Sunday, 23 February 2014
حکام اور ان کے فرائض
نرمی کے مظاہرنرمی اور مدارات کے مظاہر دلنشین ہوتے ہیں ، جو حکمرانوں کے اقوال اور افعال سے نمایاں ہوتے ہیں ۔(الف) حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی زبان پر قابو رکھیں، اور ہمیشہ تہذیب سے آراستہ گفتگو کریں اور مسخرہ و مذاق سے اجتناب کریں۔(ب) ہر وقت اپنی رعایا کے حق میں ہمدردی کا رویہ رکھیں اور ان کے دکھ و آلام کا احساس کریں ۔ اگر ان کے لئے کسی خطرے یا تکلیف کا احساس کریں تو اس کے علاج اور دفاع میں جلدی کریں ۔ ان کی تکلیفوں کو آسان کریں اور ان کی مدد کریں ۔(ج) حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی رعایا کو مختلف اقسام کی تکلیفوں اور مشقتوں سے تحفظ مہیا کریں، جو ان کی بدبختی اور درماندگی کا باعث ہو سکتے ہیں ۔نرمی کے آثارنرم رویہ اختیار کرنے کے پاکیزہ اور خوشگوار آثار مرتب ہوتے ہیں جو حکام اور رعایا دونوں کے لئے بھلائی اور بہتری کا باعث ہوتے ہیں ۔ اس طرح رعایا کے دلوں میں حکمرانوں کی محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ ان کے مقاصد کے حصول کے لئے تعاون پر کمربستہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح رعایا منافقت اور چاپلوسی کی لعنت سے بھی نجات پاتے ہیں ۔ مگر ظالم اور جابر حکومت ہو تو وہ عوام چار و ناچار منافقت میں مبتلا ہوتے ہیں اور ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں ۔ اسی لئے خداوند عالم نے اپنے پیارے رسول کی نرمی اور ہمدردی کی وجہ سے قرآن کریم میں ان کی تعریف فرمائی ہے۔ سورہ آل عمران آیت105میں ارشاد ہوا :” خدا نے اپنی رحمت کی بناءپر تمہارے دل کو نرم بنایا۔ اگر تم ترش رو اور دل کے سخت ہوتے تو لوگ تمہارے ارد گرد سے فرار ہو جاتے۔“اپنے مددگاروں کی چھان بین کریںحاکم ذاتی طور پر یہ استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ رعایا کے امور کی تنظیم اور بہبودی کے عمل کو استقلال دے سکے اور ان کی ضروریات اور اہمیتوں سے مطلع ہو سکے۔ اس بناءپر اسے مددگاروں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے جو اس کام میں اس کی مدد اور تعاون کر سکیں اور اس کے مقاصد کے حصول میں ممدومعاون بن سکیں حکمرانوں کے یہ مددگار اور تعاون کرنے والے ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور اچھی یا بری صفات و خصائل کے حامل ہونے کی بناءپر حکمرانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اس لئے حکمرانوں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ایسے معاونین اور مددگاروں کو منتخب کریں جو اچھی صلاحیتوں کے حامل ہوں ۔ عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھیں ، انہیں سعادت سے ہمکنار کر سکیں اور ان کی خواہشات کا احترام کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ عوام کے مصالح کے خلاف اپنے ذاتی مفادات اور انا کی تسکین کی خاطر کام کریں اور رعایا کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں۔گورنروں اور عملے کا محاسبہافراد اپنے منصب اور اختیارات کی وجہ سے خود سراور خودپسند ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کولوگوں سے برتر سمجھتے ہیں اور ان پر ظلم و تعدی کرتے ہیں ۔ لوگوں کی خدمت کو اپنا فریضہ نہیں سمجھتے ہیں ۔ اس لئے حکمرانوں کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عملے ، کارکنوں اور ملازموں پر کڑی نظر رکھیں۔ ان کے اچھے کاموں اور اچھی کارکردگی کی قدر کریں اور بری حرکتوں کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دیں ، تاکہ افراد اپنے معاشرتی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں اور عوام میں بھی عزت و کرامت کا شعور پیدا ہو جائے اگر ایسا نہ کیا جائے تو معاشرے سے عدل و انصاف ختم ہو جائے گا اور لوگ دغا، سفارش، رشوت، چاپلوسی اور خوشامد وغیرہ کے ذریعے اپنے امور کو پورا کرنے پر مجبور ہوں گے۔ حکمرانوں کا فریضہ ہے کہ اپنی عوام کو ان تمام لعنتوں سے آزاد کریں ۔عوام کی سعادتحاکم اپنی ذمہ داریوں کی بناءپر عوام کا امین اور نگہبان ہوتا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ ان کی رعایت کرے اور انہیں اپنی مہربانیوں سے نوازے اور پورے معاشرے کے لئے مادی اور معنوی سعادتوں کے حصول کی کوششیں کرے۔ اسے چاہیے کہ وہ معاشرے میں امن و امان اور عدل و انصاف پھیلانے کی کوشش کرے۔ معاشرے کی علمی ، اخلاقی اور سماجی بنیادوں کو ترقی کی طرف لے جائے، علم کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے اور تمام اقتصادی پہلوﺅں میں ترقی کی سعی کرے۔ صنعت، زراعت اور تجارت کے جدید اصولوں کے ذریعے اپنے عوام کو ترقی کی طرف لے جائے۔ جدید اور طبعی وسائل کو بروئے کار لائے اور ہر ممکن طریقے سے تمام شعبوں میں ہر ممکن ترقی کی کوشش کرے۔ اسی طرح سے حکمرانوں اور رعایا کے درمیان خلوص و محبت کے رشتے استوار ہوں گے اور عوام کے دلوں میں حکمرانوں کے لئے جگہ ہوگی اور وہ ہر وقت ان کا ذکر اچھے الفاظ سے کریں گے۔اسی طرح افراد کے حقوق بھی معاشرے کی ترقی کا باعث ہوتے ہیں ۔ وہ اس طرح کہ اگر معاشرہ افراد کے حقوق کا تحفظ کرے تو پورے معاشرے میں کشائش ہوگی اور امن و امان کا دور دورہ ہوگا۔حاکم کے رعایا پر حقوقعادل حکمران عوامی معاشرے کے مدار کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے عظمتوں سے ہمکنار کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ وہ اپنی رعایا کو عظمت و بزرگی سے ہمکنار کرتا ہے اور ان کا امین اور نگہبان ہوتا ہے جب کہ وہ خود بھی معاشرے کے اجزاءمیں سے ایک جز ہوتا ہے اور اس کی بنیادی حیثیت سے اسے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے حکمرانوں اور رعایا کے درمیان ہمدردی اور مہربانی کے روابط کا ہونا ضروری ہے۔ حکمران رعایا کی فلاح و بہبودکے حقوق ادا کرتا ہے اور انہیں ان کے مقاصد سے ہمکنار کرتا ہے۔ اس کے زیر سایہ عوام آزادی، کشائش اور سکون کی دولت پاتے ہیں۔ اسی لئے جہاں عوام کے حقوق حکمرانوں پر ہوتے ہیں وہاں عوام پر بھی حکمرانوں کے حقوق ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک پر لازم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کریں اور اپنے فرائض کو ادا کریں ۔حضرت امیر المومنین ؑ نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے رعایا اس وقت تک خوشحال نہیں ہو سکتی جب تک حاکم صالح نہ ہوں۔ اور حاکم اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتا جب تک رعایا اس کے احکام کی تعمیل میں ثابت قدم نہ ہو۔ جب رعایا اپنے حکام کا حق ادا کرے۔ اور حکام رعایا کے حقوق کی رعایت رکھیں تو حق عزت پاتا ہے اور ان کے درمیان دین کے رشتے قائم ہو جاتے ہیں اور عدالت کے نشانات برقرار رہتے ہیں اس طرح رسول اکرم کی سنتیں جاری ہوں گی، زمانہ سدھر جائے گا، بقاءسلطنت کی امیدیں پیدا ہوں گی اور دشمنوں کی امیدیں مایوسی میں بدل جائیں گی۔ لیکن جب حکمران رعایا پر غالب آجائیں اور ان پر ظلم ڈھانے لگیں گے تو ہر بات میں اختلاف ہوگا، ظلم کے نشانات ابھر آئیں گے، دین میں فساد بڑھ جائیں گے اور دینی راستے ترک کئے جائیں گے۔ خواہشات نفسانی پر عمل عام ہوگا۔ احکام دین معطل ہوں گے، نفسانی بیماریاں پھیل جائیں گی، حقوق کو ٹھکرانے اور باطل اعمال پر عمل کرنے سے کوئی وحشت محسوس نہیں ہوگی۔ اس وقت نیک لوگ ذلت کا شکار ہوں گے اور بدکار معززبن جائیں گے اور بندوں پر خدا کا شدید عذاب ہوگا۔(نہج البلاغہ حکمرانوں کے حقوق رعایا پر)اطاعتحکمرانوں کا ایک حق رعایا پر یہ ہے کہ رعایا اللہ کی خوشنودی کے امور میں حکمران کی اطاعت کریں، کیوں کہ خالق کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں اور جب رعایا یا خلوص دل کے ساتھ حکمران کی اطاعت کرتی ہے تو حکمرانوں کو تقویت ملتی ہے اور وہ ان کے آلام اور ضرورتوں کا احساس کرتا ہے اور ان کی خواہشات اور آرزوﺅں کی تکمیل کرکے ان کی سعادت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن جب رعایا حکمرانوں کی نافرمانی کرتی ہے تو یہ حکمرانوں کی کمزوری اور رسوائی کا سبب بنتا ہے اور اس کے غیظ و غضب کے اثرات خود رعایاپر پڑتے ہیں ۔ وہ ان کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کرتا ہے اور ان کے مقاصد اور اہداف تشنہ تکمیل رہتے ہیں ۔حضرت امام موسیٰ بن جعفر ؑ نے اپنے شیعوں کو حکمرانوں کی اطاعت کا یوں حکم فرمایا ہے:” اے گروہ شیعہ تم اپنے حکمرانوں کی اطاعت ترک کرکے اپنے اتحاد کو کمزور نہ کرو۔ اگر حکمران عادل ہے تو اللہ سے دعا کرو کہ اس کا سایہ تمہارے سروں پر قائم رہے۔ اگر ظالم و جابر ہے تو اس کی اصلاح کے لئے خدا سے دعا مانگو کیوں کہ حکام کی اصلاح میں ہی تمہاری اصلاح موقوف ہے ، اور عادل حکمران تو تمہارے لئے بمنزلہ مہربان باپ کے ہے۔ اس کے لئے وہی پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو اور جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو اس کے لئے بھی ناپسند کرو۔(البحار کتاب العشرہ صفحہ 218بروایت امالی)حکمرانوں کا ہاتھ بٹاناحکمران چاہے کتنی ہی طاقت اور اختیارات رکھتے ہوں اکیلے سارے نظام کو درست کرنے سے قاصر ہیں ۔ وہ عوام کے مفادات اور حقوق ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے مگر یہ کہ عوام بھی اپنے مصالح کی خاطر ان کا ہاتھ بٹائیں ان کے اختیارات کی پشت پناہی کریں، ان کو تقویت پہنچائیں اور ہر ممکنہ مادی و معنوی کوششوں میں ان کی مدد اور تعاون کریں تاکہ معاشرے میں ایک دوسرے کے تعاون سے امن و امان اور فراخی کا دور دورہ ہو۔خیر خواہیاکثر حکمران حکومت کے نشے میں سرکشی اور طغیان پر اتر آتے ہیں ۔ رعایا پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں ۔ ان کی آزادی کو سلب کرلیتے ہیں اور ان کی ہتک حرمت اور بے عزتی کرنے لگتے ہیں ۔ یوں انہیں ذلت و توہین سے دو چار کرتے ہیں ۔اس وقت دانشوروں اور علمائے امت پر لازم ہوتا ہے کہ انہیں اس کا احساس دلائیں اور نصیحت کرکے سیدھے راستے پر قائم رکھیں ۔ اگر وہ بات مان لیں اور رویہ درست کریں تو صحیح ہے ۔ بصورت دیگر ان کے خلاف کوئی مناسب اقدام کرکے معاشرے کی اصلاح کی جائے۔حدیث میں وارد ہوا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اپنے آبائے کرام کی سند سے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا:” بادشاہ روئے زمین پر اللہ کا سایہ ہے جو ہر مظلوم کی جائے پناہ ہوتا ہے۔ پس ان میں سے اگر کوئی عدل و انصاف سے کام لے تو وہ اجر کا مستحق ہوگا اور عوام کو اس پر شکر کرنا چاہیے اور اگر ان میں سے کوئی ظلم کرے تو اس پر عذاب ہوگا اور عوام کو صبر کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو جائے۔“ (البحار کتاب العشرہ ص214)موجودہ زمانے میں زندگی کے اسالیب مختلف ہیں اور اصلاح کے وسائل کا بھی یہی حال ہے۔ اسی لئے موجودہ متمدن حکومتوں کی طرف سے اخبار، رسائل اور جرائد کے ذریعے حکمرانوں پر تنقید کی اجازت ہوتی ہے۔ کہ وہ حکمرانوں کو ان کی غلطیوں اور عوام کی ناراضگیوں سے آگاہ کریں ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment