Friday, 21 February 2014

فن مصطلح میں حدیث کی صحت کا معیار اور بعض شبہات کا ازالہ


ہم اس مضمون میں فن درایت یعنی علم مصطلح الحدیث کی روشنی میں حدیث کی صحت کے معیار کا اجمالی جائزہ لیں گے اور اسی تناظر میں صحیح حدیث کی تعریف اور اس کی شرائط کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے گا اور پھر مضمون کے اختتام میں حدیث کے معیار صحت سے متعلق بعض شکوک و شبہات کا بھی مدلل ازالہ کیا جائے گا۔قبل اس کے کہ ہم اصل موضوع کی طرف آئیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فن مصطلح الحدیث اور علم رجال کے تعارف کو قارئین کی خدمت میں اختصار کیساتھ پیش کردیا جائے۔

 فن مصطلح الحدیث کی تعریف :۔
مصطلح الحدیث ایسے قواعد اور ضوابط کے جاننے کا علم ھے جن کے ذریعے سند اور متن کے ان احوال و امور کا علم ہوسکے جنکی بنیاد پر حدیث کے مقبول یا مردود ہونے کا فیصلہ کیاجاتا ھے ۔ واضح رہے کہ محدثین اور محققین کے نزدیک فن مصطلح الحدیث کو علوم حدیث و اصول حدیث اور علم درایت کے نام سے بھی جاناجاتا ھے ۔

علوم حدیث کی اقسام اور فن مصطلح الحدیث کا اجمالی جائزہ :۔
علماء فن مصطلح نے ان علوم حدیث کی تعداد کو باقاعدہ شمار بھی کیا ھے ان علوم حدیث میں روایت اور درایت کے تمام بنیادی قواعد اور ضوابط شامل ہیں جنکی کامل معرفت حاصل کیئے بغیر کسی بھی روایت کے صحیح یا ضعیف ہونے کا ہرگز تعین نہیں کیاجاسکتا۔چنانچہ علوم حدیث کی تعداد کی بابت حافظ ابن الملقن سے منقول ھیکہ یہ علوم و اصول دو سو 200 سے زائد ہیں، مشہور محدثین اور محققین میں سے امام حاکم نے پچاس 50، امام نووی اور ابن الصلاح نے پینسٹھ 65، علامہ سیوطی نے ترانوے 93، ذکر کیئے ہیں ۔ جبکہ حافظ ابوحاتم رازی اور ابن حبان نے صرف حدیث ضعیف کے تحت 49 علوم، اور علامہ مناوی نے عقلا 129 اقسام کا ذکر کیا ھے ۔ اس اختلاف تعداد کیوجہ تحریر و تحقیق میں تفصیل اور اختصار ھے کہ بعض حضرات نے بہت سے علوم کو ضمنی طور پر بیان کیا ھے اور بعض نے مستقل علوم و فنون کی حیثیت سے شمار اور ذکر کیا ھے ۔

فن مصطلح میں روایت کی صحت کا معیار :۔
فن مصطلح میں علوم حدیث کی مجموعی تعداد کو بنیادی طور پر دو علوم میں منقسم کیاجاتا ھے ۔ علوم حدیث کی یہ دونوں اقسام ہی در حقیقت حدیث کو پرکھنے کا اصلی معیار ہیں کیونکہ علوم حدیث کی تمام انواع اور اقسام بہرحال ان دو علوم سے ہی تعلق رکھتی ہیں ۔ ان دو علوم میں سے ایک کو علم روایت اور دوسرے کو علم درایت کے نام سے تعبیر کیاجاتا ھے ۔ علم روایت کا تعلق اسناد سے ہوتا ھے جبکہ علم درایت کا دائرہ کلام کافی وسیع ھے کیونکہ علم درایت میں مقبول اور مردود ہونے کے اعتبار سے سند اور متن کو ہر زاویہ نگاہ سے موضوع سخن بنایاجاتا ھے ۔

