بعض کتب میں یہ بیان ضرور ہوا ہے کہ حضرت عمر آگ لیکر آئے، جیسا کہ مشہور ادیب و مؤرخ ابن عبد ربه الأندلسي متوفى سن 328 ھجری نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو بھیجا کہ آپ جا کر حضرت علی اور ان کے ساتھیوں کو بیعت پر مجبور کریں اور اگر وہ انکار کریں تو آپ ان سے جنگ کرو چنانچہ حکم کی تعمیل کی خاطر حضرت عمر اپنے ساتھ آگ لیکر سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کے دراقدس پر آئے ۔ ملاحظہ ہو۔
عليّ، والعباس، والزبير، وسعد بن عبادة، فأما علي والعباس والزبير فقعدوا في بيت فاطمة حتى بعث إليهم أبو بكر عمر بن الخطاب ليخرجوا من بيت فاطمة، وقال له: إن أبوا فقاتلهم. فأقبل بقبس من نار على أن يضرم عليهم الدار، فلقيته فاطمة فقالت: يا ابن الخطاب، أجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم، أو تدخلوا فيما دخلت فيه الأمة فخرج علي حتى دخل على أبي بكر فبايعه۔
العقد الفريد // المجلد 5 // الصفحة 13 // الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت
لیکن حضرت عمر کا سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کے دراقدس پر آگ لیکر آنا بسند صحیح ثابت نہیں ہے اور ابن عبد ربہ الاندلسی نے بھی اس واقعہ کو بلا سند بیان کیا ہے جس کی بناء پر آگ لیکر آنے والے واقعہ کو روایت کے لحاظ سے معتبر نہیں کہا جا سکتا گو کہ درایت کے لحاظ سے ہم اس کا انکار نہین کرسکتے۔ کیونکہ آگ لیکر آنے سے قطع نظر، کم از کم یہ بات تو بسند صحیح ثابت ہے کہ حضرت عمر نے سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کے در اقدس پر بذات خود آکر حلفیہ طور پر ان کو دھمکی دی کہ اگر علی اور ان کے ساتھیوں نے آپ کے گھر میں جمع ہونا نہیں چھوڑا تو خدا کی قسم میں آپ کے گھر کو آگ لگادوں گا، اس کے بعد جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے اہل خانہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ عمر بن خطاب نے آگ لگانے کی دھمکی دی ہے لہذا آپ لوگ اب اس گھر میں کوئی اجتماع نہیں کریں و گرنہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ عمر بن خطاب واقعی اپنی قسم کو پورا کر گذریں گے ۔
چنانچہ امام بخاری کے استاد حافظ ابوبکر ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر کی اس دھمکی کو ان کے آزاد کردہ غلام اسلم سے بسند صحیح نقل کیا ہے۔
مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: یا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ اللَّهِ مَا ذَاكَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ اللَّهِ لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ ۔
المصنف لأبن أبي شيبة // رقم الحديث 37045 // الناشر: مكتبة الرشد - الرياض
اس روایت کی سند شیخین ( امام بخاری اور امام مسلم ) کی شرط کیمطابق صحیح ہے جیساکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی ازالۃ الخفاء میں اس کی تصریح کری ہے۔
اس روایت میں المصنف میں عموما یہ علل پیش کئے جاتے ہین
1، عبیداللہ بن عمر سے اگر کوفی روایت کریں تو خطا کرتے ہیں
2، اسلم (زید کے والد) کی روایت مرسل ہے
3، دیگر روایات میں یہ الفاظ تہدید نہیں تو یہ متن شاذ (یا منکر اگر ضعف سند کو تسلیم کریں) ہے
لیکن یہ اعتراض ایسے ہی ہے جیسے بن ابی قحافہ کی خلافت اور بن خطاب کی بہادری۔۔۔ ان اعتراضات کے جوابات دئے جاچکے ہیں
اعتراض: اسلم نے اس واقعہ کو نہیں دیکھا اور روایت مرسل ہے
جواب: اس اعتراض کو کرنے سے پہلے اگر کتب اہلسنت کا مطالعہ کرلیا ہوتا تو اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ بخاری کی تاریخ الکبیر میرے پیش نظر ہے اس کی جلد 2 ص 23 رقم 1565 طبع دار الفکر
عمر نے اسلم کو گیارویں ہجری میں خریدا۔
ابن حجر نے تو اپنی الاصابہ فی تمیز الصحابہ میں اسلم کا ذکر کیا جو عموما صحابی رسول ص کے حالات پر مشتمل کتاب ہے اور اس میں لکھا کہ اسلم نے رسول ص کے ساتھ دو سفر کئے اور رسول ص کی وفات کے بعد جناب عمر نے اسلم کو خریدا
الإصابة في تمييز الصحابة، ج 1، ص 63، رقم: 131، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت
تو پتا یہ چلا کہ اسلم کے صحابی ہونے کا قول بھی پایا جاتا ہے اور ایسے راوی کی روایت لینا اصول علم حدیث کے عین مطابق ہے، چنانچہ ملا علی قاری فرماتے ہے:
قلت: مرسل التابعي حجة عند الجمهور، فكيف مرسل من اختلف في صحة صحبته.
