Friday, 7 March 2014

عظمت تسبیح حضرت زہراء سلام اللہ علیہا

سید عرفان نقوی( نزیل مشہد مقدس)برادر محترم سید شہنشاہ حسین نقوی کے حکم پر لکھا گیا
بزرگی و عظمت خداوند متعال کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ صرف وہی ذات ہے جو ہر کمال کی حامل ہے جسے جامع کمالات کہا جاتا ہے ، اور جو چیز تمام کمالات و فضائل کی حامل ہو وہی تسبیح و عبادت کی حقدار و سزاوار ہے ۔قرآن کریم میں جہاں استغفار و توکل کا حکم آیا ہے وہیں پر تسبیح کرنے کا بھی حکم موجود ہے اورمجموعی طور پر تسبیح کے مادے یعنی ’’ سبح ، تسبح ، سبحان ، و دوسرے مشتقات کے ساتھ 92 بار قرآن میں ذکر ہوا ہے ( تفصیل دیکھنے کے لئے رجوع کریں معجم المفھرس لالفاظ القرآن الکریم ، محمد فواد عبد الباقی صفحہ 430 پر ) اور قرآن میں تسبیح کرنے کا حکم 18 بار آیا ہے 13 مرتبہ سَبِّح کے صیغے کے ساتھ ، سَبِّحہُ ۳ مرتبہ اور جمع کے صیغے سَبِّحوا کے ساتھ ۲ مرتبہ ، اس سے تسبیح کی اہمیت اور عظمت ظاہر ہوتی ہے ۔
تسبیح کی لغت میں معنی :راغب اپنی مفرادات میں مادہ سبح کی معنی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : السبح: المر السريع في الما و في الهواء یعنی پانی یا ہوا میں جلدی ڈوب جانا یا چلے جانااصطلاح میں تین ۳ معنائوں میں استعمال ہوتا ہے1 - تنزیہ یعنی خداوند متعال کو ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ جاننا :اللہ ان تمام باتوں سے پاک و پاکیزہ ہے(مومنون/91، انبياء/12، صافات/159و180، زخرف/82، انعام/100)خدا ان کے شرک سے پاک اور بلند و برتر ہے(طور/43، قصص/68، توبه/31، يونس/18، نحل/1، روم/40، زمر/67، حشر/23)2 - حمد اور تعریف تنزیہ کے ساتھ :پس پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس کے ہاتھوں میں ہر شے کا اقتدار ہے اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹا کر لے جائے جاؤ گے۔(زخرف/13، بقره/32، آل عمران/191، اعراف/143، فرقان/18، يس/83، سبأ/41)3- تعجب اور تعظیم تنزیہ کے ساتھ :خدایا تو پاک و بے نیاز ہے اور یہ بہت بڑا بہتان ہے(نور/16، اسري/1)ان موارد میں جو معنی سب میں مشترک ہے وہ خداوند متعال کو ہر عیب و ریب سے پاک قرار دینا ہے جو خداوند متعال کی اصلی حمد و تعریف و تسبیح ہے ، اور یہ وہ خاص معنی ہے جو مطلوب خداوند ی ہے اسی وجہ سے خداوند متعال نے قرآن میں اپنی تسبیح یعنی اس کو ہر عیب سے منزہ قرار دینے کا حکم دیا ہے اور اس حکم کی پابندی ہر مخلوق پر واجب ہے ارشاد ہوتا ہے : تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْ‌ضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ، آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اس کی تسبیح کررہے ہیں اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو ۔
تسبیخ کیوں کرنی چاہئے ؟اگر ہم کسی چیز کو دل سے چاہتے ہیں اور اس سے والہانہ محبت کرتے ہیں تو اس کا ذکر صبح و شام ہماری زبان پر رہتا ہے ، بار بار ہم اس کو دہراتے رہتے ہیں ، اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے دلائل و براہین قائم کرنے یامثالیں دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کوہر شخص اپنے اندر محسوس کر سکتا ہے،لیکن قہراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم خدا سے محبت کرتے ہیں تو اپنی زندگی میں اس کے ذکر کو کتنی جگہ دیتے ہیں ؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام اذکار سے زیادہ ہماری زبان پر اسی کا ذکر ہو بلکہ صرف اور صرف اسی کا ذکر ہو کیونکہ حقیقی محبت کی حقدار صرف اسی کی ذات اقدس ہے ،مزید بر آن یہ کہ آیا ت و روایات بھی ذکر خدا کی تاکید سے بھری پڑی ہیں اور اس کے آثار و فوائد اور برکات بھی مفصل طور پر بیان کر دئے گئے ہیں ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ‌ اللَّـهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ‌ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ( رعد ۔ 28 )یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دُلوں کو یادُ خدا سے اطمینان حاصل ہوتا ہے اور آگاہ ہوجاؤ کہ اطمینان یادُ خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔یا دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہےفَاذْكُرُ‌ونِي أَذْكُرْ‌كُمْ وَاشْكُرُ‌وا لِي وَلَا تَكْفُرُ‌ونِ(بقرہ ۔ 