Tuesday, 4 March 2014

Abu Talib(a.s) ka eemaan

ابو طالب؛ نيک خصال جوانمرد
ابوطالب عليہ السلام، امير المؤمنين علي عليہ السلام کے والد بزرگوار اور رسول اللہ (ص) کے چچا اور آپ (ص) کے والد ماجد کے سگّے بھائي ہيں دونوں کي والدہ بھي ايک ہے. انہوں نے اس بارے ميں شاعري کي زبان ميں فرمايا ہے:

لا تخذلا و انصرا ابن عمكما
إخي لامي من بينہم و إبي(1)
[بيٹو] اپنے چچا زاد بھائي کو تنہا مت چھوڑو اور اس کي مدد کرو
کہ وہ ميرے بھائيوں کے درميان والد اور والدہ دونوں کي طرف سے ميرے بھائي کا فرزند ہے.
1. معروف عصر:جناب ابو طالب (ع) اپني شخصيت کي عظمت اور ہر لحاظ سے قدآور، طاقتور اور اپنے زمانے ميں دين ابراہيم عليہ السلام کے مبلغ تھے.2. ان کي قابل قبول روايتيں:انہوں نے عصر جاہليت ميں ايسي نيک روايات کي بنياد رکھي جن کو کلام وحي کي تأئيد حاصل ہوئي. (2) حضرت ابوطالب عليہ السلام «قسامہ» کے باني ہيں جو اسلام کے عدالتي نظام ميں مورد قبول واقع ہؤا? (3)نيكوان رفتند و سنت ہا بماندو زلئيمان ظلم و لعنت ها بماند------نيک لوگ چلے گئے؛ ان کي سنتيں باقي رہ گئيں جبکہ
لئيموں سے ظلم و لعنت کے سوا کچھ بھي باقي نہ رہا3. بندہ خدا:ابو طالب جو «عبد مناف» کے نام سے مشہور تھے، اور عبدمناف کے معني ہيں «بندہ خدا» يوں وہ رسول اللہ (ص) کے تيسرے جد امجد کے ہم نام بھي تھے? (4)4. کفر کے خلاف جدوجہد:وہ اپنے والد ماجد «حضرت عبدالمطلب» کي مانند يکتاپرستي کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زير اثر نہيں آئے.
5. ان کے ايمان کے دلائل:
ان کي شاعري ان کے طرز فکر اور ان کے ايمان کو واضح کرتي ہے اور اس مضمون کے آخر ميں ان کے بعض اشعار بھي پيش کئے جارہے ہيں.
6. خلوص قلب:ويسے تو بہت ايسے واقعات تاريخ ميں ثبت ہيں جن سے حضرت ابوطالب عليہ السلام کے خلوص دل اور صفا و طہارت قلب عياں ہے. مگر ہم يہاں صرف ايک واقعہ بيان کرنے پر اکتفا کرتے ہيں اور وہ يہ ہے کہ:اہليان حجاز پر قحط عارض ہؤا. لوگ – عيسائي و مشرک و جاہل و بت پرست اور دين حنيف کے پيروکار – سب کے سب مؤمن قريش حضرت ابوطالب عليہ السلام کي خدمت ميں حاضر ہوئے؛ کيونکهہ انہيں معلوم تھا کہ مکہ ميں دين ابراہيم (ع) کے اس مروج و مبلغ جتني کسي کو بھي خدا کي اتني قربت حاصل نہيں ہے چنانچہ انہوں نے ان تشويشناک حالات ميں ان ہي سے درخواست کي کہ اٹھيں اور "خدا سے باران رحمت کي درخواست کريں"ان کا جواب مثبت تھا اور ايسے حال ميں بيت اللہ الحرام کي طرف روانہ ہوئے کہ ان کي آغوش ميں «چاند سا» لڑکا بھي تھا. حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے سے کہا کہ کعبہ کو پشت کرکے کھڑا ہوجائے اور حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھايا اور خداوند متعال کي بارگاہ ميں باران رحمت کي دعا کي. بادل کا نام و نشان ہي نہ تھا مگر اچانک آسمان سے بارش نازل ہونے لگي اور اس بارش نے حجاز کي پياسي سرزمين کو سيراب کيا اور مکہ کي سوکھي ہوئي وادي کھل اٹھي.