Friday, 14 March 2014

کسی پر لعنت کرنا ۔۔


اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں ۔۔
گسی کو گالی دینا ۔۔۔۔۔۔ کسی پر لعنت کرنا ۔۔
یہ دو الگ باتیں ہيں ۔۔۔۔ پہلی بات کسی کو گالی دینے سے کا حکم میرے ذہن میں کہیں پر نہيں ہے ۔ اور خاص کر کے کسی مومن کو گالی دینا تو برا ہے اور گناہ بھی ہے ۔۔۔
لیکن لعنت کرنا ۔ یہ اس کا حکم قران میں ہے اور اگر میں قران سے اس پر ایات اکٹھی کرنا شروع ہو جاؤں تو شاید اتنا ہو جائيں کہ اپ لوگ پڑھیں نا ۔ یہ سوچ کر کے یہ تو بہت بڑا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اگر کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو اس میں ایک بات جو صاف اتی وہ یہ کہ اس سے اسی کی ذاتی دشمنی ہے یا وہ ذاتی طور پر اس کو برا جانتا ہے لیکن اس کا غیر مسلم ہونا ۔۔ اس بات میں نہيں اتا ۔ کہ اگر میں کسی کو گالی دوں تو یہ بات نہیں کہ مہ کافر ہے تو گالی دی ہے ۔۔
لیکن لعنت ۔۔ لعنت کسی بھی مومن پر مسلم پر نہيں کی جاسگتی کیوں کہ میرے علم میں کوئی بھی ایک بھی حدیث یا ایت نہيں ہے جو کسی مومن یا مسلم پر لعنت کرنے کا حکم دیتی ہو ۔
اور میرا کسی پر لعنت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ میں اس کو مومن مسلم نہیں سمجھتا۔۔
ناصبیوں کا ایک دعوی جو صرف اور صرف اپنے دل کی تسکین کے لیے لگایا جاتا ہے ۔۔
علی عـ معاویہ بھائی بھائی ۔۔۔۔۔
اب میں حیران ہوں کہ یہ لوگ کس بناء پر یہ نعرہ لگاتے ہيں ۔۔۔ یہ خود جانتے ہیں ۔۔
پہلی بات یہ ہے کہ معاویہ امام علی عـ کو برا بھلا کہتا تھا گالیاں دیتا تھا اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتا تھا ۔۔۔
پہلا ثبوت ۔۔
صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب
- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
ترجمہ:
معاویہ نے سعد کو حکم دیا [أَمَرَ مُعَاوِيَةُ] اور کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے [مَا مَنَعَكَ] کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] پر سب نہ کرو [سب: گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا]۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہیں کہہ سکتا ۔۔۔
اس میں امام علی عـ پر سب کرنے کا حکم موجود ہے ۔۔
دوسرا ثبوت ۔۔
ابن کثیر الدمشقی، کتاب البدایہ و النہایہ، حلد7، صفحہ341، باب فضائل علی ابن ابی طالب
وقال أبو زرعة الدمشقي: ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال: لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص.فقال: يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك.قال: فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه.فقال: أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ؟والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ((إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ؟))أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر: ((لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار)) (ج/ص: 7/377)أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج.
ترجمہ:
ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب کہ آنحضور ص غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا:"کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو آنحضور ص نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ "میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں [غیر فرار]۔ یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول ص کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور آنحضور ص کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔"
اس میں معاویہ کا امام علی عـ پر گالیاں دینا موجود ہے ۔۔
اس سے ایک بات صاف ہوتی ہے کہ معاویہ امام علی عـ سے نفرت کرتا تھا ۔۔ ان کو برا جانتا اور مانتا تھا اس لیے ایسا کیا کرتا تھا ۔۔
اب کیوں کرتا تھا وغیرہ وغیرہ ۔۔ ان باتوں کا تذکرہ کرنے جتنا وقت نہيں ۔۔۔
اب ہم دیکھتے تھے کہ امام علی عـ کے نزدیک معاویہ ۔ کیسا تھا ۔۔۔
إبن أبي شيبة - المصنف - الجزء : ( 2 ) - رقم الصفحة : ( 216 )
6947 - حدثنا : هشيم ، قال : ، أخبرنا : حصين ، قال : ، حدثنا : عبد الرحمن بن معقل قال : صليت مع علي صلاة الغداة ، قال : فقنت فقال في قنوته : اللهم عليك بمعاوية وأشياعه وعمرو بن العاص وأشياعه وأبا السلمي وأشياعه وعبد الله بن قيس وأشياعه.
