سوال نمبر (١) شیخین دور اندیش شخصیتیں تھیں لیکن پیغمبر اکرمۖ؟
جو چیز ہر مسلمان کے ذہن کو جھنجوڑتی ہے وہ یہ ہے کہ اکثر مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمۖ دنیا سے رخصت ہوگئے اور اسلامی معاشرہ کی رہبر ی کے لیے اپنے بعد کسی کو جانشین معین نہیں کیا ! جبکہ تاریخ میں غور وفکر کرنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ابوبکر و عمر نے اپنے بعد امت کو تنہا نہیں چھوڑا اور امت اسلامی کے لیے رہبر معین کرکے گئے ، یقینا دوراندیشی کا لازمہ بھی یہی ہے!۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم پیغمبر اکرمۖ کو ہر اعتبار سے تمام مسلمانوں سے برتر و افضل مانتے ہیںتو کیا وہ ابوبکر و عمر کے برابر بھی تدبیر نہیں رکھتے تھے اور کیا اسلامی معاشرہ کی رہبری کی حساسیت اور اسلام کے مستقبل کے لیے ایک لازمی تدبیر کو بھی نہ سمجھ سکے!۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اگر اسلامی معاشرے اور نظام کے لیے رہبر و خلیفہ کا معین کرنا ایک اچھا اور پسندیدہ فعل ہے تو پھر کیوں بعض مسلمان معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے لیے کوئی جانشین معین نہیں کیا ، اور اگر یہ کام ناپسندیدہ ہے تو شیخین کیوں اپنے بعد کے لیے جانشین کی فکر میں رہے؟
سوال نمبر(٢) تعیین خلیفہ کے سلسلے میں قرآن کریم کی کیا نظر ہے ؟
وہ لوگ کہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اکرمۖ اپنے بعد کے لیے کسی کو خلیفہ بناکر نہیں گئے اور یہ اہم کام لوگوں کے ذمہ چھوڑ گئے تو انہوںنے اب تک قرآن کریم کا بغور مطالعہ کیا ہے جبکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :
(انی جاعلک للناس اماما) (١)
بیشک میں نے آپ کو لوگوں کا امام بنایا
(یا داؤد انا جعلناک خلیفة فی الارض) (٢)
اے داؤد ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ قرار دیا
(واجعل لی وزیرا من اھلی ) (٣)
حضرت موسی نے فرمایا : خدا وندا میرے لیے میری اہل میں سے وزیر قرار دے
ان آیات اور انہی کی طرح دوسری آیات پر غور کرنے سے اور خصوصا کلمہ( جعل ) کہ جو نصب و تعین کے معنی میں ہے اور ان تمام آیات میں اس فعل کی نسبت خداوندعالم کی جانب دی گئی ہے ، واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم کی نظر یہ ہے کہ رسول اکرمۖ کے لئے جانشین و خلیفہ خداوندعالم معین فرماتاہے نہ کہ عوام الناس۔
تو کیا یہ عقیدہ رکھنا کہ خلیفہ پیغمبر کو معین کرنا لوگوں کی ذمہ داری ہے صریح قرآن کی مخالفت نہیں ہے ؟
ــــــــــــــــــــــ
(١) سورہ بقرہ آیت ١٢٤
(٢) سورہ ص آیت ٢٦
(٣) سورہ طہ آیت ٢٩
سوال نمبر (٣) کیا بیعت کے مسئلے میں اختیا ر شرط نہیں ہے؟
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے چشم پوشی کرتے ہوئے اور دوسرے مدارک کو بھی نہ دیکھتے ہوئے ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ رسول خدا ۖ کا خلیفہ معین کرنا لوگوں کی ذمہ داری ہے تو کیا لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بیعت پر مجبور کرنے سے بیعت صحیح ہوگی۔
امام بخاری ، عایشہ سے نقل کرتے ہوئے واقعہ سقیفہ کو یوں نقل کرتے ہیں:
لقد خوف عمر الناس(١)
عمر نے لوگوں کو ڈرایا دھمکایا
اس عبارت سے کم از کم جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ابوبکر کی بیعت کرنے میں آزاد و با اختیار نہ تھے اور بیعت ڈر و خوف میں بیعت انجام دی ۔
اب انصاف سے فرمائیے کہ کسی کو کسی کام کے لیے مجبور کرنے سے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ شخص اس کام میں آزاد ہے اور اس نے اپنی واقعی رائے کو پیش کیا ہے؟ اور کیا اس طرح کے حالات بنانا اور طاقت کے بل بوتے پر انتخاب کرنا ، لوگوں کے آزاد انتخاب کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے؟
ــــــــــــــــــــــ
(١)
صحیح بخاری ،ج٥، ص٦٧،حدیث١٩٠،کتاب فضائل اصحاب النبیۖ ، فضائل ابی بکر.
سوال نمبر (٤) حضرت امیر المؤمنین علی کی نظر کس قدر معتبر ہے ؟
بر فرض محال ابوبکر کی خلافت پر اگر اجماع بھی ہوگیا ہو تو کیا آپ کو معلوم ہے کہ اہل سنت کے ایک عظیم عالم دین ابن حزم نے کیا تحریر کیا ہے ؟!
ولعنة اللہ علی کل اجماع یخرج عنہ علی بن ابی طالب و من بحضرتہ من الصحابة (١)
ہر اس اجماع پر خدا کی لعنت ہو جس میں حضرت علی بن ابی طالب اور ان کے طرف دار صحابہ موجود نہ ہوں ۔
مگر کیا آپ کو یہ علم نہیں ہے کہ حضرت علی ، سقیفہ کے سرسخت ترین مخالفین میں سے تھے۔
ـــــــــــــــــــ
(١) المحلی، ابن حزم ، ج٨، ص٣٩٨، مسئلہ ١٧٧٠، کتاب الوصایا ، اقوال المتاخرین فی حکم الوصیة بعتق اکثر من الثلث۔
سوال نمبر (٥) بیعت کس قیمت تک لی جاسکتی ہے ؟
خلافت کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ حضرت علی سے مشورہ نہ لیا گیا اور آپ کو کسی طرح کی دخالت کا موقع نہ دیا گیا بلکہ امام بخاری کے استاد ، جناب ابن ابی شیبہ کے بقول ،انہوں نے اپنی کتاب المصنف میں اعتراف کیا ہے کہ حاکم گروپ نے ، خاندان وحی و نبوت کے ساتھ بہت سختی سے برتاؤ کیا وہ لکھتے ہیں :
''جس وقت خلیفہ دوم کو یہ اطلاع ملی کہ حضرت علی اور کچھ دیگر افراد نے حاکم گروپ پر اعتراض کرتے ہوئے حضرت فاطمہ زہرا کے بیت الشرف میں تحصن کیا ہے (پڑاؤ ڈالدیا) تو وہ در سیدہ پر آئے اور قسم کھائی کہ اگر اس گھر میں موجود لوگوں نے ابوبکر کی بیعت نہ کی تو فاطمہ کے گھر کو آگ لگادوں گا ''(١)
اب ظاہر ہے کہ جس دور میں پیغمبر اکرم ۖ کے اہل بیت کے ساتھ یہ برتاؤ ہوتو دوسروں کو مخالفت کی کیا جرئت ہوسکتی ہے ؟
ـــــــــــــــــ
(١) المصنف ، ابن ابی شیبہ، ج٨، ص٥٧٢، کتاب المغازی باب ماجاء فی خلافة ابی بکر۔
سوال نمبر (٦) حضرت فاطمہ زہرا کے خانہء اقدس کو آگ لگانا بھی مناسب ہے !؟
اس مقام پر تمام مسلمانوں کو اشک بہانا چاہئے ، ابن عبد ربہ اپنی کتاب عقد الفرید میں لکھتے ہیں:
'' حضرت علی، عباس اور زبیر ، حاکم گروپ پر اعتراض کے صورت میں حضرت فاطمہ زہرا کے بیت الشرف میں جمع ہوگئے ، ابو بکر نے ،عمر کو ان لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ ان کو بیعت کے لیے گھر سے باہر نکالے اور عمر کو حکم دیا کہ اگر وہ لوگ بیعت سے انکار و سرپیچی کریں تو ان کو قتل کردینا ، عمر آگ کا شعلہ لے کر حضرت فاطمہ زہرا کے خانہ ء اقدس پر آئے تاکہ گھر کو آگ لگائے حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا اے عمر کیا ہمارے گھر میں آگ لگانے آئے ہو ؟!
