١٧٠ . منتخب التواریخ منتہی الامال .برخانہ زہرا چہ گذشت ص٥٠ بحار الا نوار ج٤٣.کتاب بیت الا حزان ص١٤٣ . الوافی بالوافیات جلد ٦ص ١٧.میزان الاعتدال جلد١ ص١٣٩ .فرائد السمطین ( نقل از کتاب الحجتہ الغرّا )وفاء الوفاء جلد ٢ ص٤٤٤ .نقل از کتاب الحتہ الغرا

~ساٹھ برس اور تیس برس کی عمر~

سوال:دو نیک اشخاص ہیں، ایک کو خدا نے تیس برس کی عمر عطا کی اور دوسرے کو ساٹھ برس کی عمر عطا کی۔ جب تیس برس کی عمر رکھنے والا شخص روز۔ حشر خدا کی بارگاہ میں پیش ہوا تو اُس نے کہا:تُو نے میری عمر زیادہ کیوں نہیں کی تاکہ میں بھی اپنے بھائی کی طرح سے زیادہ عرصے تک تیری عبادت کرتا اور زیادہ درجات کا حقدار قرار پاتا؟
واضح کریں کہ اگر بالفرض ایسا سوال کیا جائے تو اللہ تعالٰی کیا جواب دے گا۔
جواب:اس سوال کے متعلق ہم تین جواب دیں گے:
پہلا جواب:-ہر چیز کے متعلق دو چیزوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے:1 کمیت (Quantity)2 کیفیت (Quality)
کمیت کا مقصد یہ ہے کہ مثلا ایک انسان ایک سال مسلسل نماز۔ شب ادا کرتا ہے اور پنجگانہ نمازوں کی تعقیبات پڑھتا ہے اور روزانہ قرآن۔ حکیم کی تلاوت سے بھی مشرف ہوتا ہے اور فضول خرچی سے پرہیز کرتا ہے اور فاضل دولت راہ۔ خدا میں خرچ کرتا ہے۔
کیفیت کے متعلق یہ سمجھیں کہ مثلا ایک شخص نماز۔ مغرب و عشاء کو پورے اخلاص۔ قلب اور آداب۔ ظاہری کے ساتھ ادا کرتا ہے اور یوں اسکی نماز خشوع و ادب کا نمونہ بن جاتی ہے۔ پھر یہ شخص سو جاتا ہے اور نماز۔ فجر کامل اخلاص۔ قلب اور خشوع و ادب کے ساتھ پڑھتا ہے تو ایسی نماز کی اللہ کے ہاں بڑی قدر و قیمت ہے اور یہ نماز بےدلی سے ادا کی گئی تمام رات کی نمازوں سے کئی گنا افضل ہے۔ تو ثابت ہوا کہ عمل کے اجر کیلیئے صرف کمیت کو ہی مد نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ کیفیت کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔اسی لیئے حبیب۔ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "دو ہلکی پھلکی رکعات پہ مشتمل نماز کو سکون سے پڑھنا پوری رات کے قیام سے بہتر ہے۔"(بحار النوار ج-84، ص-264)اس حدیث سے یہی مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ خدا کی نظر میں کمیت کے بجائے کیفیت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم عرض کریں گے کہ ممکن ہے کہ جس شخص کو اللہ نے تیس سال کی زندگی عطا فرمائی ہو اسے اخلاص۔ عمل کی دولت سے مالامال کردیا ہو جو کہ ساٹھ سال رکھنے والے کو میسر نہ ہو اور یوں تیس سال کی عمر رکھنے والا شخص ان مراتب و منازل کو حاصل کرلے گا جو کہ ساٹھ سال والے کو بھی حاصل نہ ہوئے ہوں۔ لہٰذا یہ سوال کرنے کی نوبت ہی پیش نہیں آئے گی۔
دوسرا جواب:-جس شخص کو اللہ نے تیس سال کی عمر میں موت دی ہے ممکن ہے کہ اس میں یہ حکمت کارفرما ہو کہ اگر یہ مزید عرصہ زندہ رہا تو اس کے حالات بدل جائیں گے اور وہ عمل۔ خیر کو جاری نہ رکھ سکے گا بلکہ پہلے سے بجالائے ہوئے اعمال بھی تباہ کر بیٹھے گا۔ اسی لیئے اسے تیس برس میں موت دینا ہی بہترین فیصلہ ہے اور یوں جب وہ شخص اپنے اس فائدے کو دیکھے گا تو وہ کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔
تیسرا جواب:-یہ بھی ممکن ہے کہ تیس سال میں مرنے والے کی عمر اللہ نے پہلے زیادہ مقرر کی ہو لیکن اس سے قطع رحمی سرزد ہوئی ہو جس کی وجہ سے اللہ نے اس کی عمر گھٹا کر اسے تیس سال میں بدل دیا ہو اور اسی طرح سے ساٹھ سال عمر پانے والے کیلیئے بھی یہ احتمال موجود ہے کہ اللہ نے اس کی عمر کم رکھی ہو لیکن اس نے صلہ رحمی کی ہو جس کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے اس کی عمر کو طویل کردیا ہو کیونکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ:اپنے مقررہ وقت پہ مرنے والوں سے زیادہ تعداد گناہ کر کے مرنے والوں کی ہوتی ہے اور اپنی مقرر شدہ زندگی سے زیادہ تعداد نیکی کرکے زندہ رہنے والوں کی ہوتی ہے۔(بحار الانوار، ج-73، ص-354)
اور جب قیامت کے دن حقائق کھلیں گے تو اس قسم کے سوال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔
شہید محراب آیت اللہ سید عبد الحسین دستغیب شیرازی (ر۔ہ)کتاب: جواب حاضر ہے۔
آغا قاسم علی۔

فاطمہ اور صبر فاطمہ

[یا ایتھا الصدیقۃ الشھیدۃ ع] ابو بصیر نے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ الزہرا ؑبیس جمادی الثانی کو جب کہ پیغمبر اکرم ؐ کی عمر پینتالیس سال تھی اس وقت بی بی اس دنیا میں تشریف لائیں آٹھ سال تک بی بی مکہ میں باپ کے ساتھ رہیں اور دس سال تک باپ کے ساتھ بسر کئے باپ کی وفات کے پچھتر دن بعد زندہ رہیں اور تین جمادی الثانی گیارہ ھجری کو اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئیں۔جناب فاطمہ الزہرا ؑاسلام میں مثالی خاتون حضرت رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں عورتوں میں سے بہترین عورتیں چار عورتیں ہیں اول مریم دختر عمران دوم فاطمہ الزہرا ؑدختر حضرت محمد مصطفی ؐ سوم حضرت خدیجہ بنت خویلد چہارم حضرت آسیہ زوجہ فرعون منابہ کشف الغمہ ج۲ ص۷۶ ۔حضرت رسول اکرم ؐ مزید فرماتے ہیں بہترین عورتوں میں سے سب سے بہترین عورت حضرت فاطمہ الزہرا ؑہیں ۔منار کشف الغمہ ج۲ ص ۷۶ حضرت امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ الزہرا ؑاللہ تعالی کے ہاں نو ناموں سے یاد کی جاتی ہیں اول فاطمہ ؑدوم صدیقہ ؑسوم مبارکہ ؑچہارم طاہرہ ؑپنجم زکیہ ؑششم رضیہ ؑہفتم مرضیہ ؑہشتم محدثہ ؑنہم زہرا ؑجناب فاطمہ ؑ کے تمام نام رکھے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ برائیوں اور فساد سے محفوظ ہیں اور معصوم ہیں اور اگر علی ؑ نہ ہوتے تو فاطمہ زہرا ؑکا کوئی ہمسر نہ ہوتا کشف الغمہ ج۲ ص۸۹ اس کے علاوہ امام محمد باقر ؑ سے سوال کیا گیا کہ حضرت جناب فاطمہ ؑکا نام زہرا کیوں رکھا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ اس لئے کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا تو آپ کے نور سے زمین وآسمان اتنے روشن ہوئے کہ ملائکہ اس نور سے اتنے نتاثر ہوئے کہ ملائکہ اللہ تعالی کے سامنے سجدے میں گر گئے اور عرض کرنے لگے خدایا یہ کس کا نور ہے اللہ تعالی نے جواب دیا کہ یہ میری عظمت کے نور میں سے یہ ایک شمعہ ہے جسے میں نے پیدا کیا ہے اور ان کو آسمان پر سکونت دی ہے اور اسے پیغمبروں میں سے بہترین پیغمبر کے صلب سے پیدا کیا ہے اور اسی نور سے دین کے امام وپیشوا پیدا کروں گا تا کہ لوگوں کو حق کی طرف دعوت دیں اور وہ پیغمبر کے جانشین اور خلیفہ ہوں گے کشف الغمہ ج۲ ص۹۰ حضرت امام محمد باقر ؑ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اللہ تعالی نے فاطمۃ الزہرا ؑکو علم کے وسیلہ سے فساد اور برائیوں سے محفوظ رکھا کشف الغمہ ج۲ ص۷۹ حضرت عائشہ کہتی ہے میں نے پیغمبرص کے بعد کسی کو فاطمہ زہرا ؑسے سچا نہیں دیکھا زخائر العقبی ص۶۶
حضرت رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں جب قیامت برپا ہو گی عرش سے اللہ تعالی کا منادی ندا دے گا کہ لوگوں اپنی آنکھوں کو بجد کر لو تا کہ حضرت فاطمہ زہرا ؑپل صراط سے گزر جائیں :کشف الغمہ ج۲ ص۹۳ زخائر العقبی کفعمی نے مصباح میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہرا ؑجمعہ کے دن میں جمادی دنیا میں تشریف لائیں :بحار الانوار ج۶۳ ص۶ حضرت محمد مصطفی ؐ نے فرمایا اے فاطمہ ؑخدا وند عالم نے جب دنیا کی طرف پہلی دفعہ توجہ نگاہ کی تو مجھے تمام مردوں پر چنا جب دوسری مرتبہ نگاہ کی تو تمہارے شوہر علی ابن ابی طالب ؑ کو مام لوگوں پر چنا اور جب تیسری مرتبہ توجہ کی تو حسن اور حسین ؑ کو جنت کے جوانوں پر برتری اور فضیلت عناءت کی :کشف الغمہ ج ۲ ص۹۱حضرت جناب ام سلمہ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ مشاہدہ پیغمبر اسلام ؐ سے جناب فاطمہ الزہرا ؑتھی کشف الغمہ ج ص۹۷ حضرت رسول اکرم ؐ نے فرمایا کہ جنت میں سب سے پہلے فاطمہ الزہرا ؑداخل ہوں گی بحار الانوار ج۶۳ ص۶۳ امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا کہ فاطمہ کا نام فاطمہ اس لئَ رکھا گیا تھا کہ لوگوں کو آپ کی حقیقت کرنے کی قدرت نہ تھی بحار الانوار ج۶ ص۶۹اس کے علاوہ حضرت رسول اکرم ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھَ اور علی ؑ اور فاطمہ ؑکو ایک نور سے خلق کیا کشف الغمہ ج۳ ص۹۱
ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ وہ کون سے کلمات تھے جس کی وجہ سے حضرت آدم ؑ کی دعا قبول ہوئی تو جواب دیا گیا کہ وہ کلمات جن سے آدم ؑ کی دعا قبول ہوئی وہ کلمامحمد ؐ علی ؑ فاطمہ ؑحسن ؑ حسین ؑ تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے آدم ؑ کی دعا قبول فرمائِ:کشف الغمہ ج۲ ص۹۱
حضرت پیغمبر اسلام ؐ نے فرمایا :شب معراج جب میں نے جنت کی سیر کی میں نے وہاں فاطمہ ؑکا محل دیکھا جس میں ستر قصر تھے جو لؤلؤ اور مرجان سے بنائے گئے تھے وہاں موجود تھے ۔بحار الانوار ج ۴۳ ص۷۶
ایک دفعہ پیغمبر ؐ نے فاطمہ ؑکو مخاطب کر کے فرمایا فاطمہ جانتی ہو تیرا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا ہے حضرت علی ؑ نے فرمایا فاطمہ نام فاطمہ کیوں رکھا تو پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا فاطمہ کا نام فاطمہ اس لئے رکھا کہ یوں کہ آپ اور آپ کے پیرو کار دوزخ کی آگ سے محفوظ ہوں گے یعنی تمام امان میں ہوں گے :بحار الانوار ج۴۳ ص۱۴
حضرت امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم ؐ جناب فاطمہ ؑکو زیادہ بوسے دیا کرتے تھے ایک دفعہ عائشہ نے اعتراض کیا کیوں ان کو اتنے بوسے دیتے ہیں تو حضور نے جواب دیا کہ جب مجھے معراج پر لایا گیا تو میں بہشت میں داخل ہوا حضرت جبرائیل ؑ مجھے درخت طوبی کے قریب لے گئے اور اس درخت کا میوہ مجھے دیا میں نے اس میوہ کو کھایا تو اس میوہ کے ذریعے نطفہ وجود میں آیا اور حضرت خدیجہ ؑسے ہمبستر ہوا تو اس سے فاطمہ ؑکانطفہ ٹھرا یہی وجہ ہے جب میں فاطمہ کا بوسہ لیتا ہوں تو درخت طوبی کی خوشبو میرے مشام تک پہنچتی ہے میں اسے محسوس کرتا ہوں بحار الانوار ص۴۳ ص۶ مذہب اہل سنت اس روایت کے صحیح ہونے کے معترف ہیں وہ روایت اس امر کو بیان کر رہی ہے حضرت رسول خدا ؐ نے فرمایا الفاطمۃ بضعۃ منی فمن اغضبوا اغضبنی حضرت فاطمہ ؑمیرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ہے اور اس کے علاوہ جس شخص نے اس کو راضی کیا ہے اس نے مجھے راضی کیا ہے صحیح بخاری اس کے علاوہ قرآن وسنت کے حکم کے مطابق پیغمبر کا گضب خدا کا غضب ہے علماء اہل سنت نے یہ حدیث نھی نقل کی قال رسول اللہ لفاطمۃ ان اللہ یغضب لغضبک ویرضی لرضاک ۔پیغمبر اسلام ؐ فرماتے ہیں حضرت فاطمہ کے لئے بے شک اللہ تعالی فاطمہ کے غضب سے غضبناک ہوتا اور اس کی رضایت اللہ کی رضایت مستدرک صحیحین معجم کبیر ج! ص۱۰۸
جس کی رضا پر خدا وند عالم بغیر کسی قید وشرط کے راضی اور غضب سے غضبناک ہو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی رضا وغضب سے پاک ہو اور یہی عصمت کبری ہےنجران کے نصاری کے ساتھ رسول خدا ؐ کا مباہلہ اس قوم کے لئے رحمت خدا سے دوری کی درخوواست تھِ وہ دعا جس کی قبولیت سے انسان حیوان کی شکل میں منقلب ہو جائے خاک اپنی حالت تبدیل ک کے آگ بن جائے اور ایک امت صفحہ ہستی سے مٹ جائے قرآن میں واضح ہے آیت :انما امرہ ازا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون سورہ یسین اس کا صرف امر یہ ہے کہ یہ کسی شئ کے بارے میں کہنے کا ارادہ کر لیں ہو جا تو وہ شئی ہو جاتی ہے ۔یہ ارادے سے متصل ہوئے بغیر نا ممکن ہے یہ انسان کامل کی منزلت ومقام ہے اس کی رضاء و غضب خدا کی رضاو غضب کا مظہر ہو یہ مقام حضرت خاتم النبیین اور اس کے جانشین کا ہے وہ واحد خاتون جو اس مقام پر فائز ہوئیں وہ صدیقہ کبری کی ہستی ہے جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عصمت کبری جو ولایت کلیہ اور امامت عامہ کی روح ہے وہ فاطمۃ الزہرا ؑمیں موجود ہے توضیح المسائل حضرات خراسانی اس کے علاوہ حضرت پیغمبر اسلام ؐ نے فرمایا اپنی بیٹی کو مخاطب کر کے کہا یا فاطمہ من صلی علیک غفر اللہ لہ والحقہ لی حیث کست فی الجنۃ :اے فاطمہ ؑجو تیری ذات پر صلوات بھیجے گا اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا دوسرا نبی فرماتے ہیں وہ میرے ساتھ جنت میں داخل ہو گا یعنی میرے ساتھ ہو گا مغنی الاحادیث :
شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
کرم کا مخزن سخا کا مرکز عطا سراپا جناب زہرا ؑنبی کی سیرت نبی کی صورت نبی کا نقشہ جناب زہرا ؑتمام حوریں کنیز تک غلام ان کے ملک سارے مگر چلاتی ہے خود ہی چکی بغیر شکوہ جناب زہراؐ۔

کیا پیغمبر اکرم صہ کا عزیز و رشتیدار ہونا روز قیامت کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے؟

پھاڑ پر کھڑے ہوکر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کے" اے فرزندگان بنی ھاشم، اے فرزندگان عبدالمطلب میں تمہارے درمیاں اللہ تعالی کا بھیجا ہوا پیغمبر صہ ہوں اور میں تم لوگوں کا ھمدرد ہوں۔ یہ نہ کھو کے محمد صہ ہم میں سے ہی ہیں، اللہ کی قسم نہ تم میں سے اور نہ تمہارے علاوہ میرا کوئی مقلد و پیروکار ہے کے جب تک وہ متقی نہ ہو۔ میں تمہیں روز محشر نہیں پہچانونگا اگر تم میرے پاس اس طرح آئے کے دنیا تمہارے کاندھوں پر ہو۔ اور لوگ اس طرح آئیں کے آخرت انکے ساتھہ ہو۔ یقینن میرے اور تمہارے درمیاں جو کچھہ بھی ہے میں نے اس کے لیے اپنے آپ سے معذرت کرلی ہے اور اس سے بھی جو تمہارے اور اللہ عزوجل کے درمیاں ہے۔ میرے پاس اپنے اعمال ہیں اور تمہارے پاس اپنے۔صفات شیعہ صفحہ 5 حدیث نمبر 8اس روایت کی سند صحیح ہے
روایت کا عربی متن
حدثنا محمد بن موسى بن المتوكل رحمه الله قال حدثنا محمد بن جعفر الحميري عن أحمد بن محمد بن علي عن الحسن بن محبوب عن علي بن رئاب عن أبي عبيدة الحذاء قال سمعت أبا عبد الله ع يقول لما فتح رسول الله ص مكة قام على الصفا فقال يا بني هاشم يا بني عبد المطلب إني رسول الله إليكم و إني شفيق عليكم لا تقولوا إن محمدا منا فو الله ما أوليائي منكم و لا من غيركم إلا المتقون ألا فلا أعرفكم تأتوني يوم القيامة تحملون الدنيا على رقابكم و يأتي الناس يحملون الآخرة إلا و إني قد أعذرت فيما بيني و بينكم و فيما بين الله عز و جل و بينكم و إن لي عملي و لكم عملكم
http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/1439_بحار-الأنوار-العلامة-المجلسي-ج-٨/الصفحة_361

Tuesday, 4 March 2014

Abu Talib(a.s) ka eemaan

ابو طالب؛ نيک خصال جوانمرد
ابوطالب عليہ السلام، امير المؤمنين علي عليہ السلام کے والد بزرگوار اور رسول اللہ (ص) کے چچا اور آپ (ص) کے والد ماجد کے سگّے بھائي ہيں دونوں کي والدہ بھي ايک ہے. انہوں نے اس بارے ميں شاعري کي زبان ميں فرمايا ہے:

لا تخذلا و انصرا ابن عمكما
إخي لامي من بينہم و إبي(1)
[بيٹو] اپنے چچا زاد بھائي کو تنہا مت چھوڑو اور اس کي مدد کرو
کہ وہ ميرے بھائيوں کے درميان والد اور والدہ دونوں کي طرف سے ميرے بھائي کا فرزند ہے.
1. معروف عصر:جناب ابو طالب (ع) اپني شخصيت کي عظمت اور ہر لحاظ سے قدآور، طاقتور اور اپنے زمانے ميں دين ابراہيم عليہ السلام کے مبلغ تھے.2. ان کي قابل قبول روايتيں:انہوں نے عصر جاہليت ميں ايسي نيک روايات کي بنياد رکھي جن کو کلام وحي کي تأئيد حاصل ہوئي. (2) حضرت ابوطالب عليہ السلام «قسامہ» کے باني ہيں جو اسلام کے عدالتي نظام ميں مورد قبول واقع ہؤا? (3)نيكوان رفتند و سنت ہا بماندو زلئيمان ظلم و لعنت ها بماند------نيک لوگ چلے گئے؛ ان کي سنتيں باقي رہ گئيں جبکہ
لئيموں سے ظلم و لعنت کے سوا کچھ بھي باقي نہ رہا3. بندہ خدا:ابو طالب جو «عبد مناف» کے نام سے مشہور تھے، اور عبدمناف کے معني ہيں «بندہ خدا» يوں وہ رسول اللہ (ص) کے تيسرے جد امجد کے ہم نام بھي تھے? (4)4. کفر کے خلاف جدوجہد:وہ اپنے والد ماجد «حضرت عبدالمطلب» کي مانند يکتاپرستي کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زير اثر نہيں آئے.
5. ان کے ايمان کے دلائل:
ان کي شاعري ان کے طرز فکر اور ان کے ايمان کو واضح کرتي ہے اور اس مضمون کے آخر ميں ان کے بعض اشعار بھي پيش کئے جارہے ہيں.
6. خلوص قلب:ويسے تو بہت ايسے واقعات تاريخ ميں ثبت ہيں جن سے حضرت ابوطالب عليہ السلام کے خلوص دل اور صفا و طہارت قلب عياں ہے. مگر ہم يہاں صرف ايک واقعہ بيان کرنے پر اکتفا کرتے ہيں اور وہ يہ ہے کہ:اہليان حجاز پر قحط عارض ہؤا. لوگ – عيسائي و مشرک و جاہل و بت پرست اور دين حنيف کے پيروکار – سب کے سب مؤمن قريش حضرت ابوطالب عليہ السلام کي خدمت ميں حاضر ہوئے؛ کيونکهہ انہيں معلوم تھا کہ مکہ ميں دين ابراہيم (ع) کے اس مروج و مبلغ جتني کسي کو بھي خدا کي اتني قربت حاصل نہيں ہے چنانچہ انہوں نے ان تشويشناک حالات ميں ان ہي سے درخواست کي کہ اٹھيں اور "خدا سے باران رحمت کي درخواست کريں"ان کا جواب مثبت تھا اور ايسے حال ميں بيت اللہ الحرام کي طرف روانہ ہوئے کہ ان کي آغوش ميں «چاند سا» لڑکا بھي تھا. حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے سے کہا کہ کعبہ کو پشت کرکے کھڑا ہوجائے اور حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھايا اور خداوند متعال کي بارگاہ ميں باران رحمت کي دعا کي. بادل کا نام و نشان ہي نہ تھا مگر اچانک آسمان سے بارش نازل ہونے لگي اور اس بارش نے حجاز کي پياسي سرزمين کو سيراب کيا اور مکہ کي سوکھي ہوئي وادي کھل اٹھي.وہ چاند سا لڑکا حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے سوا کوئي اور نہ تھا (5) جنہيں ابوطالب ہي جانتے اور پہچانتے تھے کہ وہ خاتم الانبياء و المرسلين ہيں اور اسي بنا پر خدا سے ان کے صدقے باران رحمت کي دعا کي جو فوري طور پر قبول بھي ہوئي. حضرت ابوطالب عليہ السلام اسي حوالے سے رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي شان ميں فرماتے ہيں:و أبيض يستسقى الغمام بوجهه
ثمال اليتامى عصمة للارامل-----وہ ايسا روشن چہرے والا ہے جس کے صدقے بادل پر باران ہوجاتے ہيں
وہ يتيموں کي پناہ گاہ اور بيواؤں کے محافظ ہيں “هركسي اندازه روشن دليغيب را بيند به قدر صيقليهركه صيقل بيش كرد او بيش ديد
بيشتر آمد بر او صورت پديد
گر تو گويي كان صفا فضل خداست
نيزاين توفيق صيقل زآن عطاست
--------ہر کوئي اپني روشن دلي کي سطح مطابقغيب کو ديکھتا ہے اپنے قلب کي صفا و خلوص کي حد تکجس نے جتنا دل کو زيادہ خالص کيا اس نے زيادہ ہي ديکھااس کے لئے زيادہ سے زيادہ صورتيں نمودار ہوئيںاگر تو کہے کہ وہ صفا و خلوص فضل خداوندي ہےتو يہ تزکيہ و صيقل دل بھي اسي عطا کا حصہ ہے7. رؤيائے صادقہ (سچا سپنا):حضرت ابوطالب نے «حجر اسماعيل» ميں ايک سچا خواب ديکھا کہ آسمان سے ان کي طرف ايک دروازہ کھل گيا ہے اور اس دروازے سے نور اور روشني نيچے آکر ارد گرد کے ماحول کو روشن کررہي ہے.بس عجب در خواب روشن مي شوددل درون خواب روزن مي شودآنچنان كہ يوسف صديق راخواب بنمودي و گشتش متكا---------پس عجب ہے کہ خواب ميں ہي روشن ہوتا ہےخواب کے اندر دل دريچہ بن جاتا ہےجيسا کہ يوسف صديق کو خواب دکھائي ديااور يہي خواب ان کے لئے سہارا بن گياابوطالب عليہ السلام اٹھے اور خواب تعبير کرنے والوں کے پاس روانہ ہوئے. اور اپنے خواب کي تفصيل بيان کي.مُعَبِّر نے کہا: بشارت ہو آپ کو! آپ کو بہت جلد ايک نہايت شرافتمند فرزند عطا ہوگا. ثقة الاسلام محمد بن يعقوب کليني رحمة اللہ عليہ نے الکافي ميں روايت کي ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا نے حضرت ابوطالب عليہ السلام کو نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي ولادت کي خوشخبري سنائي؛ حضرت ابوطالب (ع) نے بھي ان کو علي عليہ السلام کي ولادت کي خوشخبري سنائي.(6)8. رسول خدا(ص) کي سرپرستي:حضرت عبدالمطلب عليہ السلام کے بيٹوں ميں حضرت ابوطالب (ع) برتر اخلاقيات کے مالک تھے؛ ان کي روش دوسرے بھائيوں کي نسبت زيادہ شائستہ تھي؛ رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے ساتھ شديد محبت کرتے تھے اور آپ (ص) پر بہت مہربان تھے اور ان اوصاف کے علاوہ وہ رسول اللہ (ص) کے لئے نہايت عميق عقيدت و احترام کے قائل تھے چنانچہ حضرت عبدالمطلب (ع) نے اپنے انتقال سے قبل ان کو حضرت رسول (ص) کا سرپرست مقرر کيا.9. رسول خدا(ص) کي تربيت اور نگہداشت:حضرت ابوطالب عليہ السلام رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے شديد محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازيں وہ آپ (ص) کے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہيں معلوم تھا کہ آپ (ص) مستقبل ميں رسالت الہيہ کے حامل ٹہريں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپ (ص) کي پرورش و تربيت اور حفاظت کے سلسلے ميں ايک لمحہ بھي ضائع نہيں کيا اور اس راستے ميں انہوں نے قرباني اور ايثار کي روشن مثاليں قائم کيں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں ميں بھي آپ (ص) کو اپنے آپ پر مقدم رکھا. (7)10. شريک حيات کو ہدايت:سرپرستي کا اعزاز ملا تو رسول اللہ (ص) کو گھر لے آئے اور اپني اہليہ کو ہدايت کرتے ہوئے فرمايا: «يہ ميرے بھائي کے فرزند ہيں جو ميرے نزديک ميري جان و مال سے زيادہ عزيز ہيں؛ خيال رکھنا! مبادا کوئي ان کو کسي چيز سے منع کرے جس کي يہ خواہش کريں » اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا بھي ايسي ہي تھيں اور ان کو پالتي رہيں اور ان کي ہر خواہش پوري کرتي رہيں اور رسول اللہ (ص) کے لئے مادر مہربان تھيں.(8)11. مشرکين کے مد مقابل آہني ديوار:مورخين نے عبداللہ ابن عباس رضي اللہ عنہ سے نقل کيا ہے کہ: ابوطالب (ع) رسول خدا (ص) کو بہت دوست رکھتے تھے اور اپنے بيٹوں پر بھي اتني مہرباني روا نہيں رکھتے تھے جتني کہ وہ رسول اللہ (ص) پر روا رکھتے تھے؛ ابوطالب (ع) رسول اللہ (ص) کے ساتھ سويا کرتے تھے اور گھر سے باہر نکلتے وقت آپ (ص) کو ساتھ لے کر جاتے تھے؛ مشرکين نے ابوطالب عليہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہي پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو آزار و اذيت پہنچانے کا وہ سلسلہ شروع کيا جو حيات ابوطالب (ع) ميں ان کے لئے ممکن نہ تھا؛ چنانچہ رسول اللہ (ص) نے خود بھي اس امر کي طرف بار بار اشارہ فرمايا ہے.(9)12. رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کو سزا:ايک دفعہ حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ و آلہ و سلم مسجد الحرام مين نماز ادا کررہے تھے کہ قريشي مشرکين نے اونٹ کي اوجڑي آپ (ص) کے جسم مبارک پر پھينک دي اور آپ (ص) کے کرتے کو آلودہ کيا. رسول اللہ (ص) حضرت ابوطالب(ع) کے پاس آئے اورفرمايا: چچاجان! آپ اپنے خاندان ميں ميرے رتبے کے بارے ميں کيا رائے رکھتے ہيں؟ ابوطالب نے کہا: پيارے بھتيجے ہؤا کيا ہے؟رسول اکرم (ص) نے ماجرا کہہ سنايا. ابوطالب (ع) نے فوري طور پر بھائي حمزہ کو بلايا اور شمشير حمائل کرکے حمزہ سے کہا: ايک اوجڑي اٹھالاؤ اور يوں دونوں بھائي قوم قريش کي طرف روانہ ہوئے جبکہ نبي اکرم (ص) بھي ان کے ہمراہ تھے. کعبہ کے ارد گرد بيٹھے ہوئے قريش کے سرداروں کے پاس پہنچے. جب انہوں نے ہاشمي بھائيوں اور رسول اللہ (ص) کو اس حالت ميں ديکھا تو سب اپنا انجام بھانپ گئے. مؤمن قريش نے بھائي حمزہ کو ہدايت کي کہ اوجڑي کو قريشيوں کي داڑھيوں اور مونچھوں پر مل ليں. حمزہ نے ايسا ہي کيا اور آخري سردار تک کے ساتھ ہدايت کے مطابق سلوک کيا. اس کے بعد ابوطالب عليہ السلام رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جان سے پيارے بھتيجے يہ ہے آپ کا مقام و رتبہ ہمارے درميان?(10)يوں قريشي مشرکين کو اپنے کئے کي سزا ملي اور قريش کے سرغنوں نے ايک دوسرے سے کہا کہ «جب تک ابوطالب زندہ ہيں رسول اللہ (ص) کو حصول ہدف سے روک لينا، ممکن نہيں ہے.13. بيٹے کو ہدايت:جب غار حرا ميں خدا کا کلام آپ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر نازل ہؤا تو علي عليہ السلام آپ (ص) کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ (ص) نے سب سے پہلے اپنے وصي و جانشين اور بھائي کو دعوت دي اور علي عليہ السلام نے لبيک کہتے ہوئے رسول اللہ (ص) کي امامت ميں نماز ادا کي اور جب گھر آئے تو اپنے والد کو ماجرا کہہ سنايا اور کہا «ميں رسول اللہ (ص) پر ايمان لايا ہوں تو مؤمن قريش نے ہدايت کي: «بيٹا! وہ تم کو خير و نيکي کے سوا کسي چيز کي طرف بھي نھيں بلاتے اور تم ہر حال ميں آپ (ص) کے ساتھ رہو».(11)14. واضح و روشن حمايت:جب آيت «وانذر عشيرتك الاقربين» (12) نازل ہوئي اور رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر انہيں اپنے دين کي دعوت دي تو ان کي مخالفت کے برعکس حضرت ابوطالب عليہ السلام نے کہا: «يا رسول اللہ (ص)! آپ کي مدد اور نصرت ہمارے لئے بہت ہي زيادہ محبوب اور مقبول و پسنديدہ ہے؛ ميں آپ کي خيرخواہي کي طرف متوجہ ہوں اور آپ کي مکمل طور پر تصديق کرتا ہوں؛ جائيں اور اپني مأموريت اور الہي فريضہ سرانجام ديں؛ خدا کي قسم ميں آپ کي حفاظت کرتا رہوں گا اور کبھي بھي آپ سے جدائي پر راضي نہ ہونگا.(13)15. تہديد دشمنان رسول خدا(ص):ايک روز رسول اللہ (ص) گھر سے نکلے تو واپس نہيں ائے. حضرت ابوطالب عليہ السلام فکرمند ہوئے کہ مشرکين قريش نے کہيں آپ (ص) کو قتل ہي نہ کيا ہو؛ چنانچہ انہوں نے ہاشم اور عبدالمطلب کے فرزندوں کو اکٹھا کيا اور ان سب کو حکم ديا کہ : تيزدھار ہتھيار اپنے لباس ميں چھپا کر رکھو؛ مل کر مسجدالحرام ميں داخل ہوجاؤ اور تم ميں سے ہر مسلح ہاشمي شخص قريش کے کسي سردار کے قريب بيٹھ جائے اور جب ميں تم سے تقاضا کروں تو اٹھو اور قريش کے سرداروں کو موت کي گھاٹ اتارو.ہاشميوں نے حضرت ابوطالب کے حکم کي تعميل کي اور سب کے سب مسلح ہوکر مسجدالحرام ميں داخل ہوکر قريش کے سرداروں کے قريب بيٹھ گئے مگر اسي وقت زيد بن حارثہ نے ان کو خبر دي کہ حضرت محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو کوئي گزند نہيں پہنچي ہے اور بلکہ آپ (ص) مسلمان کے گھر ميں تبليغ اسلام ميں مصروف ہيں چنانچہ منصوبے پر عملدرآمد رک گيا مگر مؤمن قريش ہاشمي شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرکين قريش کو رسول اللہ (ص) کے خلاف کسي بھي معاندانہ اقدام سے باز رکھنے کي غرض سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمايا: ميرا بھتيجا گھر سے نکلا اور گھر واپس نہيں آيا تو مجھے انديشہ لاحق ہوا کہ کہيں تم نے اس کو کوئي نقصان نہ پہنچايا ہو چنانچہ ميں نے تمہيں قتل کرنے کا منصوبہ بنايا? پھر انہوں نے ہاشمي نوجوانوں کو حکم ديا کہ اپنے ہتھيار انہيں دکھا ديں. قريش کے سرداروں نے کانپتے ہوئے کہا: اے اباطالب! کيا تم واقعي ہميں قتل کرنے کا ارادہ لے کر آئے تھے؟ فرمايا: اگر رسول اللہ کو تمہاري جانب سے کوئي نقصان پہنچا ہوتا تو ميں تم ميں سے ايک فرد کو بھي زندہ نہ چھوڑتا اور آخري سانس تک تمہارے خلاف لڑتا.(14)واستان از دست ديوانه سلاحتا ز تو راضي شود عدل و صلاحچون سلاح و جهل، جمع آيد به همگشت فرعوني جهان سوز از ستم



----ديوانے کے ہاتھ سے ہتھيار چھين لو
تا کہ عدل و صلاح تم سے راضي ہوجائے
جب اسلحہ اور جہل ساتھ مل جائيں
ظلم و ستم کے ذريعے جہان کو جلادينے والا فرعون جنم ليتا ہے
16. دين اسلام کے مبلغين کے حامي:سني عالم و مورخ و اديب ابن ابي الحديد معتزلي کہتے ہيں:
ولولا ابوطالب عليہ السلام وابنہلما مثل الدين شخصا وقامافذاک بمکة آوي وحاميوھذا بيثرب جس الحماما
اگر ابوطالب (ع) اور ان کا بيٹا (علي (ع)) نہ ہوتےمکتب اسلام ہرگز باقي نہ رہتا اور اپنا قدسيدھا نہ کرسکتاابوطالب (ع) مکہ ميں پيغمبر کي مدد کےلئے آگے بڑہے اورعلي (ع) يثرب (مدينہ) ميں حمايت دين کي راہ ميں موت کے بھنور ميں اترے“کثير تعداد ميں متواتر اخبار و روايات سے ثابت ہے کہ حضرت ابوطالب عليہ السلام دين مبين کي ترويج کے سلسلے ميں رسول اللہ (ص) کي مدد کيا کرتے تھے اور اپنے فرزندوں، اقرباء اور اہل مکہ کو آپ (ص) کي حمايت اور پيروي کي دعوت ديا کرتے تھے.«عثمان بن مظعون» جو سچے مسلمان تھے ايک روز کعبہ کے ساتھ کھڑے ہوکر بت پرستوں کو ان کے مذموم روش سے منع کررہے تھے اور ان کو وعظ و نصيحت کررہے تھے. قريش کے نوجوانوں کے ايک گروہ نے ان پر حملہ کيا اور ان ميں سے ايک نے عثمان پر وار کيا جس کے نتيجے ميں ان کي ايک آنكھ زخمي ہوئي.حضرت ابوطالب عليہ السلام کو اطلاع ملي تو انہيں سخت صدمہ پہنچا اور قسم کھائي کہ : جب تک اس قريشي نوجوان سے قصاص نہ لوں چين سے نہ بيٹھوں گا اور پھر انہوں نے ايسا ہي کيا. (15)17. حبشہ کے بادشاہ نجاشي کي قدرداني:جب مسلمانوں نے حبشہ کي طرف ہجرت کي تو حبشہ کے بادشاہ نجاشي نے ان کي پذيرائي کي اور ان کي حمايت و سرپرستي کہ اور قريش کے نمائندے بھي انہيں مسلمانوں کے خلاف کرنے ميں ناکام ہوئے.وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُاور جو بھي تقوائے الہي اپنائے گا خداوند متعال اس کے لئے راہ نجات فراہم کرے گا اور اس کو ايسي جگہ سے رزق و روزي عطا کرے گا جس کا وہ گمان بھي نہيں کرتا.(16)از ره پنهان كه دور از حس ماستآفتاب چرخ را بس راه هاست



