Friday, 21 February 2014

ان كان رفضا حب ال محمد : فليشهد الثقلان اني رافضي : ( دیوان الامام الشافعی ).


امام شافعی کے اشعار کے حوالہ سے واضح رہے کہ امام شافعی نے اپنے اشعار کا بذات خود کوئی مجموعہ یا دیوان ترتیب نہیں دیا، البتہ متقدمین اور متاخرین علماء کی بعض چیدہ چیدہ کتب میں ہمیں کافی اشعار امام شافعی کی طرف منسوب ملتے ہیں جن کو ماضی قریب اور عصر حاضر کے بعض علماء و محققین نے باقاعدہ دیوان کی شکل میں مرتب کیا ہے۔ امام شافعی کے شاعرانہ کلام پر مشتمل مختلف دیوان مطبوع ہوچکے ہیں جن میں سے دو عام طور پر دستیاب ہیں ۔

ایک دیوان " الجوھر النفیس فی شعر الامام محمد بن ادریس " کے نام سے معروف ہے جو کہ مکتبہ ابن سینا قاہرہ مصر سے طبع ہوچکا ہے اس دیوان کی جمع و ترتیب دکتور ابراہیم سلیم نے کری ہے۔
دوسرا دیوان " دیوان الامام الشافعی " کے نام سے مشہور ہے جو کہ مکتبہ عصیریہ بیروت سے طبع ہوچکا ہے اس دیوان کی جمع و ترتیب دکتور صابر القادری نے کری ہے۔

امام شافعی کے شاعرانہ کلام میں یہ شعر بھی ہمیں امام شافعی کی طرف منسوب ملتا ہے ۔

ان كان رفضا حب ال محمد
فليشهد الثقلان اني رافضي ۔

جہاں تک ان اشعار کی اصل اور اس کے مصدر کا سوال ہے، تو اس حوالہ سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان اشعار کو اصولی طور پر امام شافعی سے بطریق معتبر ثابت کرنا شاید قدرے مشکل مرحلہ ہو۔
کیونکہ ان اشعار کا اولین مصدر امام بیہقی ہیں جنہوں نے ان اشعار کو ربیع بن سلیمان سے نقل کیا ہے اور ربیع بن سلیمان تن تنہا اکلوتے راوی ہیں جنہوں نے ان اشعار کو امام شافعی سے نقل کیا ہے۔
چنانچہ امام بیہقی نے ان اشعار کو امام شافعی سے بایں سند نقل کیا ہے۔

أخبرنا أبوزكريا بن أبي اسحاق المزكي حدثنا الزبير بن عبد الواحد الحافظ أخبرني محمد بن محمد بن الأشعث حدثنا الربيع قال : أنشدنا الشافعي ۔ الي آخر الرواية ۔
مناقب الشافعي للبيهقي // المجلد 2 // الصفحة 71 // الناشر : دارالتراث القاهره ۔ مصر

اسکی اسناد میں آفت صرف محمد بن محمد بن الأشعث ہیں لیکن یہ ربیع بن سلیمان سے روایت کرنے میں متفرد نہیں ہیں بلکہ ان کی متابعت جعفر بن احمد بن الرواس نے کری ہے جس کو امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں روایت کیا ہے۔ اسیطرح حمزہ بن علی الجوھری نے بھی محمد بن محمد بن اشعث کی متابعت کری ہے جس کو حافظ ذھبی نے امام حاکم کے طریق سے " سیر أعلام النبلاء " میں روایت کیا ہے۔ ان دو کے علاوہ بھی دیگر متابعات موجود ہیں لیکن ساتھ ساتھ ان متابعات کی اسنادی حیثیت پر بھی بہرحال رد و نقد کیا جاسکتا ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں ہے۔

ان اشعار کی اسنادی حیثیت اور اس کے مصدر سے قطع نظر اگر دیگر قرائن اور شواہد کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان اشعار کی اصل بہرحال موجود ہے، ان اشعار کی امام شافعی کی طرف نسبت اس قدر مشہور ہے کہ متقدمین سے لیکر متاخرین تک علماء نے ان اشعار کو امام شافعی سے تواتر کی حد تک بلا تنقید نقل کیا ہے، ان ناقلین میں امام بیہقی، خطیب بغدادی، ابن عساکر، امام تاج الدین السبکی، امام ابن تیمیہ، امام ابن القیم، اور حافظ ذھبی، جیسے کبار علماء و محدثین شامل ہیں۔ لہذا اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغیر کسی رد و نقد کے، ان اشعار کا امام شافعی سے تواتر کے ساتھ منقول ہونا بذات خود ایک مضبوط قرینہ ہے جو ان اشعار کے ثبوت اور انتساب پر دلالت کرتا ہے۔