عمر نے کہا : ہاں اگر ابوبکر کی بیعت نہ کی ۔(١)
ــــــــــــــــــــ
العقد الفرید، ابن عبد ربہ، ج٥، ص١٢ کتاب العسجدة الثانیة فی الخلفاء و تواریخھم و ایامھم الذین تخلفوا عن بیعة ابی بکر
سوال نمبر (٧) پیغمبر اکرمۖ کے دین کو کن چیزوں سے تقویت ملتی ہے ؟
کیا پیغمبر اکرمۖ کے دین کو تقویت پہونچانے کے لیے آپ کی دختر حضرت فاطمہ زہرا کے گھر کو آگ لگائی جاسکتی ہے؟ یہ وہی گھر ہے کہ جس کے بارے میں علامہ جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر در منثور میں جناب انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں:
قرء رسول اللہ ھذہ الآیة (فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر فیھا اسمہ) فقام رجل فقال ای بیوت ھذہ یا رسول اللہ ؟ قال بیوت الانبیاء فقام الیہ ابوبکر فقال یا رسول اللہ ھذا البیت منھا بیت علی و فاطمة قال نعم من افاضلھا ۔(١)
پیغمبر اکرمۖ نے مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی
یہ پررونق چراغ ان گھروں میں منور ہیں کہ جن کے بارے میں خدا وندعالم نے اجازت دی ہے کہ ان کی دیواروں کو بلند کیا جائے یہ وہ گھر ہیں کہ جن میں صبح و شام نام خدا لیا جاتا ہے۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور معلوم کیا اے رسول خدا یہ کون سے گھر ہیں ؟ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا پیغمبروں کے گھر ۔
اسی وقت ابوبکر کھڑے ہوئے اور کہا اے رسول خدا ۖ کیا علی و فاطمہ کا گھر بھی انہیں میں سے ہے ؟ رسول خدا ۖ نے فرمایا جی ہاں یہ ان سب سے افضل ہے ۔
بلاذری نے عون سے نقل کیا ہے:
ان ابابکر ارسل الی علی یرید البیعة فلم یبایع فجاء عمر و معہ قبس فتلقتہ فاطمة علی الباب فقالت فاطمة یابن الخطاب اتراک محرقا علی بابی ؟ فقال نعم ذالک اقوی فیما جاء بہ ابوک۔(٢)
ابوبکر نے کسی شخص کو حضرت علی کے پاس بیعت کی غرض سے بھیجا لیکن حضرت علی نے بیعت نہ کی تو عمر آگ کا شعلہ لے کر حضرت فاطمہ زہرا کے گھر کے دروازے پر حاضر ہوئے حضرت فاطمہ نے عمر سے فرمایا اے خطاب کے بیٹے کیا آپ ہمارے گھر کو ہمارے اوپر جلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ عمر نے کہا ہاں یہ آپ کے باباجان کے دین کے لیے بہتر ہے اور تقویت پہچانے کے لیے ہے !۔
ــــــــــــــــــــــــ
(١) در المنثور ، سیوطی، ج٥، ص٩١، سورہ نور آیت ٣٦کے ذیل میں۔
(٢) الانساب الاشراف ،ج٢، ص٢٦٨، امر السقیفہ۔
سوال نمبر (٨) کیا دھمکیا ں پوری ہوگئیں ؟
افسوس اس بات پر ہے کہ یہ دھمکیا ں پوری ہوگئیں اور طاقت کے زور پر در فاطمہ کو کھولدیا گیا ۔
طبری نے لکھا ہے کہ ابوبکر نے اپنی وفات کے وقت کہا :
فوددت انی لم اکشف بیت فاطمة(١)
میری خواہش تھی کہ میں کاش خانہ فاطمہ کو نہ کھولتا ۔
کیا اس آرزو بھرے جملے کے بعد بھی صحیح ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ صرف دھمکیا ں تھیں اور کوئی ہجوم نہیں کیا گیا ۔
اگر خلیفہ دوم کے ذریعہ خلیفہ اول کے حکم کے مطابق کوئی اقدام نہیں ہوا تو پھر ابوبکر وقت وفات اس قدر کیوں اس کام سے مضطرب و پریشان تھے۔
ــــــــــــــــــــ
(١) تاریخ طبری ، ج٢،ص٦١٩، حوادث سال١٣ہجری ذکر اسماء قضاتہ و کتابہ و عمالہ علی الصدقات۔ عقد الفرید ، ابن عبد ربہ، ج٥، ص١٩، العسجدة الثانیة خلافة ابی بکر ، استخلاف ابی بکر لعمر۔
سوال نمبر (٩)حضرت فاطمہ زہرا رات میں کیوں دفن ہوئیں ؟
اس روایت میں غور و فکر کرنے سے کچھ اسرار فاش ہوتے ہیں امام بخاری تحریر فرماتے ہیں :
فلما توفیت دفنھا زوجھا علی لیلا و لم یوذن بھا ابابکر و صلی علیھا۔(١)
جس وقت حضرت فاطمہ زہرا کا انتقال ہوا تو آپ کے شوہر نامدار حضرت علی نے آپ کو رات میں دفن فرمایا اور آپ ہی نے نماز جنازہ پڑھی اور ابوبکر کو خبر تک نہ دی گئی ۔
کبھی اس بارے میں فکر کیا کہ پیغمبر اکرم ۖ کی اکلوتی بیٹی اور آپ کی تنہا یادگار کو غریبانہ و مظلومانہ رات کی تاریکی میں کیوں سپردخاک کیا گیا اور ابوبکر کہ جو ظاہرا مسلمانوں کے خلیفہ اور حاکم وقت تھے ، تشیع و نماز جنازہ میں شرکت کی خبر تک نہ دی گئی !
کیا واقعا اگر حضرت فاطمہ زہرا خلیفہ اور ان کے طرفداروں سے رنجیدہ خاطر نہ ہوتیں اور خلیفہ سے ناراض دنیا سے نہ جاتیں تو کیا پھر بھی حضرت علی آپ کو شبانہ دفن فرماتے ؟۔
ــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ،ج٥، ص٢٥٢، حدیث ٧٠٤ کتاب المغازی اواخر باب غزوة خیبر۔
سوال نمبر (١٠) کیا عمر، ابوبکر کے خلیفہ بننے کو صحیح سمجھتے تھے ؟
عمر بن خطاب ، ابوبکر کے خلیفہ ہونے کے طریقے کو صحیح نہیں جانتے تھے اور اس طرح خلیفہ ہونے کو ممنوع اعلان کیا ہے۔ امام بخاری خلیفہ دوم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
انما کانت بیعة ابی بکر فلتة ۔۔۔ ولکن اللہ وقی شرھا۔۔۔ من بایع رجلا من غیر مشورة من المسلمین فلایبایع ھو والذی بایعہ تغرة ان یقتلا۔(١)
عبارت کا مطلب یہ ہے کہ
ابوبکر کی بیعت ناگہانی اور بغیرمشورہ کے انجام پائی ہے خدا وند عالم نے اس کے شر سے محفوظ رکھا ، اس کے بعد اگر کوئی شخص مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر کسی کی بیعت کرے تو اس کی بیعت باطل ہے اور بیعت کرنے والے اور بیعت لینے والے دونوں کو قتل کردیا جائے گا ۔
اب سوال یہی ہے کہ اگر یہ بیعت صحیح و مشروع ہے تو پھر بیعت لینے والے اور بیعت کرنے والے کیوں قتل کیے جائیں ؟ اور اگر مشروع و صحیح نہیں ہے تو ابوبکر نے ایسا کیوں کیا ؟
یہ مطلب بھی قابل غور ہے کہ خلیفہ دوم نے ان جملات سے اپنی حکومت پر بھی انگلی اٹھائی ہے اس لیے کہ ابوبکر نے اپنے بعد عمر کو تعین کرتے ہوئے مسلمانوں سے مشورہ نہیں لیا۔
ـــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج٨، ص٥٨٧، کتاب المحاربین من اھل الکفر و الردة ،باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت۔
سوال نمبر (١١) کیوں حضرت علی نے فورا ہی بیعت نہ کی ؟
صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ حب تک حضرت فاطمہ زہرا حیات رہیں حضرت علی نے ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی! (١)
حضرت علی اگر حاکم گروپ کو صحیح و صالح سمجھتے تو کیوں بیعت کرنے سے گریز فرماتے؟
ـــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری، ج٥، ص٢٥٢، حدیث ٧٠٤، کتاب المغازی باب غزوة خیبر ۔
صحیح مسلم ، ج٣، ص١٣٨، حدیث ٥٢، کتاب الجھاد و السیر باب قول النبی لا نورث ما ترکناہ صدقة۔
تذکر : یہ روایت صحیحین کی ہے جبکہ مذہب شیعہ کا عقیدہ یہ کہ حضرت علی نے بعد وفات پیغمبر ۖ مادام العمر کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔
سوال نمبر (١٢) حضرت فاطمہ زہرا کو کس شخص نے اذیت پہونچائی ؟
صحیح بخاری میں عایشہ سے روایت بیان کی گئی ہے :
فوجدت فاطمة علی ابی بکر فھجرتہ فلم تکلمہ حتی نوفیت (١)
حضرت فاطمہ زہرا ابوبکر پر غضب ناک ہوئیں اور اس سے ناراض ہو کر قطع تعلق کرلیا اور جب تک قید حیات رہیں ابوبکر سے گفتگو نہیں کی۔
یہ وہی فاطمہ ہیں کہ جن کے بارے میں مسلم اپنی صحیح میں حضرت رسول اکرم ۖ سے روایت نقل کرتے ہیں :
فاطمة بضعة منی یوذینی من آذاھا (٢)
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت کی گویا مجھ کو اذیت دی ہے ۔
اب جبکہ حضرت فاطمہ زہرا کو اذیت پہنچانا خود حضرت رسول اکرم کو اذیت پہونچانا ہے تو آئیے دیکھیے قرآن کریم اس شخض کے بارے میں کہ جو رسول اکرمۖ کو اذیت پہونچائے کیا کہتا ہے ۔
قرآن کریم کا ارشاد گرامی ہے :
(ان الذین یوذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا و الآخرة و اعدلھم عذابا مھینا)۔(٣)
وہ لوگ کہ جو خدا اور رسول کو اذیت کرتے ہیں ان پر خداوندعالم دینا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے بہت ذلت و خواری کا عذاب مھیا کررکھا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا کہ جو تمام مسلمانوں کے اعتراف سے نص اور آیة تطہیر کے مطابق معصوم ہیں تو کیا ممکن ہے وہ اپنی خواہش نفس کو مدنظر کسی سے قطع تعلق فرمائیں اور اس سے غضبناک و نارض دنیا سے جائیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری، ج٥، ص٢٥٢، حدیث ٧٠٤، کتاب المغازی باب غزوة خیبر ۔