152)اب تم ہم کو یاد کرو تاکہ ہم تمہیں یاد رکھیں اور ہمارا شکریہ ادا کرو اور کفرانِ نعمت نہ کرواسی طرح کافی آیات ہیں۔مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام دعائے کمیل میں ارشاد فرماتے ہیں : أن تَجْعَلَ أَو قاتی مِن اللیل والنھار بذکرک معمورۃ ۔ خدایا ! تو میرے دن اور رات کو اپنے ذکر سے معمور و منور فرما۔اسی طرح مولائے متقیان وقت آخر امام حسن علیہ السلام سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یا بُنَیَّ کُن اللہ َ ذاکراً علیٰ کُلِّ حال (بحار الانوار ج 90 ۔ ص 152)اے میرے فرزند ہر حال میں خدا کا ذکر کرتے رہو ۔
تو معلوم ہوا کہ ذکر خدا ایک اہم مسئلہ ہے جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔اس باب میں کہ تسبیح کی کتنی اقسام ہیں زبانِ حال و زبان قال کے ذریعے سے تسبیح ، تسبیح حقیقی اور صوری میں کیا فرق ہے ؟ قرآن میں تسبیح کرنے کے کونسے وقت ذکر ہوئے ہیں ؟ کون کون سے ذکر تسبیح کے عنوان سے ذکر ہوئے ہیں یہ سارے مطالب اس مقالے کی حد سے زیادہ ہیں انشاء اللہ اس پر ایک اور مقالہ لکھوں گا من اللہ التوفیق ۔یہاں مختصر طور پر بیان کریں گے اس ذات بابرکات کا ذکر کیسے کیا جائے ؟ الفاظ کہاں سے لائے جائیں ؟ کون سے کلمات ہوں جو اس کی شان اقدس اور بارگاہ پر عظمت کے مطابق ہوں اور بر ترین و بالا ترین کلمات شمار کئے جاتے ہوں ۔ جب ہم روایات کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو ہمیں مختلف چیزیں نظر آتی ہیں ۔ اگر تمام روایات کی کلی طور پر تقسیم بندی کی جائے تو یہ روایتیں چند حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں ۔ جن کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے ۔( تفصیل سے روایات دیکھنے کے لئے حوالے کی طرف رجوع کریں )(1)بعض روایات وہ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تسبیحات اربعہ ٫٫ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر بہترین ذکر ہے(2)بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ : لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم بہترین و بالا ترین ذکر ہے ۔(3)بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ : لا الہ الا اللہ بہترین اور افضل ترین ذکر ہے ۔)4(بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ صرف الحمد للہ بہترین اور افضل ترین ذکر ہے ۔(5)بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ اللہ اکبر بہترین ذکر ہے ۔(6)بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ محمد ؐ وآل محمد ؑ پر صلوات بھیجنا بہترین ذکر ہے ۔(7)بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ تسبیح حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا بہترین اور افضل ترین ذکر ہے(ان تمام روایات کے مطالعہ کے لئے کتاب بحار الانوار ج 90 باب ذکر اللہ تعالیٰ ، صفحہ 147 یا جلد 82 صفحہ 329 کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے )روایات کے مطالعہ سے اتنا بہر حال واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تمام اذکار اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت اور عظمت کے حامل ہیں اور ان کا ورد فضیلت سے خالی نہیں ہے لیکن تسبیح حضرت فاطمہ زہراء ؐ اس لئے اپنے اندر عظمت کا پہلو رکھتی ہے کیونکہ یہ نبی اکرم ؐ کی لخت جگر ، سیدہ نساء عالمین سے منسوب ہے اور خود آپ ؐ نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کویہ ذکر تعلیم فرمایا تھا جس پر آپ ساری عمر مداوت فرماتی رہیں ۔اس واقعہ کو علما نے اس طرح نقل کیا ہے ۔شیخ صدوق قدس سر کتاب علل اشرایع میں نقل کرتے ہیں کہ : عن علي صلوات الله عليه أنه قال لرجل من بني سعد: ألا احدثك عني وعن فاطمة ؟ إنها كانت عندي وكانت من أحب أهله إليه، وإنها استقت بالقربة حتى أثر في صدرها وطحنت بالرحى حتى مجلت يداها، وكسحت البيت حتى اغبرت ثيابها، وأوقدت النار تحت القدر حتى دكنت ثيابها، فأصابها من ذلك ضرر شديد، فقلت لها: لو أتيت أباك فسألتيه خادما يكفيك حرما أنت فيه من هذا العمل ۔ فأتت النبي صلى الله عليه وآله فوجدت عنده حداثا فاستحت فانصرفت، قال: فعلم النبي صلى الله عليه وآله أنها جاءت لحاجة، قال: فغدا علينا ونحن في لفاعنا، فقال: السلام عليكم، فسكتنا واستحيينا لمكاننا، ثم قال: السلام عليكم فسكتنا، ثم قال: السلام عليكم فخشينا إن لم نرد عليه أن ينصرف، وقد كان يفعل ذلك يؤسلم ثلاثا فان اذن له وإلا انصرف فقلت: وعليك السلام يا رسول الله صلى الله عليه وآله ادخل. فلم يعد أن جلس عند رؤوسنا، فقال: يا فاطمة ما كانت حاجتك أمس عند محمد، قال: فخشيت إن لم تجبه أن يقوم قال: فأخرجت رأسي فقلت: أنا والله اخبرك يا رسول الله صلى الله عليه وآله إنها استقت بالقربة حتى أثر في صدرها، وجرت بالرحا حتى مجلت يداها وكسحت البيت حتى اغبرت ثيابها، وأوقدت تحت القدر حتى دكنت ثيابها فقلت لها: لو أتيت أباك فسألتيه خادما يكفيك حرما أنت فيه من هذا العمل. قال صلى الله عليه وآله: أفلا اعلمكما ما هو خير لكما من الخادم ؟ إذا أخذتما منامكما فسبحا ثلاثا وثلاثين، واحمدا ثلاثا وثلاثين، وكبرا أربعا وثلاثين، قال: فأخرجت عليها السلام رأسها فقالت: رضيت عن الله ورسوله، رضيت عن الله ورسوله، رضيت عن الله ورسوله (علل الشرايع ج 2 ص 54 – 55 ، من لا یحضره الفقیه، ج1، ص 211، ح 32، چار جلدی ، بحارالانوار، ج 82، ص 329)امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے ’’ بنی سعد ‘‘ کے ایک شخص سے فرمایا : کیا تم چاہتے ہو میں اپنے اور فاطمہ ( سلام اللہ علیہما ) کے بارے میں تم کو بتائوں ؟ حضرت فاطمه سلام اللہ علیہا میرے گھر میں تھیں اور انہوں نے پانی کی مشک میں اتنا پانی بھر ا جو مشک کا نشان ان کے بدن پر ثبت ہوگئے اور( گندم کو پیسنے والی ) چکی ( آسیاب ) کو اتنا چلایا کہ ان کے ہاتھ زخمی ہوگئے ، گھر میں اتنا جھاڑو دیا جو ان کے کپڑے خاک و مٹی زدہ ہوگئے ، اور چولہے پر آگ کے اثر سے ان کا لباس سیاہ ہوگیا ۔ میں ( علی ) نے فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) سے کہا کہ : کاش آپ اپنے بابا کے پاس جاتیں اور ان سے ایک نوکر کی درخواست کرتیں تاکہ وہ خادمہ یہ سارے کام انجام دیتی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس آئیں تو اس وقت پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کچھ افراد کے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے ، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا شرم و حیا کی وجہ سے اپنے بابا کو کچھ کھ نہ سکیں اور گھر واپس آگئیں ۔رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے آنے سے سمجھ گئے کہ ان کو کوئی کام تھا اسی وجہ سے دوسرے دن وہ ہمارے گھر تشریف لائے اور دروازے پر آ کر کھا السلام علیکم : ہم شرم سے چپ رہے ، کچھ دیر بعد پھر انہوں نے کھا السلام علیکم : ہم حیا کی وجہ سے چپ رہے جب انہوں نے تیسری مرتبہ کھا السلام علیکم تو ہم ڈر گئے کہ کہیں وہ واپس چلے نہ جائیں کیونکہ وہ جب کسی کہ پاس جاتے تھے تو دروازے پرتین 3 مرتبہ سلام کرتے تھے اگر جواب نہیں ملتا تھا تو واپس چلے جاتے تھے تو میں نے جواب دیا اور کہا : وعلیک السلام یا رسول الله! آجائیں ۔آن حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ تشریف لے کر آئے اور کھا بیٹی کل آپ میرے پاس آئیں تھیں کوئی کام تھا ؟جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے شرم و حیا کی وجہ سے کوئی جواب نہ دیا تو میں نے کھا کہ یا رسول اللہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ کیوں آئی تھیں : انہوں نے پانی کی مشک میں اتنا پانی بھر ا جو اس مشک کا نشان ان کے بدن پر ثبت ہوگئے تھے اور( گندم کو پیسنے والی ) چکی ( آسیاب ) کو اتنا چلایا جو ان کے ہاتھ زخمی ہوگئے ، گھر میں اتنا جھاڑو دیا جو ان کے کپڑے خاک و مٹی زدہ ہوگئے ، اور چولہے پر آگ کے اثر سے ان کا لباس سیاہ ہوگیا تو میں ( علی ) نے فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) سے کہا کہ : کاش آپ اپنے بابا کے پاس جاتیں اور ان سے ایک نوکرانی کی درخواست کرتیں تاکہ وہ خادمہ یہ سارے کام انجام دیتی ۔ ( یہ بات سننے کے بعد ) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ تم کو ایسا عمل بتائوں جو خادم و نوکر سے بہتر ہو ؟جب آپ سونے کا ارادہ کریں تو 34 بار «الله اکبر»، 33 بار «الحمدللّه» و 33 بار «سبحان الله» پڑہیں ۔ تو فاطمہ سلام اللہ علیہا نے 3 تین بار فرمایا میں خدا اور اس کے رسول سے راضی ہوگئی ۔ویسے تو کتابوں میں اس تسبیح کو پڑہنے کے کئی طریقوں کا تذکرہ ملتا ہے جن کو تفصیلی طور پر بحار الانوار ج89 ، کامل الزیارات وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن مشہور و معروف تسبیح وہی ہے کہ جو ہم اور آپ نماز کے بعد پڑھتے ہیں اور جس کے بارے میں اوپر ذکر شدہ روایت کے علاوہ امیر المومنین حضرت علی ؑ اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایت ہے کہ : تسبیح فاطمہ ھو اللہ اکبر اربع و ثلاثون مرّۃ ، سبحان اللہ ثلاث و ثلاثون مرّۃ ، و الحمد للہ ثلاث و ثلاثون مرّۃ(من لا یحضرہ الفقیہ ج١ ص 211 و ثواب الاعمال ص 196)یعنی تسبیح فاطمہ یہ ہے : 34 مرتبہ اللہ اکبر 33مرتبہ سبحان اللہ 33 مرتبہ الحمد للہ ۔اس روایت سے اگر چہ ظاہراً یہ سمجھ میں آتا ہے سبحان اللہ کو الحمد للہ پر مقدم کیا جائے لیکن سبحان اللہ کو بعد ہی میں پڑھنا چاہئے کیونکہ اکثر روایات میں وارد ہوا ہے کہ سبحان اللہ کو الحمد للہ کے بعد پڑھا جائے ۔ مثلاً جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے تسبیح فاطمہ ؐ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ : تبدأ بالتکبیر ثم التحمید ثم التسبیح یعنی پہلے اللہ اکبر کہو پھر الحمد للہ اور پھر سبحان اللہ ۔(من لا یحضرہ الفقیہ جلد 1صفحہ 211 و ثواب الاعمال ص 196)
ان تین جملوں کی کچھ وضاحت :اس تسبیح میں تین جملے ہیں اللہ اکبر ، الحمد للہ ، سبحان اللہ ان کی کچھ تشریح عرض کرتے ہیں کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک خادمہ کے بدلے میں اپنی دختر نیک اختر کو یہ عمل دیا ہے اور اس عمل کو رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ نے نوکرسے زیادہ بہتر قرار دیا ہے یہ ایک عظیم امر ہے اس پر سوچا جائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ اپنی اکلوتی بیٹی کی درخواست کے بدلے میں کیا دے رہے ہیں اور کیا دے سکتے تھے۔اس تسبیح کا پہلا ذکر ’’ اللہ اکبر ‘‘ ہے اللہ اکبر کہنے سے انسان اپنی نہایت ہی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کرتا ہے ۔ امام خمینی ؒ اپنی کتاب شرح چہل حدیث ( اربعین حدیث ) میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ : جمیع بن عُمیر کہتا ہے : میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھا امام علیہ السلام نے مجھ سے پوچھا : «الله اکبر» کی کیا معنی ہے ؟ تو میں نے کھا مولا یعنی خداوند ہر چیز سے بڑا ہے ، امام علیہ السلام نے فرمایا : اس معنی کے مطابق تم نے خدا کو ایک حد میں تصور کیا ہے اور اس کے بعد اس کا دوسری چیزوں کے ساتھ مقایسہ و قیاس کر کے کھا ہے کہ خدا ان سے بڑا ہے ، میں نے کھا مولا تو اس اللہ اکبر کی معنی کیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا :اللہ اکبر کی معنی ہے اللہ اکبرُ اَن یُوصَفَ خدا اس ہر وصف و تعریف سے بڑا ہے ( یعنی جو صفات خدا کی بیان کی جائیں خداوند متعال کی ذات بابرکات اس سے بڑی ہے )(شرح چهل حدیث (اربعین حدیث) امام خمینی، ص656)اس تسبیح کا دوسرا ذکر ’’ الحمد للہ ‘‘ ہے ، انسان جب اپنی انکساری و عاجزی کا درگاہ خداوندی میں اظہار کرکےالحمدلله کہتا ہے تو اس جملے کے ذریعے سے دراصل شکر خدا کو بجا لاتا ہے ۔امام خمینی قدس سرہ باب حمد میں فرماتے ہیں : خداوند متعال کی حمد اس کے شکر کے برابر ہے کیونکہ بہت ساری روایات میں وارد ہوا ہے کہ جو الحمد للہ کہتا ہے اس نے شکر خدا کو انجام دیا ہے ۔حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر نعمت کا گرچہ وہ ( نعمت) کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو شکر ادا کرنے کے لئے خداوند کی حمد کیا کرو اور کمال شکر یہ ہے کہ تم الحمد للہ ربّ العالمین کہو۔دوسری حدیث میں حماد بن عثمان کہتا ہے کہ : امام صادق علیہ السلام مسجد سے باہر آئے درحالنکہ ان کی سواری گم ہوگئی تھی ، امام علیہ السلام فرما رہے تھے : اگر خداوند نے میری سواری کو مجھے واپس دلوایا تو میں اس کا شکر بجا لائوں گا جیسے اس کے شکر ادا کرنے کا حق ہے ، ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ امام علیہ السلام کی سواری مل گئی تو امام علیہ السلام نے فرمایا : الحمد للہ ، کہنے والے نے کہا کہ : میں آپ پر فدا جائوں آپ نے تو فرمایا تھا کہ میں خدا کا شکر بجا لائوں گا ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : کیا تم نے نہیں سنا میں نے کہا : الحمد للہاس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند متعال کی حمد کرنا ہی اس کا زبان کے ذریعے سے شکر بجا لانا ہے ۔ (اسرار و آثار تسبیح حضرت زهرا(س)، ص 48)اس تسبیح کا تیسرا ذکر ’’ سبحان اللہ ‘‘ ہے امام خمینی ؒنقل فرماتے ہیں ایک شخص نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ مولا ’’ سبحان اللہ ‘‘ کی معنی کیا ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: سبحان اللہ یعنی خداوند متعال کے بلند مقام و عظمت کے سامنے تعظیم بجا لاکر اس کو ان صفات سے بے نیاز و منزہ جاننا جو مشرکین اس کے لئے بیان کرتے ہیں ، جب کوئی اس جملے کو اپنی زبان پر جاری کرتا ہے تو سب ملائکہ خداوند متعال سے اس پر رحمت نازل کرنےکی دعا کرتے ہیں ۔(شرح چهل حدیث، امام خمینی، ص 349)
عظمت تسبیح حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی دختر مصداق کوثر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو یہ تسبیح عنایت کی تو حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے دھاگے کے ذریعے سے ایک تسبیح بنائی اور یہ ذکر پڑہا کرتی تھیں اور جب سید الشھدا حمزہ بن عبد المطلب شہید ہوئے تو ان کی قبر سے مٹی اٹھا کر انہوں نے دانے بنا کر ایک دھاگے میں ڈال کر تسبیح بنائی ، اس کے بعد جب امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہوئی تو ان کی قبر اطہر سے مٹی اٹھا کر تسبیح بنائی جاتی ہے اس سلسلے میں امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے منقول ایک روایت نقل کرتا ہوں کہ : كتب الحميري إلى القائم عليه السلام يسأله هل يجوز أن يسبح الرجل بطين القبر ؟ وهل فيه فضل ؟ فأجاب عليه السلام يسبح به فما من شئ من التسبيح أفضل منه، ومن فضله أن الرجل ينسى التسبيح ويدير السبحة فيكتب له التسبيح حمیری نے امام زمان عج کو خط لکھا اور سوال کیا کہ کیا امام حسین علیہ السلام کی قبر سے مٹی اٹھا کر اس سے تسبیح بنانا جائز ہے ؟ اور کیا اس تسبیح سے ذکر پڑہنے کی کوئی فضیلت ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے جواب دیا کہ کسی اورچیز سے بنائی ہوئی چیز سے تسبیح کرنا امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی سے بنائی ہوئی تسبیح سے افضل نہیں ہوسکتی ، اور اس مٹی سے بنی ہوئی تسبیح کی فضیلتوں میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ جب کوئی شخص تسبیح پڑہتے ہوئے بھول جائے اور وہ تسبیح اس کے ہاتھ میں ہو تو ( جب تک ہاتھ میں ہے ) اس کو تسبیح کا ثواب ملے گا ۔( بحار الانوار جلد 82 صفحہ 327 باب تسبيح فاطمة صلوات الله عليها وفضله وأحكامه )
* قال الصادق عليه السلام: السبحة التي من قبر الحسين عليه السلام تسبح بيد الرجل من غير أن يسبح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں وہ تسبیح جو امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی کی بنی ہوئی ہووہ جس کے ہاتھ میں ہو اس میں ذکر کرتی ہے چاہے وہ شخص خود ذکر نا پڑہ رہا ہو
(مكارم الاخلاق ص 326)
* روی أن الحور العين إذا أبصرن بواحد من الاملاك يهبط إلى الارض لامر ما يستهدين منه السبح والتراب من طين قبر الحسين عليه السلام : روایت ہوئی ہے کہ جب کبھی جنت کی حوریں دیکھتی ہیں کہ کوئی فرشتہ کسی کام سے زمین پر جاتا ہے تو وہ ان کو قبر امام حسین علیہ السلام کی مٹی سے بنی ہوئی تسبیح کی فرمائش کرتی ہیں ۔(مكارم الاخلاق ص 326)
* عن الصادق عليه السلام أنه سئل عن قول الله عزوجل (اذكروا الله ذكرا كثيرا) ما هذا الذكر الكثير ؟ قال: من سبح تسبيح فاطمة عليها السلام فقد ذكر الله الذكر الكثير: امام صادق علیہ السلام اس آیت یا أَیهَا الذینَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللهَ ذِکْراً کَثیرا : ایمان والواللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو (احزاب ، آیه 41) کی تفسیر پوچھی گئی کہ ذکر کثیر سے کیا مراد ہے ؟ تو امام علیہ السلام فرماتے ہیں : جو کوئی تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو پڑہے تو اس نے خدا کا ذکر کثیر کیا ہے
(بحار الانوار جلد 82 صفحہ 331 باب تسبيح فاطمة صلوات الله عليها وفضله وأحكامه )
