۱: مولا علی (ع) فرماتے ہیں : اگر قرآن مجید میں یہ آیت نہ ہوتی کہ ” اللہ جس چیز کو چاہتاہے محو کردیتاہے اور جس کو چاہتاہے باقی رکھتاہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے، تو میں تمھیں تمام گذشتہ اور آئندہ قیامت تک ہونے والے حالات سے باخبر کردیتا۔
۲:امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : اے وہ خدا جس نے ہم کو تمام ماضی اور آئندہ کا علم دیا ہے اور انبیاء کے علم کا وارث بنایاہے، ہم پر تمام گذشتہ امتوں کا سلسلہ ختم کیا ہے اور ہمیں وصایت کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔
۳: معاویہ بن وہب ! میں نے امام صادق (ع) کے دروازہ پر اجازت طلب کی اور اجازت ملنے کے بعد گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت مصلیٰ پر ہیں۔ میں تھہر گیا جب نماز تمام ہوگئی تو دیکھا کہ آپ نے مناجات شروع کردی، ” اے وہ پروردگار جس نے ہمیں مخصوص کرامت عطا فرمائی ہے اور وصیت کے ساتھ مخصوص کیا ہے اور ہم سے شفاعت کا وعدہ کیاہے اور ہمیں تمام ماضی اور مستقبل کا علم عطا فرمایاہے اور لوگوں کے دلوں کو ہماری طرف جھکادیاہے، خدایا ہمیں اور ہمارے برادران ایمانی کو اور قبر حسین (ع) کے تمام زائروں کو بخش دے۔
۴: سیف تمار ! میں ایک جماعت کے ساتھ امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے تین مرتبہ خانہ کعبہ کی قسم کھاکر فرمایا کہ اگر میں موسی ٰ (ع) اور خضر (ع) کے درمیان حاضر ہوتا تو دونوں کو بتاتا کہ میں ان سے بہتر جانتاہوں اور وہ باتیں بتاتا جو ان کے پاس نہیں تھیں، اس لئے کہ موسیٰ (ع) اور خضر کو گذشتہ کا علم دیاگیا تھا۔( انھیں مستقبل اور قیامت تک کے حالات کا علم نہیں دیا گیاتھا اور ہمیں یہ سب رسول اللہ سے وراثت میں ملا ہے۔
۵: امام صادق (ع) ! ہم اولاد رسول اس عالم میں پیدا ہوئے ہیں کہ ہمیں کتاب خدا،ابتدائے آفرینش اور قیامت تک کے حالات کا علم تھا، اور اس کتاب میں آسمان و زمین، جنت و جہنم ، ماضی و مستقبل سب کا علم موجود ہے اور ہمیں اس طرح معلوم ہے جس طرح ہاتھ کی ہتھیلی ، پروردگار کا ارشاد ہے کہ اس قرآن میں ہر شے کا بیان موجود ہے۔
۶: امام رضا (ع) ! کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب کا اظہار صرف اپنے پسندیدہ بندوں پر کرتاہے اور رسول اکرم (ص) اس کے پسندیدہ بندہ تھے اور ہم سب انھیں کے وارث ہیں جن کو خدا نے اپنے غیب پر مطلع فرمایاہے اور تمام ماضی اور مستقبل کا علم دیا ہے
حوالہ جات :
۱: ( التوحید 305 /1 ، امالی صدوق (ر) ص 280 /1 الاختصاص ص 235 ، الاحتجاج 1 ص 610 بروایت اصبغ بن نباتہ، تفسیر عیاشی 2 ص 215 /59 ، قرب الاسناد 354 / 1266)۔
۲: ( بصائر الدرجات 129 / 3 بروایت معاویہ بن وہب)۔
۳: ( کافی 4 ص 582 /11 ، کامل الزیارات ص 116)۔
۴:( کافی 1 ص 260 / 1 ، بصائر الدرجات 129 /1 ، 230 / 4 ، دلائل الامامة ص 280 / 218)۔
۵: ( کافی 1 ص 61/8، بصائر الدرجات 197 /2 ، ینابیع المودة 1 /80/20 ، روایت عبدالاعلیٰ بن اعین ، تفسیر عیاشی 2 ص 266 / 65)۔
۶: ( ا لخرائج و الجرائح 1 ص 343 روایت محمد بن الفضل الہاشمی)۔
No comments:
Post a Comment