یعنی تابعی کی مرسل جمہور علماء کے نزدیک حجت ہے اور اس کی مرسل تو قبول کرنے کے زیادہ لائق جس کی صحبت میں اختلاف ہو یعنی آیا وہ صحابی تھا یا تابعی
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 9، ص 434، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية
تہذیب الکمال کے اسلم کے شیوخ یوں ملتے ہیں:
.
وروى عن :
أبي بكر الصديق عبد الله بن أبي قحافة ( س ) ،
وعبد الله بن عمر بن الخطاب ( خ م ت ) ،
وعثمان بن عفان ،ومولاه عمر بن الخطاب ( ع ) ،
وكعب الأحبار ،
ومعاذ بن جبل ( ق ) ،ومعاوية بن أبي سفيان ،
والمغيرة بن شعبة ( د ) ،
وأبي عبيدة بن الجراح ،
وأبي هريرة ،
وحفصة بنت عمر بن الخطاب أم المؤمنين .
اور ادھر جتنے بھی اسلم کے شیوخ ہیں ان میں سے کوئی بھی مبانی اہلسنت کے نزدیک ضعیف نہیں بلکہ تقریبا 90 فیصد سے زیادہ صحابی ہے لہذا مرسل ہونے کے باوجود صحیح قرار دی جائے گی کیونکہ اسلم نے یقینا کسی ثقہ سے سنا ہوگا اور اس ثقہ نے یہ روایت بیان کی ہوگی
اور خود بخاری نے ایک روایت نقل کی جس میں اسلم نے رسول ص کے عنوان سے روایت کی ہے سند روایت ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسِيرُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ
صحیح بخاری، کتاب فضل القرآن حدیث 4725، ص 675
لہذا یہ ثابت ہوا کہ مصنف کی روایت صحیح بخاری کی شرط پر ہے، اور اب اس پر اگر اعتراض کیا جائےگا تو پھر صحیح بخاری اس روایت کو ضعیف ماننے پڑے گا اور شاہ ولی اللہ کے فتوے کے مطابق بدعتی ہونے کا طمغہ بھی لینا پڑے گا۔
اشکال: کوفیوں نے جو روایت لی ہے عبیداللہ سے اس میں اشکال ہے۔
جواب: اولا جہاں سے یہ بات نقل کی گئی ہے وہ شرح علل الترمذی، جلد نمبر 2، ص 772 سے ہے۔ ادھر مصنف کتاب شرح علل ابن رجب ہے اور یہ قول یعقوب بن شیبہ کا ہے اور یعقوب کی وفات 262 ہجری میں ہوئی جب کہ ابن رجب کی وفات 795 ہجری میں ہوئی، لہذا معترض پر واجب و ضروری ہے کہ وہ اس کی پوری سند ابن رجب سے لے کر ابن شیبہ تک نقل کریں
ثانیا، اگر آپ کی بات مان بھی لی جائے تو اس کتاب کے محقق نور الدين عتر نے کہا اس قول کو نقل کرنے کے بعد:
( ما نقله الحافظ ابن رجب من قول يعقوب بن شيبة يخالف إطباق أئمة الفن على توثيقه بإطلاق
یعنی یعقوب بن شیبہ کا قول دیگر محدثین و آئمہ علم حدیث کے قول کے مخالف ہیں جنہوں نے عبیداللہ بن عمر کی مطلقا توثیق کی
ثالثا، علامہ عبداللہ بن عبدالرحمان جنہوں نے شرح علل الترمذی کی شرح لکھی وہ اس قول کو خاص اس سند کے ساتھ قرار دیتے ہیں جو اس طرح منقول ہو الصنعاني عن الثوري - الكوفي - عن عبيد الله بن عمر یعنی ہر کوفی نہیں فقط سفیان الثوری الکوفی اگر عبیداللہ سھے روایت کریں
رابعا، اگر اب بھی میری گذارشات و باتیں معترض کے ذھن تک نہیں پہنچی تو خود صحیحین میں کافی راوی ہیں جو کوفی تھے اور انہوں نے عبیداللہ بن عمر سے روایت کی
پہلا راوی ابو اسامہ الکوفی کی روایت جو صحیح بخاری ( حدثنا أبو أسامة حدثنا عبيد الله بن عمر) اور صحیح مسلم (حدثنا أبو أسامة حدثني عبيد الله بن عمر)
خود محمد بن بشر سے روایت بھی موجود ہے (حدثنا محمد بن بشر حدثنا عبيد الله بن عمر)