(٢) صحیح مسلم ، ج٤، ١٩٠٣ ، حدیث ٩٤، کتاب الفضائل باب مناقب فاطمہ۔
(٣) سورہ اخزاب ، آیت ٥٧۔
سوال نمبر (١٣) کونسا راستہ اختیار کرنا چاہیئے؟
حضرت رسول اکر مۖ کا ارشاد گرامی ہے :
ان رائت علیا قد سلک وادیا و سلک الناس وادیا غیرہ فاسلک مع علی فانہ لن یخرجک من ھدی۔(١)
اگر آپ نے دیکھا کہ علی کسی ایک راستہ پر گامزن ہیں اور دوسرے افراد ان کے خلاف کسی اور راستے پر ہیں تو آپ علی کی راہ کو اختیار کریں چونکہ علی آپ کو ہدایت و حق سے باہر نہیں کرسکتے۔
اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا وہ لوگ کہ جو مسئلہ خلافت میں حضرت علی کو چھوڑ کر دوسروں کی راہ پر چلے ، ہدایت یافتہ ہیں ؟۔
ــــــــــــــــــــــــ
(١) تاریخ بغداد ، خطیب بغدادی ، ج١٣،ص١٨٧، حدیث٧١٦٥، شرح حال معلی بن عبد الرحمن الواسطی۔
تاریخ دمشق ، ابن عساکر،ج٤٢،ص٤٧٢،حدیث ٤٩٣٣، شرح حال علی بن ابی طالب۔
سوال نمبر (١٤) کیا حضرت کی خلافت کی تبلیغ حضرت رسول اکرم ۖ کے ہمراہ نہیں ہوئی؟
حن حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اکرم نے اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین معین نہیں فرمایا اور مسئلہ خلافت کو لوگوں کے ذمہ چھوڑگئے تو کیا انہوں نے کبھی اپنی معتبر کتابوں میں مراجعہ کیا ہے ؟
محمد بن جریر طبری اور دوسرے مورخین نے نقل کیا ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرمۖ کو پہلی ہی مرتبہ تبلیغ اسلام کا حکم ہوا تو آپ نے اسی روز اپنی نبوت کے ساتھ حضرت امیرالمؤمنین علی کی خلافت کا بھی اعلان فرمایا ۔
طبری پیغمبر اکرم ۖ سے نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہے :
فایکم یوازرنی علی ھذا لامر علی ان یکون اخی و وصیی و خلیفتی فیکم۔(١)
تم میں سے کون ہے کہ جو اس امر رسالت میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی اور وصی و خلیفہ قرار پائے۔
اس واقعہ میں سوائے حضرت امیرالمؤمنین کے کسی نے مثبت جواب نہ دیا تب رسول اکرم ۖ نے حضرت علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
ان ھذا اخی و وصیی و خلیفتی فیکم
بیشک حضرت علی میرے بھائی اور تمہارے درمیان میرے وصی و خلیفہ ہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــ
(١) تاریخ طبری،ج٢، ص٦٣ ذکر الخبر عما کان من امر نبی اللہ۔
سوال نمبر (١٥) کیا پھر بھی معتقد ہوکہ پیغمبر اکرمۖ نے کسی کو اپنا خلیفہ معین نہیں فرمایا؟
احمد ابن حنبل نے روایت بیان کی ہے کہ رسول اکرم ۖ نے حضرت علی سے فرمایا :
انہ لا ینبیغی ان اذھب الا و انت خلیفتی ۔(١)
یہ مناسب نہیں ہے کہ میں لوگوں کے درمیان سے چلا جاؤں اور آپ میرے خلیفہ نہ ہوں (یعنی میں اپنی زندگی ہی میں آپ کو اپنا خلیفہ بناکر جاؤں گا)
ــــــــــــــــــــــ
(١) مسند احمد ابن حنبل ، ج١،ص٣٣١، مسند ابن عباس۔
سوال نمبر (١٦) ایک اہم علامت!
حضرت رسول اکرم ۖ کا ارشاد گرامی ہے :
خلقت انا و علی من نور واحد قبل ان یخلق اللہ تعلی آدم باربعة عشر عام ، فلما خلق اللہ تعلی آدم رکب ذالک النور فی صلبہ فلم یزل فی شٔ واحد حتی افترقا فی صلب عبد المطلب ففیّ النبوة و علی الخلافة۔(١)
میں اور علی ایک ہی نور سے خلق ہوئے ہیں آدم کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے ، اور آدم کی خلقت کے بعد خداوندعالم نے اس نور کو آدم کی صلب میں رکھا پھر ہم مسلسل ایک ہی تھے یہاں تک کہ صلب عبد المطلب میں آکر جدا ہوئے پس مجھ میں نبوت قرار دی گئی اور علی میں خلافت۔
ــــــــــــــــــــــــ
(١) مناقب ابن مغازلی ،ص٨٨،حدیث ١٣٠ باب قولہ کنت انا و علی نورا بین یدی اللہ ۔
فردوس دیلمی، ج٢، ص١٩١، حدیث ٢٩٥٢ باب الخائ۔
سوال نمبر (١٧) ایک اور ثبوت
کیا نہیں سنا ہے کہ حاکم حسکانی اور دوسرے علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ؟:
عن انس قال انقض کوکب علی عھد رسول اللہ فقال النبی انظروا الی ھذا الکوکب فمن انقض فی دارہ فھو الخلیفة من بعدی ، فنظرنا فاذا ھو انقض فی منزل علی بن ابی طالب فقال جماعة من الناس قد غوی محمد فی حب علی فانزل اللہ (والنجم اذا ھوی ، ما ضل صاحبکم وما غوی) (١)
انس کا بیان ہے کہ پیغمبر اکرمۖ کے زمانے میں ایک ستارہ نیچے اترا پیغمبراکرمۖ نے فرمایا اس ستارے کو دیکھو یہ جس کے دروازے پر اتر جائے وہ ہی میرے بعد میرا خلیفہ ہے ، ہم نے دیکھا تو اتفاق سے وہ ستارہ علی بن ابی طالب کے گھر پر اترا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ محمد ، علی کی محبت میں دیوانے ہوگئے ہیں۔ تب یہ آیات نازل ہوئیں۔
ان احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا پھر بھی معتقد ہو کہ پیغمبر اکرمۖ اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر فرماکر نہیں گئے۔
ــــــــــــــــــــــــ
(١) شواہد التنزیل ، حاکم حسکانی ، ج٢، ص٢٧٦،حدیث ١٦٣، سورہ نجم کی آیت نمبر ١کے ذیل میں ۔
کفایت الطالب ، گنجی شافعی ،ص٢٦٠، باب ٦٢۔
مناقب ابن مغازلی ،ص٢٦٦، حدیث ٣١٣، باب قولہ انظروا الی ھذا الکوکب ۔
سوال نمبر (١٨) پیغمبر اکرمۖ کس چیزکی وصیت کرنا چاہتے تھے ؟
عمر بن الخطاب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ رسول اکرمۖ اپنے آخری وقت میں حضرت علی کی خلافت کی تصریح و وضاحت کرنا چاہتے تھے لیکن وہ مانع ہوگئے ۔
ابن ابی الحدید عمر بن الخطاب سے نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہے:
ولقد اراد فی مرضہ ان یصرح باسمہ فمنعت من ذالک اشفاقا و حیطة علی الاسلام ۔(١)
رسول اکرمۖ اپنی عمر کے آخری دور میں یہ چاہتے تھے کہ حضرت علی کی خلافت کے بارے میں وضاحت و تصریح فرمائیں لیکن میں حفظ اسلام اور دلسوزی کی خاطر مانع ہوگیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اور شخص بھی پیغمبراکرمۖ سے زیادہ اسلام ومسلمین کی مصلحت کو سمجھ سکتا ہے ؟
مقام تعجب ہے کہ جو شخص اس قدر اسلام کے لیے دلسوز ہویہاں تک کہ پیغمبراکرم ۖ سے زیادہ اسلام و مسلمین کی مصلحت کو سمجھتا ہو تو شاید وہی حقیقی پیغمبر ہے!!! اور شاید جبرئیل نے وحی پہنچانے میں خیانت کی ہے یہ کہ اس شخص پر وحی نازل کرنے کے بجائے رسول اکرمۖ پر وحی کو لے آئے ہیں !!!؟۔
ـــــــــــــــــــــ
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج١٢،ص٢٠، خطبہ٢٢٣، نکت من کلام عمر و سیرتہ۔
سوال نمبر (١٩) پیغمبر اکرم ۖ کی توہین کی کیا سزا ہے ؟
کیا کبھی سنا ہے کہ پیغمبر اکرمۖ کی زندگی کے آخری ایام میں آپ کے بستر کے نزدیک کیا حادثہ پیش آیا ؟
کیا یہ بھی جانتے ہو کہ اس درد ناک واقعہ کو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے !؟۔
امام بخاری ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : کہ پیغمبر اکرمۖ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں قلم دوات کا مطالبہ فرمایا تاکہ کچھ تحریر فرمائیں جس سے کہ آپ کے بعد امت گمراہ نہ ہوسکے اس دوران عمر بن الخطاب نے کہا : ان النبی غلبہ الوجع و عندنا کتاب اللہ حسبنا ، فاختلفوا و کثر اللغط ،قال قوموا عنی ولا ینبغی عندی التنازع ۔(١)
عمر نے کہا کہ پیغمبر اکرم ۖپر درد کا غلبہ ہوگیا ہے (یعنی ہزیان کہہ رہے ہیں اور آپ کے کلام کا اعتبار نہیں ہے ) اور ہمارے لیے کتاب خدا کافی ہے اس وقت لوگوں میں اختلاف ، توتو میں میں اور سر وصدا بہت زیادہ ہوئی تو رسول اکرم ۖ نے فرمایا میرے پاس سے چلے جاؤ میرے پاس اختلاف کرنا صحیح نہیں ہے ۔
اس واقعہ میں اچھی طرح غور کیجیے اب تک بہت زیادہ تاکید رہی ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرم ۖ کے صحابہ کی توہین کرے اس کا حکم کیا ہے !
