اس مقام پر ايك اور اہم نكتہ مفہوم '' صحابہ'' ہے_
صحابہ كہ جن كے بارے ميں طہارت و پاكيزگى كى بات كى جاتى ہے تو مسئلہ يہ ہے كہ صحابہ سے كون لوگ مراد ہيں _اس سلسلہ ميں علمائے اہل سنت كى جانب سے مكمل طور پر مختلف تعريفيں بيان كى گئي ہيں_
1_ بعض نے تو اس كے مفہوم كو بہت وسيع كرديا ہے _وہ كہتے ہيں كہ مسلمانوں ميں سے جس نے بھى آنحضرت (ص) كو ديكھا ہے وہ آپ (ص) كاصحابى ہے
اسى تعبير كو '' بخاري'' نے ذكر كيا ہے وہ يوں لكھتے ہيں '' من صَحَبَ رسولُ الله او رآہ من المسلمين فہو من أصحابہ''
اہل سنت كے معروف عالم جناب احمد بن حنبل نے بھى صحابى كے مفہوم كو بہت وسيع بيان كيا ہے وہ لكھتے ہيں ''أصحابُ رسول الله كلُّ منَ صَحَبہ ، شَہراً أو يَوماً أو سَاعَةً أو رَآہ''
''رسولخدا(ص) كا صحابى وہ ہے كہ جس نے رسولخدا(ص) كى صحبت اختيار كى ہو چاہے ايك ماہ ايك دن يا حتى ايك گھنٹے كيلئے بھى بلكہ اگر كسى نے آنحضرت(ص) كى زيارت كى ہو وہ بھى صحابى ہے''
2_ بعض علماء نے صحابى كى تعريف كو محدود انداز ميں پيش كيا ہے مثلا '' قاضى ابوبكر محمد ابن الطيّب'' لكھتے ہيں كہ اگرچہ صحابى كا لغوى معنى عام ہے ليكن اُمت كے عرف عام ميں اس اصطلاح كا اطلاق صرف اُن افراد پرہوتا ہے جو كافى عرصہ تك آنحضرت(ص) كى صحبت ميں رہے ہوںنہ ان لوگوں پركہ جو صرف ايك گھنٹہ كى محفل ميں بيٹھاہو يا آپ(ص) كے ساتھ چند قدم تك چلا ہو يا اُس نے ايك آدھ حديث آنحضرت(ص) سے سُن لى ہو''_
3_ بعض علماء نے صحابى كى تعريف كا دائرہ اس سے بھى زيادہ تنگ كرديا ہے جيسے'' سعيد بن المسيّب'' لكھتے ہيں كہ '' پيغمبر (ص) كا صحابى وہ ہے جو كم از كم ايك يا دو سال آنحضرت(ص) كے ساتھ رہا ہو اور ايك يا دو غزووں ميں اس نے آنحضرت(ص) كے ساتھ شركت كى ہو''(تفسير قرطبي، جلد 8، ص 237_)
ان تعاريف اور ديگر تعريفوں ميں كہ جنہيں طوالت كے خوف كيوجہ سے ذكر نہيں كيا جا رہا ہے مشخّص نہيں ہے كہ اس قداست كے دائرے ميں آنے والے افراد كون سے ہيں_ اكثر علماء نے اسى وسيع معنى كو اختيار كيا ہے_اگرچہ ہمارى مدّ نظر ابحاث ميں ان تعريفوں كے اختلاف سے زيادہ فرق نہيں پڑتا ہے_ جيسا كہ عنقريب روشن ہوجائيگا كہ سيرت رسول(ص) كى خلاف ورزى كرنيوالے اكثروہ افراد ہيں جو كافى عرصہ تك آپ(ص) كے ہمنشين رہے ہيں_
''عقيدہ تنزيہ كا اصلى سبب''
اس كے باجود كہ اصحاب كى اس حد تك پاكيزگى كا عقيدہ ركھنا كہ جو بعض لحاظ سے عصمت كے مشابہ ہے نہ تو قرآن مجيد ميں اس كا حكم آيا ہے نہ احاديث ميں بلكہ قرآن ، سنت اور تاريخ سے اس كے برعكس مطلب ثابت ہے حتى كہ كہا جاسكتا ہے كہ پہلى صدى ميں اس قسم كا كوئي عقيدہ موجود نہيں تھا_ تو پھر ديكھنا يہ ہے كہ بعد والى صديوں ميں يہ مسئلہ كيوں اور كس د ليل كى بناپرپيش كيا گياہے؟
