تدوین زاھد حسین ترابی
بسم رب الشهدا و الصدیقین
اللهم صل على محمد و آل محمد و عجل فرجهم
ہمارا عقیدہ ہے کہ ملائکہ وجود رکھتے، ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو خاص امرکے لئے مقرر کیا گیاہے.
جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ بہت سے مقامات پر ملائکہ اور فرشتوں کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔
قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ملائکہ کی صفات، خصوصیات ،ان کے کام اور ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں یہاں تک کہ ملائکہ پر ایمان رکھنے کو؛ خدا، انبیاء اور آسمانی کتابوں کی صف میں قرار دیا گیا ہے، جو اس مسئلہ کی اہمیت کی دلیل ہے: < آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ>(
”رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر نازل کی گئی ہیں اور سب مومنین بھی اللہ اور ملائکہ اور مرسلین پر ایمان رکھتے ہیں“۔
بے شک فرشتوں کا وجود ”غیبی“ چیزوں میں سے ہے جن کو ان صفات اور خصوصیات کے ساتھ پہچاننے کے لئے صرف قرآن و روایات ہی کو دلیل بنایا جاسکتا ہے، اور غیب پر ایمان لانے کے حکم کی وجہ سے ان کو قبول کیا جانا چاہئے۔
لفظی معنی
ملائکہ ’’م - ل - ک‘‘ سے مشتق ہے، اس کی جمع ملائکہ اور ملائک ہے، اس کے لغوی اور لفظی معانی مالک ہونا، فرشتہ، ملکیت اور اقتدار ہیں، اس کے علاوہ اس میں تصرف، قدرت اور امر کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ لفظ ملائکہ آسمانی ارواح کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ راغب اصفہانی، المفردات : 472، 473
وجہ تسمیہ
اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے کوئی امر یا کام ان کے سپرد کیا جاتا ہے، اس وجہ سے ان کو ملائکہ کہتے ہیں۔ فرشتے اللہ تعالٰیٰ کا پیغام اس کے مقبول بندوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ وہ لطیف اور نورانی مخلوق ہیں اور عام انسان انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ بعض کم فہم لوگ فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار کرتے ہیں اور ان قرآنی آیات کی تلاوت جن میں فرشتوں کا ذکر ہے مجرد قوتوں کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ سب تصورات گمراہی پر مبنی ہیں۔ فرشتے احکام الٰہی کی تعمیل کرنے والی معزز مخلوق ہے۔ ان کے وجود اور ان سے متعلقہ تفصیلات کو ماننا ایمان بالملائکہ کہلاتا ہے۔
علمائے علم کلام بلکہ اکثر مسلمان علماء، فرشتوں کو (جسم لطیف سے) ایک جسمانی مخلوق سمجھتے ہیں، بعض عبارتوں میں فرشتوں کی تخلیق کے اصل مادّے کے عنوان سے لفظ ”نور“ آیا ہے اور اس مشہور عبارت میں جو بہت سی کتابوں میں تحریر ہے یہ جملہ دیکھنے میں آتا ہے: ”المَلَکُ جِسمٌ نوریّ․․․․“۔
علامہ مجلسی نے تو اس سلسلہ میں یہاں تک کہدیا کہ: ”شیعہ اثتاعشری بلکہ تمام مسلمان البتہ بعض فلسفی جماعتوں کے علاوہ معتقد ہیں کہ ملائکہ وجود رکھتے ہیں، ان کے جسم، لطیف اور نورانی ہیں وہ مختلف شکل وشمائل اختیار کرسکتے ہیں نیز پیغمبران الٰہی اور ان کے معصوم اوصیاء اُنھیں دیکھتے تھے. باب حقیقة الملائکة
دوسرے لفظوں میں، فرشتے نوری جسم، جنّات ناری جسم اور انسان کثیف (سخت) جسم رکھتے ہیں ۔