تو کیا آج تک کبھی غور کیا ہے کہ جب صحابہ کی توہین کرنے والے کا حکم کفر و نفاق ہے تو اگر کوئی شخص خود پیغمبراکرمۖ کی توہین کرے تو اس کا حکم کیا ہوگا ؟
کیا یہ رسول اکرمۖ کی توہین ہوئی ہے یا امام بخاری جھوٹ بول رہے ہیں ؟
کیا رسول اکرمۖ پر ہزیان کی نسبت دینا توہین نہیں ہے ؟
کیا وہ پیغمبر کہ جس کی خداوندعالم اس طرح تو صیف فرماتا ہے :
وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی(٢)
انکشاف حقیقت ٣٢
یہ اپنی خواہشات نفس کے مطابق کلام نہیں کرتا بلکہ جو کچھ کہتا ہے وہ وحی ہے تو پھر کوئی یہ کہے کہ درد و بیماری کی وجہ سے آپ کا کلام مورد قبول نہیں ہے تو کیا آپ کی نظر میں یہ توہین نہیں ہے ؟
مقام تعجب ہے قرآن کریم پیغمبر اسلام ۖ کے تمام ارشادات کو وحی جانتا ہے لیکن کچھ لوگ آپۖ کے کلام مبارک کو بیماری کی وجہ سے بے اعتبار سمجھتے ہیں ۔
قرآن کریم اوامر و نواہی پیغمبرۖ کی اطاعت کو واجب جانتا ہے لہذا ارشاد ہے :
وماآتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا(٣)
پیغمبر جو کچھ بھی تم کو دیں اس کو لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔
لیکن کچھ لوگ اپنے آپ کو پیغمبرۖ کی گفتگو اورفرمان سے بے نیاز سمجھتے ہیں اور قرآن کو اپنے معاشرے کے لیے کافی سمجھتے ہیں !۔
ـــــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج١، ص١٢٠، حدیث ١١٢، کتاب العلم باب کتابة العلم۔
(٢) سورہ نجم ، آیت ٣ـ٤۔
(٣) سورہ حشر آیت ٧۔
سوال نمبر (٢٠) پیغمبر اکرم ۖ کی وصیت اہم ہے یا وصیت ابو بکر ؟!
ہم جو کچھ صحیح بخاری سے نقل کرچکے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ کے بستر کے کنارے خلیفہ دوم نے پیغمبر اکرمۖ کووصیت کرنے نہیں دی لیکن جس وقت ابوبکر نے وصیت کرنا چاہی تو نہ صر ف یہ کہ منع نہیں کیا بلکہ لوگوں کو ابھارا اور آمادہ کیا کہ خلیفہ رسول کی وصیت کو غور سے سنیں !(١)
مقام شگفت ہے کہ اگر قرآن مسلمانوں کے ہدایت کے لیے کافی ہے اور پیغمبر اکرم ۖ کی وصیت کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو پھریہاں کیوں مسلمان قرآن کے علاوہ ابو بکر کی وصیت کے ضرورت مند ہوگئے؟!
مذکورہ منابع اور اس کے علاوہ بھی تاریخ میں مراجعہ سے ابوبکر کی وصیت کا متن واضح ہے یہ وہی وصیت ہے کہ جس کے منتشر ہونے میں خلیفہ دوم بڑی حرص وطمع کے ساتھ کوشش کررہے تھے !
ابوبکر نے وصیت کی کہ اس کے بعد خلیفہ عمر بن خطاب ہوں اور پیغمبر اکرم ۖ بھی جیسا کہ خلیفہ دوم سے نقل ہوچکا ہے چاہتے تھے کہ آپۖ کے بعد خلیفہ علی بن ابی طالب ہوں اور خلافت کی وصیت فرمائیں۔
کمال ہے جس وقت پیغمبراکرم ۖ حضرت علی کی خلافت کی وضاحت و تصریح کرنا چاہتے ہیں تو ہزیان ہے اور قرآن کافی ہے !۔ لیکن جب ابوبکر عمر کی خلافت کی وضاحت و تصریح کرنا چاہتے ہیں تو نہ ہزیان ہے اور نہ ہی قرآن کافی ہے بلکہ اس وصیت کی تبلیغ اور انتشار بھی ضروری ہے !۔
ــــــــــــــــــــــــ
(١) تاریخ طبری ، ج٢ ، ص ٦١٨ حوادث ١٣ھ۔
تاریخ ابن خلدون ، ج٢، ٨٦ـ٨٥ خلافة عمر۔
سوال نمبر (٢١) خلیفہ معین کرنے کا معیار بیعت ہے یا تعیین یا شوری؟
کیا آج تک کبھی سوچا ہے کہ رسول اکرمۖ کا جانشین کس طرح معین ہونا چاہیے؟
کیا بیعت اور لوگوں کی رائے معیار ہے یا گذشتہ خلیفہ کا تعین و نصب کرنا ، یا پھر شوری کی نظر؟
پس اگر خلیفہ کے تعین میں بیعت عمومی اور اکثر یت کی رائے معیار ہے تو عمر اور عثمان کی خلافت باطل ہے چونکہ یہ دونوں اکثریت کی رائے سے خلیفہ نہیں ہوئے ، بلکہ عمر ابوبکر کی تعیین و نصب سے اور عثمان شوری کی نظر سے خلیفہ بنے ۔
اور اگر خلیفہ کے تعین میں گذشتہ خلیفہ کی تعیین و نصب کرنا معیار ہے تو ابوبکر و عثمان کی خلافت باطل ہے چونکہ دونوں کے دونوں گذشتہ خلیفہ کی تعیین و نصب سے خلیفہ نہیں بنے ۔
اور اگر خلیفہ کے تعین میں نظر شوری معیار ہے تو خلافت شیخین باطل ہے چونکہ یہ دونوں شوری کی رائے و نظر سے خلیفہ نہیں ہوئے۔
لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اتنا اہم کام جیسے رسول اکرم ۖ کی جانشینی بغیر کسی مشخص معیار و ملاک کے انجام پائے کھبی بیعت کے ذریعہ تو کھبی تعیین و نصب کے ذریعہ اور کبھی شوری کی نظر سے!؟۔
سوال نمبر (٢٢) کیا ہمیشہ اہل حق کامیاب ہیں؟
عمر بن الخطاب کا بیان ہے :
ما اختلف امة بعد نبیھا الا ظھر اھل باطلھا علی اھل حقھا(١)
کسی بھی امت میں اپنے نبی کے بعد اختلاف نہیں ہوا مگراس میں اہل باطل ، اہل حق پر کامیاب رہے ۔
اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے سقیفہ کے اختلاف اور ابوبکر وعمرکی کامیابی کے بارے میں کیا توجیہ پیش کرسکتے ہیں؟۔
ـــــــــــــــــــــــ
(١) کنزالعمال ، متقی ہندی، ج١،ص١٨٣، حدیث ٩٢٩، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة۔
سوال نمبر (٢٤) حضرت علی کس قدر عمر کے ارادتمند تھے ؟
جو حضرات حضرت علی اور خلفاء کے درمیان اچھے روابط کے قائل ہیں کیا انہوں نے کبھی صحیح بخاری و صحیح مسلم کا مطالعہ کیا ہے ؟
جیسا کہ مذکور ہے :
فارسل الی ابی بکر ان ائتنا ولا یاتنا احد معک کراھیة لمحضر عمر۔(١)
حضرت علی نے ابوبکر کو بلانے کے لیے بھیجا کہ میرے پاس آؤ اور اپنے ساتھ کسی کو نہ لانا چونکہ آپ عمر کو دیکھنا نہیں چاہتے تھے!۔
ــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج٥، ص٢٥٢، حدیث ٧٠٤ کتاب المغازی باب غزوة خیبر ۔
صحیح مسلم ، ج٣، ص١٣٨٠ ،حدیث ٥٢، کتاب الجھاد و السیر باب قول النبی (لانورث ما ترکنا فھو صدقة)
سوال نمبر (٢٣) کیا حضرت علی کا خلفاء کے ساتھ رابطہ اچھا تھا؟
اس بات پر اصرار کیوں ہے کہ حضرت علی کے خلفاء کے ساتھ اچھے روابط پر زور دیا جائے مگر کیا آپ نہیں جانتے کہ صحیح مسلم میں خلیفہ دوم کے قول سے ایک طولانی روایت کے ذیل میں حضرت علی اور رسول اکرمۖ کے چچا جناب عباس کی نظر ابوبکر و عمر کے بارے میں نقل ہوئی ہے ۔
فقال ابوبکر قال رسول اللہ '' ما نورث ما ترکنا ہ صدقة '' فرائتما ہ کاذبا آثما غادرا خائنا واللہ یعلم انہ لصادق بار راشد تابع للحق ثم توفی ابوبکر وانا ولی رسول اللہ ولی ابی بکر فرائتمانی کاذا آثما غادرا خائنا۔۔۔(١)
عمر نے حضرت علی و جناب عباس سے کہا ابو بکر نے آپ کے لیے پیغمبر اکرمۖ کی حدیث نقل کی کہ ہم پیغمبروں کی میراث باقی نہیں رہتی اور جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے ، لیکن آپ حضرات نے ابوبکر کو جھوٹا ، گنہگار ،مکار اور خائن سمجھا اور ابوبکر کے بعد میں برسرکار آیا اور آپ مجھ کو بھی جھوٹا ، گنہکار ، مکار اور خائن سمجھتے ہو!
تو کیا یہ کلمات اچھے روابط کی نشاندہی کرتے ہیں؟
ــــــــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح مسلم ،ج٣، ص١٣٧٩ حدیث ٤٩، کتاب الجھاد و السیرة باب حکم الفئی۔
سوال نمبر (٢٥) کیا امام بخاری کا بھی خلفاء پر اعتماد ہے ؟
جو حضرات خلفاء راشید ین کے معتقد ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول اکرم ۖ کے خلفاء بالترتیب ابوبکر ، عمر ، عثمان اور حضرت علی فضیلت وکمالات کے حامل ہیں ، کیا انہوں نے کبھی صحیح بخاری کا مطالعہ کیا ہے اس نے ایک حدیث کے ذکر سے اس نظریہ کو باطل ثابت کیا ہے ؟
بخاری ابن عمر سے نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہے :
کنا فی زمن النبی لانعدل بابی بکر احد ثم عمر ثم عثمان ثم نترک اصحاب النبی لانفاضل بینھم ۔(١)
ہم عصر پیغمبرۖ میں کسی کا بھی ابوبکر سے مقایسہ و مقابلہ نہیں کرتے تھے پھر ان کے بعد عمر اور پھر عثمان اور ان کے بعد اصحاب رسول کو چھوڑ دیتے تھے اور کسی کو کسی پر بھی فضیلت نہیں دیتے تھے ۔
اسی طرح امام بخاری نے ایک اور جگہ ابن عمر سے ایک اور روایت نقل کی ہے :
کنا نخیر بین الناس فی زمن النبی فخیر ابا بکر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ۔(٢)
ہم عصر پیغمبرۖ میں اختیار کرتے تو پہلے ابوبکر کو پھر عمر بن الخطاب کو اور پھر عثمان کو انتخاب کرتے تھے ۔
ان دونوں روایتوں میں کہیں بھی حضرت علی کا نام نہیں آیا ہے ۔ جبکہ اہل تسنن حضرات ، حضرت علی کو چوتھے خلیفہ کی حیثیت سے فضیلت دیتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج٥، ص٧٦، حدیث ٢١٦ ، کتاب فضائل اصحاب النبی باب مناقب عثمان ۔
(٢) صحیح بخاری ، ج٥، ص٦٣، حدیث ١٧٨ کتاب فضائل اصحاب النبی فضل ابی بکر بعد النبی۔
سوال نمبر (٢٦) کیا حضرت علی نے اپنے حق کا مطالبہ نہیں کیا ؟
جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت علی کا خلافت میں کوئی حق ہوتا تو کیوں آپ نے اس سلسلے میں کچھ نہ فرمایا ؟ تو کیا انہوں نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کا مطالعہ کیا ہے؟ جہاں پر حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ نے ابو بکر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
ولکنا کنا نری لنا فی ھذا الامر نصیبا فاستبد علینا ۔(١)
امر خلافت میں ہمارا حق تھا لیکن آپ لوگوں نے ہم سے زبر دستی چھین لیا۔
ـــــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری، ج٥ ،ص٢٥٣، کتاب المغازی ، باب غزوة خیبر۔
صحیح مسلم ، ج٣، ص١٣٨٠، حدیث ٥٢، کتاب الجھاد و السیر باب قول النبی (لانورث ما ترکنا فھو صدقة)
سوال نمبر(٢٧) کیا غیر اختیاری عمل ، فضیلت کا حامل ہے ؟
کیا صحابی ہونا امر اختیاری ہے یا نہیں؟ اگر یہ عمل اختیاری نہیں تو پھر کس لیے صحابہ کا کام ایک غیر اختیاری امر کی بناء پر دوسروں کی بنسبت چندین برابر قابل ارزش ہو ؟
امام بخاری نے حضرت رسول اکرمۖ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :
لاتسبو اصحابی فلو ان احدکم انفق مثل احد ذھبا ما بلغ مد احدھم ولا نصفیہ۔(١)
میرے اصحاب کو گالیاں نہ دو چونکہ اگر تم میں سے کوئی بھی احد کے پہاڑ کی برابر بھی راہ خدا میں سونا خرچ و خیرات کرے تو بھی میرے کسی صحابی کے برابر یا اس کی آدھی فضیلت کا بھی حامل نہیں ہوسکتا ۔
کیا یہ اعتقاد حکمت الہی سے سازگاری رکھتا ہے کہ کسی کو ایک غیر اختیاری عمل کی وجہ سے یہ فضیلت دی جائے۔
ـــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج٥، ص٦٨، حدیث ١٩٣، کتاب فضائل اصحاب النبی باب قول النبی ( لو کنت متخذا خلیلا)
سوال نمبر(٢٨) کیا پیغمبر اکرم ۖ کو تنہا چھوڑ دینا مناسب ہے ؟
جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ عادل ہیںاور ان میں سے ہر ایک کی پیروی باعث
ہدایت ہے تو کیا آج تک صحیح بخاری کبھی اس حدیث کو سنا ہے :
عن جابر قال اقبلت عیر و نحن نصلی مع النبی الجمعة فانفض الناس الا اثنی عشر رجلا فنزلت ھذہ الآیة (واذا راؤ تجارة او لھوا انفضوا الیھا و ترکوک قائما) (١)
جابر کہتے ہیں ایک تجارتی قافلہ آیا اور ہم حضرت رسول اکرمۖ کے ہمراہ نماز جمعہ کی برگذاری میں مشغول تھے تو تمام صحابہ سوائے ١٢ افراد کے پیغمبراکرمۖ کو چھوڑکر اس قافلہ کی طرف چلے گئے تب مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔
ـــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج٣، ص١١٩، حدیث ٣١١، کتاب البیوع باب قولہ تعالی(واذا راؤ تجارة او لھوا انفضوا الیھا و ترکوک قائما)
سوال نمبر(٢٩) کیا وہ صحابہ کہ جنہوں نے عایشہ پر تہمت لگائی تھی سچے تھے ؟
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ سچے تھے اور ان کے ہر قول کی بغیر تحقیق کے پیروی کرنی چاہیے ، کیا انہوں نے قرآن کریم کی اس آیت کی قرائت نہیں کی :
(ان الذین جاؤوا بالافک عصبة منکم) (١)
جن حضرات نے عایشہ پر تہمت لگائی ہے وہ خود تم ہی اصحاب میں سے ہیں ۔ تو کیا یہ صحابہ جھوٹے تھے یا سچے ؟ اگر جھوٹے تھے تو عادل نہیں ہیں اور اگر سچے ہیں تو ۔۔۔؟
سوال نمبر(٣٠) کیا بعض صحابہ جھوٹے ہیں یا قرآن کریم؟
قرآن کا ارشاد ہے : (یا ایھا الذین آمنوا ان جاء کم فاسق بنباء فتبینوا)(١)
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلو ۔
اس آیت کے ذیل میں مفسرو محدث حضرات کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ صحابی کے پیغمبراکرمۖ سے جھوٹ بولنے پر نازل ہوئی ۔(٢)
کیا جھوٹ بولنے سے عدالت پرکوئی آنچ نہیں آتی۔
ــــــــــــــــــــــ
(١) سورہ حجرات آیت ٦۔
(٢) تفسیر القرآن العظیم ، ابن کثیر ، ج٤، ص١٨٥، ذیل آیت ٦ سورہ حجرات۔
سوال نمبر(٣١) آیات نفاق سے کون لوگ مراد ہیں ؟
جو حضرات ، حضرت پیغمبراکرم ۖ کے صحابہ کو عادل ، سچے اور اہل بہشت سمجھتے ہیں تو سورہ منافقین اور آیات نفاق کن لوگوں کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔
کیا ان آیات سے مراد ،ان افراد کے علاوہ کوئی اور ہیں کہ جو پیغمبر اکرمۖ کے ارد گرد بیٹھتے اور صحابہ کہلاتے تھے ۔
کیا اب بھی کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرمۖ کے تمام صحابہ کے اعمال و رفتار پر بغیر تحقیق کے اطمینان کیا جائے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
سوال نمبر(٣٢) کون لوگ پیغمبر اکرم ۖ کے قتل کا ارادہ رکھتے تھے ؟
کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ بعض صحابہ ، پیغمبراکرمۖ کے قتل کا ارادہ رکھتے تھے ۔
مسند احمدحنبل(١) اور تفسیر فخر رازی (٢) اور دیگر معتبر منابع میں مراجعہ کیجیے اور دیکھیے کہ کس طرح اس افسوس ناک واقعہ کو بیان کیا گیا ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
