ایک سوال ھمیشہ ذھن میں ابھرتا ہے کہ ، مسلمان ھمیشہ تفرقہ کا شکار کیوں رھے؟ مسلمان ھمیشہ یہ کیوں کہتے نظر آتے ہیں کہ دنیا کو مسخر کرنا ھمارا کام نہیں ہے کفار کی روز بروز ترقی ھمیں مرعوب نہیں کر سکتی؟ اس کے جواب تو بہت سے ہوں گے لیکن ایک طالب علم کے لئے اتنا کافی ہے کہ دین اسلام کے متعلق مسلمانوں کے مختلف تصورات و تشریحات نے مسلمانوں کو ایک خول میں قید کر دیا ، کوئی اسلام کو صرف ظاھری عبادات میں مقید کر دیتا ہے، تو کوئی تصوف کے نام پر اللہ ھو اللہ ھو کی صداؤں میں اصل دین کو تلاش کرتا ہے، کوئی خلافت و حکومت کو کل اسلام سمجھتا ہے تو کوئی سیاست کو دین میں داخل کرنے کو ظلم سمجھتا ہے، کوئی زھد و تقویٰ کے نام پر عورتوں کا استحصال کرتا ہے، جدید علوم کے حصول کو کفر گردانتا ہے تو کوئی دین کی اتنی جدید شکل پیش کرتا ہے جس میں پردے کا تصور ایک خرافاتی عقیدہ سمجھا جاتا ہے اور عورتوں کو مردوں کے مثل قرار دے کر آذادی نسواں کا نعرہ بلند کیا جاتاہے،
ظاھر ہے اگر اسلام نے ایک واضح تصور اسلام پیش نہیں کیا تو ان تمام تصورات کے وجود میں آنے کا الزام اسلام کے سر ہی جاتا ہے، چونکہ اسلام ھر عیب سے منزہ و پاکیزہ ہے لہذا ھمیں معلوم ہونا چاھئیے کہ اسلام نے مسلمانوں میں پیدا ہونے والے ان خودساختہ نظریات کے سد باب کے لئے کیا لائحہ عمل پیش کیا ،
ھم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ص کے دور میں ایک ایسا معاشرہ دنیا کے سامنے آیا جس میں عورتوں کی عزت ، غلاموں کے حقوق کی پاسداری، غیر مسلم انسانوں کی مذھبی آذادی، ترقی و تہذیب و تمدن کی پاسداری اپنے کمال پر دکھائی دی۔۔ اور آپ ص نے اس اندیشے کے سبب کے میرے بعد اُمت گمراھی کا شکار ہو جائے گی اور اسلام کے نام پر خودساختہ نظریات جنم لیں گے حدیث ثقلین کی صورت میں ایک ابدی حل پیش کیا ، جب ھم الفاظ حدیث پر نظر کرتے ہیں تو ھمارے ان تمام سوالات کے جوابات ھمیں با آسانی میسر آجاتے ہیں ،
ترجمہ حدیث: میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ( یہ جملہ وضاحت کرتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں رسول اللہ ص سے منسوب تھیں جبھی اُنھیں نے فرمایا میں تم میں چھوڑے جا رہا ہوں ۔۔ حدیث آگے بڑھتی ہے ’’ کتاب اللہ ، اور میری عترت اہلبیت ع ۔ یہاں نشاندھی ہو گئی کہ ایک خاموش شے ہے قران اور ایک زندہ انسانی صورت میں اہلبیت ع پھر بیان فرمایا کہ جو ان سے متمسک رہا وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگا ، یعنی جب یہ سمجھ نہ آئے کہ حق کس جانب ہے تو ثقلین سے رجوع کرو کیونکہ یہاں گمراھی نہیں ہے اور فہم حدیث یہ ہے کہ جہاں ان کے علاوہ کسی اور سے تمسک ہے وہ سراسر گمراھی ہے اور کچھ نہیں ، آگے حدیث تعین کرتی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے ( یعنی ان میں تفرقہ نہیں ہے اور جن میں تفرقہ نہ ہو وہ ہی تفرقے کا سدباب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں )،،، حدیث کے اختتامی الفاظ ہیں
’’ حتی کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے یعنی بعد از رسول اللہ ص یا قیام قیامت عرصے کا تعین بھی فرما دیا گیا ، کیونکہ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ حوض کوثر کا تعلق قیامت سے ہے،
صدر اسلام سے آج تک اس حدیث پر سوائے ایک گروہ کے کسی نے عمل نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ مسلمان تفرقے کا شکار ہو گئے ، بعد از رسول اللہ ص خلافت کا مسئلہ کھڑا ہوا اُس کا حل بھی قرآن و اہلبیت ع میں منحصر تھا لیکن اُسے نظر انداز کیا گیا ، اُس کے نتائج امت مسلمہ آج تک بھگت رھی ہے ، دین کی من مانی تاویلات و تشریحات نے بہت سے معاملات کو مبہم و غیر واضح کر دیا ، یہاں تک کے نماز جیسی عظیم عبادت کے طریقہ ادائیگی پر بھی مسلمان متفق نہ ہو سکے، طلاق کے مسئلے میں ایسی خطا کھائی کہ اسلام کے نام پر ایک بالکل غیر اسلامی طریقہ امت مسلمہ کی اکثریت نے اپنا لیا ، آگے چل کر مختلف آئمہ کی ذاتی آراء کو فقہی مسائل کا حل سمجھا جانے لگا ، دوسری جانب اہلبیت ع کے پیروکار اصل دین کی پیروی کرتے ہوئے اس منزل پر پہنچے کہ کفار کو اگر کسی کے اسلام سے خوف ہے تو مذھب اہلبیت ع کے اپنائے ہوئے اسلام سے ہے ، جس میں جدید ڈرون طیاروں کو کفر کی ایجاد کہہ کر جان نہیں چھڑائی گئ بلکہ اُسے اُسی جدید ٹیکنالوجی سے زمین پر اتارنے کی صلاحیت پیدا کی گئی، اُنھون کتاب خانوں کو آگ لگانے کو اسلامی روش کے منافی قرار دیتے ہوئے لاکھوں کتابوں پر مشتمل لائیبریریاں بنائیں ، دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کے حصول کو بھی لازم قرار دیا ، اُن کے مدارس کسی بھی انٹرنیشنل یونیورسٹیز سے کم نہیں، وہ باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرنا جانتے ہیں، اُنھیں قتل نہیں کرتے بلکہ اُن کے ذھنوں کو مسخر کر لیتے ہیں ، یہی وہ اسلام ہے جس کا درس امام جعفر الصادق ع نے دیا جابر بن الحیان جیسے شاگرد دنیا کو دے کر بتا دیا کہ اسلام ایک آفاقی مذھب ہے جو تمام علوم کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اسلام کا صحیح تصور وہ ہی ہے جسے قرآن و اہلبیت ع نے واضح کیاہے ۔مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل تمسک بالقرآن و اہلبیت ع ہے ۔۔۔
والسلام احقر العباد
طارق عثمانی
No comments:
Post a Comment