تحریر و تحقیق
اسماعیل دیوبندی ۔

ایک دیوان " الجوھر النفیس فی شعر الامام محمد بن ادریس " کے نام سے معروف ہے جو کہ مکتبہ ابن سینا قاہرہ مصر سے طبع ہوچکا ہے اس دیوان کی جمع و ترتیب دکتور ابراہیم سلیم نے کری ہے۔دوسرا دیوان " دیوان الامام الشافعی " کے نام سے مشہور ہے جو کہ مکتبہ عصیریہ بیروت سے طبع ہوچکا ہے اس دیوان کی جمع و ترتیب دکتور صابر القادری نے کری ہے۔
امام شافعی کے شاعرانہ کلام میں یہ شعر بھی ہمیں امام شافعی کی طرف منسوب ملتا ہے ۔
ان كان رفضا حب ال محمدفليشهد الثقلان اني رافضي ۔
جہاں تک ان اشعار کی اصل اور اس کے مصدر کا سوال ہے، تو اس حوالہ سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان اشعار کو اصولی طور پر امام شافعی سے بطریق معتبر ثابت کرنا شاید قدرے مشکل مرحلہ ہو۔کیونکہ ان اشعار کا اولین مصدر امام بیہقی ہیں جنہوں نے ان اشعار کو ربیع بن سلیمان سے نقل کیا ہے اور ربیع بن سلیمان تن تنہا اکلوتے راوی ہیں جنہوں نے ان اشعار کو امام شافعی سے نقل کیا ہے۔چنانچہ امام بیہقی نے ان اشعار کو امام شافعی سے بایں سند نقل کیا ہے۔
أخبرنا أبوزكريا بن أبي اسحاق المزكي حدثنا الزبير بن عبد الواحد الحافظ أخبرني محمد بن محمد بن الأشعث حدثنا الربيع قال : أنشدنا الشافعي ۔ الي آخر الرواية ۔مناقب الشافعي للبيهقي // المجلد 2 // الصفحة 71 // الناشر : دارالتراث القاهره ۔ مصر
اسکی اسناد میں آفت صرف محمد بن محمد بن الأشعث ہیں لیکن یہ ربیع بن سلیمان سے روایت کرنے میں متفرد نہیں ہیں بلکہ ان کی متابعت جعفر بن احمد بن الرواس نے کری ہے جس کو امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں روایت کیا ہے۔ اسیطرح حمزہ بن علی الجوھری نے بھی محمد بن محمد بن اشعث کی متابعت کری ہے جس کو حافظ ذھبی نے امام حاکم کے طریق سے " سیر أعلام النبلاء " میں روایت کیا ہے۔ ان دو کے علاوہ بھی دیگر متابعات موجود ہیں لیکن ساتھ ساتھ ان متابعات کی اسنادی حیثیت پر بھی بہرحال رد و نقد کیا جاسکتا ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں ہے۔
ان اشعار کی اسنادی حیثیت اور اس کے مصدر سے قطع نظر اگر دیگر قرائن اور شواہد کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان اشعار کی اصل بہرحال موجود ہے، ان اشعار کی امام شافعی کی طرف نسبت اس قدر مشہور ہے کہ متقدمین سے لیکر متاخرین تک علماء نے ان اشعار کو امام شافعی سے تواتر کی حد تک بلا تنقید نقل کیا ہے، ان ناقلین میں امام بیہقی، خطیب بغدادی، ابن عساکر، امام تاج الدین السبکی، امام ابن تیمیہ، امام ابن القیم، اور حافظ ذھبی، جیسے کبار علماء و محدثین شامل ہیں۔ لہذا اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغیر کسی رد و نقد کے، ان اشعار کا امام شافعی سے تواتر کے ساتھ منقول ہونا بذات خود ایک مضبوط قرینہ ہے جو ان اشعار کے ثبوت اور انتساب پر دلالت کرتا ہے۔
تحریر و تحقیقاسماعیل دیوبندی ۔

No comments:

Post a Comment