Friday, 21 February 2014

کیا عیسی مسیح(ع) زندہ ہیں؟

بعض غیر مسلم اور بعض مسلمان یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن کے مطابق حضرت عیسی(ع) مر گئے تھے اور یہ عقیدہ درست نہیں کہ ان کو اٹھا لیا گیا تھا۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ جواب) یہ شبہ عیسائیوں اور مستشرقین نے اٹھایا تھا، اور جب ہندوستان میں قادینی فتنہ آیا تو انہوں نے اس عقیدے کی شدّت سے پرچار کی کیونکہ یہ ان کی ضرورت تھی۔ حضرت عیسی مسیح(ع) کو مردہ ثابت کر کے یہ لوگ مرزا احمد قادیانی کو مسیح موعود ثابت کرتے تھے۔ جبکہ ان تمام لوگوں کا شبہ بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن صریح فرماتا ہے کہ حضرت عیسی(ع) نہیں مرے اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا گيا۔ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے؛ وَ قَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا المَْسِیحَ عِیسى ابْنَ مَرْیَمَ رَسولَ اللَّهِ وَ مَا قَتَلُوهُ وَ مَا صلَبُوهُ وَ لَکِن شبِّهَ لهَُمْ وَ إِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ لَفِى شکٍ مِّنْهُ مَا لهَُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلا اتِّبَاعَ الظنِّ وَ مَا قَتَلُوهُ یَقِینَا اور ا ن کا یہ قول کہ ہم نے اللہ کے رسو ل مسیح بن مریم کو قتل کیا ہے، جبکہ فی الحقیقت انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا بلکہ( دوسرے کو) ان کے لیے شبیہ بنا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا وہ اس میں شک میں مبتلا ہیں،ظن کی پیروی کے علاوہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں اور انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا (سورہ نساء: 157) اس آیت میں یہودیوں کے قول کی نفی کی گئی ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے عیسی مسیح(ع) کو قتل کر دیا تھا، واضح طور پر اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ نہ قتل کئے گئے اور نہ ان کو صلیب پر چڑھایا گیا، بلکہ اس امر کو ان پر مشتبہ رکھا گیا یعنی بظاہر ان کو لگا کہ انہوں نے حضرت عیسی(ع) کو قتل کیا ہے جبکہ انہوں نے دراصل کسی اور کو سولی پر چڑھا دیا تھا۔ اور جو لوگ ان کے قتل کے بارے میں شک کرتے ہیں وہ یقینا غلطی پر ہیں اور صرف گمان کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالی دوبارہ فرماتا ہے "ومَا قَتَلُوهُ یَقِینَا"۔۔۔۔۔ اور یقینا انہوں نے عیسی(ع) کو قتل نہیں کیا اس سے بڑھ کر واضح آیت کیا ہوگی؟ جو شبہ ایجاد کرتے ہیں وہ قرآن سے مکمّل واقف نہیں بلکہ محض ایک آیت سے ایسا نتیجہ اخذ کرتے ہیں، گویا متشابہات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ ایک اور آيت کے تناظر میں شبہ ایجاد کرتے ہیں اور مندرجہ بالا آیت کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں۔ وہ سورہ آلعمران آیت 55 سے استدلال کرتے ہیں جو یوں ہے؛ اذْ قَالَ اللَّهُ یَعِیسى إِنى مُتَوَفِّیک وَ رَافِعُک إِلىَّ وَ مُطهِّرُک مِنَ الَّذِینَ کفَرُوا وَ جَاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوک فَوْقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِلى یَوْمِ الْقِیَمَةِ ثُمَّ إِلىَّ مَرْجِعُکمْ فَأَحْکمُ بَیْنَکُمْ فِیمَا کُنتُمْ فِیهِ تَخْتَلِفُونَ • جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ اب میں تمہاری مدت پوری کر رہا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں (کی ناپاک سازشوں) سے پاک کرنے والا ہوں اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے انہیں قیامت تک کفر اختیار کرنے والوں پر بالادست رکھوں گا، پھر تم لوگوں کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر اس وقت میں تمہارے درمیان (ان باتوں کا) فیصلہ کروں گا جن میںتم اختلاف کرتے رہے ہو ان کا دعوی ہے کہ یہاں "توفّی" کا لفظ استعمال ہوا ہے، اردو میں "وفات" کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو توفّی کا ہی مادہ ہے، لیکن یہ لوگ اس لفظ کے عربی معنی کو فراموش کر کے کہتے ہیں کہ حضرت عیسی(ع) کی وفات ہوئی۔ جبکہ ان کی یہ بات عربی زبان سے نابلد ہونے کی دلیل ہے۔ لعنت میں "توفّی" کے معنی کسی چیز کو مکمّل طور پر اخذ کرنا یا لے لینا ہے۔ مثلا عربی میں کہتے ہیں "توفیت الشي ء" یعنی میں نے فلاں چیز کو مکمّل طور پر لے لیا۔ لہذا انہی معنوں میں وفات کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے، یعنی اس فانی دنیا سے کسی کا دوسرے جہاں میں منتقل ہونا یا اس کی روح کو مکمّل طور پر قبض کر لینا۔ قرآن میں صرف موت کے لئے توفّی استعمال نہیں ہوا بلکہ متعدد معنوں میں استعمال ہوا ہے، مثلا سورہ انعام آیت 60 میں ارشاد ہے؛ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُّسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ اور وہی تو ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتاہے اور دن میں جو کچھ تم کرتے ہو اس کا علم رکھتا ہے پھر وہ دن میں تمہیں اٹھا دیتا ہے تاکہ معینہ مدت پوری کی جائے پھر تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو یہاں نیند کے لئے توفّی کا لفظ استعمال ہوا ہے، جبکہ سوتے ہوئے کوئی وفات نہیں پا جاتا لیکن یہاں ان معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے کہ رات کو ہماری روح جسم سے الگ کسی اور دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ کہدیجئے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹائے جاؤ گے (سورہ سجدہ: 11) یہاں توفّی کا لفظ روح کو قبض کرنے یا اخذ کرنے میں استعمال ہوا ہے۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیںمرا اس کی (روح) نیند میں (قبض کر لیتا ہے) پھر وہ جس کی موت کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے اسے روک رکھتا ہے۔ (سورہ زمر: 42) یہاں بھی روح کو قبض کرنے کے لئے توفّی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایک اور نکتہ اس آیت سے اخذ ہوتا ہے کہ مرنے کے لئے قرآن نے "موت" کا لفظ استعمال کیا ہے جو متعدد آیات سے واضح ہے۔ ہم ذیل میں وہ چند آیتیں پیش کرتے ہیں جن میں مرنے کے لئے موت کا ہی لفظ استعمال ہوا ہے۔ 1) سورہ آل عمران: 144۔ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىَ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللّهُ الشَّاكِرِينَ اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزرچکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤںپھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو جزا دے گا 2) سورہ فاطر: 36۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے جہنم کی آتش ہے، نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ مر جائیں اور نہ ہی ان کے عذاب جہنم میں تخفیف کی جائے گی، ہر کفر کرنے والے کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں. پس یہ ثابت ہوا کہ جس آیت سے یہ لوگ حضرت عیسی(ع) کی وفات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا تعلق ان کی موت سے نہیں، بلکہ ان کو اس دنیا سے زندہ اٹھا دینا ہے۔ قرآن کی محض ایک آیت سے استدلال کرنا انتہائی جہالت کی علامت ہے کیونکہ قرآن کی آیتیں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ اگر بالفرض یہاں "توفّی" کے لفظ میں شبہ ہو جائے تو اس کی تشریح سورہ نساء کی آیت 157 نے کر دی کہ حضرت عیسی(ع) ہرگز مارے نہیں گئے بلکہ زندہ ہیں۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ العبد: ابوزین الہاشمی

No comments:

Post a Comment