Thursday, 20 February 2014

کیا دوسروں کو پکارنا ان کی عبادت اور شرک ہے؟


جواب:اس قسم کے سوال کا سبب قرآن مجید کی وہ آیتیں ہیں جو اپنے ظاہری معنی کے اعتبار سے غیر خدا کو پکارنے سے روکتی ہیں:
( وََنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّہِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اﷲِ َحَدًا ) (سورہ جن : 18)
اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو.

( وَلاتَدْعُ مِنْ دُونِ اﷲِ مَا لایَنْفَعُکَ وَلایَضُرُّکَ) (سورہ یونس : 106)
اور خدا کے علاوہ کسی ایسے کو آواز نہ دو جو نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان.

بعض لوگ اس قسم کی آیتوں کو سند بنا کر یہ کہتے ہیں کہ اولیائے خدا اور صالحین کو ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد پکارنا شرک اور ان کی عبادت ہے. 
اس سوال کے جواب میں مناسب یہ ہے کہ سب سے پہلے ان دو کلمات ''دعا'' اور ''عبادت'' کے معنی واضح کردئے جائیں اس میں شک نہیں کہ عربی زبان میں لفظ دعا کے معنی ندا اور پکارنے کے ہیں اور لفظ عبادت کے معنی پرستش کے ہیں اس اعتبار سے یہ دونوں الفاظ ہرگز ہم معنی نہیں ہیں یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہر ندا اورطلب عبادت اور پرستش ہے اس کی مندرجہ ذیل دلیلیں ہیں :

١۔قرآن مجید میں لفظ دعوت بعض ایسی جگہوں پر استعمال ہوا ہے جہاں ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے مراد عبادت ہے جیسے:
( قَالَ رَبِّ ِنِّ دَعَوْتُ قَوْمِ لَیْلاً وَنَہَارًا) (سورہ نوح : 5)
انہوں نے کہا پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن میں بھی بلایا اور رات میں بھی.

کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت نوح (ع) کی مراد یہ تھی کہ میں نے دن رات ان کی عبادت کی ہے.
لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دعوت (پکارنا ) اور عبادت ہم معنی کلمات ہیں لہذا اگر کوئی شخص پیغمبراکرمۖ یا کسی اور صالح بندے سے مدد طلب کرے اور انہیں پکارے تو اس کا یہ عمل ان کی عبادت شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ دعوت کے معنی میں پرستش کی بہ نسبت زیادہ عمومیت ہے.

۲۔ آیات کے اس مجموعے میں دعا سے مراد ہر قسم کا پکارنا نہیں ہے بلکہ ایک خاص قسم کا پکارنا مقصود ہے جو کہ لفظ پرستش کا لازمہ ہوسکتا ہے کیونکہ یہ آیات ان بت پرستوں کے بارے میں آئی ہیں جو اپنے بتوں کو چھوٹے خدا تصور کرتے تھے . اس میں شک نہیں ہے کہ بت پرستوں کا خضوع ان کی دعا اور ان کی فریاد یہ سب ایسے بتوں کے مقابلے میں تھا جنہیں وہ حق شفاعت اور مغفرت کا مالک سمجھتے تھے ان کی نگاہ میں یہ بت دنیا اور آخرت کے امور میں مستقل طور پر حق تصرف رکھتے تھے اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان شرائط کے ساتھ ان موجودات کو پکارنا اور ان سے کسی قسم کی التجا کرنا ان کی عبادت شمار ہوگا کیونکہ وہ ان کو خدا کی حیثیت سے پکارتے تھے اور اس کا بہترین گواہ درج ذیل آیت ہے:
(فَمَا َغْنَتْ عَنْہُمْ آلِہَتُہُمْ الَّتِ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اﷲِ مِنْ شَْئٍ ) (سورہ ہود : 101)
عذاب کے آجانے کے بعد انکے وہ خدا بھی کام نہ آئے جنہیں وہ خدا کو چھوڑ کر پکار رہے تھے لہذا یہ آیتیں ہماری بحث سے کوئی ربط نہیں رکھتیں کیونکہ ہماری بحث کا موضوع ایک بندے کا دوسرے بندے سے کوئی التجا کرنا ہے جبکہ یہ بندہ اسے نہ تواپنا خدا سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے دنیا و آخرت کے امور میں اپنا مالک ، تام الاختیار یا تصرف کرنے والا مانتا ہے بلکہ اسے خدا کا ایسا معزز اور محترم بندہ سمجھتا ہے جسے پروردگار عالم نے منصب رسالت یا امامت سے نوازا ہے اوروعدہ کیا ہے کہ اس کی دعا کو اپنے بندوں کے حق میں قبول کرے گا اس سلسلے میں خدا فرماتا ہے :
(وَلَوْ َنَّہُمْ ِذْ ظَلَمُوا َنفُسَہُمْ جَائُ وکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَحِیمًا) (سورہ نساء : 64)
اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.