(١) مسند احمد بن حنبل ،ج٥، ص٤٥٣، مسند ابی طفیل عامر بن وائلہ ۔
(٢) تفسیر الکبیر ، فخر رازی ، ج١٦، ص١٣٦، سورہ توبہ آیت ٧٤ کے ذیل میں ۔
سوال نمبر(٣٢) کون لوگ پیغمبر اکرم ۖ کے قتل کا ارادہ رکھتے تھے ؟
کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ بعض صحابہ ، پیغمبراکرمۖ کے قتل کا ارادہ رکھتے تھے ۔
مسند احمدحنبل(١) اور تفسیر فخر رازی (٢) اور دیگر معتبر منابع میں مراجعہ کیجیے اور دیکھیے کہ کس طرح اس افسوس ناک واقعہ کو بیان کیا گیا ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
(١) مسند احمد بن حنبل ،ج٥، ص٤٥٣، مسند ابی طفیل عامر بن وائلہ ۔
(٢) تفسیر الکبیر ، فخر رازی ، ج١٦، ص١٣٦، سورہ توبہ آیت ٧٤ کے ذیل میں
سوال نمبر(٣٣) کیا حضرت پیغمبر اکرمۖ کے دستورات سنت نہیں ہیں؟
کیا آپ کو یہ خبر بھی ہے کہ یہی صحابہ کہ جن کے بارے میں آپ اس قدر فضائل بیان کرنے میں افراط کرتے ہیں صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا کارنامہ انجام دیا ، ہجرت کے چھٹے سال پیغمبر اکرم ۖ نے ارادہ کیا کہ عمرہ کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ ہوں لیکن کچھ مصلحت کی بنا پر یہ ارادہ کیا کہ اس عمرہ کی خاطر مکہ میں وارد نہ ہوں اور کفار کے ساتھ صلح نامہ پر دستخط کردیئے۔
رسول خدا کا یہ ارادہ اکثر صحابہ کو ناگوار گزرا چونکہ ان کا ارادہ جنگ کا تھا لہذا جس وقت صلحنامہ پر دستخط ہوگئے تو امام بخاری کی نقل کردہ روایت کے مطابق حضرت پیغمبراکرم ۖ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا:
قوموا فانحروا ثم احلقوا قال فواللہ ما قام منھم رجل حتی قال ذالک ثلاث مرات فلما لم یقم منھم احد دخل علی ام سلمة فذکر لھا مالقی الناس۔(١)
اٹھیے اور اونٹوں کو ذبح کیجئے اور پھر اپنے اپنے سروں کو تراشیے ۔ راوی کہتا ہے قسم بخدا صحابہ میں سے ایک بھی نہ اٹھا یہاں تک کہ رسول اکرمۖ نے تین مرتبہ اپنے فرمان کی تکرار کی اور اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ کوئی اطاعت نہیں کررہا تب آپ ام سلمہ کے پاس تشریف لے گئے اور اس واقعہ کو دل سوزی و درددل کے طور پر ان سے بیان فرمایا ۔
مسلمانو! کیا پیغمبر اکرمۖ کے دستورات و فرامین ، سنت پیغمبرمیںشمار نہیں کیے جاتے ؟
کیوں وہ افرادکہ جو خود کو اہل سنت جانتے ہیں ایسے افراد کی پیروی و فرمانبرداری کرتے ہیں کہ جو خود رسول اکرمۖ کی سنت کا اعتبار نہیں کرتے اور اوامر و دستورات پیغمبرۖ سے سرپیچی کرتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ،ج٤، ص٩٣٢، کتاب الشروط فی الجھاد و المصالحہ مع اھل الحرب۔
سوال نمبر(٣٤) جو شخص پیغمبراکرمۖ کی نبوت میں شک کرے اس کا کیا حکم ہے ؟
کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ خلیفہ دوم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر پیغمبر اسلام ۖ کی نبوت میں شک کیا!؟
امام بخاری صلح حدیبیہ کے واقعہ کو نقل کرتے ہوئے عمر بن الخطاب سے روایت کرتے ہیں۔
فاتیت نبی اللہ فقلت الست نبی اللہ حقا قال بلی قلت السنا علی الحق و عدونا علی الباطل قال بلی قلت فلم نعطی الدنیة فی دیننا اذا قال انی رسول اللہ و لست اعصیہ۔۔۔(١)
میں (عمر بن الخطاب) پیغمبر اکرمۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے عرض کی کیا آپ حقیقتا و واقعا اللہ کے نبی نہیں ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کیوں نہیں
میں نے عرض کی کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ حضرت نے فرمایا ایسا ہی ہے ، میں نے کہا تو پھرکیوں ہم کو ہمارے دین میں حقیر و ذلیل کر رہے ہو؟
اس وقت حضور اکرمۖ نے فرمایا میں خدا کا رسول ہوں اس کی معصیت نہیں کرتا۔
غور کیجئے اگر کوئی شخص پیغمبراکرمۖ کی نبوت پر کامل طور پر یقین رکھتا ہو تو وہ کیا اس طرح شک و تردید کے ساتھ سوال کرے گا ؟۔
خود پیغمبر اکرمۖ کا جواب بھی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ سوال کرنے والا آپ کی رسالت میں شک و تردید میں مبتلا ہے چونکہ آپ نے جواب میں اپنی رسالت کی تاکید فرمائی کہ میں خدا کا رسول ہوں ۔
اور پھر کمال یہ ہے کہ عمر کوپھر بھی رسول اللہ ۖ کے جواب پر اطمینان حاصل نہ ہوسکا اور اسی سوال کو لے کر ابوبکر کے پاس گئے اور وہی سوال ابوبکر سے پوچھنے لگے ۔
فاتیت ابابکر فقلت یا ابابکر الیس ھذا نبی اللہ حقا ۔۔۔ اذا قال ایھا الرجل انہ لرسول اللہ و لیس یعصی ربہ۔
عمر کا بیان ہے کہ میں اس کے بعد ابوبکر کے پاس آیا اور کہا اے ابوبکر کیا یہ شخص واقعا و حقیقتا خدا کا رسول نہیں ہے ، ابوبکر نے کہا کیوں نہیں ۔۔۔ یہاں تک کہ ابوبکر نے مجھ سے کہا
اے مرد وہ خدا کا رسول ہے اور خدا کی معصیت نہیں کرتا۔
جو شخص اس طرح رسول اکرمۖ سے سوال کرے اور جواب پانے کے بعد بھی قانع و مطمئن نہ ہو اور دوبارہ ابوبکر کے پاس جائے اور وہی سوال کرے تو کیا اس شخص کا پیغمبراکرمۖ کی نبوت پر یقین ہے ؟
جلال الدین سیوطی اور دوسرے حضرات نے بھی خلیفہ دوم سے ان کے کلمات نقل کئے ہیں :
فقال عمر بن الخطاب : واللہ ما شککت منذ اسلمت الا یومئذ۔(٢)
عمر نے کہا خدا کی قسم میں جس روز سے اسلام لایا ہوں آج تک نبوت میں شک نہیں کیا مگر آج۔
اسلام کی نظر میں اگر کوئی شخص رسول اکرمۖ کی نبوت پر شک کرے اس کا کیا حکم ہے ؟۔
ــــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج٤، ص ٣٨١، حدیث ٩٣٢، کتاب الشروط ، باب الشروط فی الجھاد و مصالحہ مع اھل الحرب۔
(٢) تفسیر الدرالمنثور ، سیوطی ، ج٦، ص٧٤، سورہ فتح آیت ٢٥ کے ذیل میں۔
تفسیر جامع البیان ، طبری، ج٢٥، ص١٢٩، مذکورہ آیت کے ذیل میں۔
سوال نمبر(٣٥) کیا صحابہ نے میدان جنگ سے فرار نہیں کیا ؟
بعض اصحاب پیغمبر مختلف جنگوں میں رسول اکرمۖ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے
ہیں!۔
امام بخاری نے اپنی صحیح میں ابوقتادہ سے جنگ حنین کی تشریح کرتے ہوئے نقل کیا ہے ۔
وانھزم المسلمون و انھزمت معھم فاذا بعمر بن الخطاب فی الناس ۔۔۔ ثم تراجع الناس الی رسول اللہ۔(١)
جنگ حنین میں تمام صحابہ فرار کرگئے اور میں بھی ان کے ساتھ فرار کرگیا تو میں نے بھاگنے والوں کے درمیان عمر بن الخطاب کو بھی دیکھا اس سے معلوم کیا لوگوں کے کیا حال ہیں اس نے کہا امر خدا ہے ، پھر بھاگنے والے رسول اللہ ۖ کے پاس واپس آگئے ۔
ـــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج ٥، ص٢٧٣، حدیث ٧٧١، کتاب المغازی باب قولہ تعالی ( ویوم حنین اذا اعجبتکم ۔۔)
سوال نمبر(٣٦) پھر بھی فرار!
صحابہ کرام جنگ حنین کے علاوہ بھی دوسرے مقامات پر رسول اکرمۖ کو تنہا چھوڑ کرے فرار کرگئے۔
امام بخاری تحریر فرماتے ہیں :
واقبلوا منھزمین ۔۔۔ ولم یبق مع النبی ۖ غیر اثنی عشر رجلا ۔(١)
جنگ احد میں تمام صحابہ فرار کرگئے اور صرف بارہ افراد کے علاوہ کوئی پیغمبراکرمۖ کے پاس باقی نہ رہا۔
ـــــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج٦، ص٩٦٥، حدیث کتاب التفسیر سورہ آل عمران ، باب قولہ تعالی
( والرسول یدعوکم فی اخراکم)
سوال نمبر(٣٧) قرآن کریم فرار کرنے والوں کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
جیسا کہ امام بخاری نے صحابہ کرام کے جنگوں سے بھاگنے کے متعلق تحریر کیا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کا ارشاد گرامی ہے :
(و من یولھم یومئذ دبرہ الا متحرفا لقتال او متحیزا الی فئة فقد باء بغضب من اللہ و ماواہ جھنم و بئس المصیر)۔(١)
اور جس شخص نے بھی روز جنگ فرار اختیار کیا اور رسول و اطرافیان رسو ل کی طرف پشت پھرائی اس نے خدا وندعالم کے غضب اور غصہ کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اس کا مقام جہنم ہے کہ جو بدترین منزل ہے۔
کیا اس صورت میں تمام صحابہ کو عادل جانا جا سکتا ہے و بغیر تحقیق و جستجو کے ان کے تمام اقوال و کردار کو دین سمجھ لیا جائے اور آنکھ بند کرکے ان اطاعت کی جائے۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) سورہ انفال آیت ١٦۔
سوال نمبر(٣٨) کیا بعض صحابہ مرتد ہوگئے یا امام بخاری جھوٹ بولتے ہیں؟
جو حضرات ، صحابہ کرام کی بنسبت بہت زیادہ تعصب رکھتے ہیں اور تمام صحابہ کو عادل
مانتے ہیں تو کیا انہوں نے صحیح بخاری کے اس حصہ کا مطالعہ کیا ہے؟
جہاں پر رسول اکرمۖ سے روایت نقل کی گئی ہے :
ان اناسا من اصحابی یوخذ بھم ذات الشمال فاقول اصحابی اصحابی فیقال انھم لم یزالوا مرتدین علی اعقابھم منذ فارقتھم۔(١)
میرے کچھ اصحاب کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا اور میں کہوں گا یہ میرے اصحاب ہیں ، میرے اصحاب ہیں تو کہا جائے گا کہ یہ آپ کے بعد مرتد ہوگئے ۔
کیا اس روایت کے بعد بھی تمام صحابہ کی بنسبت خوش بین رہا جاسکتا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے اور کہا ہے بغیر تحقیق کے قبول کرلیا جائے۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری، ج٤، ص٥٩٦، حدیث١٥٠٥ کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی( واتخذ اللہ ابراھیم خلیلا)
سوال نمبر(٣٩) کیا تمام صحابہ کی پیروی و اتباع باعث ہدایت ہے ؟
بعض افراد معتقد ہیں کہ پیغمبراکرمۖ نے ایک حدیث کے ذیل میں فرمایا ہے :
اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم
میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتداء و اتباع کروگے ہدایت پاجاؤگے ۔
امام بخاری نے تحریر کیا ہے کہ ولید بن عقبہ نے شراب پی اور عثمان نے اس کو اسی کوڑے
لگانے کا حکم دیا ۔(١)
کیا آپ کی نظر میں اگر کوئی ولید بن عقبہ صحابی رسول کی پیروی کرے گا تو بھی ہدایت یافتہ ہے۔
ــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج٥ ، ص٧٥، کتاب فضائل اصحاب النبی باب مناقب عثمان
سوال نمبر(٤٠) کیا صحابہ بھی شراب نوشی کرتے تھے ؟
اہل سنت کا معتبر اور بہت بزرگ عالم دین محمد بن جریرطبری رقمطراز ہے آیہ تحریم خمر (شراب کو حرام بیان کرنے والی آیت ) تین مرتبہ نازل ہوئی اور ہر مرتبہ کچھ صحابہ شراب نوشی کرتے تھے اور پھر جب دوسری مرتبہ آیہ تحریم خمر نازل ہوئی تو رسول اکرمۖ کو خبر دی گئی کہ ایک صحابی نے شراب نوش کی ہے اور جنگ بدر میں قتل ہونے والے کفار پر نوحہ سرائی کی ہے ۔
حتی شربھا رجل فجعل ینوح علی قتلی بدر فبلغ ذالک رسول اللہ فجاء فزعایجر ردائہ من الفزع حتی انتھی الیہ ۔۔۔فرفع رسول اللہ شیئا کان بیدیہ لیضربہ قال اعوذ باللہ و رسولہ فانزل اللہ تحریمھا ( یاایھا الذین آمنوا انما الخمر ۔۔۔الی قولہ فھل انتم منتھون) فقال عمر بن الخطاب ، انتھینا انتھینا۔(١)
دوسری مرتبہ شراب حرام ہونے کے بعد بھی ایک صحابی نے شراب نوش کی اور جنگ بدر کے قتل شدہ کفار پر نوحہ سرائی کی ، یہ خبر رسول اکرمۖ تک پہونچی آپ بہت غصہ کی حالت میں روانہ ہوئے اس طرح کہ آپ کی عبا غصہ کی شدت کی وجہ سے زمین پر گھسٹتی ہوئی جارہی تھی
یہاں تک کہ آپ اس شخص کے پاس پہونچے اس کو مارنے کے لیے کوئی چیز اٹھائی اس نے کہا کہ میں خدا اور رسول خداۖ سے پناہ مانگتا ہوں یہی وہ مقام تھا کہ تیسری مرتبہ آیہء تحریم نازل ہوئی یہاں تک کہ خداوند عالم نے فرمایا کیا شراب نوشی سے باز نہ آؤ گے ؟
عمر نے کہا ہم شراب نوشی سے باز آگئے ہم باز آگئے۔
ـــــــــــــــــــــــ
(١) تفسیر جامع البیان ، محمد بن جریر طبری ، ج٢،ص٤٩٢، حدیث ٣٣٠٧ ، سورہ بقرہ آیت ٢١٩ کے ذیل میں۔
تفسیر ثعلبی ،ج٢، ص١٤٢، مذکورہ آیت کے ذیل میں۔
سوال نمبر(٤١) پیغمبر اکرم ۖ کس صحابی کی پٹائی کرنا چاہتے تھے؟
کیا آج تک آپ نے لوگوں کو خبردار کیا کہ اہل سنت کے عظیم القدر عالم دین زمخشری نے اس صحابی رسول کا نام فاش کردیا جس کی شرب خمر کی وجہ سے حضور اکرمۖ پٹائی کرنا چاہتے تھے ۔
وہ تحریر کرتے ہیں:
فشربھا من شرب من المسلمین حتی شربھا عمر بن الخطاب۔۔۔ ثم قعد ینوح علی قتلی بدر۔۔۔ فبلغ ذالک رسول اللہ فخرج مغضبایجر ردائہ فرفع کان فی یدیہ لیضربہ قال اعوذ باللہ من غضب اللہ و رسولہ فانزل اللہ تعالی ( انما یرید الشیطان۔الی قولہ فھل انتم منتھون) فقال عمر ، انتھینا(١)
آیہ ء تحریم خمر دوسری مرتبہ نازل ہونے کے بعد بھی بہت سے صحابہ مسلسل شراب نوش کرتے رہے یہاں تک کہ عمر بن الخطاب نے بھی شراب نوشی کی اورمستی و بے ہوشی کی حالت