علم رجال کا مختصر تعارف :۔
علم رجال کا تعلق علم روایت سے ھے ، علم رجال کا براہ راست تعلق روایت کی سند سے ہوتا ھے کیونکہ علم رجال کے ذریعہ سند کے تمام راویوں کے حالات معلوم کیئے جاتے ہیں اور پھر فن جرح و تعدیل کے اصول و قواعد کے مطابق راویوں کے اعتبار اور عدم اعتبار کا فیصلہ کیاجاتا ھے ۔

صحیح حدیث کی تعریف :۔
فن مصطلح الحدیث کے مختصر تعارف اور حدیث کے معیار صحت کو بیان کرنے کے بعد اب آتے ہیں صحیح حدیث کی تعریف کی طرف تاکہ قارئین بھی صحیح حدیث کی تعریف کو معیار صحت کے تناظر میں بھی پرکھ سکیں ۔الدكتور محمود الطحان فن اصول حدیث کے میدان میں مشہور مصنف اور محقق کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ شیخ کی فنی منزلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ھے کہ ان کی کتاب " تیسیر مصطلح الحدیث " بعض مدارس عربیہ میں داخل نصاب ھے ۔شیخ محمود الطحان حدیث صحیح کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

الصحیح : لغة ضد السقيم : اصطلاحا : ما اتصل سنده بنقل العدل الضابط عن مثله ألي منتهاه من غير شذوذ و لا علة ۔صحیح لغوی لحاظ سے بیمار کی ضد ھے، جو کہ ضعف پر دلالت کرتا ھے اور اصطلاح فن میں صحیح اس حدیث کو کہتے ہیں جو شروع سے آخر تک عادل اور ثقہ راویوں کے ذریعہ متصل سند کیساتھ مروی ہو اور ہر قسم کے شذوذ اور علل سے خالی ہو ۔
تیسیر مصطلح الحدیث // صفحہ 33// طبعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۔

صحیح حدیث کی شرائط اور ان کی وضاحت :ھم نے جو صحیح حدیث کی تعریف اوپر بیان کری ھے اس تعریف کا حاصل یہ ھے کہ روایت کی صحت کے لیئے پانچ شرائط لازمی ہیں جن کو وضاحت کے ساتھ یہاں بیان کیاجارہا ھے ۔

1 ۔ اول : عدالت رواة ۔یعنی سند کے تمام راویوں کا مسلمان، عاقل اور بالغ ہونے کے ساتھ ساتھ باکردار ہونا ۔

2 ۔ دوئم : ضبط رواة ۔یعنی سند کے تمام راویوں کا روایت کو حاصل کرنے کے بعد روایت کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کرنا ۔ اب یہ اہتمام چاھے حافظہ کے ذریعہ ہو یا بذریعہ تحریر ، بہرحال روایت کو محفوظ رکھنے کا اہتمام لازمی ھے۔

3 ۔ سوئم : اتصال سند ۔یعنی سند کے کسی حصہ میں انقطاع نہ ہو کسی بھی حصہ سے کوئی راوی ساقط نہ ہو ۔ مطلب یہ ھیکہ سند کے شروع سے آخر تک ہر راوی کا اپنے سے اوپر والے راوی سے براہ راست روایت کرنا بھی روایت کی صحت کے لیئے ضروری ھے ۔

4 ۔ عدم شذوذ ۔یعنی ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت نہ کرتا ہو ۔ گویا روایت کی صحت کے لیئے یہ بھی ضروری ھے کہ سند کا کوئی ثقہ راوی اس روایت کو اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف روایت نہ کررہا ہو ۔

5 ۔ پنجم : عدم علل ۔یعنی ظاہری صحت کے ساتھ ساتھ روایت کی سند اور متن ایسے مخفی اور باطنی عیوب سے بھی خالی ہوں کہ جو عیوب روایت کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہوں ۔