ہمارے خيال كے مطابق اس عقيدہ كے انتخاب كى چند وجوہات تھيں
1_ اگر كمال حُسن ظن سے كام ليا جائے تو ايك وجہ تو يہى ہے جسے سابقہ ابحاث ميں ذكر كيا گيا ہے كہ بعض لوگ گمان كرتے ہيں كہ اگر صحابہ كرام كا تقدس پائمال ہوجائے تو انكے اور پيغمبر(ص) كے درميان حلقہ اتصال ٹوٹ جائے گا_كيونكہ قرآن مجيد اور پيغمبر اكرم(ص) كى سنت انكے واسطہ سے ہم تك پہنچى ہے_
ليكن اس بات كا جواب بالكل واضح ہے كيونكہ كوئي بھى مسلمان معاذ اللہ تمام اصحاب كو غلط اور كاذب نہيں كہتا ہے كيونكہ انكے درميان ثقہ اور مورد اطمينان افراد كثرت كے ساتھ
تھے،وہى بااعتماد افراد ہمارے اور پيغمبر اكرم(ص) كے درميان حلقہ اتصال بن سكتے ہيں_ جس طرح ہم شيعہ، اہلبيت(ع) كے اصحاب كے بارے ميں يہى نظريہ ركھتے ہيں_
دلچسپ بات يہ ہے كہ بعد والى صديوں ميں بھى يہى مشكل موجود ہے كيونكہ آج ہم كئي واسطوں كے ذريعے اپنے آپ كو زمانہ پيغمبر(ص) كے ساتھ متّصل كرتے ہيں_ ليكن كسى نے دعوى نہيں كيا كہ يہ تمام واسطے ،ثقہ اور صادق ہيں اور ہر صدى كے لوگ بڑے مقدس تھے اور اگر ايسا نہ ہوتو ہمارا دين متزلزل ہوجائيگا_
بلكہ سب يہى كہتے ہيں كہ روايات كو ثقہ اور عادل افراد سے اخذ كرنا چاہيئے_
علم رجال كى كتب تحرير كرنے كا مقصد يہى ہے كہ ثقہ كو غير ثقہ سے ممتاز كيا جاسكے_
تواب كيا مشكل ہے كہ اصحاب كرام كے بارے ميں بھى ہم وہيطريقہ عمل اختيار كريں جو ان سے بعد والوں كے بارے ميں اختيار كرتے ہيں؟
2: بعض لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ بعض صحابہ كے بارے ميں ''جرح'' يعنى انكے نقائص بيان كرنے اور ان پر تنقيد كرنے سے پيغمبر اسلام(ص) كے مقام و منزلت ميں كمى واقع ہوتى ہے_ اس ليے اصحاب پر تنقيد جائز نہيں ہے_
جو لوگ اس دليل كا سہارا ليتے ہيں ان سے ہمارا سوال يہ ہے كہ كيا قرآن مجيد نے پيغمبر(ص) كے گرد جمع ہونے والے منافقين پر شديد ترين حملے نہيں كيے ہيں؟ كيا آنحضرت(ص) كے خالص اور صادق اصحاب كے درميان منافقين كى موجودگى كى وجہ سے آپ(ص) كى شان ميں كمى واقع ہوئي ہے؟ ہرگزايسا نہيں ہے
خلاصہ يہ كہ ہميشہ اور ہر زمانے ميں حتى تمام انبياء كے زمانوں ميں اچھے اور بُرے افراد
موجود تھے_ اور انبياء كے مقام و منزلت پر اس سے كوئي فرق نہيں پڑتا تھا_
3_ اگر اصحاب كے اعمال پر جرح و تنقيد كا سلسلہ شروع ہوجائے تو بعض خلفاء راشدين كى شخصيت پر حرف آتا ہے_اس لئے ان كے تقدس كى حفاظت كيلئے صحابہ كى قداست پر تاكيد كرنا چاہئے تا كہ كوئي شخص مثلا حضرت عثمان كے اُن كاموں پر اعتراض نہ كرے جو بيت المال كے بارے ميں اور اس كے علاوہ ان كے دور حكومت ميں وقوع پذير ہوئے اور يہ نہ كہے كہ انہوں نے ايسا كيوںكيا_
يہاں تك كہ اس قداست كے قالب ميں معاويہ اور اس كے اقدامات ;جيسے كہ اس نے خليفہ رسول(ص) حضرت على _ كى مخالفت كى اور اُن كے ساتھ جنگيں كيں اور مسلمانوں كے قتل عام كا موجب بنا;كى توجيہ كى جاسكے، اور اس ہتھيار كے ذريعے ايسے افراد كو تنقيد سے بچايا جاسكے_ البتہ اس سے پتہ چلتا ہے كہ اس قداست والے مسئلہ كى بنياد ابتدائي صديوں كے سياستدانوں نے ركھي_ جسطرح انہوں نے كلمہ '' اولى الامر'' كى تفسير، ''حاكم وقت'' كى تا كہ بنو اميہ اور بنو عباس كے ظالم حكام كى اطاعت كو بھى ثابت كيا جاسكے نيز يہ حكام كا سياسى پروگرام اور لائحہ عمل تھا_ ہمارا يہ خيال ہے كہ ايسى باتوں سے ان كا مقصدسب صحابہ كو بچانا نہ تھا بلكہ اپنے مورد نظر افراد كى حمايت مقصود تھي_
4_ بعض لوگ يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ اصحاب كے تقدس كا عقيدہ قرآن مجيد اور سنت نبوي(ص) كے فرمان كے مطابق ہے كيونكہ قرآن مجيد كى بعض آيات اوربعض احاديث ميں يہ مسئلہ بيان كيا گيا ہے_
اگرچہ يہ بہترين توجيہ ہے ليكن جب ہم ادّلہ كى تحقيق كرتے ہيں تو معلوم ہوتا ہے كہ ان آيات و روايات ميں جس چيز كو وہ ثابت كرنا چاہتے ہيں موجود نہيں ہے_سب سے اہم آيت
جس كو دليل كے طور پر ذكر كيا گيا ہے مندرجہ ذيل آيت ہے:
'' و السابقون الاوّلون من المُہاجرينَ و الأنصار وَ الَّذين اتّبعُوہُم إےحسان رَضى الله عنہم و رَضُو عنہ و أعَدَّ لہم جَنّات: تَجرى تَحتہَا الأنہارُ خالدين فيہا أبداً ذلك الفَوزُ العظيم'' (سورة توبہ آيت 100_)
مہاجرين اور انصار ميں سے سبقت كرنے والے اور جنہوں نے نيكى كے ساتھ انكى پيروى كى اللہ تعالى ان سے راضى ہے اور وہ خدا سے راضى ہيں اور اللہ تعالى نے انكے لئے باغات تيار كر ركھے ہيں جنكے نيچے نہريں بہہ رہى ہيں يہ ہميشہ ان ميں رہيں گے اور يہ بہت بڑى كاميابى ہے _
اہلسنت كے بہت سے مفسّرين نے اس آيت كے ذيل ميں ( بعض صحابہ اور پيغمبر(ص) اكرم سے حديث ) نقل كى ہے جس كا مضمون يہ ہے كہ '' جميع أصحاب رسول الله فى الجنّة مُحسنہم ومُسيئہم'' اس حديث ميں مذكورہ بالا آيت سے استناد كيا گيا ہے_ (تفسير كبير فخر رازى و تفسير المنار ذيل آيت مذكورہ_)
دلچسپ يہ ہے كہ مذكورہ بالا آيت كہتى ہے كہ تابعين اس صورت ميں اہل نجات ہيں جب نيكيوں ميں صحابہ كى پيروى كريں ( نہ برائيوں ميں) اور اس كا مفہوم يہ ہے كہ صحابہ كے ليے بہشت كى ضمانت دى گئي ہے _كيا اس كا مفہوم يہ ہے كہ وہ گناہوں ميں آزاد ہيں؟
جو پيغمبر(ص) ، لوگوں كى ہدايت اور اصلاح كے لئے آيا ہے كيا ممكن ہے كہ وہ اپنے دوستوں كو استثناء كر دے اور ان كے گناہوں سے چشم پوشى كرے_ حالانكہ قرآن مجيد ،ازواج رسول(ص) كے بارے ميں فرماتا ہے كہ جو سب سے نزديك صحابيہ تھيں، اگر تم نے گناہ كيا تو تمہارى سزا دو برابر ہے_(سورہ احزاب آيہ 30_)
قابل توجہ نكتہ يہ ہے كہ اگر اس آيت ميں كسى قسم كا ابہام بھى ہو تو اسے سورة فتح كى آيت نمبر 29 رفع كر ديتى ہے كيونكہ يہ آيت پيغمبر اكرم(ص) كے سچّے اصحاب كى صفات بيان كر رہى ہے_
''أشدَّاء عَلى الكفّار رُحَمَائُ بَينَہُم تراہُم رُكَّعاً سُجَّداً يَبتَغُونَ فَضلاً منَ الله و رضوَاناً سيمَاہُم فى وُجُوہہم من أثَر السُجُود''
يہ لوگ كفار كے مقابلے ميں شديد اور زبردست ہيں اور آپس ميں مہربان ہيں انہيں ہميشہ ركوع و سجود كى حالت ميں ديكھو گے اس حال ميں كہ مسلسل فضل و رضائے خدا كو طلب كرتے ہيں_ سجدہ كے آثار ان كے چہروں پر نماياں ہيں''_
جنہوں نے جمل و صفّين جيسى جنگوں كى آگ بھڑكائي اور امام وقت كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے اورہزاروں مسلمانوں كو قتل كرايا_ كيا وہ ان سات صفات كے مصداق تھے؟ كيا وہ آپس ميں مہربان تھے؟ كيا انكے عمل كى شدت كفار كے مقابلے ميں تھى يا مسلمانوں كے مقابلے ميں؟
اللہ تعالى نے اسى آيت كے ذيل ميں ايك جملہ ارشاد فرمايا ہے جو مقصود كو مزيد روشن كرتا ہے
''وَعَدَ الله الّذين آمَنُو و عَملُو الصّالحات منہم مَغفرَةً و أجراً عَظيماً''(سورہ فتح آيہ 29_)
اللہ تعالى نے ( ان اصحاب ميں سے) جو ايمان لائے اور اعمال صالح انجام ديتے رہے ان سے مغفرت اور اجر عظيم كا وعدہ ديا ہے_
پس واضح ہوگيا كہ مغفرت اور اجر عظيم كا وعدہ صرف ان لوگوں كے ليے ہے جو با ايمان اور اعمال صالح انجام ديتے ہيں_ جن لوگوں نے جنگ جمل ميں مسلمانوں كو قتل كيا اور اس جيسى جنگوں كو بھڑكايا اور حضرت عثمان كے دور ميں بيت المال كو ہڑپ كيا وہ كيا اعمال صالح انجام دينے والے تھے؟
قابل توجہ بات يہ ہے كہ اللہ تعالى نے اپنے اولوالعزم پيغمبروں كا ايك ترك اولى كى خاطر مؤاخذہ كياہے _ حضرت آدم(ع) كو ايك ترك اولى كى خاطر بہشت سے نكال ديا_ حضرت يونس (ع) كو ايك ترك اولى كى خاطر ايك عرصہ مچھلى كے پيٹ ميں ،تين اندھيروں ميںبند ركھا_
حضرت نوح (ع) كو اپنے گناہ گار بيٹے كى سفارش پر تنبيہ فرمائي_تو اب كيا يہ يقين كرنے كى بات ہے كہ اصحاب پيغمبر(ص) اس قانون سے مستثنى ہوں
No comments:
Post a Comment