شیعیان علی پر رسول خدا ۖ کا فخر کرنا
٢٨:عن أبی ذر الغفاری قال:
سَمِعْتُ رَسول اللہِۖ یَقُولُ: لَیسَ أَحد مِثلی صِھرًا أَعطَاہُ الحَوضَ وَجعلَ اِلیہِ قِسْمةَ الجنةِ وَالنَارِ، وَلمْ یُعطِ ذَلکَ المَلائِکةَ، وجَعلَ شِیعتَہُ فِی الجَنَةِ[31].
ترجمہ:
حضرت ابوذرغفاری روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ۖ سے سنا آپۖفرما رہے تھے:
میری طرح کسی کا داماد نہیں جسکے اختیار میں خدا نے حوض کوثر رکھا، جنت وجہنم کا تقسیم کرناے والا اسے قرار دیا جبکہ یہ اختیار ملائکہ کو بھی عطا نہ کیا اور انکے شیعوں کو جنت میں مقام عطا کیا۔
شیعیان علی عرش کے سائے میں
٢٩: قَالَ رسولُ اللہ لعلیٍّ:
السَّابِقُونَ اِلٰی ظِلّ العَرشِ یَومَ القِیَامةِ طُوبٰی لَھُمْ ، قِیلَ : یارسولَ اللہ ! مَن ھُمْ؟ قال: شِیعتُکَ یَاعَلِیُ وَمُحِبُّوھُمْ[32].
ترجمہ:
رسول خدا ۖ نے حضرت علی سے فرمایا: خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو روز قیامت سب سے پہلے عرش الہی کے سائے میں پہنچیں گے۔
عرض کیا گیا: یارسول اللہ ۖ! وہ کون لوگ ہیں؟
فرمایا: اے علی ! وہ آپ کے شیعہ اور ان کو دوست رکھنے والے ہیں۔
شیعیان علی کی صحابہ پر فضیلت
٣٠:عن أبی سعید الخدری قال: قال رسول اللہ ۖ:
اِنّ عَن یَمِینِ العرشِ کَرَاسِیّ مِن نُورٍ عَلیھَا أَقوَام تَلألَؤَ وُجوھُھمْ نُورًا۔ فقال أبوبکرٍ: أَنا مِنھُمْ یَانبیّ اللہِ؟ قَال: أنتَ عَلٰی خَیرٍ۔ قَال : فقالَ عُمرُ: یانبیّ اللہِ أنَا مِنھُمْ؟ فقال لہُ مثلَ ذَلکَ۔ وَلٰکِنّھُمْ قوم تَحَابُّوْا مِن أَجْلِی وَھُم ھَذَا وَشِیعَتہِ۔ وَأَشارَ بیدِہِ اِلٰی عَلِیّ بنِ أبیْ طَالبٍ[33]۔
ترجمہ:
ابوسعید خدری رسول اکرم ۖ سے نقل کرتے ہیں کہ آپۖ نے فرمایا:
عرش الہی کے دائیں طرف نور کی کرسیاں لگی ہوئی ہیں جن پر نورانی چہروں والے گوہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ابوبکر کہنے لگے: یانبی اللہ کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ آنحضرت ۖ نے فرمایا: تونیکی پر ہے۔ پھر عمر کہنے لگے: یانبی اللہ کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ آپۖ نے وہی جواب دیا۔ اور پھر فرمایا: یہ وہ قوم جن کی محبت میری خاطر ہے اور وہ یہ علی اور اسکے شیعہ ہیں اور پھر اپنے دست مبارک سے علی بن ابیطالب کی طرف اشارہ فرمایا۔
جنت کی کنجیوں پر شیعیان علی کے نام
٣١: عن جابر: قال رسولُ اللہِ ۖ:
اِذَا کَانَ یَومُ القِیَامةِ یَأْتِینِی جَبرَائِیْلُ وَمِیکَائِیلُ وَبِحَزْمَتَیْنِ مِن المَفاتیحِ: حَزمةٍ مِن مفاتیحِ الجَنّةِ، وحَزمةٍ مِن مفاتیحِ النَّارِ، وَعَلٰی مفاتیحِ الجَنّةِ أَسمائُ المُؤمنینَ مِن شِیعَةِ مُحَمّد ۖ وَعَلیٍ۔ وَعَلٰی مفاتیحِ النّارِ أَسمَائُ المُبغضِینَ مِن أَعدَائہِ۔ فَیقُولانِ لِی: یَاأحمدُ! ھَذا مُحبّک وھذا مُبغضُکَ۔ فَأرفعَھَا اِلٰی عَلِیّ بن أبی طالب فَیحْکُمُ فیھِم بِمَا یُریدُ فَوالّذِی قَسَّمَ الأَرزَاقَ لَایدخلُ مبغضہِ الجنةَ وَلَامُحبّہِ النَّارَ[34]۔
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا: روز قیامت جبرائیل ومیکائیل چابیوں کے دوتھیلے میرے پاس لائیں گے جن میں ایک تھیلا جنت کی چابیوں کا ہوگا اور دوسرا جہنم کی چابیوں کا۔
جنت کی چابیوں پر محمد ۖ اور علی کے مومن شیعوں کے نام تحریر ہوں گے جبکہ جہنم کی چابیوں پر ان کے دشمنوں کے نام۔اور پھر جبرائیل ومیکائیل مجھ سے کہیں گے: اے احمد! یہ آپۖ کا دوست ہے اور یہ آپکا دشمن ہے۔ اور پھر میں وہ چابیاں علی کے حوالے کردوں گا وہ اپنی مرضی سے انکا فیصلہ کریں گے ۔
قسم ہے رزق تقسیم کرناے والی ذات کی، علی کے دشمن جنت میں داخل نہ ہوں گے اور ان سے محبت کرناے والے جہنم میں داخل نہ ہوں گے۔
شیعیان علی نورانی لباس میں
٣٢: قال رسولُ اللہِ ۖ:
یَاعَلِیُّ ! اِذَا یَومُ القِیَامةِ یَخرجُ قوم مِن قُبورھِمْ لِباسھُمْ النُورُ، عَلٰی نَجائبَ مِن نُورٍ، أَزِمّتُھَا یَوَاقِیتُ حُمُر، تَزُفُّھُمُ المَلائکةُ اِلٰی المَحشرِ، فقالَ عَلِیّ: تَبارکَ اللہُ مَاأکرمَ قومًا عَلَی اللہِ؟ قالَ رسولُ اللہِۖ : یَاعَلِیُّ! ھَم أھلَ وِلایتکَ وَشِیعَتکَ وَمُحِبُّوکَ یُحِبونکَ بحبّی، ویحبّونی بحبِّ اللہِ، وھُم الفَائزُونَ یَومُ القِیَامةِ[35].
