الف:بے مقصد گھونے اور عدم تحفظ کےاحساس سے نجات اور خاندان کی تشکیل.غیر شادی شده لڑکا اورلڑکی اس کبوتر کی مانند هوتے هیں جس کا کوئی آشیانه نهیں هوتا اور شادی کے ذریعه وه ایک گھر،ٹھکانه اور پناه گاه حاصل کرلیتے هیں. زندگی کا ساتھی،مونس و غمخوار ،محرم راز، محافظ اور مددگار پالیتے هیں.
ب:جنسی خواهشات کی تسکینجنسی خواهش ،انسان کے وجود کی ایک بهت اهم اور زبردست خواهش هوتی هے اسی لئے ایک ساتھی کے وجود کی ضرورت هے که سکون و اطمنان کےساتھ ضرورت کے وقت اس کےوجود سے فائده اٹھا ئے اور لذت حاصل کرے.جنسی خواهشات کی صحیح طریقے سے تکمیل هونی چاهئےکیوں که یه ایک فطری ضرورت هے.ورنه ممکن هے اس کے سماجی،جسمانی اور نفسیاتی طور پربرے نتائج نکلیں.جولوگ شادی سے بھاگتےهیں عموماً ایسے لوگ نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلاهوتے هیں.
ج:تولید و افزائش نسلشادی کےذریعے انسان اولادپیدا کرتاهے.بچے کاوجود شادی کاثمره هوتاهے اور خاندان کی بنیادی کو مستحکم کرنے نیز میاں بیوی کے تعلقات کو خوشگوار اور پائداربنانے کاسبب بنتاهے.یهی وجه هے که قرآن اور احادیث میں شادی کے مسئله پربهت زیاده تاکید کی گئی هے.مثال کے طورپر خداوند عالم قرآن مجید فرماتاهے خداکی نشانیوں میں سے ایک نشانی یه (بھی) هے که اس نے تمهارے لئے شریک زندگی بنائی تاکه تم ان سے انس پیداکرو.روم،21رسولخداﷺفرماتے هیں:“اسلام میں شادی سے بهتر کوئی بنیاد نهیں ڈالی گئی هے.” امیرالمومنین فرماتے هیں. “شادی کرو که یه رسول خداﷺ کی سنت هے.”
وسائل الشیعه،ج14،ص3پیغمبراکرمﷺکاارشادهے“جوشخص چاهتاهے که میری سنت کی پیروی کرے اسے چاهئے شادی کرلے .شادی کے وسیلے سے اولاد پیدا کرے(اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافه کرے )تاکه قیامت میں میری امت کی تعداد دوسری امتوں سے زیاده هو.”
وسائل الشیعه،ج14،ص13امام رضا فرماتے هیں.“انسان کے لئے نیک اور شائسته شریک زندگی سے بڑھ کراور کوئی سود مند چیز نهیں.ایسی بیوی که جب اس کی طرف نگاه کرےتواسے خوشی و شادمانی حاصل هو. اس کی غیر موجودگی میں اپنے نفس اور اس کے مال کی حفاظت کرے.”
