Tuesday, 4 March 2014

نعمات الہی اور شکر کا طریقہ



تحریر الفاضل الاستاذ أبو صلاح الجعفري
بلاشبہ اللہ عزوجل کی نعمتیں اسقدر بیشمار و عظیم ہیں کہ انکا شمار ممکن ہے نہ انکا شکر بجالایا جانا کسی کے بس میں ہے. مرسل اعظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک یہ کہتے ہویے ہایے گیے ( الا اکون لہ عبدا شکورا) جب امہات المومنین میں سے کسی نے کہا کہ اپ اسقدر عبادت کرتے ہیں اور خشیت الہی میں روتے ہیں جبکہ اپ افضل الانبیاء و سید المرسلین و خاتم النبیین ہیں تو اپ نے یہ عظیم جملہ ارشاد کیا کہ ( کیا میں اس کا شکر گذار بندہ نہ بنوں ؟) بندے پر جسقدر احسان زیادہ ہوتا جاتا ہے اسیقدر وہ اللہ کا شکر گذار بہی زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے. اسی لیے اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ شکر اور اسکی بلاوں پر صبر کرنے والے انبیاء و ایمہ علہیم السلام ہیں. کیونکہ وہ نہ صرف ان نعمتوں ( نبوت و امامت بطور خاص) کی قدر جانتے تہے بلکہ منعم حقیقی کی قدر و جلالت و مقام سے بہی واقف تہے. اسی لیے اللہ نے بہی انبیاء کو قران میں (انہ کان عبدا شکورا ) کے نام سے یاد کیا یعنی بلاشبہ وہ (جناب نوح ) ہمارے شکر گذار بندے تہے. عام لوگوں کی جب اللہ نے بات کی ہے تو فرمایا ہے کہ وقلیل من عبادی الشکور( اور لوگوں میں ہمارے شکر گذار بندے کم ہی ہیں ) ناشکروں کی تعداد زیادہ ہے. امام زین العابدین کی ایک دعا میں جو صحیفہ سجادیہ میں نقل ہے اپ فرماتے ہیں ( اور بلاشبہ تیری بندگی کا حق ادا کرنا ممکن نہی ہے ) امام حسین علیہ السلام دعایے عرفہ میں فرماتے ہیں ( اور تیرا شکر ادا کرنا کیسے ممکن ہو کیونکہ شکر بجا لانے کی توفیق بہی تیری ہی طرف سے ہے جس پر ایک اور شکر لازم ہوجاتا ہے پس تیرا شکر بجالایا جانا ممکن نہی ہے ) عزیزو! نعمتیں دینا اللہ نے اپنے ذمے لیا ہے اور شکر کرکے اسکی حفاظت کا کام بندوں کے ذمے لگایا ہے. یہ اللہ کی سنت نہی ہے کہ وہ نعمت دیکر چہین لے. مگر یہ بندے ہیں جو اس عطا کردہ نعمت کو خود اپنے ہاتہوں سے سلب کرلیتے ہیں. اللہ کی ظاہری نعمتیں مثلا انکہ کان چہرہ اور دیگر اعضاء وجوارح ہی پر انسان غور کرے تو وہ اس احسن الخالقین کی خالص عبادت کی دلیل کیلیے کافی ہے. ان اعضا کے شکر کے دو طریقے ہیں (1) شکر ظاہری یعنی انکی حفاظت کی جایے انہیں ہر ظاہری تکلیف و نقصان سے بچایے اور ہمیشہ اللہ کی حمد بیان کرتا رہے کہ اس نے بلا کسی استحقاق کے اپکو مکمل اعضا دییے اگر نہ دیتا تو وہ ظالم نہ ہوتا کیونکہ اللہ پر کسی کا کویی حق نہی بنتا. اگر وہ دیتا ہے تو یہ احسان ہے اگر نہی دیتا تو یہ اسکی مرضی ہے کیونکہ وہی مالک ہے (2) شکر عملی یعنی ان اعضاء سے اللہ کی معصیت نہ کی جایے اور انکو اللہ عزوجل کی رضا میں استعمال کیا جایے. اسیطرح عزت و شہرت و علم و اگہی اللہ کی عظیم نعمتیں ہیں انکی حفاظت یہ ہے کہ کویی بہی ایسا کام نہ کیا جایے جس سے اپکی عزت و شہرت دینی و علم و اگہی پر فرق پڑے. علم کا شکر یہ ہے کہ اسے پہیلایے .