ترجمہ:رسول خدا ۖ نے حضرت علی سے فرمایا:
یاعلی !قیامت کے دن ایک گروہ قبروں سے ظاہر ہوگا جبکہ انہوں نے نور کے لباس زیب تن کیے ہوئے ہوں گے اور نورانی سواریوں پر سوار ہوں گے، خدا کے ملائکہ انہیں محشر کی طرف رہنامائی کررہے ہوں گے۔
حضرت علی نے عرض کیا: وہ گروہ کس قدر خدا کے ہاں عزیز ومکرّم ہے؟ آپۖ نے فرمایا: یاعلی ! وہ آپ کی ولایت کو قبول کرناے واے، آپ کے شیعہ اور آپکے محب ہیں جو میری خاطر آپ سے محبت کرتے ہیں اور مجھ سے خدا کی خاطر محبت کرتے ہیں۔ یہی لوگ روز قیامت کامیاب وکامران ہیں۔
اگر سب لوگ شیعہ ہوتے تو خدا جہنم کو خلق ہی نہ کرت
٣٣: عن ابن عباس : قال رسول اللہ ۖ لِأَمِیرِ المؤمنینَ علیہ السلام:
یَاعَلِیُّ! لَوِاجْتَمعَتْ أَھلِ الدُّنیَا بِأَسْرِھَا عَلٰی وِلَایَتِکَ لَمَا خَلقَ اللہُ النارَ، وَلکن أَنتَ وَشِیعتُکَ الفَائزُونَ یومَ القیامةِ[36].
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے حضرت علی سے فرمایا:
اے علی ! اگر ساری دنیا آپ کی ولایت کو قبول کرلیتی تو خدا کبھی جہنم کو خلق نہ کرتا، لیکن جان لو کہ آپ اور آپ کے شیعہ ہی روز قیامت کامیاب ہوں گے۔
شیعیان علی کا دوسروں کی شفاعت کرنا
٣٤: قالَ رسولُ اللہِ ۖ :
لَا تَسْتَخِفُّوا بِشیعَةِ عَلِیٍّ، فَانَّ الرَّجُلَ مِنھُمْ یَشفعُ فِی مِثْلِ رَبِیعَةَ وَمُضَرَ[37].
ترجمہ:
رسول خدا ۖ نے فرمایا:
علی کے شیعوں کو حقارت کی نگاہ سے مت دیکھو اسلیے کہ ان میں سے ہرایک شخص قبیلہ ربیعہ ومضر کے برابر افرادکی شفاعت کر سکتا ہے۔
شیعیان علی کا سبقت لے جانا
٣٥: عن ابن عباس: سَأَلتُ رسولَ اللہِ ۖ عَن قولِ اللہِ: (اَلسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ أُوْلٰئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ[38])(١)
قَالَ: حَدَّثنِی جَبرئِیلُ بِتفسِیرِھَا، قالَ: ذَاکَ عَلِیّ وَشِیْعَتِہِ اِلَی الجَنّةِ[39].
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں میں نے رسول خدا ۖ سے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا تو آپۖ نے فرمایا:
جبرائیل نے مجھے اس کی تفسیر یوں بیان کرتے ہوئے بتایا: وہ علی اور ان کے شیعہ (جنت میں سبقت لینے والے ) ہیں۔
شیعیان علی درخت رسالت کے پتے
٣٦: قالَ رسولُ اللہِۖ :
أَنا الشَّجرةُ، وفَاطمةُ فرعُھَا، وعَلِی لقاحُھَا، وَالحسنُ وَالحسینُ ثَمرُھَا، وشِیعَتُنَا وَرَقُھَا، وأَصْلُ الشَّجرةِ فِیْ جَنّةِ عَدْنٍ، وسَائرُ ذَلِکَ فِی الْجَنّةِ[40].
ترجمہ:
رسول خدا ۖ نے فرمایا:
میں (وہ) شجرہ طیبہ ہوں، فاطمہ اُس کی شاخ ہیں، علی اس کا پیوند ہیں، حسن ، حسین اُس کا پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اسکے پتے ہیں، اس درخت کی جڑ جنت میں ہے
شیعیان علی ہی ابرار ہیں
عن الأصبغ بن نباتة قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقولُ: أَخذَ رسولُ اللہِ بِیَدِیْ، ثُمّ قال: یَاأَخی! قول اللہ تعالیٰ: (ثَوَابًا مَنْ عِنْدِ اللّہِ وَاللّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الثَّوَابِ وَمَا عِنْدَاللّہِ خَیْر لِلأَبْرَارِ[41]) أَنتَ الثَّوابُ وَشِیعتُکَ الأَبْرَارُ[42].
ترجمہ:
اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں میں نے علی سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ رسول خدا ۖ نے میرا ہاتھ تھام کر فرمایا:
اے برادرم! خداوند متعال کا یہ فرمان(خدا کے ہاں یہ انکے کیے کا ثواب ہے اور خدا کے یہاں اچھا ہی ثواب ہے) وہ ثواب تم ہو اور ابرار سے مراد آپ کے شیعہ ہیں۔
شیعیان علی نبی ۖ کے جوار میں
٣٨: لَمَّا قَدِمَ عَلِیّ عَلٰی رَسولِ اللہِ لِفَتح خَیْبَرَ قَالَ ۖ:
لَوْلَاأَنْ تَقُولَ فِیکَ طَائفَةً مِن اُمَّتی مَاقَالتِ النَّصاریٰ فِی المسیحِ لَقُلتُ فِیکَ الیومَ مَقَالًا لَاتَمُرُّ بِمَلائٍ اِلَّا أَخذُوا التُّرابَ مِن تَحتَ قَدمیکَ وَمِن فَضلِ طُھُورِکَ یَستَشْفُونَ بہِ، ولکن حسبکَ أن شیعتَک عَلٰی مَنابرَ مَنْ نُورٍ روّائً مَسرورِین، مبیضةً وُجوھُم حَولی أشفعُ لَھم، فَیکونُونَ غدًا فِی الجَنةِ جِیْرَانِیْ[43].
