سوال : جنابِ عالی ! مخالفین کہتے ہیں : شیعہ معصومین (ع) کی ولایتِ تکوینی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ معصومین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ امورِ تکوینیہ جیسے چاہیں بجا لائیں . انہیں اس کے لئے خدائی مشیعت کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ عقیدہ صریحاً شرک ہے . اس کے متعلق آپ کا نظریہ کیا ہے ؟
جواب : میرے علم کے مطابق دنیا میں ایک بھی شیعہ عالمِ دین ایسا نہیں گزرا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ انسان (بشمول انبیاء اور اوصیاء) کو ذاتی طور پر امورِ تکوینی سر انجام دینے کا اختیار حاصل ہے .
اور اگر بالفرض کسی کونے کھدرے سے ایسا شخص نکل بھی آئے تو اس کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ کسی بھی مذہب کا نظریہ جمہور علماء سے اخذ کیا جاتا ہے , کسی ایرے غیرے سے اخذ نہیں کیا جاتا .
ولایت تکوینی سے مراد یہ ہے کہ معصوم (نبی ص و امام ع) کا ارادہ ارادہِ الٰہی کے تحقق پذیر ہونے کی بنیاد پر ہوتا ہے .
مثلاً:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام مبروص اور پیدائشی اندھوں کو تندرست کیا کرتے تھے . شفاء دینے والا اللہ تعالٰی ہے مگر اس میں عیسٰی (ع) کے ارادے کا عمل دخل بھی ہے .
اس کی ایک اور مثال یوں ملاحظہ فرمائیں:
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے : "اللہ ہی جانداروں کو وفات دیتا ہے" (الزمر : 42)
یہ آیتِ مجیدہ واضح کر رہی ہے کہ وفات دینا خدا کا فعل ہے مگر قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں ارشادِ خداوندی ہوتا ہے :
آپ کہہ دیں کہ تمہیں وہ موت کا فرشتہ وفات دے گا جو تم پر موکل کیا گیا ہے (السجدہ : 11)
یہی حال زراعت کا ہے . اصلی زارع اللہ ہے لیکن اس میں کسان اور زمین کا بھی عمل دخل شامل ہے . مریض کو شفاء بخشنے والا اللہ تعالٰی ہے لیکن اس میں دعا اور دوا کی بھی اپنی اہمیت ہے . بارش برسانے والا خدا ہے لیکن نمازِ استسقا کی بھی اپنی اہمیت ہے . معصومین جو کچھ امورِ تکوینی سر انجام دیتے ہیں وہ خدا کی عطا کردہ قوت سے
ہی ایسا کرتے ہیں لہٰذا اس میں کسی طرح کے شرک کا کوئی شائبہ نہیں ہے .
(احسن الجوابات جلد 1 صفحہ 201 , آیت اللہ سید جعفر مرتضٰی عاملی مد ظلہ العالٰی)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر میں ایک گاڑی بنا سکتا ہوں اور میں نے اپنی اجازت اور اختیار سے گاڑی بنانے کی اجازت دوسرے بندے کے سپرد کرے تو اس کا بھی خالق میں ہوا ؟ دوسری بات ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات اور صفات میں خالق ہے تو صفت خالقیت میں اگر اللہ تعالی کسی ہستی کو خلق کی اجازت دیتا ہے تو اس صفت میں وہ اللہ کے صفت میں شریک ہوا تو کیا یہ شرک کے زمرے میں نہیں آتا۔
ReplyDeleteکیونکہ ہم کہتےہیں کہ اللہ تعالی وحدہ لاشریک ہے اس میں وحدہ لاشریک صفت اور ذات دونوں شامل ہے۔
تکوین اور تفویض میں کیا فرق ہے اگر چہ آپ کے بقول تکوین میں اللہ کی مرضی اور اجازت شامل ہوتی ہےتو اس میں تفویض کا شائبہ موجود ہے کیونکہ تفویض کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی طاقت اور صلاحیت کسی ہستی کے سپرد کرنے کے بعد دوبارہ اس صلاحیت کو اللہ تعالی انجام دینے کی طاقت نہ رکھتےہوں۔
ولایت تکوینی کی چار صورتین ہوسکتی ہین جن مین قابل قبول اور بعض قابل قبول نہین ہین :
Delete1⃣خلقت اور کائنات مین تخلیق:یعنی خداوند عالم اپنے کسی بندے یا فرشتے کو اتنی طاقت دیدے کہ دوسرے جہانون کو پیدا کرے یا ان کو صفحہ ھستی سے مٹادے تو یقینا یہ کوئی محال کام نہین ہے ،کیونکہ خداوند عالم ہر چیز پر قادر ہے اور کسی کو بھی ایسی قدرت دے سکتا ہے لیکن تمام قرآنی آیات اس بات کی گواھی دیتی ہین کہ نظام خلقت خداوند عالم کے ہاتھ مین ہے ،چاہے وہ زمین وآسمان کی خلقت ہو یا جن وانس ،فرشتون کی خلقت ہو یا نباتات ،وحیوان ،پہاڑ ہون یا دریاء،سب کے سب خدا کی قدرت سے پیدا ہوئے ہین کوئی بندہ یا فرشتہ خلقت مین شریک نہین ہے اسی وجہ سے تمام مقامات پر خلقت کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے اور کسی بھی جگہ یہ نسبت غیر خدا کی طرف نہین دی گئی اسی بناء پر زمین ،آسمان، انسان حیوان کا خالق صرف ہی صرف خدا ہے
2⃣ولایت تکوینی فیض پہنچانے کے معنی مین :یعنی خداوند کی طرف سے اپنے بندون یا دوسری مخلوقات تک پہنچنے والی امداد ،رحمت،برکت اور قدرت ،انہین اولیاء اللہ اور خاص بندون کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے جیسے شھر مین ایک بجلی کی رئیسی تارلائٹ پہنچانے مین ایک ہی اصلی تار ہوتی ہے یہ اصلی وائر مرکز سے وہ بجلی لیتی ہے اور اس کو تمام جگہون تک پہنچادیتی ہے ،اس کو واسطہ در فیض تعبیر کیا جاتا ہے
یہ معنی بھی عقلی لحاظ سے محال نہین ہے جس کی مثال خود عالم صغیر یعنی انسان کا جسم ہے کیونکہ صرف دل کی شہ رگ ہی کے ذریعہ تمام رگون تک خون پہنچتا ہے تو پھر عالم کبیر مین بھی اس طرح ہونے مین کیا ممانعت ہے ؟
لیکن اس کے اثبات کیلئے بیشک برھان اور دلیل کی ضرورت ہے اور اگر ثابت بھی ہوجائے تو بھی اذن خداوندی سے ہی ہوگا
3⃣ولایت تکوینی محدود ۔معین محدود مین :جیسے مردون کو زندہ کرنا لاعلاج بیمارون کو شفایاب کرنا
قرآن مجید مین اس ولایت کے نمونے بعض انبیاء علیھم السلام کے بارے مین ملتے ہین ۔اس لحاظ سے اس ولایت تکوینی کی قسم نہ صرف عقلی لحاظ سے ممکن ہے لیکن بہت سے تاریخی شواھد موجود ہین
4⃣ولایت بمعنی دعا:یعنی اپنی حاجتون کو خدا کی بارگاھ مین پیش کرے اور اس سے طلب کرے کہ فلان کام پورہ ہوجائے مثلا پیغمبر یا امام دعا کرین اور خدا سے طلب کی ہوئی دعا قبول ہوجائے ولایت کی اس قسم مین بھی عقلی اور نقلی کوئی مشکل نہین