--------------------------------------------------------------------------------
المتقي الهندي - كنز العمال - الجزء : ( 8 ) - رقم الصفحة : ( 82 )
21989 - عن عبد الرحمن بن معقل قال : صليت مع علي صلاة الغداة ، فقنت فقال في قنوته : اللهم عليك بمعاوية وأشياعه ، وعمرو بن العاص وأشياعه ، وأبي الأعور السلمي وأشياعه ، وعبد الله بن قيس وأشياعه.
ان دو حدیثوں میں ایک بات اتی ہے کہ امام علی عـ معاویہ اور اس کے شیعوں پر قنوت میں لعنت کرتے تھے ۔۔۔۔
1 لعنت کرنا اور وہ بھی امام علی عـ کا امام علی عـ جن کے بارے میں ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی عـ اس کا دروازہ ۔
یہ ثابت کرتا ہے کہ امام علی عـ معاویہ کو قطعی مومن یا مسلم نہيں سمجھتے تھے اس لیے لعنت کرتے تھے ۔
2 ۔۔ اور لعنت کرنے کا انداز مطلب قنوت میں لعنت کرنا ۔۔۔ یہ طریقہ کار بھی نبی صـ کا ہے انہوں نے کافروں کے لیے قنوت میں بدعا کی تھی ۔ روایت نقل کرتا ہوں ۔۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ سَأَلْتُ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ عَنِ الْقُنُوتِ. قَالَ قَبْلَ الرُّكُوعِ. فَقُلْتُ إِنَّ فُلاَنًا يَزْعُمُ أَنَّكَ قُلْتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ، فَقَالَ كَذَبَ. ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَنَتَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ ـ قَالَ ـ بَعَثَ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ ـ يَشُكُّ فِيهِ ـ مِنَ الْقُرَّاءِ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَعَرَضَ لَهُمْ هَؤُلاَءِ فَقَتَلُوهُمْ، وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَهْدٌ، فَمَا رَأَيْتُهُ وَجَدَ عَلَى أَحَدٍ مَا وَجَدَ عَلَيْهِمْ.
میں نے انس رضی اللہ عنہ سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہئے ، میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب ( محمد بن سیرین ) تو کہتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ رکوع کے بعد ہوتی ہے ، انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا تھا کہ انہوں نے غلط کہا ہے ۔ پھر انہوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعا قنوت کی تھی ۔ اور آپ نے اس میں قبیلہ بنوسلیم کے قبیلوں کے حق میں بددعا کی تھی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت ، راوی کو شک تھا ، مشرکین کے پاس بھیجی تھی ، لیکن بنوسلیم کے لوگ ( جن کا سردار عامر بن طفیل تھا ) ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا ۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ تھا ۔ ( لیکن انہوں نے دغا دی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے
اس کا ان لائن لنک یہاں پر ہے ۔۔۔
اب ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاویہ ایک تو بد ذبان تھا لیکن وہ ۔ امام علی عب کے نذدیک کافر بھی تھا ۔۔۔
اب وہ لوگ جو ایک کافر منکر فاسق کو امام علی عـ سے ملاتے ہیں اور اپنے دل کو تسلیاں دیتے ہیں ۔۔۔۔
ان کے لیے امام علی عـ کا ایک اور قول نقل کرتا ہوں ۔۔۔
کنزالعمال ۔ حصہ یازدہم ۔ ص 117
امام علی عـ نے فرمایا ۔ جو ہم میں اور ہمارے دشمن میں برابری کرے اس کا ہم سے کوئي تعلق نہین ۔۔ ۔
لنک ۔۔
اب ناصبیوں سے گزارش ہے کہ یا تو اپنی اصلاح کریں یا پھر امام علی عـ سے محبت کے جھوٹے دعوی کو }ختم کریں ۔۔
طالـــــــــــــب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دعـــــــــــا ۔ طاہــــــــــــــــــــر عباس جعفری۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment