" عصار بن المصطلق الشامی " کہتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور حسین بن علی علیہما السلام سے میری ملاقات ہویی. ان کے حسن و جمال اور ہیبت و وقار نے مجہے شدید مرعوب و متاثر کیا یہ دیکہ کر میرے دل میں بغض و حسد کا وہ شدید جذبہ جاگ اٹہا جو ان کے اور انکے والد کے لئے میرے دل میں پہلے سے موجود تہا پس میں نے ان سے مخاطب ہوا اور طنزیہ طور پر کہا" اپ تو ابوتراب کے بیٹے ہین "( بنو امیہ کے ہوا خواہوں کو مولا علی.ع. کیخلاف جب کہنے کو کچہ اور نہ ملا تو اپکو بطور طنز " ابوتراب" کے نام سے پکارا کرتے تہے. حالانکہ اس میں مذمت کا کویی پہلو نہیں. بلکہ یہ اپکا فخر ہے کہ اپ بزبان رسالت ابوتراب .ع. کہلائے ) یہ سن کر اپ عليه السلام نے فرمایا" ہاں میں ہی ابو تراب .ع. کا بیٹا ہوں " یہ سن کر میں نے وہیں اپ اور اپکے والد پر سب وشتم کرنا شروع کیااور جب میں خاموش ہوا تو اپ نے میری طرف شفقت و رحمت اور ہمدردی کی نگاہ سے دیکہا.پہر اپ نے سورہ اعراف کی ان آیات کی تلاوت فرمایی «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم > خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (199) وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (200) إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (201) وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ (202)(اے محمدﷺ) عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلو . بلاشبہ جنہوں نے تقوی اختیار کیا جب ان کا سامناکسی شیطانی گروہ سے ہوجایے اور وہ اسے وسوسہ میں مبتلاء کرنے لگیں تو وہ فورا ذکر خداکرنے لگتے ہیں .( لیکن ) ان (کفار) کے بھائی انہیں اس گمراہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں اور (اس میں کسی طرح کی) کوتاہی نہیں کرتے"
پہر اپ عليه السلام: نے فرمایا «خَفِّض عليكَ أستغفرُ اللهَ لي ولك)" اپنا غصہ جہاڑ دو مین اللہ سے تمہارے اور اپنے حق مین استغفار طلب کرتا ہوں . اگر تم مدد کے طالب ہو تو ہم تمہاری مدد کرینگے .اگر تم ہمارے مہمان بننا چاہتے ہو تو ہم تمہاری مہمان داری پر امادہ ہین . اور اگر تم راستہ بہول گیے ہو تو ہم راہ صواب کیطرف تمہاری رہنمائی کردیتے ہین. " عصام" کہتا ہے . اپنی بد اخلاقی کے جواب مین جب میں نے حسین .ع. کا یہ عظیم تحمل دیکہا تو شرم کے مارے میں زمین میں گڑ سا گیا.اپ نے میرے چہرے پر ندامت کے اثار دیکہے تو فرمایا " آج تم پر کویی سرزنش ( ملامت ) نہیں ہے . کویی بات نہین اللہ تمہیں معاف کرے بیشک وہ بہترین رحم کرنے ولا ہے " پہر اپ عليه السلام نے پوچہا" کیا تم اہل شام مین سے ہو؟"مین نے اثبات میں جواب دیا تو اپ نے یہ محاورہ کہا ( شِنْشِنَةٌ أعْرِفُها من أخزم " یعنی یہ وہ سلوک ہے جو " اخزم" سے انکی اولاد کو منتقل ہوہی ہے یعنی یہ اہل شام کی عادات مین سے ہے جو انہین بنو امیہ سے منتقل ہویی ہے. (اس ضرب المثل کے پیچہے ایک قصہ ہے جو کبہی اور بیان کرینگے) پہر اپ نے فرمایا " اللہ ہمین اور تمہین سلامتی سے نوازے بتاو تمہاری کیا حاجت ہے؟ ان شا اللہ تم اپنے لئے ہمارے پاس اپنے گمان سے بہی زیادہ موجود پاوگے" عصام کہتا ہے مجہے لگا کہ زمین مجہ پر شرمندگی کے سبب اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی ہے اور اسوقت میں چاہ رہا تہا کہ کاش کہ زمین شق ہوجاتی اور میں اس مین دہنس جاتا پس مین نے اپ سے عذر خواہی کی اور وہاں سے نکل ایا . جب مین ان کے پاس داخل ہوا تو ان کے والد اور ان سے زیادہ اہل زمین میں کسی سے عداوت نہ رکہتا تہا لیکن جب میں وہاں سے نکلا تو رویے زمین پر ان سے اور ان کے والد سے بڑہ کر کویی شخص میرے نزدیک محبوب نہ تہا
No comments:
Post a Comment