دوسرے قول کا تعلق بعض فلسفی حضرات سے ہے جو ملائکہ کو جسم وجسمانیات سے مجرّد و مُبرّاجانتے ہیں آور معتقد ہیں کہ ان میں ایسے صفات پائے جاتے ہیں جو جسم و جسمانیت میں نہیں سماسکتے ۔
شارح نہج البلاغہ مرحوم ”حبیب الله خوئی“ نے ”منہاج البراعة“ میں فرشتوں کے بارے میں دیگر اقوال بھی بیان کئے ہیں، جو سب مل کر چھ قول ہوتے ہیں؛ لیکن ان میں سے بعض اقوال کے ماننے والے بہت ہی کم ہیں ۔
فرشتوں کی ذمہ داریاں
ان میں سے ہر ایک کو خاص امرکے لئے مقرر کیا گیاہے، بعض کو ابلاغ و حی پرمامور کیا گیا تھا۔(
ایک گروہ کو انسانوں کے اعمال لکھنے پر مامور کیاگیاہے۔
ایک گر وہ قبض روح پر مامور ہے۔
ایک گروہ کو مومنین حقیقی کی مدد پر مامور کیا گیاہے۔
ایک گروہ کو جنگوں میں مومنین کی مدد کے لیے مامور کیا گیا ہے۔
ایک گروہ کا کام باغی اور سرکش قوموں پر عذاب نازل کرناہے ۔ اس کے علاوہ کائنات کے دوسرے امور ان کے حوالے کے کیے ہیں۔
مشہور فرشتے
یوں تو اللہ تعالٰی نے بے شمار فرشتے پیدا فرمائے ہیں لیکن درجسانچہ:ذیل فرشتے زیادہ مشہور ہیں۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام ، ان کے ذمہ پیغمبروں کی خدمت میں وحی لاناہے۔
حضرت میکائیل علیہ السلام ، پانی برسانے اور خدا کی مخلوق کو روزی پہنچانے پر مقرر ہیں۔
حضرت اسرافیل علیہ السلام ، جو قیامت کو صور پھونکیں گے۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام جنھیں روح قبض کرنے یعنی لوگوں کی جان نکالنے کی خدمت سپرد کی گئی ہے، بے شمار فرشتے ان کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔
اللہ کے فرشتوں کے نام در قران
1. جبريل؛ یہ كلمه در زبان عبري «گبريل» کے معني میں ایا ہے یعنی مرد خدا. جبرائیل ایک عظیم فرشتہ تھا اور اپ کا نام قران میں ۳ بار ایا ہے (بقره، آيه98 و99 و تحريم، آيه4) اور کچھ ایات میں اشارہ سے انکا نام لیا گیا ہے مانند: تكوير، آيه19؛ مريم، آيه17 اپ اللہ کی طرف سے پيامبر اكرم صلي الله و عليه و آله پر وحی لاتے تھے روایت ہے کہ شب معراج میں حضرت جبریل براق لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور مقام خاص تک ہمرکاب رہے تھے۔ ۔
2. ميكال؛ یہ كلمه غير عربي اور غير منصرف ہے. یہ كلمه ایک دفعہ قران میں ایا ہے (بقره، آيه99) یعنی بطور ميكائيل و ميكاييل دونوں طرح سے تلفظ ھوتا اور حضرت میکائیل علیہ السلام ایک مقرب فرشتے ہیں ان کے ذمے پانی برسانے اور خدا کی مخلوق کو روزی پہنچانے کا کام مقرر ہے
3. رَعْد؛ بعض مفسرین نے کہا یہ كلمه رعد در آيه «وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ وَهُمْ يُجادِلُونَ فِي اللهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحالِ» نام فرشته ہے انکے بارے مین قران کہتا ہے ۔ گرج اس کی حمد کی تسبیح کرتی ہے اور فرشتے اس کے خوف سے حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں اور بجلیوں کو بھیجتا ہے تو جس تک چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے اور یہ لوگ اللہ کے بارے میں کج بحثی کررہے ہیں جب کہ وہ بہت مضبوط قوت اور عظیم طاقت والا ہےانکا نام ایک دفعہ قران میں ایا ہے
