امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:عیسی بن مریم ایک گاوں میں پہنچے کہ وہاں کے رہنے والے، جانوروں پرندوں سمیت سب مر چکے تھے۔ فرمایا: یہ سب اللہ کے غضب اور عذاب کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں اور اگر اپنی طبیعی موت سے الگ الگ مرتے یقینا ایک دوسرے کو دفن کرتے۔ حواریوں نے عرض کیا: اے روح اللہ! اللہ سے کہیں کہ انہیں ہمارے لیے زندہ کرے۔ تاکہ ہمیں بتائیں کہ ان کا کردار کیسا تھا۔ حضرت عیسی نے اپنے خدا کی بارگاہ میں ان کے زندہ ہونے کی دعا کی۔ خدا کی جانب سے صدا آئی کہ انہیں آواز دو۔ پس حضرت عیسی علیہ السلام ایک ٹیلے پر چڑھے اور آواز دی: اے اس قریہ کے لوگو ان میں سے ایک نے جواب دیا: جی یا روح اللہ! ، فرمایا: وای ہو آپ پر تمہارا کردار کیسا تھا؟ اس نے جواب میں کہا: طاغوت کی عبادت اور دنیا سے محبت، لمبی لمبی آرزوئیں اور خدا کی عبادت سے غفلت۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا: دنیا کی نسبت تمہاری محبت کیسی تھی؟ عرض کیا: جیسے بچے کو ماں سے محبت ہوتی ہے۔ جب ہماری طرف رخ کرتی تھی ہم خوش ہو جاتے تھے اور جب منہ پھیر لیتی تھی تو غمگین ہو جاتے تھے۔فرمایا: طاغوت کی عبادت کیسی تھی؟ عرض کیا: گناہگاروں کو اپنا حاکم مانتے تھے ۔ فرمایا: آخر کار تم لوگوں کا انجام کیا ہوا؟ عرض کیا: ایک رات کو خوشی کے عالم میں سو رہے تھے۔ صبح کو ہاویہ میں گرفتار ہو گئے۔ فرمایا: ہاویہ کیا ہے؟ کہا : سجین ہے۔ فرمایا: سجین کیا ہے؟ عرض کیا: آگ کے پہاڑ کہ جو قیامت تک ہمارے اوپر گرتے رہیں گے۔ فرمایا: پس تم لوگوں نے کیا کہا اور کیا جواب ملا؟ کہا: ہم نے کہا ہمیں دنیا میں واپس پلٹا دو تاکہ ہم زہد اور تقوی اختیار کریں۔ ہمیں کہا گیا: تم لوگ جھوٹ بولتے ہو۔ فرمایا: وای ہو تم پر کیا ہوا کسی اور نے ان لوگوں میں سے ہم سے بات نہیں کی؟ عرض کیا: اے روح خدا! ان سب کے منہ میں آگ کی لگامیں پڑیں ہوئی ہیں۔ اور عذاب کے فرشتے ان پر مسلط ہیں۔ میں بھی ان کے درمیان پھنسا ہوا تھا لیکن ان میں سے نہیں تھا جب اللہ کا عذاب آیا مجھے بھی اپنی لپیٹ میں لے گیا۔ پس میں جہنم کے دروازے پر ایک بال سے باریک رسی کے ذریعے لٹا ہوا ہوں۔ نہیں جانتا کب اس میں گر جاوں گا یا رہائی پاوں گا۔ پس حضرت عیسی علیہ السلام نے حواریوں کی طرف رخ کر کے فرمایا: اے اللہ کے بندو! خشک روٹی نمک سے کھانا اور کھنڈروں میں سونا کہیں بہتر ہے اس صورت میں کہ دنیا اور آخرت خیر و عافیت کے ساتھ ہمراہ ہو۔كافي ج2 ص 318 (باب حب دنيا و حرص بر آن، ح 11)
No comments:
Post a Comment