خدائے متعال نے يہ جملہ: ﴿...إِنِّي جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا...﴾ (۱)۔ "ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہيں"،اس وقت حضرت ابراہيم(عليہ السلام)کو فرمايا جبکہ وہ مسلّم نبي،رسول اور اولوالعزم نبيوں ميں سے صاحب شريعت اور صاحب کتاب تھے،مزيد قدرتي طور پر نبوّت ورسالت کے ہمراہ ہدايت و دعوت کي ذمہ داري بھي رکھتے تھے اور خدائے متعال نے چند جگہوں پر اپنے کلام ميں امام کي توصيف ميں فرمايا: ﴿...أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا...﴾ (٢)۔"...پيشوا قرار ديا جو ہمارے حکم سے ہدايت کرتے ہيں..."، اور ہدايت کي صفت کو "امام" کا معرّف قرار ديا ہے۔
يہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ امام کي ہدايت،نبي کي ہدايت کے علاوہ ہے اور مسلّم طور پر نبي کي ہدايت دعوت اور تبليغ ہے،اور ہدايت کي اصطلاح راستہ دکھانے اور راہنمائي کرنے کا معني ہے۔ اس لئے ہدايت کو امام ميں مطلوب تک پہنچانے کے معني ميں لينا چاہئے۔ پس امام،چونکہ معارف اور احکام کو بيان کرنے کي ذمہ داري رکھتا ہے اور اعمال کو ادارہ کرنے کي مسؤليت بھي رکھتا ہے،اور اشخاص کي باطني نشو ونما،اعمال کو خدا کي طرف ہدايت کرنا اور انھيں مقاصد تک پہنچانا بھي امام کا کام ہے۔ چنانچہ لوگوں کے اعمال امام کے سامنے پيش کرنے،ہر شخص کے موت کے وقت امام کے پہنچنے،قيامت کے دن لوگوں کو اپنے امام کے ساتھ بلانے، نامہ اعمال کي تقسيم اور حساب کا امام کي طرف رجوع سے متعلق روايتيں اس مطلب کي دلالت کرتي ہيں۔
شيعوں کے عقيدہ کے مطابق،زمين کسي بھي وقت امام سے خالي نہيں ہوتي ہے اور اس لحاظ سے،پيغمبر اکرم(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نبي اور رسول ہونے کے علاوہ اپنے زمانہ ميں امام بھي تھے اور نبوت،رسالت اور امامت کے نتيجہ ميں حضرت علي(عليہ السلام) سے افضل ہيں،چنانچہ امت کا اجماع و اتفاق بھي اسي کي دلالت کرتا ہے۔
منابع اور مآخذ:
۱) بقرہ،آيت ۱۲۴
٢) انبياء،آيت ۷۳
اسلام اور آج کا انسان، علامہ طباطبائي
خدائے متعال نے يہ جملہ: ﴿...إِنِّي جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا...﴾ (۱)۔ "ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہيں"،اس وقت حضرت ابراہيم(عليہ السلام)کو فرمايا جبکہ وہ مسلّم نبي،رسول اور اولوالعزم نبيوں ميں سے صاحب شريعت اور صاحب کتاب تھے،مزيد قدرتي طور پر نبوّت ورسالت کے ہمراہ ہدايت و دعوت کي ذمہ داري بھي رکھتے تھے اور خدائے متعال نے چند جگہوں پر اپنے کلام ميں امام کي توصيف ميں فرمايا: ﴿...أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا...﴾ (٢)۔"...پيشوا قرار ديا جو ہمارے حکم سے ہدايت کرتے ہيں..."، اور ہدايت کي صفت کو "امام" کا معرّف قرار ديا ہے۔
يہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ امام کي ہدايت،نبي کي ہدايت کے علاوہ ہے اور مسلّم طور پر نبي کي ہدايت دعوت اور تبليغ ہے،اور ہدايت کي اصطلاح راستہ دکھانے اور راہنمائي کرنے کا معني ہے۔ اس لئے ہدايت کو امام ميں مطلوب تک پہنچانے کے معني ميں لينا چاہئے۔ پس امام،چونکہ معارف اور احکام کو بيان کرنے کي ذمہ داري رکھتا ہے اور اعمال کو ادارہ کرنے کي مسؤليت بھي رکھتا ہے،اور اشخاص کي باطني نشو ونما،اعمال کو خدا کي طرف ہدايت کرنا اور انھيں مقاصد تک پہنچانا بھي امام کا کام ہے۔ چنانچہ لوگوں کے اعمال امام کے سامنے پيش کرنے،ہر شخص کے موت کے وقت امام کے پہنچنے،قيامت کے دن لوگوں کو اپنے امام کے ساتھ بلانے، نامہ اعمال کي تقسيم اور حساب کا امام کي طرف رجوع سے متعلق روايتيں اس مطلب کي دلالت کرتي ہيں۔
شيعوں کے عقيدہ کے مطابق،زمين کسي بھي وقت امام سے خالي نہيں ہوتي ہے اور اس لحاظ سے،پيغمبر اکرم(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نبي اور رسول ہونے کے علاوہ اپنے زمانہ ميں امام بھي تھے اور نبوت،رسالت اور امامت کے نتيجہ ميں حضرت علي(عليہ السلام) سے افضل ہيں،چنانچہ امت کا اجماع و اتفاق بھي اسي کي دلالت کرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment