Friday, 21 February 2014

تعارف حضرت معصومہ قم سلامہ اللہ علیہا

آپ کا نام فاطمہ بنت موسی کاظم ؑ ہے اور لقب معصومہ ہے۔ اس بنا پر زیادہ تر افراد آپ کو معصومہ قم کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ کو کریمہ اہلبیت بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ کے والد گرامی امام موسی بن جعفر الکاظم ؑہیں اور آپ کی والدہ کا نام نجمہ خاتون ہے۔ حضرت معصومہ کی ولادت باسعادت 1 ذی القعد 173 ہجری میں ہوئی۔ جبتک اپنے والد کے دور امامت میں رہیں ، امام موسی کاظم ؑ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھے یہاں تک کہ آپ کے والد 14 سال کی قید جھیل کر شہید ہوئے، اس کے بعد آپ کی کفالت امام رضا ؑ نے فرمائی۔ مامون رشید کے دور میں امام رضا ؑ کو اپنے نانا کے مدینے کو ترک کر کے طوس آنا پڑا اور اس طرح بہن و بھائی میں جدائی واقع ہو گئی۔ امام کے مدینے سے جانے کے ایک سال بعد حضرت معصومہ ؑ اپنے کچھ رشتے داروں کے ساتھ جن میں آپ کے بہن اور بھائی بھی شامل تھے عازم طوس ہوئیں تاکہ زیارتِ حجت وقت اور حریمِ ولایت امام علی ابن موسی الرضا ؑ کے دفاع کا فریضہ انجام دے سکیں ۔ راہ میں آپ کا قافلہ جہاں سے بھی گزرا لوگوں نے آپ کا بھرپور استقبال اور اہلبیت سے محبت کا اظہار کیا، البتہ جب آپ کا قافلہ شہر ساوا پہنچا تو یہاں پر دشمنان اہلیبت نے آپ کے قافلے پر حملہ کر دیا جس کی وجہ سے کئی افراد کو جام شہادت نوش کرنا پڑا، بعض بزرگوں کے مطابق آپ کے قافلے میں موجودہ افراد میں سے کچھ کو بذریعہ زہر بھی شہید کیا گیا۔ حضرت معصومہ ؑ نے جب یہ عالم دیکھا تو فرمایا کہ میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ قم ہمارا اور ہمارے شیعوں کا شہر ہے لہذا مجھے قم پہنچا دیا جائے۔ معصومہ قم ؑ اپنے بھرے قافلے کا غم سہتی ہوئی داخل قم ہوئیں روایات کے مطابق آپ نے 23 ربیع اول 201ہجری کو قم میں قدم رنجا فرمایا۔ موسی بن خزرج جو قم میں ایک جماعت کے سردار تھے نے قم سے باہر نکل کر آپ کا استقبال کرتے ہوئے آپ کی میزبانی کی سعادت حاصل کی۔ آپ قم میں جس مکان میں قیام پذیر ہوئی تھیں وہ آج بھی بیت النور کے نام سے زیارتگاہِ خاص و عام ہے۔ قم میں داخل ہوتے ہی آپ صاحب فراش ہو گئیں اور اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھین اپنے بھائی کا دیدار کر پاتیں، بند ہو گئیں۔ 12یا 10 ربیع الثانی کا دن اہل قم کے لیے قیامت بن کر نازل ہوا اور اہلیبت کی یہ عظیم نشانی اپنے خالق سے جا ملی۔ ایک طوفانِ شور و شین تھا۔ غسل و کفن کے فرائض سرانجام دے کر جنازے کو اٹھایا گیا اور قبرستان اشعریون میں ایک قبر کے کنارے پہنچا دیا گیا۔ مگر کوئی محرم نہیں تھا جو جنازے کو قبر میں داخل کرتا، اہل قم ابھی اسی کشمکش میں مبتلا تھے کہ کیا دیکھتے ہیں جانب قبلہ سے دو سوار رونما ہوئے، آتے ہی میت پر نماز جنارہ پڑھی اور بنا کسی سے کلام کیے ایک داخل قبر ہوا اور ایک نے میت کو اٹھایا کر اس شخص کو پکڑیا جو قبر میں تھا۔ میت کو قبر میں داخل کرنے کے بعد قبر مبارک کو بند فرمایا اور بنا کسی سے کلام کیے ہوئے اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور چلے گئے۔۔۔ بعید نہیں کہ آنے والے سواروں میں سے ایک اس مخدرہ کا بھائی ہو اور ایک یا بابا ہو یا بھتیجا۔۔۔۔ آپ کی قبر پر سب سے پہلے امام جوادؑ کی دختر نے گنبد تعمیر کروایا۔۔۔ آج بھی آپ کی مرقد مرجع خاص و عام ہے۔ امامِ محمد تقی الجواد ؑ نے اپنی پھوپی کی معرفت ان الفاظ میں کروائی "جو بھی قم میں میری پھوپی کی قبر زیارت کرے اس کے لیے جنت (واجب) ہے" ۔۔۔۔۔ خدایا ہمیں حضرت معصومہ ؑ کی معرفت و زیارت نصیب فرما۔ السلام علیکِ یا بنت رسول اللہ، السلام علیکِ یا بنت فاطمۃ و خدیجۃ، السلام علیکِ یا بنت امیر المؤمنین، السلام علیکِ یا بنت الحسن و الحسین، السلام علیکِ یا بنت ولی اللہ، السلام علیکِ یا اخت ولی اللہ، السلام علیکِ یا عمۃ ولی اللہ، السلام علیک یا بنت موسی بن جعفر، یا فاطمۃ اشفعی لنا فی الجنۃ، فان لک عند اللہ شان من شان۔ السلام علیکِ و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔Courtesy: سید سبطین علی نقوی امروہوی الحیدری۔

No comments:

Post a Comment