ضروری وضاحت :۔
روایت کی صحت کے لیئے جن شرائط کا تحقق لازمی ھے ان شرائط کی وضاحت کے بعد ھم یہاں یہ بھی بیان کرتے چلیں کہ " علل " یعنی اسناد اور متن کے مخفی عیوب کے موضوع پر محدثین نے باقاعدہ کتب لکھی ہیں جنمیں امام دار قطنی اور حافظ ابو حاتم رازی کی کتاب العلل قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ فن مصطلح یعنی درایت کی کتب میں بھی ان علل پر کافی شرح و بسط کے ساتھ بحث کی گئی ھے جن کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں البتہ یہ واضح رہے کہ ان علل اور عیوب میں یہ علت سرفہرست ھے کہ روایت کا متن تاریخی حقائق سنت متواترہ اور قرآن کریم کے خلاف نہ ہو ۔

حدیث کے معیار صحت پر بعض شبہات کا ازالہ :۔

صحیح حدیث کی جو شرائط اور جامع و مانع تعریف گذشتہ مضمون میں وضاحت کیساتھ بیان کی گئی اس تعریف و توضیح کو پیش نظر رکھنا ضروری ھے تاکہ بعض الناس کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی بعض غلط فہمیوں کا ازالہ کیاجاسکے ۔


1 ۔ فریق اول :۔
بعض الناس جنمیں بالخصوص بعض السلفیہ جو کہ بعض اوقات روایت پرستی کا شکار نظر آتے ہیں جس کی بنیادی وجہ غالبا یہی ہوتی ھے کہ یہ حضرات ہر اس روایت کو صحیح گردانتے ہیں جس کی سند فن اسماء الرجال کی روشنی میں صحیح ہوتی ھے تو گویا رواة کا ثقہ یا ضعیف ہونا اس قبیل کے لوگوں کے نزدیک روایت کی صحت کا معیار قرار پاتا ھے ۔ لہذا جب اس نظریہ کے لوگ کسی محقق کا قول پڑھتے ہیں : اسنادہ صحیح : تو ان کے ذہن میں اس کا مفہوم یہی متبادر ہوتا ھیکہ یہ حدیث بھی صحیح ھے ۔

تبصرہ :۔
ھماری نظر میں اس نظریہ کی حیثیت سوائے ایک غلط فہمی کے اور کچھ نہیں ھے کیونکہ اسناد کی صحت مقتضی نہیں ہوتی متن کی صحت کو ۔ یعنی کہ جس حدیث کی اسناد صحیح ہو ضروری نہیں ہوتا کہ اس کا متن بھی صحیح ہو ۔ یہی وجہ ھیکہ محدثین اور علماء فن مصطلح نے اپنی کتب میں درایت کے قوانین کے عین مطابق اس کی بڑی صراحت کیساتھ توضیح کری ھے کہ اسناد کی صحت سے متن کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا ۔ 2 ۔ فریق ثانی :اسیطرح ایک دوسرا گروہ ھے جو فریق اول کے بالکل بر عکس نظریہ فکر کا حامل ھے ، ان حضرات کے نزدیک روایت کی صحت کا معیار صرف قرآن کریم ھے، یعنی اگر روایت قرآن کریم سے مطابقت نہ رکھتی ہو اور اس کا متن قرآن سے متصادم ہو تو وہ روایت مردود ہوگی لیکن اگر روایت قرآن کریم سے مطابقت رکھتی ہو اور اس کا متن قرآن سے متصادم نہ ہو تو وہ روایت مقبول ہوگی خواہ اس کا راوی جھوٹا ہی کیوں نہ ہو ۔

اس نظریہ فکر سے وابستہ افراد علم رجال کو حجت نہیں سمجھتے ان حضرات کا کہنا ھیکہ حدیث کے راویوں کے بارے میں کسی چھان بین کی ضرورت نہیں ھے لہذا احادیث کو بلا تأمل سند کی تحقیق کیئے بغیر ہی قبول کرلینا چاھیئے گویا اس گروہ کے نزدیک سند نام کی کوئی چیز وقعت نہیں رکھتی بلکہ یہ حضرات حدیث کو صرف متن سے عبارت قرار دیتے ہیں اور پھر متن کو قرآن سے موافقت کی صورت میں قبول کرتے ہیں اور مخالفت کی صورت میں رد کردیتے ہیں ۔

