اسلام کى نظر مین ماں باپ کا مقام بہت بلند ہے _ الله تعالى نھ ، رسول اکرام نے اورآئمہ معصومین علیہم السلام نے اسبار ے میں بہت تا کید کى ہے اور اس سلسلےمیں بہت سى آیات اور روایات موجود ہین _ ماں باپ سے حسن سلوک کو بہترین عباداتمیں سے شمار کیا گیا ہے_ارشاد الہى ہے_وقضى ربک الا تعبد و االا آیاہ و لاوالدین احسنااورتیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ صرف اسى کى عبادت کرو اور والادن کے تاسھ حسن) سلوک اختیاد کرو _ ( بنى اسرائیل 23امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے_تین چیزین بہترین عمل ہین:
1پابندى وقت کے ساتے نماز نچگہنہ کى اوائیگى_ _
2ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور _
3را خدامیں جہاد _
) )اصول کافى ج 2 ص 158اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماں ماپ کو سہ مرتبہ کیوں اور کیوں کرملا ہے ؟ کیا اللهتعالى انے انہیں یہ مقام بلا وجہ عطا کردیا ہے یا ان کے کسى قیمتى عمل کى وجہسے ؟ ماں باپ بچے کے لیے کون سابڑا کام انجام دیتے ہیں کہ جسکے باعث وہ اسفذر مقام و خدمت کے لائق قرارپاتے ہیں _ باپ نے ایک جنسى جذبے کستسکین کے لیے ایک خلیہ حیات ( ) رحم مادر میں منتقل کیا ہے _یہ سیل ماں کى جانب سے ایک اور سیل کے ساتھ مل کرمرکب ہو جاتا ہے جو ایک نئے وجود کے طور پر رحممادر مین پرورشپاتا ہے _ جونو ماہ کے بعد ایک ننھے منے بچے کى صورت میں زمین پر قدم رکھتا ہے _ اںاسے دودھ او رودسرى غذا دیتى ہے _ اسے کبھى صاف کرتى ہے کبھى کپڑ ے بدلتى ہے اسکى ترى اورخشکى کا خیال رکھتى ہے ان مراحل میں باپ خاندان کے اخراجات پورے کرتا ہے اوران کى دیکے بھال کرتا ہے_ کیاماں باپ کى ان کاموں کے علاوہ کوئی مہ دارى نہیں ؟ کیا انہى کاموں کى وجہ سے ماں باپ کو اسقدربلند مقام حاصل ہے ؟ کیا صرف ماں باپ اپنى اولاد پر حق رکھتے ہیں اور اولاد اپنے مان باپ پر کوئی حق نہیں رکھتى ؟ میرے خیال میں ایسا یک طرفہ حق تو کوى بھى قبول نہیں کرتا _ احادیث معصومین علیم السلام میں ایسے حقوق اولاد بھى بان فرمائے کئے ہیں کہ جن کى ادائیکى ماں باپ کى ذمہ دارى ہے _ ان میں سے چند احادیث ہم ذیل میں ذکر کر تے ہین:1پیغمبر اسلام صلى الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: _چنانچہ جس طرح تیرا باپ تجھ پر حق رکھتا ہے تیرى اولاد بھى پر حق رکھتى ہے.مجمع الزوائد ، ج 8 ، ص 1462پیغمبر اکر م صلى الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: _جیسے اولاد اپنے ماں باپ کس نا فرمانى کى وجہ سے عاق ہو حاتى ہے اسى طرح سے ممکن ہے ماں باپ بھى اپنے فریضے کى عدم ادائیگى کے باعث اولاد کى طرف سے عاق ہو جائیں : بحار ، ج 10 ،ص3رسول کریم صلى الله علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: _) خدا ایسے ماں باپ پر لعنت کرے جو اپنى اولاد کے عاق ہونے کا باعث بنیں ( مکارم الاخلاق ، ص4اما م سجّاد علیہ السلام نے فرمایا: _تیر ى اولاد کا حق یہ ہے کہ تو اسپر غور کر کہ وہ برى ہے یااچھى ہے بہر حال تجھى سے وجود میں آئی ہے اوراس دنیا میں وہ تجھى سے منسوب ہے اور تیرى ذمہ دار ہے کہ تو اسے ادب سکھا، الله کى معرفت کے لیے اس کى راہنمائی کر اور اطاعت پروردگار میں اس کى مددکر، تیرا سلوک اپنى اولاد کے ساتھ ایسے شخص کاساہونا چاہیے کہ جسے یقین ہوتا ہے کہ احسان کے بدلے میں اسے اچھى ) جزا ملے گى اور بد سلوکى کے باعث اسے سزاملے گى ''_ (مکارم الاخلاق ص 4845امیر المؤمنین على علیہ السلام نے فرمایا: _''کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرى وجہ سے تیرا خاندان اور تیرے اقربا بدبخت ترین لوگوں میں سے ہوجائیں ''_) (غررالحکم ص 8026پیغمبر اکرم (ص (نے فرمایا: _''جو کوئی بھى یہ چاہتا ہو کہ اپنى اولاد کو عاق ہونے سے بچائے اسے چاہیے کہ نیک کاموں میں اس کى مدد) کرے''_ (مجمع الزوائد ج 8 ص 1467پیغمبر اسلام (ص (نے فرمایا: _''جس کسى کے ہاں بیٹى ہو اور وہ اسے خوب ادب و اخلاق سکھائے ، اسے تعلیم دینے کے لیے کوششکرے، اس کے لیے آرام و آسائشے کے اسباب فراہم کرے تو وہ بیٹى اسے دوزخ کى آگ سے بچائے گى '') _(مجمع الزوائد _ ج 8 _ ص 158سب سے بڑھ کر یہ کہ الله تعالى قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:یا ایہا الذین آمنوا قو اانفسکم و اہلیکم ناراً وقودہا الناس و الحجارة_اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں _) (سورہ تحریم _ آیہ 6بچے نے سبب کہ ابھى وضع زندگى کے بارے میں کوئی راستہ متعین نہیں کیا ہوتا اور سعادت و بدبختى ہر دو کى اسمیں قابلیت ہوتى ہے اس سے ایک کامل انسان بھى بنایا جا سکتا ہے اور ایک گھٹیا درجے کا حیوان بھى _ ہر انسان کى سعادت اور بدبختى اس کى کیفیت تربیت سے وابستہ ہے اور اس عظیم کام کى ذمہ دارى ماں باپ کے کندھوں پر ڈالى گئی ہے _ اصولاً ماں باپ کا معنى یہى ہے _ ماں باپ یعنى انسان ساز اور کمال بخشنے والے دو وجود _ عظیم ترین خدمت کہ جو ماں باپ اپنى اولاد کے لیے انجام دے سکتے ہیں وہ یہ ہے اسے خوش اخلاق ، مہربان، انسان دوست ، خیرخواہ، حریت پسند، شجاع ، عدالت پسند، دانا، درست کام کرنے والا، شرافت مند ، با ایمان فرض شناس ، سالم ، محنتى ، تعلیم یافتہ ، اور خدمت گزار بننے کى تربیت دیں_ماں باپ کو چاہیے کہ اپنے بچے کو اس طرح سے ڈھالیں کہ وہ دنیا میں بھى سعادت مند ہو اور آخرت میں بھى سرخرد_ ایسے ہى افراد در حقیقت ماں باپ کے عظیم مرتبے پر فائز ہو سکتے ہیں نہ وہ کہ جنہوں نے ایک جنسى جذبہ کے تحت اولاد کو وجود بخشاہے اور اسے بڑا ہونے کے لئے چھوڑدیا ہے کہ وہ خود بخود تر بیت پائے_پیغمبر اکرم (ص (نے فرمایا:باپ جو اپنى اولاد کو بہترین چیز عطا کرسکتا ہے وہ اچھا ادب اور نیک تربیت ہے _ (مجمع الزوائد _ ج 8 ص)159خصوصاً ماں کى اس سلسلے میں زیادہ اہمیت ہے _ حتى کہ دوران حمل بھى اس کى خوراک اور طرز عملبچے کى سعادت اور بدبختى پر اثر انداز ہوتا ہے_پیغمبر اسلام (ص (نے فرمایا:خوش نصیب وہ ہے کہ جسکى خوش بختى کى بنیاد ماں کے پیٹ میں پڑى ہو اور بدبخت وہ ہے جسکى)133_ سعادت کا آغاز شکم مادر سے ہوا ہو _ (بحار الانوار _ ج _ 77 ص 115رسول اکرم (ص (نے فرمایا:) الجنة تحت اقدام الامہات _ (مستدرک _ ج 2 _ ص 638جو ماں باپ اپنى اولاد کى تعلیم و تربیت کى طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ اپنى رفتار و کردار سے انہیں منحرف بنادیتے ہیں وہ بہت بڑے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں ایسے ماں باپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا اس بے گناہ بچے نے تقاضا کیا تھا کہ تم اسے وجود بخشو کہ اب وجود میں لانے کے بعد اسے تم نے گائے ے بچھڑے کى طرح چھوڑدیا ہے _ اب جب کہ تم اس کے وجود کا باعث بن گئے ہو تو شرعاً اور عقلا تًم ذمہ دار ہو کہ اس کى تعلیم و تربیت کے لیے کوششکرو _ لہذا تعلیم و تربیت ہر ماں باپ کى عظیم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے_اس کے علاوہ ماں باپ معاشرے کے سامنے بھى جواب وہ ہیں _ آج کے بچے ہى کل کے مرد او رعورت ہیں _کل کا معاشرہ انہیں سے تشکیل پاناہے _ آج جو سبق سیکھیں گے کل اسى پر عمل کریں گے _ اگر ان کى تربیت درست ہوگئی تو کل کا معاشرہ ایک کامل تراور صالح معاشرہ ہوگا اور اگر آج کى نسل نے غلط پروگرام کے تحت اور نادرست طور پر پرورش پائی تو ضرورى ہے کہ کل کا معاشرہ فاسدتر اور بدتر قرارپائے _ کل کى سیاسى ، علم اور سماجى شخصیات انہیں سے وجود میں آئیں گى _ آج کے بچے کل کے ماں باپ ہیں _آج کے بچے کل کے مربّى قرار پائیں گے _ اور اگر انہوں نے اچھى تربیت پائی ہوگى تو اپنى اولاد کو بھى ویسا ہى بنالیں گے اور اسى طرح اس کے برعکس _ لہذا اگر ماں باپ چاہیں _ تو آئندہ آنے والے معاشرہ کى اصلاح کرسکتے ہیں اور اسى طرح اگرچاہیں تو اسے برائیں اور تباہى سے ہمکنار کرسکتے ہیں _ اس طرح سے ماں باپ معاشرے کى حوالے سے بھى ایک اہم ذمہ دارى کے حامل ہیں _ اگر وہ اپنے بچوں کى صحیح تعلیم وتربیت کے لیے کوششکریں تو انہوں نے گویا معاشرے کى ایک عظیم خدمت سرانجام دى ہے او روہ اپنى زحمتوں کے صلے میں اجر کے حقدار ہیں اور اگر وہ اس معاملے میں غفلت اور سہل انگارى سے کام لیں تو نہ صرف اپنے بے گناہ بچوں کے بارے میں بلکہ پورے معاشرے کے لیے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یقینى طور پر بارگاہ الہى میں جواب وہ ہوں گے_تعلیم و تربیت کے موضوع کو معمولى نہیں سمجھنا چاہیے _ ماں باپ اولاد کى تربیت کے لئے جو کوشش کرتے ہیں اور جو مصیبتیں اٹھاتے ہیں وہ سینکڑوں استادوں ، انجینئروں ، ڈاکٹروں اور عالموں کے کاموں پر بھارى ہیں _ یہ ماں باپ ہیں جو انسان کامل پرواں چڑھاتے ہیں اور ایک لائق و دیندار استاد، ڈاکٹر اور انجینئر وجود میں لاتے ہیں_خاص طور پر مائیں بچوں کى تربیت کے بارے میں زیادہ ذمہ دارى رکھتى ہیں اور تربیت کا بوجھ ان کے کندھوں پر رکھا گیا ہے _ بچے اپنے بچپن کا زیادہ عرصہ ماؤں کے دامن میں ہى گزارتے ہیں _ اور آئندہ زندگى کے رخ کى بنیاد اسى زمانہ میں پڑتى ہے _ لہذا افراد کى خوشبختى اور بدبختى اور معاشرے کى ترقى او رتنزل کىکنجى ماؤں کے ہاتھ میں ہے _ عورت کا مقام وکالت وزارت ، اور افسرى میں نہیں یہ سب چیزیں مقام مادر سے کہیں کم تر ہیں _ مائیں کامل انسانوں کى پرورش کرتى ہیں اور صالح وزیر، وکیل ، افسر اور استاد پروان چڑھاتى ہیں اور معاشرے کو عطا کرتى ہیں_جو ماں باپ پاک، صالح اور قیمتى بچے پروان چڑھاتے ہیں نہ صرف یہ کہ وہ اپنى اولاد اور معاشرے کى خدمت کرتے ہیں بلکہ خود بھى اسى جہان میں ان کے وجود کى خیر وخوبى سے بہرہ مند ہوتے ہیں _ نیک اولاد ماں باپ کى سرافرازى کا سرمایہ ہوتى ہے اور ناتوانى کے زمانے میں ان کا سہارا ہوتى ہے _ اگر ماں باپ ان کىتعلیم و تربیت کے لیے کوشش کریں تو اسى دنیا میں اس کا نتیجہ دیکھیں گے اور اگر اس معاملے میں غفلت اور سہل انگارى سے کام لیں تو اسى دنیا میں اس کا ضرر بھى دیکھ لیں گے_حضرت على علیہ السلام نے فرمایا:) برى اولاد انسان کے لیے بڑى مصیبتوں میں سے ہے _ (غرر الحکم _ ص 180حضرت على علیہ السلام نے یہ بھى فرمایاہے:) برى اولاد ماں باپ کى آبروگنوادیتى ہے اور وارثوں کو رسوا کردیتى ہے _ (غررالحکم _ 780پیغمبر اسلام صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:خدا رحمت کرے ان ماں باپ پر جنہوں نے اپنى اولاد کو تربیت دى کہ وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں _) (مکارم الاخلاق_ ص 517لہذا جو ماں باپ بن جاتے ہیں ان کے کندھے پر ایک بھارى ذمہ دارى آن پڑتى ہے او ریہ ذمہ دارى خدا کے حضور بھى مخلوق کے روبرو بھى اور اولاد کے سامنے بھى ہے _ اگر انہوں نے اپنى ذمہ دارى کو صحیح طریقے سے ادا کردیا تو ان کے لئے ایک عظیم خدمت انجام دى ہے ، وہ دنیا و آخرت میں اس کا نیک صلہ پائیں گے _ لیکن اگر انہوں نے اسمعاملے میں کوتاہى کى تو خود بھى نقصان اٹھائیں گے اور اپنى اولاد اور معاشرے کے ساتھ بھى خیانت اور ناقابل بخششگناہ کے مرتکب ہوں گے_
No comments:
Post a Comment