شہرت دینی کا شکر یہ ہے کہ دین کا کام کرے. مال کا شکر یہ ہے کہ اس میں محروموں کا حق نہ بہولے پس اگر ایسا کیا تو اپ شکر گذار بندے کہلاییں گے اور اللہ اپ پر راضی ہوگا ورنہ بصورت دیگر ان نعمتوں کی قدر دانی نہ کی تو اپ ان نعمتوں کو خود سے سلب کرنے کے نہ صرف خود ذمہ دار ہونگے بلکہ اییندہ کی توفیقات سے بہی محرومی کا سبب بنیں گے. نعوذ باللہ من ذالک پس اللہ ہمیشہ نیکی وبہلایی اور احسان کا حکم دیتا ہے اور برایی سے روکتا ہے تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں. عزیزان گرامی ! اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اولاد و زوجہ اور ماں باپ ہیں. ان نعمتوں کا شکر یہ ہے کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی جایے تاکہ رزق و عمر میں برکت ہو والدین سے احسان کیا جایے تاکہ اللہ کے رحمت کا حقدار قرار پایے. اولاد کی تربیت کرے انکو درست عقیدہ و عمل بتایا جایے تاکہ یہ اپ کیلیے صدقہ جاریہ بنیں . پس ان سب کا فایدہ صرف اور صرف اپ کو ہے کیونکہ نعمتیں دینا اللہ کا کام تہا جو اس نے پورا کیا اب انکی حفاظت اور شکر اپکی ذمہ داری ہے جو اپ پوری کریں تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ شکر گذار بندوں کو اجر بڑہا کر دےگا. شیعہ ملت کیلیے کربلا بہترین شکر الہی سیکہنے کا مکتب ہے جب زینب کبری مقتل شہداء سے گذریں .ماں جایے کے جسد اقدس پر نگاہ پڑی. عرش کے درجہ کے برابر حسین کا سر نوک نیزہ پر بلند تہا. پس بہن اپنے بہایی کی لاش پر گریں اور بہایی بہی عام بہایی نہی تہا .خامس ال عبا. زیور عرش خدا .زینت پنجتن . میوہ دل زہرا حسین ابا عبد اللہ کا لاشہ تہا . پس زینب نے اس عظیم جسد کو اپنے ملکوتی ہاتہوں پر بلند کیا اور میں نہی کہ سکتا کہ زینب کے اندر اتنی قوت کہاں سے اگئی کہ شیر خدا یے وقت کو اپنے ہاتہوں پر بلند کیا. پس ایک جملہ کہا جو صبر وشکر کی معراج ہے جسے تمام مقتل نے روایت کیا ہے ( اللہم تقبل منا ہذا القربان ) " اے اللہ ہم اہل بیت کیطرف سے اس قربانی کو قبول کرلے" اہ جب ابن زیاد نے پوچہا اے زینب! دیکہا اللہ نے تمہارے خاندان کیساتہ کیا کیا؟ تو لسان اللہ کی ترجمان زینب کبری نے فرمایا ( واللہ ما رایت الا جمیلا ) " اللہ کی قسم میں نے اللہ سے بہلایی کے سوا کچہ نہ دیکہا" اللہ رے صبر و شکر زینب.! بلاشبہ انکے مرد لوگوں میں بہترین اور عورتیں لوگوں میں پاکیزہ ترین اور بچے لوگوں میں افضل ترین بچے ہیں.اہل بیت اور قران دو عظیم نعمتیں ہیں جن سے دین خالص اور نجات کی امید کی جاتی ہے انکی قدر دانی بہی ضروری ہے ورنہ اللہ شریر لوگوں کو ہم پر مسلط کرے گا کیونکہ ہم نے قران و عترت جیسی نعمتوں پر شکر ادا نہ کیا اور انکی پیروی نہی کی. اللہ ہم سب کو انبیاء و ایمہ کے فلسفہ شکر کو سمجہنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا کرے امین ثم امین.