وسائل الشیعه،ج14،ص23مذکوره باتیں،شادی کےذریعه حاصل کئے جانے والے دنیوی اور مادی فوائد و منافع کے متعلق تھیں که ان میں سے بعض حیوانات بھی بهره مند هوتے هیں.البته اس قسم کے مفادات کو انسان کی ازدواجیزندگی کا(اس اعتبار سے که وه انسان هے) اصل مقصد قرار نهیں دیاجاسکتا.انسان اس دنیا میں اس لئے نهیں آیا هے که وه ایک مدت تک کھائے،پئیے،سوئے،عیش کرے،لذتیں اٹھائے اورپھرمرجائےاورنابود هوجائے.اس کامرتبه ان تمام باتوں سےکهیں اعلیٰ اور ارفع هے.انسان اس دنیا میں اس لئے آیا هے تاکه علم وعمل اور اعلیٰ اخلاق کے ذریعه اپنے نفس کی تربیت کرے اور انسانیت کی راه مستقیم اور کمال کے مدارج کو طے کرے اور اس طرح پروردگا عالم کا قرب حاصل کرسکے.انسان ایک ایسی اعلیٰ اور برتر مخلوق هے جوتهذیب تزکیه نفس کے ذریعے برائیوں سےاجتناب کرکے اپنے فضائل اوربلند اخلاق نیز نیک کام انجام دے کر ایسے ارفع مقام پرپهنچ سکتاهے جهاں فرشتوں کی بھی رسا ئی ممکن نهیں.انسان ایک جاوداں مخلوق هے اور اس دنیا میں اس کے آنے کامقصد یه هے که پیغمبروں کی هدایت و رهنمائی کے ذریعے دین کے اصول وقوانین کے مطابق عمل کرکے اپنے لئے دین و دنیا کی سعادت فراهم کرے اورآخرت میں پروردگار عالم کی رحمت کے سائے میں خوشی وآرام کے ساتھ ابدی زندگی گزارے.لذا انسان کی ازدواجی زندگی کے اصل مقصدکواسی پس منظر میں تلاش کرنا چاهئے.ایک دیندار انسان کے نزدیک شادی کا اصل مقصدیه هے که وه اپنے شریک زندگی کے اشتراک وتعاون سے اپنے نفس کو گناهوں ،برائیوں اوربداخلاقیوں سے محفوظ رکھے اورصالح اعمال اورنیک وپسندیده اخلاق و کردار کےساتھ اپنے نفس کی تربیت کرے تاکه انسانیت کےبلند مقام پرپهنچ جائے اورخدا کاقرب حاصل کرلے.اورایسے اعلیٰ مقصدکےحصول کے لئے شائسته،نیک وموزوں شریک زندگی کی ضرورت هوتی هے.دومومن انسان جوشادی کے ذریعه خاندان کی تشکیل کرتے هیں انس ومحبت کے سائے میں سکوں و اطمینان کے ساتھ اپنی جائز خواهشات سے بهرمند هوسکتے هیں اور اس طرح ناجائز تعلقات قائم کرنے فساد وتباهی کے مراکزکا رخ کرنے نیز خاندانوں کوتباه کردینے والی شب باشیوں کے شرسے محفوظ رکھنے کے اسباب مهیاکئے جاسکتے هیں.یهی سب هے که پیغمبراکرمﷺ اور ائمه اطهار نے ازدواج یعنی شادی پر بهت زیاده تاکید فرمائی هے.رسول خدا فرماتے هیں.“جوشخص شادی کرتاهے اپنےآھے دین کی حفاظت کے اسباب مهیا کرلیتاهے”
وسائل الشیعه،ج14،ص5امام صادق فرماتے هیں.“شادی شده انسان کی دو رکعت نماز، غیر شادی شده انسان کی ستر رکعت نمازوںسے زیاده افضل هے.”