٣۔مذکورہ آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ دعوت سے مراد ہر قسم کی درخواست اور حاجت نہیں ہے بلکہ اس دعوت سے مراد پرستش ہے اسی لئے ایک آیت میں لفظ دعوت کے بعد بلا فاصلہ اسی معنی کیلئے لفظ ''عبادت'' استعمال کیا گیا ہے
( وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِ َسْتَجِبْ لَکُمْ ِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِ سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ) (سورہ غافر : 60)
اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے.
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا اس آیت کے آغاز میں لفظ ''ادعونی'' ہے اور اس کے ذیل میں لفظ ''عبادتی'' آیا ہے یہ اس بات پر شاہد ہے کہ ان آیتوں میں لفظ دعوت سے مراد وہ التجا و استغاثہ ہے جو ایسے موجودات سے کیاجاتا ہے جنہیں وہ خدا کی صفات سے متصف سمجھتے تھے۔.

نتیجہ:ان گزشتہ تین مقدموں کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان آیات میں قرآن مجید کا بنیادی مقصد بت پرستوں کو بتوں کو پکارنے سے روکنا ہے وہ بت کہ جنہیں وہ خدا کا شریک یا مدبر یا صاحب شفاعت جانتے تھے.کفار کا ان بتوں کے سامنے ہر قسم کا خضوع اور احترام یا گریہ اور استغاثہ کرنا اور ان سے شفاعت کاطلب کرنا یا پھر ان سے اپنی حاجت طلب کرنا یہ سب اس وجہ سے تھا کہ وہ ان بتوں کو چھوٹے خدا سمجھتے تھے اور انہیں خدا کے کاموں کو انجام دینے والا تصور کرتے تھے بت پرستوں کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا نے دنیا اور آخرت کے متعلق بعض کام ان بتوں کو سونپ دئے ہیں اس اعتبار سے ان آیتوں کا ایک ایسے روح رکھنے والے انسان سے استغاثہ کرنے سے کیا تعلق ہے جو پکارنے والے کی نظرمیں ذرہ برابر بھی بندگی کی حد سے باہر قدم نہیں رکھتا بلکہ اس کی نگاہ میں خداوندعالم کا محبوب و محترم بندہ ہے .
اگر قرآن مجید فرماتا ہے:
(وََنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّہِ فَلاَ تَدْعُوا مَعَ اﷲِ َحَدًا ) (سورہ جن : 18)
''اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو.''
تو اس سے مراد پرستش کے قصد سے پکارنا ہے کیونکہ زمانۂ جاہلیت کے عرب بتوں ، ستاروں، فرشتوں، اور جنوں کی پوجاکیا کرتے تھے یہ آیت اور اس قسم کی دوسری آیتیں کسی شخص یاکسی شے کو معبود سمجھ کر پکارنے سے متعلق ہیںاور اس میں شک نہیں کہ ان موجودات سے اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوئے کسی چیز کی درخواست کرنا ان کی عبادت شمار ہوگا لیکن ان آیتوں کا کسی ایسے شخص سے دعا کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کے سلسلے میں دعا کرنے والا شخص اس کی ربوبیت یا الوہیت کا قائل نہیں ہے بلکہ اس شخص کو خدا کا بہترین اور محبوب بندہ سمجھتا ہے؟
ممکن ہے کوئی یہ تصور کرے کہ اولیائے خدا کو صرف ان کی زندگی میں پکارنا جائز ہے اور ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد انہیں پکارنا شرک ہے.
اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے:
١۔ہم خاک میں سونے والے جسموں سے مدد نہیں مانگتے ہیں بلکہ ایسے نیک بندوں کی پاک ارواح (جیسے پیغمبرۖ اور اماموں) سے مدد مانگتے ہیں جو قرآنی آیات کی صراحت کے مطابق زندہ ہیں اور شہداء سے بھی بلند وبالا مقام و منزلت کے ساتھ برزخ کی زندگی گزار رہے ہیں اور اگر ہم ان کی قبروں پر جاکر ان سے اس طرح کی درخواستیں کرتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ یہاں آکر ہم ان کی مقدس ارواح کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان سے رابطہ قائم کرتے ہیں اس سے بڑھ کر یہ کہ روایات کے مطابق یہ مقدس مقامات وہ ہیں جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں.
٢۔ان اولیائے الہی کابقید حیات ہونا یا حیات سے متصف نہ ہونا شرک یا توحید کی شناخت کا معیار نہیں ہے اور ہماری گفتگو شرک اور توحید کے معیار کے بارے میں ہے لیکن ان کو پکارنا فائدہ مند ہے یا نہیں؟ تو یہ ہماری گفتگو سے خارج ہے.
البتہ اس مسئلے (کہ کیا اس قسم کے استغاثے فائدہ مند ہیں؟) کے بارے میں گفتگو اس کی مناسب جگہ پر موجود ہے۔

[ حوالہ : کتاب "شیعہ جواب دیتے ہیں" ، تالیف : آیت اللہ سید رضا حسینی نسب

No comments:

Post a Comment