Sunday, 23 February 2014

اہل سنت کے علماء نے حديث "مدينة العلم" کو کن تعبير کے ساتھ نقل کيا ہے؟

اہل سنت کي کتابوں ميں حديث "مدينة العلم" مختلف تعبير کے ساتھ نقل ہوئي ہے۔

يہاں پر ان ميں سے بعض کو بيان کريں گے:۱۔ حاکم نيشاپوري اپني سند کے ساتھ ابن عباس اور جابر بن عبداللہ انصاري سے نقل کرتے ہيں کہ رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ) نے فرمايا ہے: "انا مدينة العلم و علي بابها فمن اراد العلم فليات الباب"(۱)۔"ميں علم کا شہر ہوں اور علي اس کے دروازہ ہيں، تو جو بھي اس شہر (علم) ميں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے وہ دروازے سے آئے۔"۲۔ ترمذي نے اپني صحيح ميں "جامع الاصول" کے نقل کے مطابق رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ) سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمايا:"انا مدينة العلم و علي بابها"(۲)۔ "ميں علم کا شہر ہوں اور علي اس کے دروازہ ہيں۔"۳۔ ابن عبدالبر قرطبي نے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ) سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمايا:" انا مدينة العلم و علي بابها فمن اراد العلم فلياتها من بابها"(۳)۔ "ميں علم کا شہر ہوں اور علي اس کے دروازہ ہيں تو جو بھي علم حاصل کرنا چاہے وہ دروازے سے داخل ہو۔"۴۔ ترمذي اپني سند کے ساتھ رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ) سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے فرمايا:"انا دار الحکمة و علي بابها"(۴)۔ "ميں حکمت کا گھر ہوں اور علي اس کے دروازہ ہيں۔"۵۔ ابن جرير نے تہذيب الآثار (۵) ميں محمد بن اسماعيل سے اس نے عبدالسلام بن صالح ہروي سے اس نے ابومعاويہ سے اس نے اعمش سے اس نے مجاہد سے اور اس نے ابن عباس سے نقل کيا ہے کہ پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ) نے فرمايا:"انا مدينة العلم و علي بابها فمن اراد المدينة فلياتها من بابها"۔ "ميں علم کا شہر ہوں اور علي اس کا دروازہ ہيں تو جو بھي شہر ميں آنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ اس کے دروازے سے آئے۔"۶۔ حاکم نيشاپوري نے "المستدرک علي الصحيحين" (۶) ميں ابوالعباس محمد بن يعقوب سے اس نے محمد بن عبدالرحيم ہروي سے اس نے ابو صلت عبدالرحمن بن صالح سے اس نے معاويہ سے اس نے اعمش سے اس نے مجاہد سے اور اس نے ابن عباس سے نقل کيا ہے کہ رسول خدا (صلي اللہ عليہ و آلہ) نے فرمايا: "انا مدينة العلم و علي بابها فمن اراد العلم فليات الباب"۔"ميں علم کا شہر ہوں اور علي اس کے دروازہ ہيں، تو جو بھي اس شہر (علم) ميں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے وہ دروازے سے آئے"(۷)۔
منابع اور مآخذ:
۱) مستدرک حاکم، ج ۳، ص ۱۲۶۔۲) جامع الاصول، ج۹، ص ۴۷۳۔۳) الاستيعاب، ج ۳، ص ۱۱۰۲۔۴) الجامع الصحيح ، ج۵، ص ۶۳۷۔۵) تهذيب الآثار، مخطوط، ٹرکي،کتبخانہ شيراغا۔۶) المستدرک علي الصحيحين، ج۳، ص ۱۲۶، طبع حيدر آباد ۔۷) علي اصغر رضواني، امام شناسي و پاسخ بہ شبهات (۲)، ص ۳۵۲۔

No comments:

Post a Comment