وسائل الشیعه،ج14،ص6دین دار اور مناسب شریک زندگی (خواه مردهو یا عورت ) کاوجود، فرائض کی ادائیگی اور واجبات و مستحبات پر عمل کرنے کے سلسلے میں بهت اهم کردار ادا کرتاهے.اگر شوهر وبیوی دونوں دین دار هوں اور تزکیه نفس سے بهر مندهوں تو اس دشوار گزار راه کو طے کرنے میں نه صرف یه که کوئی رکاوٹ نهیں هوگی ایک دوسرے کے معاون و مددگار ثابت هوں گے.خدا کی راه میں جهاد کرنے والا ایک سپاهی کیا اپنی شریک زندگی کے تعاون اور رضامندی کے جنگ میں اچھی طرح لڑسکتاهے اور دلیرانه کارنامے انجام دے سکتاهے؟کیا کوئی انسان اپنی شریک حیات کی وافقت کے بغیر روزی ،علم اورمال و دولت کے حصول میں تمام شرعی اور اخلاق پهلوؤں کا لحاظ رکھ سکتاهے؟اسراف اور فضول خرچیوں سے بچ سکتاهے؟اپنے ضروری اخراجات کے علاوه رقم کو نیک کاموں میں خرچ کرسکتاهے؟مومن اور دین دار شریک زندگی اپنے ساتھی کونیکی اور اچھا ئیوں کی ترغیب دلاتے هیں اور لاابالی اور بداخلاق،اپنے شریک زندگی کوبرائیوں اور بداخلاقیوں کی طرف راغب کرتے هیں.اور انسانیت کے مقدس دور کردیتے هیں. اسی سبب سے مرد اور عورت دونوں کےلئے کهاگیا هے که شریک حیات کے انتخاب کے وقت ایمان، دین داری اور اخلاق کو بنیادی شرط قرار دیں.رسول خداﷺکاارشاد هے که“خداوند عالم نے فرمایا:جب میں اراده کرتاهوں که دنیا و آخرت کی تمام خوبیاں کسی مسلمان شخص کے لئے جمع کردوں تو اس کو مطیع قلب، ذکرکرنے والی زبان اور مصیبتوں پر صبر کرنے وال بدن عطا کرتاهوں.اور اس کو اسی مومن بیوی دیتاهوں که جب بھی اس کی طرف دیکھے اسے خوش و مسرور اور اس کی غیرموجودگی میں اپنے نفس اور اس کے مال کی حفاظت کرنے والی هو.”
وسائل الشیعه،ج14،ص23ایک شخص نے رسول خداکی خدمت میں آکر عرض کیاکه میری بیوی، جب میں گھرمیں داخل هوتاهوں تو میرے استقبال کے لئے آتی هے،جب گھر سےباهرجاتاهوں تو مجھے رخصت کرتی هے. رنجیده دیکھتی هے تو میری دلجوئی کرتی هے اورکهتی هے اگرتم رزق روزی کے متعلق فکرمند هوتو رنجیده نه هو که روزی کاضامن توخدا هے اور اگر آخرت کے امور کے بارے میں سوچ رهے هو تو خداتمهاری فکر و کوشش اور همت میں اور اضافه کرے.رسول خداﷺنے فرمایا:“اس دنیا میں خدا کے کچھ خاص مقرب بندے هیں اور یه عورت بھی خدا کے ان خاص بندں میں سے هے.ایسی بیوی ایک شهید کے نصف ثواب سے بهره مند هوگی.”
وسائل الشیعه،ج14،ص17
امیرالمومنین حضرت علی کے پیش نظر بھی یهی اعلیٰ مقصد تھا که حضرت زهرا علیهاالسلام کےبارے میں فرمایا “اطاعت خداکی راه میں بهترین معاون و مدد گار هیں.”
تاریخ میں هے که رسوخداﷺ،حضرت علی اور جناب زهراسلام الله علیها کی شادی کے بعد مبارک باد دینے اور احوال پرسی کی غرض سے ان کے گھر تشریف لے گئے. حضرت علی سے پوچھا! اپنی شریک زندگی کوتم نے کیسا پایا؟ حضرت علی نےجواب دیا! “خداکی اطاعت کے لئے زهرا کو میں نے بهترین مددگار پایا.”اس کے بعد جناب فاطمه زهراسلام الله علیها سے پوچھا تم نے اپنے شوهر کو کیسا پایا؟جواب ملا که“بهترین شوهر.”
بحارالانوار،ج43،ص117امیرالمومنین نے اس مختصر سے جملے کے ذریعے اسلام کی شائسته اور مثالی خاتون کا تعارف بھی کرایا اور ازدواجی زندگی کے بنیادی اور اهم مقصد کوبھی بیان فرمادیا.
آیت اللہ ابراهیم امینی
No comments:
Post a Comment