Tuesday, 25 February 2014

امام زمانہ علیہ اسلام کی دعا


علی بن حسین بن بابویہ پچاس برس کی عمر کو پہنچ گیے لیکن انکے ہاں کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے حضرت ولی عصر امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ الشریف کے حضور اولاد نرینہ کی دعا کے لیے درخواست تحریر کی اور ابوجعفر بن علی الاسود نے وہ درخواست امام زمانہ کے تیسرے نامزد کردہ نائب حسین بن روح کی خدمت میں پیش کی۔امام زمانہ علیہ اسلام کی طرف سے ایک توقیع مبارک ظاہر ہوئی جسمیں لکھا تھا۔"اﷲتعالیٰ بہت جلد اسے ایک بابرکت بیٹا عطا کرےٴ گا ۔ جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا اور اسکے بعد اور بچے بھی پیدا ہوں گے"چنانچہ امام زمانہ کی دعا کا ثمر شیخ صدوق کی شکل میں برآمد ہوا، اور شیخ نے اپنی کتاب کمال الدین میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور بعد میں ان الفاظ کا اضافہ فرمایا:ابو جعفر بن علی الاسود جب مجھے علوم اہل بیت کی جستجو میں سرگرداں دیکھتے تو وہ کہا کرتے تھے ۔ مجھے تیرےٴ اشتیاق علم کو دیکھ کر قطعاً حیرت نہیں ہوتی کیونکہ تو امام زمانہ علیہ اسلام کی دعا سے پیدا ہوا ہے۔علامہ مجلسی رحمتہﷲ علیہ نے شیخ صدوق کی پیدائش کو امام زمانہ کے معجزات میں سے شمار کیا ہے۔
ٴٴ٭٭٭علماء کی نظر میںشیخ صدوق کا مقام۔٭٭٭
اسلام کے تمام بزرگ علماءوفقہاء نے شیخ صدوق کی تعریف اور انکی عدالت کی توثیق اور انکے علمی مقام کی تصدیق کی ہے جن میں ہم چند ایک علماء کی آراء یہاں نقل کرتے ہیں۔شیخ طوسی رحمتہﷲ علیہ شیخ صدوق کے متعلق لکھتے ہیں۔شیخ صدوق جلیل القدر دانش مند اور حافظ حدیث تھے، رجال سے کامل آگاہی رکھتے تھے۔ سلسلہ احادیث کو خوب پہچانتے تھے اہل قم میں حفظ حدیث اور کثرت معلومات میں ان جیسا کوئی پیدا نہیں ہوا۔انہوں نے تین سو کے قریب کتابیں تالیف کیں۔سید ابن طاوٴوس لکھتے ہیںشیخ صدوق کے علم و عدالت پر تمام لوگوں کا اجماع ہے ۔علامہ مجلسی رحمتہ اﷲعلیہ لکھتے ہیں۔شیخ صدوق بزرگ ترین علماء میں سے تھے اور آپ ان لوگوں میں سے تھے جو احادیث معصومین کی جستجو اور پیروی کرتے ہیں اور ذاتی آراء اور ذاتی خیالات سے کوسوں دور تھے۔ اسی لیے اکثر علماء انکے اور انکے والد کے کلام کو حدیث اور روایت اہل بیت کا درجہ دیتے ہیں۔سید محمد باقر خوانساری نے روضات الجنات میں لکھا ہے۔شیخ صدوق نامدار شخصیت اور قابل اعتماد ہستی کے مالک تھے اور وہ دین کے ستوں اور محدثین کے سردار تھے۔ آپ علم و عدالت، فہم مطالب ،فقاہت و جلالت میں اپنی مثال آپ تھے آپکی تصانیف سے آپکی مذکورہ صفات کاپتہ چلتا ہے آپکی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔
٭٭٭شیخ صدوق کی وفات۔٭٭٭
آپ نے ستر سے کچھ زیادہ برس کی زندگی پائی تھی اور آپ نے درخشاں زندگی بسر کرنے کے بعد ۳۸١ ہجری میں دینا سے رحلت فرمائی اور شیر رے میں دفن ہوےٴ۔ آپکا مزار تہران میں شاہ عبدالعظیم حسنی کے روضہ مبارک کے شمال میں ایک قبرستان میں واقع ہے ۔ جہاں آپکا خوبصورت روضہ بنا ہوا ہے اور وہاں زیارت کے لیے آنے والے مومنین کا تانتا بندھا رہتا ہےعلامہ خوانساری المتوفی ١۳١۳ ء نے روضات الجنات میں آپکی قبر کے متعلق لکھاہے
١۲۳۸ء میں شیخ صدوق کی ایک کرامت ظاہر ہوئی۔ فتح علی شاہ قاچار کے دور سلطنت میں بارشوں کی وجہ سے آپکی قبر میں شگاف پڑ گیا اور آپکی قبر بیٹھ گی۔ لوگوں نے قبر کی تعمیر نو کے لیے قبر کو کھودا اور جب وہ قبر کے گڑھے کے قریب گئےتوانہوں نے دیکھا کہ مرحوم کی میت صحیح وسالم حالت میں موجود ہے اور انکی انگلی پر خضاب کے نشان تھے
البتہ انکا کفن کافی بوسیدہ ہو چکا تھاچند گھنٹوں میں یہ خبر پورے تہران میں پھیل گئ اور سلطان وقت نے بھی یہ خبر سنی۔ چنانچہ وہ اعیان سلطنت کو ساتھ لے کر شیخ کی زیارت کے لیے آےٴ اور انہوں نے شیخ کے جسد خاکی کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ حکومتی اخراجات سے شیخ کی قبر بنائی جاےٴاوراس پر خوبصورت روضہ تعمیر کرایا جاےٴ ۔ چنانچہ اس وقت شیخ صدوق کا جو روضہ ہمیں نظر آتاہے یہ فتح علی شاہ قاچار کا تعمیر کردہ ہےاﷲ تعالیٰ کی رحمت ہو شیخ صدوق پر اور انہیں پیغبر اکرام صلی اﷲ وآلہ وسلم کے ساتھ محشور فرماےٴ آمین الہی آمینطالب دعا ریاض حیسن جعفریکتاب اوصاف الشیعہ

No comments:

Post a Comment