-----ہمارے حس سے دور خفيہ راستے سےآفتاب فلک کے لئے بہت سے راستے ہيںابوطالب عليہ السلام کو ايک الہي فريضہ سونپا گيا تھا اور وہ ايسي عظيم شخصيت کے سرپرست تھے جو خود کائنات کے سرپرست ہيں اور انبياء کے سردار ہيں اور خدا کے بعد ان سے کوئي بڑا نہيں ہے؛ چنانچہ رسول اللہ کے دين کي ترويج بھي ان کي ذمہ داري تھي اور جو لوگ اس راستے ميں آپ (ص) کي مدد و نصرت کرتے تھے ان کي قدرداني کو بھي وہ اپنا فرض سمجهتے تھے چنانچہ جب نجاشي نے مسلمانوں کو پناہ دي تو محسن اسلام نے ان کے حق ميں اشعار لکھ کر روانہ کئے. نجاشي کو جب حضرت ابوطالب کے اشعار کا تحفہ ملا تو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے جعفر ابن طالب (ع) کي قيادت ميں حبشہ ميں پناہ حاصل کرنے والے مسلمانوں کے احترام ميں اضافہ کيا اور ان کي پذيرائي دو چند کردي.18. رسول خدا (ص) کي حفاظت و حمايت:قريش کے تمام مشرک قبائل نے شعب ابي طالب (ع) ميں خاندان رسالت اور مسلمانوں کو مکہ سے جلاوطن کيا اور شعب ابي طالب (ع) ميں ان کي ناکہ بندي کردي. يہ ناکہ بندي معاشي، سماجي اور سياسي ناکہ بندي تھي. شعب ابي طالب اس وقت شہر مکہ سے باہر واقع ايک درہ تھا. يہ ناکہ بندي شديد ترين اقدام کے طور پر قريش کي طرف سے مسلمانوں پر ٹھونسي گئي تھي اور اس دوران پيغمبر اکرم (ص) اور آپ (ص) کے ہمراہ ديگر مسلمان و مؤمنين صرف حرام مہينوں اور ايام حج ميں بيت اللہ الحرام آسکتے تھے اور حج اور عمرہ بجالاسکتے تھے اور اسي دوران تبليغ اسلام بھي کيا کرتے تھے. اس دوران صرف حضرت ابوطالب عليہ السلام تھے جو پيغمبر کي حفاظت کرتے اور رات بهر جاگتے اور نبي اکرم (ص) کے سوني کے مقام کو تبديل کرکے اپنے بيٹے علي عليہ السلام کو آپ (ص) کے بستر پر لٹايا کرتے تا کہ اگر دشمن حملہ کرنا چاہے تو نبي (ص) کي بجائے علي قربان ہوجائيں اور ايسا عمل صرف مؤمن قريش ہي کے بس ميں تھا جو اپنے ايمان کي بنياد پر بيٹے کو بآساني رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر قربان کرنے کے لئے تيار ہوجاتے تھے مگر علي عليہ السلام بھي اس قرباني پر سمعاً و طاعتاً راضي و خوشنود تھے. قريش نے ايک ميثاق تحرير کي تھي جس پر ناکہ بندي کے حوالے سے متعدد نکات درج تھے اور يہ عہدنامہ کعبہ کي ديوار پر ٹانکا گيا تھا جسے ايک ديمک نے نيست و نابود کرديا تو ابوطالب عليہ السلام نماز شکر بجالانے بيت اللہ الحرام ميں حاضر ہوئے اور وہيں انہوں نے مشرکوں اور نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے مخالفين کو بددعا دي اور ان پر نفرين کردي.(17)19. كلام نور ميں ابو طالب کا مقام:امام سجاد (ع) نے حضرت ابوطالب عليہ السلام کے ايمان کے بارے ميں شک کرنيے والے افراد کے جواب ميں فرمايا: عجب ہے کہ خدا اور اس کے رسول (ص) نے غير مسلم مرد کے ساتھ مسلم خاتون کا نکاح ممنوع قرار ديا جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا – جو سابقين مسلمين ميں سے ہيں - حضرت ابوطالب عليہ السلام کے انتقال تک ان کے عقد ميں رہيں".کسي نے امام باقر(ع) کو بعض جھوٹي محدثين کي يہ جعلي حديث سنائي کہ "ابوطالب (ع) [معاذاللہ] آگ کي کھائي ميں ہيں!"امام عليہ السلام نے فرمايا: "اگر ايمان ابوطالب (ع) ترازو کے ايک پلڑے ميں رکها جائے اور ان سب لوگوں کا ايمان دوسرے پلڑے ميں تو ابوطالب (ع) کا ايمان ان سب پر بهاري نظر آئے گا"."ابان بن محمود" نامي شخص نے امام رضا عليہ السلام کو خط ميں لکها کہ "ميں آپ پر قربان جاؤں! ميں ابوطالب کے ايمان کے سلسلے ميں شک و ترديد ميں مبتلا ہوا ہوں".امام عليہ السلام نے جواب ميں تحرير فرمايا: " وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًاجو شخص حق ظاہر و آشکار ہونے کے بعد پيغمبر (ص) کي مخالفت کرے اور مؤمنوں کي راہ کے سوا کسي دوسرے راستے کي پيروي کرے ہم اسے اسي راستے پر لے چليں گے جس پر کہ وہ گامزن ہے اور اسے جہنم ميں داخل کرديں گے اور جہنم بہت ہي بري جگہ ہے"(18) اما بعد جان لو کہ اگر تم ايمان ابوطالب کا يقين نہيں کروگے تو تم بھي آگ کي طرف لوٹا دئيے جاؤگے.