گلشن میں جیسے بہار لوٹ آئی ہو
مختار نے خبر ہی کچھ ایسی سنائی ہے
خوب آج ہنسو عید کا دن ہے حسینیوںدختر زہرا آج کے دن مسکرائی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بہت سی عیدیں آتی ہیں جیسے عید قربان ، عید غدیر،عید مباہلہ اور عید زہرا وغیرہ… یہ ساری عیدیں کسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں․
عید الفطر: یکم شوال کو ایک مہینہ کے روزے تمام کرنے کا شکرانہ اور فطرہ نکال کر غریبوں کی عید کا سامان فراہم کرنے کا ذریعہ ہے․
عید قربان: ۱۰/ذی الحجہ حضرت اسماعیل کو خدا نے ذبح ہونے سے بچالیا تھا اور اُن کی جگہ دنبہ ذبح ہوگیا تھا،جس کی یاد مسلمانوں پر ہر سال منانا سنت ہے
عید غدیر: ۱۸/ ذی الحجہ کو غدیر خم میں مولائے کائنات حضرت علی کی تاج پوشی کی یاد میں ہر سال منائی جاتی ہے،اِس دن رسول خدا نے غدیر خم کے میدان میں مولائے کائنات کو سوا لاکھ حاجیوں کے درمیان ،اللہ کے حکم سے اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا تھا․
عید مباہلہ: ۲۴/ ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے،اس روز اہل بیت کے ذریعہ اسلام کو عیسائیت پر فتح نصیب ہوئی تھی․
عید زہرا: ۹/ ربیع الاول کو منائی جاتی ہے اور اس عید کے منانے کی مختلف وجہیں بیان کی جاتی ہیں،مثلاً:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ۹/ ربیع الاول کو دشمن حضرت زہرا ہلاک ہوا،لہٰذا یہ خوشی کا دن ہے اور اس روز کو ”عید زہرا“ کے نام سے موسوم کردیا گیا․
اس بارے میں علماء و مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ،بعض کہتے ہیں کہ عمر ابن خطاب نہم ربیع الاول کو فوت ہوئے اور بعض دیگر کہتے ہیں کہ ان کی وفات ۲۶/ ذی الحجہ کو ہوئی …جو لو گ یہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو فوت ہوئے اُن کا قول قابل اعتبار نہیں ہے ،علامہ مجلسی اس بارے میں اس طرح وضاحت فرماتے ہیں کہ :
”عمر ابن خطاب کے قتل کئے جانے کی تاریخ کے بارے میں علمائے شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے
علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں بھی ابن ادریس کی کتاب ”سرائر“ کے حوالے سے لکھا ہے کہ :
”ہمارے بعض علما کے درمیان عمر بن خطاب کی روزِ وفات کے بارے میں اشتباہات پائے جاتے ہیں (یعنی) یہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو فوت ہوئے،یہ نظریہ غلط ہے“( بحار الانوار،جلد ۵۸، صفحہ ۳۷۲،باب ۱۳، مطبوعہ تہران)
علامہ مجلسی کتاب ”انیس العابدین “کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ :
”اکثر شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو قتل ہوئے اور یہ صحیح نہیں ہے… بتحقیق عمر ۲۶/ ذی الحجہ کو قتل ہوئے … اور اس پر ”صاحب کتاب غرہ“ ” صاحب کتاب معجم“ ”صاحب کتاب طبقات“ ”صاحب کتاب مسار الشیعہ “ اور ابن طاوٴوس کی نص کے علاوہ شیعوں اور سنیوں کا اجماع بھی حاصل ہے
…اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ وہ ۹/ ربیع الاول کو فوت ہوئے(جو کہ غلط ہے)تب بھی حضرت فاطمہ زہرا کی شہادت پہلے ہوئی اور آپ کے دشمن یکے بعد دیگری بعد میں ہلاک ہوئے…تو پھر اپنے دشمنوں کی ہلاکت سے حضرت فاطمہ زہرا کس طرح خوش ہوئیں …لہٰذا عید زہرا کی یہ وجہ غیر معقول نظر آتی ہے․
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ۹/ربیع الاول کو جناب مختار نے امام حسین کے قاتلوں کو واصل جہنم کیا…لہٰذا یہ روز شیعوں کے لئے سرور و شادمانی کا ہے․ ہم نے معتبر تاریخ کی کتابوں میں بہت تلاش کیا لیکن کہیں یہ بات نظر نہ آئی کہ جناب مختار نے ۹/ربیع الاول کو امام حسین کے قاتلوں کو واصل جہنم کیا تھا…لہٰذا یہ وجہ بھی غیر معقول ہے․