ترجمہ:
جب فتح خیبر کے سلسلہ میں حضرت علی رسول خدا ۖ کی خدمت میں پہنچے تو آنحضرت ۖ نے فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میری امت کا ایک گروہ آپ کے بارے میں وہی بات کرے گا جو عیسی کے بارے میں نصاری نے کہی تو آج میں آپ کے بارے میں ایسی بات بیان کرتا کہ آپ جہاں سے گزرتے لوگ آپ کے پاؤں کی خاک اور آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو شفا کیلئے اکٹھا کرتے۔لیکن آپ (کے مقام ومنزلت) کیلئے یہی کافی ہے کہ آپ کے شیعہ سیراب، خوشحال اور چمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ میرے اطراف میں ہوں گے میں ان کی شفاعت کرونگا اور جنت میں میرے ہمسائے میں ہوں گے۔
شیعیان علی کا مقام
٣٩: قال رسول اللہ ۖ :
لَمَّا اَدْخَلْتُ الْجَنَّةَ رَأَیْتُ فِیھَا شَجرةً وَفِی أَعْلَاھَا الرِّضْوَانُ۔ قُلتُ یاجبرئیلُ لِمَنْ ھَذِہِ الشَّجَرةُ؟
قال: ھذا لِابْنِ عَمّکَ عَلِیَّ بْنَ أبی طَالِبٍ اِذَا أَمَر اللّہُ الخَلیفةَ بِالدُّخُولِ اِلَی الْجَنةِ یُوتیٰ بِشِیْعَةِ عَلِیٍّ یَنْتَھِیْ بِھم اِلیٰ ھَذِہ الشَّجرةُ یَلبِسونَ الْحُلَلَ، وَیرکَبُونَ الخَیلَ البَلَقَ وَیُنادی مُنادٍ: ھَؤُلَائِ شِیعَةُ عَلِیٍّ صَبَرُوا فِی الدُّنیَا عَلَیْ الأَذٰی مَحَبُوا الیَوْمَ[44].
ترجمہ:
رسول خدا ۖ نے فرمایا: جب مجھے (سفرمعراج میں) جنت میں لے جایا گیا تو وہاں پر میں نے ایک درخت دیکھا جس پر رضوان یعنی خدا کی خوشنودی پائی جاتی تھی۔
میں نے پوچھا اے جبرائیل ! یہ درخت کس کیلئے ہے؟
کہا: یہ آپ کے بھائی علی بن ابیطالب کیلئے ہے۔
جب خداوند متعال لوگوں کو جنت میں داخل ہوناے کا امر صادر فرمائے گا تو علی اپنے شیعوں کو اس درخت کے پاس لائیں گے ۔ انہوں نے خوبصورت لباس پہنے ہوں گے اور تیزرفتار سواریوں پر سوار ہوں گے۔ منادی ندا دے گا: یہ علی کے شیعہ ہیں جنہیں دنیا میں تکلیفوں پر صبر کرناے کی بناء پر یہ مقام عطا ہوا ہے۔
شیعہ نجات یافتہ فرقہ
٤٠:عن أنس بن مالک قال:
کُنَّا عِند رسولِ اللہۖ، وَتَذَکرناا رَجُلاً یُصَلِّیْ وَیَصُومُة وَیَتَصَدَّقُ وَیُزَکِّی، فَقالَ یَاأَبَاالحَسنِ لَنَارَسولَ اللّہِ ۖ:
لَاأَعْرُفُہُ... قَال عَلِیّ...فقال: یَاأَباالحَسنِ اِنَّ اُمَّةَ مُوْسیٰ علیہ السلام اِفْتَرَقَتْ عَلٰی اِحْدیٰ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَةً، فِرْقَة نَاجِیَة وَالبَاقُونَ فِیْ النَّارِ۔
وَاِنَّ اُمَّةَ عِیْسیٰ علیہ السلام اِفْتَرَقَتْ عَلٰی اِثْنینَ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَةً، فِرْقَة نَاجِیَة وَالبَاقُونَ فِیْ النَّارِ.
وَستفترقُ اُمَّتیْ عَلٰی ثَلاثٍ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَةً، فِرْقَة نَاجِیَة وَالبَاقُونَ فِیْ النَّارِ.
فقلتُ: یَارسولَ اللہِ ۖ فَمَا النَّاجِیةُ؟ قال: اَلْمُتَمَسِّکُ بِمَا أَنْتَ وَشِیْعَتُکَ وَأَصْحَابُکَ[45]
ترجمہ:
انس بن مالک کہتے ہیں:
میں رسول خدا ۖ کی خدمت میں موجود تھا اور ایک شخص کے بارے میں گفتگو کررہے تھے جو نماز ، روزہ، صدقہ وزکات کا پابند تھا ۔ تو رسول خدا ۖ نے ہم سے فرمایا:میں ایسے شخص کو نہیں جانتا۔ حضرت علی نے سوال کیا تو آنحضرت ۖ نے جواب میں فرمایا:اے ابوالحسن ! بے شک امت موسی اکہتر فرقوں میں بٹ گئی جبکہ ان میں سے صرف ایک فرقہ نجات یافتہ ہے ۔
عیسی کی امت بہتّر فرقوں میں تقسیم ہوگئی جبکہ ان میں سے بھی صرف ایک فرقہ نجات یافتہ ہے۔
اور عنقریب میری امت بھی تہتّر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں سے صرف ایک فرقہ نجات یافتہ ہوگا اور باقی سب جہنمی ہوں گے۔
میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ۖ کونسا فرقہ نجات پائے گا؟ فرمایا: وہ آپ ، آپ کے شیعہ اور آپ کے اصحاب کی سیرت پر عمل کرناے والے ہوں گے۔
١٧ ربیع الاول ١٤٣٠ ہجری روز ولادت باسعادت پیغمبراکرمۖ کتاب مکمل ہوئی۔
حوالے
سوربیّنة:٧.[1]
تفسیر در منثور٦:٣٧٩؛ الصواعق المحرقہ:٩٦؛ تفسیر روح المعانی٣٠:٢٠٧؛ تفسیر جامع البیان٣٠:٢٦٥.[2]
٦:٣٧٩؛ تاریخ دمشق٢:٩٥٨٤٤٢.[3]
تفسیر درّمنثور٦:٣٧٩؛ تاریخ دمشق٢:٩٥٨٤٤٢.[4]
تفسیر درّمنثور٦:٣٧٩؛ تفسیر روح المعانی٣٠:٣٠٧؛ کفایة الطالب:٢٤٦.[5]
.[6] حلیة الاولیائ٤:٣٢٩، تالیف ابونعیم اصفہانی؛ تاریخ بغداد١٢:٦٧٣١٢٨٩؛ تاریخ دمشق٢:٨٥٢٣٤٥ اور صفحہ٨٥٩٣٥٠؛ الصواعق المحرقہ:٩٦؛ ینابیع المودّة:٢٥٧؛ منا قب خوارزمی:٦٧ و٢٤٩؛ منتخب کنزالعمال٥:٤٣٩؛ کنزالعمال١٢:٣١٦٣١٣٢٣؛ الاشاعة فی اشتراط الساعة:٤١۔٤٠؛ موضع اوھام الجمع والتفریق١:٥١، تالیف خطیب بغدادی
.[7]فضائل علی بن ابیطالب، حدیث١٩٠، تالیف احمد بن حنبل؛ معجم کبیر طبرانی،ح٩٦؛ تذکرة الخواص جوزی:٣٢٣،باب١٢؛ الصواعق المحرقہ:٩٦؛مقتل خوارزمی١:١٠٩، فصل٦؛الریاض النضرة٢:٢٠٩
.[8] تفسیر التذھیب:٣٥٥، تالیف بیھقی، ذیل آیت (وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلَکُمْ فِیْ شِیَعِ الأَوَّلِیْنَ)؛ مفاتیح النجا:٦١، تألیف علامہ بدخشی.
.[9]مجمع الزوائد٩:١٧٤؛ ینابیع المودّة، باب٥٨،حدیث٢٧٠؛ الصوعق المحرقہ:٩٦؛معجم الکبیر طبرانی،ترجمہ ابی رافع؛ تذکرةالخواص:٣٣٣؛ فرائد السمطین،ح٣٧٥ نقل از ترجمہ الامام علی بن ابی طالب٢:١٣١؛ اسعاف الراغبین فی سیرة المصطفٰی واھل بیتہ الطاھرین:١٣٠، تالیف ابن صبان؛ کفایة الطالب:٣٢٦؛ فضائل علی بن ابی طالب:١٥٢، تالیف عبداللہ بن احمد حنبل.
.[10]کنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائق:٩٨، تالیف علامہ مناوی؛ تذکرہ خواص الامة:٥٤، باب دوم ؛ تاریخ دمشق٢:٤٢٢،حدیث ٩٥٨؛ مناقب علی :٣٧، تالیف علامہ عینی حیدرآبادی.
کنوز الحقائق:٢٠٣، حرف یائ، تألیف علامہ مناوی۔.[11]
مجمع الزوائد ٩:١٣١۔.[12]
ینابیع المودّة:٢٥٦ ؛ مودّة القربی :٨٥ نقل از احقاق الحق١٧:٢٩٨.[13]
مجمع الزوائد ٩:١٣١.[14]
لسان العرب ٢:٥٦٦ مادہ قمح، منتخب کنزالعمال ٥:٥٢؛ نورالأبصار:٧٨، تألیف شبلنجی شافعی.[15]
ینابیع المودّة :٢٥٦.[16]
مجمع الزوائد ٩:١٧٢.[17]
ینابیع المودّة :٢٥٧؛ مودة القربی:٩٠؛ احقاق الحق ١٧:٢٦١.[18]
.[19]ینابیع المودّة :٢٧٠؛ الصواعق المحرقہ:٩٦؛ مناقب خوارزمی:٢٤٣؛ ارحج المطالب:٥٣٠؛ فرائد السمطین١:٢٤٧٣٠٨.
مناقب ابن مغازلی:٢ ١٥.[20]
تاریخ دمشق ٤٢:٨٩٨٧٣٨٤.[21]
سورة حجر:٤٧.[22]
مجمع الزوائد٩:١٧٣.[23]
مناقب ابن مغازلی :٢٩٦.[24]
کفایة الطالب:٢٤٤؛ فرائد السمطین١:١١٨١٥٩، باب٣١.[25]
مناقب خوارزمی:٢٤٥؛ احقاق الحق٧:١٧٥.[26]
ینابیع المودة:١٧٣،باب٥٨؛ غایة المرام:٥٥٣،تالیف موفق.[27]
مناقب ابن مغازلی شافعی:٢٩٣؛ مناقب خوارزمی:٣٤٥۔٣٥٣؛ ارحج المطالب:٥٢٩.[28]
مناقب خوارزمی:٢٢٩؛ درّبحر المناقب:١١٩،تالیف جمال الدین موصلی.[29]
مناقب مرتضوی:٢٥،باب٢،تالیف ترمذی.[30]
مناقب مرتضوی:٥١.[31]
وسیلة المآل فی عدّ مناقب الآل:١٣١، تالیف حضرمی شافعی.[32]
تاریخ دمشق٢:٣٤٧ء٨٥٥ اور جلد ٤٢:٨٨٩٨٣٣٣.[33]
ینابیع المودّة:٢٥٧، مودة القربی:٧٩.[34]
تاریخ دمشق٢:٨٥٣٣٤٦،طبع مؤسسہ محمودی لبنان.[35]
درّ بحر المناقب: ٥٨؛ مناقب خوارزمی:٦٧،حدیث٣٩، طبع مؤسسہ النشر الاسلامی۔.[36]
مودة القربی:٩٠.[37]
سورة الواقعہ:١١.[38]
تفسیر شواھد التنزیل٢:٢١٦.[39]
المستدرک علی الصحیحین٣:١٦٠.[40]
آل عمران:١٩٥.[41]
شواہد التنزیل١:١٣٨.[42]
مناقب خوارزمی:١٢٩،ح١٤٣،طبع مؤسسہ النشر الاسلامی.[43]
مناقب خوارزمی:٧٣،ح٥٢.[44]
الالزام:٨٠،تالیف شیخ صمیری، نقل از تفسیر مقاتل بن سلیمان، تفسیرقتادہ، تفسیرمجاہد، تفسیر علی بن حرب.[45]
شیعیان علی پر رسول خدا ۖ کا فخر کرنا
٢٨:عن أبی ذر الغفاری قال:
سَمِعْتُ رَسول اللہِۖ یَقُولُ: لَیسَ أَحد مِثلی صِھرًا أَعطَاہُ الحَوضَ وَجعلَ اِلیہِ قِسْمةَ الجنةِ وَالنَارِ، وَلمْ یُعطِ ذَلکَ المَلائِکةَ، وجَعلَ شِیعتَہُ فِی الجَنَةِ[31].