4. قعيد؛.یہ كلمه عربي ہے یہ كلمه ایک دفعہ قران میں ایا ہے«إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ» انکا نام ایک دفعہ قران میں ایا ہے بعض مفسرین مراد از قعيد فرشته ہے جو لوگوں کے گناہ لکھتا ہے لیکن بعض مفسرین كلمه قعيد اس ایت میں صفت ناکہ اس کسی کا اسم بلکہ وصف برای فرشتگان جو موکل ہے براے انسانوں کے لیا اس کے بارے میں قران کچھ اسطرح کہتا ہے جب کہ دو لکھنے والے اس کی حرکتوں کو لکھ لیتے ہیں جو داہنے اور بائیں بیٹھے ہوئے ہیں
5. مالك؛ مالک ایک فرشتہ کا نام جو جھنم پر اللہ کی طرف سے نگہبان ہے اور اذن خداي متعال داخل و خارج کرتا ہے جهنميان کو جس کے بارے در سوره زخرف آيه77:«وَنادَوْا يا مالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ قالَ إِنَّكُمْ ماكِثُونَ» اس لیا قران کہتا ہے اور وہ آواز دیں گے کہ اے مالک اگر تمہارا پروردگار ہمیںموت دے دے تو بہت اچھا ہو تو جواب ملے گا کہ تم اب یہیں رہنے والے ہوانکا نام ایک دفعہ قران میں ایا ہے
6. روح؛ یہ كلمه 25 بار قرآن كريم میں ایا ہے مراد از روح کبھی فرشتۃ اور کھبی غیر فرشتہ ہے مانند: «يُنَزِّلُ الْمَلائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلى مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ» «نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الأمِينُ» «يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا» روايت از امام صادق عليه السلام نقل ھوئی ہے روح فرشته ہے اور بزرگ تر از جبرئيل و ميكائيل اور اسی طرح روایت ھوئی از ابن عباس کہ منظور از روح فرشته ہے
7. قران میں ایا کہ اللہ نے ان پر سكينه کو نازل کیا بعض نے اس مراد فرشتگان الهي لیکن یہ حرف اس طرح بلکہ معنی لغوی مراد ہے
8. هاروت یہ کلمہ ایک دفعہ قران میں ایا ہے در آيه102 سوره بقره (وَما أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ هارُوتَ وَمارُوتَ) انکے ساتھ ایک اور بھی فرشتہ تھا جسکو خداي متعال شهر بابل بھیجا تھا جو لوگوں کو تعلیم دیتے تھے
9. ماروت یہ کلمہ ایک دفعہ قران میں ایا ہے در آيه102 سوره بقره (وَما أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ هارُوتَ وَمارُوتَ) انکے ساتھ ایک اور بھی فرشتہ هارُوتَ تھا جسکو خداي متعال شهر بابل بھیجا تھا جو لوگوں کو تعلیم دیتے تھے
11-10 بعض مفسرین دو اور بھی فرشتہ کا ذکر کیا جنکے نام عتید و رقیب ہیں جنکے بارے علما کہتے ہیں انکا کام بھی لوگوں کے اعمال لکھنا ہے لیکن ایسے علما کی تعداد بہت ھی قلیل ہے مگر ہے سہی جس طرح قران مین بھی ایا ہے ما یلفظ من قول الا لدیه رقیب عتید (سوره ق / 18 )
نوٹ
.1 اسرافیل .خدا نے اسرافیل کو صور پھونکنے پر مامور کیا ہے۔ قرب قیامت کے وقت یہ خدا کے حکم سے صور پھونکیں گے تو تمام لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ دوبارہ پھونکیں گے تو مرے ہوئے لوگ زندہ ہو کر میدان حشر کی طرف دوڑیں گے۔ جہاں ان کے اعمال کا محاسبہ ہوگا۔ قرآن مجید میں نفخ صور کا ذکر ہے۔ البتہ قران مین اسرافیل کا نام کہیں نہیں آیا
۲۔حضرت عزرائیل علیہ السلام ایک مقرب فرشتے ہیں جنھیں روح قبض کرنے یعنی لوگوں کی جان نکالنے کی خدمت سپرد کی گئی ہے، بے شمار فرشتے ان کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔ ان کو فرشتہ اجل اور ملک الموت بھی کہا جاتا ہے۔اپ کا شمار چار بنبادی فرشتوں میں ھوتا ھے البتہ قران مین عزرائیل کا نام کہیں نہیں آیا.
No comments:
Post a Comment