Friday, 7 March 2014

~ساٹھ برس اور تیس برس کی عمر~

سوال:دو نیک اشخاص ہیں، ایک کو خدا نے تیس برس کی عمر عطا کی اور دوسرے کو ساٹھ برس کی عمر عطا کی۔ جب تیس برس کی عمر رکھنے والا شخص روز۔ حشر خدا کی بارگاہ میں پیش ہوا تو اُس نے کہا:تُو نے میری عمر زیادہ کیوں نہیں کی تاکہ میں بھی اپنے بھائی کی طرح سے زیادہ عرصے تک تیری عبادت کرتا اور زیادہ درجات کا حقدار قرار پاتا؟
واضح کریں کہ اگر بالفرض ایسا سوال کیا جائے تو اللہ تعالٰی کیا جواب دے گا۔
جواب:اس سوال کے متعلق ہم تین جواب دیں گے:
پہلا جواب:-ہر چیز کے متعلق دو چیزوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے:1 کمیت (Quantity)2 کیفیت (Quality)
کمیت کا مقصد یہ ہے کہ مثلا ایک انسان ایک سال مسلسل نماز۔ شب ادا کرتا ہے اور پنجگانہ نمازوں کی تعقیبات پڑھتا ہے اور روزانہ قرآن۔ حکیم کی تلاوت سے بھی مشرف ہوتا ہے اور فضول خرچی سے پرہیز کرتا ہے اور فاضل دولت راہ۔ خدا میں خرچ کرتا ہے۔
کیفیت کے متعلق یہ سمجھیں کہ مثلا ایک شخص نماز۔ مغرب و عشاء کو پورے اخلاص۔ قلب اور آداب۔ ظاہری کے ساتھ ادا کرتا ہے اور یوں اسکی نماز خشوع و ادب کا نمونہ بن جاتی ہے۔ پھر یہ شخص سو جاتا ہے اور نماز۔ فجر کامل اخلاص۔ قلب اور خشوع و ادب کے ساتھ پڑھتا ہے تو ایسی نماز کی اللہ کے ہاں بڑی قدر و قیمت ہے اور یہ نماز بےدلی سے ادا کی گئی تمام رات کی نمازوں سے کئی گنا افضل ہے۔ تو ثابت ہوا کہ عمل کے اجر کیلیئے صرف کمیت کو ہی مد نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ کیفیت کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔اسی لیئے حبیب۔ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "دو ہلکی پھلکی رکعات پہ مشتمل نماز کو سکون سے پڑھنا پوری رات کے قیام سے بہتر ہے۔"(بحار النوار ج-84، ص-264)اس حدیث سے یہی مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ خدا کی نظر میں کمیت کے بجائے کیفیت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم عرض کریں گے کہ ممکن ہے کہ جس شخص کو اللہ نے تیس سال کی زندگی عطا فرمائی ہو اسے اخلاص۔ عمل کی دولت سے مالامال کردیا ہو جو کہ ساٹھ سال رکھنے والے کو میسر نہ ہو اور یوں تیس سال کی عمر رکھنے والا شخص ان مراتب و منازل کو حاصل کرلے گا جو کہ ساٹھ سال والے کو بھی حاصل نہ ہوئے ہوں۔ لہٰذا یہ سوال کرنے کی نوبت ہی پیش نہیں آئے گی۔
دوسرا جواب:-جس شخص کو اللہ نے تیس سال کی عمر میں موت دی ہے ممکن ہے کہ اس میں یہ حکمت کارفرما ہو کہ اگر یہ مزید عرصہ زندہ رہا تو اس کے حالات بدل جائیں گے اور وہ عمل۔ خیر کو جاری نہ رکھ سکے گا بلکہ پہلے سے بجالائے ہوئے اعمال بھی تباہ کر بیٹھے گا۔ اسی لیئے اسے تیس برس میں موت دینا ہی بہترین فیصلہ ہے اور یوں جب وہ شخص اپنے اس فائدے کو دیکھے گا تو وہ کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔
تیسرا جواب:-یہ بھی ممکن ہے کہ تیس سال میں مرنے والے کی عمر اللہ نے پہلے زیادہ مقرر کی ہو لیکن اس سے قطع رحمی سرزد ہوئی ہو جس کی وجہ سے اللہ نے اس کی عمر گھٹا کر اسے تیس سال میں بدل دیا ہو اور اسی طرح سے ساٹھ سال عمر پانے والے کیلیئے بھی یہ احتمال موجود ہے کہ اللہ نے اس کی عمر کم رکھی ہو لیکن اس نے صلہ رحمی کی ہو جس کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے اس کی عمر کو طویل کردیا ہو کیونکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ:اپنے مقررہ وقت پہ مرنے والوں سے زیادہ تعداد گناہ کر کے مرنے والوں کی ہوتی ہے اور اپنی مقرر شدہ زندگی سے زیادہ تعداد نیکی کرکے زندہ رہنے والوں کی ہوتی ہے۔(بحار الانوار، ج-73، ص-354)
اور جب قیامت کے دن حقائق کھلیں گے تو اس قسم کے سوال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔
شہید محراب آیت اللہ سید عبد الحسین دستغیب شیرازی (ر۔ہ)کتاب: جواب حاضر ہے۔
آغا قاسم علی۔

No comments:

Post a Comment