شکر نعمت کے بارے میں چند اہم نکات
۱۔ حضرت علی (علیه السلام) نہج البلاغہ میں اپنے حکمت آمیز کلمات میں فرماتے ہیں :
اذا وصلت الیکم اطراف النعم فلا تنفروا و اقصاھا بقبلة الشکر
جس وقت نعمات ِ الہٰی کا پہلا حصہ تم تک پہنچ جائے تو کوشش کرو کہ شکر کے ذریعے باقی حصے کو بھی اپنی طرف جذب کرو نہ یہ کہ شکر گزاری مین کمی کرکے اسے اپنے آپ سے دور بھگا دو۔ 1
۲۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے نعمتوں پر صرف خدا کی سپاس گزاری اور تشکر کافی نہیں بلکہ ان لوگون کو بھی شکر یہ ادا کرنا چاہئیے کہ جو اس نعمت کا ذریعہ بنے ہیں اور ان کی زحمات و مشقات کا حق بھی اس طریقے سے ادا کرنا چاہئیے اور اس طرح انہیں اس راہ میں خدمات کی تشویق دلانا چاہئیے ۔ ایک حدیث میں امام علی بن الحسین علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا :
جب روز قیامت ہوگا تو اپنے بعض بندوں سے فرمائے گا: کیا تمنے فلاں شخص کا شکریہ ادا کیا ہے ۔
تو وہ عرض کرے گا : پرور دگارا : میں نے تیرا شکریہ اداکیا ہے ۔
اللہ فرمائے گا : چونکہ تو اس کا شکربجا نہیں لایا تو گویا تونے شکربھی ادا نہیں کیا ۔
پھر امام (علیه السلام) نے فرمایا:
اشکر کم اللہ اشکر کم للناس
تم میں سے خدا کا زیادہ شکر کرنے والے وہ ہیں جو لوگوںکا زیادہ شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ 2
۳۔ خدا کی نعمتوں کی افزائش کہ جس کا شکرگزار وں سے وعدہ کیا گیا ہے صرف اس لئے نہیں ہے کہ انہیں نئی نئی مادی نعمتیں بخشی جائیں بلکہ خود شکر گزاری کہ جو خدا کی طرف خاص توجہ اور ا س کی ساحت ِ مقدس سے نئے عشق کے ساتھ ہو ایک عظیم روحانی نعمت ہے کہ جو انسانی نفوس کی تربیت اور انہیں فرامین الہٰی کی اطاعت کی طرف رغبت دلانے کے لئے بہت موٴثر ہے ۔ بلکہ شکر ذاتی طور پر زیادہ سے زیادہ معرفت الہٰی کا ذریعہ ہے ۔ اسی بناے پر علماء عقائد علم کلام میں ”وجوب معرفت الٰہی “ کو ثابت کرنے کے لئے ” وجوب شکر ِ منعم “ کی دلیل پیش کرتے ہیں ۔
۴۔ معاشرے میں تحریک پید اکرنے اور پیش رفت کے لئے روح شکر گزاری کاحیاء بہت اہم کردار کرتا ہے ۔ وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے علم و دانش سے یا فدا کاری اور شہادت سے یا کسی دوسرے طریقے سے اجتماعی اہداف کی پیش رفت کے لئے خدمت کی ، ان کی قدر دانی اور ان کا تشکر معاشرے کو آگے بڑھانے کا بہت اہل عامل ہے ۔
جس معاشرے میں تشکر اور قدر دانی کی روح مردہ ہو اس میں خدمت کے لئے لگاوٴ اور گرم جوشی بہت کم ہوتی ہے ۔ اس کے بر عکس جس معاشرے میں لوگوں کی زحمتوں اور خدمتوں کی زیادہ قدر دانی کی جاتی ہو وہاں نشاط و مسرت زیادہ محسوس کی جاسکتی ہے اور ایسی قومیں زیادہ ترقی کرتی ہیں ۔
اسی حقیقت کی طرف توجہ کے سبب ہمارے ہاں گزشتہ بزرگوں کی زحمتوں کی قدر دانی کے اظہا ر کے لئے ان کے سوسالہ ، ہزار سالہ روز ولادت وغیرہ کے موقع پر اور دیگر مناسب مواقع پر پر گرام منعقد کئے جاتے ہیں اور ان کی خدمات کے تشکر اور سپاس گزاری سے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ حرکت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
مثلاً ہمارے ملک میں بر پا ہونے والے اسلامی انقلاب کو جو اڑھائی ہزارسالہ تاریک دور کا اختتام ہے او رایک دورِ نو کا آغاز ہے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال او رہر ماہ بلکہ ہر روز شہدائے انقلاب کی یاد تازہ کی جاتی ہے ، انہیں ہدیہٴ عقیدت وسلام پیش کیا جاتا ہے ۔
ان تمام لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے جو ان کی طرف منسوب ہے اور ان کی خدمات کو سرہاجاتا ہے تو یہ امر سبب بنتا ہے کہ دوسروں میں فدا کاری اور قربانی کا عشق پیدا ہو او رلوگوں میں فدا کاری کا سطح بلند تر ہو اور قرآن کی تعبیر کے مطابق اس نعمت کا تشکر اس میں اضافے کا باعث ہو او ر ایک شہید کے خون سے ہزاروں شہداء پیدا ہو اور ”لازیدنکم “ زندہ مصداق بن جائیں ۔
الا لعنت اللہ علی القوم الظالمین وصلی اللہ علی محمد والہ الطاہرین والانبیاء والمرسلین واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین. التماس و محتاج دعا
1۔ نہج البلاغہ کلمات قصار شمارہ ۱۳۔
2۔ اصول کافی جلد ۲ صفحہ ۸۱ حدیث ۳۰۔

No comments:

Post a Comment