اور سنن ابن ماجہ رقم 942 کی ایک سند یوں ہے: حدثنا محمد بن بشر عن عبيد الله بن عمر کی روایت کی تصحیح البانی نے کی۔
مسند احمد کی ایک سند : ثنا محمد بن بشر ثنا عبيد الله بن عمر رقم 7851
شعیب ارنووط اور احمد شاکر نے سند کی تصحیح کی۔
تو یہ اعتراض بھی صحیح نہیں۔
اس تحقیق میں ہمارے دیگر براداران کی محنت ہے، ہم نے فقط تلخیص کی ہے۔
اور علامہ علی محمد الصلابی نے روایت کی سند کو صحیح کہا ملاحظ ہو اسمی المطالب فی سیرت امیر المومنین علی بن ابی طالب، ص 202، جز اول، طبع مکتب الصحابہ
اب اس روایت کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بعض علماء اہلسنت نے الفاظ ہی نقل نہ کئے جیسے کہ فضائل الصحابہ میں احمد بن حنبل عمر کے قول نقل کرنے کے بجائے فقط یہ نقل کرتے ہے کہ عمر نے کچھ کلام کیا، ملاحظہ ہو فضائل الصحابہ، جلد 1، ص 364
ابن عبدالبر نے بھی اس ہی تحریف کا ارتکاب کیا اور روایت کے جملے جس میں جناب عمر کی دھمکی تھی، اس کی جگہ یہ نقل کیا
ولئن بلغني لأفعلن ولأفعلن
ملاحظہ ہو الاستیعاب فی معرفتہ الاصحاب،جلد 1، ص 298، طبع وراق
http://islamport.com/d/1/trj/1/21/274.html
یہی تحریف کا ارتکاب صفدی نے بھی کیا ملاحظہ ہوتاب الصفدي ( الوافي بالوفيات ، ج 17 ، ص 167 ، ط دار إحياء التراث العربي - بيروت ، تحقيق : أحمد الأرناؤوط و تركي مصطفى )
( أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب ، الجزء الأول ، الصفحة رقم 202 ، مكتبة الصحابة - الإمارات - الشارقة
لہذاء یہ الفاظ منکر نہیں بلکہ یہ خیانت منکرانہ ہے۔الموسوعة الشاملة - الإستيعاب في معرفة الأصحابislamport.comصدر هذا الكتاب آليا بواسطة الموسوعة الشاملة (اضغط هنا للانتقال إلى صفحة الموسوعة الشاملة على الإنترنت)
ایک اور نکتہ کا اضافہ کرتا چلوں کہ اگر جمہور کا قول مان بھی لیا جائے کہ اسلم مولی عمر تابعی تھے اور انہوں نے رسول اللہ کو نہیں دیکھا، تب بھی اسلم کی روایات جو حضرت عمر سے مروی ہیں ان میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا کیونکہ صحیح بخاری کی ایک روایت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ صحابی رسول، عبد اللہ ابن عمراسلم کی روایات پراعتماد کیا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ عبد اللہ ابن عمر خود صحابی رسول اور حضرت عمر کے صاحبزادے ہوکر اپنے والد کی خبریں اسلم سے ہی پوچھتے تھے، ظاہر ہے کہ عبد اللہ بن عمر، اپنے والد کی خبروں کے حوالہ سے خاص طور پر، اسلم کو ثقہ اور صدوق سمجھ کر ہی اعتماد کیا کرتے تھے جبھی اپنے والد کی خبروں کی بابت ان سے استفسار کیا کرتے تھے ۔
چنانچہ امام بخاری نے کہا ۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ ابْنُ مُحَمَّدٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَنِي ابْنُ عُمَرَ عَنْ بَعْضِ شَأْنِهِ - يَعْنِي عُمَرَ -، فَأَخْبَرْتُهُ ۔
الصحیح للبخاری // رقم الحدیث 3687 // الناشر: دار طوق النجاة
Khair Talab and Ismail Deobandi(Shoaib Mazni)
No comments:
Post a Comment