ترجمہ:
حضرت ابوذرغفاری روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ۖ سے سنا آپۖفرما رہے تھے:
میری طرح کسی کا داماد نہیں جسکے اختیار میں خدا نے حوض کوثر رکھا، جنت وجہنم کا تقسیم کرناے والا اسے قرار دیا جبکہ یہ اختیار ملائکہ کو بھی عطا نہ کیا اور انکے شیعوں کو جنت میں مقام عطا کیا۔
شیعیان علی عرش کے سائے میں
٢٩: قَالَ رسولُ اللہ لعلیٍّ:
السَّابِقُونَ اِلٰی ظِلّ العَرشِ یَومَ القِیَامةِ طُوبٰی لَھُمْ ، قِیلَ : یارسولَ اللہ ! مَن ھُمْ؟ قال: شِیعتُکَ یَاعَلِیُ وَمُحِبُّوھُمْ[32].
ترجمہ:
رسول خدا ۖ نے حضرت علی سے فرمایا: خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو روز قیامت سب سے پہلے عرش الہی کے سائے میں پہنچیں گے۔
عرض کیا گیا: یارسول اللہ ۖ! وہ کون لوگ ہیں؟
فرمایا: اے علی ! وہ آپ کے شیعہ اور ان کو دوست رکھنے والے ہیں۔
شیعیان علی کی صحابہ پر فضیلت
٣٠:عن أبی سعید الخدری قال: قال رسول اللہ ۖ:
اِنّ عَن یَمِینِ العرشِ کَرَاسِیّ مِن نُورٍ عَلیھَا أَقوَام تَلألَؤَ وُجوھُھمْ نُورًا۔ فقال أبوبکرٍ: أَنا مِنھُمْ یَانبیّ اللہِ؟ قَال: أنتَ عَلٰی خَیرٍ۔ قَال : فقالَ عُمرُ: یانبیّ اللہِ أنَا مِنھُمْ؟ فقال لہُ مثلَ ذَلکَ۔ وَلٰکِنّھُمْ قوم تَحَابُّوْا مِن أَجْلِی وَھُم ھَذَا وَشِیعَتہِ۔ وَأَشارَ بیدِہِ اِلٰی عَلِیّ بنِ أبیْ طَالبٍ[33]۔
ترجمہ:
ابوسعید خدری رسول اکرم ۖ سے نقل کرتے ہیں کہ آپۖ نے فرمایا:
عرش الہی کے دائیں طرف نور کی کرسیاں لگی ہوئی ہیں جن پر نورانی چہروں والے گوہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ابوبکر کہنے لگے: یانبی اللہ کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ آنحضرت ۖ نے فرمایا: تونیکی پر ہے۔ پھر عمر کہنے لگے: یانبی اللہ کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ آپۖ نے وہی جواب دیا۔ اور پھر فرمایا: یہ وہ قوم جن کی محبت میری خاطر ہے اور وہ یہ علی اور اسکے شیعہ ہیں اور پھر اپنے دست مبارک سے علی بن ابیطالب کی طرف اشارہ فرمایا۔
جنت کی کنجیوں پر شیعیان علی کے نام
٣١: عن جابر: قال رسولُ اللہِ ۖ:
اِذَا کَانَ یَومُ القِیَامةِ یَأْتِینِی جَبرَائِیْلُ وَمِیکَائِیلُ وَبِحَزْمَتَیْنِ مِن المَفاتیحِ: حَزمةٍ مِن مفاتیحِ الجَنّةِ، وحَزمةٍ مِن مفاتیحِ النَّارِ، وَعَلٰی مفاتیحِ الجَنّةِ أَسمائُ المُؤمنینَ مِن شِیعَةِ مُحَمّد ۖ وَعَلیٍ۔ وَعَلٰی مفاتیحِ النّارِ أَسمَائُ المُبغضِینَ مِن أَعدَائہِ۔ فَیقُولانِ لِی: یَاأحمدُ! ھَذا مُحبّک وھذا مُبغضُکَ۔ فَأرفعَھَا اِلٰی عَلِیّ بن أبی طالب فَیحْکُمُ فیھِم بِمَا یُریدُ فَوالّذِی قَسَّمَ الأَرزَاقَ لَایدخلُ مبغضہِ الجنةَ وَلَامُحبّہِ النَّارَ[34]۔
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا: روز قیامت جبرائیل ومیکائیل چابیوں کے دوتھیلے میرے پاس لائیں گے جن میں ایک تھیلا جنت کی چابیوں کا ہوگا اور دوسرا جہنم کی چابیوں کا۔
جنت کی چابیوں پر محمد ۖ اور علی کے مومن شیعوں کے نام تحریر ہوں گے جبکہ جہنم کی چابیوں پر ان کے دشمنوں کے نام۔اور پھر جبرائیل ومیکائیل مجھ سے کہیں گے: اے احمد! یہ آپۖ کا دوست ہے اور یہ آپکا دشمن ہے۔ اور پھر میں وہ چابیاں علی کے حوالے کردوں گا وہ اپنی مرضی سے انکا فیصلہ کریں گے ۔
قسم ہے رزق تقسیم کرناے والی ذات کی، علی کے دشمن جنت میں داخل نہ ہوں گے اور ان سے محبت کرناے والے جہنم میں داخل نہ ہوں گے۔
شیعیان علی نورانی لباس میں
٣٢: قال رسولُ اللہِ ۖ:
یَاعَلِیُّ ! اِذَا یَومُ القِیَامةِ یَخرجُ قوم مِن قُبورھِمْ لِباسھُمْ النُورُ، عَلٰی نَجائبَ مِن نُورٍ، أَزِمّتُھَا یَوَاقِیتُ حُمُر، تَزُفُّھُمُ المَلائکةُ اِلٰی المَحشرِ، فقالَ عَلِیّ: تَبارکَ اللہُ مَاأکرمَ قومًا عَلَی اللہِ؟ قالَ رسولُ اللہِۖ : یَاعَلِیُّ! ھَم أھلَ وِلایتکَ وَشِیعَتکَ وَمُحِبُّوکَ یُحِبونکَ بحبّی، ویحبّونی بحبِّ اللہِ، وھُم الفَائزُونَ یَومُ القِیَامةِ[35].
ترجمہ:رسول خدا ۖ نے حضرت علی سے فرمایا:
یاعلی !قیامت کے دن ایک گروہ قبروں سے ظاہر ہوگا جبکہ انہوں نے نور کے لباس زیب تن کیے ہوئے ہوں گے اور نورانی سواریوں پر سوار ہوں گے، خدا کے ملائکہ انہیں محشر کی طرف رہنامائی کررہے ہوں گے۔
حضرت علی نے عرض کیا: وہ گروہ کس قدر خدا کے ہاں عزیز ومکرّم ہے؟ آپۖ نے فرمایا: یاعلی ! وہ آپ کی ولایت کو قبول کرناے واے، آپ کے شیعہ اور آپکے محب ہیں جو میری خاطر آپ سے محبت کرتے ہیں اور مجھ سے خدا کی خاطر محبت کرتے ہیں۔ یہی لوگ روز قیامت کامیاب وکامران ہیں۔
اگر سب لوگ شیعہ ہوتے تو خدا جہنم کو خلق ہی نہ کرت
٣٣: عن ابن عباس : قال رسول اللہ ۖ لِأَمِیرِ المؤمنینَ علیہ السلام:
یَاعَلِیُّ! لَوِاجْتَمعَتْ أَھلِ الدُّنیَا بِأَسْرِھَا عَلٰی وِلَایَتِکَ لَمَا خَلقَ اللہُ النارَ، وَلکن أَنتَ وَشِیعتُکَ الفَائزُونَ یومَ القیامةِ[36].
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے حضرت علی سے فرمایا:
اے علی ! اگر ساری دنیا آپ کی ولایت کو قبول کرلیتی تو خدا کبھی جہنم کو خلق نہ کرتا، لیکن جان لو کہ آپ اور آپ کے شیعہ ہی روز قیامت کامیاب ہوں گے۔
شیعیان علی کا دوسروں کی شفاعت کرنا
٣٤: قالَ رسولُ اللہِ ۖ :
لَا تَسْتَخِفُّوا بِشیعَةِ عَلِیٍّ، فَانَّ الرَّجُلَ مِنھُمْ یَشفعُ فِی مِثْلِ رَبِیعَةَ وَمُضَرَ[37].
ترجمہ:
رسول خدا ۖ نے فرمایا:
علی کے شیعوں کو حقارت کی نگاہ سے مت دیکھو اسلیے کہ ان میں سے ہرایک شخص قبیلہ ربیعہ ومضر کے برابر افرادکی شفاعت کر سکتا ہے۔
شیعیان علی کا سبقت لے جانا
٣٥: عن ابن عباس: سَأَلتُ رسولَ اللہِ ۖ عَن قولِ اللہِ: (اَلسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ أُوْلٰئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ[38])(١)
قَالَ: حَدَّثنِی جَبرئِیلُ بِتفسِیرِھَا، قالَ: ذَاکَ عَلِیّ وَشِیْعَتِہِ اِلَی الجَنّةِ[39].
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں میں نے رسول خدا ۖ سے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا تو آپۖ نے فرمایا:
جبرائیل نے مجھے اس کی تفسیر یوں بیان کرتے ہوئے بتایا: وہ علی اور ان کے شیعہ (جنت میں سبقت لینے والے ) ہیں۔
شیعیان علی درخت رسالت کے پتے
٣٦: قالَ رسولُ اللہِۖ :
أَنا الشَّجرةُ، وفَاطمةُ فرعُھَا، وعَلِی لقاحُھَا، وَالحسنُ وَالحسینُ ثَمرُھَا، وشِیعَتُنَا وَرَقُھَا، وأَصْلُ الشَّجرةِ فِیْ جَنّةِ عَدْنٍ، وسَائرُ ذَلِکَ فِی الْجَنّةِ[40].
ترجمہ:
رسول خدا ۖ نے فرمایا:
میں (وہ) شجرہ طیبہ ہوں، فاطمہ اُس کی شاخ ہیں، علی اس کا پیوند ہیں، حسن ، حسین اُس کا پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اسکے پتے ہیں، اس درخت کی جڑ جنت میں ہے
شیعیان علی ہی ابرار ہیں
عن الأصبغ بن نباتة قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقولُ: أَخذَ رسولُ اللہِ بِیَدِیْ، ثُمّ قال: یَاأَخی! قول اللہ تعالیٰ: (ثَوَابًا مَنْ عِنْدِ اللّہِ وَاللّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الثَّوَابِ وَمَا عِنْدَاللّہِ خَیْر لِلأَبْرَارِ[41]) أَنتَ الثَّوابُ وَشِیعتُکَ الأَبْرَارُ[42].
ترجمہ:
اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں میں نے علی سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ رسول خدا ۖ نے میرا ہاتھ تھام کر فرمایا:
اے برادرم! خداوند متعال کا یہ فرمان(خدا کے ہاں یہ انکے کیے کا ثواب ہے اور خدا کے یہاں اچھا ہی ثواب ہے) وہ ثواب تم ہو اور ابرار سے مراد آپ کے شیعہ ہیں۔
شیعیان علی نبی ۖ کے جوار میں
٣٨: لَمَّا قَدِمَ عَلِیّ عَلٰی رَسولِ اللہِ لِفَتح خَیْبَرَ قَالَ ۖ:
لَوْلَاأَنْ تَقُولَ فِیکَ طَائفَةً مِن اُمَّتی مَاقَالتِ النَّصاریٰ فِی المسیحِ لَقُلتُ فِیکَ الیومَ مَقَالًا لَاتَمُرُّ بِمَلائٍ اِلَّا أَخذُوا التُّرابَ مِن تَحتَ قَدمیکَ وَمِن فَضلِ طُھُورِکَ یَستَشْفُونَ بہِ، ولکن حسبکَ أن شیعتَک عَلٰی مَنابرَ مَنْ نُورٍ روّائً مَسرورِین، مبیضةً وُجوھُم حَولی أشفعُ لَھم، فَیکونُونَ غدًا فِی الجَنةِ جِیْرَانِیْ[43].
ترجمہ:
جب فتح خیبر کے سلسلہ میں حضرت علی رسول خدا ۖ کی خدمت میں پہنچے تو آنحضرت ۖ نے فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میری امت کا ایک گروہ آپ کے بارے میں وہی بات کرے گا جو عیسی کے بارے میں نصاری نے کہی تو آج میں آپ کے بارے میں ایسی بات بیان کرتا کہ آپ جہاں سے گزرتے لوگ آپ کے پاؤں کی خاک اور آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو شفا کیلئے اکٹھا کرتے۔لیکن آپ (کے مقام ومنزلت) کیلئے یہی کافی ہے کہ آپ کے شیعہ سیراب، خوشحال اور چمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ میرے اطراف میں ہوں گے میں ان کی شفاعت کرونگا اور جنت میں میرے ہمسائے میں ہوں گے۔
شیعیان علی کا مقام
٣٩: قال رسول اللہ ۖ :
لَمَّا اَدْخَلْتُ الْجَنَّةَ رَأَیْتُ فِیھَا شَجرةً وَفِی أَعْلَاھَا الرِّضْوَانُ۔ قُلتُ یاجبرئیلُ لِمَنْ ھَذِہِ الشَّجَرةُ؟
قال: ھذا لِابْنِ عَمّکَ عَلِیَّ بْنَ أبی طَالِبٍ اِذَا أَمَر اللّہُ الخَلیفةَ بِالدُّخُولِ اِلَی الْجَنةِ یُوتیٰ بِشِیْعَةِ عَلِیٍّ یَنْتَھِیْ بِھم اِلیٰ ھَذِہ الشَّجرةُ یَلبِسونَ الْحُلَلَ، وَیرکَبُونَ الخَیلَ البَلَقَ وَیُنادی مُنادٍ: ھَؤُلَائِ شِیعَةُ عَلِیٍّ صَبَرُوا فِی الدُّنیَا عَلَیْ الأَذٰی مَحَبُوا الیَوْمَ[44].
ترجمہ:
رسول خدا ۖ نے فرمایا: جب مجھے (سفرمعراج میں) جنت میں لے جایا گیا تو وہاں پر میں نے ایک درخت دیکھا جس پر رضوان یعنی خدا کی خوشنودی پائی جاتی تھی۔
میں نے پوچھا اے جبرائیل ! یہ درخت کس کیلئے ہے؟
کہا: یہ آپ کے بھائی علی بن ابیطالب کیلئے ہے۔
جب خداوند متعال لوگوں کو جنت میں داخل ہوناے کا امر صادر فرمائے گا تو علی اپنے شیعوں کو اس درخت کے پاس لائیں گے ۔ انہوں نے خوبصورت لباس پہنے ہوں گے اور تیزرفتار سواریوں پر سوار ہوں گے۔ منادی ندا دے گا: یہ علی کے شیعہ ہیں جنہیں دنیا میں تکلیفوں پر صبر کرناے کی بناء پر یہ مقام عطا ہوا ہے۔
شیعہ نجات یافتہ فرقہ
٤٠:عن أنس بن مالک قال:
کُنَّا عِند رسولِ اللہۖ، وَتَذَکرناا رَجُلاً یُصَلِّیْ وَیَصُومُة وَیَتَصَدَّقُ وَیُزَکِّی، فَقالَ یَاأَبَاالحَسنِ لَنَارَسولَ اللّہِ ۖ:
لَاأَعْرُفُہُ... قَال عَلِیّ...فقال: یَاأَباالحَسنِ اِنَّ اُمَّةَ مُوْسیٰ علیہ السلام اِفْتَرَقَتْ عَلٰی اِحْدیٰ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَةً، فِرْقَة نَاجِیَة وَالبَاقُونَ فِیْ النَّارِ۔
وَاِنَّ اُمَّةَ عِیْسیٰ علیہ السلام اِفْتَرَقَتْ عَلٰی اِثْنینَ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَةً، فِرْقَة نَاجِیَة وَالبَاقُونَ فِیْ النَّارِ.
وَستفترقُ اُمَّتیْ عَلٰی ثَلاثٍ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَةً، فِرْقَة نَاجِیَة وَالبَاقُونَ فِیْ النَّارِ.
فقلتُ: یَارسولَ اللہِ ۖ فَمَا النَّاجِیةُ؟ قال: اَلْمُتَمَسِّکُ بِمَا أَنْتَ وَشِیْعَتُکَ وَأَصْحَابُکَ[45]
ترجمہ:
انس بن مالک کہتے ہیں:
میں رسول خدا ۖ کی خدمت میں موجود تھا اور ایک شخص کے بارے میں گفتگو کررہے تھے جو نماز ، روزہ، صدقہ وزکات کا پابند تھا ۔ تو رسول خدا ۖ نے ہم سے فرمایا:میں ایسے شخص کو نہیں جانتا۔ حضرت علی نے سوال کیا تو آنحضرت ۖ نے جواب میں فرمایا:اے ابوالحسن ! بے شک امت موسی اکہتر فرقوں میں بٹ گئی جبکہ ان میں سے صرف ایک فرقہ نجات یافتہ ہے ۔
عیسی کی امت بہتّر فرقوں میں تقسیم ہوگئی جبکہ ان میں سے بھی صرف ایک فرقہ نجات یافتہ ہے۔
اور عنقریب میری امت بھی تہتّر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں سے صرف ایک فرقہ نجات یافتہ ہوگا اور باقی سب جہنمی ہوں گے۔
میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ۖ کونسا فرقہ نجات پائے گا؟ فرمایا: وہ آپ ، آپ کے شیعہ اور آپ کے اصحاب کی سیرت پر عمل کرناے والے ہوں گے۔
١٧ ربیع الاول ١٤٣٠ ہجری روز ولادت باسعادت پیغمبراکرمۖ کتاب مکمل ہوئی۔
حوالے
سوربیّنة:٧.[1]
تفسیر در منثور٦:٣٧٩؛ الصواعق المحرقہ:٩٦؛ تفسیر روح المعانی٣٠:٢٠٧؛ تفسیر جامع البیان٣٠:٢٦٥.[2]
٦:٣٧٩؛ تاریخ دمشق٢:٩٥٨٤٤٢.[3]
تفسیر درّمنثور٦:٣٧٩؛ تاریخ دمشق٢:٩٥٨٤٤٢.[4]
تفسیر درّمنثور٦:٣٧٩؛ تفسیر روح المعانی٣٠:٣٠٧؛ کفایة الطالب:٢٤٦.[5]
.[6] حلیة الاولیائ٤:٣٢٩، تالیف ابونعیم اصفہانی؛ تاریخ بغداد١٢:٦٧٣١٢٨٩؛ تاریخ دمشق٢:٨٥٢٣٤٥ اور صفحہ٨٥٩٣٥٠؛ الصواعق المحرقہ:٩٦؛ ینابیع المودّة:٢٥٧؛ منا قب خوارزمی:٦٧ و٢٤٩؛ منتخب کنزالعمال٥:٤٣٩؛ کنزالعمال١٢:٣١٦٣١٣٢٣؛ الاشاعة فی اشتراط الساعة:٤١۔٤٠؛ موضع اوھام الجمع والتفریق١:٥١، تالیف خطیب بغدادی
.[7]فضائل علی بن ابیطالب، حدیث١٩٠، تالیف احمد بن حنبل؛ معجم کبیر طبرانی،ح٩٦؛ تذکرة الخواص جوزی:٣٢٣،باب١٢؛ الصواعق المحرقہ:٩٦؛مقتل خوارزمی١:١٠٩، فصل٦؛الریاض النضرة٢:٢٠٩
.[8] تفسیر التذھیب:٣٥٥، تالیف بیھقی، ذیل آیت (وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلَکُمْ فِیْ شِیَعِ الأَوَّلِیْنَ)؛ مفاتیح النجا:٦١، تألیف علامہ بدخشی.