* الحسن بن علي العلوي يقول سمعت على بن محمد بن علي بن موسى الرضا عليهم السلام يقول لنا أهل البيت عند نومنا عشر خصال الطهارة وتوسد اليمين وتسبيح الله ثلثا وثلثين وتحميده ثلثا و ثلثين وتكبيره أربعا وثلثين ونستقبل القبلة بوجوهنا ونقرء فاتحة الكتاب وآية الكرسي و... حسن بن علی علوی امام علی نقی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام علیہ السلام فرما رہے تھے کہ :ہم اہل بیت علیہم السلام میں رات کو سوتے وقت دس 10 خصلتیں ہیں : ایک وضو کر کے سونا ، دائیں طرف سونا ( قبلہ مونھ ہوکر ) ، اور تسبیح فاطمہ سلام اللہ علیہا یعنی 34 مرتبہ اللہ اکبر ، 33 مرتبہ الحمد للہ ، 33 مرتبہ سبحان اللہ پڑہنا ، اور سورہ فاتحہ اور آیۃ الکرسی پڑہنا اور . . .(فلاح السائل - السيد ابن طاووس - صفحہ 280)
* عن أبي عبد الله عليه السلام قال: من بات على تسبيح فاطمة كان من الذاكرين الله كثيرا والذاكرات ، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جو شخص سوتے وقت تسبیح جناب زہراء سلام اللہ علیہا کو پڑہ کر سوئے تو وہ خدا کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے والوں میں قرار پاتا ہے(مجمع البيان ج 8 ص 358 سورہ احزاب کی آیت: 35)
آثار و فوائد تسبیح زہراء سلام اللہ علیہا
ہماری اس عظیم ذکر سے غفلت یا تغافل کا سبب خود اس کے فضائل و فوائد سے نا واقف و جاہل ہونا بھی ہے ۔ اگر ہم ان اسرار و رموز سے واقف ہو جائیں جو ان الفاظ کے دامن میں چھپا دئے گئے ہیں تو ہم کسی حد تک خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنی زندگی کو ان جواہرات سے سنوار سکتے ہیں ۔ ذکر تسبیح حضرت فاطمہ ؐ کے لئے بہت سے فوائد ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں ۔1 - گناہوں کی بخشش ، شیطان سے دوری ، رضائے الہی کا حصول:عن الصادق عليه السلام قال: من سبح تسبیح فاطمه الزهراء(س) قبل ان یثنى رجلیه من صلاة الفریضه، غفر الله له : امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا : جو کوئی شخص واجب نمازوں کے بعد جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی تسبیح کو پڑہے تو اس سے پہلے کہ وہ اپنے دائیں پیر کو بائیں پیر سے اٹھائے (قبلہ سے منحرف ہونے سے قبل ) خداوند اس کے سب گناہ معاف کر دیتا ہے ۔(فلاح السائل ، السيد ابن طاووس ص 165)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہمَن سبَّح َ تسبیحَ الزھراء (س) ثم استغفر غفر لہ و ھی مائۃ با للمان والف فی المیزان و تُطردُ الشیطان و تُر ضِی الرحمن ۔جو بھی تسبیح حضرت زہرا علیہا السلام کو پڑہ کر استغفار کریگا خدا اس کے گناہوں کو بخش دے گا ۔ اس تسبیح میں ظاہراً سو 100ذکر ادا ہوتے ہیں لیکن انسان کے نامہ اعمال کو ہزار گناوزنی بنا دیتا ہے ۔ اور ساتھ ہی شیطان کو دور بھگا دیتی ہے اور رضائے احمن کو جلب کرتی ہے(ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ص 148)
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف تسبیح بخشش کا ذریعہ بنتی ہے اور کسی دیگر امر کی ضرورت نہیں ہے ۔ جب کہ دوسری روایت سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ تسبیح کے ساتھ ساتھ خود انسان کا استغفار کرنا بھی ضروری ہے ’’ ثم استغفر غفر لہ ‘‘ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام انسان کے قلب میں احساس استغفار پیدا کرتی ہے اور جب دل میں ایک مخصوص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ بندہ گناہوں کی تکرار نہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے تو خدا بھی اسے معاف کر دیتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس مسئلہ کو صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے ۔فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّـهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ(مائدہ / 39)پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے تو خدا اس کی توبہ قبول کریگا کہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَ‌بُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّ‌حْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ(انعام / 54)اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو ان سے کہئے السلام علیکم ... تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرر دے لی ہے کہ تم میں جو بھی ازروئے جہالت برائی کرے گا اور اس کے بعد توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہےإِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ(نور / 5)اور میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کے لئے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے ۔