تبصرہ :۔
فریق اول کے مقابلہ میں ھم اس نظریہ فکر کے افراد سے جزئی طور پر تو اتفاق کرسکتے ہیں لیکن کلی طور پر نہیں ۔ اس گروہ کا نظریہ بنیادی طور پر دو اصول پر مبنی ھے ۔

1 پہلا اصل :۔
یہ ھیکہ متن حدیث کی صحت قرآن سے موافقت کیساتھ مشروط ھے ۔ھم یہ مانتے ہیں کہ اس بات میں تو کوئی شک نہیں ھے کہ قرآن کریم سے متصادم کوئی بھی حدیث قابل قبول نہیں ہوسکتی چاھے اس کی اسناد جتنی مضبوط ہی کیوں نہ ہو جیساکہ صیح حدیث کی تعریف اور اس کی شرائط کی توضیح میں اس پر کلام کیا جاچکا ھے ۔ لیکن اس بات پر بھی کسی کو اختلاف نہیں ھیکہ قرآن کریم میں احکام اور فروع کی جزئیات کو بیان نہیں کیاگیا یہاں سوال پیدا ہوتا ھیکہ وہ روایات و احادیث جنمیں احکام اور فروع کی جزئیات کو تفصیل کیساتھ بیان کیاگیا ھے، ایسی روایات و احادیث کی قرآن کریم کیساتھ موافقت یا مخالفت کو کس پیمانہ سے جانچا جائے گا ؟؟ جب کہ قرآن کریم احکام و فروع کی جزئیات اور ان کی تفصیل کو بیان کرنے سے بالکل ساکت ھے، ایسے کافی احکام و فروع ہیں جنکی جزئیات و تفصیلات قرآن کریم میں نہیں ھے لیکن بات کی وضاحت کے لیئے ھم تمثیل کے طور پر ایک مثال بیان کیئے دیتے ہیں : نماز عیدین ہو یا نماز جنازہ، ان دونوں نمازوں میں تکبیرات کی تعداد کتنی ھے اسمیں مسالک کا اختلاف پایاجاتا ھے اور ہر مسلک اپنے موقف کے اثبات میں بہرحال روایات کا ہی سہارا لیتا ھے لیکن مسئلہ یہ ھیکہ ان روایات کی قرآن سے موافقت یا مخالفت کو کس طرح جانچا جائے جبکہ قرآن کریم میں سرے سے ہی ان دونوں نمازوں کا ذکر تک نہیں ھے چہ جائیکہ تکبیرات کی تعداد کی تعیین کے لیئے ھم روایات کو قرآن کریم پر پیش کریں ۔ لہذا ایسی صورت میں ھم کلی طور پر قرآن کریم کو روایات کی صحت کا واحد معیار قرار نہیں دے سکتے البتہ قرآن کریم کو روایت کی صحت کا جزئی طور پر معیار قرار دے سکتے ہیں اس معنی میں کہ روایت کا متن اسی صورت میں قابل قبول ہوگا جبکہ وہ قرآن کریم سے متصادم نہ ہو ۔

2  دوسرا اصل :۔
یہ حضرات چونکہ علم اسماء الرجال کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں لہذا ان کے نزدیک سند اور اس کے راویوں کی تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں ھے ۔

تبصرہ :۔
علم رجال کی ضروت و حجیت اور اسکی اہمیت پر تفصیلی کلام کیاجاسکتا ہے اور جیساکہ علماء نے اس پر کلام کیا بھی ہے جسمیں علم رجال پر اعتراضات و تحفظات کا علمی رد اور مدلل ازالہ بھی کیاگیا ہے تفصیل کے لیئے قارئین ان کتب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ۔

لیکن ہم یہاں اختصار کے پیش نظر ہر خاص و عام کی توجہ صرف ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کیطرف مبذول کروانا چاہتے ہیں لیکن اس سے قبل کہ ہم حدیث نبوی کی طرف آئیں مناسب معلوم ہوتا ہیکہ تمہید کے طور پر کچھ کلام موضوع روایات کے بارے میں بھی کرلیاجائے تاکہ پھر اسی تناظر میں حدیث نبوی کی اہمیت کا اندازہ لگایاجاسکے ۔

من گھڑت روایات اور جعلسازی کے کارخانے :۔
اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ احادیث کے نام پر جتنا جھوٹ بولا اور گھڑا گیا ہے اس کا تصور کرنا بھی شاید مشکل ہو ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ امت مسلمہ میں سیاسی و مذھبی گروہ بندیوں کے بعد ہر فرقہ و جماعت نے اپنے اپنے نظریات اور مسالک کی تائیید و حمایت میں کثرت کے ساتھ جھوٹی احادیث گھڑ ڈالی، واضح رہے کہ اس جعلسازی اور من گھڑت روایات کا زیادہ تر تعلق اقوام و افراد کی منقبت و مذمت، انبیاء سابقین علیہم السلام کے قصص اور واقعات، اور اعمال نافلہ کے ثواب سے ہے ۔ ان جعلسازوں نے صرف روایات گھڑی ہی نہیں بلکہ بعض کذابوں اور وضاعین نے تو باقاعدہ ان روایات کے گھڑنے کا اعتراف بھی کیا، اور نہ صرف اعتراف کیا بلکہ ساتھ ساتھ احادیث گھڑنے کی وجوہات اور اسباب کو بھی بیان کیا جن کی تفصیلات آپ " کتب الموضوعات " میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ، البتہ ہم یہاں ان وضاعین میں سے بعض کے احوال کا تذکرہ بطور نمونہ ضرور کریں گے اور ساتھ ساتھ بعض دواعی وضع کو بھی ہم یہاں بیان کریں گے تاکہ قارئین بھی اندازہ کرسکیں کہ کس حد تک احادیث میں جعلسازی سے کام کیاگیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔


1 ۔ تقرب الی اللہ :۔
یعنی اطاعت میں رغبت اور معصیت سے خوف دلانے والے مضامین کو گھڑنا، ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جو زہد و صلاح کی طرف منسوب ہوتے ہیں ۔ یہ احادیث گھڑنے کا بد ترین داعیہ ہے اسلیئے کہ ان لوگوں کی نیک کرداری ان جعلی احادیث کی قبولیت و اعتبار کا باعث بنتی ہے ۔ چنانچہ میسرہ بن عبد ربه کے متعلق حافظ ابن حبان نے بیان کیا ہے کہ یہ شخص صوفی تھا۔ ایک مرتبہ امام عبد الرحمان بن مھدی نے میسرہ بن عبد ربہ سے پوچھا کہ تم سورتوں اور آیات کے پڑھنے کے فضائل کی روایات کہاں سے لائے ؟ تو میسرہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن کریم کی تلاوت سے دور ہورہے ہیں تو لوگوں کو رغبت دلانے کے لیئے ان احادیث کو گھڑا ہے ۔ اسیطرح ایک دوسرے راوی ابو عصمہ نوح بن ابی مریم نے بھی خود اقرار کیا کہ میں نے قرآن کریم کی تمام سورتوں کے فضائل سے متعلق احادیث گھڑ کر حضرت عبد اللہ ابن عباس سے نقل کری ہیں ۔

2 ۔ حکام سے تقرب :۔
اس کا دوسرا عنوان حکام و امراء کی خواہشات کا لحاظ اور ان کی خوشنودی کا حصول ہے بعض کمزور اہل ایمان نے یہ کیا ہے کہ حکام وقت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیئے ان کے غیر شرعی مشاغل کی مؤید روایات گھڑ کر بیان کی ہیں جیسے کہ : غیاث بن ابراہیم نخعی کا قصہ مشہور ہے کہ وہ عباسی خلیفہ مہدی کے پاس گیا تو تو اس کو کبوتروں میں مشغول پایا، اس نے فوری طور پر متصل سند کیساتھ رسول اللہ ص کی طرف نسبت کرتے ہوئے حدیث سنائی : لا سبق الا في نصل أو خف أو حافر أو جناح : یعنی انعامی مقابلے کا حال صرف تیر اندازی، یا اونٹ اور گھڑسواری، یا پرندوں میں جائز ہے ۔ اس حدیث میں غیاث بن ابراہیم نخعی نے پرندوں کا اضافہ کردیا تاکہ خلیفہ کے ذوق اور مشغلے کی تائید کرسکے ۔

