Tuesday, 25 February 2014

:::::::: کیا شیعوں کو گناہانِ کبیرہ کرنے کی اجازت ہے؟ ::::::::

سوال : جنابِ عالی ! بندہ ایک واعظ ہے اور محافل و مجالس میں وعظ و نصیحت کرتا رہتا ہے ۔ ایک مجلس میں بندہ نے والدین کی نافرمانیکے خطرات کو واضح کیا ۔ اور قرآن و سنت سے اطاعتِ والدین کی اہمیت کو پیش کیا ۔مجلس کے اختتام پر ایک شخص نے کہا کہ آئندہ میں اپنے والدین کی نافرمانی کروں گا اور اس کے باوجود دوزخ میں بھی نہیں جاؤں گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں شیعہ ہوں ۔اب آپ سے التماس ہے یہ بتائیے کہ اس طرح کے لوگوں کو کیسے مطمئن کیا جائے ؟
جواب : ایسے شخص کو شفاعتِ اہلبیت سے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے ۔ اس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ آلِ محمد (علیہم السّلام) ہر شیعہ کی شفاعت ضرور کریں گے ۔ جب کہ حسب ذیل حقائق پر اس نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ہادیانِ دین سے بیسیوں ایسی احادیث منقول ہیں جس میں انہوں نے اپنے شیعوں کے اوصاف بیان فرمائے ۔ چنانچہ شیخ صدوق (علیہ الرحمہ) نے اس عنوان پر پورا ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام "صفات الشیعہ" ہے ۔علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ) نے بحار الانوار جلد 65 میں "صفاتِ شیعہ" کے نام سے پورا باب قائم کیا ہے جو کہ پچاس صفحات پر مشتمل ہے ۔ جو شخص عاق والدین کی احادیث سن کر یہ کہے کہ اب میں والدین کی نافرمانی کروں گا اور اس کے باوجود دوزخ سے بچ جاؤں گا کیوںکہ میں شیعہ ہوں تو حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا شخص شیعہ کہلانے کا حق دار ہی نہیں ہے ۔ ویسے بھی شفاعت اسے ملے گی جو گناہ کو گناہ سمجھتا ہو اور گناہ کے ذریعہ سے عزّتِ خداوندی کو چیلنج نہ کرتا ہو اور خدا کے حضور استکبار نہ کرتا ہو ۔ لیکن اگر کوئی شخص نفسِ امّارہ کے ہاتھوں مجبور ہو کر گناہانِ کبیرہ کرے تو ممکن ہے اس کی شفاعت ہوجائے بشرطیکہ کہ تمرّد و تغیان (یعنی بغاوت و سرکشی) اس کے پیشِ نظر نہ ہو ۔یاد رکھیں گناہ گار کے لئے تو بخشش ہے لیکن باٖغی کے لئے کوئی بخشش نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ معصومین (علیہم السلام) نے فرمایا :"جو نماز کو حقیر جانتا ہو اسے ہماری شفاعت نصیب نہیں ہوگی"حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے ابوحمزہ ثمالی کو ان دعائیہ کلمات کی تعلیم دی :« إلهي لم أعصك حين عصيتك وأنا بربوبيتك جاحد ، ولا بأمرك مستخف ، ولا لعقوبتك متعرض ، ولا لوعيدك متهاون ، ولكن خطيئة عرضت وسولت لي نفسي وغلبني هواي ، وأعانني عليها شقوتي ، وغرني سترك المرخى علي »"میرے معبود ! جب میں نے تیری نافرمانی کی تو اس وقت میں نہ تو تیری ربوبیت کا منکر تھا اور نہ ہی تیرے فرمان کو خفیف جانتا تھا اور نہ ہی تیرے عذاب کو دعوت دینے کی غرض سے میں نے ایسا کیا اور نہ ہی تیرے وعید کو ہلکا سمجھتا تھا ۔ بس ایک خطا تھی جو سرزد ہوگئی اور میرے نفس نے گناہ کو مزین کر کے مجھے دکھایا اور میری خواہش مجھ پر غالب آئی تھی اور اس کے لئے میری بدبختی نے مجھ سے معاونت کی اور تو نے مجھ پر ستّاریت کا جو پردہ ڈال رکھا ہے اس سے مجھے دھوکہ ہوا تھا ۔"
میں جواب کو مختصر کرتے ہوئے یہ کہتا ہوں :1 ۔ اگر مذکورہ شخص اہلبیتِ طاہرین (علیہم السلام) کی روایات کو اس طرح سے ٹھکراتا ہے تو یہ شخص اللہ کے فرمان کو ٹھکرانے والے کی مانند ہے اور ایسے شخص کو ہم شیعہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ فرمانِ اہلبیت (علیہم السلام) کو ٹھکرانے والا ان کا شیعہ نہیں کہلا سکتا ۔
2 ۔ اگر بالفرض ایسے شخص کو شیعہ سمجھ بھی لیا جائے تو ایسا شخص شرائطِ شفاعت سے محروم ہے ، لہٰذا وہ مستحقِ شفاعت نہیں ہوسکتا ۔ شفاعت کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ گناہ گار سرکش نہ ہو اور خدا و رسول (صلی اللہ علیه وآله وسلم) کا مقابلہ کرنے والا نہ ہو ۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے :
أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ‌ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا (سورة التوبة : 63)" کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا "
3 ۔ اوصافِ شیعہ کا دیکھنا ضروری ہے ۔ ایسے شخص کو چاہیئے کہ روایاتِ اہلبیت (علیہم السلام) کو آئینہ بنا کر اس میں اپنی شکل و صورت کا جائزہ لے ۔
(احسن الجوابات ، ج 1 ، ص 245 تا 248 ، آیت اللہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی مدِّظلّہ العالٰی)

No comments:

Post a Comment