ہم شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ، اس زمانے میں تنہا قابل اعتبار راستہ، آیات قرآن،احادیث پیغمبر[ص] اور روایات آئمہ اطہار (ع) میں منحصر ہے۔اس درمیان مسلمانوں کا ایک گروہ " حسبنا کتاب اللہ" کا نعرہ لگاتا ہے اور معتقد ہے کہ قرآن انسان کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے کافی ہے معمولی سی دقت اور تامل سے اس نظریہ کا باطل ہونا واضح ہو جاتا ہے۔خدا وند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم۔[1]ہم نے اس قرآن کو تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے لیے وضاحت کر و جو کچھ ان کی طرف نازل ہوا ہے۔اس آیت میں وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن کی تبیین و تفسیر صرف پیغمبر اکرم [ص]کے ذریعے ہونا چاہیے۔ اس آیت کی بنیاد پر قرآن کا صرف نازل ہونا پیغمبر کی تفسیر کے بغیر کافی نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ جو کچھ پیغمبر قرآن کی تشریح میں بیان فرمائیں گے خود قرآن کی طرح ہمارے لیے حجت ہو گا۔ اور قرآن کی ہی طرح ہمارے لیے قابل اعتبار ہو گا۔اب جب پیغمبر اکرم [ص] کی بات ہمارے لیے حجت ہے اور اس کی پیروی اور اطاعت کرنا ہمارے لیے ضروری ہے تو ہمیں توجہ کرنا چاہیے کہ پیغمبر [ص] کے دستورات میں سے ایک دستور ہمارے لیے یہ ہے کہ ہم ان کے اہلبیت (ع) کی طرف رجوع کریں ۔ اس سلسلے میں پیغمبر اسلام سے مختلف روایتیں نقل ہوئی ہیں کہ جن میں ایک معروف اور مشہور ترین حدیث ، حدیث ثقلین ہے کہ شیعہ اور سنیوں نے متعدد اسناد کے ساتھ اسے نقل کیا ہے۔ اس حدیث میں پیغمبر اکرم [ص]فرماتے ہیں:انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی و انھما لن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا۔ [2]میں تمہارے درمیان دو گراں قیمت چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک کتاب خدا دوسرے میرے اہلبیت۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے۔ جب تک تم لوگ ان دونوں سے متمسک رہو گے گمراہ نہیں ہو گے۔اس روایت کی رو سے پیغمبر اسلام [ص]کے علاوہ آئمہ اطہار (ع) بھی قرآن کے مفسر ہیں اور ان کی باتیں بھی سنت رسول کی طرح ہمارے لیے حجت ہیں۔ہم انہیں نکات کو مد نظر رکھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام قیامت تک انسان کی تمام ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے ۔ ہم اگر چاہیں اپنی زندگی کو قرآن کے سانچے میں ڈھالیں قرآن کو اپنی زندگی میں محور قرار دیں لیکن سنت رسول[ص] اور آئمہ معصومین کی سیرت کو نظر انداز کردیں تو دین کے پہلے مسئلہ یعنی نماز میں ہی سرگرداں رہ جائیں گے نماز کو ہی ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کر پائیں گے اس لیے کہ قرآن میں تو صرف نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن نماز کا طریقہ کیا ہے قرآن خاموش ہے۔ اس کی تفصیلات اور جزئیات حتیٰ روزانہ نمازوں کی تعداد اور رکعات کو بھی قرآن نے نہیں بیان کیا ہے۔ اسی وجہ سے اگر ہم صرف قرآن کو کافی سمجھیں گے اور پابندی سے اپنے اس نعرے" حسبنا کتاب اللہ " پر عمل پیرا رہیں گے تو ایک بھی واجب اور فرض حتیٰ نماز تک کو ادا کرنے سے عاجز ہو جائیں گے۔اور اسی طرح سے یہ بھی یاد رہے کہ اسلامی احکام کے استنباط اور انکشاف میں صرف سنت پیغمبر(ص) کو کافی نہیں جانا جا سکتا۔ آئمہ اطہار(ع) کی احادیث کو نظر انداز کر کے اسلام کھوکھلا ہو جائے گا اور اس کے بہت سارے احکام اوردستورات ہمارے لیے مجہول رہ جائیں گے اور ان کے استنباط کے لیے سرگرداں پھریں گے اور ہماری ضرورتیں جو اسلامی احکام سے وابستہ ہیں پوری نہیں ہوں گی۔ اس بات کی قدر اس وقت معلوم ہو گی جب اہل سنت کے مصادر کی طرف نگاہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ تمام روایتیں جو اہل سنت نے پیغمبر اکرم [ص] سے نقل کی ہیں ہزارروایتیں بھی نہیں ہیں۔ واضح ہے کہ ہزار روایات کے ذریعے کتنے شرعی مسائل کا استنباط کیا جاسکتا ہے یقینا ہمارےمسائل صحیح ڈھنگ سے حل نہیں ہوں گے ۔ہمیشہ شرعی مشکلات میں گرفتا رہیں گے۔ جیسا کہ اہلسنت اسی مشکل میں گرفتار ہیں۔