وہ چاند سا لڑکا حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے سوا کوئي اور نہ تھا (5) جنہيں ابوطالب ہي جانتے اور پہچانتے تھے کہ وہ خاتم الانبياء و المرسلين ہيں اور اسي بنا پر خدا سے ان کے صدقے باران رحمت کي دعا کي جو فوري طور پر قبول بھي ہوئي. حضرت ابوطالب عليہ السلام اسي حوالے سے رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي شان ميں فرماتے ہيں:و أبيض يستسقى الغمام بوجهه
ثمال اليتامى عصمة للارامل-----وہ ايسا روشن چہرے والا ہے جس کے صدقے بادل پر باران ہوجاتے ہيں
وہ يتيموں کي پناہ گاہ اور بيواؤں کے محافظ ہيں “هركسي اندازه روشن دليغيب را بيند به قدر صيقليهركه صيقل بيش كرد او بيش ديد
بيشتر آمد بر او صورت پديد
گر تو گويي كان صفا فضل خداست
نيزاين توفيق صيقل زآن عطاست
--------ہر کوئي اپني روشن دلي کي سطح مطابقغيب کو ديکھتا ہے اپنے قلب کي صفا و خلوص کي حد تکجس نے جتنا دل کو زيادہ خالص کيا اس نے زيادہ ہي ديکھااس کے لئے زيادہ سے زيادہ صورتيں نمودار ہوئيںاگر تو کہے کہ وہ صفا و خلوص فضل خداوندي ہےتو يہ تزکيہ و صيقل دل بھي اسي عطا کا حصہ ہے7. رؤيائے صادقہ (سچا سپنا):حضرت ابوطالب نے «حجر اسماعيل» ميں ايک سچا خواب ديکھا کہ آسمان سے ان کي طرف ايک دروازہ کھل گيا ہے اور اس دروازے سے نور اور روشني نيچے آکر ارد گرد کے ماحول کو روشن کررہي ہے.بس عجب در خواب روشن مي شوددل درون خواب روزن مي شودآنچنان كہ يوسف صديق راخواب بنمودي و گشتش متكا---------پس عجب ہے کہ خواب ميں ہي روشن ہوتا ہےخواب کے اندر دل دريچہ بن جاتا ہےجيسا کہ يوسف صديق کو خواب دکھائي ديااور يہي خواب ان کے لئے سہارا بن گياابوطالب عليہ السلام اٹھے اور خواب تعبير کرنے والوں کے پاس روانہ ہوئے. اور اپنے خواب کي تفصيل بيان کي.مُعَبِّر نے کہا: بشارت ہو آپ کو! آپ کو بہت جلد ايک نہايت شرافتمند فرزند عطا ہوگا. ثقة الاسلام محمد بن يعقوب کليني رحمة اللہ عليہ نے الکافي ميں روايت کي ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا نے حضرت ابوطالب عليہ السلام کو نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي ولادت کي خوشخبري سنائي؛ حضرت ابوطالب (ع) نے بھي ان کو علي عليہ السلام کي ولادت کي خوشخبري سنائي.(6)8. رسول خدا(ص) کي سرپرستي:حضرت عبدالمطلب عليہ السلام کے بيٹوں ميں حضرت ابوطالب (ع) برتر اخلاقيات کے مالک تھے؛ ان کي روش دوسرے بھائيوں کي نسبت زيادہ شائستہ تھي؛ رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے ساتھ شديد محبت کرتے تھے اور آپ (ص) پر بہت مہربان تھے اور ان اوصاف کے علاوہ وہ رسول اللہ (ص) کے لئے نہايت عميق عقيدت و احترام کے قائل تھے چنانچہ حضرت عبدالمطلب (ع) نے اپنے انتقال سے قبل ان کو حضرت رسول (ص) کا سرپرست مقرر کيا.9. رسول خدا(ص) کي تربيت اور نگہداشت:حضرت ابوطالب عليہ السلام رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے شديد محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازيں وہ آپ (ص) کے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہيں معلوم تھا کہ آپ (ص) مستقبل ميں رسالت الہيہ کے حامل ٹہريں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپ (ص) کي پرورش و تربيت اور حفاظت کے سلسلے ميں ايک لمحہ بھي ضائع نہيں کيا اور اس راستے ميں انہوں نے قرباني اور ايثار کي روشن مثاليں قائم کيں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں ميں بھي آپ (ص) کو اپنے آپ پر مقدم رکھا. (7)10. شريک حيات کو ہدايت:سرپرستي کا اعزاز ملا تو رسول اللہ (ص) کو گھر لے آئے اور اپني اہليہ کو ہدايت کرتے ہوئے فرمايا: «يہ ميرے بھائي کے فرزند ہيں جو ميرے نزديک ميري جان و مال سے زيادہ عزيز ہيں؛ خيال رکھنا! مبادا کوئي ان کو کسي چيز سے منع کرے جس کي يہ خواہش کريں » اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا بھي ايسي ہي تھيں اور ان کو پالتي رہيں اور ان کي ہر خواہش پوري کرتي رہيں اور رسول اللہ (ص) کے لئے مادر مہربان تھيں.(8)11. مشرکين کے مد مقابل آہني ديوار:مورخين نے عبداللہ ابن عباس رضي اللہ عنہ سے نقل کيا ہے کہ: ابوطالب (ع) رسول خدا (ص) کو بہت دوست رکھتے تھے اور اپنے بيٹوں پر بھي اتني مہرباني روا نہيں رکھتے تھے جتني کہ وہ رسول اللہ (ص) پر روا رکھتے تھے؛ ابوطالب (ع) رسول اللہ (ص) کے ساتھ سويا کرتے تھے اور گھر سے باہر نکلتے وقت آپ (ص) کو ساتھ لے کر جاتے تھے؛ مشرکين نے ابوطالب عليہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہي پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو آزار و اذيت پہنچانے کا وہ سلسلہ شروع کيا جو حيات ابوطالب (ع) ميں ان کے لئے ممکن نہ تھا؛ چنانچہ رسول اللہ (ص) نے خود بھي اس امر کي طرف بار بار اشارہ فرمايا ہے.(9)12. رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کو سزا:ايک دفعہ حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ و آلہ و سلم مسجد الحرام مين نماز ادا کررہے تھے کہ قريشي مشرکين نے اونٹ کي اوجڑي آپ (ص) کے جسم مبارک پر پھينک دي اور آپ (ص) کے کرتے کو آلودہ کيا. رسول اللہ (ص) حضرت ابوطالب(ع) کے پاس آئے اورفرمايا: چچاجان! آپ اپنے خاندان ميں ميرے رتبے کے بارے ميں کيا رائے رکھتے ہيں؟ ابوطالب نے کہا: پيارے بھتيجے ہؤا کيا ہے؟رسول اکرم (ص) نے ماجرا کہہ سنايا. ابوطالب (ع) نے فوري طور پر بھائي حمزہ کو بلايا اور شمشير حمائل کرکے حمزہ سے کہا: ايک اوجڑي اٹھالاؤ اور يوں دونوں بھائي قوم قريش کي طرف روانہ ہوئے جبکہ نبي اکرم (ص) بھي ان کے ہمراہ تھے. کعبہ کے ارد گرد بيٹھے ہوئے قريش کے سرداروں کے پاس پہنچے. جب انہوں نے ہاشمي بھائيوں اور رسول اللہ (ص) کو اس حالت ميں ديکھا تو سب اپنا انجام بھانپ گئے. مؤمن قريش نے بھائي حمزہ کو ہدايت کي کہ اوجڑي کو قريشيوں کي داڑھيوں اور مونچھوں پر مل ليں. حمزہ نے ايسا ہي کيا اور آخري سردار تک کے ساتھ ہدايت کے مطابق سلوک کيا. اس کے بعد ابوطالب عليہ السلام رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جان سے پيارے بھتيجے يہ ہے آپ کا مقام و رتبہ ہمارے درميان?