جب سے امام خمینی (رض) اور رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے اتحاد کی بات کی ہے تب سے شیعوں کے اندر ایک عجیب سی کشمکش دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستان میں کچھ نااہل لوگوں کی وجہ سے جو رہبر کا نام استعمال کرتے ہیں یا انکی نمائندگی کرتے پھرتے ہیں، نے ایسا تاثر دیا کہ اب امامت پر بولنا، اپنے عقائد کا دفاع کرنا اور دلائل دینا ممنوع ہے بافرمان رہبر۔ ان لوگوں نے اس فتوے کا غلط معنی پھیلایا کیونکہ شائد ان لوگوں میں اتنی علمی لیاقت ہی نہیں تھی کہ یہ لوگ اپنے مذہب کا دفاع کرسکیں۔ اگر ان سے کہیں کہ آپ لوگ اپنے مجلوں میں یا پھر اپنے اداروں سے کوئی مذہب کے دفاع میں لکھی جانے والی کتاب چھپوا دیں کیونکہ ہمارا دشمن دن رات ہمارے خلاف لکھ رہا ہے تو یہ بدقسمت لوگ مذاق اڑاتے ہیں۔ اور پھر ان لوگوں کی وجہ سے ہی ہمارے ہاں وہ لوگ جنہیں موقع چاہیے ہوتا ہے رہبر کے خلاف بولنے کا ان لوگوں نے خوب زہر اگلا۔ چنانچہ ہم اپنی اس مختصر سی پوسٹ میں اتحاد کے متعلق ایک انتہائی معتبر اور قابل احترام شخصیت شہید استاد مرتضی مطھری (رہ) کے نظریات پیش کریں گے کیونکہ استاد مطھری کی اہمیت سے سب لوگ بخوبی واقف ہیں۔استاد شہید مرتضی مطھری کہتے ہیں:آخری سو برسوں میں اسلام کے با ایمان اور روشن فکر علماء و فضلا کے درمیان اسلامی اتحاد کا جو مفھوم مدنظر ہے وہ یہ نہیں ہے کہ اسلامی اتحاد کے لئے اسلامی فرقے اپنے اعتقادی یا غیر اعتقادی اصولوں سے چشم پوشی کر لیں اور تمام فرقوں کے مشترکات کو لے لیں اور سب کے مختصات کو ترک کر دیں۔ کیونکہ یہ کام نہ منطقی ہے اور نہ ہی قابل عمل۔کس طرح ممکن ہے کہ ایک مذہب کے پیروکاروں سے تقاضا کیا جائے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے اتحاد کی حفاظت کی خاطر اپنے فلاں اعتقادی یا عملی اصول سے جسے وہ بہرحال اپنی نظر میں اسلام کا حصہ سمجھتے ہیں صرف نظر کر لیں ؟ گویا کہ اس سے یہ چاہیں کہ وہ اسلام کے نام پر اسلام کے ایک جزو سے چشم پوشی کر لے۔ہم خود شیعہ ہیں اور اہلبیت کی پیروی کا ہمیں افتخار حاصل ہے، ہم کسی معمولی سی چیز حتی کہ کسی چھوٹے سے مستحب یا مکروہ سے بھی سودے بازی کے قائل نہیں ہیں۔ نہ اس معاملے میں کسی کی توقع کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔اتحاد اسلامی کی عظیم فکر کا خیال پیش کرنے والے حضرات جو ہمارے دور میں شیعوں میں مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی اور اہل تسنن میں علامہ شیخ عبدالمجید سلیم اور علامہ شیخ محمود شلتوت سر فہرست ہیں، ایسی کوئی تجویز ان کے ذہن میں نہیں تھی۔ جو چیز ان کی نظر میں تھی وہ یہ تھی کہ اسلامی فرقوں کلام، فقہ وغیرہ میں اختلافات کے باوجود ان کے درمیان جو ذیادہ تر مشترکات ہیں ان کے ذریعے سے اسلام کے خطرناک دشمن کے مقابلے میں ہاتھ میں ہاتھ دے سکتے ہیں اور ایک متحدہ محاذ بنا سکتے ہیں۔ یہ بزرگ حضرات اتحاد اسلامی کے نام پر اتحاد مذہب کے ہر گز قائل نہ تھے جو ہر گز قابل عمل نہیں ہے۔جس بات پر خصوصا آیت اللہ بروجردی سوچ رہے تھے وہ یہ تھی کہ اہلسنت کے درمیان معارف اہلبیت کو پھیلانے کے لئے فضا سازگار بنائیں۔ ان کا اعتقاد تھا کہ حسن تفاہم کی فضا پیدا کئے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ مرحوم کو جو کامیابی اس حسن تفاہم کی وجہ سے خود مصریوں کے ہاتھوں مصر میں بعض شیعہ کتابوں کی چھپائی کے حوالے سے ملی، یہ شیعہ علماء کی اہم ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے۔بہرحال اتحاد اسلامی کی سوچ کی حمایت اس بات کا تقاضا نہیں کرتی کہ حق گوئی میں کوتاہی کی جائے۔ جو چیز پیدا نہیں ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ مخالف کے جذبات، تعصبات اور دشمنی کو برانگیختہ نہیں کرنا چاہئیے لیکن علمی بحث و گفتگو عقل و منطق سے ہے نہ کہ جزبات و احساسات سے۔خوش قسمتی سے ہمارے دور میں شیعوں کے اندر بہت سے ایسے محقق پیدا ہو گئے ہیں جو اسی پسندیدہ روش کی پیروی کرتے ہیں۔ ان میں سر فہرست آیت اللہ شرف الدین عاملی، آیت اللہ شیخ محمد حسین کاشف الغطا اور الغدیر جیسی عظیم کتاب کے مولف علامہ بزرگوار آیت اللہ امینی کا نام لیا جا سکتا ہے۔(امامت و رہبری، استاد مرتضی مطھری، صفحہ ۱۳ تا ۱۶، طبع کراچی)نوٹ:واضح رہے کہ جن علماء کا نام استاد نے لیا ہے انہوں نے مناظرے پر تابڑ توڑ کتب لکھی ہیں جیسے آیت اللہ شرف الدین نے المراجعات اور ابوہریرہ وغیرہ، علامہ امینی نے ۱۱ جلدوں پر مشتمل الغدیر جیسی عظیم کتاب لکھی ہے جس میں علامہ نے مخالفین کی خلافت کو باطل ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ استاد نے امامت و رہبری میں ہی علامہ آیت اللہ حامد حسین موسوی لکھنوی (رہ) صاحب عبقات الانوار کی بھی تعریف کی ہے جبکہ اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ علامہ حامد حسین موسوی نے اپنی ساری زندگی مذہب آل محمد کے دفاع میں گزاری اور مناظرے پر عظیم الشان کتب لکھی ہیں۔برادران آپ نے دیکھا کہ اتحاد کا صحیح معنی کیا ہے اور رہبر نے جو فتوی اتحاد دیا ہے اس کابھی یہی مطلب ہے۔ اگر اتحاد کا وہ مطلب ہوتا جو پاکستان میں بتایا جا رہا ہے توپھر ایران میں الغدیر، استصقاء، عبقات، مصائب النواصب وغیرہ جیسی ہزاروں کتب ہر پابندی عائد ہوتی۔ ابھی حال ہی میں قم کے ایک مشہور فقیہ آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی صاحب نے الغدیر جیسی علمی اور خطرناک کتاب کا اردو میں خود ترجمہ کروایا ہے اور یہ کتاب لاہور سےچھ جلدوں میں چھپ چکی ہے۔ اس کے علاوہ ایران میں ہی حکومت کے زیر سایہ مجمع جہانی اہلبیت کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے جو مناظرانہ کتب کا ترجمہ کر کے ہزاروں کی تعداد میں پوری دنیا بشمول پاکستان مفت تقسیم کرتا ہے۔ اس ادارہ کی بیشمار ترجمہ شدہ کتب میں سے چند کے نام یہ ہیں: تاریخ اسلام میں عائشہ کا کردار، ایک سو پچاس فرضی صحابی، صلح امام حسن، شیعہ جواب دیتے ہیں، تاریخ وہابیت وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ آپ حضرات سے گزارش ہے کہ حقیقی علماء کو پڑھیں اور سنیں اور اپنے نظریات کو درست کریں۔فرزندان رہبر
No comments:
Post a Comment