.[9]مجمع الزوائد٩:١٧٤؛ ینابیع المودّة، باب٥٨،حدیث٢٧٠؛ الصوعق المحرقہ:٩٦؛معجم الکبیر طبرانی،ترجمہ ابی رافع؛ تذکرةالخواص:٣٣٣؛ فرائد السمطین،ح٣٧٥ نقل از ترجمہ الامام علی بن ابی طالب٢:١٣١؛ اسعاف الراغبین فی سیرة المصطفٰی واھل بیتہ الطاھرین:١٣٠، تالیف ابن صبان؛ کفایة الطالب:٣٢٦؛ فضائل علی بن ابی طالب:١٥٢، تالیف عبداللہ بن احمد حنبل.
.[10]کنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائق:٩٨، تالیف علامہ مناوی؛ تذکرہ خواص الامة:٥٤، باب دوم ؛ تاریخ دمشق٢:٤٢٢،حدیث ٩٥٨؛ مناقب علی :٣٧، تالیف علامہ عینی حیدرآبادی.
کنوز الحقائق:٢٠٣، حرف یائ، تألیف علامہ مناوی۔.[11]
مجمع الزوائد ٩:١٣١۔.[12]
ینابیع المودّة:٢٥٦ ؛ مودّة القربی :٨٥ نقل از احقاق الحق١٧:٢٩٨.[13]
مجمع الزوائد ٩:١٣١.[14]
لسان العرب ٢:٥٦٦ مادہ قمح، منتخب کنزالعمال ٥:٥٢؛ نورالأبصار:٧٨، تألیف شبلنجی شافعی.[15]
ینابیع المودّة :٢٥٦.[16]
مجمع الزوائد ٩:١٧٢.[17]
ینابیع المودّة :٢٥٧؛ مودة القربی:٩٠؛ احقاق الحق ١٧:٢٦١.[18]
.[19]ینابیع المودّة :٢٧٠؛ الصواعق المحرقہ:٩٦؛ مناقب خوارزمی:٢٤٣؛ ارحج المطالب:٥٣٠؛ فرائد السمطین١:٢٤٧٣٠٨.
مناقب ابن مغازلی:٢ ١٥.[20]
تاریخ دمشق ٤٢:٨٩٨٧٣٨٤.[21]
سورة حجر:٤٧.[22]
مجمع الزوائد٩:١٧٣.[23]
مناقب ابن مغازلی :٢٩٦.[24]
کفایة الطالب:٢٤٤؛ فرائد السمطین١:١١٨١٥٩، باب٣١.[25]
مناقب خوارزمی:٢٤٥؛ احقاق الحق٧:١٧٥.[26]
ینابیع المودة:١٧٣،باب٥٨؛ غایة المرام:٥٥٣،تالیف موفق.[27]
مناقب ابن مغازلی شافعی:٢٩٣؛ مناقب خوارزمی:٣٤٥۔٣٥٣؛ ارحج المطالب:٥٢٩.[28]
مناقب خوارزمی:٢٢٩؛ درّبحر المناقب:١١٩،تالیف جمال الدین موصلی.[29]
مناقب مرتضوی:٢٥،باب٢،تالیف ترمذی.[30]
مناقب مرتضوی:٥١.[31]
وسیلة المآل فی عدّ مناقب الآل:١٣١، تالیف حضرمی شافعی.[32]
تاریخ دمشق٢:٣٤٧ء٨٥٥ اور جلد ٤٢:٨٨٩٨٣٣٣.[33]
ینابیع المودّة:٢٥٧، مودة القربی:٧٩.[34]
تاریخ دمشق٢:٨٥٣٣٤٦،طبع مؤسسہ محمودی لبنان.[35]
درّ بحر المناقب: ٥٨؛ مناقب خوارزمی:٦٧،حدیث٣٩، طبع مؤسسہ النشر الاسلامی۔.[36]
مودة القربی:٩٠.[37]
سورة الواقعہ:١١.[38]
تفسیر شواھد التنزیل٢:٢١٦.[39]
المستدرک علی الصحیحین٣:١٦٠.[40]
آل عمران:١٩٥.[41]
شواہد التنزیل١:١٣٨.[42]
مناقب خوارزمی:١٢٩،ح١٤٣،طبع مؤسسہ النشر الاسلامی.[43]
مناقب خوارزمی:٧٣،ح٥٢.[44]
الالزام:٨٠،تالیف شیخ صمیری، نقل از تفسیر مقاتل بن سلیمان، تفسیرقتادہ، تفسیرمجاہد، تفسیر علی بن حرب.[45]
No comments:
Post a Comment