(10)يوں قريشي مشرکين کو اپنے کئے کي سزا ملي اور قريش کے سرغنوں نے ايک دوسرے سے کہا کہ «جب تک ابوطالب زندہ ہيں رسول اللہ (ص) کو حصول ہدف سے روک لينا، ممکن نہيں ہے.13. بيٹے کو ہدايت:جب غار حرا ميں خدا کا کلام آپ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر نازل ہؤا تو علي عليہ السلام آپ (ص) کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ (ص) نے سب سے پہلے اپنے وصي و جانشين اور بھائي کو دعوت دي اور علي عليہ السلام نے لبيک کہتے ہوئے رسول اللہ (ص) کي امامت ميں نماز ادا کي اور جب گھر آئے تو اپنے والد کو ماجرا کہہ سنايا اور کہا «ميں رسول اللہ (ص) پر ايمان لايا ہوں تو مؤمن قريش نے ہدايت کي: «بيٹا! وہ تم کو خير و نيکي کے سوا کسي چيز کي طرف بھي نھيں بلاتے اور تم ہر حال ميں آپ (ص) کے ساتھ رہو».(11)14. واضح و روشن حمايت:جب آيت «وانذر عشيرتك الاقربين» (12) نازل ہوئي اور رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر انہيں اپنے دين کي دعوت دي تو ان کي مخالفت کے برعکس حضرت ابوطالب عليہ السلام نے کہا: «يا رسول اللہ (ص)! آپ کي مدد اور نصرت ہمارے لئے بہت ہي زيادہ محبوب اور مقبول و پسنديدہ ہے؛ ميں آپ کي خيرخواہي کي طرف متوجہ ہوں اور آپ کي مکمل طور پر تصديق کرتا ہوں؛ جائيں اور اپني مأموريت اور الہي فريضہ سرانجام ديں؛ خدا کي قسم ميں آپ کي حفاظت کرتا رہوں گا اور کبھي بھي آپ سے جدائي پر راضي نہ ہونگا.(13)15. تہديد دشمنان رسول خدا(ص):ايک روز رسول اللہ (ص) گھر سے نکلے تو واپس نہيں ائے. حضرت ابوطالب عليہ السلام فکرمند ہوئے کہ مشرکين قريش نے کہيں آپ (ص) کو قتل ہي نہ کيا ہو؛ چنانچہ انہوں نے ہاشم اور عبدالمطلب کے فرزندوں کو اکٹھا کيا اور ان سب کو حکم ديا کہ : تيزدھار ہتھيار اپنے لباس ميں چھپا کر رکھو؛ مل کر مسجدالحرام ميں داخل ہوجاؤ اور تم ميں سے ہر مسلح ہاشمي شخص قريش کے کسي سردار کے قريب بيٹھ جائے اور جب ميں تم سے تقاضا کروں تو اٹھو اور قريش کے سرداروں کو موت کي گھاٹ اتارو.ہاشميوں نے حضرت ابوطالب کے حکم کي تعميل کي اور سب کے سب مسلح ہوکر مسجدالحرام ميں داخل ہوکر قريش کے سرداروں کے قريب بيٹھ گئے مگر اسي وقت زيد بن حارثہ نے ان کو خبر دي کہ حضرت محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو کوئي گزند نہيں پہنچي ہے اور بلکہ آپ (ص) مسلمان کے گھر ميں تبليغ اسلام ميں مصروف ہيں چنانچہ منصوبے پر عملدرآمد رک گيا مگر مؤمن قريش ہاشمي شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرکين قريش کو رسول اللہ (ص) کے خلاف کسي بھي معاندانہ اقدام سے باز رکھنے کي غرض سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمايا: ميرا بھتيجا گھر سے نکلا اور گھر واپس نہيں آيا تو مجھے انديشہ لاحق ہوا کہ کہيں تم نے اس کو کوئي نقصان نہ پہنچايا ہو چنانچہ ميں نے تمہيں قتل کرنے کا منصوبہ بنايا? پھر انہوں نے ہاشمي نوجوانوں کو حکم ديا کہ اپنے ہتھيار انہيں دکھا ديں. قريش کے سرداروں نے کانپتے ہوئے کہا: اے اباطالب! کيا تم واقعي ہميں قتل کرنے کا ارادہ لے کر آئے تھے؟ فرمايا: اگر رسول اللہ کو تمہاري جانب سے کوئي نقصان پہنچا ہوتا تو ميں تم ميں سے ايک فرد کو بھي زندہ نہ چھوڑتا اور آخري سانس تک تمہارے خلاف لڑتا.(14)واستان از دست ديوانه سلاحتا ز تو راضي شود عدل و صلاحچون سلاح و جهل، جمع آيد به همگشت فرعوني جهان سوز از ستم



----ديوانے کے ہاتھ سے ہتھيار چھين لو
تا کہ عدل و صلاح تم سے راضي ہوجائے
جب اسلحہ اور جہل ساتھ مل جائيں
ظلم و ستم کے ذريعے جہان کو جلادينے والا فرعون جنم ليتا ہے
16. دين اسلام کے مبلغين کے حامي:سني عالم و مورخ و اديب ابن ابي الحديد معتزلي کہتے ہيں:
ولولا ابوطالب عليہ السلام وابنہلما مثل الدين شخصا وقامافذاک بمکة آوي وحاميوھذا بيثرب جس الحماما
اگر ابوطالب (ع) اور ان کا بيٹا (علي (ع)) نہ ہوتےمکتب اسلام ہرگز باقي نہ رہتا اور اپنا قدسيدھا نہ کرسکتاابوطالب (ع) مکہ ميں پيغمبر کي مدد کےلئے آگے بڑہے اورعلي (ع) يثرب (مدينہ) ميں حمايت دين کي راہ ميں موت کے بھنور ميں اترے“کثير تعداد ميں متواتر اخبار و روايات سے ثابت ہے کہ حضرت ابوطالب عليہ السلام دين مبين کي ترويج کے سلسلے ميں رسول اللہ (ص) کي مدد کيا کرتے تھے اور اپنے فرزندوں، اقرباء اور اہل مکہ کو آپ (ص) کي حمايت اور پيروي کي دعوت ديا کرتے تھے.«عثمان بن مظعون» جو سچے مسلمان تھے ايک روز کعبہ کے ساتھ کھڑے ہوکر بت پرستوں کو ان کے مذموم روش سے منع کررہے تھے اور ان کو وعظ و نصيحت کررہے تھے. قريش کے نوجوانوں کے ايک گروہ نے ان پر حملہ کيا اور ان ميں سے ايک نے عثمان پر وار کيا جس کے نتيجے ميں ان کي ايک آنكھ زخمي ہوئي.حضرت ابوطالب عليہ السلام کو اطلاع ملي تو انہيں سخت صدمہ پہنچا اور قسم کھائي کہ : جب تک اس قريشي نوجوان سے قصاص نہ لوں چين سے نہ بيٹھوں گا اور پھر انہوں نے ايسا ہي کيا. (15)17. حبشہ کے بادشاہ نجاشي کي قدرداني:جب مسلمانوں نے حبشہ کي طرف ہجرت کي تو حبشہ کے بادشاہ نجاشي نے ان کي پذيرائي کي اور ان کي حمايت و سرپرستي کہ اور قريش کے نمائندے بھي انہيں مسلمانوں کے خلاف کرنے ميں ناکام ہوئے.وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُاور جو بھي تقوائے الہي اپنائے گا خداوند متعال اس کے لئے راہ نجات فراہم کرے گا اور اس کو ايسي جگہ سے رزق و روزي عطا کرے گا جس کا وہ گمان بھي نہيں کرتا.(16)از ره پنهان كه دور از حس ماستآفتاب چرخ را بس راه هاست



-----ہمارے حس سے دور خفيہ راستے سےآفتاب فلک کے لئے بہت سے راستے ہيںابوطالب عليہ السلام کو ايک الہي فريضہ سونپا گيا تھا اور وہ ايسي عظيم شخصيت کے سرپرست تھے جو خود کائنات کے سرپرست ہيں اور انبياء کے سردار ہيں اور خدا کے بعد ان سے کوئي بڑا نہيں ہے؛ چنانچہ رسول اللہ کے دين کي ترويج بھي ان کي ذمہ داري تھي اور جو لوگ اس راستے ميں آپ (ص) کي مدد و نصرت کرتے تھے ان کي قدرداني کو بھي وہ اپنا فرض سمجهتے تھے چنانچہ جب نجاشي نے مسلمانوں کو پناہ دي تو محسن اسلام نے ان کے حق ميں اشعار لکھ کر روانہ کئے. نجاشي کو جب حضرت ابوطالب کے اشعار کا تحفہ ملا تو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے جعفر ابن طالب (ع) کي قيادت ميں حبشہ ميں پناہ حاصل کرنے والے مسلمانوں کے احترام ميں اضافہ کيا اور ان کي پذيرائي دو چند کردي.18. رسول خدا (ص) کي حفاظت و حمايت:قريش کے تمام مشرک قبائل نے شعب ابي طالب (ع) ميں خاندان رسالت اور مسلمانوں کو مکہ سے جلاوطن کيا اور شعب ابي طالب (ع) ميں ان کي ناکہ بندي کردي. يہ ناکہ بندي معاشي، سماجي اور سياسي ناکہ بندي تھي. شعب ابي طالب اس وقت شہر مکہ سے باہر واقع ايک درہ تھا. يہ ناکہ بندي شديد ترين اقدام کے طور پر قريش کي طرف سے مسلمانوں پر ٹھونسي گئي تھي اور اس دوران پيغمبر اکرم (ص) اور آپ (ص) کے ہمراہ ديگر مسلمان و مؤمنين صرف حرام مہينوں اور ايام حج ميں بيت اللہ الحرام آسکتے تھے اور حج اور عمرہ بجالاسکتے تھے اور اسي دوران تبليغ اسلام بھي کيا کرتے تھے. اس دوران صرف حضرت ابوطالب عليہ السلام تھے جو پيغمبر کي حفاظت کرتے اور رات بهر جاگتے اور نبي اکرم (ص) کے سوني کے مقام کو تبديل کرکے اپنے بيٹے علي عليہ السلام کو آپ (ص) کے بستر پر لٹايا کرتے تا کہ اگر دشمن حملہ کرنا چاہے تو نبي (ص) کي بجائے علي قربان ہوجائيں اور ايسا عمل صرف مؤمن قريش ہي کے بس ميں تھا جو اپنے ايمان کي بنياد پر بيٹے کو بآساني رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر قربان کرنے کے لئے تيار ہوجاتے تھے مگر علي عليہ السلام بھي اس قرباني پر سمعاً و طاعتاً راضي و خوشنود تھے. قريش نے ايک ميثاق تحرير کي تھي جس پر ناکہ بندي کے حوالے سے متعدد نکات درج تھے اور يہ عہدنامہ کعبہ کي ديوار پر ٹانکا گيا تھا جسے ايک ديمک نے نيست و نابود کرديا تو ابوطالب عليہ السلام نماز شکر بجالانے بيت اللہ الحرام ميں حاضر ہوئے اور وہيں انہوں نے مشرکوں اور نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے مخالفين کو بددعا دي اور ان پر نفرين کردي.(17)19. كلام نور ميں ابو طالب کا مقام:امام سجاد (ع) نے حضرت ابوطالب عليہ السلام کے ايمان کے بارے ميں شک کرنيے والے افراد کے جواب ميں فرمايا: عجب ہے کہ خدا اور اس کے رسول (ص) نے غير مسلم مرد کے ساتھ مسلم خاتون کا نکاح ممنوع قرار ديا جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا – جو سابقين مسلمين ميں سے ہيں - حضرت ابوطالب عليہ السلام کے انتقال تک ان کے عقد ميں رہيں".کسي نے امام باقر(ع) کو بعض جھوٹي محدثين کي يہ جعلي حديث سنائي کہ "ابوطالب (ع) [معاذاللہ] آگ کي کھائي ميں ہيں!"امام عليہ السلام نے فرمايا: "اگر ايمان ابوطالب (ع) ترازو کے ايک پلڑے ميں رکها جائے اور ان سب لوگوں کا ايمان دوسرے پلڑے ميں تو ابوطالب (ع) کا ايمان ان سب پر بهاري نظر آئے گا"."ابان بن محمود" نامي شخص نے امام رضا عليہ السلام کو خط ميں لکها کہ "ميں آپ پر قربان جاؤں! ميں ابوطالب کے ايمان کے سلسلے ميں شک و ترديد ميں مبتلا ہوا ہوں".امام عليہ السلام نے جواب ميں تحرير فرمايا: " وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًاجو شخص حق ظاہر و آشکار ہونے کے بعد پيغمبر (ص) کي مخالفت کرے اور مؤمنوں کي راہ کے سوا کسي دوسرے راستے کي پيروي کرے ہم اسے اسي راستے پر لے چليں گے جس پر کہ وہ گامزن ہے اور اسے جہنم ميں داخل کرديں گے اور جہنم بہت ہي بري جگہ ہے"(18) اما بعد جان لو کہ اگر تم ايمان ابوطالب کا يقين نہيں کروگے تو تم بھي آگ کي طرف لوٹا دئيے جاؤگے.(19)20. ابو طالب عليہ السلام علي عليہ السلام کے والد ماجد:ابوطالب (ع) کو اللہ تعالي نے ايک ايسے فرزند سے نوازا جو زمانے کے بہترين فرزند تھے. اس فرزند کي ولادت بھي ايسي ہوئي جس کي مثال اس سے پہلے کبھي بھي نظر نہيں آئي اور بعد ميں ميں بھي نظر نہيں آئے گي. اسي بنا پر وہ اپنے نومولود فرزند کے ساتھ خاص محبت رکهتے تھے. بعثت نبي (ص) سنہ 40 عام الفيل کو واقع ہوئي اور اس وقت علي عليہ السلام کي عمر شريف کے صرف دس برس بيت گئے تھے مگر حضرت ابوطالب نے اپنے اس فرزند کے بارے ميں جو پيشين گوئياں کي ہيں وہ سب ان کے ايمان اور اعتقاد راسخ پر دلالت کرتي ہيں. انہوں نے ايک شعر کے ضمن ميں فرمايا: «علي کي ولادت کے ساتھ ہي کفر کي کمر خم ہوئي اور اس کي شمشير کے ذريعے اسلام کي بنياديں استوار اور مستحکم ہو جائيں گي" حضرت ابوطالب (ع) نے خداوند متعال سے اپنے بيٹے کے لئے نام منتخب کرنے کي درخواست کي تھي اور اسي درخواست کي بنا پر آسمانوں سے ايک «لوح لطيف» نازل ہوئي اور ابراہيم خليل عليہ و علي نبينا و آلہ السلام کے وارث و جانشين حضرت ابوطالب عليہ السلام کي آغوش ميں آپڑي. اس لوح پر لکهي ہوئي تحرير کے ذريعے حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد عليہما السلام کو پاک و برگزيدہ فرزند کي ولادت کي خوشخبري سنائي گئي تھي اور اس فرزند کا نام «علي» رکها گيا تھا.(20)21. غم ہجران:شعب ابي طالب (ع) ميں ناکہ بندي کے دوران مؤمن قريش کو شديد صعوبتيں جهيلني پڑيں اور شديد دباؤ اور مشکلات سہہ لينے کي وجہ سے حضرت ابوطالب کمزور ہوگئے چنانچہ ناکہ بندي کے خاتمے کے چھ مہينے بعد بعثت نبوي کے دسويں برس کو حضرت ابوطالب عليہ السلام وفات پاگئے جس کي وجہ سے حضرت رسول اللہ (ص) کو شديد ترين صدمہ ہوا اور بے تاب ہوکر اپنے چچا اور غمخوار کے سرہانے تشريف فرما ہوئے اور ان کے چہرے پر اپنے مقدس ہاتھ پھير پھير کر فرمايا: چچا جان! آپ ني بچپن ميں ميري تربيت کي؛ ميري يتيمي کي دور ميں آپ نے ميري سرپرستي کي اور جب ميں بڑا ہؤا تو آپ نے ميري حمايت اور نصرت کي؛ خداوند متعال ميري جانب سے آپ کو جزائے خير عطا فرمائے. ميت اٹھي تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم جنازے سے آگے آگے قبرستان کي طرف روانہ ہوئے اور راستے ميں بھي محسن اسلام کے لئے دعائے خير فرماتے رہے.(21)22. اشعار ابو طالب عليہ السلام:آخر ميں حضرت ابو طالب عليہ السلام کي پر مغز اشعار کے کچھ ابيات پيش کئے جارہے ہيں جن سے کسي حد تک خدا اور اس کے رسول (ص) پر ان کي ايمان راسخ اور اعتقاد عميق کا اندازہ کيا جاسکتا ہے:
و الله لا اخذل النبي و لايخذله من بني ذو حسباللہ کي قسم کہ ميں نبي (ص) کو تنہا نہيں چهوڑوں گا اورميرے فرزندوں ميں سے بھي کوئي با شرف آپ (ص) کو تنہا نہ چهوڑے گا.انہوں نے حبشہ کي بادشاہ کو اشعار کا تحفہ بھيجا تو ان اشعار کے ذريعے انہوں نے رسول اللہ (ص) پر اپنے ايمان و اعتقاد کے علاوہ انبياء سلف علي نبينا و عليہم السلام کے بارے ميں بھي اپنے ايمان و اعتقاد کي وضاحت کي اور نجاشي کو مسلمانوں کي زيادہ سے زيادہ حمايت کي ترغيب دلائي:تعلم مليك الحبش إن محمدانبي كموسي و المسيح ابن مريمإتانا بهدي مثل ما اتيا بهفكل بإمر الله يهدي و يعصم(22)-----اي حبشہ کے بادشاہ جان لے کہ بتحقيق محمد (ص)نبي ہيں جيسے کہ موسي اور عيسي ابن مريم نبي ہيںوہ ہمارے پاس ہدايت لے کر آئے جيسا کہ وہ دونوں لائے تھےپس تمام انبياء الہي خدا کے فرمان پر امتوں کي راہنمائي کرکے انہيں پليديوں اور گناہوں سے بچاليتے ہيںابوطالب علي عليہ السلام رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے ساتھ اپني وفاداري اور آپ (ص) کي حمايت کا يوں اظہار فرماتے ہيں:والله لن يصلوا اليك بجمعهمحتي اوسد في التراب دفيناو ذكرت دينا لا محالة انهمن خير اديان البرية دينا(23)-----اللہ کي قسم! کہ ان کا ہاتھ - سب مل کر بھي – آپ تک نہ پہنچ سکے گاجب تک کہ ميں زمين کے سينے ميں دفن نہ ہؤا ہوںاور جو دين آپ لائے ہيں اور آپ نے اس کي يادآوري فرمائي ہےبے شک و ناگزير انسانوں کے لئے بھيجے گئے اديان سے بہترين ہے
مآخذ:
1. بحارالانوار، ج 35، ص121.
2. ينابيع المودة، قندوزي حنفي، ج2، ص 10.
3. صحيح بخاري، ج 3، ص 196.
4. مجالس المومنين، قاضي نور الله شوشتري ،ج 1، ص 163.
5. السيرة الحلبية، ج 1، ص 125،شرح نهج البلاغة، ج 3، ص 316،الملل و النحل، شهرستاني پاورقي،ص 255.
6. اصول كافي، شيخ كليني، كتاب الحجة ،باب تولد اميرالمومنين، ص 301.
7. امام علي صداي عدالت انساني، جرج جرداق، ترجمه سيدهادي خسروشاهي، ج1 . 2، ص 74.
8. تاريخ انبيإ، ج3، سيدهاشم رسولي محلاتي، ص 76.
9. تاريخ طبري ،ج 2، ص 229.
10. الکافي ج1 ص 449?



11. امام علي صداي عدالت انساني، ج 1.2، ص 77 . 78.
12. شعرا، 214.
13. الكامل، ابن اثير، ج 2، ص 24.
14. طرائف، ص 85 و طبقات كبري، ابن سعد، ج 1، ص 302.303.
15. شرح نهج البلاغة،ج 3، ص 313.



16. سوره طلاق آيات 2 و 3.
17. الغدير، ج 7، ص 364 والكامل في التاريخ، ج 2، ص 71.
18. نسإ، 115.
19. الغدير، ج 7، ص 36.
20. مناقب ،ابن شهر آشوب ،ج 2، ص 175.
21. تاريخ انبيإ، ج 3، ص 218.
22. بحار الانوار، ج 35، ص 122 . 123.
23. بحار الانوار، ج 35، ص 122 . 123.

No comments:

Post a Comment