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب مختار نے ابن زیاد کا سر امام زین العابدین کی خدمت میں مدینہ بھیجا اور جس روز یہ سر چوتھے امام کی خدمت میں پہنچا وہ ربیع الاول کی ۹/ تاریخ تھی،امام نے ابن زیاد کا سر دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا اور مختار کو دعائیں دیں نیز اسی وقت سے ان عورتوں نے بالوں میں کنگھی اور سر میں تیل ڈالنا اور آنکھوں میں سرمہ لگاناشروع کیا جو واقعہ کربلا کے بعدسے ان چیزوں کو چھوڑے ہوئے تھیں․
بالفرض اگر اسے صحیح مان لیاجائے تب بھی یہ عید جناب زینب اور جناب سید سجاد سے منسوب ہونی چاہئے تھی …اور ہمیں بھی امام زین العابدین کی پیروی کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شکر خدا ادا کرنا چاہئے تھا اور جناب مختار کے لئے دعائے خیر کرنا چاہئے تھی ،لیکن نہ تو یہ عید چوتھے امام سے منسوب ہوئی اور نہ جناب زینب کے نام سے مشہور ہے لہٰذا عید زہرا کی یہ وجہ بھی غیر معقول ہے․
بعض علماء کی تحقیق کے مطابق ۹/ ربیع الاول کو جناب رسول خدا کی شادی جناب خدیجہ سے ہوئی تھی اور حضرت فاطمہ زہرا ہر سال اس شادی کی سالگرہ مناتی تھیں اور جشن کیا کرتی تھیں ،نئے لباس اور انواع و اقسام کے کھانے مہیا کرتی تھیں ،لہٰذا آپ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے شیعہ خواتین نے بھی یہ سالگرہ منانی شروع کی اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ،آپ کے بعد یہ خوشی آپ سے منسوب ہوگئی اور اس طرح ۹/ ربیع الاول کا روز شیعوں کے درمیان عید زہرا کے نام سے موسوم ہوگیا ،لہٰذا عید زہرا کی یہ وجہ مناسب معلوم ہوتی ہے،چنانچہ ایک شخص نے آیت اللہ کاشف الغطاء سے سوال کیا کہ :
”مشہور ہے کہ ربیع الاول کی نویں تاریخ جناب فاطمہ زہرا کی خوشی کا دن تھا اور ہے اور یہ اس حال میں ہے کہ عمر کے ۲۶/ذی الحجہ کو زخم لگا اور ۲۹/ ذی الحجہ کو فوت ہوا لہٰذا یہ تاریخ حضرت فاطمہ زہرا کی وفات سے بعد کی تاریخ ہے تو پھر حضرت فاطمہ زہرا(اپنے دشمن کے فوت ہونے پر) کس طرح خوش ہوئیں؟
اس کا جواب آیت اللہ کاشف الغطاء نے اس طرح دیا کہ :
”شیعہ پُرانے زمانے سے ربیع الاول کی نویں تاریخ کو عید کی طرح خوشی مناتے ہیں…کتاب اقبال میں سید ابن طاوٴوس نے فرمایا ہے کہ ۹/ ربیع الاول کی خوشی اس لئے ہے کہ اس تاریخ میں عمر فوت ہوا ہے اور یہ بات ایک ضعیف روایت سے لی گئی ہے جس کو شیخ صدوق نے نقل کیا ہے،لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ ۹/ربیع الاول کو شیعوں کی خوشی شاید اس وجہ سے ہے کہ ۸/ربیع الاول کو امام حسن عسکری شہید ہوئے اور ۹/ ربیع الاول اامام زمانہ کی امامت کا پہلا روز ہے …
اس خوشی کا دوسرا احتمال یہ ہے کہ ۹/ اور ۱۰/ ربیع الاول پیغمبر اسلام کی جناب خدیجہ سے شادی کا روز ہے اور حضرت فاطمہ زہرا ہر سال اس روز خوشی مناتی تھیں اور شیعہ بھی آپ کی پیروی کرتے ہوئے ان دنوں میں خوشی منانے لگے ،مگر شیعوں کو اس خوشی کی یہ علت معلوم نہیں ہے“
( سوال و جواب ،صفحہ ۱۰ و ۱۱، از آیت اللہ العظمیٰ کاشف الغطاء ،ترجمہ ،مولانا (ڈاکٹر)سید حسن اختر صاحب نوگانوی،منجانب ادارہٴ تبلیغ و اشاعت نوگانواں سادات)
