کائنات کے تمام امور خدا ہی کے دستِ قدرت میں ہیں ۔ عالم میں وقوع پذیر ہونے والا ہر فعل اور ہر حرکت اللہ کے ارادے اور مشیعت کے تابع ہے ۔ کوئی بھی مخلوق اپنے افعال میں مستقل نہیں ہے ۔خود مختار مخلوق بھی اللہ ہی کے ارادے سے خود مختار ہے ۔ اللہ ہی صاحبِ اختیار مالک اور حاکمِ اعلٰی ہے ۔ اور بندوں کی مدد کرنے کی حقیقی قدرت اسی کے پاس ہے ۔ اس بات کا تقاضہ ہے کہ ایک مومن اللہ کے علاوہ کسی کو اپنا حقیقی مددگار نہ سمجھے ۔ اور خود کو بھی کسی کا حقیقی مددگار تصور نہ کرے ۔ ایاک نستعین کا یہی معنی ہے (آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی ، تسنیم تفسیرِ قرآن کریم ، جلد 1)
اللہ نے اپنے خاص بندوں سے استمداد اور توسل کی اجازت دے رکھی ہے ۔ خاص بندوں میں سے واضح شخصیات محمد (ص) و آلِ محمد (ع) ہیں ۔ ان سے مدد طلب کرنا حقیقت میں خدا ہی سے مدد طلب کرنا ہے جو عین توحید اور ایمان کا حصّہ ہے ۔ کیوں کہ ان کی مدد خدا کی مدد کے ذیل میں آتی ہے ۔ جس طرح وہ اپنی ذات میں خدا سے بے نیاز نہیں ، اسی طرح وہ اپنے افعال میں بھی خدا سے بے نیاز نہیں ہیں ۔ وہ خدا کی رحمت اور اس قدرت کے مظہر ہیں اور اس کے فیض کا وسیلہ ہیں ۔ قرآن کریم نے ان سے توسل کا حکم دیا ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالٰی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (سورة المائدة : 35)ترجمہ : اے اہلِ ایمان خدا سے ڈرو اور اس تک وسیلہ تلاش کرو ۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (سورة النساء : 64)ترجمہ : جب یہ لوگ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا ، رحم کرنے والا پاتے ۔
اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار کے لئے رسول اکرم (ص) سے استمداد اور مدد مانگی جا رہی ہے ۔ پس رسول اکرم (ص) سے استمداد کرنا توحید کے منافی نہیں ہے ۔ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ہے :
وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ (سورة التوبة : 74)ترجمہ : اور انہیں تو صرف اس بات پر غصّہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان (مسلمانوں) کو دولت سے مالامال کیا ۔
{ بہت کچھ عنایت کرنے اور دولت سے مالامال کرنے میں اللہ تعالٰی کے ساتھ رسول (ص) کا ذکر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے رسول (ص) کا اس طرح ذکر کرنا کہ "اللہ اور رسول نے بہت کچھ دیا ہے اور اللہ اور رسول نے دولت سے مالامال کردیا ہے" شرک نہیں ہے ۔ کیوں کہ یہ عطا اور بخشش اللہ تعالٰی سے ہٹ کر نہیں ہے کہ شرک کے زمرے میں چلی جائے بلکہ یہ تو مِنْ فَضْلِهِ کے ذیل میں آتی ہے ۔ لہٰذا قرآنی تصریحات کی روشنی میں جب یہ کہنا درست ثابت ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسول نے دولت سے مالامال کردیا ہے تو یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اے رسولِ خدا ! ہمیں دولت سے مالامال فرما دیں ۔لہٰذا جس طرح اللہ تعالٰی سے حصولِ فیض میں وسائل اور وسائط کار فرما ہیں اسی طرح اللہ سے طلبِ فیض کے لئے بھی مجاز وسائل اور واسطوں کا ہونا ثابت ہے } (الشیخ محسن علی نجفی ، الکوثر فی تفسیرِ قرآن ج 1 ، ص 229)
حوالہ : کتاب "اسلامی معارف" ص 48 تا 50
مولف : شعبہ تحقیق جامعہ مظہر الایمان
No comments:
Post a Comment