ہم شیعہ معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص)کے بعد بارہ معصوم اماموں نے کہ جو پیغمبر (ص)کے جانشین ہیں ۲۵۰ سال تک عالم بشریت کی ہدایت کی ہے انہوں نے دین کے ستونوں کو استحکام بخشا ہے اور اسلام کے اصول اور فروع کو تبیین کیا ہے انہوں نے مختلف طور و طریقوں سے الٰہی حکمت اور تدبیر کے ساتھ اسلامی احکامات کو سماج میں نافذ کیا ہے اور اپنے خاص اصحاب کے ذریعے ان کی حفاظت کی ہے۔ اسی وجہ سے آج اہل تشیع کے پاس معارف الٰہیہ کے ذخائر موجود ہیں جو قرآن اور سنت پیغمبر میں منحصر اور انہیں تک محدود نہیں ہیں۔ بلکہ آئمہ معصومین (ع) اور اہلبیت رسول [ص] کی تعلیمات بھی انکے ساتھ ضمیمہ ہوتی ہیں۔ ہم انہیں منابع پر بھروسہ کر کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ہر زمانے کی ضروریات کو دین کے ذریعے پورا کر سکتے ہیں۔ حالانکہ باقی اسلامی فرقے ۲۵۰ سال کی الٰہی تعلیمات سے محروم ہیں۔ ان کے پاس صرف وہی ایک ہزار پیغمبر [ص] کی روایتیں ہیں کہ جن میں سے اکثر کی صحت قابل تردید ہے۔ علاوہ از ایں ، خود اہلسنت کےد رمیان بھی بہت سارے مطالب نقل کرنے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ یہ اختلاف حتیٰ ان چیزوں کے اندر ہے جنہیں پیغمبر اسلام ۲۳ سال لوگوں کے سامنے انجام دیتے رہے ہیں ۔ پیغمبر اسلام اتنا عرصہ لوگوں کے سامنے وضو کرتے رہے ہیں لیکن ان کی رحلت کے بعد ہی اختلاف ہو گیا کہ وضو کیسے کرتے تھے؟ ۲۳ سال تک لوگوں کے درمیان ان کی آنکھوں کے سامنے نماز پڑھتے رہے ہیں لیکن ان کی رحلت کے بعد مسلمانوں کو یہ یاد نہیں رہا کہ پیغمبر ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے یا بند کر کے۔ جی ہاں، جب اتنے سادہ اور عام البلویٰ مسائل کا یہ حال ہے تو جو مسائل عوام الناس کے سامنے بیان نہیں ہوئے بلکہ صرف کچھ خاص لوگوں درمیان بیان کئے گئے ان کا کیا حال ہو گا۔یہاں پر امام معصوم کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے کہ امام معصوم در حقیقت نبوت کو مکمل کرنے والا ہوتا ہے۔ اگر آئمہ معصومین (ع)نہ ہوتے تو پیغمبر اکرم[ص] کی رسالت نتیجہ خیز نہ ہوتی اور جو چیز زیادہ اس بات کی اہمیت بڑھا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ صاحب عصمت و طہارت ہیں اور پیغمبر اسلام [ص]کی احادیث کو نقل کرنے اور سمجھنے میں ذرہ برابر خطا کے مرتکب نہیں ہوتے۔آئمہ معصومین(ع) کا خدا دادی علم ، عصمت کے ساتھ ساتھ دوسری اہم خصوصیت ہےکہ جو ان کے سنت پیغمبر اور شریعت محمدی کی حفاظت کرنے کے استحقاق کو قوی کرتی ہے اور انہوں نے اسی بنا پر اسلام کے ستونوں کو اتنا مستحکم اور مضبوط بنا دیا کہ ہزاروں سال بعد بھی ان میں کوئی لغزش پیدا نہیں ہو سکتی ۔ البتہ اس درمیان شیاطین بھی بے کار نہیں بیٹھے رہے، انہوں نے بھی احادیث اور من گھڑت واقعات نقل کر کے مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کیا اور حد الامکان کوشش کی کہ پیکر اسلام پر کاری ضربتیں لگائی جائیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو پایا کہ اس عمل کے ذریعے دین کی بنیاد لڑکھڑا جائے اور اسلام اصلی راستے سے منحرف ہو جائے۔ اگر اشتباہات پائے جاتے ہیں کہیں نقص و کمی ہے تو وہ صرف بعض فرعی اور جزئی مسائل میں ہے۔ اصل دین میں کوئی خدشہ وارد نہیں ہو سکتا۔بہر حال اگر چاہتے ہیں کہ قرب الی اللہ کے بہترین راستے کو پہچانیں تو ہمیں چاہیے کہ کتاب و سنت کی طرف رجوع کریں معرفت دینی اور تکامل انسانی حاصل کرنے کے لیے جس بھی دوسرے راستے کا انتخاب کریں گے ضرور انحراف کا شکار ہوں گے حالانکہ قرآن کریم کی نورانی آیات پیغمبر اکرم[ص] اور آئمہ معصومین (ع) کی گراں بہا روایات اور احادیث کا عظیم سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ ہم کسی دانشمند یا مورخ کی باتوں کو سند کے طور پر پیش کریں کہ جو اسلام کے دشمن ہیں۔ اپنے اتنے قیمتی منابع اور ماخذ کو چھوڑ کر غیروں کے منابع سے نقل کرنے کی کیاضرورت ہے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں پیش آنے والے مسائل اور صدر اسلام کے مسلمانوں کی غفلتیں اس بات کا سبب بنی ہیں کہ تاریخ اسلام میں بہت سارے مسلمان صراط مستقیم کو پانے سے محروم رہے ہیں۔
[1] نحل،۴۴
[2] بحار الانوار، ج۳۵، ص۱۸۴، باب ۴، روایت۲
ماخذ: در جستجوی عرفان اسلامی، مصباح یزدی
No comments:
Post a Comment