اس سلسلہ میں بعض حضرات و خواتین غلط بیانی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اس دن جو چاہیں گناہ کریں اس پر عذاب نہیں ہوتا اور فرشتے لکھتے بھی نہیں اور یہ لوگ علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوارکی اس طویل حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس کو علامہ مجلسی نے سید بن طاوٴوس کی کتاب ”زوائد الفوائد“سے نقل کیا ہے … ہاں بحار الانوار میں ایک حدیث ایسی ضرور لکھی ہوئی ہے،مگر یہ حدیث چند وجوہات کی بناء پر قابل اعتبار و عمل نہیں ہے:
۱۔ اس حدیث میں لکھا ہے کہ ۹/ ربیع الاول کو جو گناہ چاہیں کریں اس کو فرشتے نہیں لکھتے اور نہ ہی عذاب کیا جاتا ہے․
اور ہم قرآن مجید کے سورہٴ زلزال کی آیت ۷ اور ۸ میں پڑھتے ہیں کہ
”فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْراً یَرَرَہ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرَّاً یَرَ ہ“
”یعنی جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ہے تو وہ اسے دیکھ لے گا“
اور ہمارے سامنے رسول خدا کی وہ حدیث بھی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ : اگر کسی سے ایسی حدیث سنو جو ہم سے منسوب ہو اور قرآن سے ٹکرا رہی ہو تو اسے دیوار پر دے مارو یعنی اس پر عمل نہ کرو،مذکورہ روایت قرآن سے ٹکرا رہی ہے لہٰذا قابل عمل نہیں ہے․
۲۔ اس حدیث کے راوی غیر معتبر ہیں ،چنانچہ جب میں نے قم میں آیت اللہ شاہرودی صاحب سے استفتاء کیا تو زبانی طور پر آپ نے فرمایا کہ :
” اس روایت کو علامہ مجلسی نے کتاب اقبال سے نقل کیا ہے اور اس کے راوی غیر معتبر ہیں … ۹/ ربیع الاول کا مرفوع قلم نہ ہونا اظہر من الشمس ہے“(لہٰذا مذکورہ روایت غیر معتبر ہے)
۳۔ اس روایت میں ایک جملہ اس طرح آیا ہے کہ :
” رسول اللہ … نے امام حسن اور امام حسین -(جو کہ ۹/ ربیع الاول کو آپ کے پاس بیٹھے تھے ) سے فرمایا کہ اس روز کی برکت اور سعادت تمہارے لئے مبارک ہو کیوں کہ آج کے دن خدا وند عالم تمہارے اور تمہارے جد کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا “
رسول اسلام اگر مستقبل میں رونما ہونے والے کسی واقعہ یا حادثہ کی خبر دیں توسو فی صد صحیح ،سچ اور وقوع پذیر ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیوں کہ آپ صادق الوعد ہیں․
لیکن معتبر تاریخ میں کسی بھی دشمن رسول و آل رسول کی ہلاکت ۹/ ربیع الاول کے روز نہیں ملتی لہٰذا روایت قابل اعتبار نہیں ہے․
۴۔ اس روایت کے آخر میں امام علی -کے حوالے سے ۹/ ربیع الاول کے ۵۷ نام ذکر کئے گئے ہیں جن میں یوم رفع القلم (گناہ نہ لکھے جانے کا دن ) یوم سبیل اللہ تعالیٰ ( اللہ کے راستے پر چلنے کا دن ) یوم قتل المنافق ( منافق کے قتل کا دن ) یوم الزھد فی الکبائر (گناہان کبیرہ سے بچنے کا دن ) یوم الموعظہ (وعظ و نصیحت کا دن ) یو م العبادة (عبادت کا دن ) بھی شامل ہیں جو آپس میں متصادم ہیں یعنی ۹/ ربیع الاول کو گناہ نہ لکھنے کا دن کہہ کے سب کچھ کر ڈالنے کی تشویق بھی ہے تو یوم نصیحت و عبادت و زہد کہہ کر گناہوں سے روکا بھی گیا ہے اور یہ تضاد کلام معصوم سے بعید ہے اس کے علاوہ قتل منافق کا روز بھی کہا گیا ہے جس کی تردید آیت اللہ کا شف الغطاء اور آیت اللہ شاہرودی کے حوالے سے ہم کرہی چکے ہیں، لہٰذا یہ روایت غیر معتبر ہے․
۵۔ اس روایت میں ایک جملہ یہ بھی آیا ہے کہ :
”اللہ نے وحی کے ذریعہ حضرت رسول سے کہلایا کہ : اے محمد ! میں نے کرام کاتبین کو حکم دیا ہے کہ وہ ۹/ ربیع الاول کو آپ اور آپ کے وصی کے احترام میں لوگوں کے گناہوں اور ان کی خطاوٴں کو نہ لکھیں “
جب کہ دوسری طرف قرآن مجید میں خداوند عالم اس طرح ارشاد فرماتا ہے کہ :
” ھٰذَا کِتٰبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ“
”یہ ہماری کتاب (نامہٴ اعمال ) ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور ہم اس میں تمہارے اعمال کو برابر لکھوا رہے تھے“ (سورہٴ جاثیہ،آیت ۲۹)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اعمال ضرور لکھے جاتے ہیں،اور کسی بھی روز کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا ہے․
”وَوَضَعَ الْکِتٰبُ فَتَرَیٰ الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ و َ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبَ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا کَبِیْرَةً اِلَّا اَحْصٰھَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِراً وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَداً“
”اور جب نامہٴ اعمال سامنے رکھا جائے گا تو دیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اور کہیں گے ہائے افسوس ! اس کتاب (نامہٴ اعمال ) نے تو چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتاہے“(سورہٴ کہف، آیت ۴۹)
اس آیت سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسانوں کے اعمال برابر لکھے جاتے ہیں اور کوئی بھی موقع اور دن اس سے مستثنیٰ نہیں ہے․
”یَوْمَئِذٍیَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتاً لِّیُرَوْا اَعْمَالَھُمْ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْراً یَّرَہ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَّرَہ“
”اس روز سارے انسان گروہ گروہ قبروں سے نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھ سکیں پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھ لے گا“(سورہٴ زلزلہ ،آیت ۸ا۔۵)
اس روایت سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انسانوں کے چھوٹے بڑے ہر قسم کے اعمال ضرور لکھے جاتے ہیں․
یہ روایت آیات قرآنی سے ٹکرا رہی ہے لہٰذا غیر معتبر ہے․
ہو سکتا ہے بعض حضرات یہ اعتراض کریں کہ اتنی معتبر شخصیات جیسے علامہ ابن طاوٴوس،شیخ صدوق اور علامہ مجلسی وغیرہ نے کس طرح ضعیف روایتوں کو اپنی کتابوں میں جگہ دے دی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ شیعہ علماء نے کبھی بھی اہل سنت کی طرح یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ ہماری کتابوں میں جو بھی لکھا ہے وہ سب صحیح ہے،بلکہ ہمیں ان کی چھان بین کی ضرورت رہتی ہے،کیوں کہ جس زمانہ میں یہ کتابیں مرتب کی گئیں وہ پُر آشوب دور تھا اور شیعوں کی جان و مال ،عزت و آبروکے ساتھ ساتھ ثقافت بھی غیر محفوظ تھی جس کی مثالوں سے تاریخ کا دامن بھرا پڑا ہے،مسلمان حکمراں شیعوں کے علمی سرمایہ کو نذرِ آتش کرنا ہرگز نہ بھولتے تھے،ایسے ماحول میں ہمارے علمائے کرام نے ہر اس روایت اور بات کو اپنی کتابوں میں جگہ دی جو شیعوں سے تعلق رکھتی تھی،جس میں بعض غیر معتبر روایات کا شامل ہوجانا باعث تعجب نہیں ہے،چونکہ اُس زمانہ میں چھان پھٹک کا موقع نہ تھا اس لئے یہ کام بعد کے علماء نے فرصت سے انجام دیا ،جبھی تو آیت اللہ کاشف الغطا ئاورآیت اللہ شاہرودی کے علاوہ دیگر مراجع کرام۹/ ربیع الاول والی اس روایت کو ضعیف مانتے ہیں․
ہمیں چاہئے کہ اِس روز بھی اسی طرح اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں جس طرح دوسرے ایام میں بچانا واجب ہے ،ہمارے ائمہ ٪اور فقہائے عظام و مراجع کرام کا یہی حکم ہے ،چنانچہ جب میں نے اِس بابت مراجع کرام آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای ،آیت اللہ مکارم شیرازی،آیت اللہ فاضل لنکرانی،آیت اللہ اراکی اور آیت اللہ صافی گلپائیگانی سے قم میں یہ استفتاء کیا کہ :
”بعض لوگ عالم و غیر عالم اس بات کے معتقد ہیں کہ ۹/ ربیع الاول سے (جو کہ عید زہرا سے منسوب ہے )۱۱/ ربیع الاول تک انسان جو چاہے انجام دے چاہے وہ کام شرعاً ناجائزہو تب بھی گناہ شمار نہیں ہوگا اور فرشتے اسے نہیں لکھیں گے ، برائے مہربانی اس بارے میں کیا حکم ہے بیان فرمائیے
آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای صاحب نے اس طرح جواب دیا کہ :
”شریعت کی حرام کی ہوئی وہ چیزیں جو جگہ اور وقت سے مخصوص نہیں ہیں کسی مخصوص دن کی مناسبت سے حلال نہیں ہوں گی،بلکہ ایسے محرمات ہر جگہ اور ہر وقت حرام ہیں اور جو لوگ بعض ایام میں ان کو حلال کی نسبت دیتے ہیں وہ کورا جھوٹ اور بہتان ہے اور ہر وہ کام جو بذات خود حرام ہو یا مسلمانوں کے درمیان تفرقے کا باعث ہو شرعاً گناہ اور عذاب کا باعث ہے“
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی صاحب کا جواب یہ تھا کہ:
”یہ بات (کہ ۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیں جاتے )صحیح نہیں ہے اور کسی بھی فقیہ نے ایسا فتویٰ نہیں دیا ہے ،بلکہ ان ایام میں تزکیہٴ نفس اور اہل بیت کے اخلاق سے نزدیک ہونے اور فاسق و فاجر وں کے طور طریقوں سے دور رہنے کی زیادہ کوشش کرنی چاہئے“
آیت اللہ فاضل لنکرانی صاحب نے یوں جواب دیا کہ:
”یہ اعتقاد(کہ ۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیں جاتے )غیر صحیح ہے ان ایام میں میں بھی گناہ جائز نہیں ہے ،مذکورہ عید (عید زہرا) بغیر گناہ کے منائی جا سکتی ہے“
آیت اللہ اراکی صاحب نے تحریر فرمایاکہ :
”وہ کام جن کو شریعت اسلام نے منع کیا ہے اور مراجع کرام نے اپنی توضیح المسائل میں ذکر کیا ہے کسی بھی وقت جائز نہیں ہیں، اور یہ باتیں کہ (۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیں جاتے) معتبر نہیں ہیں“
آیت اللہ صافی گلپائیگانی صاحب کا جواب تھا کہ :
”یہ بات کہ (۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیں جاتے ) ادلّہٴ احکام کے عمومات و اطلاقات کے منافی ہے اور ایسی معتبر روایت کہ جو ان عمومی و مطلق دلیلوں کو مخصوص یا مقید کردے ثابت نہیں ہے بالفرض اگر ایسی کوئی روایت ہوتی بھی تو یہ بات عقل و شریعت کے منافی ہے اور ایسی مقید و مخصص دلیلیں منصرف ہیں …“
یہ بات واضح ہوجانے کے بعد اب ایک سوال اور باقی رہ جاتا ہے ، وہ یہ کہ اس خوشی کو کس طرح منائیں …؟اسی طرح جیسے اکثر بستیوں میں منائی جاتی ہے ؟ یا پھر اس میں تبدیلی ہونی چاہئے؟
جن ہستیوں سے یہ خوشی منسوب ہے اُن کے کردار کی جھلک بھی اس خوشی اور عید میں نظر آنی چاہئے یا نہیں؟
یہ خوشی امام زمانہ اور حضرت فاطمہ زہرا سے منسوب ہے تو کیا ہمیں ان معصومین کے شایان شان اس خوشی کو نہیں منانا چاہئے ؟…ہمیں کیا ہوگیا ہے ! اپنے زندہ امام کی خوشی کو اس انداز سے مناتے ہیں ؟دنیا کی جاہل ترین قومیں بھی اپنے رہبر کی خوشی اس طرح نہ مناتی ہوں گی …
افسوس صد ہزار افسوس! آج کل اگر کسی سیاسی و سماجی شخصیت کے اعزاز میں جلسے جلوس منعقد کئے جاتے ہیں تو ان کو اُسی کے شایان شان طریقے سے اختتام تک پہنچانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے․
لیکن عید زہرا ! جو خاتون ِ جنت ،جگر گوشہٴ رسول زوجہٴ علی مرتضیٰ ،ام الائمہ زہرا بتول کے نام سے منسوب ہے وہ اس طرح منائی جاتی ہے کہ اس میں شریف انسان شریک ہونے کی جرأت بھی نہ کر سکے؟!