ان آیات میں غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ گناہوں کی بخشش کے لئے تو بہ کے ساتھ اعمال صالحہ کی پابندی اور حتی المقدور گناہوں کے تکرار سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔اور اس حدیث سے یہ بھی بلکل واضح ہوتا ہے کہ انسانیت و ایمان کا ازلی دشمن شیطان پر یہ تسبیح کس قدر سخت و اذیت ناک ہے کہ اس کے پڑہنے والے کے قریب بھی نہیں آتا اور اس سے دور ہوتا ہے ۔
2 - جنت کا واجب ہوجانا :
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: سمعته يقول من سبح تسبيح فاطمة في دبر المكتوبة من قبل أن يبسط رجليه أوجب الله له الجنة ، امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ راوی کھتا ہے کہ میں نے سنا کہ امام علیہ السلام فرما رہے تھے جو کوئی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کہ تسبیح کو واجب نماز کے بعد پڑہے تو اس سے پہلے کہ وہ اپنے پاوں کو کھولے خداوند اس پرجنت واجب کر دیتا ہے(فلاح السائل ، السيد ابن طاووس ص 165 و بحار الانوار جلد 82 صفحہ 327 باب تسبيح فاطمة صلوات الله عليها وفضله وأحكامه )
یہاں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ ؐ کتنا پر عظمت اور با فضیلت ذکر ہے اور یقیناً اگر اس سے زیادہ فضیلت والا کوئی ذکر ہوتا تو پیغمبر اکرم ؐ اپنی بیٹی کو وہی تعلیم فرماتے ۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :ما عُبد اللہ ُ بشیئ افضل من تسبیح الزھراء ( س) لو کان شیء افضل منہ لَنَخلہ رسول اللہ فاطمہ : یعنی تسبیح فاطمہ زہراء علیہا السلام سے بہتر کسی اور طریقے سے خدا کی عبادت نہیں کی گئی بے شک اگر کوئی چیز اس سے بھی زیادہ افضل ہوتی تو رسول اکرم اپنی بیٹی فاطمہ کو وہی تعلیم فرماتے ۔( زندگانی حضرت زھراء ؐ ص 98)ان روایات کے بعد ذکر تسبیح حضرت فاطمہ زھراء ؐ کی عظمت و فضیلت اور دوسرے اذکار پر اس کی بر تری روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے اور اگر اس پر مداومت کر لی جائے تو انسان دنیا و آخرت کی برکتیں اور نعمتیں سمیٹ سکتا ہے ۔ اور کل قیامت میں حضرت فاطمہ ؐ کے محضر میں سر خرو ہو سکتا ہے ۔3-ایک تسبیح ایک ہزار رکعات کے برابر :
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: تسبيح الزهراء فاطمة عليها السلام في دبر كل صلاة أحب إلى من صلاة ألف ركعة في كل يوم ، اما صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر نماز ( واجب ) کے بعد مجھے تسبیح فاطمہ سلام اللہ علیہا پڑہنا ہر روز 1000 رکعت پڑہنے سے زیادہ پسند ہے (ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ص 149)یعنی امام علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ جو نماز تسبیح کے ساتھ پڑہی جائے وہ اس ایک ہزار رکعات سے افضل ہے جو بغیر تسبیح کے پڑہی جائیں ۔
4 - شقاوت اور بدبختی سے نجات کا ذریعہ :
ہر انسان اپنی عقل و معرفت کے حساب سے اس پر آشوب دنیا میں خوشبختی کا طالب ہے ، دوسرے الفاظ میں ہر انسان چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی سعادت اور اطمئنان کی راہ پر چلنے کے لئے کوشاں ہوتا ہے اور یہ تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ذریعہ ہے جس سے انسان سعادت کی راہ پر چلتے ہوئے شقاوت اور بدبختی کی آفات سے بچ سکتا ہے۔عن أبی عبد الله (ع) قال لأبی هارون المکفوف: یا أبا هارون إنّا نأمر صبیاننا بتسبیح الزهراء (س) کما نأمرهم بالصلاة فالزمه فإنه لم یلزمه عبد فیشقی ، اما م صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے ابوھارون سے فرمایا : ای ابو ہارون ہم اپنے چھوٹے بچوں جس طرح نماز پڑہنے کا حکم دیتے ہیں اسی طرح ان کو تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا پڑہنے کا بھی حکم دیتے ہیں ، تم بھی اس کو پڑہنے کو اپنے لئے لازم بنا دو کیونکہ جو شخص اس کو مدام پڑہتا رہے کبھی شقاوت و بدبختی میں مبتلیٰ نہیں ہوسکتا ۔( ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ترجمه انصارى محلاتى، ص 315)
اس روایت میں آپ ملاحضہ کر سکتے ہیں کہ جیسے ایک واجب فعل ( نماز ) کا امام علیہ السلام اپنی اولاد و خاندان کے بچوں کو حکم دیتے ہیں اسی طرح وہ تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا بھی حکم دیتے ہیں، یہ حدیث اس تسبیح کی عظمت کو معراج تک لے جاتی ہے ، اور ہمیں بھی اپنے بچوں کو اس تسبیح کے پڑہنے کا حکم دینا چاہئے ۔
5 -محبوب خدا بن کر جہنم و منافقت سے نجات کا سبب :
اوپر ایک آیت کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام کا قول نقل کیا کہ امام علیہ السلام نے تسبیح جناب فاطمہ (س) کو خدا کا ذکر کثیر کا مصداق قرار دیا اس سے ذمیمہ کرتے ہوئے ایک حدیث رسول گرامی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ فرماتے ہیں : من اکثر ذکر الله عز و جل احبه الله و من ذکر الله کثیرا کتبت له برائتان؛ برائة من النار و برائة من النفاق ، جو خدا کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرتا ہے تو خدا اس سے محبت کرنا شروع کردیتا ہے جو خدا کا زیادہ ذکر کرتا ہے خدا اس کو جہنم اور منافقت سے بچاتاہے۔(اصول کافى، ج 2، ص 499، ح 3)
6-جسمانی امراض و بالخصوص بھرے پن کا علاج :جہاں یہ تسبیح حمد خدا و شکر خدا کو بجا لانے کا ذریعہ بھی ہے ساتھ میں اوپر بیان شدہ معنوی نعمات کا وسیلہ بھی ہونے کے ساتھ ساتھ ظاہری امراض و جسمانی مشکلات کو دور کرنے کا سبب بھی ہے اس سلسلے میں دو 2 روایتوں کو ذکر کرتے ہیں
(1)قال بعض أصحاب أبي عبد الله عليه السلام: شكوت إليه ثقلا في اذني، فقال عليه السلام: عليك بتسبيح فاطمة عليها السلام ، امام صادق علیہ السلام کے ایک صحابی نے امام علیہ السلام سے اپنے بھرے پن ( کم شنوائی ) کی شکایت کی تو امام علیہ السلام نے اس کو فرمایا : تسبیح فاطمہ (س) پڑہا کرو ۔
(2)دخل رجل على أبي عبد الله وكلمه فلم يسمع كلام أبي عبد الله عليه السلام وشكى إليه ثقلا في اذنيه، فقال له: ما يمنعك ؟ وأين أنت من تسبيح فاطمة عليها السلام قال: جعلت فداك، وما تسبيح فاطمة ؟ فقال: تكبر الله أربعا وثلاثين وتحمد الله ثلاثا وثلاثين وتسبح الله ثلاثا وثلاثين تمام المائة، قال: فما فعلت ذلك إلا يسيرا حتى أذهب عني ما كنت أجده ، امام صادق علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا امام علیہ السلام نے اس سے بات کی تو وہ امام علیہ السلام کے کلام کو نہ سن سکا اور امام علیہ السلام سے اپنے بھرے پن کی شکایت کی ، تو امام علیہ السلام نے اس کو فرمایا : تمہیں کس نےمنع کیا ہے ، تم کیوں تسبیح جناب فاطمہ (س) سے غافل ہو ؟ تو اس شخص نے کہا : میں آپ پر قربان جائوں، یہ تسبیح فاطمہ (س) کیا ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : 34 مرتبہ اللہ اکبر کہنا ، 33 مرتبہ الحمد للہ ، 33 مرتبہ سبحان اللہ کا پڑہنا ( تسبیح جناب فاطمہ (س) کہلاتا ہے ) وہ شخص کہتا ہے میں نے تھوڑا عرصہ ہی اس عمل کو انجام دیا تھا کہ میرا بھرا پن ختم ہوگیا ۔(بحار الانوار جلد 82 صفحہ 332 باب تسبيح فاطمة صلوات الله عليها وفضله وأحكامه )
شرائط تسبیح جناب سیدہ علیہا السلام
علما کرام نے اس تسبیح کے اسرار و رموز و اثر کو محسوس کرنے کے لئے حد اقل تین 3 شرطیں بیان کی ہیں1- تسبیح کرتے وقت حضور قلب و خشوع و خضوع :ہر عمل کی مقبولیت میں عموما اور تسبیح جناب سیدہ علیہا السلام میں خصوصا حضور قلب و خشوع و خضوع کا بڑا دخل ہے ، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس بہترین تسبیح کو نماز کے بعد یا تو پڑہتے ہی نہیں ہیں یا فقط فارملٹی پوری کرنے کے لئے جلدی جلدی پڑہ کے ختم کردیتے ہیں ۔2 - نماز کے فوراََ بعد پڑہا جانا :ہر واجب نماز کے فوراََ بعد یعنی جیسے ہی آخری سلام کے بعد تکبیر کہی جاتی ہے اس تسبیح کو پڑہا جائے ۔3 -موالات :یعنی تسبیح کو پڑہتے وقت بغیر کسی دوسرے کام یا بات کرنے کے تینوں اذکار کو پی در پی پڑہا جائے ۔ہم سب شہزادی کونین کو وسیلہ قرار دیتے ہوئے بارگاہ خدا وندی میں دعا کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کو تسبیح حضرت فاطمہ الزہرا علیہا السلام کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر محبوب افکار کے سہارے معمور و منور فرما آمین یا رب العالمین ۔

No comments:

Post a Comment