3 ۔ طلب معاش :۔
یعنی حصول مال و زر کے لیئے مضامین گھڑ کر قصہ گوئی کرنا، جیسے قصاص کا ایک طبقہ کرتا رہا کہ یہ لوگ مجلسیں لگاکر لوگوں کو قصے کہانیاں سناتے اور ان سے پیسے حاصل کرتے جیسے کہ ابو سعید المدائنی ۔

4 ۔ مذہب و تحریک کی حمایت :۔
جسے " زیادتی تعصب " کا عنوان بھی دیاگیا ہے ۔ یعنی اپنے اپنائے ہوئے مذہب و نظریہ کی تائید و تقویت کے لیئے روایات کا گھڑنا خاص طور سے سیاسی و مذھبی گروہ بندیوں کے بعد، کہ ہر فرقہ و جماعت نے اپنے اپنے نظریات اور مسالک کی تائیید و حمایت میں کثرت کے ساتھ جھوٹی احادیث گھڑیں جن کو تفصیل کے ساتھ موضوع روایات کی کتب میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے اور پھر اس قسم کے وضاعین کو ائمہ فن نے کتب رجال میں بھی ذکر کیا ہے ۔اگرچہ دواعی وضع اس کے علاوہ بھی مزید ہیں لیکن عام طور پر داعیہ وضع کا تعلق انہی چار اقسام میں سے کسی ایک قسم سے ہوتا ہے ۔ امام حاکم نے المدخل میں دس اقسام کا ذکر کیا ہے جنمیں کچھ جعلساز ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے صرف فضائل قرآن میں ہی ہزاروں احادیث گھڑنے کا اعتراف کیا ہے ۔

حدیث نبوی : من کذب علي متعمدا فليتبؤ مقعده من النار :۔
موضوع روایات پر تمہیدی گفتگو کے بعد اب آتے ہیں رسول اللہ کی اس حدیث کی طرف جسمیں فرمان پیمبر ص ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے تو اس کو چاھیئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کرلے یا بنالے ۔ یہ روایت شیعہ اور سنی کے معتبر مصادر میں موجود ہے جسکی صحت میں کسی کو کوئی شبہ نہیں اس حدیث کے متعلق حافظ ابن الصلاح اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث پورے ذخیرے میں واحد حدیث ہے جس کو بالاتفاق محدثین نے متواتر لفظی قرار دیا ہے ۔ اس متواتر حدیث کی روشنی میں بعض علماء اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جو شخص رسول اکرم کیطرف جھوٹی روایت منسوب کرے تو وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے ، بعض علماء کے اس موقف سے بعض الناس کو اختلاف ضرور ہوسکتا ہے لیکن کم از کم اس بات پر تو تمام مکاتب فکر کے افراد متفق ہیں کہ پیمبر ص پر جھوٹ باندھنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے ۔

خلاصہ کلام :۔
لہذا رسول اللہ کی اس متواتر حدیث کا لازمی تقاضہ یہی ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں ائمہ کی تصریح سے یہ ثابت ہوجائے کہ وہ نبی کریم ص یا دیگر مقدس ہستیوں کی طرف جھوٹی احادیث منسوب کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی روایات کو کسی صورت قبول نہیں کیاجاسکتا چاہے اس کا متن قرآن کریم کے موافق ہی کیوں نہ ہو بالکل ایسے ہی کہ جیسے ان جعلساز صوفیوں کی فضائل قرآن سے متعلق روایت کردہ من گھڑت احادیث کو باوجود قرآن کے موافق ہونے کے قبول نہیں کیاگیا کیونکہ ان کا جھوٹا ہونا بالاتفاق ائمہ کے نزدیک ثابت ہے اور کیوں نہ ثابت ہو کہ ان جعلسازوں نے باقاعدہ روایت سازی کا اعتراف بھی کیا ہے ۔


تمت بحمد اللہ و بعونه

تحریر و ترتیب
اسماعيل ديوبندي

No comments:

Post a Comment