اس کے علاوہ عالم اسلام پر جس طرح خطرات کے بادل چھائے ہوئے ہیں وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہے ،کتنا اچھا ہو اگر عید زہرا اپنے حقیقی معنوں میں اس طرح منائی جائے جس میں تمام مسلمین شریک ہوسکیں ․
تبرہ فروع دین سے تعلق رکھتا ہے اور فروع دین کا دارو مدار عمل سے ہے … اگر کوئی مسلمان صرف زبان سے کہے کہ نماز ،روزہ، حج، زکوٰة،خمس وغیرہ واجب ہیں تو یہ تمام واجبات جب تک عملی صورت میں ادا نہ ہوجائیں گردن پرقضا ہی رہیں گے…فروع دین کے واجبات وقت اور زمانے سیمخصوص ہیں، جس طرح نماز کے اوقات بتائے گئے ہیں اسی طرح روزہ ،زکوٰة،حج اور خمس وغیرہ کازمانہ بھی معین ہے ، لیکن امر باالمعروف ،نہی عن المنکر،تولا اور تبرا یہ دین کے ایسے فروع ہیں جن کے لئے کوئی وقت اور زمانہ معین نہیں ہے ،بالخصوص تولا اور تبرا سے تو ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہیں رہ سکتے ،یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک منٹ کے لئے محبت اہل بیت کو دل سے نکال دیا گیا ہے یا ایک لمحہ کے لئے دشمنان اہل بیت کے کردار کو اپنا لیا گیا ہے ، جب ایسا ہے … تو پھرتبرہ کو ۹/ ربیع الاول سے کیوں مخصوص کردیا گیا ؟ اِسی روز اس کی کیوں تاکید ہوتی ہے؟ باقی دنوں میں اس طرح کیوں یاد نہیں آتا؟وہ بھی صرف زبانی! …
زبان سے تبرا کافی نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں آکر تبرا کریں یعنی اہل بیت کے دشمنوں کی اطاعت و حکمرانی دل سے قبول نہ کریں اور ان کے پست کردار کونہ اپنائیں․
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شیعہ جو خمس نہ نکالتا ہو اور بیٹیوں کو میراث سے محروم رکھتا ہو وہ غاصبین پر لعنت کرے اور اس لعنت میں خود بھی شامل نہ ہوجائے ․
وہ شیعہ جو اپنے عملِ بد سے اہل بیت کو ناراض کرتا ہو اور وہ اہل بیت ستانے والوں پر لعنت کرے اور اس لعنت کے دائرے میں خود بھی نہ آجائے․
یاد رکھئے ! لعنت نام پر نہیں ،کردار پر ہوتی ہے اسی لئے اس کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے․
جناب مرحوم قیصر باہوی نے کیا خوب کہا ہے
تاریخ محبت کا قلمکار ہے مختارجو آج بھی زندہ ہے وہ کردار ہے مختار
اس نام سے گھبراتا ہے شبیر کا دشمنگویا غمِ شبیر کی تلوار ہے مختار
انساں ہے ظالم کا کبھی ساتھ نہ دے گا
مظلوم کی اُلفت کا وہ معیار ہے مختارہر اہل نظر جس کی صداقت پہ فدا ہو
جذبات کے ہونٹوں پہ وہ گفتار ہے مختارزہرا کے غریبوں کو دیا جس نے تبسم
کوفے کی فضا میں وہ عزادار ہے مختارمسرور کیا عابد بیمار کو جس نے
وہ اَجر مودت کا طلبگار ہے مختار
مورخین کا اتفاق ہے کہ جناب مختار نے حضرت حنفیہ کی خدمت میں قاتلان امام علیہ السلام کے سروں کے ساتھ ایک خط بھی اس مضمون کے ساتھ لکھ کر بھیجا تھا کہ ؛ میں نے آپ علیہ السلام کے مددگاروں اور ماننے والوں کی ایک فوج آپ علیہ السلام کے دشمنوں کو قتل کرنے کے لِئے موصل بھیجا تھا ، اس فوج نے بڑی جوانمردی اور بہادری کے ساتھ آپ کے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور بے شمار دشمنوں کو قتل کیا جس سے مومنین کے دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئ اور آپ کے ماننے والے نہایت خوش اور مسرور ہوئَے ، اس سلسلے میں سب سے بڑا کردار ابراہیم بن مالک اشتر نے ادا کیا جو سب سے زیادہ تحسین و آفرین کے مستحق ہیں ۔جناب محمد حنفیہ کے سامنے جس وہ تمام سر پیش کیئَے گئَے تو دیکھتے ہی سجدہ شکر میں جھک گئَے اور جناب مختار کے حق میں دعا کی کہ ؛ خداوند مختار کو جزائَے خیر دے جس نے ہماری طرف سے واقعہ کربلا کا بدلا قاتلان حسین علیہ السلام لیا ہے ۔"؛پھر اس کے بعد آپ سجدہ شکر سے سر اٹھا کر عرض پرواز ہوئَے ؛ "پالنے والے تو ابراہیم بن مالک اشتر کی ہر حال میں حفاظت فرما اور دشمنوں کے مقابلے میں ہمیشہ اں کی مدد کرتا رہ اور انہیں ایسے امور کی توفیق عطا فرما جو تیری مرضی کے مطابق ہوں اور جن سے تو راضی ہو اور ان کو دنیا و آخرت میں بخش دے" ۔
عمر بن سعد نے کربلا میں بے شمارجنایتیں انجام دیں ، امام حسین علیہ السلام کو ان کے بچوں ، بھائیوں اور ساتھیوں کے ساتھ شھید کیا ، امام حسین علیہ السلام نےاس کے سلسلے میں فرمایا : تجھےکیا ہوگیا ہے ، خدا تجھے بہت جلد تیرے بستر پر قتل کرے اورمحشر کے دن ھرگز تیری بخشش نہ کرے ، خدا کی قسم امیدوار ہوں سرزمین عراق کا ایک دانہ گندم بھی تجھے نصیب نہ ہو۔
قاتلین کربلا کا سردار «عمر بن سعد بن ابی وقاص» نو ربیع الاول کو جناب مختار کے ہاتھوں ھلاک ہوا .
عمر، سعد بن ابی وقاص کا بیٹا سن 23 هجری میں پیدا ہوا ۔
یہ وہ انسان ہے جس نے جنگ صفین کی حکمیت کے زمانے میں جب سپاه امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (علیه السلام) اور معاویه لعنت اللہ علیہ کے درمیان اختلاف دیکھا تو اپنے باپ کو خلافت کیلئے اکسانے کی کوشش کی مگر سعد بن ابی وقاص نے قبول نہیں کیا ۔
اس کا شمار ان لوگوں میں سے کیا جاتا ہے جنہوں نے «حجربن عدی» کے خلاف گواہی دی کہ حجر نے بلوا برپا کرنے کوشش کی تھی ، حجربن عدی کوامیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (علیه السلام) کے باوفا صحابیوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اسی جھوٹی گواھی کے سبب ابن سعد اور بعض با وفا ساتھی معاویہ لعنت اللہ علیہ کے ہاتھوں «مرج عذراء» میں شھید کردئے گئے۔
ایک روز متقین کے پیشوا امیر المؤمنین علی (علیه السلام) نے عمربن سعد سے اس کی نوجوانی میں فرمایا : عمر تم اس دن کیا کرو گے جس دن خود کو بہشت وجنھم کے درمیان گم دیکھوگے اور اخر جہنم اختیار کرو گے ۔
امیر المؤمنین علی (علیه السلام) کی پیش گوئی سن 60 ھجری میں محقق ہوگئی جب ابن مرجانہ ابن زیاد نے عمرابن سعد کو شھر ری کی حکومت حسین بن علی (علیهما السلام) سے جنگ کی شرط قرار دیا عمر ابن سعد نے ابتداء میں اپنے دوستوں سے اس سلسلے میں مشورہ کیا ، سبھی نے کربلا کے سفر سے اسے روکا مگر حکومت ری کی ہوس نے چار ھزار لشکر کی سپہ سالاری میں تین محرم سال 61 ھجری کو کربلا پہونچا دیا ۔
امام حسین (علیه السلام) نے بارہا وبارہا کربلا میں عمر ابن سعد کو وعظ ونصیحت فرمائی ایک شب امام علیہ السلام نے رات کی تاریکی میں عمر ابن سعد کو ملاقات کی غرض سے بلا بھیجا امام حسین علیہ السلام اور عمرابن سعد دونوں 20 سوار کے ساتھ ایک دوسرے کے روبرو کھڑے ہوئے امام حسین علیہ السلام نے حضرت عباس و علی اکبر (علیهما السلام) کے علاوہ تمام اصحاب سے کہا کہ ذرا فاصلے پر کھڑے ہوں ، عمر ابن سعد نے بھی اپنے بیٹے حفص اورغلام کے علاوہ دوسروں کو کچھ فاصلے پرکھڑے ہونے کا حکم ۔
امام حسین (علیه السلام) نےعمر ابن سعد سے کہا : یا بن سعد ، تجھ پر وای ہو ، کیا تم اس خدا سے جس کی بارگاہ میں لوٹ کر تجھے جانا ہے نہیں ڈرتا ؟ کیا مجھ سے جنگ کرے گا ، جب کہ جانتا ہے میں کس کا بیٹا اور کس کا نواسہ ہوں ؟ اس تبہکار گروہ سے خود کو جدا کرلے اور میرے ساتھ آجا ، کیوں کہ اس طرح تو خداوند متعال سے قریب ہوگا ۔عمر ابن سعد نے جواب میں کہا : ہمیں ڈر ہے کہ میرا گھر اجاڑ دیا جائےگا ۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : میں تیرے گھرکی بقا کی ذمہ داری لیتا ہوں ، عمرابن سعد نے جواب میں کہا : خوف مند ہوں کہ میری جائداد ضبط کر لی جائے گی ۔
امام حسین (علیه السلام) نے فرمایا: میں اپنی حجاز کی دولت سے تجھے اس بھی بہتر دوں گا ۔
عمر ابن سعد نے کہا : میں اپنے اھل وعیال کی بہ نسبت فکر مند ہوں امام حسین علیہ السلام اس گفتگو کے بعد خاموش ہوگئے اور اپ نے عمر ابن سعد کو کوئی جواب نہیں دیا ۔اپ عمر ابن سعد کے پاس سے اس حال میں لوٹے کہ آپ کی زبان پر جملہ تھا : ما لک! ذ بحک اللَّه على فراشک عاجلا، و لا غفر لک یوم حشرک! تجھے کیا ہوگیا ، تیری موت تجھے تیرے بستر پر آ دبوچے گی اورخدا تجھے قیامت کے دن معاف نہ کرے ، خدا کی قسم عراق کا ایک دانہ گندم بھی تجھے نصیب نہ ہوگا ۔