(19)20. ابو طالب عليہ السلام علي عليہ السلام کے والد ماجد:ابوطالب (ع) کو اللہ تعالي نے ايک ايسے فرزند سے نوازا جو زمانے کے بہترين فرزند تھے. اس فرزند کي ولادت بھي ايسي ہوئي جس کي مثال اس سے پہلے کبھي بھي نظر نہيں آئي اور بعد ميں ميں بھي نظر نہيں آئے گي. اسي بنا پر وہ اپنے نومولود فرزند کے ساتھ خاص محبت رکهتے تھے. بعثت نبي (ص) سنہ 40 عام الفيل کو واقع ہوئي اور اس وقت علي عليہ السلام کي عمر شريف کے صرف دس برس بيت گئے تھے مگر حضرت ابوطالب نے اپنے اس فرزند کے بارے ميں جو پيشين گوئياں کي ہيں وہ سب ان کے ايمان اور اعتقاد راسخ پر دلالت کرتي ہيں. انہوں نے ايک شعر کے ضمن ميں فرمايا: «علي کي ولادت کے ساتھ ہي کفر کي کمر خم ہوئي اور اس کي شمشير کے ذريعے اسلام کي بنياديں استوار اور مستحکم ہو جائيں گي" حضرت ابوطالب (ع) نے خداوند متعال سے اپنے بيٹے کے لئے نام منتخب کرنے کي درخواست کي تھي اور اسي درخواست کي بنا پر آسمانوں سے ايک «لوح لطيف» نازل ہوئي اور ابراہيم خليل عليہ و علي نبينا و آلہ السلام کے وارث و جانشين حضرت ابوطالب عليہ السلام کي آغوش ميں آپڑي. اس لوح پر لکهي ہوئي تحرير کے ذريعے حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد عليہما السلام کو پاک و برگزيدہ فرزند کي ولادت کي خوشخبري سنائي گئي تھي اور اس فرزند کا نام «علي» رکها گيا تھا.(20)21. غم ہجران:شعب ابي طالب (ع) ميں ناکہ بندي کے دوران مؤمن قريش کو شديد صعوبتيں جهيلني پڑيں اور شديد دباؤ اور مشکلات سہہ لينے کي وجہ سے حضرت ابوطالب کمزور ہوگئے چنانچہ ناکہ بندي کے خاتمے کے چھ مہينے بعد بعثت نبوي کے دسويں برس کو حضرت ابوطالب عليہ السلام وفات پاگئے جس کي وجہ سے حضرت رسول اللہ (ص) کو شديد ترين صدمہ ہوا اور بے تاب ہوکر اپنے چچا اور غمخوار کے سرہانے تشريف فرما ہوئے اور ان کے چہرے پر اپنے مقدس ہاتھ پھير پھير کر فرمايا: چچا جان! آپ ني بچپن ميں ميري تربيت کي؛ ميري يتيمي کي دور ميں آپ نے ميري سرپرستي کي اور جب ميں بڑا ہؤا تو آپ نے ميري حمايت اور نصرت کي؛ خداوند متعال ميري جانب سے آپ کو جزائے خير عطا فرمائے. ميت اٹھي تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم جنازے سے آگے آگے قبرستان کي طرف روانہ ہوئے اور راستے ميں بھي محسن اسلام کے لئے دعائے خير فرماتے رہے.(21)22. اشعار ابو طالب عليہ السلام:آخر ميں حضرت ابو طالب عليہ السلام کي پر مغز اشعار کے کچھ ابيات پيش کئے جارہے ہيں جن سے کسي حد تک خدا اور اس کے رسول (ص) پر ان کي ايمان راسخ اور اعتقاد عميق کا اندازہ کيا جاسکتا ہے:
و الله لا اخذل النبي و لايخذله من بني ذو حسباللہ کي قسم کہ ميں نبي (ص) کو تنہا نہيں چهوڑوں گا اورميرے فرزندوں ميں سے بھي کوئي با شرف آپ (ص) کو تنہا نہ چهوڑے گا.انہوں نے حبشہ کي بادشاہ کو اشعار کا تحفہ بھيجا تو ان اشعار کے ذريعے انہوں نے رسول اللہ (ص) پر اپنے ايمان و اعتقاد کے علاوہ انبياء سلف علي نبينا و عليہم السلام کے بارے ميں بھي اپنے ايمان و اعتقاد کي وضاحت کي اور نجاشي کو مسلمانوں کي زيادہ سے زيادہ حمايت کي ترغيب دلائي:تعلم مليك الحبش إن محمدانبي كموسي و المسيح ابن مريمإتانا بهدي مثل ما اتيا بهفكل بإمر الله يهدي و يعصم(22)-----اي حبشہ کے بادشاہ جان لے کہ بتحقيق محمد (ص)نبي ہيں جيسے کہ موسي اور عيسي ابن مريم نبي ہيںوہ ہمارے پاس ہدايت لے کر آئے جيسا کہ وہ دونوں لائے تھےپس تمام انبياء الہي خدا کے فرمان پر امتوں کي راہنمائي کرکے انہيں پليديوں اور گناہوں سے بچاليتے ہيںابوطالب علي عليہ السلام رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے ساتھ اپني وفاداري اور آپ (ص) کي حمايت کا يوں اظہار فرماتے ہيں:والله لن يصلوا اليك بجمعهمحتي اوسد في التراب دفيناو ذكرت دينا لا محالة انهمن خير اديان البرية دينا(23)-----اللہ کي قسم! کہ ان کا ہاتھ - سب مل کر بھي – آپ تک نہ پہنچ سکے گاجب تک کہ ميں زمين کے سينے ميں دفن نہ ہؤا ہوںاور جو دين آپ لائے ہيں اور آپ نے اس کي يادآوري فرمائي ہےبے شک و ناگزير انسانوں کے لئے بھيجے گئے اديان سے بہترين ہے
مآخذ:
1. بحارالانوار، ج 35، ص121.
2. ينابيع المودة، قندوزي حنفي، ج2، ص 10.
3. صحيح بخاري، ج 3، ص 196.
4. مجالس المومنين، قاضي نور الله شوشتري ،ج 1، ص 163.
5. السيرة الحلبية، ج 1، ص 125،شرح نهج البلاغة، ج 3، ص 316،الملل و النحل، شهرستاني پاورقي،ص 255.
6. اصول كافي، شيخ كليني، كتاب الحجة ،باب تولد اميرالمومنين، ص 301.
7. امام علي صداي عدالت انساني، جرج جرداق، ترجمه سيدهادي خسروشاهي، ج1 . 2، ص 74.
8. تاريخ انبيإ، ج3، سيدهاشم رسولي محلاتي، ص 76.
9. تاريخ طبري ،ج 2، ص 229.
10. الکافي ج1 ص 449?



11. امام علي صداي عدالت انساني، ج 1.2، ص 77 . 78.
12. شعرا، 214.
13. الكامل، ابن اثير، ج 2، ص 24.
14. طرائف، ص 85 و طبقات كبري، ابن سعد، ج 1، ص 302.303.
15. شرح نهج البلاغة،ج 3، ص 313.



16. سوره طلاق آيات 2 و 3.
17. الغدير، ج 7، ص 364 والكامل في التاريخ، ج 2، ص 71.
18. نسإ، 115.
19. الغدير، ج 7، ص 36.
20. مناقب ،ابن شهر آشوب ،ج 2، ص 175.
21. تاريخ انبيإ، ج 3، ص 218.
22. بحار الانوار، ج 35، ص 122 . 123.
23. بحار الانوار، ج 35، ص 122 . 123.