میں جنگ بدر کے قتل شدہ کفار پر نوحہ سرائی کی ، یہ خبر رسول اکرمۖ کی خدمت میںپہنچی،حضرت اس قدر غضبناک و ناراض ہوئے کہ آپ کے چلتے ہوئے ردا زمین پر گھسٹتی ہوئی جارہی تھی عمر کو مارنے کے لیے کوئی چیز اٹھائی اس نے کہا کہ میں خدا اور رسول خداۖ کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں پھر یہ آیت نازل ہوئی یہاں تک کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے کیا شراب نوشی سے باز نہ آؤ گے ؟
عمر نے کہا ہم شراب نوشی سے باز آگئے ۔
ــــــــــــــــــــــــــ
(١) ربیع الابرار ، زمخشری، ج٥ ،ص ٥١، باب اللھو و اللعب واللذات و القصف وذکر التبذیر و ما یتصل بہ۔
سوال نمبر(٤٢) کیا دوسرے خلیفہ بھی؟
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں عبداللہ بن عمر سے روایت نقل کی ہے ۔
فقال سالم فسمعت عبداللہ بن عمر یقول : قال عمر ارسلوا الی طبیبنا ینظر جرحی ھذا قال فارسلوا الی طبیب من العرب فسقی عمر نبیذا فشبہ النبیذ بالدم من الطعنة الی تحت السرة۔ (١)
سالم کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمر سے سنا کہ اس نے کہا میرے باپ عمر بن الخطاب نے اپنے زخم کے علاج کے لیے طبیب کو بلا بھیجا تاکہ ان کے زخم کا علاج کرے (یہ وہی زخم ہے کہ جو ابولولو نے وارد کیا تھا) طبیب نے عمر کوشراب پیش کی انہوں نے نوش کی تو اس شراب نوشی سے ان کی زیر ناف زخم میں سے شراب خون کے ساتھ نکل آئی ۔
کیا عمر کی آخری عمر تک بھی آیہء تحریم خمر نازل نہیں ہوئی تھی؟!۔
ـــــــــــــــــــــــ
(١) مسند احمد بن حنبل ،ج١ ، ص٤٢، مسند عمر بن الخطاب۔
الطبقات الکبری، ابن سعد، ج٣ ، ص٢٦٧ـ٢٧٠، طبقات البدریین من ال مھاجرین طبقة الاولی ، ذکر استخلاف عمر ۔
تاریخ مدینة دمشق ، ابن عساکر، ج٤٤، ص٤١٤ ،رقم ٥٢٠٦ شرح حال عمر بن الخطاب
سوال نمبر(٤٣) کیا شراب نوشی ہدایت کا سبب ہے ؟!
اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جو نقل کرتے ہو اور تمام صحابہ کی پیروی کو ہدایت کا سبب مانتے ہو بعض صحابہ کی اس رفتار و گفتار اور اعمال کے پیش نظر کہ جو کبھی کبھی شرب خمر بھی کرتے رہے ۔
تو کیا اس طرح اصحاب کے اعمال کی پیروی و اتباع میں ہدایت شامل ہے ؟۔
سوال نمبر(٤٤) ام المؤمنین عایشہ نے خلیفہ کی کیوں توہین کی ہے ؟
جو حضرات، صحابہ کی توہین کے سلسلہ میں زیادہ حساس نظر آتے ہیںاور توہین کرنے والے کو کافر جانتے ہیں کیا ان کو یہ خبر ہے کہ ام المؤمنین عایشہ نے عثمان بن عفان خلیفہ کی توہین کی ہے اور ان کو نعثل کہکر خطاب کیا ہے ۔!(١)
ــــــــــــــــــــــ
(١) تاریخ طبری ،ج٣، ٤٧٧، حوادث سال ٣٦ھ قول عایشہ واللہ لاطلبن بدم عثمان۔
سوال نمبر(٤٥) خلیفہ دوم سے بعید ہے !۔
صحیح مسلم میں تحریر ہے :
عمر بن الخطاب نے خاطب بن بلتعہ جلیل القدر اہل بدر صحابی رسول کو برا بھلا کہا اور ان کو منافق جانا۔(١)
کیا اس طرح کی صورت حال میں جناب خلیفہ کی اقتداء مناسب ہے کہ صحابہ کرام کی ہم بھی توہین کریں؟۔
ــــــــــــــــــــــــ
صحیح مسلم ،ج٤، ص١٩٤١، حدیث ٢٤٩٤ کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل اہل البدر و قصة خاطب بن ابی بلتعہ1.
سوال نمبر(٤٦) تیسرے خلیفہ اور اس قدر تند مزاج !
کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان بن عفان کیا کیا گالیاں و فحش بعض صحابہ رسول کو دیتے تھے ۔
کیا آپ نے نہیں سنا
کہ عثمان بن عفان نے عمار یاسر کو کہا : یا عاض ایر ابیہ۔(١)
کلام کے خلاف ادب ہونے کے سبب ترجمہ سے معذور ہیں۔
ــــــــــــــــــــــ
(١) انساب الاشراف ، بلاذری ، ج٦، ص ١٦٩، امر ابی ذر
سوال نمبر(٤٧) خلفاء کی آپس میں مار پٹائی اور دست و گریبان ہونے کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
صحابہ کرام خود پیغمبراکرمۖ کے حضور میں بھی آپس میں مار پٹائی و دست و گریبان رہا کرتے تھے !۔
بخاری ان واقعات کو یوں بیان کرتا ہے :
پیغمبر اکرمۖ کے حضور میں بعض صحابہ آپس میں مار پٹائی دست وگریبان اور ڈنڈا ، جوتا خوب چلاتے تھے ۔(١)
کیا پھر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبراکرم ۖ نے یہ فرمایا ہے کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاجاؤگے ۔
ــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری ، ج٤، ص٣٦١، حدیث ٨٩٧ ، کتاب الصلح باب ماجاء فی الاصلاح بین الناس۔
سوال نمبر(٤٨) کیا عایشہ نے معاویہ پر لعنت نہیں کی ؟
عایشہ ہر نماز کے بعد معاویہ پر لعنت کرتی تھیں ابن اثیر نے اس ماجرے کو اس طرح بیان کیا ہے ۔
فلما بلغ ذالک (قتل محمد بن ابی بکر) عائشہ جزعت علیہ جزعا شدیدا و قنتت فی دبر الصلاة تدعو علی معاویة۔ (١)
جس وقت محمد بن ابی بکر کے قتل کی خبر عایشہ کو ملی ہے تو بہت ناراض ہوئیں اور ہر نماز کے بعد معاویہ پر لعنت کرتی تھیں۔
ــــــــــــــــــــــــــ
(١) الکامل فی التاریخ ، ابن اثیر ، ج٣، ص٣٥٧، حوادث سال ٣٨ھ ذکر قتل محمد بن ابی بکر۔
اب تک جو کچھ نقل ہوچکا ہے تو کیا پھر بھی بعض صحابہ کی توہین پر غصہ کریں گے اور کفر و قتل کا فتوی صادر کریں گے ؟۔
تو کیا خود آپ ہی نے یہ حدیث نقل نہیں کی ہے کہ پیغمبر اکرمۖ کے تمام صحابہ کی پیروی باعث ہدایت ہے ۔
اگر بعض صحابہ کو گالیاں دینا کفر ہے تو کیا آپ جرئت کرسکتے ہیں کہ عمر بن الخطاب ، ام المؤمنین عایشہ و عثمان اور دوسرے صحابہ کہ جو کبھی کبھی ایک دوسرے کو گالیاں ، سب و لعن کرتے تھے ان کے بارے میں کفر کا فتوی صادر کریں؟۔
آخر گفتگو میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کے معتقد نہیں ہیں
کہ مسلمان بے لگام و بے مہار ہمیشہ صحابہ کرام کی توہین کرتے رہیں بلکہ صرف ان حضرات
سے تبرا کریں کہ جن کے بارے میں قرآن کریم اور پیغمبراکرمۖ کی قطعی احادیث سے ان کے لیے لعنت و نفرین ثابت ہے ۔