Thursday, 20 February 2014

جنگ صفین کا زخم


محی الدین اربلی بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے اتفاق سے سر سے عمامہ اتارا تو اس کے سر پر گہرے زخم کا نشان تھا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ نشان کیسا ہے ؟اس نے کہا؛ یہ زخم مجھے جنگ صفین میں لگا تھا۔میں نے کہا ؛ بندہ خدا ! جنگ صفین تو آج سے سات صدیاں پہلے ہوئی تھی ۔اس شخص نے کہا؛ بات یہ ہے کہ ایک بار میں مصر جا رھا تھا ۔ راستے میں “غزہ” کا رھنے والا ایک شخص میرا ہم سفر بنا۔ جب ہم آدھا راستہ طے کر چکے تو ہمارے درمیان جنگ صفین کی بحث چل پڑی۔میرے ہم سفر نے کہا؛ کاش اگر میں جنگ صفین میں ہوتا تو علی علیہ السّلام اور اس کے ساتھیوں کو قتل کرتا۔جواب میں میں نے کہا؛ اے کاش ! اگر میں جنگ صفین میں ہوتا تو میں معاویہ اور اس کے ساتھیوں کے خون سے اپنی تلوار کی پیاس بجھاتا۔ کیونکہ ہم سے ایک امام علی علیہ السّلام کا پیروکار اور دوسرا معاویہ کا پیروکا تھا۔پھر میں نے کہا؛ آؤ ہم تم آپس میں جنگ کر لیں۔میرے ہم سفر نے کہا؛ مجھے منظور ہے ۔ اس کے بعد ہم دونوں صحرا میں لڑنے لگے لڑائی کرتے کرتے میں تھک گیا میرے ہم سفر نے اپنی تلوار سے میرے سر پر وار کیا۔ میرا چہرہ خون سے بھر گیا اور میں بے ہوش ہو کر گر پڑا۔کچھ دیر بعد ایک شخص نے مجھے اپنے نیزے کی انی سے بیدار کیا۔ جب میں نے اسے دیکھا تو اس کیا شکل و صورت بڑی نورانی تھی۔ اس نے اپنا دست مبارک میرے سر پر پھیرا۔ میرا زخم اسی وقت بھر گیا اور میں تندرست ہو گیا۔اس کے بعد اس محترم شخص نے مجھ سے فرمایا؛ میرے آنے تک یہاں رہنا۔ میں نےتھوڑی دیر انتظار کیا اس کے بعد وہ بزرگوار آۓ ان کے ہاتھ میں میرے ہم سفر کا کٹا ہوا سر تھا اور اس کا گھوڑا ان کے پیچھے آ رھا تھا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا ؛ یہ تیرے دشمن کا سر ہے ۔ تم نے ہماری مدد کی تھی اسی لیۓ ہم نے تمھاری مدد کی ہے اور خدا کی رَوش بھی یہی ہے کہ جو اس کی مدد کرے وہ اس کی مدد کرتا ہے۔میں نے عرض کیا؛ میرے سردار اپنا تعارف کرائیں۔انہوں نے کہا؛ میں حجت بن الحسن العسکری علیہ السّلام ہوں۔ پھر آپ نے مجھے سے فرمایا جب تم سے کوئی اس زخم کے متعلق پوچھے تو جواب میں کہنا کہ یہ زخم امیرالمومنین علیہ السّلام کی نصرت میں جنگ صفین میں لگا تھا۔
کشکول دستغیب جلد روم ص 234

No comments:

Post a Comment