عمرابن سعد نے مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا : اگر اس گندم کو نہ کھا سکا تو اس کے بدلے جو ہی کافی ہے ۔
عمر بن سعد نے کربلا میں بے شمار جنایتیں انجام دیں اورامام حسین علیہ السلام کو ان کے بچوں ، بھائیوں اور ساتھیوں کے ساتھ تہ تیغ کرڈالا ، اس نے سید الشھداء کی شھادت کی بعد اپ کے جسم اطھر پر گھوڑے دوڑانے کا حکم دیا کہ اس حکم کے پاتے ہی دس گھوڑے سوار اپ کے جسم اطھر پردوڑ پڑے. اور گیارہ محرم کو اھل حرم کو اسیر کرکے اپنے کشتہ ہای نجس کو دفنا کر امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے جسم اطھر کو بےگور و کفن چھوڑ کر کوفہ کی جانب روانہ ہوگیا ۔
آخر کار جناب مختارکے قیام کے بعد جناب مختار کے غلام کے ہاتھوں اپنے گھر میں مارا گیا اور اس کے بعد اس کا بیٹا حفص ھلاک ہوا اور اپنے باپ کے ساتھ جہنم واصل ہوا ۔
یہ وہ دن ہے جس دن زہرا کونین [س] کے دل کو کسی قدر سکون پہنچا ہو گا اور اپنے لال کے قاتل کی موت پر اظہار مسرت کیا ہو گا لہذا اسے عید زہرا کے عنوان سےجانا جاتا ہے۔
جناب حنفیہ نے ابن زیاد ، عمر سعد ، حسین بن نمیر اور شمر زی الجوشن وغیرہ کے سروں کو امام زینُ العابدین علیہ السلام کی خدمت میں ارسال فرمایا ، اُن دنوں حضرت مکہ معظمہ میں ہی مقیم تھے ۔ حضرت کی خدمت میں اُن ملعونوں کے سر پہنچے اور آپ کی نگاہ اُن سروں پر پڑی ، آپ علیہ السلام نے فوراً سجدہ شکر میں اپنا سر رکھ دیا اور بارگاہ احدیت میں عرض کی ، " پالنے والے میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے ہمارے دشمنوں سے انتقام لیا " ۔ پھر سجدے سے سر اٹھا کر آپ علیہ السلام نے فرمایا " خدا مختار کو جزائَے خیر دے کہ اُس نے ہمارے دشمنوں کو قتل کیا" ۔جس وقت ابن زیاد کا سر آپ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا آپ ناشتہ تناول فرما رہے تھے ۔ اُن سروں کو دیکھ کر آپ نے سجدہ شکر کیا پھر سر اٹھا کر فرمایا کہ " خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے میری وہ دعا قبول کر لی جو میں نے دربار کوفہ میں کی تھی جب میرے پدر بزگوار کا سر طشت میں رکھا ہوا تھا اور اُس وقت ابن زیدا ملعون ناشتہ کر رہا تھا " یعنی خداوندا مجھے اُس وقت تک موت نہ دینا جب تک مجھے ابن زیاد ملعون کا کٹا ہوا سر نہ دکھا دے" ۔اس کے بعد حضرت زینُ العابدین علیہ السلام نے داخل خانہ ہو کر مخدرات عصمت و طہارت سے فرمایا کہ اب لباس ماتم تبدیل کرو ، آنکھوں میں سرمہ لگاو ، بالوں میں کنگھی کرو ۔ چنانچہ آپ کے ارشاد کے مطابق اہل حرم نے عمل کیا ۔امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد سے آج تک اہلبیت رسول صلی اللہُ علیہ و آلہ وسلم میں نہ کسی نے سرمہ لگایا تھا ، بالوں میں تیل ڈالا تھا ۔
۹ربیع الاول اس لحاظ سے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ ۹ ربیع الاول سن 260 ھ کو حضرت حجت قائم آل محمد حضرت صاحب ُ العصر والزمان نے امامت کا منصب سنبھالا ۔السلام ُ علیک یا صا حبُ آلعصر والزمان عجل اللہ ُ تعالٰی فرجہ،
No comments:
Post a Comment